Tuesday, 18 August 2020

قرآن کریم کی تلاوت کے آداب

قرآن کریم کی تلاوت کے آداب

قرآن کریم نور ہے، اس کے ذریعہ راہِ نجات تلاش کی جاتی ہے، اس میں شفاء ہے، اس سے روحانی وجسمانی امراض سے نجات ملتی ہے، اس کے عجائبات وغرائب کی کوئی انتہاء ہے، نہ اس کے فوائد کی کوئی حد۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے اولین وآخرین، جن وانس کو ہدایت کی راہ دکھلائی، جن لوگوں نے اس سے اعراض کیا اور اس سے لُو لگائے بغیر راہ رو بنے وہ راہ یاب نہ ہوسکے، انہیں منزل نہ ملی، اور جنہوں نے اس کتاب پر اعتماد کیا وہی راہ یاب ہوئے، جنہوں نے اس کے مطابق عمل کیا وہ دین ودنیا کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ یہ خصوصیات اس لئے بھی ہیں کہ یہ کتاب محفوظ کتاب ہے، اس کی حفاظت کے مختلف اسباب ہیں، ایک سبب تلاوت کی کثرت بھی ہے۔ قرآن کریم عام کتابوں سے ممتاز ہے، اس لئے اس کی تلاوت کے بھی کچھ ظاہری وباطنی آداب ہیں، جن کی رعایت لازم ہے، ذیل میں وہ آداب ذکر کئے جاتے ہیں۔

* تلاوت کے ظاہری آداب پہلا ادب:

پاکیزگی تلاوت کرتے وقت آدمی باوضو ہو، ادب واحترام کے ساتھ تلاوت کرے، خواہ کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر، اگر بلاوضو لیٹ کر تلاوت کی جائے تب بھی ثواب ملے گا، قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘۔ (آل عمران: ۱۹۱) ترجمہ:…’’جو لوگ کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہرحال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں‘‘۔ البتہ افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر، قبلہ رخ ہوکر باوضو ہونے کی حالت میں تلاوت کی جائے، چار زانو ہوکر بیٹھنے اور تکیہ لگانے سے اجتناب کرے۔

دوسرا ادب:

پڑھنے کی مقدار مقدار قرأت کے سلسلے میں لوگوں کی عادتیں جدا جدا ہیں، مقدار کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے بھی راہ نمائی ملتی ہے: ’’لایفقہ من قرأ القرآن فی أقل من ثلاث‘‘۔ (سنن ابی داؤد) ترجمہ:…’’جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیا اس نے سمجھا نہیں ‘‘۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے کم مدت میں ختم کرنے سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے فرمایا کہ سات دن میں ختم قرآن کیا کرو۔ (بخاری ومسلم) اس سے معلوم ہوا کہ معتدل درجہ یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک ختم ہو، اس سے زیادہ یہ ہے کہ ہفتہ میں دو ختم کئے جائیں، اس طرح تقریباً تین دن میں ایک ختم ہوگا۔ اگر تلاوت کرنے والا عالم ہو اور قرآن کریم کے معانی ومضامین میں غور وفکر کرنا اس کا مشغلہ ہو تو اس کے لئے ایک مہینے میں ایک ختم قرآن بھی کافی ہے۔

تیسرا ادب:

قرآنی سورتوں کی تقسیم جو شخص ہفتے میں ایک ختم قرآن کرے، اُسے قرآنی سورتوں کو سات منزلوں میں تقسیم کرلینا چاہئے، احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔’’حضرت عثمان ؓ جمعہ کی شب میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کرتے اور سورۂ مائدہ کے آخر تک تلاوت فرماتے، ہفتہ کی شب میں سورۂ انعام سے سورۂ ہود تک، اتوار کی شب میں سورۂ یوسف سے سورۂ مریم تک، پیر کی شب میں سورۂ طہٰ سے سورۂ قصص تک، منگل کی شب میں سورۂ عنکبوت سے سورۂ ص تک، بدھ کی شب میں سورۂ زمر سے سورۂ رحمن تک اور جمعرات کی شب (شبِ جمعہ) میں سورۂ واقعہ سے آخر تک تلاوت فرماتے‘‘۔

چوتھا ادب:

ترتیل کے ساتھ پڑھنا قرآن پاک کو اچھی طرح ترتیل کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔ قرآن کا مقصد تدبر اور تفکر ہے، ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے تدبر میں مدد ملتی ہے، چنانچہ حضرت ام سلمہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے متعلق بیان فرمایا کہ:’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک حرف کو واضح کرکے پڑھا کرتے تھے‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ:’’ پورا قرآن جلدی جلدی پڑھنے کے مقابلے میں میرے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہے کہ میں صرف سورۂ بقرہ وآل عمران کی تلاوت کروں‘‘۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ترتیل صرف تدبر کی وجہ سے مستحب نہیں ہے، بلکہ اس آدمی کے لئے بھی ترتیل مستحب ہے جو قرآن کے معانی نہ سمجھتا ہو، اس لئے کہ ٹھہر کر پڑھنے سے دل پر بھی زیادہ اثر ہوتا ہے۔

پانچواں ادب:

تلاوت کے دوران کیفیت تلاوت کرتے وقت انسان قرآن کریم کی وعید اور تہدید پر عذاب واحوالِ قیامت اور سابقہ قوموں کی ہلاکت کی آیات پر غور کرے اور اس دوران رونا بھی مستحب ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ’’فإذا قرأتموہ فابکوا فإن لم تبکوا فتباکوا‘‘۔ (ابن ماجہ، باب فی حسن الصوت بالقرآن) ترجمہ:…’’قرآن پڑھو اور روؤ، اگرنہ روسکو تو رونی صورت ہی بنادو‘‘۔ رونا نہ آئے تو انسان اپنے دل پر غم طاری کرلے اور یہ سوچے کہ قرآن نے مجھے کس چیز کا حکم دیا ہے اور کس چیز سے روکا ہے؟ اس کے بعد قرآنی اوامر ونواہی کی تعمیل میں اپنی کوتاہی پر نظر ڈالے، اس سے یقینا غم پیدا ہوگا اور غم سے ہی رونے کوتحریک ملتی ہے، رجاء وامید کی آیت گذرے تو دعا مانگے اور خوف کی آیت گذرے تو پناہ مانگے۔

چھٹا ادب:

آیات کا حق ادا کرنا دورانِ تلاوت آیات کے حقوق کی رعایت کرے، جب کسی آیتِ سجدہ سے گذرے یا کسی دوسرے سے سجدہ کی آیت سنے تو سجدہ کرے، بشرطیکہ پاکی کی حالت میں ہو، اگر زبانی تلاوت کررہا ہو اور تلاوت کرتے وقت یا سنتے وقت پاک نہ ہو تو پاک ہونے کے بعد سجدہ ادا کرلے۔

ساتواں ادب:

تلاوت کی ابتداء جب تلاوت شروع کرے تو یہ پڑھے: ’’أعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم، رب أعوذ بک من ہمزات الشیاطین وأعوذ بک رب أن یحضرون‘‘۔ اور ہر سورت کے اختتام پر یہ کہے: ’’صدق اﷲ العظیم وبلّغ رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، اللّٰہم انفعنا وبارک لنا فیہ‘‘۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ)

آٹھواں ادب:

آواز کے ساتھ تلاوت کرنا اتنی آواز کے ساتھ تلاوت کرنا آدابِ تلاوت میں شامل ہے کہ خود سن سکے، اس لئے کہ پڑھنے کے معنی یہ ہیں کہ آواز کے ذریعہ حروف ادا ہوں، اس لئے آواز ضروری ہے اور آواز کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ خود سن سکے، جہاں تک زیادہ بلند آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کا معاملہ ہے تو یہ محبوب بھی ہے اور مکروہ بھی، بعض روایات میں بلند آواز سے تلاوت کرنے کو سراہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اس کو ناپسند کیا گیا ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ آہستہ پڑھنے میں ریاکاری وتصنع کا اندیشہ نہیں ہے، جس شخص کو ریا کا اندیشہ وخوف ہو اسے آہستہ پڑھنا چاہئے، لیکن اگر اس کا خوف نہ ہو اور دوسرے کی نماز میں یا کسی دوسرے عمل میں خلل بھی نہ پڑتا ہو تو بلند آواز میں پڑھنا افضل ہے، کیونکہ اس میں عمل زیادہ ہے اور جہری قرأت دل کو بیدار کرتی ہے، اس کے افکار مجتمع کرتی ہے، نیند دور کرتی ہے، پڑھنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔

نواں ادب:

تحسین قرأت قرآن کریم کو خوبصورت آواز میں پڑھاجائے، تحسین قرأت پر پوری توجہ دی جائے ، لیکن حروف اتنے نہ کھینچے جائیں کہ الفاظ بدل جائیں اور نظم قرآنی میں خلل واقع ہو، اگر یہ شرائط ملحوظ رکھی جائیں تو تحسین قرأت سنت ہے، حدیث شریف میں ہے: ’’زینوا القرآن بأصواتکم‘‘۔ قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو‘‘۔ (سنن ابی داؤد) ایک اور حدیث میں ہے: ’’ما أذن اﷲ لشئ ما أذن للنبی أن یتغنی بالقرآن‘‘۔ ترجمہ:…’’اللہ تعالیٰ نے کسی اور چیز کا اس قدر حکم نہیں دیا ہے جتنا قرآن کے ساتھ خوش آوازی کا نبی کو حکم دیا ہے‘‘۔ (بخاری، باب من لم یتغن بالقرآن) اسی بیان پر مشتمل ایک اور روایت ہے: ’’لیس منا من لم یتغنّ بالقراٰن‘‘۔ (بخاری، فضائل القرآن) ترجمہ:…’’جو شخص خوش الحانی کے ساتھ قرآن نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

دسواں ادب:

تلاوت کے بعد دعا تلاوت سے فارغ ہوکر دعا بھی مانگنی چاہئے اور اگر اختتام تلاوت پر وہ دعا جو اکثر قرآنی نسخوں کے اخیر میں تحریر ہے:’’اللّٰہم ارحمنی بالقراٰن العظیم…‘‘ پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہے، بعض کتب میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تلاوت کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (روح البیان) 

مولانا غلام مصطفی: نقلہ: #ایس_اے_ساگر

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_18.html

-----------------------------------

قرآن کریم کی تلاوت کے آداب (دوسری اور آخری قسط)

پہلا ادب:

عظمتِ قرآن کا استحضار  کلام اللہ کی عظمت، علو شان اور اس کے مرتبہ ومنزلت کا دل وجان سے اعتراف کرے اور یہ استحضار کرے کہ نزولِ قرآن بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کا ایک عظیم نمونہ ہے کہ اس نے عرش بریں سے اپنا کلام اپنے بندوں کی رشد وہدایت کے لئے اتارا، ورنہ اس کتاب کے روحانی بوجھ اور تجلی کا عالم یہ ہے کہ اگر عالم مثال میں ظاہر ہوجائے تو سخت ترین پہاڑ بھی اسے برداشت نہ کرسکیں۔ 

دوسرا ادب:

اللہ تعالیٰ (صاحبِ کلام) کا استحضار دوسرے ادب کا تعلق صاحبِ کلام کی عظمت سے ہے۔ جب تلاوت کرنے والا تلاوت کرے تو اپنے دل میں متکلم (اللہ تعالیٰ) کی عظمت ورفعتِ شان کا استحضار ضرور کرے اور یہ یقین رکھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے، بلکہ خالق کائنات کا کلام ہے اور اس کی تلاوت کے بہت آداب وتقاضے ہیں۔ ہر دل اس کا اہل نہیں کہ قرآن کی حکمتوں اور اس کے عظیم الشان معانی کا بار گراں برداشت کرسکے، اس لئے ضروری ہے کہ آدمی کا دل پاک اور عظمت وتوقیر کے نور سے منور ہو۔ حضرت عکرمہؓ جب قرآن پاک کھولتے تو بے ہوش ہوجاتے اور فرماتے ’’ہذا کلام ربّی، ہذا کلام ربّی‘‘۔ ’’یہ میرے رب کاکلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے‘‘۔ کلام کی تعظیم دراصل متکلم کی تعظیم ہے اور متکلم کی تعظیم کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا، جب تک قاری اس کی صفات وافعال میں غور نہ کرے۔ 

تیسرا ادب: 

حضورِ قلبی تلاوت کرتے وقت انسان کا دل حاضر ہو، دیگر خیالات، سوچ وبچار میں دل مشغول نہ ہو۔ یہ ادب دراصل پہلے ادب کا نتیجہ ہے۔ اگر دل میں کلام وصاحب کلام کی عظمت ہوگی تو یہ صفت خود بخود پیدا ہوجائے گی، کیونکہ جب کلام کی عظمت ہوگی تو اُنسیت بڑھے گی اور یہ اُنسیت اُسے غافل نہ ہونے دے گی۔ 

چوتھا ادب:

غور وفکر یہ ہے کہ انسان آیاتِ قرآنیہ میں غور وفکر کرے۔ یہ حضور قلبی سے ایک الگ ادب ہے۔ بسا اوقات دل تو پوری طرح حاضر ہوتا ہے اور پڑھنے والا ہمہ تن تلاوت میں مشغول ہوتا ہے، لیکن غور نہیں کرتا، جبکہ تلاوت کا مقصد ہی تدبر ہے، اسی وجہ سے ترتیل مسنون قرار دی گئی ہے، کیونکہ ٹھہر ٹھہرکر  پڑھنے سے سوچنے کا موقع ملتا ہے او رغور وفکر میں آسانی ہوتی ہے۔ 

پانچواں ادب: 

ہرآیت کامفہوم اخذ کرنا یہ ہے کہ ہر آیت سے اس کے مطابق معنی ومفہوم اخذ کرے اور قوتِ فکر استعمال کرے۔ قرآن کریم مختلف مضامین پر مشتمل ہے: اس میں باری تعالیٰ کی صفات وافعال کا ذکر بھی ہے، انبیاء علیہم السلام کے حالات بھی ہیں اور ان اقوام سابقہ کے احوال بھی مذکور ہیں جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی اور خدائے تعالیٰ کے اوامر ونواہی بھی ہیں اور ان ثمرات ونتائج کا ذکر بھی ہے جو اوامر ونواہی کی تعمیل پر مرتب ہوںگے۔ 

چھٹا ادب: 

فہمِ قرآن سے مانع امور سے اجتناب یہ ہے کہ قاری ان تمام امور سے خالی ہو جو فہم قرآن کی راہ میں مانع ہوں۔ گناہوں کا ارتکاب، کبر وغرور، طمع ولالچ میں مبتلا ہونا، دنیا کی محبت میں گرفتار ہونا، یہ تمام امور دل کو تاریک وزنگ آلود کردیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ’’إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوْا الأَلْبَابِ‘‘ ۔ (الزمر:۹) ترجمہ:…’’وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل (سلیم) ہیں‘‘۔ جو شخص دنیاوی خواہشات ومحبت میں مبتلا ہو اور ان اشیاء کو آخرت کی نعمتوں پر ترجیح دے، وہ صاحب عقل وفہم نہیں، اسی لئے ایسا شخص فہم وتدبرِ قرآن سے محروم رہتا ہے، اس پر کتاب اللہ کے اسرار ومعانی منکشف نہیں ہوتے۔ 

ساتواں ادب: 

قرآنی خطاب کو اپنے لئے خاص سمجھنا یہ ہے کہ قرآن کریم کے ہر خطاب کو اپنے لئے خاص سمجھے۔ جب کوئی آیتِ نہی یا آیتِ امر سامنے آئے تو یہ سوچے کہ مجھے ہی حکم دیا گیا ہے اور مجھے ہی منع کیا گیا ہے۔ وعدو وعید کی آیات تلاوت کرے تو اُنہیں اپنے حق میں فرض کرے۔ انبیاء علیہم السلام کے قصے پڑھے تو یہ سمجھے کہ یہاں قصے مقصود نہیں، بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی آزمائش، صبر، نصرت اورثابت قدمی کے جو واقعات اپنی کتاب میں بیان کئے ہیں، ان سے ہماری تعلیم اور اپنے دین پر ثابت قدمی مقصود ہے۔ قرآنی خطابات کو اپنے لئے فرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک کسی ایک شخص کے لئے نازل نہیں ہوا، بلکہ تمام دنیا کے لئے شفائ، ہدایت، رحمت وپیغام خداوندی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو نعمتِ کتاب پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا: ’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اﷲِ عَلَیْکُمْ وَمَآ أُنْزِلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ‘‘۔ (البقرۃ:۲۳۱) ترجمہ:…’’اور حق تعالیٰ کی جو نعمتیں تم پر ہیں ان کو یاد کرو اور (خصوصاً) اس کتاب اور (مضامین) حکمت کو جو اللہ نے تم پر (اس حیثیت سے) نازل فرمائی ہیں کہ تم کو ان کے ذریعے نصیحت فرماتے ہیں‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلمُتَّقِیْنَ‘‘۔  (آل عمران:۱۳۸) ترجمہ:…’’یہ بیان کافی ہے تمام لوگوں کے لئے اور ہدایت اور نصیحت ہے خاص خدا سے ڈرنے والوں کے لئے‘‘۔ معلوم ہوا کہ تمام لوگ قرآن کے مخاطب ہیں، اس اعتبار سے یہ خطاب تلاوت کرنے والوں سے بھی ہے، اس لئے ہر شخص کو فرض کرنا چاہئے کہ قرآن کا مقصود میں ہوں۔ 

آٹھواں ادب: 

تأثّرِ قلبی یہ ہے کہ قرآنی آیات سے متأثر ہو۔ جس طرح کی آیت تلاوت کرے، اس طرح کا تأثر دل میں ہونا چاہئے۔ اگر آیتِ خوف ہے تو خوف طاری کرے اور آیتِ حزن ہے تو غمگین ہوجائے، آیتِ رجاء ہے تو امید کی کیفیت پیدا کرے، جب جنت کا ذکر ہو تو دل میں اس کا شوق پیدا ہونا چاہئے، دوزخ کے بیان پر دل میں خوف کی کیفیت پیدا ہونی چاہئے، چنانچہ روایات میں ہے کہ سرکار دو عالم ا نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے فرمایا: قرآن سناؤ! حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی، جب میں اس آیت پر پہنچا: ’’فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہَؤُلآئِ شَہِیْداً‘‘۔ (النسائ:۴۱) ترجمہ:…’’سو اس وقت بھی کیا حال ہوگا جبکہ ہم ہر ہر امت میں ایک ایک گواہ حاضر کریںگے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہی دینے کے لئے حاضر لائیںگے‘‘۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أمسک الآن‘‘ ،’’ اب ٹھہر جاؤ‘‘۔ (بخاری شریف) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت اس لئے پیدا ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک پوری طرح اس منظر کے مشاہدے میں مصروف تھا، بعض لوگ وعید وانذار کی آیات تلاوت کرتے وقت بے ہوش ہوجاتے تھے اور ایسے بھی گزرے ہیں جو اس طرح کی آیات سنتے ہوئے انتقال کرگئے۔ الغرض مؤمن کو تلاوت کے دوران ہر آیت کے مضمون کے مطابق اس طرح تأثر لینا چاہئے کہ اس کے ظاہر وباطن پر وہ اثر محسوس بھی ہو۔ 

نواں ادب: 

تصوّرِ متکلم (اللہ تعالیٰ) یہ ہے کہ تلاوت میں اتنی ترقی وکمال حاصل کرے کہ گویا اپنے بجائے خود متکلم سے اس کا کلام سن رہا ہے، پڑھنے کے تین درجات ہیں:  

۱… ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ یہ تصور کرے کہ میں باری تعالیٰ کے سامنے دست بستہ کھڑا تلاوت کررہا ہوں اور باری تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں ۔  

۲… دوسرا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ احساس کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہے ہیں اور اپنے لطف وکرم سے اسے مخاطب کررہے ہیں اور اپنے انعام واحسان کا ذکر فرمارہے ہیں۔  

۳… تیسرا درجہ یہ ہے کہ کلام میں متکلم کا اور کلمات میںصفات متکلم کا مشاہدہ کرے، اپنے اوپر اور اپنی قرأت پر نظر نہ رکھے، بلکہ فکر وخیال کا مرکز باری تعالیٰ کی ذات ہونی چاہئے، گویا وہ متکلم کے مشاہدے میں اس قدر مشغول ہے کہ اس کے علاوہ ہر شئے اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ 

دسواں ادب: 

خود کو ہیچ سمجھنا یہ ہے کہ طاقت وقوت سے برأت کرتا رہے اور کسی بھی لمحہ اپنے نفس کو اہمیت نہ دے، مثلاً قرآن پاک کی وہ آیات پڑھے جن میں نیک بندوں کی مدح کی گئی ہے تو یہ خیال نہ ہو کہ میں بھی ان میں شامل ہوں، بلکہ یہ سمجھے کہ یہ درجہ تو بہت بلند ہے اور اونچے لوگوں کا ہے، ان نیک بندوں میں اپنی شمولیت کی امید رکھتے ہوئے پڑھے اور جب وہ آیات پڑھے جن میں گناہ گار بندوں کا ذکر ہے اور عذاب سے ڈرایاگیا ہے تو یہ سمجھے کہ ان آیات کامیں بھی مخاطب ہوں۔ اس موقع پر خدا کے غضب سے ڈرے اور فسق وفجور، کفر وشرک میں مبتلا ہونے سے خدا کی پناہ مانگے۔ جو شخص دوران تلاوت اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں سرتاپا تقصیر ہوں تو اسے خدا کا قرب نصیب ہوگا، جب قربِ خداوندی نصیب ہوا تو تلاوت کا مقصود بھی حاصل ہوگیا۔

 مولانا غلام مصطفی: نقلہ: #ایس_اے_ساگر

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_18.html


No comments:

Post a Comment