مسئلہ خلق قرآن کے قائل کا حکم
حضرت مفتی صاحب جی ایک بات معلوم کرنی ہے. بات یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھے اس کا کیا حکم ہے؟؟؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور اس کی صفت ہے- قرآن کے الفاظ ومعانی دونوں اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں، جو چیز بھی اللہ کی صفت ہوگی وہ قدیم اور غیر مخلوق ہوگی ؛ لہذا قرآن صفت باری ہونے کی وجہ سے قدیم ہے اور غیرمخلوق ہے- صفات باری تعالیٰ عین ذات باری ہیں نہ غیر ذات باری ؛ یعنی وہ بعینہ خدا ہیں نہ ذات باری تعالیٰ سے الگ ہو کر پائی جاتی ہیں۔ جب ہم کلام باری کو پڑھتے یا لکھتے ہیں تو ہمارے منہ سے نکلنے والی آواز اور ہمارے لکھے ہوئے کلمات وحروف، سیاہی و اوراق وغیرہ (کلام لفظی) تو مخلوق ہیں؛ لیکن جو کلام ہم پڑھتے ہیں (کلام نفسی) وہ غیرمخلوق ہے۔ معتزلہ اور جہمیہ جیسے گمراہ فرقوں نے قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا تھا۔ امام مالک، سفیان بن عیینہ، ابوبکر بن عیاش، امام شافعی اور دیگر متعدد اسلاف وائمہ کرام سے منقول ہے کہ کلام اللہ کو مخلوق سمجھنا کفریہ عقیدہ ہے، علامہ ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ نے 'الصواعق المرسلة' میں اس حوالے سے اقوال ائمہ ذکر کئے ہیں. شرح عقائد میں ہے:
والقرآن کلام اللہ تعالی غیرمخلوق (العقائد النسفیة مع شرحھا للتفتازاني، ص: 46)
مذہب حنفیہ کے معروف قول کے مطابق (ایک دوسرے قول کے مطابق کافر نہیں ہے) خلق قرآن اور حدوث کلام کا قائل کافر اور اس کا معتقد مرتد ہے:
في أصول البزدوي ص 9: (قد صح عن أبي يوسف أنه قال: ناظرت أبا حنيفة في مسألة خلق القرآن ستة أشهر فاتفق رأيي ورأيه على أن من قال بخلق القرآن فهو كافر وصح هذا القول عن محمد رحمه الله) اهـ
وفي شرح البخاري على البزدوي 4/17:
(المسائل العقلية التي هي من أصول الدين فإن الحق فيها واحد بالإجماع والمخطئ فيها كافر مخلد في النار إن كان على خلاف ملة الإسلام كاليهود والنصارى والمجوس. ومُضللٌ مبتدع إن لم يكن [على خلاف الملة] كأصحاب الأهواء من أهل القبلة
وذهب عبد الله بن الحسين العنبري إلى أن كل مجتهد في المسائل الكلامية التي لا يلزم منها كفر- كمسألة خلق القرآن والإرادة وخلق الأفعال- مصيبٌ , ولم يرد به أن ما اعتقده كل مجتهد في المسائل الكلامية مطابق للحق إذ يلزم منه أن يكون القرآن مخلوقا وغير مخلوق والمعاصي داخلة تحت إرادة الله وخارجة عن إرادته , والرؤية ممكنة وغير ممكنة , وفساد ذلك معلوم بالضرورة , وإنما أراد به نفي الإثم والخروج عن عهدة التكليف ) اهـ
وفيه أيضا 1/134:
(قال الكمال رحمه الله: وفي المحيط لو صلى خلف فاسق أو مبتدع أحرز ثواب الجماعة لكن لا يحرز ثواب المصلي خلف تقي ا هـ.
يريد بالمبتدع من لم يكفر ولا بأس بتفصيله: الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض والقائل بخلق القرآن والخطابية والمشبهة وجملته إن كان من أهل قبلتنا ولم يغل حتى لم يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره ) اهـ
وفي تبيين الحقائق للزيلعي 1/134:
( قال المرغيناني: تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبه ومن يقول بخلق القرآن, حاصله: إن كان هوى لا يكفر به صاحبه يجوز مع الكراهة , وإلا فلا ) اهـ
وفي الفتاوى الهندية 2/257:
(ومن قال بخلق القرآن فهو كافر, وكذا من قال بخلق الإيمان فهو كافر ومن اعتقد أن الإيمان والكفر واحد فهو كافر ومن لا يرضى بالإيمان فهو كافر كذا في الذخيرة.) اهـ
واللہ اعلم بالصواب
https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_63.html
No comments:
Post a Comment