موت کے وقت ایسی علامات جو انسان کے اچھے یا برے ہونے پر دلالت کرتی ہیں
سوال: قرب الموت سے لیکر مرنے کے بعد تک کی وہ کون سی علامات ہیں جو میت کے نیک یا برے ہونے پر دلالت کرتی ہیں؟
الجواب وباللہ التوفق:
حسن خاتمہ يہ ہے كہ: بندے كو موت سے قبل ايسے افعال سے دور رہنے كى توفيق مل جائے جو اللہ رب العزت كو ناراض اورغضبناك كرتے ہيں، اور پچھلے كيے ہوئے گناہوں اور معاصى سے توب و استغفار كى توفيق حاصل ہوجائے، اور اس كے ساتھ ساتھ اعمال خير كرنا شروع كردے، تو پھر اس حالت كے بعد اسے موت آئے تو يہ حسن خاتمہ ہوگا. اس معنى پر دلالت كرنے والى مندرجہ ذيل صحيح حديث ہے.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
"جب اللہ تعالى اپنے بندے سے خير اور بھلائى چاہتا ہے تو اسے استعمال كرليتا ہے."
تو صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے عرض كيا: اسے كيسے استعمال كر ليتا ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"اسے موت سے قبل اعمال صالحہ كى توفيق عطا فرما ديتا ہے."
مسند احمد حديث نمبر (11625) جامع ترمذى حديث نمبر (2142) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر (1334) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب اللہ تعالى كسى بندے كےساتھ خير اور بھلائى كا ارادہ كرتا ہے تو اسے توشہ ديتا ہے."
كہا گيا كہ: اسے كيا توشہ ديتا ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى موت سے قبل اللہ تعالى اس كے ليےاعمال صالحہ آسان كر ديتا ہے، اور پھر ان اعمال صالحہ پر ہى اس كى روح قبض كرتا ہے."
مسند احمد حديث نمبر ( 17330 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1114 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور حسن خاتمہ كى كئى ايك علامات بھى ہيں، جن ميں كچھ تو مرنے والا موت كے قريب جان ليتا ہے، اور كچھ ايسى بھى ہيں جو لوگوں كے ليے بھى ظاہر ہو جاتى ہيں:
دوم:
حسن خاتمہ كى وہ علامتيں جو مرنے والے كے ليے ظاہر ہو جاتى ہيں، ان ميں سے ايك تو يہ ہے كہ اسے موت كے وقت اللہ تعالى كى رضامندى و خوشنودى كى خوشخبرى دى جاتى ہے، اور اللہ تعالى كے فضل و كرم سے وہ عزت و تكريم كا استحقاق حاصل كرتا ہے.
جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
واقعى جن لوگوں نے كہا ہمارا پروردگار اللہ ہے، اور پھر اسى پر قائم رہے ان كے پاس فرشتے ( يہ كہتے ہوئے ) آتے ہيں كہ تم كچھ بھى انديشہ اور غم نہ كرو بلكہ اس كى جنت كى بشارت سن لو جس كا تم سے وعدہ كيا جاتا رہا ہے فصلت ( 30 ).
تو يہ بشارت مومنوں كو ان كى موت كے وقت ملتى ہے. ديكھيں: تفسير ابن سعدى (1256). اور اس معنى پر مندرجہ ذيل حديث بھى دلالت كرتى ہے: ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"جو شخص اللہ تعالى سے ملاقات كرنا پسند كرتا ہے، اللہ تعالى بھى اس سے ملنا پسند كرتا، اور جو شخص اللہ تعالى سے ملنا ناپسند كرتا ہے، تو اللہ تعالى بھى اس سے ملنا ناپسند كرتا ہے."
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كيا موت كو ناپسند كرتے ہوئے، پھر تو ہم سب موت كو ناپسند كرتے ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" معاملہ ايسا نہيں، ليكن جب مومن شخص كو اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى رضامندى و خوشنودى اور اس كى جنت كى خوشخبرى ملتى ہے تو وہ اللہ تعالى كى ملاقات سے محبت كرنے لگتا ہے، اور بلا شبہ جب كافر شخص كو اللہ تعالى كے عذاب اور اس كى ناراضگى كى خبر دى جاتى ہے تو وہ اللہ تعالى كى ملاقات كو ناپسند كرنے لگتا ہے، اور اللہ تعالى بھى اس سے ملنے كو ناپسند كرتا ہے."
صحيح بخارى حديث نمبر (6507) صحيح مسلم حديث نمبر (2683)
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
(اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: وہ محبت اور كراہيت جس كا شرعى طور پر اعتبار كيا جاتا ہے وہى حالت نزع كے وقت واقع ہوتى ہے جس حالت ميں توبہ قبول نہيں ہوتى، كہ اس وقت قريب المرگ شخص كے سامنے سارى حالت ظاہر ہو جاتى ہے، اور جس كى طرف وہ جانے والا ہوتا ہے وہ اس كے سامنے ظاہر ہوچكا ہوتا ہے).
اور حسن خاتمہ كى علامات تو بہت زيادہ ہيں، علماء رحمہم اللہ تعالى نے اس بارہ ميں وارد شدہ نصوص كو سامنے ركھتے ہوئے ان كا تتبع بھىكيا ہے، ان علامات ميں سے چند درج ذيل ہيں:
1 - موت كے وقت كلمہ شھادت پڑھنا، اس كى دليل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" جس شخص كى آخرى كلام لا الہ الا اللہ ہو وہ جنت ميں داخل ہو گيا"
سنن ابو داود حديث نمبر (3116) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابوداود حديث نمبر ( 2673 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 - پيشانى كے پسينے سے موت آنا:
يعنى اس كى موت كے وقت پيشانى پر پسينے كے قطرے ہوں، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
بريدہ بن الحصيب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
"مومن كى موت پيشانى كے پسينے سے ہوتى ہے."
مسند احمد حديث نمبر (22513) جامع ترمذى حديث نمبر (980) سنن نسائى حديث نمبر ( 1828 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
3 - جمعہ كى رات يا دن ميں موت آنا:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"جو شخص بھى جمعہ كى رات يا جمعہ والے دن فوت ہوتا ہے اللہ تعالى اسے قبر كےفتنہ سے محفوظ ركھتا ہے"
مسند احمد حديث نمبر (6546) جامع ترمذى حديث نمبر (1074) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہ حديث اپنے سب طرق كے ساتھ حسن يا صحيح ہے.
4 - اللہ تعالى كى راہ ميں لڑتے ہوئے موت آنا:
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے: جو لوگ اللہ تعالى كى راہ ميں شہيد كيے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس رزق ديے جارہے ہيں، اللہ تعالى نے جو انہيں اپنا فضل دے ركھا ہے اس سے وہ بہت خوش ہيں اور خوشياں منا رہے ہيں، ان لوگوں كى بابت جو اب تك ان سے نہيں ملے، ان كے پيچھے ہيں، اس پر كہ نہ انہيں كوئى خوف ہے اور نہ غمگين ہونگے، وہ خوش ہوتے ہيں اللہ تعالى كى نعمت اور فضل سے اوراس سے بھى كہ اللہ تعالى ايمان والوں كےاجرو ثواب كو ضائع نہيں كرتا آل عمران (169 - 172).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"جو اللہ تعالى كى راہ ميں قتل كرديا گيا وہ شہيد ہے، اور جو اللہ تعالى كى راہ ميں فوت ہوا وہ شہيد ہے." صحيح مسلم حديث نمبر (1915).
5 - طاعون كى بيمارى سے موت واقع ہونى:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" طاعون ہرمسلمان كے ليے شھادت ہے."
صحيح بخارى حديث نمبر (2830) صحيح مسلم حديث نمبر (1916)
اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے طاعون كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے مجھے بتايا كہ: " يہ اللہ تعالى كا عذاب ہے جس پر چاہے اللہ تعالى مسلط كردے، اور اللہ تعالى نے اسے مومنوں كے ليے رحمت كا باعث بنايا ہے، جو كوئى بھى طاعون كى بيمارى ميں پڑ جائے اور پھر وہ صبر اور اللہ تعالى سے اجروثواب كى اميد ركھتے ہوئے اپنے علاقے ميں ہى رہے، اسے يہ علم ہو كہ اسے وہى تكليف پہنچ سكتى ہے جو اللہ تعالى نے اس كے مقدر ميں لكھ دى ہے، تو اسے شہيد جتنا اجروثواب حاصل ہوگا." صحيح بخارى حديث نمبر (3474).
6 - پيٹ كى بيمارى سے موت واقع ہونا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"اور جو پيٹ كى بيمارى سے فوت ہوا وہ شھيد ہے."
صحيح مسلم شريف حديث نمبر (1915).
7 - ڈوبنے اور منہدم شدہ كے نيچے دب كر موت واقع ہونا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"شھيد پانچ قسم كے ہيں: طاعون كى بيمارى سے فوت ہونےوالا، اور پيٹ كى بيمارى سے فوت ہونے والا، اور پانى ميں غرق ہونے والا، اور دب كر مرنے والا، اور اللہ تعالى كى راہ ميں شھيد ہونے والا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2829 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1915 )
8 - اپنے بچے كى وجہ سے عورت كا نفاس ميں يا حاملہ فوت ہونا:
اس كے دلائل درج ذيل ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"اوروہ عورت جو اپنے حمل كى بنا پر فوت ہو وہ شہيد ہے."
سنن ابوداود حديث نمبر ( 3111 )
خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كا معنى يہ ہے كہ وہ فوت ہوتو بچہ اس كے پيٹ ميں ہو. اھـ
ديكھيں عون المعبود
اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شھداء كے متعلق بتاتے ہوئے فرمايا:
"اور وہ عورت جسے اس كا بچہ حمل كى حالت ميں قتل كردے يہ بھى شھادت ہے"
مسند احمد حديث نمبر ( 17341 )
(اسے اس كا بچہ اپنے نال ( پيدائش كے بعد ناف سے كاٹا جاتا ہے) كے ساتھ جنت ميں كھينچ لے گا)
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے كتاب الجنائز صفحہ نمبر ( 39 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
9 - جلنے، اور ذات الجنب اور سل كى بيمارى سے موت آنا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"اللہ تعالى كى راہ ميں قتل ہونا شھادت ہے، اور طاعون شھادت ہے، اور غرق شھادت ہے، اور پيٹ كى بيمارى سے مرنا شھادت ہے، اور نفاس ميں مرنے والى عورت شھيد ہے، اسےاس كا بيٹا اپنے نال كے ساتھ جنت ميں كھينچےگا"
وہ كہتے ہيں كہ: بيت المقدس كے دربان نے يہ الفاظ زيادہ كيے ہيں:
"جلنے اور سل كى بيمارى سے مرنے والا"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں: حسن صحيح ہے، ديكھيں: صحيح الترغيب والترھيب حديث نمبر ( 1396 ).
10 - دين يا مال يا اپنى جان كا دفاع كرتے ہوئے مرنا:
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"جو كوئى اپنا مال بچاتا ہوا قتل ہو وہ شھيد ہے، اور جو كوئى اپنا دين بچاتا ہوا قتل ہو وہ شھيد ہے، اور جو كوئى اپنا خون اور جان بچاتے ہوئے قتل ہو وہ شھيد ہے"
جامع ترمذى حديث نمبر ( 1421 ).
اور امام بخارى و مسلم رحمہما اللہ نے عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا:
"جو اپنے مال كا دفاع كرتا ہوا قتل ہو جائے وہ شھيد ہے."
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2480) صحيح مسلم حديث نمبر ( 141 ).
اللہ تعالى كى راہ ميں پہرہ ديتے ہوئے موت آنا:
سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"ايك دن اور رات كا پہرہ ايك ماہ كے روزے اور قيام سے بہتر ہے، اور اگر وہ مرجائے تو اس عمل كا اجر جارى رہتا ہے جو كر رہا تھا، اور اس كا رزق بھى جارى رہتا ہے، اور وہ فتنے سے محفوظ رہتا ہے"
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1913 ).
12 - اور حسن خاتمہ كى يہ علامت ہے كہ:
كسى نيك اور صالح عمل كو انجام ديتے ہوئے موت واقع ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اللہ تعالى كى رضامندى اورخوشنودى كےليے لا الہ الا اللہ كہا اور اس كا خاتمہ اس پر ہوا وہ جنت ميں داخل ہوگا، اور جس نے صدقہ كيا اوراس پر اس كا خاتمہ ہوا تووہ جنت ميں داخل ہو گا"
مسند احمد حديث نمبر (22813).
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے كتاب الجنائز صفحہ (43) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ علامتيں اچھى خوشخبري ميں سے ہيں جو حسن خاتمہ پر دلالت كرتى ہيں، ليكن اسكے باوجود ہم يقينا كسى بعينہ شخص كے ليے يہ نہيں كہہ سكتے كہ وہ جنتى ہے، ليكن كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنتى ہونے كى بشارت دے دى ہے، مثلا خلفاء اربعہ اور عشرہ مبشرہ.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہےكہ وہ ہميں حسن خاتمہ نصيب فرمائے.
یہ علامات انسان کے نیک اور اللہ کے قریب ہونے کی نشانی ہیں۔ لیکن موت کے بعد ایسی کوئی قوی علامت موجود نہیں ہے جس سے بندے کے صالح اور متقی ہونے کی دلیل لی جائے ،ہاں البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک، یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں، یہ بات واضح رہے کہ اس وقت ہے جب اس شخص کو زندگی میں لوگوں کے درمیان اچھے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہو، تاہم اس بارے میں کوئی یقینی اور ٹھوس بات نہیں کی جاسکتی۔
چنانچہ اگر مرنے والا بندہ اپنی زندگی میں نیکی و تقوی میں مشہور تھا، پھر اسکی موت کے بعد اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک اٹھا تو یہ ایسی علامت ہے جس سے اچھا تاثر لیا جاسکتا ہے اور اس پر خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مرنے کے بعد لوگ اس کی تعریف کریں، اور اس کے لئے دعائیں کریں تو یہ اس کے نیک ہونے کی نشانی ہے، اسی طرح زندگی میں اچھے لوگوں کی صحبت بھی انسان کے نیک ہونے کی نشانی ہے۔
حسن خاتمہ کے بہت سے اسباب ہیں؛ جن میں: اللہ کی اطاعت پر استقامت، اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن ،سچائی ،پرہیز گاری ،توبہ ،موت کثرت سے یاد کرنا اور دنیاوی چاہتیں مختصر کرنا، آخرت کی فکر اور نیکوکار لوگوں کی صحبت، قابل ذکر ہیں۔
بری حالت اور برے انجام کی نشانی بننے والی علامات میں سے چند ایک یہ ہیں:
- بندہ اپنی موت کے وقت اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہو ، صحیح مسلم (2877)میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین دن قبل آپکو یہ فرماتے ہوئے سنا :(تم میں سے ہر ایک کا خاتمہ اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن کی ہی حالت میں ہونا چاہیے)
- اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے فوت ہو، جیسے نماز نہ پڑھنا، شراب نوشی، اور زنا کرنا؛ امام بخاری رحمہ اللہ حدیث نمبر (6607) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بے شک اعمال کا انجام خاتمے کے مطابق ہوتا ہے)
- بندے کو توبہ کی توفیق ہی نہ ملے، اور وہ اپنی سخت گمراہی و ضلالت میں بڑھتا ہی چلا جائے کسی برائی سے باز نہ آئے یہاں تک کہ اسی حالت میں مر جائے۔
- دنیا میں برے اعمال کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر پھٹکار، ترش روی اور سیاہی جیسی علامات وغیرہ برے انجام کی نشانیاں ظاہر ہو جائیں ،یا کلمہ طیبہ کے پڑھنے سے انکار کر دے اور ایسی بری اور غلط باتیں وغیرہ منہ سے نکالنے لگے جو دنیا میں اس کے معمولات میں شامل تھیں۔
- اپنی آخری عمر میں بیماری اور طاقت و استطاعت کے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر فرائض اور واجبات میں سستی کرے؛ اور اپنی سستی اور برے کردار کی وجہ سے اللہ کے فرائض کو ضائع کرنا شروع کردے۔
- قریب المرگ شخص موت کو ناپسند کرنے کے ساتھ ساتھ خوف، بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو نیز نیکی پر قائم نہ رہے اور برے اعمال کرنے لگے۔
بخاری نے حدیث نمبر (6507) میں اور مسلم نے (2683) میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات پسند کرتا ہے ،اللہ اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہ کرے اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے)
اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے سوال کیا: "ہم تو سبھی موت کو ناپسند کرتے ہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: (اس کا یہ مفہوم نہیں ہے، اس مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی رضامندی اور اس کے فضل و کرم کی بشارت دی جاتی ہے تو اس بشارت کے سامنے اس کے ہاں ہر چیز ہیچ ہو جاتی ہے، چنانچہ وہ اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اللہ اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے، اس کے برعکس کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کو ملنے والی سزاؤں کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز وہ [سزا] ہوتی ہے جس کا وہ سامنا کرنے والا ہوتا ہے؛ اسی لئے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے)
- لوگ اس کی موت کے بعد اس کی کثرت سے برائیاں بیان کریں، چنانچہ بخاری (1367) اور مسلم (949) میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہوگئی)، پھر ایک اور جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں، اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کے لئے واجب ہوگئی)، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: "کیا واجب ہو گئی؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور جس کو تم نے برے لفظوں سے یاد کیا اس کے لئے آگ واجب ہوگئی، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو)
برے انجام کے چند اسباب:
غلط عقائد، گناہوں پر مصر رہنا، کبیرہ گناہوں کا ارتکاب، دنیا کی طرف متوجہ ہونا اور اسی سے دل لگا کر رکھنا، اس کے برعکس آخرت اور اس کیلئے تیاری سے بے رغبتی ، دین پر استقامت اور دیندار لوگوں سے رو گردانی، برے لوگوں کی صحبت اور ان سے دوستی قابل ذکر اسباب ہیں۔
حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تجھ پر رحم کرے! اس بات کو اچھی طرح جان لے کہ برے خاتمہ -اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے- کے کئی اسباب، راستے اور دروازے ہیں، ان میں سب سے بڑا سبب دنیا میں مگن ہوکر، آخرت سے روگردانی اور رب کی معصیت کا رسیا ہونا ہے۔
کبھی انسان پر کسی قسم کی غلطی یا نافرمانی، یا دین سے بے رغبتی اور تہمت وغیرہ جیسے گناہ حاوی ہوجاتے ہیں اور ان کا دل پر تسلّط مضبوط ہوجاتا ہے، اور انسان کی عقل کو اپنا غلام بناکر اس کے نور کو بجھادیتا ہے اور عقل پر پردے ڈال دیتا ہے، تو ایسی صورت میں کوئی وعظ و نصیحت فائدہ نہیں دیتی اور نہ کوئی بھلی بات سود مند ثابت ہوتی ہے؛ بلکہ بسا اوقات اسی حالت میں ہی اسے موت آدبوچتی ہے ۔۔۔
یاد رکھیں: بے شک برا انجام- اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے- اس کا نہیں ہوتا جس کا ظاہر بالکل درست اور باطن پاک صاف ہو، یہ انجام تو اسی کا ہوتا ہے جس کی عقل میں فتور ہو اور کبیرہ گناہوں کا رسیا ہو، معصیت کے کاموں کی طرف گامزن رہے، بسا اوقات یہی حالت اس پر غالب رہتی ہے حتی کہ توبہ سے پہلے ہی اسے موت آدبوچتی ہے اور اسے توبہ کا موقع دیے بغیر ہی حملہ آور ہوجاتی ہے چنانچہ ضمیر کی اصلاح سے قبل ہی اس کا قصہ تمام کردیتی ہے اس طرح شیطان اس ناگہانی آفت کے وقت اس کا قلع قمع کرکے رکھ دیتا ہے اور اسے اس حیرانی و پریشانی کی حالت میں اچک لیتا ہے."
"العاقبۃ وذکرالموت" (ص/178) واللہ اعلم. (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_26.html
No comments:
Post a Comment