Tuesday, 4 August 2020

تفسیر حکیم الامت کی عصری معنویت

تفسیر حکیم الامت کی عصری معنویت
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
مولانا حکیم فخرالاسلام صاحب کا مراسلہ اور حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا اظہارِ تشکر
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
مولانا حکیم فخرالاسلام صاحب کا مراسلہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی خدمت میں:
مخدومی و مکرمِی جناب مفتی محمد تقی عثمانی زیدمجد ہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے. خدا تعالی آپ کو صحت اور عافیت سے رکھے اورآپ سے امت کو نفع زیادہ سے زیادہ پہنچائے جو ان کے لئے دنیا وآخرت کی فلاح اور آپ کے لئے خدا کے یہاں قبول ورضا کا ذریعہ بنے۔
اس تحریر کا محرک یہ امر ہوا کہ قرآن کریم سورہ یاسین آیت 36 کی جو تفسیر آں جناب نے  کی ہے میرے خیال میں اس کی جانب ایک مرتبہ نظرالتفات اور فرمالی جائے۔ اسی کی طرف توجہ دلانے کے لیے شرف مراسلت حاصل کررہا ہون۔ 
آں جناب کی تفسیر 'توضیح القرآن' میں متذکرہ بالا آیت میں 'سبحان' کا مدلول نظر انداز ہوگیا ہے۔ وہ مدلول ایک عقیدہ ہے۔ یہاں ہم اس عقیدہ کا ذکر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں کرنا چاہتے ہیں. وہ فرماتے ہیں:
"جیسے  کوئی خدا کے برابر نہیں ایسے ہی کوئی برابر کی جوڑ کا بلکہ کمتر مخالف بھی نہیں جو اس کا ہونا نہ چاہے جیسا آگ  کے حق میں پانی کہ پانی آگ کے مقابل و مخالف ہے اسے بجھا دینا چاہتا ہے.
('تقریردل پذیر' ص 112، شیخ الہند اکیڈمی) 
اب اس کے بعد یہ عرض  ہے کہ آیت کے سوق کلام سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس آیت میں مذکورہ عقیدے کا اظہار بھی  پیش نظر ہے. چنانچہ تفسیر 'بیان القرآن' کی صراحت کی رو سے یہ عقیدہ آیت کے مدلول کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی 
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا
میں جس طرح خدا کی تخلیق کی قدرت مقابل چیزوں کا پیدا کرنا، بتانا پیش نظر ہے اسی طرح اس امر کا اظہار بھی پیش نظر ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مقابل نہیں۔ خدامقابل سے پاک ہے۔ اور جس طرح 'خَلَقَ الْأَزْوَاجَ' کا مدلول مقابل چیزوں کا پیدا کرنا ہے، اسی طرح 'سُبْحَانَ' کا مدلول مقابل سے پاک ہونا ہے۔
 یہاں اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لفظ 'سُبْحَانَ' کی تفسیر دیگر طریقے سے بھی ممکن ہے، مثلا یہ کہ جب تمام مخلوقات اپنے وجود میں محتاج ہیں اور محتاج ہونا نقص اور عیب ہے تو یہ عیب مخلوقات میں تو ہے خالق میں نہیں اور خدا ہر عیب سے پاک ہے۔
لیکن اس احتمال کے باوجود عرض ہے کہ خلق الازواج کی مناسبت سے 'سُبْحَانَ' کا لانا، قرینہ مقام یہ بتاتا ہے کہ مقابل سے خدا کی پاکی بیان کرنا ہے۔ یعنی یہ بتانا  بہی مطلوب ہے کہ مخلوقات تو ایک دوسرے کے مقابل ہیں لیکن خدا مقابل سے پاک ہے۔ خدا کے برابر کی جوڑ کا کیا، بلکہ کمتر بھی مخالف کوئی نہیں۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں آیت کے مدلول کی حیثیت  سے نہ صرف اس عقیدے کا اظہار کیا ہے بلکہ لمیاتی رخ سے اس کی توجیہ بھی بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
"اسی قید سے کہ دو چیزوں میں خواہ كتنا ہی زیادہ اختلاف ہو اور تضاد، تضایف، عدم و ملکہ اور ایجاب وسلب میں سے کسی نوع کا بھی تقابل ہو لیکن یہ قید کہ بشرطیکہ مقولات عشر میں سے کسی مقولے کے تحت داخل ہو، سے "حق تعالی کا بے مقابل ہونا بھی معلوم ہوگیا۔ کیونکہ مقولات عشر میں سے کہ اجناس عالیہ ہیں کوئی مقولہ اس پر صادق نہیں آتا۔" یعنی "خدا پر صا دق نہیں آتا۔ دوسری طرف عالم کی کوئی شے مقولات عشر سے باہر نہیں." پس کسی موجود کے ساتھ کسی ذاتی میں اس کو شرکت نہیں۔ (بیان القرآن)
آیت کی تفسیر کے اس جز کی صراحت علامہ شبیر احمد عثمانی نے اپنی تفسیر میں بھی کی ہے، وہ  فرماتے ہیں. مخلوقات میں کوئی مخلوق نہیں جس کا کوئی مقابل یا مماثل نہ ہو۔ یہ صرف خدا ہی کی ذات پاک ہے جس کا نہ کوئی مقابل ہے نہ مماثل۔ (تفسیر شبیر عثمانی)
لیکن آں جناب کی تفسیر دوسرے جز کی توضیح وتفصیل میں محصور ہوگئی ہے اور پہلے جز کے متعین مدلول کا اظہار نظرانداز ہوگیا ہے۔
والسلام  فخرالاسلام مظاہری
نوٹ: واوین کے مابینی عبارت۔ راقم الحروف کی جانب سے توضیحی الفاظ ہیں۔
--------------------------------------------------------------
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کا مولانا حکیم فخرالاسلام صاحب کو جواب 
حضرت مولانا حكيم فخرالاسلام صاحب زيد مجدكم 
السلام عليكم ورحمة الله تعالى وبركاته 
آن جناب کی تحریر نظر نواز ہوئی جزاکمُ اللہ تعالی خیرالجزاء. آپ کے توجہ فرمانے پر تہ دل سے ممنون ہوں البتہ براہ عنایت مزید یہ رہنمائی بھی فرمادیں کہ ترجمہ کیا ہونا چاہئے جس سے مذکورہ پہلو کی رعایت ہوجائے.
احسن اللہ تعالی الیکم 
بندہ محمد تقی عثمانی عفّی عنہ
------------------------------------------------
مولانا حکیم فخرالاسلام صاحب کا مراسلہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی خدمت میں:
مخدو می ومكرمی حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب متعنا اللہ تعالی بطول بقاءکم وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔
راقم الحروف نے جو کچھ عرض کیا تھا وہ تفسیر ی حواشی کے متعلق تھا کہ آیت کریمہ کی تفسیر کا ایک پہلو تو خاصا مفصل مذکور ہوا، دوسرا پہلو بالکل التفات حاصل نہ کرسکا۔ اس لیے ترجمہ کے بارے میں تو کچھ خدشہ نہیں ہے؛ البتہ چوں کہ التفات کا محل تفسیری حاشیہ تھا۔ اس لئے حسب الحکم حاشیہ نمبر ۱۳ کے متعلق عرض ہے کہ:
 شروع میں اس قسم کی عبا رت بڑھا دینا مناسب ہے:
"یہاں دو باتیں ہیں۔
۱: خدا تعالیٰ کی ذات پاک ہے یعنی جیسے کوئی خدا کے برابر نہیں، ایسے ہی کوئی مقابل؛ بلکہ کمتر مخالف بھی نہیں۔
۲: "اب 'توضیح القرآن' کی آگے آنے والی یہ عبارت مسلسل ہوجائے گی:
"قرآن کریم نے کئی جگہ.. الخ"
والسلام فخرالاسلام۔
--------
حضرت مولانا حكيم فخرالاسلام صاحب زيد مجدكم السلام عليكم ورحمة الله تعالى وبركاته آن جناب کی تحریر نظر نواز ہوئی جزاکمُ اللہ تعالی خیرالجزاء آپ کے توجہ فرمانے پر تہ دل سے ممنون ہوں البتہ براہ عنایت مزید یہ رہنمائی بھی فرمادیں کہ ترجمہ کیا ہونا چاہئے جس سے مذکورہ پہلو کی رعایت ہوجائے احسن اللہ تعالی الیکم بندہ محمد تقی عثمانی عفّی عنہ
---------
عام تفاسیر کا تجزیہ:
حکیم صاحب کی یہ تحریر مفتی صاحب کو بھیجی نہیں گئی ہے لیکن موقع کی مناسبت سے اسے شامل کیا جارہا ہے:
السلام علیکم!
"الازواج کلہا" کے تناظر میں "سبحان الذی" کی جو تفسیر، نیز "ازواج" کے جو معنی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اختیار کئے ہیں، دورِحاضر کے غالب فلسفہ (فلسفہ ہیگل) اور اس کے متبعین کے افکار پر نظر رکھنے والے اس تفسیر کی اہمیت  کو محسوس کریں گے۔ کیوں کہ ایک طرف تو اس فلسفہ ہیگل نے فاسد عقلی دلیل اور الٹی منطق کے سہارے عصر حاضر میں خدا کا مقابل  پیش کرکے دنیا کی عقل پر ایسا تسلط جمایا کہ خود مسلمان اہل علم اس کے فلسفے کا استحسان کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے اور مفروضوں پر مبنی اصولوں میں اس کی موافقت  کرتے ھوئےاور عقل و علم میں تدریجی ارتقاء کے حوالے سے اس کے طریقہ کا ر کا استحسان ذکر کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ جب کہ بہ کثرت مفكرین بلا نام لئے ہو ئے اپنی تحریروں میں اسی کا تتبع کرتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کے نام لئے جائیں، توآ پ حیران رہ جائیں گے کہ باین شہرت فہم و ذکا اور یہ مغالطے!۔ دوسری طرف ان کا یہ تتبع  خدا تعالی کے مقابل پیش کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے، اس کا انہیں ادراک کیا ہوتا، احساس بھی نہیں۔ لیکن جب یہ معلوم ہوجائے کہ کسی فطری تدریجی ارتقائی طریقے سے بھی یہ ممکن نہیں کہ خدا کا کوئی مقابل یا کمتر مخالف بھی ہوسکے، تو خود کائناتی مظاہر کے علی الرغم بھی مذکورہ فلسفہ بیخ و بن سے اکھڑ جاتا ہے۔ کیونکہ کائنات کی تمام چیزیں مقولات عشر اور اجناس عالیہ  کے تحت آتی ہیں اور خدا تعالی مقولا ت عشر اور اجناس عالیہ کے تحت نہیں آتا۔ جب ایسی بات ہے، تو مقابلہ کا سوال ہی ختم ہوجاتا ہے اور عقل کی رو سے یہ عقیدہ کہ خدا اس بات سے پاک ہے کہ کوئی اس کے مقابل یا ادنیٰ درجے کا بھی مخالف  ہوسکے، بے غبار ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ استدلال سرپھروں پر بھی حجت تمام کرنے کے لئے قطعی برہان بن جاتا ہے۔
 یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور الامام محمد قاسم نانوتوی (رحمہم اللہ) نے عقلی بنیاد پر دفاع اسلام کی جو کاوشیں کی ہیں، ان میں ہر دو حضرات کے ہاں اصول موضوعہ کے درجے میں یہ امر پیش نظر رہا ہے کہ: دلیل دعوے ایسا چا ہئے جس میں مخالف دعوی کا احتمال نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی تمام اکتشافات سامنے ہونے کے باوجود مذکورہ دونوں حضرات سائنسی تطبیق و تائید کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔
یہ، متذکرہ آیت کے متعلق سائنسی اکتشافا ت وتفصیلات بتانے سے ہی، خیال پیدا ہوا کہ پھر پہلے جز کی تفسیر کے ضمن میں نزاہت باری کی وہ با ت کیوں نہ بیان ہوئی کہ جس سے سائنسی تائید کے ساتھ سائنس دانوں کے  عقیدے کی مذ مت بھی سامنے آجائے۔ 
جہاں تک گزشتہ تفسیروں کی بات ہے، تو وہاں یہ سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ پہلے کے مفسروں نے گفتگو مختصر رکھی، سائنسی تائید کی طرف اقدام نہیں کیا، مجمل و مطلق رہنے دیا۔ تفسیر جلالین میں بھی اور دیگر اہل حق کی اردو تفسیروں میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ اور اس سے ان پر حاشاوکلا یہ الزام نہیں آتا کہ انہوں نے وہ تفسیر کیوں نہ بیان کی جو حکیم الا مت نے بیان کی ہے۔ لکن موجودہ مفسروں سے  شکایت جو کچھ  پیدا ہوئی وہ اکتشافات سائنس سے تطبیق کے باعث پیدا ہوئی۔اہل زيغ کا ذکر نہیں، جہاں تک اہل حق کی بات ہے، تو تفسیر میں سائنسی معلومات کو شامل کرنے کا رجحان علامہ شبیر احمد عثمانی سے شرو ع ہوا ہے۔ لیکن ان کے یہاں یہ خوبی ہے کہ وہ حتی المقدور مدلول نص بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ لہذا اگر اس موقع پر ان کے طریقہ کار سے تجاوز نہ ہوتا تو اچھا تھا۔
والسلام فخرالاسلام (مراسلت ختم)






No comments:

Post a Comment