Saturday, 29 August 2020

انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات: امام امام ابن قیم ؒ کی کتاب سے خلاصہ

انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات: امام امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے خلاصہ

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو مطیع اور فرمانبردار بندے کو عزت دینے والا جبکہ باغی اور سرکش کو ذلیل کر نے والا ہے۔ تقوی یقینا ہر نعمت کی بنیاد اور معصیت ہر آفت وبلا کا سبب ہے۔ انسان پر آنے والی ہر مصیبت اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جو وہ اللہ کے حق میں کوتاہی کرتا ہے، اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور محرمات میں گھس جاتا ہے۔ جس طرح نفس ترغیب کا محتاج ہے اسی طرح ترہیب کا بھی محتاج ہے۔ امام ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب ’’الداء والدواء‘‘ میں ’’انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات‘‘ تفصیلا بیان کئے ہیں۔ جن کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو گناہوں سے محفوظ فرمائے۔آمینگناہوں کے نقصانات

۱۔ علم سے محرومی: کیونکہ علم ایک روشنی ہے جس کو اللہ انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے جبکہ گناہ اس روشنی کو بجھادیتا ہے۔

۲۔ رزق سے محرومی:جیسا کہ مرفوع حدیث میں وارد ہے: ((ان العبد لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ)) [مسندأحمد]

’’بندہ اپنے کردہ گناہوں کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔

۳۔۔ وحشت کا احساس:وہ خوف خدا جو گناہ گار آدمی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، جس سے دراصل اس کی تمام لذتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

۴۔ خوف کا احساس:وہ خوف جو گناہ گار شخص لوگوں سے محسوس کرتا ہے’’خصوصا نیک لوگوں سے‘‘ جب یہ خوف قوی ہوجاتا ہے تو مذکور شخص ان نیک لوگوں سے، اور ان کی مجالس سے دور بھاگتا ہے اور ان سے نفع اٹھانے کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور شیطانی گروہ کے اتنا ہی قریب ہوجاتا ہے جتنا کہ رحمانی گروہ سے دور ہوتا ہے۔

۵۔ معاملات میں تنگی: گناہ گار شخص اپنے سامنے معاملات کی تنگی اور خیر کے ہر دروازے کو بند محسوس کرتا ہے، جیسا کہ متقی اور پرہیزگار شخص کے لئے اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات کو آسان کر دیتا ہے۔

۶۔ اندھیرے کا احساس: گناہ گار شخص حقیقتا اپنے دل میں اندھیرا محسوس کرتا ہے۔ حتی کہ وہ رات کو اکیلے چلنے والے اندھے کی مانند گمراہی اور ہلاکتوں میں جا پڑتا ہے لیکن اس کو احساس تک نہیں ہوتا۔

۷۔ دل وبدن کی کمزوری: گناہ انسان کے دل اوربدن کو کمزور کر دیتا ہے۔ دل اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ اس کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جبکہ بدن کی کمزوری دراصل دل کی کمزوری ہے کیونکہ مومن کی ساری قوت اس کے دل میں ہوتی ہے۔ فاجر شخص اگرچہ دیکھنے میں مضبوط ہو مگر ضرورت کے وقت وہ کمزور ہی ثابت ہو گا۔

۸۔ اطاعت سے محرومی: گناہ انسان کو اطاعت اور فرمانبرداری سے روکتا ہے جس سے انسان مزید گناہوں میں پڑ جاتا ہے۔

۹۔ عمر میں کمی: گناہوں سے عمر کم ہوجاتی ہے اور عمر کی برکت ختم ہوجاتی ہے جبکہ نیکی کرنے سے عمر میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔

۱۰۔ گناہ کی طرف رجحان:کیونکہ گناہ سے گناہ ہی نکلتا اور پیدا ہوتا ہے۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔

۱۱۔ ارادہ معصیت کی مضبوطی: گناہ کرنے کا سب سے خطرناک نقصان یہ ہے کہ گناہ کرنے کا ارادہ مضبوط ہوجاتا ہے اور توبہ کرنے کا ارادہ کمزور پڑجاتا ہے۔ حتی کہ آہستہ آہستہ انسان کے دل سے توبہ کرنے کا ارادہ کلیۃً ہی ختم ہوجاتا ہے۔

۱۲۔ گناہ کی قباحت کا دل سے محو ہوجانا: جب انسان کثرت سے گناہ کرتا ہے تو اس کے دل سے گناہ کی قباحت ختم ہوجاتی ہے اور گناہ کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔ حتی کہ لوگوں کے دیکھ لینے یا برا بھلا کہنے کو بھی قبیح نہیں جانتا۔ بلکہ اگر اس نے گناہ کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو یہ بد بخت خود لوگوں میں اپنے گناہ کی تشہیر کرتا پھرتا ہے اور اس پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو معاف نہیں کیا جائے گا اور ان پر توبہ کا دروازہ بند ہے ۔جیسا کہ حدیث میں موجود ہے: ((کل أمتی معافی الا المجاھرین))

’’اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے والوں کے علاوہ میری امت کے سارے لوگوں کو معاف کردیا جائیگا ۔‘‘

۱۳۔ مجرموں کی وراثت:گناہ مجرموں کی وراثت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک وبرباد کر دیا۔ مثلا لواطت قوم لوط کی وراثت اور زمین میں تکبر کرتے ہوئے فساد برپا کرنا قوم فرعون کی وراثت ہے،علی ہذا القیاس گناہگار شخص ان مجرموں کا لباس پہن کر وہی گناہ کرتا ہے جو ان لوگوں نے کیا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من تشبہ بقوم فھو منھم)) ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے.‘‘ 

۱۴۔ ذلت ورسوائی کا سبب:گناہ کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلت ورسوائی اور آنکھوں سے گرجانے کا سبب ہے۔اور جو شخص اللہ کے سامنے ذلیل ہوجائے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ہے۔ اگرچہ ظاہرا لوگ اس سے ڈرتے ہوئے یا لالچ میں اس کی عزت کرتے ہی ہوں۔لیکن انہی لوگوں کے دلوں میں وہ حقیر ترین شخص ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((وَمَنْ یُھِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ)) [الحج:۱۸]’٠

"جسے رب ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔"

۱۵۔ گناہ کی حقارت:گناہ پر مداومت اور ہمیشگی کرنے سے انسان کے دل میں گناہ کرنا حقیر بن جاتا ہے۔اور یہی ہلاکت کی علامت ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: ((ان المؤمن یری ذنوبہ کأنہ فی أصل الجبال یخاف أن یقع علیہ ،وان الفاجر یری ذنوبہ کذباب وقع علی أنفہ فقال بہ ھکذا فطار))

’’مومن آدمی گناہ کو پہاڑ کی مانند تصور کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ پہاڑ اس پر نہ گرجائے، جبکہ فاسق وفاجرشخص گناہ کو مکھی کی مانند خیال کرتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو اڑا دیا۔‘‘

۱۶۔ نحوست: انسان اور جانور گناہ گار شخص کو نحوست کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔امام مجاہد ؒ فرماتے ہیں!جب قحط سالی پڑتی ہے اور بارش رک جاتی ہے تو چوپائے گناہگار اور نافرمان بنی آدم پر لعنت کرتی ہوئے کہتے ہیں: ((ھذا بشؤم معصیۃ ابن آدم)) یہ ابن آدم کی نافرمانی کی نحوست ہے۔

۱۷۔ عزت وآبرو کا خاتمہ: گناہ انسان کو ذلت ورسوائی سے دوچار کر دیتا ہے اور عزت وآبرو کو برباد کر دیتا ہے کیونکہ ساری کی ساری عزت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں مضمر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ((مَنْ کَانَ یُرِیْدُالْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعاً)) [فاطر:۱۰]

’’جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے۔‘‘

۱۸۔ عقل میں فتور:عقل اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نور اور روشنی ہے ،جبکہ گناہ اس نور اور روشنی کو بجھا دیتا ہے۔ جب یہ نو راور روشنی ہی بجھ جائے تو عقل وشعور میں فتور واقع ہوجاتا ہے۔ اور انسان آداب انسانیت بھول جاتا ہے۔

۱۹۔ غفلت کا سبب :کثرت سے گناہ کرنے کی وجہ سے انسان کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے اور اس کو غافلین میں سے لکھ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان

((کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ)) [المطففین: ۱۴]

’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔‘‘

سے گناہ کے بعد پے در پے گناہ مراد لیا ہے۔

۲۰۔ لعنت کا سبب:جیسا کہ أحادیث میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف گناہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی ۔مثلا آپ نے فرمایا کہ چور، سود خور، تصاویر بنانے والے اور قوم لوط کا فعل کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے۔ وغیرہ

۲۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کی دعاؤں سے محرومی: کیونکہ اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ مومن مرد اور مومن عورتوں کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ اور فرشتوں کے بارے میں فرمایا: ((الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔۔۔۔)) [المومن:۷]

’’عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں،کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچالے۔‘‘

۲۲۔ فساد فی الارض کا سبب:گناہ زمین میں فساد کا سبب ہے کیونکہ گناہوں کے سبب ہی زمین پر پانی، اناج اور پھلوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ)) [الروم:۴۱]

’’خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا۔اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔‘‘

۲۳۔ خسف ومسخ کا سبب:گناہوں کے سبب ہی زمین پر زلزلہ آتا ہے یا زمین دھنس جاتی ہے یا زمین کی برکات ختم ہوجاتی ہیں۔

۲۴۔ غیرت کا فقدان: گناہ گار شخص کے دل سے غیرت ختم ہو جاتی ہے اور وہ بے غیرت ہوجاتا ہے۔ حتی کہ وہ گناہ کرنے کو بھی قبیح نہیں سمجھتا خواہ وہ خود گناہ کررہا ہو یا اس کے اہل عیال گناہ کر رہے ہوں۔

۲۵۔ شرم وحیا کا خاتمہ:گناہ کرنے سے انسان کے دل میں موجود شرم و حیا ختم ہوجاتا ہے۔ جو کہ دل کی حقیقی زندگی اور ہر خیر کی بنیاد ہے۔ جب حیا ہی نہ رہے تو خیر بھی باقی نہیں رہتی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے! ’’جب تو حیا نہیں کرتا تو جو مرضی کر!‘‘

۲۶۔ اللہ کی تعظیم میں کمی: گناہ گار شخص کے دل میں اللہ کی تعظیم کمزور پڑجاتی ہے۔ کیونکہ اگر اس کے دل میں اللہ کی عظمت ہوتی تو وہ یہ گناہ کبھی نہ کرتااور اس کے اندر گناہ کی جرأت کبھی پیدانہ ہوتی۔ ۲۷۔ اللہ کی رحمت سے محرومی:اللہ رب العزت نافرمان اور باغی شخص کو بھلادیتے ہیں اور اس کو اس کی حالت پر تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کس وادی میں جاکر ہلاک وبرباد ہو جائے۔

۲۸۔ نیکی سے بغاوت: گناہگا ر اور نافرمان شخص کو نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی اور وہ اپنے گناہوں میں ہی لتھڑا رہتا ہے۔

۲۹۔ خیر سے محرومی: گناہ گا رشخص ان بھلائیوں سے محروم جا تاہے جو اہل ایمان وتقوی کو اللہ تعالیٰ عنایت فرماتے ہیں: جس میں أجر عظیم کا ملنا ((وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً)) [النسائ:۱۴۶]

’’اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘

دنیا وآخرت میں شر کا دور ہوجانا ((اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا)) [الحج:۳۸]

’’سن رکھو! یقینا سچے مومنوں کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ خود ہی ہٹا دیتا ہے۔‘‘

اور درجات کی بلندی شامل ہے. ((یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)) [المجادلۃ:۱۱]

’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جوعلم دئیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا۔‘‘

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_29.html



No comments:

Post a Comment