زکوٰۃ: مستحقین تک یا زکوٰۃ مافیا تک؟
بقلم محمد أبو طالب رحمانی
زکوٰۃ کی رقم کا اصل حق دار وہی مستحقین ہیں جن کے لیے شریعت نے اس کا تعین کیا ہے، نہ کہ وہ کمیشن خور جو اسے کاروبار بنا کر اپنے جیب بھر رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج تقریباً 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ زکوٰۃ کی رقم ایسے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو اس کے حقدار نہیں۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو کل 100 فیصد بھی کوئی ہڑپ کر لے، تو کیا ہم خاموش رہیں گے؟
ہم عوام کو زکوٰۃ کی فضیلت اور اس کی برکتیں بتا کر زکوٰۃ وصول تو کرتے ہیں، لیکن کیوں نہ اہلِ خیر کو دینی تعلیم کے عمومی اخراجات کے لیے عطیات دینے کی طرف متوجہ کریں؟
رمضان المبارک میں چندہ مہم کے سبب بہت سے سفرا روزے، نماز اور تراویح جیسی عبادات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر غور و فکر اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ میرے کہنے میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اصل مسئلہ پسِ پردہ نہیں جانا چاہیے۔
مدارس کے نام پر جعلی چندے، غیر مستحق افراد کو زکوٰۃ کی رقم دینا، اور ایسے فضلاء کا وجود جو اپنی سند کی عبارت بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے—یہ سب ہمارے تعلیمی نظام کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
پھر وہ مدارس بھی ہیں جہاں عوامی چندے سے زمین خریدی جاتی ہے، لیکن وہ کسی کی بیوی یا بیٹوں کے نام پر رجسٹر ہو جاتی ہے۔ ایسے معاملات کی اصلاح اور تطہیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔
رہی بات حکومت کی نظر کی، تو اس سے مطمئن رہیں۔ ہمارے مدارس کے کئی فارغین آج ان تنظیموں میں ملازمت کر رہے ہیں جو فتنہ انگیزی میں مصروف ہیں۔ ہمیں حکومت کی نہیں، بلکہ اللہ کی نظر کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ اصل احتساب وہیں ہونا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو شفاف بنایا جائے، تاکہ وہ مستحقین تک پہنچے، نہ کہ زکوٰۃ مافیا تک۔
۔۔۔۔۔۔
بیس لاکھ کروڑ زکوٰۃ؟ تحقیق وتجزیہ
بقلم: محمد توصیف قاسمی
حضرت مولانا ابوطالب رحمانی صاحب مدظلہ ملک کے جانے مانے مقرر ین میں سے ہیں، سلاست بیانی اور طلاقت لسانی کی مثال ہیں، آپ کے اصلاحی و فکری بیانات سوشل میڈیا کے ذریعہ دور دراز پہنچ کر مفید عام و خاص ہوتے ہیں، اللہ کرے یہ سلسلہ دراز تر ہو، نفع عام سے عام ہو۔ آمین
آپ کا ایک ویڈیو کلپ ایک دوست نے ارسال کرکے اس پر اظہار رائے کا اصرار کیا، بندہ کی علمی و عملی بساط ہی کیا، مگر طالب علمانہ ذوق کے سبب اپنی بات رکھنے میں کوئی تردد نہیں کرتے، غلط ہوا تو اصلاح کردی جائے گی۔
پورا بیان نہیں مل سکا، لیکن اس کلپ میں انھوں نے جو بات کہی ہے وہ اپنی جگہ مکمل ہے، اس لئے اس پر چند معروضات پیش ہیں، ویڈیو میں مولانا ایک حساب کرتے نظر آرہے ہیں:
ایک لاکھ کو ایک کروڑ میں ضرب دیا جائے تو حاصل ضرب بیس لاکھ کروڑ نہیں آئے گا، بلکہ ایک لاکھ کروڑ اآئے گا، اور اسے اردو میں اس طرح لکھا جائے گا:
10,00,00,00,00,000
اردو میں اسے دس کھرب کہا جائے گا۔
اسی رقم کو میٹرک اشاریے میں اس طرح لکھا جائے گا:
1,000,000,000,000
یعنی ایک ٹرلین روپے، دونوں جگہ صفر 12 ہی ہیں، بس قومہ لکھنے کا فرق ہے،
ایک ٹرلین، دس کھرب یا ایک لاکھ کروڑ یہ تینوں اعداد و رقوم برابر ہی ہیں، الگ الگ عرف و زبان اور صنعت میں ادائیگی مختلف ہے۔
ایک لاکھ کو ایک کروڑ میں ضرب دے کر کسی بھی طرح بیس لاکھ کروڑ نہیں بنتے ہیں۔
یہ حساب اگر طلبہ وعلماء محض کے درمیان ہورہا ہوتا تو بڑی بات نہ تھی، نحن امۃ امیۃ کی اتباع میں مدارس اسلامیہ میں حساب کا کوئی شعبہ نہیں (پھر خدا جانے ماضی میں ماہرین حساب کیونکر ہوگئے؟)
بلکہ ایک ایسے مجمع میں یہ گفتگو ہورہی ہے اہل مدارس اور عصری علوم کے ماہرین میں مشترک ہے، اور ڈائس پر تو زیادہ تر وہی نظر آرہے ہیں، حیرت ہے کہ کسی نے اس طرف توجہ نہ کی،اور نہ ہی بعد میں اسے سنجیدگی سے لیا۔
یہ حساب ہم نے اتفاقاً کرلیا، اتنی بھاری بھرکم رقم پر اطمینان نہیں ہورہا تھا، حساب تو ہم نے اپنی مشق کے لئے کرلیا، جس میں یہ بات سامنے آگئی کہ ایک لاکھ ضرب ایک کروڑ بیس لاکھ کروڑ نہیں ہوتے، بلکہ صرف ایک لاکھ کروڑ ہی ہوتے ہیں۔
واضح ہوکہ ایک لاکھ کروڑ ایک ٹرلین برابر ہوتے ہیں۔
ایک لاکھ کروڑ میں عدد کے علاوہ بارہ صفر ہوں گے۔
بیس لاکھ کروڑ میں عدد (2) کے علاوہ تیرہ صفر ہوں گے۔
اس ویڈیو کلپ میں ہمارے لئے دراصل قابل اشکال یہ چند باتیں لگیں:
1: کیا مسلمانوں کے اس مالی نظام و حساب کا ایسی عمومی محفلوں میں بیان کرنا قرین مصلحت ہے یا نہیں؟
ہمارے ناقص خیال میں تو ہرگز نہیں، اگر کوئی مالدار کسی مدرسہ کی دو ہزار سے زائد کی رسید بنادے تو اس کے لئے مصیبت کا ٹکٹ بن سکتا ہے، ایسی صورت حال میں ببانگ دہل یہ کہنا کہ اتنے کروڑ یا اتنے لاکھ کروڑ کا مدارس کو ٹرن اوور ہے، نہایت خطرناک بات ہے۔
مانا کہ یہ نہایت پرسنل مسئلہ ہے، لیکن موجودہ حکومت کے ٹارگٹ سے مسلمانوں کا کو نسا پرسنل مسئلہ بچا ہے؟ ایسے بیانات کا حکومت اور فرقہ پرستوں کی نظر سے چوک جانے کا اطمینان کس بھروسہ پر ہوسکتا ہے، ملت اسلامیہ ایسے ہی ہر سمت و پہلو سے، ہر محاذ پر تمام تر پینتروں سے گھات پر ہے، ایک جگہ بچانہیں پاتے کہ دوسری اور تیسری جگہ زخم کاری لگایا جارہا ہے، تو ایسے دعوے کرکے انھیں دعوت دینے کا فائدہ کچھ نظر نہیں آتا۔
2: افسوس یہ ہے کہ یہ بات ایک عالم دین اور پرسنل لا بورڈ کے ذمہ دار کی زبان سے نکلی ہے، کسی اور نے کہی ہوتی تو قابل التفات نہ ہوتی۔
ہندوستان کے چند مثالی اداروں کے علاوہ سارے کے سارے مدارس مسلمانوں کے صدقات و زکوٰۃ پر منحصر ہیں، غیر واجبی اموال کا حصۃ مدارس کی آمدنی میں چند دو چار فیصد سے زیادہ کا نہ ہوگا۔
گویا یہ کہ مسلمانوں کے مالی ترقی میں مانع یا باعث تنزلی یہ مدارس ہیں، اگر یہ نہ ہوتی تو قوم مسلم مالدار ہوتی۔
یقیناً مولانا اس مفہوم مخالف کے قائل نہیں، مگر لبرل اور دین بیزار طبقہ تو یہی کہتا آیا ہے، ایسے ہی دعووں سے وہ اپنے آپ کو ، دوسرے مسلمانوں کو، اور منافق خصلت تو غیروں تک کو علماء و مدارس سے متنفر کرنے کے لئے کہتے ہیں۔
3: مولانا مدظلہ فرماتے ہیں کہ 20 کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں ایک کروڑ تو زکوٰۃ نکالنے والے ہوں گے۔
یہ صرف تخمینہ ہی ہے، اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک کروڑ اصحاب نصاب زکوٰۃ مستحقین کو ادا کرتے ہیں؟
بڑے اطمینان و اعتماد سے ہم کہہ سکتے ہیں نہیں، ہرگز نہیں۔
ایمانداری کی بات ہی ہے کہ "اصل بے ایمانی" ان ایک کروڑ مالداروں کے زکوٰۃ نکالنے میں ہے، مالداروں کا اوپرکا ایک طبقہ تو بالکل خرچ کرنے والا نہیں، ایک طبقہ صرف سرسری حساب کرکے جان چھڑا لیتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ہر سال مالی ترقی کرتے ہیں، لیکن مال خرچ کرنے کا شئیر ہر سال گھٹا دیتے ہیں۔
اور اس میں اوسط درجہ کا جو مالدار طبقہ ہے، اسی میں کی اچھی خاصی تعدادپابندی سے زکوٰۃ نکالتی ہے، بلکہ اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے کی نیت رکھتی ہے، جس سے دینی امور انجام پاتے ہیں۔
نیز ایمانداری کی بات یہ بھی ہے کہ یہ اصحاب نصاب مالدار لوگ اگر ایمانداری سے اپنی صحیح زکوٰۃ نکال ادا کرنے لگ جائیں توزکوٰہ اتنی نکلے کہ وصولنے والوں کی بے ایمانی بھی عامۃ المسلمین کی مالداری اور ترقی میں مانع نہیں بن سکتی ہے۔
خدانخواستہ، حاشا و کلا ،وصولنے والے طبقے کی بے ایمانی کو چھوٹ دینا مقصد نہیں، اگر یہ بے ایمانی نہ ہوتو تو مدارس کا نظام مالیات و خدمات جتنا موجود ہے، اس سے کئی گنا زیادہ مضبوط، عمدہ اور مفید خلائق ہوجائے۔
4: زکوٰۃ ایک لاکھ کروڑ یا بیس لاکھ کروڑ؟
اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی زکوٰۃ بقول مولانا رحمانی کے ایک لاکھ کروڑ ہے یا بیس لاکھ کروڑ؟
اس کی تحقیق و تفتیش کے لئے ہم نے سال جاری کا بجٹ دیکھا، جس میں امسال 2025 میں 28 لاکھ کروڑ کی صرف ٹیکس آمدنی متوقع ہے، جبکہ گزشتہ سال یہ آمدنی 23 لاکھ کروڑ کی ہوئی تھی، جس کا صرف نصف سال کی آمدنی کے بارے میں حکومت کا کہنا کہ وہ آمدنی اس سے گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اسی طرح ورلڈ بینک کے سروے اور اعداد کے مطابق بھارتی ' فی کس آمدنی" (Per Catipa Income , PCI یا Net National Income, NNI) 2800 ڈالرس سالانہ ہے، جسے ماہرین نے سال 2023 کے لحاظ سے 170000، ایک لاکھ ستر ہزار بیان کیا ہے، یعنی سالانہ اوسطاًایک ہندوستانی اتنے ہی پیسہ کماپاتا ہے۔
- یہی آمدنی اگر امبانی اڈانی جیسے بلینئرس کو ہٹا کر دیکھی جائے تو یہ آمدنی فی کس 2700 ڈالرس ہوجاتی ہے۔
- پھر آگے بڑھ کر اگر اعداد سے ملک کے پانچ فیصد مالداروں کو نکال دیا جائے(ظاہر ہے کہ اس میں دوچار ہی مسلمان ہیں زیادہ تر بس نام کے مسلمان ہیں) تو فی کس آمدنی ہر ہندوستانی کی 1130 ڈالرس رہ جاتی ہے، اگر ان 1130 ڈالرس کو آج کے ڈالرس ریٹ پر بھی بھنایا جائے تو اس کی ہندستانی رقم ایک لاکھ روپے سے زیادہ نہیں بنتی، جو غریب افریقی ممالک کی طرح ہے، اس فہرست میں ہندستان 143 نمبر پر ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اوپر کے پانچ فیصد مالداروں کے علاوہ ہندوستانی ہر شخص (بلا تمیز مسلم و غیرمسلم) ایک لاکھ کا اوسط بنتا ہے۔
ورلڈ بینک کی اس رپورٹ سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی کس شہری کی آمدنی کا کیا حال ہے، پھر ظاہر ہے کہ زکوٰۃ اوپر شمار کردہ سروے سے خارج تو نہیں، وہ مل ملا کر بھی آمدنی کا حال کچھ خاص تبدیلی کے لائق نہیں بنتا۔
حاصل یہ ہے کہ بیس لاکھ کروڑ تو کجا ؟ہندوستان میں مفلسی کا یہ عالم ہے کہ مالداروں کا مال بھی غریبوں میں تخمیناً جوڑنے کے باوجود بھی یہ غریبی دور نہیں ہوجاتی،اور زکوٰۃ ایک لاکھ کروڑ روپے نہیں بنتی۔
بیان کی قابل توجہ بات:
مولانا کی اس بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے، اور ملت کا ہردرد رکھنے والے کو ہونا چاہئے کہ زکوٰۃ کے اموال سے ایسے حضرات جو بر سرروزگار نہیں انھیں حسب حیثیت و لیاقت کام اور کاروبار پر لگایا جائے۔
یہ ایسا موضوع ہے کہ اس وقت اس پر ملت کے ہر چھوٹے بڑے خیرخواہ کو اپنی اپنی بساط بھر کوشش کرنا چاہئے، مگر کچھ بنیادی نزاکتوں کوسامنے رکھ کرجیسے اولا تو یہی کہ اس تدبیر میں مدارس اور علماء کی حق تلفی نہ ہو، کیونکہ وہ فرد اور نفس (جان) کی ضرورت ہے، اور مدارس اجتماعی اور دین اسلام کی بقائ کا ذریعہ ہیں،ثانیاً یہ کہ یہ کام بھی نہایت خفا اور بلا تشہیر کیا جائے ،ثالثاً بجائے ملکی و بڑے وفاق کے جو حکومت کو نظر آئے ، مقامی طور پرایسے افراد کو اپنی اپنی صلاحیتیں اس میں لگا سکیں جیسے علماء اپنے علم سے ماہرین معاش و اقتصاد اپنی عقل سے اور ارباب مال اپنے مال لگائیں، اور بڑی خاموش سے کام ہو، اس پر اپنے اپنے سطح سے جو کام ہو کرنے کی ضرورت ہے، اور اہل علم کو بھی چاہئے کہ اس فریضہ وقت کی جانب خواص کی توجہ مبذول کرائیں۔
آخر مسلمان کتنی زکوٰۃ نکالتے ہیں؟
معلوم ہوگیا کہ بیس لاکھ کروڑ تو گنتی کی غلطی تھی، چنانچہ اگر ایک لاکھ کروڑ کا نصف یعنی پچاس ہزار کروڑ یا پانچ سو بلین روپے کی زکوٰۃ مان لی جائے تو اس کی اصل مالیت کتنی ہوگی؟ یعنی اجتماعی طور پر مسلمانوں کے پاس کتنا مال ہوتو پچاس ہزار کروڑ زکوٰۃ نکلے گی؟
اسے جوڑنے کا آسان سا فارمولا ہے، زکوٰۃ کسی بھی مال کا ڈھائی فیصد(2.5) ہوتی ہے، اسے اگر 40 سے ضرب دے دیا جائے تو اصل مالیت نکل آئے گی،جیسے:2.5×40 =100
چنانچہ پچاس ہزار کروڑ کو چالیس سے ضرب دیں تو حاصل ضرب آتا ہے:
بیس لاکھ کروڑ یا بیس ٹرلین ہندستانی روپے
یعنی مولانا رحمانی صاحب بیس لاکھ کروڑ جسے غلطی سے مجموعہ زکوٰۃ فرمارہے تھے اتنی اصل مالیت ہوتب جاکر پچاس ہزار کروڑ صرف زکوٰۃ نکلے گی اور یہ اس کا آدھا ہے جس کا نتیجہ ایک لاکھ کی اوسط آمدنی کو ایک کروڑ مالداروں کے اوسط پر ضرب کرکے حاصل کیا گیا تھا۔
اگر سال جاری 2025 کے بجٹ پر نظر ڈالیں تو اس سال کل خرچ کا تخمینہ ہی 50 لاکھ کروڑ ہے،
اور اس سال آمدنی کا تخمینہ 28 لاکھ کروڑ بذریعہ ٹیکس، اور 34 لاکھ کروڑ دورے ذرائع سے متوقع ہے۔
ایسے صورت میں مسلمانوں کے پاس بیس لاکھ کروڑ کی مالیت کے دعوی کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے ایک تہائی فیصد آمدنی اور ایک تہائی سے زیادہ کا خرچ مسلمانوں کا ہے،
ظاہر ہے اتنی مالیت کا دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
مسلمانوں کے پاس نہ ٹاپ کمپنیاں ہیں، نہ ہی خرچ کرنے والے بلینئرس، پھر دس سالوں سے فرقہ پرستوں کا کریک ڈاون ، ان امور کے مدنظرراقم کا تخمینہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بمشکل شئیر ایک ٍآمد و رفت کا دسواں حصہ ہے۔واللہ اعلم
چنانچہ چھ لاکھ کروڑ بھی مان لیا جائے تو اس کی زکوٰۃ صرف ڈیڑھ ہزار کروڑبنتی ہے، اس میں سے کتنے زکوٰۃنکالتےہیں اور کتنے صحیح مصارف میں خرچ کرتے ہیں یہ قابل تحقیق ہے۔
لیکن جیسا کہ اپنا خیال عرض کیا کہ مدارس اور علماء کی فکر مالداروں کے متوسط طبقہ کو ہی زیادہ ہے، ورنہ زیادہ اونچے اور ٹاپ مالدار یا تو زکوٰۃ نکالتے نہیں، یا پھر انھوں نے مصارف کے نام پر زکوٰۃ کو اپنے پاس رکھنے کے ظاہری جائز سسٹ یا چور دروازےجیسے ٹرسٹ وغیرہ بنا رکھے ہیں،اور اپنے واجب الاخراج اموال کو وہ گھما پھرا کر اپنے ہی تصرف میں کئے ہوئے ہیں۔ الاماشاء اللہ
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آمد و خرچ کا صحیح شمارہ نہ تو موجود ہے، اور نہ ہی نکال کر عام کرنے کی ضرورت ہے، البتہ مدارس کی کفالت اور عامۃ المسلین کی معاشی خبرگیری ہونا اسی زکوٰۃ کے مال سے ہے، اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پہلو ذرا بھی غفلت اور لاپرواہی برتی گئی تو اس کے نتائج بد اگلی نسلوں کو صدیوں بھگتنے پڑ سکتے ہیں، اس فکر کو ضرور عام کرنے کی ضرورت ہے۔
(تحریر کے حکومتی شمارے حکومتی ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں، جوڑنے اور سمجھانے کے لئے اپنے الفاظ و ترجمہ کیا گیا ہے)
آخر میں ہماری مولاے محترم سے عاجزانہ گزارش ہے کہ ملک کی موجودہ بدترین جبر وفسطائیت کے ماحول میں :آبیل مجھے مار" جیسا کوئی قول یا عمل حکمت وبصیرت اور عقل ودانش کے خلاف ہے
دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے
جوش خطابت کے ساتھ اس کے عواقب ونتائج پر بھی گہری نظر رہے اور ساتھ میں ہوش ودور اندیشی سے بھی برابر استفادہ ہو۔ مدارس اسلامیہ پہلے سے ہی نشانے پر ہیں ایسے میں مسلم کمیونٹی کی مالیات یا زکات سے متعلق کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان مسلم امہ کے گلے کی گھنٹی بن سکتا ہے
ہمیں امید ہے کہ آئندہ ایسے حساس ونازک مسائل پہ اظہار خیال کرتے ہوئے احتیاط وتیقظ کو ضرور بروئے کار لائیں گے۔