Friday, 31 January 2025

اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق

اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق
 وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (32)
ترجمہ: اور تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں  کو نگاہیں جھکاکر رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا، اب اس آیت میں شرم گاہوں کی حفاظت کا ایک پاکیزہ طریقہ بیان کیا جارہا ہے، تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں، خواہ مرد ہوں یا عورتیں، کنوارے یا غیر کنوارے (یعنی شادی شدہ تھے لیکن پھر طلاق یا موت ہوگئی) اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں  میں سے جو نیک ہیں  ان کے نکاح کردو۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تین شخصوں  کی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ جن میں ایک پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی المجاہد والناکح والمکاتب۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۱۶۶۱)
معزز قارئین، اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار خواتین ہیں، جن کو کم عمری ہی میں طلاق ہوجاتی ہے یا شوہر کے وفات پاجانے کی وجہ سے ان پر بیوہ کا ٹائٹل لگ جاتا ہے، بلا شبہ ایسی ستم زدہ اور تقدیر کی ماری خواتین ہر محلہ، گاؤں اور علاقے میں بکثرت پائ جاتی ہیں جو یا تو سسرال ہی میں یا پھر میکے میں بڑے درد و الم کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں، والدین لاکھوں جتن کرکے تو بڑے آسرے اور امنگوں کے ساتھ  بیٹی کو وداع کرتے ہیں لیکن چند سال بعد پھر جب یہ نا ختم ہونے والا درد آگھیرتا ہے تو ستم بالائے ستم ہمارا معاشرہ جلے پر نمک چھڑکنے سے نہیں چوکتا ہے۔
محترم قارئین، ایسی دکھیاری اور غمزدہ خواتین کا ایک ایک منٹ ہزاروں سال کے برابر گزرتا ہے۔ وہ گھٹ گھٹ کر اپنے آنسوؤں کو پی کر زندگی گزارتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی مایوس اور تاریک زندگیوں میں ایک نئی امید پیدا کرکےخوشیاں بھری جائیں۔
اولا تو یہ ہونا یہ چاہئے کہ جو حضرات اس کی استعداد رکھتے ہیں وہ آگے بڑھیں اور شرعی طریقے سے ایسی خواتین کا ہاتھ تھام کر انہیں نئی زندگی کی شروعات کا موقع فراہم کریں۔ حدیث میں ہے کہ من تمسك بسنتي عند فساد أمتي، فله أجر مائة شهيد (رواه الطبراني)
ترجمہ: جس شخص نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کیا تو اس کے لئے سو شہید کا ثواب ہے۔
آپ علیہ السلام نے اپنے سارے نکاح ایسی ہی  بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے فرمائے سوائے ایک کے اور معاشرہ میں ایسی خواتین کا قد بڑھاکر امہات المؤمنین کے لقب سے سرفراز فرمایا۔
اگر ہم خود اس کی قدرت اور استطاعت نہیں رکھتے تو پھر اس حدیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بچولیا کا کردار ادا کرکے ایسی بے سہاراؤں کا سہار بن کر ان کی دعائیں لیں: من دل على خير، فله أجر فاعله. (رواه مسلم)
ترجمہ:جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے۔
نوٹ: کئی کارگزاریاں حال ہی میں بڑی تکلیف دہ اس بابت سنیں (تفصیلات کو طوالت کی بنا پر ترک کردیا ہے) اسی وجہ سے مذکورہ بالا چند سطور لکھی گئی ہیں کیونکہ مطلقہ یا بیوہ کی کفالت اور گزربسر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا بالآخر یا تو وہ گداگری کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر ان کو قوم کی زکوٰۃ و صدقات پر نربھر رہنا پڑتا ہے بہت سی دکھیاری بہنیں تو مجبوراً غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
اللہم احفظنا منہ
آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن (بقلم: مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘) (31/01/25) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_31.html

Thursday, 30 January 2025

محبت کا معیار

محبت کا معیار

مرد کو اپنی بیوی سے اور عورت کو اپنے شوہر سے کتنی محبت ہونی چاہئے- الله تعالی نے انسان کو انسانی صفات، عادات و اخلاق پر ڈھالا ہے۔ جس کو جبلت و فطرت بھی کہتے ہیں، جس پر انسان کو ڈھالا جائے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا، کہاوت ہے: 

"جبل گردد جبلت نگردد"

ان صفات و عادات میں سے ایک "محبت" ہے۔ الله تعالی نے محبت کرنے کا جذبہ، صلاحیت، استعداد ہر انسان کے دل میں رکھی ہے۔ وہ اپنے دل کا کھچاؤ ضرور کسی کی طرف محسوس کرتا ہے۔

محبت گناہ نہیں:

اور محبت کرنا گناہ نہیں ہیں، ہاں اسباب گناہ ہوسکتے ہیں۔ طور طریق گناہ ہوسکتا ہے لیکن کسی پر دل آجانا برا نہیں، کسی کے حسن و جمال، کمال و منال پر فریفتہ ہونا گناہ نہیں۔ "ولو اعجبک حسنھن" ہم نے اپنے بڑوں سے یہ شعر سنا ہے:

گر سمجھو تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

محبت میں انسان مجبور ہے

پھر محبت اضطراری ہے کہ یہ تو دل کا کام ہے، 

"بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے"

اور دل پر کس کا زور چلتا ہے؟ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کسی پر مر مٹتا ہے، کسی پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے، دل کا سودا کرکے سودائی ہوجاتا ہے۔ اس سودائی سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کر کیا رہے ہو؟ کس پیچ و تاب میں ہو ؟تو جواب اس کا یہی ہوتا ہے: 

محبت ہو تو جاتی ہے محبت کی نہیں جاتی

یہ شعلہ خود بھڑک اٹھتا ہے بھڑکا یا نہیں جاتا

محبت کسے کہتے ہیں:

بعض چیزیں دقیق و غامض ہوتی ہی اس لیے ان کی تعریف دشوار ہوجاتی ہیں، بعض چیری عیاں، روشن واضح ترین بلکہ ابدہ البدیہیات ہوتی ہیں اس وجہ سے ان کی تعریف دشوار ہوجاتی ہے۔ علم کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔ حتی کہ بعضوں نے تو اسے ناقابل تعریف قرار دے دیا۔ محبت بھی اسی قسم میں سے ہے۔ کسی نے کہا:

"میل القلب الی الشیئ لتصور کمال فیہ" [العینی] 

یعنی دل کا کسی چیز پر آجانا اس کے اندر موجود کسی کمال کی وجہ سے۔

المیل الی مایوافق المحب [النووی]

محبوب کے موافق و پسندیدہ چیز کی طرف میلان کا نام محبت ہے، کسی نے کہا: بھلی، خوشگوار لگنے والی چیز کی طرف دل کا جھکاؤ۔ کسی نے کہا: محض محبوب کی خواہش کے پیش نظر اپنی خواہش کو پیروں تلے روند دینا۔ تقی صاحب فرماتے ہیں:

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا

متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا

کسی نے کچھ کہا ہے اور کسی نے کچھ۔ اس مقام کے مناسب، سپر ڈال دینا ہے، یہ ایک بدیہی چیز ہے، جیسے انسان پیٹ میں بھوک محسوس کرتا ہے، وہ اپنے دل میں محبت بھی محسوس کرتا ہے اس کو تعریف کرکے سمجھایا نہیں جاسکتا۔ بقول شاعر: 

محبت اصل میں "مخمورؔ" وہ رازِ حقیقت ہے

سمجھ میں آگیا ہے پھر بھی سمجھایا نہیں جاتا

محبت کی کئی قسمیں کی گئی ہیں؛ لغوی عرفی اختیاری اضطراری عشقی ایمانی، حقیقی مجازی ہوسکتا ہے تعریف میں اس اعتبار سے فرق ہو، یا ہوسکتا ہے  ابتداءو انتہاء کا فرق ہو،

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا 

آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا

جیسے انتہاء پر پہچنے کے بعد کوئی عاشق کہہ اٹھتا ہے " بخدا میرا سر قلم ہونے سے بچ جائے اور حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو ایک کانٹا بھی چبھے مجھے یہ بھی گوارا نہیں" 

کسی شاعر نے کہا ہے: 

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی

تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری [امیر خسرو دہلوی]

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔  نبی کی چاہت میں یہی مطلوب ہے کہ انسان ہر چیز/ ہر شخص کی محبت پر نبی کی محبت کو بڑھا دے والد اور اولاد کی محبت سے بھی حتی کہ اپنے آپ سے بھی زیادہ نبی کی محبت ہو۔ [بخآری]

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ اور ان جیسے دوسرے عاشقان رسول نے ایسا کرکے بتایا وہ ایک جان دو قالب تھے، ان کی وہی خواہشات، جذبات و پسند نا پسند تھیں جو نبی کی تھی۔

أَنا مَن أَهوى وَمَن أَهوى أَنا

نَحنُ روحانِ حَلَنا بَدَنا

میاں بیوی کی محبت:

آج کل جب محبت، پیار، عشق بولا جاتا ہے تو عورت کی مرد سے اور مرد کی عورت سے عشق ہی مراد لیا جاتا ہے، معاشرے میں اسے بہت بڑا درجہ دے دیا گیا ہے جو نہ سرحدیں دیکھتا ہے نہ حدیں، نہ رنگ و نسل دیکھتا ہے نہ تہذیب و کلچر، نہ دھرم دیکھتا ہے نہ مذہب، کہا جاتا ہے محبت اور پیار سب سے اوپر ہے، پیار اندھا ہوتا ہے، محبت کا کوئی مذہب نہیں یہ مذہب سے بالاتر ہے. [العیاذ بالله]

حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے جب یہ کہا تھا کہ میری محبت سب سے زیادہ ہونی چاہیے تو فرمایا تھا والدین سے ["والد" بمعنی من له الولد]، اولاد سے بھی اور تمام لوگوں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ "زوجہ" کا ذکر صراحتا نہیں کیا بلکہ اسے "والناس اجمعین" کے ضمن میں بیان کیا۔ اور سورۂ توبہ میں الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے، اگر تمہارے باپ دادا۔ تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، مال و اسباب جن کو تم نے حاصل کیا ہے، (تمہاری) تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں ڈر لگارہتا ہے اور وہ رہائش گاہیں جنھیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ جاری کردیں، اور اللہ نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتے۔ اس فرمان میں بھی بیوی کی محبت کو باپ دادا، اولاد اور بھائیوں کے بعد رکھا ہے۔ میرا مقصود بیوی سے محبت کی نفی نہیں ہے بس درجات کا تعین ہے، آخر زمانے میں لوگ بیوی کی محبت میں بیوی کو ماں سے زیادہ ترجیح دینے لگے گیں، مقصد اس کی روک تھام ہے، غلو سے اور اس سلسلے میں ہونے والی خطاووں سے محافظت ہے۔ فی نفسہ میاں بیوی کی محبت تو ان کی فطرت اور گٹھی میں ہے، الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں: اسی کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے (بیویاں) بنادیئے؛ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان پائیدار محبت اور ہمدردی پیدا کردی. [سورۂ روم: ۲۰]

الله تعالی نے انسانوں کے فائدے کے لیے بیویاں بنائی، سوچو اگر اس دنیا میں صرف مرد ہی مرد ہوتے عورتوں کا نام و نشان نہ ہوتا تو دنیا کتنی بے رونق ہوتی، دنیا کی سرسبز و شادابی اور خوش نمائی بے رنگ ہوجاتی، زندگی بدمزہ بے ڈھنگ ہوتی۔ اور وہ فائدہ یہ ہے کہ مرد عورت کے پاس جاکر بیٹھے اس سے باتیں کرے اس سے لذت حاصل کرے اور سکون پائے، سکون پانے کے لیے آسانی ہو اس لیے ان دونوں میں پائیدار محبت اور ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ و میلان رکھا اور شفقت و ہمدردی بھی۔ اگر محبت نہ ہو تو آدمی اس سے بچے ہونے کی وجہ سے یا اس کی ضرورت ہونے کی وجہ یا اس کے ساتھ کافی عرصہ ساتھ گزارنے کی وجہ سے اس سے مہربانی کا معاملہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہمدردی بھی رکھی گئی۔ یہ محبت میاں بیوی کی عموما "نکاح" سے وجود میں آتی ہے، الله تعالی نے نکاح کو بنایا ہی ایسی چیز ہے کہ ایک لفظ ہی سے دو پرائے اشخاص ایک دوسرے کے لیے شیر وشکر ہوجاتے ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"لم تر للمتحابين مثل النكاح۔" 

"تم دو محبت کرنے والوں کے لئے نکاح کی طرح کوئی چیز نہیں پاؤگے۔"  مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قرابت کے بے پناہ محبت والفت پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہوں، اس درجہ کی محبت والفت پیدا کردے۔ یا مطلب یہ ہے کہ مرد کسی پر فریفتہ ہوگیا تو اس فریفتگی اور محبت کا بقا نکاح سے بہتر کسی چیز میں نہیں۔ رسول اللہ صلی الله تعالی علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے، آں حضرت صلی الله تعالی علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات اور خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہایت محبت رکھتے تھے اور یہ تمام صحابہ کو معلوم تھا، چنانچہ لوگ قصدًا اسی روز  ہدیے اور تحفے بھیجتے تھے جس روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کی باری ہوتی۔ [بخآری]

اسی محبت کی وجہ سے آپ اپنے زندگی کے ایام حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا کے پاس گزارنا چاہتے تھے، اسی وجہ سے آپ ان کی عزت افزائی کرتے اور کبھی "یاموفقہ" فرماتے کبھی فرماتے "جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر فضیلت ہے اسی طرح عائشہ کو تمام عورتوں پر فضیلت ہے [شمائل ترمذی] کبھی فرماتے: 

"أنا لك كأبي زرع لأم زرع" 

میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لیے۔ کبھی بیوی کی محبت یا شوہر کی محبت حد سے بڑھ جاتی ہے جو اس کے لیے دینی یا دنیاوی ذمہ داریوں میں مخل ہوتی ہے یا مضر ہوتی ہے ایسی محبت نہیں ہونے چاہیے، کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے یا یہ محبت سے برے یا غلط کام پر آمادہ کرے۔ ایسی خبریں بسا اوقات کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ کسی مرد/عورت کو اس کے محبوب نے چھوڑ دیا تو وہ دماغی مریض ہوگیا یا نشےکی لت اختیار کرلی یا کام کاج سے بیٹھ کر دین و دنیا سے بے گانا ہوگیا یا خود کشی کرلی بلکہ بعض ناسمجھ بچیوں کادین تک چھوڑنے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ کسی کی محبت کو اتنا غالب نہیں ہونے دینا چاہیے کہ وہ اپنا یا اپنے دین کا ہی نقصان کر بیٹھے۔ ہمارے اکابر اگر یہ دیکھتے کہ وہ بیوی کی محبت کی وجہ سے دینی کاموں میں عبادت و ریاضت میں کوتاہی کررہا ہے تو اسے طلاق دینے کا حکم دیتے۔ حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کا واقعہ آپ کو معلوم ہوگا، نہایت حکیم اور مدبر شخص تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا عبدالله (رضی الله تعالی عنہ) نکاح کے بعد اپنی بیوی سے اس قدر لگاؤ کر رکھا ہے کہ عبادت و مجاہدت میں مخل ہوگا تو انھوں نے طلاق دینے کا حکم دیا- حضرت عبدالله رضی الله تعالی عنہ بھی پریشان کہ کیا کریں۔ انھوں نے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! ابا تو طلاق دینے کا کہہ رہے ہیں؟ کیا کروں؟ تو آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ابا کا کہا مانو۔ پھر جب دوسری مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ طلاق دینے کہا تو فورا طلاق دے دی، بعد میں بیٹے نے کہا کہ وہ تو فی الحال حائضہ ہے (میں نے اس لیے پہلے نہیں کہا کہ کہیں آپ اسے طلاق نہ دینے کا بہانا نہ سمجھ لیں) ابا نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استفسار کیا، آپ نے رجوع کرکے پھر ایسے طہر میں طلاق دینے کہا جس میں بیٹے نے بہو سے ہم بستری نہ کی ہو، اور چاہو تو نکاح میں روک بھی سکتے ہو، آپ نے اختیار بھی دیا۔ بہرحال انھوں نے رجوع کیا پھر طلاق نہیں دی کیوں کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد اب پہلے جیسی شدید محبت باقی نہیں رہی تھی۔

مطالبہ حقوق کا ہے محبت کا نہیں:

 جیسا کہ آپ حضرات جان چکے ہیں، دل پر کسی کا زور نہیں چلتا- دل بے قابو ہیں، محبت غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مردوں سے بھی مطالبہ ادایئگئ حقوق کا ہے اور عورتوں سے بھی، آپ قرآن و حدیث پڑھو گے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ بیوی سے محبت کرو، محبت پر دائم رہو یا محبت بڑھاؤ بلکہ دونوں کو کہا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، اس لیے کہ اگر کوئی مرد کہے کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے، آپ کے بنا جینا ادھورا ہے، زندگی فضول ہے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے اور حقوق ادا نہیں کرتا نہ اخراجات پورے دیتا ہے نہ خبر گیری کرتا ہے تو یہ زبانی جمع خرچی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت یہ کہے آپ میرے سرتاج ہو جان ہی نہیں جان جہاں ہو، تمہارے بنا میں جی تو کجا مر بھی نہیں سکتی، میرے رگ و ریشہ تمہاری محبت میں سرشار ہے لیکن شوہر کے حقوق ادا نہیں کرتی نہ اطاعت کرتی ہے نہ تعظیم تو یہ صرف زبانی ڈھکوسلے اور دغا بازی ہے۔ شاعر کہتا ہے: 

لو كان حبك صادقـاً لأطعتـه

إن المحب لمن يحب مطيـع

اگر تو محبت میں سچی ہوتی تو میری اطاعت کرتی، اس لئے کہ محب جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت ضرور کرتا ہے۔

(محمد یحیی بن عبدالحفیظ)

https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_30.html



Monday, 27 January 2025

بدن سے نکلنے والے خون کے ناقض وضوء ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ائمہ کرام کے نقطہاے نظر

بدن سے نکلنے والے خون کے ناقض وضوء ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ائمہ کرام کے نقطہاے نظر
----------------------------------
----------------------------------
مفتی صاحب، ایک سوال درپیش ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب ابو لولو فیروز نے زہریلا خنجر مارا تو آپ نے کہا اکلنی کلب درآں حالیکہ آپ نماز میں تھے توکیا اس سے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی نماز فاسد ہوگئی؟
 2: اسی طرح اسی طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صحابہ کو پہرہ دینے کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ چنانچہ ان میں سے ایک صحابی آرام فرما تھے اور ایک صحابی پہرا دیتے، انھوں نے نماز شروع کردی، دشمن نے ایک تیر پھینکا، وہ ان کو لگا۔ پھر ایک مرتبہ تیر پھینکا تو انھوں نے اس کو توڑ دیا اس عمل سےان کے جسم سے خون تو بہا ہوگا، اس حالت میں انہوں نے نماز مختصر کردی۔ کیا اس سے ان کی نماز ہوگئی یا نمازفاسد ہوگئی؟
مدلل جواب عنایت فرمادیں۔
بہت شکریہ
ایک طالبہ ہفتم عربی
الجواب وبالله التوفيق والسداد 
لما طُعن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه في صلاة الفجر وسال الدم من جسده قطع صلوته وخرج منها واستناب واستخلف عبدالرحمن بن عوف فتقدم لإتمام الصلاة مع المسلمين وصلى بالناس خفيفة وأتمها،وبعد ما انتهت الصلاة قال عمر لابن عباس انظر من قتلني؟ فجال ساعة ثم جاء فقال غلام المغيرة ….. جاء التصريح عنه في صحيح البخاري "وَأَمَّا نَوَاحِي الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُمْ لَا يَدْرُونَ غَيْرَ أَنَّهُمْ قَدْ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ ، وَهُمْ يَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَصَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ صَلَاةً خَفِيفَةً فَلَمَّا انْصَرَفُوا ، قَالَ : يَا ابْنَ عَبَّاسٍ انْظُرْ مَنْ قَتَلَنِي" إلخ….( صحيح البخاري 3700) 
فقول عمر "قتلني أو أكلني الكلب " كان بعد ما قطع صلوته بوجود ما يوجب الحدث في الصلاة.لا أنه قال هذه الكلمة وهو في الصلاة، فلاإشكال!

وأما مسألة وجوب الوضوء من الدم الخارج من الجسد من غير السبيلين فمما اختلفت فيه آراء الفقهاء المتبوعين.
فالسادة الحنفية جعلت سيلان الدم من الجروح ناقضاً، ولم ينقض به المالكية والشافعيّة 
بينما الحنابلة فرقت بين القليل والكثير على ماهو المعتمد في المذهب.
والقائلون بعدم النقض من دم خارج من غير السبيلين يحتجون بروايات عديدة ، منها عمل عباد بن بشر الأنصاري: 
”أن النبي ﷺ نزل الشِّعب فقال: من يحرسنا الليلة؟ فقام رجل من المهاجرين ورجل من الأنصار فباتا بِفَم الشِّعب، فاقتسما الليلة للحراسة، وقام الأنصاري يصلي، فجاء رجل من العدو فرمى الأنصاري بسهم فأصابه فنزعه، واستمر في صلاته، ثم رماه بثان، فصنع كذلك، ثم رماه بثالث، فنزعه وركع وسجد، وقضى صلاته، ثم أيقظ رفيقه، فلما رأى ما به من الدماء قال له: لم لا أنبهتني أول ما رمى؟ قال: كنت في سورة فأحببت أن لا أقطعها۔ (سنن أبي داود كتاب الطهارة - باب الوضوء من الدم 198، صحيح ابن خزيمة 36, صحيح ابن حبان 1096)
فاستمراره في الصلاة بعد خروج الدم من الجرح يفيد أن الدم الخارج من الجسد لاينقض، والنبي صلى الله عليه وسلم كان مطلعاً عليه ومع ذالك لم يأمره بالوضوء ولا إعادة الصلاة، ولو كان الدم ناقضا لبين له ولمن معه في تلك الغزوة. 

وأما القائلون بانتقاض الوضوء من دم سائل فيستدلون بروايات كثيرة، من أصحّها: 
ما أخرجه أبو داود والترمذي، والنسائي عن حسين المعلم عن يحيى بن أبي كثير حدثني الأوزاعي عن يعيش بن الوليد المخذومي عن أبيه عن معدان بن أبي طلحة عن أبي الدرداء {أن النبي صلى الله عليه وسلم قاء فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فذكرت ذلك له ، فقال: صدق، أنا صببت له وضوءه} (جامع الترمذي - 87، سنن أبي داود - 2381، صحيح ابن خزيمة - 1956، صحيح ابن حبان - 1097)
قال الترمذي: هو أصح شيء في هذا الباب . ورواه الحاكم في "المستدرك " وقال: صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه
وقوله - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «الوضوء من كل دم سائل» أخرجه الدارقطني في "سننه " 
وقوله - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «من قاء أو رعف في صلاته فلينصرف وليتوضأ وليبن على صلاته ما لم يتكلم» ( نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية للإمام الزيلعي 93/1، البناية في شرح الهداية لبدر الدين العيني 263/1)

وقال الخطابي أكثر الفقهاء على انتقاض الوضوء بسيلان الدم وهذا أقوى إلى الاتباع.( المصدر السابق)
والله أعلم بالصواب 
الجواب وبالله التوفيق والسداد
جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز میں خنجر مارا گیا اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا تو انہوں نے اپنی نماز ترک کر دی اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کردیا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز مکمل کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: "دیکھو، مجھے کس نے قتل کیا؟" ابن عباس تھوڑی دیر کے لیے گئے اور آکر کہا: غلام مغیرہ۔
اس واقعہ کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے:
"اور مسجد کی اطراف میں لوگ یہ نہیں جانتے تھے، سوائے اس کے کہ انہوں نے عمر کی آواز کو غائب پایا، اور وہ سبحان اللہ، سبحان اللہ کہہ رہے تھے۔ عبدالرحمن نے ان کے ساتھ مختصر نماز مکمل کی، پھر جب وہ فارغ ہوئے تو کہا: اے ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے قتل کیا۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3700)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا “قتلنی أو أکلنی الکلب” (مجھے کتے نے مار ڈالا یا کھالیا) نماز کے دوران نہیں بلکہ نماز کو ترک کرنے کے بعد تھا، کیونکہ نماز میں حدث (وضو توڑنے والی چیز) پایا گیا۔ لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔ جہاں تک جسم کے کسی حصے سے خون بہنے پر وضو کے ٹوٹنے کے مسئلے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے:
 1. حنفیہ: خون کا بہنا وضو توڑ دیتا ہے۔
 2. مالکیہ اور شافعیہ: اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
 3. حنابلہ: خون کی مقدار پر فرق کرتے ہیں، تھوڑے خون سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن زیادہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔
وضو نہ ٹوٹنے کے قائلین کے دلائل:
 1. عباد بن بشر انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وادی میں قیام پذیر تھے۔ ایک مہاجر اور ایک انصاری پہرہ دینے کے لئے مقرر ہوئے۔ انصاری رضی اللہ عنہ نماز میں مشغول ہوگئے۔ ایک دشمن نے ان پر تیر مارا جو لگ گیا، لیکن وہ تیر نکال کر نماز جاری رکھتے رہے۔ پھر دوسرا اور تیسرا تیر لگا، لیکن انھوں نے وہ نماز مکمل کرنے کے بعد ہی اپنے ساتھی کو جگایا۔" (سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من الدم، حدیث 198)
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
وضو ٹوٹنے کے قائلین کے دلائل:
 1. حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی روایت: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی تو وضو کیا۔" (جامع الترمذی، حدیث 87؛ سنن ابی داود، حدیث 2381)
 2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: "ہر بہنے والے خون سے وضو کرو۔" (سنن دارقطنی)
 3. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: "جو شخص نماز میں قے یا نکسیر (رعاف) کرے، وہ وضو کرے اور بغیر بات کئے نماز مکمل کرے۔" (نصب الرایہ، جلد 1، صفحہ 93)
خطابی رحمہ اللہ نے کہا کہ اکثر فقہاء کے نزدیک خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور یہی اتباع کے زیادہ قریب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
٢٥/ رجب سنة ١٤٤٦هجرية  ( #ایس_اے_ساگر) 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_27.html

Sunday, 26 January 2025

اسقاط حمل کیوں ممنوع ہے؟

اسقاط حمل کیوں ممنوع ہے؟ 
(ایک تبصراتی تحریر)
------------------------------------
------------------------------------
بسم الله الرحمن الرحيم 
الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على اشرف المرسلين وخاتم النبيين ورحمه الله للعالمين سيدنا محمد وعلى اله وصحبه اجمعين. اما بعد!
نسل انسانی کی افزائش، اس کا تحفظ، فروغ وبقاء شریعت اسلامی کے ان پانچ مقاصدِ ضروریہ، کلیات وتحفظ  ات خمسہ میں سے ایک ہے جن کے تحفظ کے لئے احکام شریعت کا نزول ہوا ہے۔ ان میں سے ہر مقصد کا تحفظ کلی اور اساسی وبنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر نظام زندگی تہہ وبالا ہوجاتا ہے، نسلِ انسانی کو وجود میں آنے سے روکنا، اسے محدود کرنا، یا وجود میں آنے کے بعد اسے ختم کرنا شریعت کی منشا ومقصد کے منافی ہے؛ اسی لئے اسلام نے زواج ونکاح کو نہ صرف یہ کہ مشروع کیا، اس کی ترغیب دی، بلکہ اسے بذاتِ خود اطاعت اور عبادت قرار دیا، لذائذِ حیات سے کنارہ کشی، تجرد کی زندگی اور ترک واعراضِ نکاح (تبتل) سے سختی سے منع کیا، قطعِ نسل یا اس میں رکاوٹ ڈالنے والے طریقوں (خصی ہوجانے وغیرہ) سے منع کیا، نکاح کرنے کو اللہ کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا، نکاح کے بیشمار مقاصد میں سے اولاد کے حصول کو سب سے اولیں مقصد گردانا گیا، ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی جو امت محمدیہ میں کثرت واضافے کا باعث بنے، زنا کو حرام کیا گیا، اس کی تحریم کا اصل مقصد وعلت بھی نسل انسانی کا تحفظ ہی ہے؛ کیونکہ زنا کی وجہ سے نسل انسانی کا تحفظ متاثر ہو تا ہے اور نسب گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں پیٹ کے بچے کی زندگی کی وہی اہمیت و احترام ہے جو کسی زندہ انسان کی ہوتی ہے، اس لیے اس کی زندگی کی حفاظت بھی اسی طرح فرض کی گئی ہے جس طرح زندہ انسان کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے؛ اسی احترام وتحفظ کی پیش نظر حاملہ عورت کو رمضان کے مہینے میں روزہ توڑنے کی گنجائش دی گئی ہے اور تو اور؛ خود ماں کو بھی اس کا حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں نشو ونما پانے والے بچے کو کوئی نقصان پہنچائے، زنا کی وجہ سے ٹھہرنے والےحمل کو ساقط کرانے کا حق بھی عورت کو اسی لئے نہیں دیا گیا ہے، جنین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ موت کی سزا پانے والی عورت اگر حاملہ ہے تو اسے اس وقت تک موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور اس کے دودھ چھڑانے کی عمر نہ ہو جائے۔
متعدد شرعی نصوص کے مطابق حملِ انسانی مختلف مراحل ( نطفہ ، گاڑھا اور جامد خون، گوشت کا لوتھڑا ، پھر نفخ روح سے گزرکر) نفس انسانی بنتا ہے ، تام الخلقت ہوجانے اور حمل میں جان پڑجانے کے مرحلے (عموماً چار ماہ) کے بعد باتفاق علماء واہل مذاہب اس نفس انسانی کا اسقاط بالکل ناجائز ہے، لیکن نفخ روح (چار ماہ) سے پیشتر اور ظہور بعض اعضاء (استبانۂ خلق) کے بعد (لیکن کامل تخلیق اعضاء سے پہلے) بھی فقہاء احناف کے راجح قول کے مطابق اسقاط حمل کی گنجائش نہیں ہے، یہ حمل تام الخلقت بچے اور نفس انسانی کے حکم میں ہوتا ہے؛ گوکہ اس پر چار ماہ کی مدت پوری نہ ہوئی ہو ، ہاں البتہ حمل جبکہ بالکل ابتدائی مرحلے میں ہو، اور اس کا حمل ہونا اور غدود وگٹھلی وغیرہ نہ ہونا متحقق ہوجائے تو محققین حنفیہ کا خیال ہے کہ بعض اعضاے انسانی کے ظہور سے پیشتر بھی بلا عذر شرعی اسقاط مکروہ ہے؛ کہ یہ افزائش وتحفظ نسلِ انسانی جیسے مقصد شرع کے منافی عمل ہے۔
حمل پہ چار ماہ یا ایک سو بیس دن سے پہلے اسقاط کی جو بات مطلقاً لکھی یا نقل کی جاتی ہے وہ قول محقَق نہیں ہے.
 اسقاط کی گنجائش یا ممانعت کا مدار اعضاے انسانی کا ظہور (استبانہ خلق ) ہے ، چار ماہ کی مدت مدار حکم نہیں ہے۔ 
اس وقت میرے سامنے اِسی موضوع پر “بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر “ کی مصداق ایک مختصر کتاب "اسقاط حمل" ہے. 
جس میں اس موضوع پر انتہائی جامع، بصیرت افروز، چشم کُشا اور سیر حاصل فاضلانہ بحث کی گئی ہے۔
کتبِ مذہب اور متعدد نصوص سے مرتب نے ثابت کیا ہے کہ ظہور اعضاے انسانی کے بعد جنین بحکم ولد اور نفس انسانی ہوجاتا ہے گوکہ اس پر ابھی چار ماہ کی مدت پوری نہ ہوئی ہو، ایک سو بیس دن والے منقول فقہی قول کے معیار اسقاط ہونے کے اصل مأخذ کی نشاندہی کے ساتھ محققین احناف کے حوالے سے اس قول کو مخدوش ثابت کیا ہے، اور چار ماہ والی تحدید کا خوبصورت محمَل پیش کرنے کے ساتھ بظاہر متعارض فقہی روایات کی قابل قبول تطبیق بھی پیش کی ہے۔
کتبِ مذہب، روایاتِ حدیث، آثار صحابہ وتابعین سے استشہاد واستدلال کے ساتھ انہوں نے طبی ماہرین واہل اختصاص کے اقوال اور بعض تحقیقاتی اداروں کی طرف سے چار ماہ سے پیشتر ظہور اعضاء انسانی کی مہیا کردہ تصاویر سے بھی اپنے موقف پر کامیاب استدلال کیا ہے 
میں نے یہ کتاب پوری پڑھی ہے. انداز واسلوب خالص علمی ، فقہی وتحقیقی ہے، فقہ وفتاوی سے اشتغال رکھنے والے اہل علم کے لئے "بیش قیمت سوغات" ہے۔ کتاب اس لائق ہے کہ اسے چشم سر کے راستے لوح قلب میں ثبت کرلیا جائے، صاحب کتاب نوجوان عالم دین اور دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل ہیں ، معراج العلوم چیتا کیمپ ممبئی کے استاذ فقہ عزیز محترم مفتی محمد ثاقب قاسمی فتح پوری زید فضلہ اس کے مرتب ومؤلف ہیں. مؤلف حلقہ علماء میں خاص اعتبار وشناخت رکھتے ہیں، بڑی خموشی، شوق، لگن، عرق ریزی، جاں کاہی اور یکسوئی کے ساتھ سلگتے فقہی موضوعات پر وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی مہربانی یا حسن ظن ہے کہ وہ اپنا ہر مسودہ عاجز کو نظر نواز کرتے ہیں، اس سے پہلے بھی جدید فقہی موضوعات پر ان کی کئی بیش قیمت کتابیں مسافرانِ علم وتحقیق اور اصحاب فقہ وفتاوی سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں. زیر نظر کتاب بھی ان کی دیگر تالیفات کی طرح انتہائی چشم کشا اور بصیرت افروز ہے. 
امید قوی ہے کہ کتاب ہذا بھی علمی حلقوں میں شوق کے ہاتھوں لی جائے گی اور قدر کی نگاہوں سے پڑھی جائے گی. میری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول عام عطا کرے، اور مرتب محترم کو پئے مقصد سرگرم عمل اور سدا تازہ دم رکھے ، آمین! 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_26.html

Monday, 20 January 2025

مخارج حروف

خارج حروف)
علماء تجوید نے 29 حروف تہجی 
کے لئے جو مخارج بیان کئے ہیں ان کی تعداد 27 ہے۔ 
جنہیں مندرجہ ذیل پانچ مقامات سے ادا کیا جاتا ہے۔
(1) جوف دہن (2) حلق (3) زبان (4) ہونٹ (5) ناک۔
مختصر لفظوں میں ان حروف کے مخارج کی تعیین کی جاتی ہے۔ عملی طور پر صحیح تلفظ کرنے کے لئے اہل فن کا سہارا لینا پڑے گا۔
جوف دہن:
جوف دہن سے صرف تین حروف الف۔ واوٴ۔ ى ادا ہوتے ہیں بشرطیکہ یہ ساکن ہوں جیسے جَوَادٌ -غَفُورٌ - کَرِیمٌ۔
حلق:
حلق کے تین حصّے ہیں:
1۔ ابتدائی حصہ۔ اس سے غ۔ خ ادا ہوتا ہے۔
2۔ درمیانی حصہ۔ اس سے ع۔ ح ادا ہوتا ہے۔
3۔ آخری حصہ۔ اس سے ء۔ ہ ادا ہوتا ہے۔
زبان۔ ہونٹ اور ناک
زبان:
حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کے دس حصے ہیں:
1۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ۔ اس سے ”قاف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
2۔ ”قاف“ کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اسکے مقابل کا تالو، ان کے ملانے سے ”کاف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
3۔ زبان، اور تالو کا درمیانی حصہ، ان سے ”جیم“ ”شین“ ”ی“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
4۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داہنی یا بائیں جانب کے داڑھیں ان کے ملانے سے ”ضاد“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
5۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ”لام“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
6۔ زبان کا کنارہ، ”لام“ کے مخرج سے ذرا نیچے کا حصہ، ان سے ”ن“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
7۔ نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ”ر“ ادا ہوتی ہے۔
8۔ زبان کی نوک اور اگلے دونوں اوپرى دانتوں کی جڑ، زبان کو اوپر کی جانب اٹھاتے ہوئے اس طرح ذرا ذرا کے فرق سے ”ط“ ”دال“ اور ”ت“ ادا ہوتی ہے۔
9۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپرى اور نچلے دانتوں کے کناروں سے ”ز“ ”س“ ”ص“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
10۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے ”ث“ ”ذال“ ”ظ“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
ہونٹ:
حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔ نچلے ہونٹوں کا اندرونی حصہ اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے”ف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
2۔ دونوں ہونٹوں کے درمیان کا حصہ یہاں سے”ب“ ”م“ ”واو“ کی آواز نکلتی ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ”واو“ کی آواز ہونٹوں کو سکوڑ کر نکلتی ہے۔ اور ”ب“ ”میم“ ہونٹوں کو ملانے سے ادا ہوتی ہے۔
ناک:
غنہ والے حروف ناک سے ادا ہوتے ہیں جو صرف نون ساکن اور تنوین ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کیا جائے اور اخفاء مقصود ہو۔ نون اور میم مشدد کا بھی انہیں حروف میں شمار ہوتا ہے۔ نْ،، نّ، مّ۔
أقسام حروف:
حروف تہجی کی انداز ادا، احکام اور کیفیات کے اعتبار سے مختلف قسمیں ہیں۔ ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_20.html

Monday, 13 January 2025

لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے

لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے
--------------------------------------------------
--------------------------------------------------
جس طرح نبوت ورسالت کسبی نہیں کہ جو چاہے اپنی ریاضت ومحنت سے حاصل کرلے، ٹھیک اسی طرح اس کے علوم بھی خالص عطیہ خداوندی اور موہبت ربانی ہیں۔ خدا تعالی نے علوم نبوت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے: 
"وعَلّمناهُ مِن لَّدُنّا عِلمًا" 
ان علوم کے حاملین کا انتخاب بھی من جانب اللہ ہوتا ہے۔ 
مَن يُرِدِ ﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں، میں تو (علم) تقسیم کرنے والاہوں اوراللہ تعالیٰ ہی دینے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ دین کاعلم وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرناچاہتے ہیں، اورجوعلم دین حاصل نہیں کرتے، وہ اللہ کی طرف سے بھلائی اور رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ حدیث پاک کے دوسرے جزو
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ
کا مفہوم یہ ہے کہ علمِ دین کی تقسیم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی؛ لیکن یہ ہے عطیۂ ربّانی۔ اللہ جس کے ساتھ دین ودنیا کی بھلائی کا ارادہ کرلیتا ہے اسی کو اس علم کے اکتساب کے لئے قبول کرتا ہے یعنی قرآن وحدیث کے علوم کی تحصیل کے لئے جن کا انتخاب ہوجائے وہ قسمت کے دھنی اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ ہر کہ ومہ کے لئے اس کا انتخاب نہیں ہوتا:
إِذَا أَرَادَ اﷲُ بِعَبْدٍ خَيْرًا، فَقَّهَهُ فِي الدِّيْنِ وَأَلْهَمَهُ رُشْدَهُ.رَوَاهُ الْبَزَّارُ 1700.
اس علم کی عظمت ورفعت شان کا تقاضہ ہے کہ اسے ہر چیز سے “ماوراء “ ہوکے حاصل کیا جائے؛ کیونکہ بغیر قلبی جمعیت اور ذہنی یکسوئی کے اس علم کی تحصیل تقریبًا ناممکن ہے۔ ذہنی انتشار اور ماورائے علم سے روابط و تعلقات  محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ ہمہ تن مصروفِ عمل ہوئے بغیر مقصد میں درک وکمال کا حصول مشکل ہے:
لايُعْطِيكَ عِلْمٌ بَعضَهٗ حَتّٰى تُعْطِيَهٗ كُلَّكَ.
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے دور طالب علمی میں بیعت کی درخواست کی تھی جسے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے رد فرماتے ہوئے ختم کتب وفراغت پہ موقوف فرمادیا۔ امام مسلم رحمہ اللہ ایک حدیث کی تلاش وجستجو میں کھجور کا پورا ٹوکڑا کھاگئے اور عشق مقصد میں انہماک نے احساس تک نہ ہونے دیا اور پھر یہی "کمال جستجو" موت کا سبب بھی بنا۔ علامہ عبدالحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ دوران مطالعہ انڈی کا تیل پی گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ دور طالب علمی میں گھر سے آئے ہوئے خطوط کو ایک گھڑے میں جمع کرتے رہے اور کبھی چند سطری خط پڑھنے تک کی زحمت نہ فرمائی۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کے رہائشی ہونے کے باوجود دیوبند کی سڑکوں تک سے مکمل واقف نہ تھے۔ "احاطہ مولسری" اور "آستانہ شیخ الہند" کے سوا ساری چیزوں سے بیگانہ تھے۔ ہمارے اکابر علماء دین واسلاف کرام اسی امتیازی شان کے ساتھ علوم نبویہ کی تحصیل میں لگے اور پھر ان حضرات کی شکل میں ایسے محقق، محدث، مفسر، متکلم، قاضی، مفتی اور مصنف ومؤلف، امت کو ملے جن کی فکر آفاقی، نگاہ افلاکی اورپرواز لولاکی تھی۔ علوم ومعرفت کے بحر ناپیدا کنار، غور وتدبر، استنباط واستخراج کی صلاحیتوں سے مالا مال۔ عشق مقصد میں کمالِ جنون کا یہ عالم کہ "پانے کا خمار ہو نہ کھونے کا آزار" شوق کمال نہ خوف زوال۔
وہ  ایسے تھے جن کی جوتیوں میں سلاطین ونواب وقت "گنج گرانمایہ" نچھاور کردینے کو فخر سمجھیں۔جن کی تحقیق وتدقیق اور تلاش وجستجو ایسی کہ "قطرے میں دجلہ اور ذرے میں صحراء" کا گمان ہوچلے۔ پَر شومیِ قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کہ اب سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے عاری طلبہ کی بعض ایسی ٹیم (افراد کی بات ہے۔ کلیات کی نہیں) "ارزاں وفراواں" نظر آتی ہے جو علم وتحقیق کو "حرز جاں" اور "ورد زبان" بنانے کی بجائے حدیث وفقہ پڑھنے والی تپائیوں کے اوٹ میں ہی فیس بک، ٹوئیٹر، وہاٹس ایپ اور دیگر سماجی روابط کی سائٹس کے پیچھے  "مثل شمع" پگھل رہے ہیں۔ درسیات میں پختگی، خوب سے "خوب تر کی تلاش" صلاحیت ولیاقت میں استحکام اور مطالعہ وکتب بینی میں شب گزاری کی جگہ فیس بک پہ تبصرے، ٹوئیٹر پہ چٹ پٹے اور چٹخارے ٹوئٹ اور ٹرینڈ چلانے پہ ساری توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔۔اپنے درجہ میں  امتیازی نمبر اور مقام حاصل کرنے کی جستجو کی بجائے  سوشلستان میں تعارف اور تشہیر کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب بعض اوقات  "بونے اور کوتاہ قامت" ایسے فضلاء سے ملاقات ہوجاتی ہے جو فراغت کے بعد  "روشن خیالی" کا سارا نزلہ اچانک "ڈاڑھی اور ٹوپی" ہی پہ اتارڈالتے ہیں! اسمارٹ موبائل کے پرستار طلبہ دین میں سوشلستان کی سیر (سیر جہاں) کا جنون، کافی تشویشناک بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ ضرورت کو ضرورت کے دائرے میں رکھتے ہوئے استفادہ کی راہ تلاش کی جانی چاہئے۔ طلبہ جن علمائے دیوبند سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دور طالب علمی میں "بیعت" تک سے منع کردیا۔ انہی کے نام لیوا آج فیس بک اور ٹوئیٹر پہ ہمہ وقت متحرک وفعال رہ کے علمی کمال کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس صورت حال میں کبھی "اوجز"اعلاء السنن" بذل المجہود جیسا کارنامہ انجام پاسکتا ہے؟؟ ہر کام کے لئے آدمی ہے۔ اور ہر آدمی کے لئے کام ہے۔ خدارا اس تقسیم کو سمجھتے ہوئے اپنا قبلہ درست کیجئے! وہاٹس ایپ، ٹیلی گرام وغیرہ ایسے پلیٹ فارم ہیں جن میں شخصیات کی کماحقہ شناخت ہوتی نہیں ہے؛ اس لئے ان سماجی روابط کی سائٹوں کے دبیز پردے کے پیچھے، خود ساختہ مفکروں، محققوں ،زعماء و مصلحین کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مادر علمی کی طرف سے ملٹی میڈیا موبائل پہ پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ بڑا ہی خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل اقدام تھا۔ اسی طرح دارالعلوم کے طلبہ کی بیرون احاطہ ہاسٹلوں میں رہائش وقیام پر بھی سخت پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے، بیرون کی رہائش، شہری طلبہ سے آزادانہ میل جول سارے فتنوں اور تخریبی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔ اس پر بھی قدغن لگانے کی سخت ضرورت ہے۔ ارباب مدارس کو اس جانب گہرے غور وفکر اور اس نئے فتنہ کے تدارک اور سد باب کی جانب موثر لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ 
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_13.html

Friday, 10 January 2025

حضرت الاستاذ علامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری رحمہ اللہ: یادوں کے نقوش

حضرت الاستاذ علامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری رحمہ اللہ: یادوں کے نقوش 
 (ولادت 2 فروری 1938ء – وفات 22 دسمبر 2024ء)
--------------------------------
شمشیر حیدر قاسمی
---------------------------------
گہوارۂ علم و فن مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی نورانی فضا ہمیشہ سے بافیض علمی شخصیات سے منور رہی ہے، گرچہ نیرنگیِ زماں نے بارہا اس کاخِ فقیری سے ٹکرانا چاہا؛ مگر خود ہی پاش پاش ہوکر رہ گیا. کئی مرتبہ موجِ تند جولاں نے اس کی حسین زلفوں سے الجھ کر اس کی رونق اور خوب صورتی سے کھیلنا چاہا؛ مگر ناکام رہا، زمانۂ قیام سے اب تک اس کی رونقیں قائم ہیں، اور ان شآءاللہ یوں ہی قائم رہیں گیں، افراد آتے جاتے رہیں گے، یہ چمن یوں ہی آباد رہے گا، علم و معرفت کے اس فردوسِ بریں میں نوع بہ نوع کے گل و لالہ مسکراتے رہیں گے، نسرین و نسترن کی باہمی سرگوشیاں جاری رہیں گی، شبنمی قطرے حسین و جمیل پھولوں کے پنکھڑیوں پر موتی بن کر رقص کرتے رہیں گے، خلوص وللّٰہیت کے سانچے سے تیار شدہ نظام اپنے اصول و دستور کے مطابق چلتا رہے گا. (ان شآءاللہ)
تاہم وہ شخصیتیں جن کے دم سے اس گلشن علمی کی  شادابی قائم رہی. جن کے فیوض و برکات نے یہاں کے ذروں کو تابانی بخشنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کے چلے جانے پر باوجودیکہ کاروبارِ گلشن  اپنے نظام کے مطابق چلتا رہا؛ مگر نگاہ اہل بصیرت کو یہاں کی کلیوں کی مسکراہٹوں اور بلبلوں کی رقصوں میں غیر معمولی اداسی محسوس ہوئی، اور بھلے ہی بلا توقف مسند تدریس کی وہ رونقیں لوٹ آتی ہوں؛ مگر ان جانے والوں کی حسین یادوں کے چراغ سے خانۂ دل ہمیشہ روشنی حاصل کرتا رہا ہے، استاذ محترم حضرت العلامہ قمرالدین احمد قدس سرہ کی وفات حسرت آیات پر اداسی کا یہ احساس یقیناً بہت گہرا ہے، ان کی پاکیزہ یادیں اور بصیرت افروز باتیں ہم تشنگانِ علوم اور عقیدتمندوں کے دلوں کو ہمیشہ عشق الٰہی کی گرمی سے سرشار کرتی رہیں گی۔ علامہ قمرالدین احمد گورکھپوری قدس سرہ پاکیزہ صفات کے حامل روشن دل عالم دین، باکمال مشفق استاذ، نہایت مخلص مربی، سنت نبوی کے شیدا شیخِ طریقت اور باہمت وبا حوصلہ دور اندیش وکامیاب منتظم تھے. حضرت کے زمانۂ نظامتِ تعلیمات (1994-1995ء) میں ہم دارالعلوم کے مدرسہ ثانویہ (دارالشفاء کی عمارت) میں پڑھتے تھے. درسگاہ ثانویہ کی پر شکوہ عمارت کا افتتاح ہمارے چہارم عربی کے سال بہ تلاوت فدائے ملت حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی قدس سرہ ہوا۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ براہ راست حضرت علامہ کی خدمت میں دفترِ تعلمیات درخواست لیکر جانا ہوا. حضرت نے نہایت ہی سنجیدگی سے ہماری درخواست کو پڑھا، اور مسئلہ حل فرمادیا، طلبہ کی تربیت پر بہت گہری نظر رکھتے تھے. نہ صرف درسگاہ بل کہ بیرون درسگاہ بھی طلبہ کی نقل و حرکت پر ان کی کڑی نظر ہوتی تھی، یہ دور ان کی صحت وتوانائی کا تھا، عصا تھامے اکیلے ہی گشت فرماتے رہتے. آپ کی عصا بھی "مآربُ أُخرٰى" کی حامل تھی، بازار جاتے ہوئے اگر راستے میں کسی طالب علم کو طالب علمانہ شان کے خلاف کسی کام میں مشغول دیکھتے تو بر وقت فوری اور پوری تنبیہ فرماتے۔ اس کام کے لئے عصا کے معمولی اشارتی استعمال سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن کے قریب چائے خانے میں چند طلبہ بیٹھے ٹیلیویژن پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت اسمارٹ موبائل کیا نارمل سادہ موبائلز کی بھی آج کی طرح عمومی ترویج وافراط نہ تھی۔ حضرت کو کسی سفر میں جانا تھا، یا شاید سفر سے واپسی ہورہی تھی۔ ٹیلیویژن کے گرد مجتمع ان طلبہ پر حضرت کی نظر پڑگئی، بس پھر کیا تھا. حضرت نے وہیں ان پر لاٹھی چارج کردی، سارے طلبہ بے تحاشا بھاگ پڑے۔ وہ بہ ظاہر ایک روایتی "عالِم دین" تھے؛ لیکن بہ باطن اپنی ذات میں ایک "عالَمِ بے مثال" تھے۔ علماء دیوبند کے اقدار وروایات کے حسین ورثہ اور ان کی شناخت کا ایک معتبر حوالہ تھے، عالمانہ متانت، عظمت ووقار، تہذیب وشائستگی اور استغناء وخود داری کے پیکر تھے۔ دنیاوی جاہ وحشمت سے کوسوں دور تھے، انتہائی گہری نظر اور آفاقی فکر وشعور کے حامل تھے. ہمیں ان کی شخصیت کو لمبے عرصے تک بہت قریب سے پڑھنے کا موقع ملا. چھ سالہ دور طالب علمی میں ہم نے کبھی ان کے لہجے یا اسلوب میں سطحیت، جذباتیت یا ابتذال کا ابال نہیں دیکھا، ان کی باتیں اور ادائیں مصنوعی تکلف وتموج سے عاری وخالی ضرور ہوتیں؛ لیکن بڑی سبک گامی سے چپ چاپ دل میں اُتر کر دل کی دھڑکنوں کی ہم آہنگ ہوجاتیں اور پورے وجود میں ایک روحانی کیف وسرمستی کی پُراسرار فضا خلق کردیتیں۔ سنہ 1999 عیسوی میں مسلم شریف جلد اول اور سنن نسائی ان سے پڑھنے کی ہمیں سعادت ملی ہے. تدریس حدیث میں آپ منفرد اسلوب رکھتے تھے۔ آپ کا اندازِ تدریس نہایت مدلل، واضح، اور گہرائی پر مبنی ہوتا تھا۔ مضامین کی پیچیدگیوں کو آسان زبان میں سمجھانے میں مہارت رکھتے تھے. ناپ تول کر حسبِ ضرورت اور قدرِ ضرورت ہی کلام فرماتے. زائد لفظوں یا بحثوں کی کوئی گنجائش نہ ہوتی، بسا اوقات گزشتہ دروس کی تقریروں پر جاری درس کی تقریر کو "معطوف" فرماتے ہوئے اپنے منفرد ودلکش انداز میں گویا ہوتے "آج کی تقریر کو کل والی تقریر" سے ملالینا (من غير لفظه)۔ درسی مباحث میں عطف ومعطوف کا عملی مشاہدہ وتجربہ ہمارے لئے حیران کن لطف کا باعث تھا۔ اس سے زائد از ضرورت، اطناب نما اور لاطائل بحثوں سے اجتناب میں آپ کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ساعت اولی میں مسلم شریف جلد اول کا درس ہوتا۔ گرمی کے موسموں کی مختصر راتوں اور مطالعہ ومذاکرہ میں انہماک واشتغال کے باعث نیند پوری نہ ہونا، طبعیت میں انہیار اور آنکھوں میں بے خوابی کے آثار جھلکنا طبعی امر ہے، حضرت معمولی جھپکیوں کو تو نظر انداز فرما دیتے؛ لیکن سامنے بیٹھ کر باضابطہ "منامی اشغال ومراقبہ" کرنے والے طلبہ کو تربیتی نقطہ نظر سے "الف" ہوجانے (کھڑے ہوجانے) کا حکم فرماتے۔ حضرات اکابرین و اسلاف سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، درمیان درس طلبہ کے سامنے اکثر و بیشتر حضرات اکابر و اسلاف کے طرز زندگی اور ان کی اولو العزمی، سنت نبوی سے ان کی والہانہ وابستگی کے واقعات سناتے اور  ان کے نقوش زندگی سے سبق لینے کی ترغیب دیتے۔ مسلم شریف اور نسائی شریف کے دروس میں ہم نے دیکھا کہ اختلافی مسائل میں حضرت تھانوی، حضرت مدنی، مفتی عزیز الرحمن عثمانی، علامہ بلیاوی، مفتی کفایت اللہ دہلوی اور علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرھم (رحمہم اللہ اجمعین) کے اقوال اور ان کے دلائل بھی پیش فرماتے۔
امتیازی خصوصیات:
آپ تدریس کو صرف علم کی ترسیل تک محدود نہیں رکھتے تھے؛ بلکہ طلبہ کی اخلاقی اور فکری تربیت پر بھی زور دیتے تھے۔ ان کے دروس ومواعظ طلبہ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ منتظم اور مدرس ہر دو حیثیتوں سے آپ کی شخصیت میں شفقت اور تحمل کا عنصر غالب ونمایاں تھا، جو طلبہ کو آپ سے قریب رکھنے اور ایک مثبت تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں ممد ومعاون ہوا کرتا تھا۔ دارالاقامہ یا شعبہ تعلیمات کے مختلف انتظامی ادوار میں طلبہ کی مشکلات کو نہایت توجہ سے سنتے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ آپ کی یہ خصوصیت جہاں طلبہ کو آپ سے بے تکلف ہونے اور علمی سوالات پوچھنے کا حوصلہ فراہم کرتی تھی، وہیں اس مشفقانہ رویے نے تدریس کو ایک خوشگوار اور مؤثر عمل بھی بنا دیا تھا۔ الغرض حضرت الاستاذ کی شخصیت گوناگوں علمی کمالات ومحاسن اور اعلی روحانی نسبتوں کی حامل تھی، اس کے علی الرغم جلالت وشوکت کی بجائے متانت ووقار، حدت کی بجائے شفقت وملاطفت کے پیکر تھے. تربیت آپ کا شعار اور اتباع سنت آپ کی روح کی پکار تھی۔ آہ! آسمان علم ومعرفت کا یہ قمر منیر ٨٦ سال کی عمر میں ۲۲ دسمبر ۲۰۲۴ع ۱۹ جمادی الأخری ۱۴۴۶ہجری کو ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا! حضرت رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے کا تنہا صدمہ نہیں؛ بلکہ پورے علماء دیوبند کا اجتماعی صدمہ ہے. وہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے۔ ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام ابناے دیوبند کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ ان کی رحلت ان کے خانوادے اور دار العلوم دیوبند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے؛ کیونکہ ان کی وفات سے دارالعلوم نے اپنا ایک بے مثال مدرس ومحدث کھودیا ہے، جس پہ ہم مرحوم کے خانوادہ کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کو بھی تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
شمشیر حیدر قاسمی
( جمعہ 2؍ رجب المرجب 1446ھ 3؍ جنوری 2025ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_10.html

Tuesday, 7 January 2025

کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت اور مذاہبِ ائمہ

کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت اور مذاہبِ ائمہ 

----------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------

اسلام کے احکام، حکمت ومعقولیت، بلند مقاصد، انسانوں کی اصلاح، معاشرتی مساوات، اور روحانی تربیت کو شامل ہوتے ہیں۔ اِسبالِ ازار وقمیص؛ یعنی کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کو جو شریعت اسلامیہ میں واضح طور پہ منع کردیا گیا ہے تو اس کی حرمت وممانعت میں بھی جسمانی صفائی وطہارت، واضح اسلامی تشخص، مال و حیثیت کی نمائش سے اجتناب، رویے اور لباس میں عاجزی وانکساری کی تعلیم اور تواضع کا فروغ جیسے کئی اہم  حِکَم ومصالح اور اغراض ومقاصد شامل ہیں۔ قدیم زمانے میں (آج بھی بعض ملکوں میں) کپڑے کا زیادہ لمبا ہونا متکبرین اور اشرافیہ کی امارت اور شان و شوکت کی علامت سمجھا جاتا تھا، اپنی بڑائی وحیثیت جتانے اور مال ودولت کی نمائش کے لیے لمبے اور زمین پر گھسٹنے والے کپڑے پہنتے تھے، جس سے مال و دولت کی نمائش ہوتی تھی ، تکبر جیسی قابل نفرت روحانی بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے اس معاشرتی طرز لباس سے اسلام میں منع کردیا گیا اور مسلمانوں کو اپنے رویے اور لباس میں عاجزی اختیار کرنے کی عملی تربیت فرمائی:

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اللہ اس شخص کی طرف قیامت کے دن نظرِ رحمت  نہیں کرے گا، جو تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا زمین پر لٹکائے۔" (صحیح بخاری: 5788)

حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت: 

مَن جَرَّ ثوبَه خُيَلاءَ، لم يَنظُرِ اللهُ إليه يومَ القيامةِ —-“جو شخص اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ لٹکائے، اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔”أخرَجَه البُخاريُّ (3665) واللَّفظُ له، ومُسْلِم (2085).

اور حضرت جابر بن سُلَیم کی روایت:

إيَّاكَ وإسبال الإزارِ؛ فإنَّها مِن المَخِيلةِ، وإنَّ اللهَ لا يُحِبُّ المَخِيلةَ —-"ازار (کپڑا) لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر میں شامل ہے، اور بے شک اللہ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔" (أخرجه أبو داود (4084)، والبيهقي (21623)

اور ان جیسی دیگر احادیث کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیدیا گیا ہے، حرمت کی وجہ تکبر اور گھمنڈ ہے۔ اس علت وحکمت کے ساتھ اسبال ازار کی حرمت پہ ائمہ اربعہ متفق ہیں (دیکھئے الفتاوى الهندية: 5/333)، مواهب الجليل للحَطَّاب :1/220)، المجموع للنووي :4/454) كشَّاف القِناع للبُهُوتي 1/277).

لیکن اگر اسبال ازار بغیر غرور وتکبر کے کسی عارض کے باعث ہو تو کیا یہ صورت بھی حرمت میں داخل ہے یا اس کی گنجائش ہے؟ تو حنابلہ کے علاوہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں اس مسئلے میں کراہت کا قول منقول ہے، فقہاء حنابلہ، ابن العربي، امام ذهبي، اور علامہ ابن حجر عسقلانی وغیرھم کا رجحان اب بھی حرمت ہی کا ہے.

(وفي هذه الأحاديثِ أنَّ إسبالَ الإزارِ للخُيَلاءِ كَبيرةٌ، وأمَّا الإسبالُ لغَيرِ الخُيَلاءِ، فظاهرُ الأحاديثِ تَحريُمه). (فتح الباري (10/263). 

یعنی ان کے یہاں اسبال ازار مطلقاً حرام ہے، خواہ بقصدِ تکبر ہو یا نہ ہو۔ اِن حضرات کے پیش نظر وہ روایات ہیں جن میں تکبر کی قید کے بغیر مطلقاً ممانعت وارد ہوئی ہے:

۱: عن أبي هُريرةَ رَضِيَ اللهُ عنه، عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال: (ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ مِن الإزارِ، ففي النَّارِ—- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ازار (کپڑے) کا ہوگا، وہ آگ میں ہوگا۔” (أخرَجَه البُخاريُّ (5787).

۲: عن أبي ذَرٍّ الغِفارِيِّ رَضِيَ اللهُ عنه، عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال: (ثلاثةٌ لا يُكَلِّمُهم اللهُ يومَ القيامةِ ولا يَنظُرُ إليهم ولا يُزَكِّيهم ولهم عذابٌ أليمٌ، قال: فقرأها رسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ثلاثَ مَرَّاتٍ. قال أبو ذَرٍّ: خابوا وخَسِروا، من هم يا رسولَ اللهِ؟ قال: المُسبِلُ، والمَنَّانُ، والمُنَفِّقُ سِلعَتَه بالحَلِفِ الكاذِبِ— حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تین لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف نظر کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔" آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "وہ لوگ برباد اور خسارے میں ہیں، یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص جو اپنا کپڑا لٹکائے، وہ شخص جو کسی پر احسان جتائے، اور وہ شخص جو اپنی چیز بیچنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے۔" (أخرجه مُسْلِم (106) جبکہ ائمہ ثلاثہ میں شوافع وحنابلہ وجمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ مطلق روایات کو مقید روایات پر محمول کیا جائے گا، اور بقصد عجب وغرور ٹخنہ سے نیچے إسبال ازار  ہو تو ممنوع ہوگا ؛ ورنہ مکروہ تنزیہی ہوگا ۔ گوکہ بہتر (پہلا درجہ) یہی ہے کہ ازار نصفِ ساق (ٹخنہ اور گھٹنہ کے درمیان کی لمبی ہڈی کو ساق کہتے ہیں) تک  رہے، آدھی پنڈلی سے ٹخنے تک کے درمیان والے حصے تک بھی کوئی مضائقہ نہیں؛ یعنی جائز ہے (یہ دوسرا درجہ ہے)؛ لیکن ٹخنہ سے نیچے جو حصہ غرور وتکبر کی بنا پر لٹکا ہوا ہوگا وہ بہر صورت دوزخ میں لے جانے والا اور گناہ کبیرہ ہوگا؛ لیکن اگر طہارت ونظافت کے ساتھ ٹخنہ سے نیچے بھی کسی باعث بغیر کبر وغرور کے ہوجائے تو یہ حرام وممنوع نہیں ہے؛ بلکہ مکروہ تنزیہی ہے (یہ تیسرا درجہ ہے)، حرام صرف غرور وتکبر کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ہے، ہماری کتابوں میں بھی یہی درج ہے۔ ان کا مستدل ابن عمر کی حدیث بخاری (5783) ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر کو اجازت مرحمت فرمائی تھی (لست ممن يصنعه خيلاء):

۱: عن سالم عن ابن عمر "مَن جرَّ ثَوبَهُ خُيلاءَ لم ينظرِ اللَّهُ إليهِ يَومَ القيامةِ قالَ أبوبكرٍ: إنَّ أحدَ جانبَي إزاري يستَرخي، [إلَّا] إنِّي لأتعاهدُ ذلِكَ منهُ، قالَ: لستَ ممَّن يفعلُهُ خُيلاءَ (مسند احمد 5920) حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ ﴿حضرت عبداللہ بن عمر﴾ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص غرور کی بنا پر کپڑا زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہ دیکھے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میرے تہبند کا ایک حصہ لٹکتا رہتا ہے مگر میں اسے درست کرلیتا ہوں۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوگا جو غرور کی بنا پر ایسا کرتے ہیں۔"

۲: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَنَحْنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ مُسْتَعْجِلًا حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ وَثَابَ النَّاسُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَجُلِّيَ عَنْهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، وَقَالَ: "إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يَكْشِفَهَا" (بخاری 5785)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: "ایک مرتبہ سورج گہن ہوا، اور ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے۔ آپ ﷺ جلدی میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے اٹھے یہاں تک کہ مسجد پہنچے۔ لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہولیے۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور گہن دور ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ان میں سے کسی چیز کو (گہن وغیرہ) دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو یہاں تک کہ وہ گہن ختم ہوجائے۔"

۳: عن أبي سَعيدٍ الخُدريِّ رضي الله عنه، قال: قال رَسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: (إِزْرةُ المُسلِمِ إلى نِصفِ السَّاقِ، ولا حَرَجَ- أو لا جُناحَ- فيما بينه وبين الكَعبَينِ، ما كان أسفَلَ مِن الكَعبَينِ فهو في النَّارِ، مَن جَرَّ إزارَه بطَرًا لم ينظُرِ اللهُ إليه —-"مسلمان کا لباس نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے، اور ٹخنوں تک ہونے میں کوئی حرج یا گناہ نہیں۔ لیکن جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ آگ میں ہوگا۔ اور جو شخص اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ گھسیٹے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔" (أخرجه أبو داود (4093) واللَّفظُ له، والنَّسائي في (السنن الكبرى) (9717)، وابنُ ماجه (3573)، وأحمد (11397)

۴: عن عبدالله بن مسعود أنه كان يُسبل إزاره ، فقيل له في ذلك فقال إني رجل حمش الساقين. (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنا ازار (کپڑا) ٹخنوں سے نیچے رکھتے تھے۔ کسی نے ان سے اس بارے میں کہا تو انہوں نے جواب دیا: "میں کمزور پنڈلیوں والا آدمی ہوں۔") [رواه ابن أبي شيبة في مصنفه (6/27) طبعة دار الفكر ، وصححه ابن حجر في فتح الباري (10/264) طبعة دارالفكر] ان حضرات کا کہنا ہے کہ ان روایات میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر وعید ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو یہ کام تکبر کے ساتھ کرتے ہیں۔ لہذا، یہ اس بات کی دلیل ہوگی  کہ اگر کوئی بغیر تکبر کے کپڑا لٹکائے تو یہ حرام نہیں ہوگا، ہاں مکروہ تنزیہی ضرور ہوگا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: إسْبَالُ الرَّجُلِ إزَارَهُ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ إنْ لَمْ يَكُنْ لِلْخُيَلَاءِ فَفِيهِ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ، كَذَا فِي الْغَرَائِبِ. (الفتاوی الهندية ٣٣٣/٥) وحاشية البخاري للسهارنفوري رقم الحديث 3665)

البحرالرائق میں ہے: وَيُكْرَهُ لِلرِّجَالِ السَّرَاوِيلُ الَّتِي تَقَعُ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ( البحرالرائق ٢١٦/٨)

  بذل المجهود میں ہے: ‎من حديث حذيفة بلفظ "الإزار إلى أنصاف الساقين، فإن أبيت فأسفل، فإن أبيت فمن وراء الساقين، ولا حق للكعبين في الإزار"، انتهى.

وهذا صريح في أنه لا يجوز ستر الكعبين، وقال ابن عابدين في الكلام على آداب اللبس وأحكامه (٩/ ٥٠٦): ويكره للرجال السراويل التي تقع على ظهر القدمين، "عتابية"، انتهى. وهكذا في البحر (٢١٦/٨) 

وقال النووي في "شرح مسلم ٣١٣/٧): فالمستحب نصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، فما نزل عن الكعبين فهو ممنوع، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم وإلا فمنع تنزيه، انتهى الأبواب والتراجم ١٦٨/٦)

قال العلماء: المستحب في الإزار والثوب إلى نصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، فما نزل عن الكعبين فهو ممنوع، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم وإلَّا فمنع تنزيه. (بذل المجهود ١١٣/١٢…رقم الحديث 4085)

المنتقى شرح الموطأ (7/226)

حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني) (2/453)، مغني المحتاج) للشربيني (1/309)، (نهاية المحتاج) للرملي (2/382)، (شرح النووي على مُسْلِم) (14/62) المغني (2/298)

علامہ نووی صحیح مسلم ج۷، صفحہ ۳۱۳ میں فرماتے ہیں: ’’وأما الأحاديث المطلقة بأن ما تحت الكعبين في النار فالمراد بها ما كان للخيلاء، لأنه مطلق ، فوجب حمله على المقيد—اورجن احادیث میں مطلقاً آیا ہے کہ جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم میں ہے۔ اس سے مراد وہ کپڑا ہے جو تکبر کی وجہ سے لٹکایا گیا ہو۔ کیوں کہ یہ احادیث مطلق ہیں اور مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے.‘‘

حافظِ ثانی علامہ کشمیری رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ قیدِ خیلاء ممانعت وحرمت کی وجہ وعلت (مناط حکم) نہیں ہے، یہ قید واقعی ہے، اُس وقت عرب کے لوگ عجب وغرور کے لئے ہی إسبال ازار کرتے تھے، إسبال ازار کا فعل ہی تکبر کو مستلزم ہے، اب الگ سے اس میں نیت یا قصد تکبر کو نہیں ڈھونڈا جائے گا، حضرت جابر کی روایت "وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الإِزَارِ، فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ" (ابودائود ٤٠٨٤)– اسبالِ ازار سے بچو! کیوں کہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے) سے اس کی تائید ہوتی ہے؛ لہذا عجب وغرور ہو یا نہ ہو بہر دو صورت یہ ممنوع وناجائز ہوگا، ہاں جب بلا قصد وعمد ایسا ہوجائے تو معفوعنہ ہے، لیکن باضابطہ قصد وعمد کے ساتھ لمبا ازار پہننا اور اس کی عادت ڈالنا، اس فیشن کو رواج دینا سخت وعید نبوی کے پیش نظر بالکل جائز نہیں ہے: علامہ کشمیری فرماتے ہیں: "وجرُّ الثوب ممنوعٌ عندنا مطلقًا، فهو إذن من أحكام اللباس، وقصرَ الشافعيةُ النهي على قيد المخيلة—" "ہمارے نزدیک ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانا مطلقاً ممنوع ہے، لہٰذا یہ لباس کے احکام میں سے ہے۔ جبکہ شافعیہ نے اس ممانعت کو تکبر (یعنی مخیلہ) کی قید کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔" (فیض الباری ٧٢/٦) رقم الحديث 5783، الأبواب والتراجم (١٦٥/٦)

جہاں تک عمومی وعید والی روایات کو قیدِ خیلاء پر محمول کرنے والے استدلال کی بات ہے تو حنفیہ کے یہاں تو مطلق کو مقید پر محمول کرنے کی تو ویسے ہی گنجائش نہیں ہے کہ یہ لغت کے خلاف ہے (فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا﴾ [المجادلة: 3] رقبہ مطلقہ اور رقبہ مومنہ کے ذیل میں اس کی تفصیلات موجود ہیں) شوافع وغیرہ کے یہاں ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب مطلق ومقید روایت کا حکم وسبب ایک ہو، اگر حکم اور سبب مختلف ہوں تو مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جاسکتا، یہاں سبب اور حکم کا اختلاف واضح ہے:

1. حکم کا اختلاف:

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید یہ ہے کہ اللہ ایسے شخص کی طرف نظر نہیں کرے گا. (لم ينظر الله إليه يوم القيامة)

جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید یہ ہے کہ ایسا شخص جہنم میں داخل ہوگا. (ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ مِن الإزارِ، ففي النَّارِ)۔

2. سبب کا اختلاف:

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید کا سبب تکبر(من جر ثوبه خيلاء) ہے۔

جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید کا سبب ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا (ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ) ہے۔

لہذا، درست بات یہ ہے کہ اب مطلق روایت کو مقید صورت پر محمول نہیں کیا جاسکتا، اور ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانے کی یہ وعید دونوں صورتوں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے کپڑا تکبر کے ساتھ لٹکایا جائے یا بغیر تکبر کے۔

علاوہ ازیں جیساکہ ہم نے شروع میں عرض کیا احکام شرع کے متعدد اغراض ومقاصد وحِکَم ہوتے ہیں، یہاں بھی صرف تنہا عجب وغرور ہی وجہِ ممانعت نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے ساتھ کپڑا لٹکانے میں اور بھی کئی خرابیاں موجود ہیں:

1. عورتوں سے مشابہت:

کپڑا لٹکانے میں عورتوں سے مشابہت ہے، کیونکہ انہیں اپنے لباس کو زمین تک لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے۔

دلیل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اللہ نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی طرح لباس پہنے۔" (مسند احمد 8425)

2. نجاست کے لگنے کا خدشہ:

لباس لٹکانے سے یہ خطرہ رہتا ہے کہ نجاست اس سے لگ سکتی ہے۔

دلیل: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت، انہوں نے اس نوجوان سے کہا جو ان کے پاس آیا تھا: "اپنا کپڑا اوپر کرو، یہ تمہارے لباس کے لیے زیادہ صاف اور تمہارے رب کے لیے زیادہ متقی ہے۔" (صحیح ابن حبان 6918)

3. تکبر کا امکان:

لباس لٹکانا تکبر کے اظہار کا امکان رکھتا ہے۔

ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنا لباس ٹخنوں سے نیچے کرے اور کہے کہ میں اسے تکبر کے بغیر لٹکاتا ہوں، کیونکہ ممانعت کا حکم اس لٹکانے کو شامل ہے۔ اور جس شخص کا عمل اس ممانعت کو شامل ہو، اس کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ میں اس ممانعت کا مرتکب نہیں ہوں کیونکہ مجھ میں تکبر نہیں۔ یہ دعویٰ ناقابل تسلیم ہے، کیونکہ لباس کا طویل ہونا ہی دلیلِ تکبر ہے، اب جھوٹی خارجی وقولی وضاحتوں کی چنداں ضرورت نہیں. (عارضة الأحوذي" (7/238)

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "خلاصہ یہ ہے کہ کپڑا لٹکانے کا عمل لباس کو گھسیٹنے کا سبب بنتا ہے، اور لباس گھسیٹنے کا عمل تکبر کی طرف لے جاتا ہے، چاہے پہننے والے کی نیت تکبر کی نہ بھی ہو۔" (فتح الباري (10/264)

اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو  ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ازار کو گھسیٹنے سے بچو، کیونکہ ازار کا گھسیٹنا تکبر کی علامت ہے۔" (فتح الباري (10 / 264)

4. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ:

رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا کہ: "آپ ان لوگوں میں سے نہیں جو یہ تکبر کے ساتھ کرتے ہیں." اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بغیر تکبر کے کپڑا لٹکانا جائز ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ جب بھی ان کا ازار ڈھیلا ہو جاتا، وہ اسے درست کرلیتے تھے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے۔ آج کل إسبال ازار کی وکالت کرنے والے تو باضابطہ دراز قد پینٹ قصداً وعمداً خرید کر پہنتے ہیں، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے گنجائش ڈھونڈنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں، بلا قصد وعمد کے کبھی ایسا ہوجائے تو مجبوری کی یہ صورت کراہت تنزیہی کے زمرے میں آکر قابل عفو ہے جیساکہ فقہاء حنفیہ کا مذہب ہے؛ لیکن ٹخنہ سے نیچے ازار لٹکانے کا فیشن بنا لینا اس بابت سخت نبوی وعیدوں کے ہوتے ہوئے کسی بندہ مومن کے لئے قطعی جائز نہیں ہے، اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے۔ اس میں زندگی کے ہر گوشے کی تشفی بخش رہنمائی موجود ہے۔کسی بھی دوسرے مذہب اور تہذیب وتمدن سے کچھ لینے اور خوشہ چینی کی ضرورت نہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 208 میں مسلمانوں سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ بہت ہی عام ہے کہ اسلامی عقائد واعمال اور احکام وتعلیمات کی صداقت وحقانیت پہ دل ودماغ بھی مطمئن ہو اور اعضاء وجوارح اور وضع قطع بھی عملی ثبوت پیش کریں۔ارشادات نبوی سے معارض کسی عرف وکلچر کی کوئی وقعت نہیں۔ 

"ما أسفل من الكعبين من الإزار، ففي النار"  (جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ آگ میں ہوگا) کی توجیہ! 

حدیث کے ظاہر پر عمل کرنا بھی ممکن ہے کہ ازار لٹکانے والے کے کپڑے بھی دوزخ میں جائیں گے، جیساکہ ارشاد باری ہے: (إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ) [الأنبياء: 98]

طبرانی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "نبی اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا ازار لٹکایا ہوا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

"اے ابن عمر! جو کپڑا زمین کو چھوتا ہے، وہ آگ میں ہوگا۔ (”فَرَآنِي قَدْ أَسْبَلْتُ، فَجَاءَ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِي، وَقَالَ: "يَا ابْنَ عُمَرَ، كُلُّ شَيْءٍ مَسَّ الْأَرْضَمِنَ الثِّيَابِ، فَفِي النَّارِ "مسند احمد 5831)

علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ اس کی توجیہ دو طرح سے کی جا سکتی ہے:

1. یہ کہ ٹخنوں سے نیچے کا جو حصہ (پاؤں) ہوگا، وہ اس عمل کے بدلے میں سزا کے طور پر آگ میں ہوگا( تسمية الشيء باسم ما جاوره)

2. اس سے مراد یہ ہے کہ یہ اور وہ فعل جو اس نے کیا، وہ آگ کے اعمال میں سے شمار ہوگا، یعنی یہ ان اعمال میں شامل ہے جو اہلِ جہنم کے اعمال میں گنے جاتے ہیں۔ [معالم السنن (4/183) طبعة المكتبة العلمية]

نماز سے پہلے پائنچے اوپر کرنے کا اعلان؟ 

ٹخنہ سے نیچے کپڑے لٹکانا نماز کے اندر اور باہر ہر دو حالتوں میں مکروہ ہے. نماز کے اندر اس کی کراہت دو چند ہے. ابودائود کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتے (وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لا يَقْبَلُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ 543)

اگرکسی کالباس ایسا ہوکہ بلا قصد ٹخنے ڈھک جاتے ہوں تو اسے کم ازکم نمازسے پہلے پائنچہ اوپر کرلینا چاہیے، یہ عمل وعیدِ "کفّ ثوب" (لاَ أکُفُّ شَعْراً وَلاَ ثَوْباً․ بخاری 816) میں شامل نہیں ہے. "کف ثوب" یہ ہے کہ نمازی دوران نماز آستین وغیرہ فولڈ کرے۔ (قوله كمشمر كم أو ذيل) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله، وأشار بذلك إلى أن الكراهة لا تختص بالكف وهو في الصلاة (شامی 640/1) 

اگر نماز شروع ہونے سے قبل اس کی ہدایت کی جاتی ہے تو یہ درست عمل ہے؛ تاکہ نماز کراہت تحریمی سے بچ جائے، جو فعل نماز سے باہر گناہ ہو ،نماز میں اس کاگناہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

خلاصہ: إسبال ازار کی حرمت عام ہے، إسبال کا عمل بذات خود کبر وغرور کی دلیل ہے، اس ممانعت کی اصل حکمت  یہ ہے کہ انسان تکبر سے بچ کر عاجزی اختیار کرے، مال و دولت کی نمائش سے اجتناب کرے، صفائی کا خیال رکھے، اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرے۔ یہ ہدایت  نہ صرف ظاہری عمل کی اصلاح کے لیے ہے بلکہ باطنی صفات کو بھی بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ عذر ومجبوری اور لاعلمی کی صورتیں مستثنی ہیں، فقہاء حنفیہ کے اقوال کا محمل یہی ہے، لیکن قصد وارادہ کے ساتھ لمبا ازار وپینٹ پہننا اور اس کی ترویج واشاعت کرنا ناجائز اور قابل لعنت عمل ہے، جب اس عمل کو ہی دلیل تکبر بنادیا گیا تو اب نیتوں کی توجیہات ناقابل التفات واعتبار ہونگی، نماز کے اندر وباہر ہر جگہ یہ طریقہ ناجائز ہے، ازار اور کپڑے کے لیے مستحب وبہتر یہ ہے کہ وہ نصف پنڈلی تک ہو، بغیر کسی کراہت کے جائز یہ بھی ہے کہ ٹخنوں تک ہو؛ لیکن جو ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ ممنوع وناجائز ہے، پھر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ازراہ فیشن و عُجب وتکبر کے  ہو تو یہ سختی سے حرام وگناہ کبیرہ ہے، اور اگر بغیر تکبر کے لاعلمی میں کبھی کبھار ہوجائے یا کسی مجبوری کے تحت ہوجائے  تو یہ مکروہِ تنزیہی (ناپسندیدہ) ہے، چونکہ ٹخنہ ڈھک کے نماز پڑھنا مزید سنگین اور نماز مسترد کردیے جانے کا سبب ہے؛ اس لئے نماز میں داخل ہونے سے پہلے اس کا بطور خاص اہتمام ہونا چاہیے، اگر کوئی اس جانب توجہ مبذول کروائے (اعلان کرے) تو یہ شرعاً جائز ہے اس پر عمل کیا جائے اور کم از کم وقتی طور پہ فولڈ کرکے نماز پڑھ لے، فولڈ کا یہ عمل ممنوع ہیئت (کفّ ثوف) میں داخل نہیں ہے، جو لوگ اس پہ منفی پراپیگنڈہ کرتے ہیں وہ ادلہ شرعیہ کے درست تطبیق وتجزیہ سے قاصر ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب 

شکیل منصور القاسمی   

مركز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر)

(منگل6؍ رجب المرجب 1446ھ 7؍ جنوری 2025ء)

https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_7.html