Monday 12 August 2013

Indian jails overcrowded, Uttar Pradesh the worst! پردیش کی جیلوں میںکیسی ذلت کی زندگی گذاررہے ہیں قیدی!

ایس اے ساگر
یہ حقیقت قومی جرائم بیورو کی رپورٹ ظاہر کرچکی ہے کہ ایک ارب نفوس سے زائد آبادی والے ہندوستان کی جیلوں میں 21 فیصد قیدی مسلم ہیں۔حالانکہ ذرائع ابلاغ نے مذہبی بنیاد پر اعداد و شمار پیش نہیں کئے ہیں تاہم گذشتہ روز جن سنسنی خیز نتائج کا انکشاف ہوا ہے وہ انصاف پسند دیانتدار طبقہ کیلئے کسی تازیانہ سے کم نہیں ہیں۔قنوج جیل میں قیدی کی طرف سے خود کشی کرنے کے بعد قیدی ایسے بھڑکے کہ کئی گھنٹے تک انہوں نے جیل پر قبضہ جماے رکھا۔ معاملے میں ایک ڈپٹی جیلر کے ساتھ ہی 5 گارڈوں کا حکومت کوالآخرمجبور ہوکر ٹرانسفر کو کرنا پڑا۔ یہی نہیں معاملے میں مجسٹریل جانچ کے ساتھ ہی حکومت نے ایک جانچ کمیٹی بھی بنا دی۔ ابھی حکومت کا یہ حکم جاری ہوا ہی تھا کہ پتہ چلا کہ لکھنو ضلع جیل میں ایک قیدی نے باتھ روم میں پھانسی لگا لی۔ ظاہر ہے مرکزی حکومت میں سب سے زیادہ سیاست داں اور حکمراں میسر کروانے والی یوپی کی جیلوں کا حال ٹھیک نہیں ہے۔حکومت کی تمام کوششوں کے بعد بھی گزشتہ ایک سال میں درجنوں قیدی یا تو خود کشی کر چکے ہیں یا بیماری کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ یہی نہیں افراتفری کا عالم یہ ہے کہ کبھی بستی، کبھی میرٹھ، کبھی ہردوئی تو کبھی قنوج میں قیدی مشتعل ہو جا تے ہیں۔ ان تمام معاملات میں قیدی سب سے زیادہ جیل میں جانوروں جیسا سلوک، کھانے پینے کی بری حالت کے سلسلہ میں شکایت کرتے ہوئے ملے۔
یوپی کی سر زمین پر جہنم نمونہ:
 دیوریا جیل کو ہی لے لیجئے، یہاں امسال 11 جنوری کو ایک قیدی براہ راست عدالت میں جیل کی بنی ہوئی روٹی اور دال لے کر پہنچ گیا۔ اس نے جیل انتظامیہ کے خلاف شکایتی خط بھی داخل کر دیا لیکن ہوا کیا، اس قیدی کے ساتھ 7 قیدیوں کو الگ جیل منتقلی کر دیا۔ یہی نہیں اس جیل میں2مہینے بعد 2 قیدی خراب کھانے کی شکایت لے کر بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھے۔ ویسے بھی اترپردیش کی جیلوں پر اگر نظر ڈالیں تو یہاں کی کل 40 ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش کی حامل 65 جیلوں میں تقریبا 82 ہزار افرادمقید ہیں جبکہ ریاست کی جےلوں میں صلاحیت سے زیادہ قیدیوں کے علاوہ عملے کی کمی کی دوہرے مسئلہ سے بھی دوچار رہی ہیں۔ اگر مرکزی جیلوں کی بات کریں تو ریاست میں واقع 5 مرکزی جیلوں کی گنجائش محض 10 ہزار قیدیوں کی ہے لیکن ان جیلوں میں 27 ہزار سے زیادہ قیدی بند ہیں۔ جیلوں میںگنجائش سے دوگنی تعداد میں قیدیوں کے رکھنے کا سب سے بڑا سبب ہے کہ ریاست کے کشی نگر، سنت کبیرنگر، شراوستی، امروہہ، چندولی، سنت روی داس نگر، اوریا، ہاتھرس، مہوبہ، امیٹھی، ہاپوڑ، سنبھل اور شاملی اضلاع میں تو سرے سے ضلع جیل ہی میسر نہیں ہے جبکہ الہ آباد میں ایک مرکزی جیل تو ہے لیکن ضلع جیل نہیں بن سکی ہے۔جن اضلاع میں جیل نہیں ہے‘ ان اضلاع کے قیدیوں کو آس پاس کے اضلاع میں بھیجا جاتا ہے۔ امبیڈکر نگر، گوتم بدھ نگر، چترکوٹ اورکاس گنج سمیت 4 اضلاع میں نئی جیلیں بنانے کا کام چل رہا ہے لیکن یہ منصوبہ کب پایہ تکمیل کو پہنچے گا‘ یہ طے نہیں ہے۔ وہیں جیلوں میں حکام اور ملازمین کی تعیناتی کی صورتحال کی بات کریں تو قیدی تو جیلوں میں گنجائش سے دوگنے ہیں لیکن عملہ کی تعیناتی مجوزہ عہدوں سے بھی کم ہے۔ پوری ریاست کی جیلوں کیلئے ڈپٹی جےلروںکے 448 عہدے منظور ہیں جبکہ تعیناتی محض 222 ڈپٹی جےلروں کی ہے۔ اسی طرح جیلر کے 87 عہدے ہیں جبکہ تعینات محض 76 ہی ہیں۔
جیل کی ہوا کھاکے بھی ہوش نہ آیا راجہ کو:
ایک طرف جیلوں کی یہ حالت ہے جبکہ دوسری جانب آئے دن ہنگاموں کے واقعات پر جیل محکمہ کو کوئی راستہ ہی نہیں سوجھ رہا ہے۔ اس کے پاس یہی جواب ہے کہ ریاستی جیلوں میں قیدی ٹھنسے ہوئے ہیں‘ ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ نہ افسروں کی پوری تعداد میسر ہے نہ اہلکار ہیں۔ گزشتہ سال بدنام زمانہ رگھوراج پرتاپ سنگھ جیل وزیر بنے توتوقع کی جا رہی تھی کہ یوپی کی جیلوں میں بہتر ہوگا کیونکہ وہ خود کئی سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ وزیر بننے کے بعد راجہ بھیا نے کہا بھی کہ ریاست جیلوں میں قیدیوں کو مناسب سہولیات، علاج اور کھانامیسر نہیںہے جسے بہتر بنانا ان کی ترجیح ہوگی لیکن اپنے قریب سال بھر کے دور میںراجہ بھیاضیا الحق جیسے پولیس افسر‘مولانا خالد جیسے بے قصوروں کی شہادت کیلئے خبروں میں الزامات کا نشانہ بنتے رہے۔ یوں خانہ پوری کے طور پر کچھ جیلوں میں اچانک معائنہ، کچھ افسران پر کارروائی، کولر وغیرہ لگانے کے حکم کے علاوہ مزید کچھ نہیں کر سکے۔ اب راجندر چودھری جیل وزیر ہیںجبکہ وہ بھی جیلوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے تمام کوشش کئے جانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن زمینی حقیقت میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔زیادہ تر جیلوں میں حالت یہ ہے کہ کسی قیدی کے جیل میں داخل ہوتے ہی طرح طرح سے اس ظلم و ستم شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قیدی کو کام سے بچنا ہوتا ہے تو روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔بصورت دیگر قیدیوں کو جھاڑو لگانے، صفائی کرنے، کھانا تقسیم جیسے کام کرنے پڑتے ہیں۔ان کاموں سے بچنے کیلئے بیٹھکی کا سہارا لینا ہوتا ہے۔بیٹھکی کیلئے قیدیوں پر تعینات محافظ 90 سے 180 روپے فی شفٹ چارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر قیدیوں کو کوئی مزید سہولت مطلوب ہو تو وہ 1500 سے 2000 روپے تک مہینہ ادا کرتے ہیں۔
سلاخوں کے پیچھے بدعنوانی کا ہے بول بالا:
 ہاتا اسپیشل بیرک کا کوڈ کلام ہے جس میں انہیں عام قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ اگر قیدیوں کو الگ سے کھانا چاہئے تو 500 سے 800 روپے ہفتہ دینا پڑتا ہے جبکہ ملاقات کیلئے عام طور پر ہفتے میں دو دن طے ہیں لیکن اگر 2 دن سے زیادہ ملاقات کرنی ہے تو ہر ملاقات کے 500 روپے الگ سے ا داکرنے پڑتے ہیں۔ یہی نہیں جیلوں میں سگریٹ، بیڑی، پان مسالہ، موبائل جیسی سہولیات کیلئے الگ الگ ریٹ متعین ہیں۔ویسے اترپردیش کی جیلوں میں گزشتہ 4 سال کی بات کریں تو 3 درجن خود کشیاں ہو چکی ہیں۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں، ان الزامات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ کے مطابق 2009 میں 14، 2010 میں 6 اور 2011 میں 4 اور 2012 میں 4 قیدی خودکشی کر چکے ہیں۔ 2013 میں خود کشی کی شرح کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض2 دن میں2 قیدی قنوج اور لکھنو ¿ جیل میں خود کشی کر چکے ہیں۔10 مارچ، 2012 کو بستی جیل میں 28 سال کے قیدی سشیل کمار کی فائرنگ سے موت واقع ہو گئی۔حفاظتی اہلکا روں اور قیدیوں کے درمیان جم کر زور آزمائی ہوئی۔ 16 مارچ، 2012 کوکانپور دیہات کے رمابائی نگرمیں واقع جیل میں ہنگامہ ہوا۔سزا یافتہ قیدی رام شرن کی مشتبہ حالات میں موت کے بعد مشتعل قیدیوں نے جم کر توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی۔ 20اور21 مارچ 2012 کو مو ¿ جیل میں قیدی سعیدالرحمن کی مشتبہ حالات میں موت ہو گئی۔ قیدیوں کا الزام تھا کہ سعیدالرحمن کو بروقت طبی سہولت نہیں مہیا کروائی گئی تھی۔صبح سویرے قیدیوں اور جےل اہلکاروں کے درمیان زورآزمائی ہوئی، اس میں ڈپٹی جیلر راجیش سنگھ اور ادے راج پٹیل شدید زخمی ہو گئے۔
کون سنے گا مظلوموں کی فریاد؟
 سعیدالرحمن تو محض علامت ہے جبکہ یہی وہ جیلیں ہیں جہاںنہ جانے کتنے بے قصورمقید ہیں جبکہ مسلمان پرتشدد واقعات میں ملوث ہوئے بغیر پولیس اور ایجنسیوں کو انتہا پسندوں کے طور پر مطلوب رہتے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز جب چاہیں انہیں کہیں سے بھی گرفتار کر لیتی ہیں اور دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے جہاں وہ سالہا سال تک ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلتے ہیں حالانکہ عدالتیں سینکڑوں مشتبہ مسلمانوں کو باعزت بری کر چکی ہیں لیکن بری ہو جانے کے باوجود وہ تھانے چوکی کو دہشت گردوں کے طور پر مطلوب رہتے ہیں۔ جو کوئی ایک مرتبہ دہشت گردی کے الزام میں پکڑ لیا جاتا ہے وہ کم از کم دس پندرہ سال تک توانھی جیلوں میں بند ہو جاتا ہے۔ یہ جیل یاتراان کی زندگیاں برباد کر دیتی ہے۔ وہ اپنے حق میں لاکھ دلیلیں دیں انکے لواحقین انکی بے گناہی کے لاکھ ثبوت فراہم کریں انکو دہشت گردی کے الزام سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ گذشتہ دنوں ایک مسلمان کو جس کا نام محمد عامر ہے 14 سال کے بعد عدالت سے رہائی ملی۔ وہ عنفوان شباب میںپکڑا گیا تھا۔ زندگی کے قیمتی 14 سال جیل میں گزار کر نکلا تو قیدوبند کی صعوبتوں اور گزرے ہوئے ماہ و سال نے اس کے جسمانی خدوخال تک تبدیل کر دئے تھے۔ اس دوران اسکے جیل جانے کے صدمہ نے اس کے باپ کی زندگی لے لی تھی اور اسکی ماں بیماری سے بے حال ہو چکی تھی۔ جیلوں میں بند قیدیوں نے مختلف این جی اوز اور تنظیموں کو خطوط بھی لکھے ہیں جن میں اپنی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر انہیں رہائی نہ ملی تو وہ خودکشی کا ارتکاب کر لیں گے!


Indian jails overcrowded, Uttar Pradesh the worst!
By: S. A. Sagar
Inmates at a jail in Uttar Pradesh's Kannauj district have gone on the rampage over the alleged suicide of a prisoner due to harassment. inmates armed with sticks and stones have been protesting in the jail, some even clashing with the police since Wednesday night. Several inmates escaped their prison cells and climbed the roof of the jail as the police tried to control the chaos. The ruckus started after 51-year-old undertrial Kamlesh allegedly committed suicide due to harassment by the jail superintendent. The inmates are demanding that the superintendent be sacked and arrested for abetting the suicide. There is heavy deployment of personnel in and outside the jail and police forces have also been brought in from neighbouring districts of Kannauj, which is the Lok Sabha constituency of Uttar Pradesh Chief Minister Akhilesh Yadav's wife Dimple Yadav. The district administration has been trying to restore order and broker peace, but the inmates have refused to back off. 
How Sayed Ur Rehman killed?
Violent clashes have been reported between the Mau jail inmates and the prison authorities in Uttar Pradesh over the death of an under trial on Wednesday. According to reports, March 21, 2012, district jailors Uday Raj Patel and Rakesh Singh have sustained serious injuries in the incident and they have been admitted to the Mau district hospital for treatment. Five policemen are also reported to be injured in the incident. The clashes occurred after jail inmates accused the prison authorities of negligence and not providing timely medical assistance to an under trial Sayed Ur Rehman, who died this morning. The Mau jail inmates have blamed the prison authorities for the death of 22-year-old Rehman, who was a rape accused.
Uttar Pradesh the worst................
Indian jails are badly overcrowded, and the worst story comes from Uttar Pradesh.
Against a total authorized capacity for 307,052 prisoners in 1,374 jails across the country, there were 376,969 inmates, Minister of State for Home Jitendra Singh told the Lok Sabha Tuesday. Of the total number of prisoners, those under trial amounted to 250,204, or 66.4 percent of all inmates, the minister said in a statement. He said the central government had initiated a scheme for modernization of prisons to keep the prisoners 'in healthy and hygienic conditions'. The scheme covered raising additional prisons, repairing and renovating existing jails and building new barracks, improving sanitation and water supply, and building accommodation for prison staff, the minister said. Statistically, Maharashtra accounted for the maximum of 213 prisons, followed by Andhra Pradesh (141), Tamil Nadu (134), Madhya Pradesh (122), Rajasthan (108) and Karnataka (102). But while Maharashtra housed 16,180 undertrials in 213 jails, Uttar Pradesh's 62 prisons were packed with 59,058 men and women facing trial. Delhi has 10 jails and 8,931 undertrials, he added.
120813 utter pradesh ki jailo me kasi zillat ki zindagi guzaar rahey hey qaidi by s a sagar

No comments:

Post a Comment