مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟
-------------------------------
-------------------------------
اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر انسان کو جسمانی طاقت وقوت بخشی تاکہ وہ جسمانی محنت ومزدوری کرکے اپنی جسمانی ومعاشی ضروریات کی تکمیل کرسکے، اس کے بعد خدا کا کرم واحسان یہ ہوا کہ بعض بندوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا، تاکہ وہ از خود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔ جو شخص کسی کے ماتحت یعنی ملازم یا نوکر ہو اسے اسلام نے یہ تاکید کی ہے کہ "کھانے، پینے اور رہائش" جیسی اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے، ارشاد نبوی ہے:
............ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُ (صحيح البخاري. كتاب الإيمان 30)
جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے). "مزدور" کی مزدوری کے تئیں اسلام کا یہ بنیادی اصول ہے، جس سے "تنخواہ" یعنی بنیادی ضروریات کے تکفل اور مزدوری کی کم سے کم مقدار کے تعین کا اصول مستنبط ہوتا ہے، اسلامی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کا تعین اگرچہ واضح لفظوں میں لازماً نہیں ہوا ہے بلکہ اس مسئلے کو تراضی طرفین وباہمی رضامندی پہ موقوف کردیا گیا، کہ جس مقدار پر بھی دونوں فریق راضی ہوجائیں اسے اجرت بننا شرعا درست ہے.
(''الموسوعۃ الفقہیۃ": الأجرۃ ہي ما یلزم بہ المستأجر عوضًا عن المنفعۃ التي یتملکہا، وکل مما یصلح أن یکون ثمنًا في البیع یصلح أن یکون أجرۃ في الإجارۃ، وقال الجمہور: إنہ یشترط في الأجرۃ ما یشترط في الثمن ۔ (۱/۲۶۳ ، إجارۃ)
لیکن اوپر کی ذکر کردہ حدیث میں اجرت کی روح اور غرض ومقصد سے روشناس کرادیا گیا کہ مزدور؛ خواہ اجیر خاص ہو یا اجیر مشترک! دونوں کی محنتوں اور کوششوں کے بدلے اتنا محنتانہ دیا جائے جو زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور جس سے مزدور اپنی بنیادی ضرورت پوری کرسکے، یعنی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کی تعیین اشارتی طور پر تکفل ضروریات پہ منحصر کردی گئی ہے، جبکہ مزدوری کی اکثر مقدار کو مزدوروں کی لیاقت، قابلیت، تجربہ، ذہانت وغیرہ پہ منحصر کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے فن وہنر واہلیت کے تفاوت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اور من پسند مزدوری باہمی رضامندی سے طے کریں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوری طے کئے بغیر کسی کو مزدور رکھنے سے منع کیا:
حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ أَجْرُهُ وَعَنْ النَّجْشِ وَاللَّمْسِ وَإِلْقَاءِ الْحَجَرِ (مسند أحمد رقم الحديث 11255)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کسی شخص کو مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی اجرت واضح نہ کردی جائے، نیز بیع میں دھوکہ، ہاتھ لگانے یا پتھر پھینکنے کی شرط پر بیع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اور پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری دیدینے کا حکم دیا:
[ص: 817]
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَطِيَّةَ السَّلَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ. (سنن ابن ماجة.كتاب الرهون. باب أجر الأجراء
رقم الحديث 2443.)
عباس بن ولید، وہب بن سعید بن عطیہ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔ اقتتصادی ماہرین اور متعدد ملکوں اور ریاستوں کی عدلیہ کی جانب سے مزدوروں، غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزدوروں کی یومیہ اقل ترین مزدوری کی تعیین کرکے اسے اپنی اپنی ریاستوں میں قانونی وآئینی حیثیت دی جارہج رہی ہے، جس کی خلاف ورزی کو تعزیراتی عمل قرار دیا جارہا ہے، شریعت اسلامیہ میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے تئیں بڑی سخت تاکید آئی ہے، ان کے حقوق ہضم کرجانے یا ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے پہ درد ناک و عید وارد ہوئی ہے۔ اسلام نے۔۔ان کے اموال ومزدوری کو ناحق ہضم کرجانے کو حرام وناجائز قرادیا ہے:
وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم وَلا تُفسِدوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلاحِها ذلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿85٥﴾ سورة الأعراف)
یعنی لوگوں کے حقوق کھاکر ظلم نہ کرو اور ان میں کمی نہ کرو۔ (ولا نفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا) یعنی انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور انصاف کا حکم دینے سے جو اصلاح ہوئی اس کے بعد فساد نہ کرو اور جس نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا تو وہ اس قوم کی اصلاح ہے (ذلکم خیر لکم ان کنتم مئومنین) یعنی جس کا تم کو حکم دیا یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ حیثیت کے باوجود قرض خواہوں اور مزدوروں کی مزدوری ادا نہ کرنے کو ظلم قرار دیا:
حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ (صحيح البخاري. كتاب الحوالة رقم الحديث 2166)
عبداللہ بن یوسف، مالک، ابوالزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مالدار کا ادائے قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی شخص کا قرض مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔ مزدور کے حقوق ہضم کرلینے والوں کو قیامت میں سزا ہوگی اور اللہ تعالی خود مزدور کی طرف سے روز قیامت جگھڑیں گے :
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ (صحيح البخاري. كتاب البيوع رقم الحديث 2114. بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کرایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی). (بخاری)
اسلام کی اس قدر واضح ہدایات اور وعیدوں کے باوجود مزدوروں کے حقوق میں کوتاہی کرنا بہت تشویشناک امر ہے ، مادر وطن ہندوستان کی عدالت عظمی کی طرف سے اس بابت جو مبینہ شرح اجرت ذرائع ابلاغ میں آئی ہے اس پہ اخلاقی طور پہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو بھی عمل در آمد کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے:
مجریہ 31.10.2018 کے مطابق کم از کم منصفانہ اجرتوں کی شرح درج ذیل ہے:
غیر تربیت یافتہ فی یوم ۵۳۸۔ ماہانہ ۱۴۰۰۰ (چودہ ہزار)۔ تھوڑا تربیت یافتہ: فی یوم ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ تربیت یافتہ فی یوم ۶۵۲۔ ماہانہ ۱۶۹۶۲ (سولہ ہزار نو سو باسٹھ۔ یہ شرح ناخواندہ طبقے کے لیے ہے۔ جب کہ خواندہ طبقہ کے لیے اگر میٹرک بھی پاس نہیں کرسکا ہے، تو پر دن ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ میٹرک پاس ہے، مگر گریجویشن نہیں کیا ہے، تو اس کے لیے پر دن ۶۵۲۔ اور ماہانہ ۶۹۶۲۔ اور گریجویشن یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے، تو ایک دن کی شرح اجرت ۷۱۰ ہے۔ اور ماہانہ ۱۸۴۶۲ (اٹھارہ ہزار چار سو باسٹھ ہے)
مدارس اسلامیہ میں عموماً اس وقت تنخواہ کاجو فرسودہ نظام ہے وہ (باستثناء قلیل) کافی حد تک المناک بلکہ ظالمانہ ہے، درسگاہوں سے ہوکے بیت الخلائوں تک کی عمارتوں کی تزئین میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے جھونک دیئے جاتے ہیں، جبکہ رات ودن طلبہ پہ محنت کرکے اپنی زندگیاں کھپانے والے اساتذہ وہی پانچ یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ کے زیرقہر پس رہے ہوتے ہیں، مدارس کے سارے نظام میں جدت آگئی ، جھونپڑی فلک نما عمارتوں میں تبدیلی ہوگئی، آرام وآسائش کی ساری ماڈرن چیزیں دستیاب ہیں، مگر قلت تنخواہ کا فرسودہ نظام جوں کا توں باقی ہے، اس بے رحم نظام کا اثر ہے کہ اچھے، قابل، باصلاحیت اور محنتی اساتذہ مدارس کا رخ نہیں کرتے، معاشی مجبوریوں اور مدارس کی تنخواہ والے نظام سے مجبور ہوکے جید فضلاء اپنی راہیں بدل رہے ہیں، اور یوں قابل ترین فضلاء مدارس، امت اور مدارس اسلامیہ کا قیمتی ترین سرمایہ ضائع ہورہا ہے،
اقل ترین تنخواہ کی مقدار اگرچہ شرعا منصوص ومحدَّد نہیں، لیکن بنیادی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ مشروط ضرور ہے، آج مدارس کے اساتذہ کرام مدارس میں رہتے ہوئے خود کو "قید زنداں" میں محسوس کررہے ہیں، بچوں کی تعلیم، اہل خانہ کے علاج معالجہ اور ناگہانی حوادث کے وقت دوسروں سے قرض لیتے پہریں تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں جو منشاء نبوی کے خلاف ہے۔
اساتذہ مدارس کو مرفّہ الحال کردینے کی وکات کوئی نہیں کرتا لیکن کم از کم ان کی بنیادی ضروریات کی کفایت کے بقدر اجرت تو ضرور متعین کریں، اجرت اور مزدوری کرنے کی غرض بھی یہی ہے، عدالت عظمی کی مذکور شرح تنخواہ کی پیروی ذمہ داران مدارس بھی کریں ،تنخواہوں کے قدامت پسندانہ ، فرسودہ و ظالمانہ نظام تنخواہ میں مناسب حال تعدیل اور جدت لائی جائے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے کارکنان واساتذہ کرام کے لئے "عطاء" یعنی بخشش اور اکرامیہ کا نظام متعارف کرایا جائے، متلعہ ذمہ داریوں سے زیادہ کام لینے پر اضافی رقم دی جائے، تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے، اور وہ مزید محنت، لگن، خلوص اور جانفشانی سے طلبہ پہ محنت کرسکیں، نظام بنانے کی دیر ہے، دینے والوں کی کمی نہیں، جو قوم عمارتوں کی مدات میں کروڑوں دے سکتی ہے وہ اساتذہ کی مشاہرات کی مد میں بھی دے گی اور خوب دے گی۔
واللہ اعلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
یکم مئی 2023ء
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/blog-post_30.html