Wednesday, 30 April 2025

مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟

 مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟

-------------------------------
اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر انسان کو جسمانی طاقت وقوت بخشی تاکہ وہ جسمانی محنت ومزدوری کرکے اپنی جسمانی ومعاشی ضروریات کی تکمیل کرسکے، اس کے بعد خدا کا کرم واحسان یہ ہوا کہ بعض بندوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا، تاکہ وہ از خود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔ جو شخص کسی کے ماتحت یعنی ملازم یا نوکر ہو اسے اسلام نے یہ تاکید کی ہے کہ "کھانے، پینے اور رہائش" جیسی اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے، ارشاد نبوی ہے:
............ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُ (صحيح البخاري. كتاب الإيمان 30)
جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے). "مزدور" کی مزدوری کے تئیں اسلام کا یہ بنیادی اصول ہے، جس سے "تنخواہ" یعنی بنیادی ضروریات کے تکفل اور مزدوری کی کم سے کم مقدار کے تعین کا اصول مستنبط ہوتا ہے، اسلامی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کا تعین اگرچہ واضح لفظوں میں لازماً نہیں ہوا ہے بلکہ اس مسئلے کو تراضی طرفین وباہمی رضامندی پہ موقوف کردیا گیا، کہ جس مقدار پر بھی دونوں فریق راضی ہوجائیں اسے اجرت بننا شرعا درست ہے.
(''الموسوعۃ الفقہیۃ": الأجرۃ ہي ما یلزم بہ المستأجر عوضًا عن المنفعۃ التي یتملکہا، وکل مما یصلح أن یکون ثمنًا في البیع یصلح أن یکون أجرۃ في الإجارۃ، وقال الجمہور: إنہ یشترط في الأجرۃ ما یشترط في الثمن ۔ (۱/۲۶۳ ، إجارۃ)
لیکن اوپر کی ذکر کردہ حدیث میں اجرت کی روح اور غرض ومقصد سے روشناس کرادیا گیا کہ مزدور؛ خواہ اجیر خاص ہو یا اجیر مشترک! دونوں کی محنتوں اور کوششوں کے بدلے اتنا محنتانہ دیا جائے جو زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور جس سے مزدور اپنی بنیادی ضرورت پوری کرسکے، یعنی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کی تعیین اشارتی طور پر تکفل ضروریات پہ منحصر کردی گئی ہے، جبکہ مزدوری کی اکثر مقدار کو مزدوروں کی لیاقت، قابلیت، تجربہ، ذہانت وغیرہ پہ منحصر کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے فن وہنر واہلیت کے تفاوت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اور من پسند مزدوری باہمی رضامندی سے طے کریں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوری طے کئے بغیر کسی کو مزدور رکھنے سے منع کیا:
حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ أَجْرُهُ وَعَنْ النَّجْشِ وَاللَّمْسِ وَإِلْقَاءِ الْحَجَرِ (مسند أحمد رقم الحديث 11255)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کسی شخص کو مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی اجرت واضح نہ کردی جائے، نیز بیع میں دھوکہ، ہاتھ لگانے یا پتھر پھینکنے کی شرط پر بیع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اور پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری دیدینے کا حکم دیا:
[ص: 817]
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَطِيَّةَ السَّلَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ. (سنن ابن ماجة.كتاب الرهون. باب أجر الأجراء
رقم الحديث 2443.)
عباس بن ولید، وہب بن سعید بن عطیہ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔ اقتتصادی ماہرین اور متعدد ملکوں اور ریاستوں کی عدلیہ کی جانب سے مزدوروں، غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزدوروں کی یومیہ اقل ترین مزدوری کی تعیین کرکے اسے اپنی اپنی ریاستوں میں قانونی وآئینی حیثیت دی جارہج رہی ہے، جس کی خلاف ورزی کو تعزیراتی عمل قرار دیا جارہا ہے، شریعت اسلامیہ میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے تئیں بڑی سخت تاکید آئی ہے، ان کے حقوق ہضم کرجانے یا ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے پہ درد ناک و عید وارد ہوئی ہے۔ اسلام نے۔۔ان کے اموال ومزدوری کو ناحق ہضم کرجانے کو حرام وناجائز قرادیا ہے:
وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم وَلا تُفسِدوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلاحِها ذلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿85٥﴾ سورة الأعراف)
یعنی لوگوں کے حقوق کھاکر ظلم نہ کرو اور ان میں کمی نہ کرو۔ (ولا نفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا) یعنی انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور انصاف کا حکم دینے سے جو اصلاح ہوئی اس کے بعد فساد نہ کرو اور جس نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا تو وہ اس قوم کی اصلاح ہے (ذلکم خیر لکم ان کنتم مئومنین) یعنی جس کا تم کو حکم دیا یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ حیثیت کے باوجود قرض خواہوں اور مزدوروں کی مزدوری ادا نہ کرنے کو ظلم قرار دیا:
حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ (صحيح البخاري. كتاب الحوالة رقم الحديث 2166)
عبداللہ بن یوسف، مالک، ابوالزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مالدار کا ادائے قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی شخص کا قرض مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔ مزدور کے حقوق ہضم کرلینے والوں کو قیامت میں سزا ہوگی اور اللہ تعالی خود مزدور کی طرف سے روز قیامت جگھڑیں گے :
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ (صحيح البخاري. كتاب البيوع رقم الحديث 2114. بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کرایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی). (بخاری)
اسلام کی اس قدر واضح ہدایات اور وعیدوں کے باوجود مزدوروں کے حقوق میں کوتاہی کرنا بہت تشویشناک امر ہے ، مادر وطن ہندوستان کی عدالت عظمی کی طرف سے اس بابت جو مبینہ شرح اجرت ذرائع ابلاغ میں آئی ہے اس پہ اخلاقی طور پہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو بھی عمل در آمد کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے:
مجریہ 31.10.2018 کے مطابق کم از کم منصفانہ اجرتوں کی شرح درج ذیل ہے:
غیر تربیت یافتہ فی یوم ۵۳۸۔ ماہانہ ۱۴۰۰۰ (چودہ ہزار)۔ تھوڑا تربیت یافتہ: فی یوم ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ تربیت یافتہ فی یوم ۶۵۲۔ ماہانہ ۱۶۹۶۲ (سولہ ہزار نو سو باسٹھ۔ یہ شرح ناخواندہ طبقے کے لیے ہے۔ جب کہ خواندہ طبقہ کے لیے اگر میٹرک بھی پاس نہیں کرسکا ہے، تو پر دن ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ میٹرک پاس ہے، مگر گریجویشن نہیں کیا ہے، تو اس کے لیے پر دن ۶۵۲۔ اور ماہانہ ۶۹۶۲۔ اور گریجویشن یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے، تو ایک دن کی شرح اجرت ۷۱۰ ہے۔ اور ماہانہ ۱۸۴۶۲ (اٹھارہ ہزار چار سو باسٹھ ہے)
مدارس اسلامیہ میں عموماً اس وقت تنخواہ کاجو فرسودہ نظام ہے وہ (باستثناء قلیل) کافی حد تک المناک بلکہ ظالمانہ ہے، درسگاہوں سے ہوکے بیت الخلائوں تک کی عمارتوں کی تزئین میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے جھونک دیئے جاتے ہیں، جبکہ رات ودن طلبہ پہ محنت کرکے اپنی زندگیاں کھپانے والے اساتذہ وہی پانچ یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ کے زیرقہر پس رہے ہوتے ہیں، مدارس کے سارے نظام میں جدت آگئی ، جھونپڑی فلک نما عمارتوں میں تبدیلی ہوگئی، آرام وآسائش کی ساری ماڈرن چیزیں دستیاب ہیں، مگر قلت تنخواہ کا فرسودہ نظام جوں کا توں باقی ہے، اس بے رحم نظام کا اثر ہے کہ اچھے، قابل، باصلاحیت اور محنتی اساتذہ مدارس کا رخ نہیں کرتے، معاشی مجبوریوں اور مدارس کی تنخواہ والے نظام سے مجبور ہوکے جید فضلاء اپنی راہیں بدل رہے ہیں، اور یوں قابل ترین فضلاء مدارس، امت اور مدارس اسلامیہ کا قیمتی ترین سرمایہ ضائع ہورہا ہے،
اقل ترین تنخواہ کی مقدار اگرچہ شرعا منصوص ومحدَّد نہیں، لیکن بنیادی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ مشروط ضرور ہے، آج مدارس کے اساتذہ کرام مدارس میں رہتے ہوئے خود کو "قید زنداں" میں محسوس کررہے ہیں، بچوں کی تعلیم، اہل خانہ کے علاج معالجہ اور ناگہانی حوادث کے وقت دوسروں سے قرض لیتے پہریں تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں جو منشاء نبوی کے خلاف ہے۔
اساتذہ مدارس کو مرفّہ الحال کردینے کی وکات کوئی نہیں کرتا لیکن کم از کم ان کی بنیادی ضروریات کی کفایت کے بقدر اجرت تو ضرور متعین کریں، اجرت اور مزدوری کرنے کی غرض بھی یہی ہے، عدالت عظمی کی مذکور شرح تنخواہ کی پیروی ذمہ داران مدارس بھی کریں ،تنخواہوں کے قدامت پسندانہ ، فرسودہ و ظالمانہ نظام تنخواہ میں مناسب حال تعدیل اور جدت لائی جائے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے کارکنان واساتذہ کرام کے لئے "عطاء" یعنی بخشش اور اکرامیہ کا نظام متعارف کرایا جائے، متلعہ ذمہ داریوں سے زیادہ کام لینے پر اضافی رقم دی جائے، تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے، اور وہ مزید محنت، لگن، خلوص اور جانفشانی سے طلبہ پہ محنت کرسکیں، نظام بنانے کی دیر ہے، دینے والوں کی کمی نہیں، جو قوم عمارتوں کی مدات میں کروڑوں دے سکتی ہے وہ اساتذہ کی مشاہرات کی مد میں بھی دے گی اور خوب دے گی۔
واللہ اعلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
یکم مئی 2023ء
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/blog-post_30.html



"وداعِ جانِ کائنات" (وفاتِ نبوی)

"وداعِ جانِ کائنات" (وفاتِ نبوی )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا آغاز 29 صفر سن 11 ہجری، بروز پیر ہوا، جب آپ جنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے بعد لوٹ رہے تھے کہ اچانک سخت بخار اور شدید دردِ سر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگھیرا۔ رنج و تعب کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ روز تک امت کی نمازوں کی امامت فرمائی۔ مرض بڑھتا گیا اور بیماری کا دورانیہ تیرہ 13 یا چودہ 14 دنوں پر محیط ہوگیا۔ جب مرض کی شدت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نڈھال کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار استفسار فرمانے لگے: “کل کہاں قیام ہوگا؟” اشارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف تھا۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بصد رضا اجازت مرحمت فرمائی. (صحیح البخاري 4450).
یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب ترین مقام پر منتقل ہوگئے، جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دن رات تندہی سے تیمارداری اور دعاء ورقیہ کرتی رہیں۔ بدھ کے دن، مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ سات مشکیزوں کا پانی منگوایا گیا. (البخاري 4442، ومسلم 418)
غسل فرمایا اور مسجد نبوی میں حاضر ہوکر منبر پر تشریف فرما ہوئے، خطاب فرمایا، جس میں امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے یہود و نصاریٰ کی قبور پر تعظیم کی لعنت بیان کی.” (البخاري 4443، ومسلم 529)
اور دعا فرمائی:
“اللهم لا تجعل قبري وثنًا يعبد"
(اے اللہ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا کہ جس کی پوجا کی جائے. (موطأ الإمام مالك 414 عن عطاء بن يسار مرسلاً)
اسی مجلس میں انصار کے مقام و مرتبہ کو سراہا، ان سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی. (البخاري 2801، ومسلم 2510)
اپنے وصال کا اشارہ دیا اور امت کی امارت قریش میں برقرار رکھنے کی وصیت کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت پر خصوصی گفتگو فرمائی، اور مسجد نبوی میں صرف انہی کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم صادر فرمایا. (البخاري 3904، ومسلم 2382)
وفات سے چار روز قبل جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری وصیت لکھوانے کا ارادہ فرمایا تاکہ امت اختلاف سے بچ جائے۔ کاتب طلب کیا گیا، لیکن اہلِ مجلس کے باہمی اختلاف کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: “مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہی بہتر ہے۔” پھر زبانی طور پر نصیحتیں فرمائیں: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکالنے، وفود کی عزت کرنے، اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنے، نماز، خواتین وغلام کے حقوق کے خصوصی لحاظ وغیرہ سے متعلق احکام پر تاکید کی. (البخاري 4431، ومسلم 1637)
جب مرض نے شدت اختیار کرلی اور نقاہت حد کو پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کی امامت کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا. (البخاري 713، ومسلم 418)
ایک دن کچھ افاقہ محسوس ہوا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کے سہارے مسجد تشریف لائے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔ جب حیاتِ طیبہ کے آفتاب کے غروب کا وقت قریب آیا (وفات سے ایک روز قبل) تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد کردیا، اور جو تھوڑا سا مالِ متروکہ تھا (محض سات دینار) اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ دولت و دنیا سے دامن یوں خالی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس قرض کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی۔ اور یہ عالمِ فقر و استغنا تھا کہ اس آخری شب میں، جب گھر میں چراغ جلانے کو تیل بھی میسر نہ تھا، تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پڑوس کی کسی انصاری خاتون سے ادھار تیل لے کر شبِ وداع کے چراغ کو جلایا۔ (البخاري 2916)
"ہائے اللہ! ایسی غربت، ایسی بے نیازی، کہ دنیا میں تاج بھی جھکے ہوئے تھے، مگر چراغ جلانے کو تیل بھی ادھار مانگنا پڑا۔ اور پھر وہی چراغ، وہی روشنی، تمام دنیا کو قیامت تک کے لیے ہدایت کی جوت بخشنے والا بن گیا۔ اور یہی وہ فقر تھا جس پر انبیاء (علیہم السلام) کو بھی فخر تھا۔ اور یہ وہ آخری شبِ زہد وقناعت تھی جس نے آسمانوں کے در و دیوار پر بھی سکتہ طاری کردیا تھا!"
(وفي الليل استعارت عائشة الزيت للمصباح من جارتها، وكانت درعه صلى الله عليه وسلم مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من الشعير. الرحيق المختوم ص 429)
زندگی کا آخری سورج طلوع ہوا، پیر کی صبح فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صف بستہ نماز میں مشغول دیکھا، خوشی سے چہرہ انور کھل اٹھا، لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ اپنی نماز جاری رکھو. (البخاري 4448، ومسلم 419).
(یہ لمحہ آپ صلی اللہ علیہ کی امت پر آخری عنایت، شفقت ومہربانی تھی۔ دن چڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا، فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا خراماں خراماں چلی آئیں، ان کی چال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کی تصویر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے شفقت سے فرمایا: “مرحبا اے جانِ پدر!” اور پہلو میں جگہ دی۔ آہستہ کچھ فرمایا، وہ اشکبار ہوگئیں؛ پھر سرگوشی کی، تو چہرہ فرحت سے کھل اٹھا۔ بعد از وصال نبوی رونے اور ہنسنے سے پردہ اٹھاتے ہوئے گویا ہوئیں: حضور صلی اللہ علیہ نے دنیا سے رخصتی کی خبر دی تھی، جس پر روئی، اور جنتی عورتوں کی سرداری اور اہل بیت میں سب سے پہلے بابا سے آملنے کی بشارت دی، جس پر ہنس پڑی) (صحیح بخاری 3623، 6286، و مسلم 2450)
پھر اپنے نواسوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو قرب سے نوازا، دعائیں دیں، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت فرمائی. (البخاري 4462)
ازواجِ مطہرات کو نصیحتیں کیں اور اللہ کی ملاقات کے لیے خود کو تیار کرنے کا کہا۔ مرض کی شدت کے دوران زبان مبارک پر یہ جملے بار بار جاری تھے: “میں آج بھی خیبر کے دن کھائے گئے زہر کے اثرات کو محسوس کررہا ہوں۔” (البخاري 4428)
جب وقتِ وصالِ حق قریب آیا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں، ان کے سینے پر ٹیک لگائے، قریب رکھا ہوا پانی کا برتن کبھی ہاتھ میں لیتے، کبھی چہرے پر پھیرتے اور شدتِ مرض سے یہ دعائیں کرتے:
“اللهم اغفرلي، وارحمني، وألحقني بالرفيق الأعلى۔”
(اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، اور مجھے بلند ترین رفیقوں میں شامل کرلے. (البخاري 4440،4449, ومسلم 2443)
یہ دعا تین مرتبہ دہراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان، خالقِ حقیقی کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
وفات کے وقت عمر مبارک:
یہ روزِ سوموار، چاشت کا وقت، بارہ ربیع الاول سن 11 ہجری کا واقعہ تھا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں یے کہ 63 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی (بخاری 3902، 1205، مسلم 2351)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی یہی فرماتی ہیں. (بخاری 3536، مسلم 2349)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم، تینوں 63 سال کی عمر میں وفات پائے. (مسلم 2348).
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شدتِ غم سے پکار اٹھیں:
“وا ابتاه! أجاب ربًا دعاه، جنة الفردوس مأواه، إلى جبريل ننعاه۔”
حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کہا، آہ اباجان کو کتنی بے چینی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا، آج کے بعد تمہارے اباجان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، ہائے اباجان! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے، ہائے اباجان! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ ہم حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سناتے ہیں. (البخاري 4462)
جب تدفین ہوگئی تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوچکی تھی۔ حضرت فاطمہ بھرائی ہوئی آواز میں ان سے گویا ہوئیں: “انس! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنے کو تمہارے دل نے کیسے گوارا کرلیا!” (البخاري 4462)
حضرات صحابہ کرام اس قیامت خیز صدمہ سے ہوش وحواس باختہ تھے، عقلیں گم تھیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سکتے میں تھے، شدت غم سے بات نہیں کرسکتے تھے، حضرت علی رضی اللہ زاروقطار رورہے تھے، رو روکر ہوش اڑ گئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے کہ جس کی زبان سے وفات رسول کی بات سنی اس کی گردن ماردوں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب سے ملنے گئے ہیں، ضرور واپس تشریف لائیں گے، غرض وفات نبوی کا انہیں یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اپنی قیام گاہ سُنح سے (جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر) تھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ تشریف لائے۔ جب مسجد میں پہنچے تو اہلِ مجلس سے کچھ کلام نہ کیا، بلکہ سیدھے سیدہ عائشہ کے حجرہ میں داخل ہوئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس ایک یمنی کپڑے — بُردِ حِبرہ — میں لپٹا ہوا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا، پھر جھک کر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر محبت بھرا بوسہ دیا، اور زار زار رو پڑے۔ عرض کیا: “میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر دو موتیں کبھی جمع نہ کرے گا، جو موت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکھی گئی تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واقع ہوچکی۔”
پھر حجرے سے باہر نکلے۔ اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں سے خطبہ دے رہے تھے، اور انکار کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: “بیٹھ جاؤ!” مگر حضرت عمر انکار پر مصر رہے۔
دوبارہ فرمایا: “بیٹھ جاؤ!” مگر وہ نہ بیٹھے۔ تب حضرت ابوبکر صدیق نے خود خطبہ دیا، تشہد پڑھا، اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی، حتیٰ کہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کرلیا۔ پھر فرمایا: “اما بعد! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا،تو وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اللہ زندہ ہے، کبھی نہ مرے گا۔” پھر قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} (آل عمران: 144)
یعنی: “محمد تو محض ایک رسول ہیں،ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔کیا پھر اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کردیئے جائیں، تو تم اپنے قدموں پر الٹے پھر جاؤگے؟ اور جو پلٹ جائے، وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد بدلہ دے گا۔” (البخاري 1241 1242).
یوں امت کو سنبھالنے والا سب سے پہلا قدم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جانب سے اٹھایا گیا اور گویا نئی صبح کی کرن پھوٹی۔ اس کے بعد حجرہ شریف کے دروازہ سے لوگوں کو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل مت دینا کیونکہ آپ طاہر اور مطہر تھے، اس کے بعد دوسری آواز سنائی دی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دو کیونکہ پہلی آواز کا متکلم شیطان تھا اور میں خضر ہوں. (خلاصہ سیر سیدالبشر ص 179، تاریخ مکہ المشرفہ ص 320)
حضرت خضر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تعزیت ان الفاظ میں کی:
"إن في الله عزاء من كل مصيبة، وخلفا من كل هالك، ودركا من كل فائت، فبالله نتقوى، وإياه فارجعوا، فإن المصاب من حرم الثواب."
یعنی اللہ کے نزدیک دلاسہ ہے ہر مصیبت کا اور بدلہ ہے ہر مرنے والے کا اور بدلہ ہے ہر فوت ہونے والا کا پس خدا ہی پر بھروسہ کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو حقیقت میں مصیبت زدہ وہ ہے جو مصیبت کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے. (خلاصہ سیر سید البشر ص 180)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کپڑوں میں غسل دیا گیا:
غسل کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف ہوا کہ بدن مبارک سے کپڑے اتار لیں یا کپڑوں کے ساتھ غسل دیں؟ اس اختلاف کے وقت اللہ سبحانہ و تعالی نے ان پر نیند کو مسلط کیا گویا سب سوگئے اور ایک کہنے والے کی آواز سنائی دی جو معلوم نہ ہوا کہ کون تھا؟ آواز یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں ہی میں غسل دو، یہ سنتے ہی سب بیدار ہوگئے اور ایسا ہی کیا، کپڑوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔
کن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا؟
غسل کا اہتمام حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس کے دو بیٹے فضل اور قُثَم رضی اللہ عنہم نے کیا، اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو آزاد کردہ غلام شُقران اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی معاونت کے لئے شریک غسل تھے، اوس بن خولٰی انصاری رضی اللہ عنہ بھی اس جگہ حاضر ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ غسل دے رہے تھے، بعض روایت میں ہے اس کام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلے سے وصیت کر رکھی تھی۔. (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)
انہوں نے اثناء غسل اپنا ہاتھ شکم مبارک پر پھیرا، مگر کوئی چیز فضلہ وغیرہ خارج نہ ہوئی،اس وقت انہوں نے کہا: 
"صلی اللہ علیک لقد طبت حيا وميتا" 
یعنی اللہ کا درود و رحمت کاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیات اور موت ہر دو حالتوں میں پاکیزہ اور مطہر ہیں. (خلاصہ سیر سیدالبشر ص 180، ابوداؤد 3209)
تین سحولی کپڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن دیا گیا اور سحول یمن کے قصبے کا نام ہے، یہاں کے بنے ہوئے کپڑے کو سحولی کہتے تھے، ان تین کپڑوں میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا بلکہ تینوں چادریں تھیں. (بخاری 1264، مسلم 941)
اور یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت ہے، شوافع کا عمل اسی پر ہے کہ کفن میں قمیص مسنون نہیں ہے؛ مگر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے منقول ہے کہ تین کپڑوں میں آپ کو کفن دیا، ان میں ایک وہ قمیص تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی تھی. (عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ، فِي قَمِيصِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَحُلَّةٍ نَجْرَانِيَّةٍ» والْحُلَّةُ: ثَوْبَانِ. (ابن ماجہ 1471، مسنداحمد 1967، ابوداؤد 3153)
حنفیہ اور مالکیہ کا عمل اس پر ہے کہ کفن میں قمیص بھی مسنون ہے؛ کیونکہ مردوں کی روایت اس بارے میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ وہ متولی اور متکفل اور مشاہدہ کرنے والے تھے. (دررالحكام لملا خسرو" (1/ 162،الشرح الكبير للدردیر (1/ 417).
غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چادروں میں کفنایا گیا اور ان چادروں کو سیا نہیں گیا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کس طرح ادا ہوئی؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ سارے لوگوں نے تنہا تنہا پڑھی، عام امتیوں کی طرح باجمات نماز نہ ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک سوال کے جواب میں یہ وصیت فرما رکھی تھی کہ جب لوگ غسل کفن سے فارغ ہوجائیں تو میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جائیں، پہلے ملائکہ نماز پڑھیں گے، پھر تم لوگ گروہ در گروہ آتے جانا اور نماز پڑھتے جانا، اوّل اہلِ بیت کے مرد نماز پڑھیں، پھر ان کی عورتیں، پھر تم لوگ۔” (مجمع الزوائد 25/9، البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286، مستدرک حاکم للحاكم (3 / 62)
اس وصیت نبوی کے مطابق گروہ در گروہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی، ایک جماعت داخل ہوتی وہ نمازِ جنازہ پڑھ کر نکل جاتی، اس کے بعد دوسری جماعت آتی اور وہ جنازہ پڑھتی۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے اور جنازہ نبوی کے سامنے کھڑے ہوکر سلام کیا، اور مہاجرین وانصار نے بھی سلام کیا، پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ مبارکہ کے سامنے یہ کہا:
"اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ، وَنَصَحَ لِأُمَّتِهِ، وجاهد في سيبل الله حتَّى أعزَّ الله دِينَهُ وَتَمَّتْ كَلِمَتُهُ، وَأُومِنَ بِهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، فَاجْعَلْنَا إِلَهَنَا مِمَّنْ يَتَّبِعُ الْقَوْلَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ، وَاجْمَعْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ حتَّى تُعَرِّفَهُ بِنَا وَتُعَرِّفَنَا بِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رؤوفا رحيماً، لانبتغي بالإيمان به بديلاً، وَلَانَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا أَبَدًا".
”اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان پر اتارا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا۔ اے اللہ! ہم کو ان لوگوں میں سے بنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے، ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے.“
لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے تو عورتوں نے،عورتوں کے بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا. (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286، مسنداحمد 20766، سنن نسائی 7181)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں کیا پڑھا گیا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق صرف درود وسلام پڑھا گیا، لوگ ایک دروازے سے داخل ہوئے اور درود وسلام پڑھتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکلتے گئے۔ جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
عَنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا صُلِّيَ رَسُولِ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم اُدْخِلَ الرِّجَالُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ إِرْسَالًا حَتَّی فَرَغُوا ثُمَّ اُدْخِلَ النِّسَاءِ فَصَلَّيْنَ عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الصِّبْيَانُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الْعَبِيْدُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ إِرْسَالًا لَمْ يَوُمَّهُمْ عَلَی رَسُولِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اﷲِ اَحَدٌ. (سنن بیہقی 6698، الخصائص الکبری، 2: 483)
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرماگئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت نہ کروائی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کہاں بنی؟
تدفین کی جگہ کے بارے بھی صحابہ واہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف رائے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کہاں کی جائے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رہنائی سے یہ اضطراب بھی دور ہوا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کی جائے وفات ہی اس کی قبر بنتی ہے. (ترمذی 1018، نسائی 7081، البدایہ والنہایہ 287/5) ۔
چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والی جگہ (حجرہ عائشہ صدیقہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بنائی گئی۔ (ترمذی 1018)
قبر مبارک میں قطیفہ سرخ جس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم حین حیات اوڑھا کرتے تھے، بچھائی گئی. (مسلم 967) اور شقران نے اس کو قبر میں بچھایا. (ترمذی 1047)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد کھودی گئی اور اس پر نو عدد کچی اینٹیں لگائی گئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف ہوا کہ لحد کھودیں یعنی بغلی قبر یا صندوقی کھودی؟ صحابہ میں ایک شخص بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور دوسرے صندوقی۔ سب کا اتفاق اس بات پر ہوا کہ دونوں میں سے جو پہلے آجائے، وہ اپنا کام کرے؛ چنانچہ بغلی قبر کھودنے والے پہلے آئے اور اس نے بغلی قبر کھودی. (ابن ماجہ 1557)
اور قبر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرے میں بنائی گئی، اور بدھ کی رات اسی میں آپ مدفون ہوئے. (مسند احمد 24333)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی حجرے میں دفن ہوئے۔ (خلاصة سير سيدالبشر لمحب الدين الطبري ص 182).
وَصلى الله على سيدنَا مُحَمَّد وعَلى آله وَصَحبه وَسلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/29-11-13-14-4450.html
( #ایس_اے_ساگر)



Monday, 24 March 2025

مہا بودھی مکتی آندولن مسلم مخالف پروپیگنڈہ کے خلاف جوابی پروپیگندہ کا ایک اہم قضیہ

مہا بودھی  مکتی آندولن 
مسلم مخالف پروپیگنڈہ کے خلاف جوابی پروپیگندہ کا ایک اہم قضیہ

احمد نور عینی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

گیا کا مہا بودھی مہا وہار وہ جگہ ہے جہاں ایک درخت کے نیچے گوتم بدھ کو معرفت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اسے بدھ ازم میں کافی اہمیت حاصل ہے، بدھ ازم کے تمام فرقے اس جگہ کو مقدس ترین مقام مانتے  ہیں، جس درخت کے نیچے گوتم بدھ کو معرفت حاصل ہوئی تھی اسے بودھی ورکش کہا جاتا ہے، مہا راجہ اشوک نے اس درخت کے پاس یہ مہا وہار تعمیر کرایا جو مہا بودھی مہا وہار سے موسوم ہوا۔ اشوک کا دور برہمنیت مخالف انقلاب کے کمال اور عروج واستحکام کا دور ہے، آگے چل کر جب برہمنیت نے پلٹ وار کیا  تو بدھسٹ مقامات پر قبضے شروع کیے؛ جس کی لپیٹ میں یہ مہاوہار بھی آیا، انیسویں صدی کے اواخر میں برہمنوں  کے اس قبضے کے خلاف آواز اٹھنی شروع ہوئی جب ایڈون آرنلڈ نے دی لائٹ آف ایشیا کے نام سے گوتم بدھ کی شان میں منظوم منقبت لکھی، اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایشیا کے مشہور بدھسٹ سنت اناردک دھرم پال نے بھارت کے سفر کے دوران1891 میں اس مہا وہار کو برہمنوں سے آزاد کرنے کی کوششیں کیں، یہ کوششیں جاری رہیں مگر یہ مہاوہار برہمنوں کے قبضے سے آزاد نہ ہوسکا، تحریک آزادی کے دوران بھی یہ آواز اٹھی مگر آزادی کے شور میں دب گئی یا عمدا دبا دی گئی، آزادی کے بعد پھر اس مطالبہ نے زور پکڑا تو اس قضیہ کو نمٹانے بلکہ دبانے کے لیے  بی ٹی ایکٹ (Bodh Gaya Temple Act, 1949)بنایا گیا۔ 
اس ایکٹ کے تحت یہ بات طے پائی کہ مہاوہار چلانے کے لیے آٹھ رکنی  انتظامی کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں چار بدھسٹ ہوں گے اور چار ہندو، کمیٹی کے چیرمین کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی کہ اس علاقے کا ڈی ایم کمیٹی کا چیرمین ہوگا، اور چیرمین کا ہندو ہونا ضروری ہے، اگر ڈی ایم ہندو نہ ہو تو پھر حکومت کسی ایسے کو چیر مین بنائے جو ہندو ہو۔  ہندو ہونے کی یہ شرط بہار حکومت کی طرف سے 2013 میں ہٹائی گئی، مگر عملا اس کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ بی ٹی ایکٹ کے تحت بنائی گئی اس کمیٹی کو بی ٹی ایم سی (Bodhgaya Temple Management Committee) کا نام دیا گیا، کمیٹی کا ڈھانچہ اس طرح بنایا گیا کہ برہمنوں کا تسلط بھی باقی رہے اور بدھ مت کے پیروکار ’کل نہیں تو کچھ سہی‘ سوچ کر اسے قبول کرلیں اور خاموش بیٹھ جائیں۔
بی ٹی ایکٹ کے تحت کمیٹی تشکیل دینے اور کمیٹی میں چار بدھسٹوں کو نامزد کرنے کے بعد مہابودھی مہاوہار کی آزادی کی آواز خاموش سی ہوگئی، چالیس سال تک یہ تحریک دبی رہی، پھر 1992 میں یہ تحریک دوبارہ شروع ہوئی اور 1998 تک چلی، اتنے لمبے عرصہ تک تحریک چلنے کے باوجود مہاوہار برہمنوں کے تسلط سے آزاد نہ ہوسکا، تحریک میں شامل کئی سرکردہ افراد کو بہار حکومت نے بی ٹی ایم سی میں شامل کردیا، اس طرح تحریک کا زور ٹوٹ گیا۔ 2012 میں سپریم کورٹ میں مہاوہار کی آزادی کے لیے رٹ پٹیشن داخل کی گئی، مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔ 
اس مہاوہار پر شیو پنتھی برہمنوں کا ناجائز قبضہ ہے، ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ مہابودھی مہاوہار کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے، بلکہ اس کا برہمنی کرن بھی کر رکھا ہے، گربھ گرہ جہاں گوتم بدھ کی بڑی مورتی رکھی ہوئی ہے اس کے باب الداخلہ کے اوپر دیوار پر پہلے گوتم بدھ کا نام کندہ تھا، اسے سمنٹ سے بھر کر مٹا کر برابر کردیا گیا۔ گربھ گرہ میں بڑی مورتی کے سامنے باب الداخلہ کے قریب گوتم بدھ کی ایک اور مورتی رکھی ہوئی تھی، اسے ہٹا کر وہاں دان پیٹی رکھ دی گئی، اور اس پیٹی کے پیچھے ایک ابھرے ہوئے حصہ کو شیو لنگ بنا دیا گیا، اس طرح بدھسٹوں کا یہ مہاوہار برہمنوں کے شیو مندر میں تبدیل ہوگیا، اندر موجود بدھ کی پانچ مورتیوں کو پانچ پانڈو کہہ کر پرچار کیا جارہا ہے اور بدھ مت کی تارا دیوی کو ہندو مت کی دروپدی بتایا جارہا ہے۔یہ ساری باتیں ثبوتوں کے ساتھ باہر آرہی تھیں  اور ان دنوں کافی وائرل ہورہی تھیں اس لیے بی ٹی ایم سی نے 18 مارچ کو سرکولر جاری ہوتے ہوئے کیمرہ موبائل اندر لے جانے پر مکمل پابندی لگادی ۔
برہمنوں کے اس تسلظ اور ان کی طرف سے کیے جارہے اس برہمنی کرن کے خلاف مہا بودھی مہاوہار کو آزاد کرانے کے لیے 2023 میں یہ تحریک مہا بودھی مہاوہار مکتی آندولن کے نام سے دوبارہ شروع ہوئی جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے، اس تحریک میں خاص طور پر بی ٹی ایکٹ کو رد کرنے اور مہاوہار کو برہمنوں سے آزاد کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، 12 فروری 2025 کو اس تحریک نے اس وقت مزید شدت اختیار کرلی جب بدھسٹ مونکوں کی ایک جماعت بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی، اس بھوک ہڑتال  کو چالیس روز ہونے جا رہے ہیں، پندرہویں دن پولیس نے بھوک ہڑتال پر بیٹھے مونکوں کو حراست میں بھی لیا تھا، مگر ان لوگوں نے بھوک ہڑتال ختم نہیں کی۔اس احتجاج اور ہڑتال کو بدھ مت کے پیروکاروں کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر تائید مل رہی ہے، نیپال، سری لنکا، تھائی لینڈ، امریکہ وغیرہ کئی ملکوں میں احتجاج کیے گئے۔
اندرون ملک بھی  یہ آندولن کئی ریاستوں میں پھیل گیا، خاص کر مہاراشٹر میں اس سلسلہ میں کافی بیداری پائی جا رہی ہے،  6 اپریل کو ناگپور میں عظیم احتجاج منعقد کرنے کی تیاری ہے، اور 12 مئی کو بدھ جینتی کے موقع سے بدھ گیا میں کل ہند سطح کا احتجاج کرنے کا پروگرام ہے۔ نیشنل میڈیا اسے مکمل طور پر نظر انداز کر رہا ہے، اسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کی اجازت نہ دے کر اسے محدود رکھنے اور دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، آج (مورخہ 23 مارچ) حیدرآباد کے پنجہ گٹہ علاقہ میں پر امن احتجاج منظم کرنے کا بدھسٹ بھائیوں کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا، لیکن پولیس کی اجازت نہ ملنے کہ وجہ سے منسوخ کر دیا گیا۔
مہابودھی مہاوہار پر برہمنی تسلط کا تعلق اس ملک میں جاری قدیم کشمکش سے ہے، جو اس ملک کی حقیقی کشمکش ہے، یہ کشمکش دو نظریات کے درمیان ہے، ایک نظریہ ہے نسلی برتری کا اور دوسرا نظریہ ہے سماجی انصاف کا یعنی سارے انسانوں کو برابر سمجھنے اور کسی مخصوص نسل کو برتری نہ دینے کا، نسلی برتری والی آریائی برہمن قوم جب سے اس ملک میں آئی ہے تب سے اس نے اپنا تسلط باقی رکھنے اور باقی اقوام کو اپنا محکوم وغلام بنا کر رکھنے ہر ممکن حربے اپنائے، سماجی انصاف کی آئیڈیالوجی اس سے ہر دور میں ٹکراتی رہی، مگر نسلی برتری والی آئیڈیالوجی اپنا غلبہ بنا کر رکھنے میں کامیاب رہی، نسلی برتری والوں سے سب سے بڑا ٹکراؤ گوتم بدھ کی تبلیغ وتحریک کی وجہ سے پیدا ہوا، جسے انقلاب کا زمانہ کہا جاتا ہے، پھر نسلی برتری والوں نے مختلف حکمت عملیاں اپناتے ہوئے دوبارہ برہمنی تسلط کے پنجے گاڑ دیے، اسے رد انقلاب کا دور کہا جاتا ہے، اس دور میں برہمنوں نے بدھ ازم کی روح کو ختم کرنے، اس کی شناخت کو مٹانے، اس کی تہذیبی علامتوں اور تہواروں کا برہمن کرن کرنے اور اس کے مقدس مقامات پر قبضہ کرنے میں اپنا پورا زور لگا دیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے، مہابودھی مہاوہار یہ تنہا نہیں ہے، بلکہ ایسے ہزاروں مہاوہار ہیں جن کو مندر میں تبدیل کردیا گیا، جگن ناتھ، بدری ناتھ اور تروپتی بالا جی کے مشہور مندر بھی در اصل بدھ معابد ہی ہیں۔ 
نسلی برتری اور سماجی انصاف کی کشمکش اس ملک کی حقیقی کشمکش ہے جس پر بھارتی تاریخ و تہذیب، بھارتی مذاہب کا لٹریچر، بھارتی مصلحین کی تحریکی واصلاحی تگ ودو بلکہ یہاں کے کھنڈرات اور کھدائی میں بر آمد ہونے والے آثار شاہد ہیں، نسلی برتری کا فائدہ چند فیصد برہمن کو حاصل ہے جبکہ سماجی انصاف کی آئیڈیالوجی اس ملک کی تمام مظلوم ومحروم اقوام کی ضرورت ہے، اسلام اس سماجی انصاف کی آئیڈیالوجی کا عالمی نمائندہ ہے، اور اسلام کی وجہ سے جن لوگوں کو سماجی انصاف کی دولت ملی برہمنواد آج تک ان پر اپنی غلامی کا سایہ بھی نہ ڈال سکا، نہ ان کے مذہب میں ایک حرف کی تبدیلی کر سکا اور نہ ان کی تہذیب کا کچھ بگاڑ سکا۔ نسلی برتری چوں کہ اقلیت کے مفاد میں ہے اور اکثریت کے خلاف ہے، اس لیے جمہوری دور کی مجبوری کی وجہ سے اور اسلام کی مقبولیت واشاعت کے خوف کی وجہ سے نسلی برتری والوں نے اس ملک کی اصل کشمکش کو ایک دوسری کشمکش کے شور میں دبانے کا منصوبہ بنایا، نہ صرف منصوبہ بنایا، بلکہ منظم ومستحکم پروپیگنڈہ کے ذریعہ اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کی اور نتیجتا یہ رائے عامہ عوامی رویے میں تبدیل ہوئی، جس کشمکش کو دبانا چاہا وہ نسلی برتری اور سماجی انصاف کی کشمکش ہے، اور جس کشمکش کو برپا کیا وہ ہندو بنام مسلم کی کشمکش ہے، نسلی برتری اور سماجی انصاف کے بیچ نظریاتی تصادم جتنا بڑھے گا برہمن قوم کا نقصان بھی اتنا ہی بڑھے گا اور ان کا تسلط اسی قدر کمزور ہوگا، جبکہ ہندو بنام مسلم والا تصادم جتنا بڑھے گا برہمن قوم کا فائدہ بھی اتنا ہی بڑھے گا اور ان کا تسلط اسی قدر مضبوط ہوگا۔
نظریاتی کشمکش میں نسل پرستانہ تسلط کو باقی رکھنے اور برہمنوادی نظام حیات کو مختلف نام اور عنوان سے مسلط رکھنے کے لیے اس ملک میں مسلم مخالف پروپیگنڈہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، تاکہ بھارت کی وہ اقوام جو سماجی انصاف کی علمبردار ہیں اور وہ اقوام جو سماجی انصاف سے محروم ہیں یہ سب اُس تصادم میں الجھی رہیں جس سے نسلی برتری والوں کا فائدہ ہے، اور نسلی برتری کو چیلنج کرکے اس تصادم کو مضبوط نہ کریں جس سے نسلی برتری والوں کا نقصان ہے۔یہ پروپیگنڈہ اتنی شدت سے چلایا جاتا ہے کہ اس کے شور میں وہ ساری آوازیں دب جاتی ہیں جو اس پروپیگنڈہ کے مقصد کو فوت کرسکتی ہیں۔ مسلم مخالف پروپیگنڈہ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے جوابی پروپیگنڈہ کو منظم ومستحکم کرنا ضروری ہے، پروپیگنڈہ پر رد عمل ظاہر کردینے سے پروپیگنڈہ ناکام نہیں ہوسکتا، اس کے لیے جوابی پروپیگنڈہ ضروری ہے، جوابی پروپیگنڈہ کا مطلب ہے اس تصادم کو مضبوط کرنے کے لیے مسائل کو اٹھانا اور ان پر ہنگامہ برپا کرنا، اور ان کے تئیں شعور بیداری کی نظریاتی مہم چھیڑنا جس سے نسلی برتری والے نظریہ ونظام حیات کی بنیاد پر زد پڑتی ہے، اس سے ان لوگوں کا بھی فائدہ ہوگا جو سماجی انصاف سے محروم ہیں اور مسلم مخالف پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہندو اور ہندوتو کے نام پر نسلی برتری والوں کے آلۂ کار بنے ہوئےہیں، اور ان لوگوں کا بھی فائدہ ہوگا جو سماجی انصاف سے محروم ہیں اور اس کے حصول کے لیے تحریک چلا رہے ہیں، اور ان لوگوں کا بھی فائدہ ہوگا جو سماجی انصاف کے حامل ہیں مگر برہمنواد کے پلٹ وار کی زد میں ہیں جیسا کہ بدھسٹ، اور ان لوگوں کا بھی فائدہ ہوگا جو سماجی انصاف کے حامل ہیں اور برہمنواد ان پر کسی طرح کا پلٹ وار نہیں کرسکا  ، البتہ جمہوری دور میں انھیں نفرت وعداوت اور ظلم وستم کا نشانہ بنا کر برہمنواد اپنا الو سیدھا کر رہا ہے، یعنی مسلم قوم۔
برہمنوادی تسلط واستحصال کو قدر مشترک مان کر حقیقت وصداقت پر مبنی جوابی پروپیگنڈہ ملک میں جاری نظریاتی یلغار کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، اس جوابی پروپیگنڈہ کے لیے جن مسائل اور تاریخی حقائق کو استعمال کیا جا سکتا ہے مہا بودھی مہاوہار کی آزادی ان میں ایک اہم قضیہ ہے، برہمنواد نہیں چاہتا کہ اس قضیہ کا شور بلند ہو اور یہ مسئلہ اوپر آئے اور چھائے، وہ اسے ابھی نظر انداز کرکے دفنانا یا کم از کم دبانا چاہ رہا ہے،نظر انداز کرنے کے باوجود اگر یہ مسئلہ نہیں دبتا ہے اور اس کا شور کسی طرح سے بلند ہوجاتا ہے اور یہ آندولن ملک کا سلگتا ہوا قضیہ بننے میں کامیا ب ہوجاتا ہے تو خدشہ ہے کہ کہیں برہمنواد ہمیشہ کی طرح اس تصادم کو ہندو مسلم تصادم سے کمزور کرنے کی کوشش نہ کرے، جس طرح منڈل  کے شور کو کمنڈل کے ذریعہ دبایا گیا، اسی طرح ڈر ہے کہ یہاں بھی کوئی نہ کوئی مسلم مخالف قضیہ اٹھایا کر ماحول کو برہمنوادی مفاد کے لیے سازگار کیا جائے گا، برہمنواد اس کشمکش اور تصادم کو جس میں اس کی کمزوری ہے اس کشمکش اور تصادم سے دبانے کی حکمت عملی اپناتا ہے جس میں اس کا استحکام ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس کشمکش اور تصادم کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں جس سے برہمنوادی مفاد پر زد پڑتی ہے، مہابودھی مہاوہار کا قضیہ اسی قبیل سے ہے، یہ قضیہ اس وقت چھڑا ہوا ہے، اس کی شدت کو بڑھانے اور اس تحریک کو پھیلانے کی ضرورت ہے، بظاہر یہ قضیہ ہمارے ملی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتا؛ لیکن جو آئیڈیالوجی ہمارے ملی مسائل کو نشانہ بناتی ہے  یہ اور اس طرح کے مسائل اس آئیڈیالوجی کی بنیاد پر زد لگاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ملک میں جاری پروپیگنڈہ کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھ کر منظم ومستحکم جوابی پروپیگنڈہ چھیڑا جائے۔

Wednesday, 12 March 2025

زکوٰۃ: مستحقین تک یا زکوٰۃ مافیا تک؟

زکوٰۃ: مستحقین تک یا زکوٰۃ مافیا تک؟
بقلم  محمد أبو طالب رحمانی 
زکوٰۃ کی رقم کا اصل حق دار وہی مستحقین ہیں جن کے لیے شریعت نے اس کا تعین کیا ہے، نہ کہ وہ کمیشن خور جو اسے کاروبار بنا کر اپنے جیب بھر رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج تقریباً 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ زکوٰۃ کی رقم ایسے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو اس کے حقدار نہیں۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو کل 100 فیصد بھی کوئی ہڑپ کر لے، تو کیا ہم خاموش رہیں گے؟
ہم عوام کو زکوٰۃ کی فضیلت اور اس کی برکتیں بتا کر زکوٰۃ وصول تو کرتے ہیں، لیکن کیوں نہ اہلِ خیر کو دینی تعلیم کے عمومی اخراجات کے لیے عطیات دینے کی طرف متوجہ کریں؟
رمضان المبارک میں چندہ مہم کے سبب بہت سے سفرا روزے، نماز اور تراویح جیسی عبادات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر غور و فکر اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ میرے کہنے میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اصل مسئلہ پسِ پردہ نہیں جانا چاہیے۔
مدارس کے نام پر جعلی چندے، غیر مستحق افراد کو زکوٰۃ کی رقم دینا، اور ایسے فضلاء کا وجود جو اپنی سند کی عبارت بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے—یہ سب ہمارے تعلیمی نظام کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
پھر وہ مدارس بھی ہیں جہاں عوامی چندے سے زمین خریدی جاتی ہے، لیکن وہ کسی کی بیوی یا بیٹوں کے نام پر رجسٹر ہو جاتی ہے۔ ایسے معاملات کی اصلاح اور تطہیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔
رہی بات حکومت کی نظر کی، تو اس سے مطمئن رہیں۔ ہمارے مدارس کے کئی فارغین آج ان تنظیموں میں ملازمت کر رہے ہیں جو فتنہ انگیزی میں مصروف ہیں۔ ہمیں حکومت کی نہیں، بلکہ اللہ کی نظر کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ اصل احتساب وہیں ہونا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو شفاف بنایا جائے، تاکہ وہ مستحقین تک پہنچے، نہ کہ زکوٰۃ مافیا تک۔
۔۔۔۔۔۔
بیس لاکھ کروڑ زکوٰۃ؟ تحقیق وتجزیہ
بقلم: محمد توصیف قاسمی
حضرت مولانا ابوطالب رحمانی صاحب مدظلہ ملک کے جانے مانے مقرر ین میں سے ہیں، سلاست بیانی اور طلاقت لسانی کی مثال ہیں، آپ کے اصلاحی و فکری بیانات سوشل میڈیا کے ذریعہ دور دراز پہنچ کر مفید عام و خاص ہوتے ہیں، اللہ کرے یہ سلسلہ دراز تر ہو، نفع عام سے عام ہو۔ آمین
آپ کا ایک ویڈیو کلپ ایک دوست نے ارسال کرکے اس پر اظہار رائے کا اصرار کیا، بندہ کی علمی و عملی بساط ہی کیا، مگر طالب علمانہ ذوق کے سبب اپنی بات رکھنے میں کوئی تردد نہیں کرتے، غلط ہوا تو اصلاح کردی جائے گی۔
پورا بیان نہیں مل سکا، لیکن اس کلپ میں انھوں نے جو بات کہی ہے وہ اپنی جگہ مکمل ہے، اس لئے اس پر چند معروضات پیش ہیں، ویڈیو میں مولانا ایک حساب کرتے نظر آرہے ہیں:
 ایک لاکھ  کو ایک کروڑ میں ضرب دیا جائے تو حاصل ضرب بیس لاکھ کروڑ نہیں آئے گا، بلکہ ایک لاکھ کروڑ اآئے گا، اور اسے اردو  میں اس طرح لکھا جائے گا:
10,00,00,00,00,000
اردو میں اسے دس کھرب کہا جائے گا۔
اسی رقم کو میٹرک اشاریے میں اس طرح لکھا جائے گا:
1,000,000,000,000
یعنی ایک ٹرلین روپے، دونوں جگہ صفر 12 ہی ہیں، بس قومہ لکھنے کا فرق ہے، 
ایک ٹرلین، دس کھرب یا ایک لاکھ کروڑ یہ تینوں اعداد و رقوم برابر ہی ہیں، الگ الگ عرف و زبان اور صنعت میں ادائیگی مختلف ہے۔
ایک لاکھ کو ایک کروڑ میں ضرب دے کر کسی بھی طرح بیس لاکھ کروڑ نہیں بنتے ہیں۔
یہ حساب اگر طلبہ  وعلماء محض کے درمیان ہورہا ہوتا تو بڑی بات نہ تھی، نحن امۃ امیۃ کی اتباع میں مدارس اسلامیہ میں حساب کا کوئی شعبہ نہیں (پھر خدا جانے ماضی میں ماہرین حساب کیونکر ہوگئے؟)
بلکہ ایک ایسے مجمع میں یہ گفتگو ہورہی ہے اہل مدارس اور عصری علوم کے ماہرین میں مشترک ہے، اور ڈائس پر تو زیادہ تر وہی نظر آرہے ہیں، حیرت ہے کہ کسی نے اس طرف توجہ نہ کی،اور نہ ہی بعد میں اسے سنجیدگی سے لیا۔
یہ حساب ہم نے اتفاقاً کرلیا، اتنی بھاری بھرکم رقم پر اطمینان نہیں ہورہا تھا، حساب تو ہم نے اپنی مشق کے لئے کرلیا، جس میں یہ بات سامنے آگئی کہ ایک لاکھ ضرب ایک کروڑ بیس لاکھ کروڑ نہیں ہوتے، بلکہ صرف ایک لاکھ کروڑ ہی ہوتے ہیں۔
واضح ہوکہ ایک لاکھ کروڑ ایک ٹرلین برابر ہوتے ہیں۔
ایک لاکھ کروڑ میں عدد کے علاوہ بارہ صفر ہوں گے۔
بیس لاکھ کروڑ میں عدد (2) کے علاوہ تیرہ صفر ہوں گے۔
اس ویڈیو کلپ میں ہمارے لئے دراصل قابل اشکال یہ چند باتیں لگیں:
1: کیا مسلمانوں کے اس مالی نظام و حساب کا ایسی عمومی محفلوں میں بیان کرنا قرین مصلحت ہے یا نہیں؟
ہمارے ناقص خیال میں تو ہرگز نہیں، اگر کوئی مالدار کسی مدرسہ کی دو ہزار سے زائد کی رسید بنادے تو اس کے لئے مصیبت کا ٹکٹ بن سکتا ہے، ایسی صورت حال میں ببانگ دہل یہ کہنا کہ اتنے کروڑ یا اتنے لاکھ کروڑ کا مدارس کو ٹرن اوور ہے، نہایت خطرناک بات ہے۔
مانا کہ یہ نہایت پرسنل مسئلہ ہے، لیکن موجودہ حکومت کے ٹارگٹ سے مسلمانوں کا کو نسا پرسنل مسئلہ بچا ہے؟ ایسے بیانات کا حکومت اور فرقہ پرستوں کی نظر سے چوک جانے کا اطمینان کس بھروسہ پر ہوسکتا ہے، ملت اسلامیہ ایسے ہی ہر سمت و پہلو سے، ہر محاذ پر تمام تر پینتروں سے گھات پر ہے، ایک جگہ بچانہیں پاتے کہ دوسری اور تیسری جگہ زخم کاری لگایا جارہا ہے، تو ایسے دعوے کرکے انھیں دعوت دینے کا فائدہ کچھ نظر نہیں آتا۔
2: افسوس یہ ہے کہ یہ بات ایک عالم دین اور پرسنل لا بورڈ کے ذمہ دار کی زبان سے نکلی ہے، کسی اور نے کہی ہوتی تو قابل التفات نہ ہوتی۔
ہندوستان کے چند مثالی اداروں کے علاوہ سارے کے سارے مدارس مسلمانوں کے صدقات و زکوٰۃ پر منحصر ہیں، غیر واجبی اموال کا حصۃ مدارس کی آمدنی میں چند دو چار فیصد سے زیادہ کا نہ ہوگا۔
گویا یہ کہ مسلمانوں کے مالی ترقی میں مانع یا باعث تنزلی یہ مدارس ہیں، اگر یہ نہ ہوتی تو قوم مسلم مالدار ہوتی۔
یقیناً مولانا اس مفہوم مخالف کے قائل نہیں، مگر لبرل اور دین بیزار طبقہ تو یہی کہتا آیا ہے، ایسے ہی دعووں سے وہ اپنے آپ کو ، دوسرے مسلمانوں کو، اور منافق خصلت تو غیروں تک کو علماء و مدارس سے متنفر کرنے کے لئے کہتے ہیں۔
3: مولانا مدظلہ فرماتے ہیں کہ 20 کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں ایک کروڑ تو زکوٰۃ نکالنے والے ہوں گے۔
یہ صرف تخمینہ ہی ہے، اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک کروڑ اصحاب نصاب زکوٰۃ مستحقین کو ادا کرتے ہیں؟
بڑے اطمینان و اعتماد سے ہم کہہ سکتے ہیں نہیں، ہرگز نہیں۔
ایمانداری کی بات ہی ہے کہ "اصل بے ایمانی" ان ایک کروڑ مالداروں کے زکوٰۃ نکالنے میں ہے، مالداروں کا اوپرکا ایک طبقہ تو بالکل خرچ کرنے والا نہیں، ایک طبقہ صرف سرسری حساب کرکے جان چھڑا لیتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ہر سال مالی ترقی کرتے ہیں، لیکن مال خرچ کرنے کا شئیر ہر سال گھٹا دیتے ہیں۔
اور اس میں اوسط درجہ کا جو مالدار طبقہ ہے، اسی میں کی اچھی خاصی تعدادپابندی سے زکوٰۃ نکالتی ہے، بلکہ اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے کی نیت رکھتی ہے، جس سے دینی امور انجام پاتے ہیں۔
نیز ایمانداری کی بات یہ بھی ہے کہ یہ اصحاب نصاب مالدار لوگ اگر ایمانداری سے اپنی صحیح زکوٰۃ نکال ادا کرنے لگ جائیں توزکوٰہ اتنی نکلے کہ  وصولنے والوں کی بے ایمانی  بھی عامۃ المسلمین کی مالداری اور ترقی میں مانع نہیں بن سکتی ہے۔
خدانخواستہ، حاشا و کلا ،وصولنے والے طبقے کی بے ایمانی کو چھوٹ دینا  مقصد نہیں، اگر یہ بے ایمانی نہ ہوتو تو مدارس کا نظام مالیات و خدمات جتنا موجود ہے، اس سے کئی گنا زیادہ مضبوط، عمدہ اور مفید خلائق ہوجائے۔
4: زکوٰۃ ایک لاکھ کروڑ یا بیس لاکھ کروڑ؟
اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی زکوٰۃ بقول مولانا رحمانی کے ایک لاکھ کروڑ ہے یا بیس لاکھ کروڑ؟
اس کی تحقیق و تفتیش کے لئے ہم نے سال جاری کا بجٹ دیکھا، جس میں امسال 2025 میں  28 لاکھ کروڑ کی صرف ٹیکس آمدنی متوقع ہے، جبکہ گزشتہ سال یہ آمدنی 23 لاکھ کروڑ کی ہوئی تھی، جس کا صرف نصف سال کی آمدنی کے بارے میں حکومت کا کہنا کہ وہ آمدنی اس سے گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اسی طرح ورلڈ بینک کے سروے اور اعداد کے مطابق بھارتی ' فی کس آمدنی" (Per Catipa Income , PCI یا   Net National Income, NNI) 2800 ڈالرس  سالانہ ہے، جسے ماہرین نے سال 2023 کے لحاظ سے 170000، ایک لاکھ ستر ہزار بیان کیا ہے، یعنی سالانہ اوسطاًایک ہندوستانی اتنے ہی پیسہ کماپاتا ہے۔
- یہی آمدنی اگر امبانی اڈانی جیسے بلینئرس کو ہٹا کر دیکھی جائے تو یہ آمدنی فی کس 2700 ڈالرس ہوجاتی ہے۔
- پھر آگے بڑھ کر اگر اعداد سے ملک کے پانچ فیصد مالداروں کو نکال دیا جائے(ظاہر ہے کہ اس میں دوچار ہی مسلمان ہیں زیادہ تر بس نام کے مسلمان ہیں) تو فی کس آمدنی ہر ہندوستانی کی 1130 ڈالرس رہ جاتی ہے، اگر ان 1130 ڈالرس کو آج کے ڈالرس ریٹ پر بھی بھنایا جائے تو اس کی ہندستانی رقم ایک لاکھ روپے سے زیادہ نہیں بنتی، جو غریب افریقی ممالک کی طرح ہے، اس فہرست میں ہندستان 143 نمبر پر ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اوپر کے پانچ فیصد مالداروں کے علاوہ ہندوستانی ہر شخص (بلا تمیز مسلم و غیرمسلم) ایک لاکھ کا اوسط بنتا ہے۔
ورلڈ بینک کی اس رپورٹ سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی کس شہری کی آمدنی کا کیا حال ہے، پھر ظاہر ہے کہ زکوٰۃ  اوپر شمار کردہ سروے سے خارج تو نہیں، وہ مل ملا کر بھی آمدنی کا حال کچھ خاص تبدیلی کے لائق نہیں بنتا۔
حاصل یہ ہے کہ بیس لاکھ کروڑ تو کجا ؟ہندوستان میں مفلسی کا یہ عالم ہے کہ مالداروں کا مال بھی غریبوں میں تخمیناً جوڑنے کے باوجود بھی یہ غریبی دور نہیں ہوجاتی،اور زکوٰۃ ایک لاکھ کروڑ روپے  نہیں بنتی۔
بیان کی قابل توجہ بات:
مولانا کی اس بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے، اور ملت کا ہردرد رکھنے والے کو ہونا چاہئے کہ زکوٰۃ کے اموال سے ایسے حضرات جو بر سرروزگار نہیں انھیں حسب حیثیت و لیاقت کام اور کاروبار پر لگایا جائے۔
یہ ایسا موضوع ہے کہ اس وقت اس پر ملت کے ہر چھوٹے بڑے خیرخواہ کو اپنی اپنی بساط بھر کوشش کرنا چاہئے، مگر کچھ بنیادی نزاکتوں کوسامنے رکھ کرجیسے اولا تو یہی کہ اس تدبیر میں مدارس اور علماء کی حق تلفی نہ ہو، کیونکہ وہ فرد اور نفس (جان) کی ضرورت ہے، اور مدارس اجتماعی اور دین اسلام کی بقائ کا ذریعہ ہیں،ثانیاً یہ کہ یہ کام بھی نہایت خفا اور بلا تشہیر کیا جائے ،ثالثاً بجائے ملکی و بڑے وفاق کے جو حکومت کو نظر آئے ، مقامی طور پرایسے افراد کو اپنی اپنی صلاحیتیں اس میں لگا سکیں جیسے علماء اپنے علم سے ماہرین معاش و اقتصاد اپنی عقل سے اور ارباب مال اپنے مال لگائیں، اور بڑی خاموش سے کام ہو، اس پر اپنے اپنے سطح سے جو کام ہو کرنے کی ضرورت ہے، اور اہل علم کو بھی چاہئے کہ اس فریضہ وقت کی جانب خواص کی توجہ مبذول کرائیں۔
آخر مسلمان کتنی زکوٰۃ نکالتے ہیں؟
معلوم ہوگیا کہ بیس لاکھ کروڑ تو گنتی کی غلطی تھی، چنانچہ اگر ایک لاکھ کروڑ کا نصف یعنی پچاس ہزار کروڑ یا پانچ سو بلین روپے کی زکوٰۃ مان لی جائے تو اس کی اصل مالیت کتنی ہوگی؟ یعنی اجتماعی طور پر مسلمانوں کے پاس کتنا مال ہوتو پچاس ہزار کروڑ زکوٰۃ نکلے گی؟
اسے جوڑنے کا آسان سا فارمولا ہے، زکوٰۃ کسی بھی مال کا ڈھائی فیصد(2.5) ہوتی ہے، اسے اگر 40 سے ضرب دے دیا جائے تو اصل مالیت نکل آئے گی،جیسے:2.5×40 =100 
چنانچہ پچاس ہزار کروڑ کو چالیس سے ضرب دیں تو حاصل ضرب آتا ہے:
بیس لاکھ کروڑ یا بیس ٹرلین ہندستانی روپے 
یعنی مولانا رحمانی صاحب بیس لاکھ کروڑ جسے غلطی سے مجموعہ زکوٰۃ فرمارہے تھے اتنی اصل مالیت ہوتب جاکر پچاس ہزار کروڑ صرف زکوٰۃ نکلے گی اور یہ اس کا آدھا ہے جس کا نتیجہ ایک لاکھ کی اوسط آمدنی کو ایک کروڑ مالداروں کے اوسط پر ضرب کرکے حاصل کیا گیا تھا۔
اگر سال جاری 2025 کے بجٹ پر نظر ڈالیں تو اس سال کل خرچ کا تخمینہ ہی 50 لاکھ کروڑ ہے، 
اور اس سال آمدنی کا تخمینہ 28 لاکھ کروڑ بذریعہ ٹیکس، اور 34 لاکھ کروڑ دورے ذرائع سے متوقع ہے۔
ایسے صورت میں مسلمانوں کے پاس بیس لاکھ کروڑ کی مالیت کے دعوی کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے ایک تہائی فیصد آمدنی اور ایک تہائی سے زیادہ کا خرچ مسلمانوں کا ہے، 
ظاہر ہے اتنی مالیت کا دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
مسلمانوں کے پاس نہ ٹاپ کمپنیاں ہیں، نہ ہی خرچ کرنے والے بلینئرس، پھر دس سالوں سے فرقہ پرستوں کا کریک ڈاون ، ان امور کے مدنظرراقم کا تخمینہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بمشکل شئیر ایک ٍآمد و رفت کا دسواں حصہ ہے۔واللہ اعلم
چنانچہ چھ لاکھ کروڑ بھی مان لیا جائے تو اس کی زکوٰۃ صرف ڈیڑھ ہزار کروڑبنتی ہے، اس میں سے کتنے زکوٰۃنکالتےہیں اور کتنے صحیح مصارف میں خرچ کرتے    ہیں یہ قابل تحقیق ہے۔
لیکن جیسا کہ اپنا خیال عرض کیا کہ مدارس اور علماء کی فکر مالداروں کے متوسط طبقہ کو ہی زیادہ ہے، ورنہ زیادہ اونچے اور ٹاپ مالدار یا تو زکوٰۃ نکالتے نہیں، یا پھر انھوں نے مصارف کے نام پر زکوٰۃ کو اپنے پاس رکھنے کے ظاہری جائز سسٹ یا چور دروازےجیسے ٹرسٹ وغیرہ بنا رکھے ہیں،اور اپنے واجب الاخراج اموال کو وہ گھما پھرا کر اپنے ہی تصرف میں کئے ہوئے ہیں۔ الاماشاء اللہ

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آمد و خرچ کا صحیح شمارہ نہ تو موجود ہے، اور نہ ہی نکال کر عام کرنے کی ضرورت ہے، البتہ مدارس کی کفالت اور عامۃ المسلین کی معاشی خبرگیری ہونا اسی زکوٰۃ کے مال سے ہے، اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پہلو ذرا بھی غفلت اور لاپرواہی برتی گئی تو اس کے نتائج بد اگلی نسلوں کو صدیوں بھگتنے پڑ سکتے ہیں، اس فکر کو ضرور عام کرنے کی ضرورت ہے۔
(تحریر کے حکومتی شمارے حکومتی ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں، جوڑنے اور سمجھانے کے لئے اپنے الفاظ و ترجمہ کیا گیا ہے)
آخر میں ہماری مولاے محترم سے عاجزانہ گزارش  ہے کہ ملک کی موجودہ بدترین جبر وفسطائیت کے ماحول میں :آبیل مجھے مار" جیسا کوئی قول یا  عمل حکمت وبصیرت اور عقل ودانش کے خلاف ہے 
دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے 
جوش خطابت کے ساتھ اس کے عواقب ونتائج پر بھی گہری نظر رہے اور ساتھ میں ہوش ودور اندیشی سے بھی برابر استفادہ ہو۔ مدارس اسلامیہ پہلے سے ہی نشانے پر ہیں ایسے میں مسلم کمیونٹی کی مالیات یا زکات سے متعلق کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان مسلم امہ کے گلے کی گھنٹی بن سکتا ہے 
ہمیں امید ہے کہ آئندہ ایسے حساس ونازک مسائل پہ اظہار خیال کرتے ہوئے احتیاط وتیقظ کو ضرور بروئے کار لائیں گے۔

چیٹ جی پی ٹی اور علماء وفضلاء

چیٹ جی پی ٹی اور علماء وفضلاء
چیٹ جی پی ٹی یا ذکاء اصطناعی کی زبان ہی الگ ہوتی ہے ، موجودہ دور میں اس سے استفادہ سے منع کرنے کا حق تو کسی کو نہیں ہے۔ لیکن اس کے منافع کے ساتھ مضار کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ مہذب علمی سرقہ کو شامل ہے۔ واقف کار یا باخبر وصاحبِ بصیرت شخص اس پلیٹ فارم سے تبادلہ آراء کی حد تک تو استفادہ کرسکتا ہے۔
لیکن بعینہ وبلفظہ اس کے طولانی ابحاث اٹھا کر چند سینکنڈوں میں چسپاں کردینا درست نہیں ہے  
ارباب افتاء کو تتبع مسائل میں راست مصادر ومراجع سے استفادہ کرکے تنقیح وتطہیر اور ایک خاص تلخیص وترتیب کے ساتھ قدر ضرورت کچھ رقم کرنا چاہئے ، اگر دینی وشرعی مسائل ودقیق ابحاث کی تلاش وجستجو میں بھی چیٹ جی پی ٹی کی بے ہنگم ترتیب اور معکوس معانی ومفاہیم پر ہی انحصار کو کافی وافی سمجھا جانے لگے۔ 
صرف چند سیکنڈز کے وقفہ سے معمولی رود وبدل کے ساتھ اس کے الفاظ پیسٹ کردینے کو کمال علم وفن سمجھا جانے لگے تو پھر علم وتحقیق اور فقہی مصادر ومراجع کے ان عظیم ذخائر کا کیا بنے گا؟ 
عوام الناس کا وہ عجلت پسند طبقہ جو راست اصل مصادر فقہیہ سے مراجعت کرنے سے عاجز وقاصر ہے وہ اگر چیٹ جی پی ٹی وغیرہ کے الفاظ تک کی کورانہ تقلید کرے تو بات کسی درجے میں بنتی ہے 
لیکن غور وتدبر اور اخذ واستنباط کی صلاحیتوں سے مالا مال عربی داں اور تحقیق آشنا طبقہ علماء وفضلاء بھی اس "ببغاء معلَّم" پر یوں پروانہ وار فدائیت کا مظاہرہ کرنے لگ جائے تو ذرا سوچیں کہ پھر ہمارے پاس کیا بچا؟ 
اپنی سوچ دوسروں پہ تھوپنے کا خبط بحمد اللہ نہیں ہے 
لیکن اس حلقے کے علمی وقار اور میدان تحقیق میں عمر عزیز کھپانے والے فضلاء وفقہاء کی عالمانہ آن بان وشان کے تحفظ کے مقصد سے گزارش یہ ہے کہ اس حلقے میں چیٹ جی پی ٹی وغیرہ کے جوابات بلفظہ چسپاں کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 
بات دراصل یہ ہے کہ "مفت خوانی" کی خوے بد ہم لوگوں میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ معتدل حالات وفرصت کے لمحات میں بھی اپنے الفاظ  واسالیب میں کچھ رقم کرنے کی زحمت سے  عاری وخالی ہوچکے ہیں۔
میری نظر میں یہ طرز عمل اور علماء وفضلاء میں بڑھتا وپنپتا رجحان لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے  
جدید سہولیات سے استفادہ الگ امر ہے 
اس کے الفاظ واسالیب تک پہ مرمٹ ہوجانا امر آخر ہے 
دونوں میں فرق ملحوظ رہنا ضروری ہے 
علماء وفضلاء کو اپنی فکر ونظر اور انشائی وتخلیقی  صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے 
گہرے غور وتدبر کے ساتھ اپنے الفاظ واسلوب میں مضمون یا فقہی وتحقیقی جواب قلمبند کرنا چاہیے 
فقط 
شکیل منصور القاسمی 
مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی ( #ایس_اے_ساگر )
۷

Friday, 28 February 2025

رمضان شریف کا چاند دیکھ کر یا چاند ہونے کی خبر ملنے پر تین مرتبہ سورہ فتح پڑھنا

پورے سال رزق ملنے کے لئے رمضان شریف کا چاند دیکھ کر یا چاند ہونے کی خبر ملنے پر تین مرتبہ سورہ فتح پڑھنا علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (گنجینۂ اسرار) کے مجربات میں سے ہے، اس لئے پڑھنے میں حرج نہیں، البتہ  یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس طرح رمضان میں کسی خاص عمل کو کرنے کا  شرعی حکم ہے کہ اس کی پابندی کی جائے، لہٰذا اس کے پڑھنے کو لازم نہ سمجھا جائے۔ ( #ایس_اے_ساگر )