خلافت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی پوری کوشش تھی کہ آخری خلیفہ کو ارضِ حرمین میں پناہ مل جائے یا پھر وہ ہندوستان آجائیں۔ ارضِ حرمین مرکز اسلام ہے۔ یہاںان کے آجانے سے شمع توحید وخلافت کے پروانے پھر ان کے گرد جمع ہو جاتے اور کسی نہ کسی شکل میں مسلمانوں کی اجتماعی نمائندگی کی واحد ریاستی شکل یعنی خلافت کسی نہ کسی شکل میں قائم رہتی۔ اگر ہندوستان آجاتے تو یہاں علمائے دیوبند کی شکل میں حریت وجہاد کے بے لوث علمبردار موجود تھے۔ ایسی زور دار تحریک چلتی کہ انگریز کو مقبوضہ ممالک پر قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا۔ اسرار عالم اپنی معرکۃ الآراء کتاب دجال جلد سوم میں لکھتے ہیں:
سقوطِ خلافت 1923ء سے لے کر 1990ء تک اس امت مرحومہ پر پانچ عظیم قیامتیں ٹوٹیں؛ 1923ء میں (Dntertainment) کے تحت ترکی میں جمہوریت قائم کرنے، خلافت عثمانیہ کے بقیہ تمام علاقوں پر قبضہ کرلینے اور ان پر لیگ آف نیشنز (League of Nations) انتداب کا اعلان کردینے اور پھر ترکی میں قائم کی جانے والی اس جمہوریت کے ذریعے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروانے اور خلیفہ کو ملک بدر کردینے کے بعد پوری دنیا میں خلیفہ کے لئے زمین تنگ کردینا، وہ پہلی قیامت تھی جو بیسویں صدی عیسوی میں امت پر ٹوٹی۔ اس کی تین صورتیں سامنے آئیں:
(۱) یہودیوں نے برطانیہ اور فرانس کے توسط سے اس بات کویقینی بنانے کی کوشش کی کہ کوئی آزاد یا نیم آزاد مسلم ملک اور وہاں کا سربراہ خلیفہ کو اپنے یہاں پناہ دے نہ اپنے یہاں خلافت کے نظم کو قائم کرنے دے۔ چنانچہ دنیا کہ تمام مسلم ملکوں اور ان کے حکمرانوں نے ایسا ہی کیا اور کسی نے خلیفہ کو پناہ دی، نہ انہیں اپنے یہاں آنے اور خلافت کے نظام کو زندہ رکھنے کی اجازت۔
(۲) خلیفہ نے اس بات کی کوشش کی کہ اگر کوئی مسلم ملک اسے اپنے یہاں پناہ دیتا ہے اور نہ اپنے یہاں نظم خلافت کے قائم رکھنے کی اجازت تو کم از کم یہ صورت پیدا ہوجائے کہ وہ حرمین شریفین، یعنی مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ میں پناہ گزیں ہوجائیں۔ لیکن پہلے شریف مکہ نے اور پھر بعد میں عبدالعزیز بن آل سعود نے انہیں ایسا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ ظاہر ہے کہ خلیفہ کو اس کی اجازت دینا اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی جو شریف مکہ اور آل سعود نے خلافت عثمانیہ کی تباہی کے لئے برطانیہ اور فرانس سے کر رکھے تھے۔
چونکہ کسی صورت کے باقی نہ رہ جانے کی حالت میں خلیفہ کے لئے اس نظم کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ لہٰذا خلافت ختم ہوگئی۔
(۳) خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ نے جب اس بات کی کوشش کی کہ اگر وہ خلافت بچائی نہ جاسکی تو کم از کم کوئی دوسری خلافت قائم ہوجائے۔ لیکن یہودیوں اور عالمی فری میسن تحریک (Freemason Movement) نے کم از کم تین قطب قائم کرکے مسنری (International Freemasonry) نے ایک ایسی کشش پیدا کردی جس میں دو فریق یعنی سابق شریف مکہ (اردن کے موجودہ شاہی خاندان کے جدّ امجد) اور آغاخان مثبت نما کردار اداکررہے تھے، یعنی یہ کہ خلافت قائم ہو اور وہ خلیفہ بن جائیں اور عبدالعزیز آل سعود منفی نما، یعنی خلافت سرے سے قائم ہی نہ ہو، اس لئے کہ ان کے مطابق اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہر دو صورتوں کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ خلافت کی باز یافت کی کوشش ناکام ہوگئی۔ (اسرار عالم، دجال: 3/88)
برادری کے پروردہ سیکولر جمہوری ترک حکمرانوں نے انہیں کسی بھی مسلم ملک کی طرف ہجرت نہ کرنے دی۔ انہیں بالجبر وسطی یورپ کے ملک سوئٹزر لینڈ روانہ کر دیا گیا تاکہ کسی بھی مسلمان معاشرے یا تحریک سے ان کا رابطہ نہ ہوسکے۔ اس کارِ خیر میں پورا مغرب، یعنی پورا جمہوریت پرست اور خلافت دشمن مغرب شریک تھا۔ 4 مارچ 1924ء کی صبح جب ترکی کے مسلمان بیدار ہوئے تو انہیں علم ہوا کہ قیامت بیت چکی ہے۔
آخری عثمانی خلیفہ کو بھی جدت پسندی کے حصول اور قدامت پرستی سے فرار کے فریب آمیز نعرے کے تحت ترکی سے جلاوطن کیا جاچکا ہے۔ خلافت کا ادارہ ختم ہوگیا ہے۔ ان کے سر سے سائبان چھن چکا ہے۔ بدلے میں کیا ملا؟ آزادی! کس سے آزادی؟ وہ تو بدترین جانبدارانہ نظام کے غلام ہوچکے تھے۔ ترقی! وہ تو ان سے کوسوں دور تھی۔ طیب اردگان تک وہ ترقی خواب ہی رہی جو حریت کے نام پر اسے جھانسہ دیا گیاتھا۔ ترکی کی معیشت بد ترین حد تک گرگئی۔ ترقی یافتہ یوروپ کے پڑوس میں ہوتے ہوئے وہ افریقہ کے کسی قحط زدہ ملک کی طرح بدعنوانی، شہری سہولتوں کے فقدان، جرائم کی بھر مار اور اندھیرے مستقبل کا معمار قرار دیا جاتا تھا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنے پیچھے فری میسن کی شیطنت کے علاوہ کچھ نہ چھوڑ کرگئے تھے۔ عثمانی خاندان کے ساتویں اور سلسلہ خلافت کے آخری حکمران خلیفہ عبد المجید آفندی نے بہادر شاہ ظفر کی طرح چپ چاپ جلاوطنی قبول کرکے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ انہیں اندرونِ خانہ موجود ایجنٹوں کے ذریعے خوفناک طریقے سے سہما دیا تھا۔ ان کے آخری ایام فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گزرے۔ پیرس کے بیس انتظامی اضلاع ہیں۔ ان میں سے آپ کی رہائش گاہ سولہویں ضلع میں تھی۔ اس کا پتا یہ تھا:
Boulevard Suchet Parice Xvle France. 16th arrondissement (Arrondissement de passy) دوسری جنگ عظیم (1939-45ئ) کے دوران 23 گست 1944ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ فری میسن کے لیے یہ دوسری بڑ خوش خبری تھی۔ خلافت کے بعد اب خلیفہ بھی اس دنیا میں نہ رہے تھے۔ اس نے اس لفظ کے اتنے غلط استعمالات دنیا میں اور لغت کی کتابوں میں پھیلائے کہ اس لفظ کے استعمال سے لوگ شرمانے لگے۔ اس لفظ کو اس کا حقیقی وقار اور اس منصب کو اس کا حقیقی افتخار لوٹانا آج کے مسلمان کا فرض ہے۔ آخری سلطان عثمانی کی طرح آخری عثمانی خلیفہ کو بھی غیر متعصب جمہوری حکمرانوں نے وطن میں دفن کے لئے چند گز زمین دینے سے انکار کردیا۔ بالآخر انہیں مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔ اب پہلے خلیفہ اسلام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آخری خلیفہ عبدالمجید آفندی چند قدموں کے فاصلے پر مدفون ہیں۔ دنیا والوں کو کو ن یہ باتیں سنائے اور یاد دلائے کہ ہمارا نظام حکومت خلافت ہے، جمہوریت نہیں خلافت کے خاتمے کے بعد اس خاندان کے آخری فرد کا انتقال تقریباً پانچ سال پہلے 27 ستمبر 2009ء کے دن ہوا۔ ان کا نام ارطغرل عثمان تھا اور یہ آخری خلیفہ عبدالمجید آفندی کے پوتے تھے۔ عثمانی شاہی خاندان نے دو رشتے باہر کئے تھے۔ دونوں کی آخری نسل کی آج کچھ خبر نہیں۔ کسی کو علم ہو توراقم کو اطلاع دے۔ ایک تو ہم لوگوں یعنی ہندوستانی مسلمانوں میں۔ آخری خلیفہ کی ایک صاحبزادی شہزادی درشہوار کی شادی ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں اور نظام میر عثمان علی خان کے سب سے بڑے صاحبزادے شہزادہ نواب اعظم خان سے ہوئی تھی۔ دوسرے انہی خلیفہ کے پوتے ارطغرل عثمان کا نکاح افغانستان کے آخری شاہ امان اللہ خان کی قریبی رشتہ دار شہزادی زینب ترزئی سے ہوا تھا۔ ارطغرل عثمان 1912ء میں پیدا ہوئے۔ 1924ء میں وہ آسٹریا میں زیر تعلیم تھے۔ (یہاں وہی غلطی دہرائی جارہی تھی کہ عثمانی خاندان کے افراد یوروپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے تھے جہاں وہ فری میسن کا آسانی سے شکار ہوجاتے تھے۔) انہیں اطلاع ملی کہ اتاترک نے ان کے خاندان کے تمام افراد کو جلاوطن کردیا ہے۔ انہوں نے حسبِ توقع جنبش بھی نہ کی۔ تعلیم پانے کے بعد اپنی زندگی کا بیشترحصہ (تقریباً 60 برس) نیویارک میں ایک ریستوران کے اوپر واقع چھوٹے سے فلیٹ میں شہزادی زینب کے ساتھ گزاردیا۔ وہ تو خیر گذری کہ ستمبر 2009ء میں بعمر97 سال ان کے انتقال کے وقت ترکی میں کسی سیکولر بچہ جمہورے کی نہیں، طیب اردگان جیسے شخص کی حکومت تھی جس کے دل میں ایمان کی چنگاری بہرحال روشن ہے۔ اس نے ان کے جسدِ خاکی کو نہ صرف وطن واپس لانے کی اجازت دی، بلکہ ہزاروں مسلمانوں کی نمازِ جنازہ کے بعد انہیں ان کے دادا سلطان عبدالمجید کے خاندانی قبرستان میں دفن کی اجازت بھی دی۔ رہے نام اللہ کا۔ اللہ باقی، سب فانی۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ہمیں یہود و نصاریٰ سے دوستانہ تعلقات سے منع کیا گیا تھا۔ ہم نے ان کو اپنا اور اپنے بچوں کا مربی بنالیا۔ مشنریز کو اسکول بنانے اور این جی اوز کو نام نہاد فلاحی ادارے چلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ ہمارے ذہین طلبہ کو اسکالر شپ پر بیرون ملک لے جانے پر شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے۔ تعلیم کے راستے یوروپی تہذیب تیزی سے سرایت کرتی جاتی ہے۔ نوجوان ترک جیسی نئی نسل تیار ہوتی جاتی ہے۔ دلفریب ناموں نے مرکزِ خلافت کا خاتمہ کر چھوڑا۔ مغربی تعلیم، مغربی تہذیب کو اور مغربی تہذیب مغرب کے پروردہ حکمرانوں کو جنم دے رہی تھی۔ ترقی اور آزادی کے نام پر بدترین پسماندگی اور غلامی کا جال بنا جارہا تھا۔ فری میسنز نے انتظار کیا مسلسل انتظار، خاموشی اور تحمل سے۔ ان کے پاس بہت وقت تھا۔ انہوں نے صدیوں تک برداشت کیا، بالآخر انہوں نے مسلم خلافت کے سقوط کیسے ایک عورت کے ذریعے وہ کام کردکھایا جو لاکھوں سپاہی اور ان گنت صلیبی جنگیں نہ کرسکیں۔ اس داستان سے ہمیں کیا پتا چلا؟
سقوطِ خلافت 1923ء سے لے کر 1990ء تک اس امت مرحومہ پر پانچ عظیم قیامتیں ٹوٹیں؛ 1923ء میں (Dntertainment) کے تحت ترکی میں جمہوریت قائم کرنے، خلافت عثمانیہ کے بقیہ تمام علاقوں پر قبضہ کرلینے اور ان پر لیگ آف نیشنز (League of Nations) انتداب کا اعلان کردینے اور پھر ترکی میں قائم کی جانے والی اس جمہوریت کے ذریعے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروانے اور خلیفہ کو ملک بدر کردینے کے بعد پوری دنیا میں خلیفہ کے لئے زمین تنگ کردینا، وہ پہلی قیامت تھی جو بیسویں صدی عیسوی میں امت پر ٹوٹی۔ اس کی تین صورتیں سامنے آئیں:
(۱) یہودیوں نے برطانیہ اور فرانس کے توسط سے اس بات کویقینی بنانے کی کوشش کی کہ کوئی آزاد یا نیم آزاد مسلم ملک اور وہاں کا سربراہ خلیفہ کو اپنے یہاں پناہ دے نہ اپنے یہاں خلافت کے نظم کو قائم کرنے دے۔ چنانچہ دنیا کہ تمام مسلم ملکوں اور ان کے حکمرانوں نے ایسا ہی کیا اور کسی نے خلیفہ کو پناہ دی، نہ انہیں اپنے یہاں آنے اور خلافت کے نظام کو زندہ رکھنے کی اجازت۔
(۲) خلیفہ نے اس بات کی کوشش کی کہ اگر کوئی مسلم ملک اسے اپنے یہاں پناہ دیتا ہے اور نہ اپنے یہاں نظم خلافت کے قائم رکھنے کی اجازت تو کم از کم یہ صورت پیدا ہوجائے کہ وہ حرمین شریفین، یعنی مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ میں پناہ گزیں ہوجائیں۔ لیکن پہلے شریف مکہ نے اور پھر بعد میں عبدالعزیز بن آل سعود نے انہیں ایسا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ ظاہر ہے کہ خلیفہ کو اس کی اجازت دینا اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی جو شریف مکہ اور آل سعود نے خلافت عثمانیہ کی تباہی کے لئے برطانیہ اور فرانس سے کر رکھے تھے۔
چونکہ کسی صورت کے باقی نہ رہ جانے کی حالت میں خلیفہ کے لئے اس نظم کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ لہٰذا خلافت ختم ہوگئی۔
(۳) خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ نے جب اس بات کی کوشش کی کہ اگر وہ خلافت بچائی نہ جاسکی تو کم از کم کوئی دوسری خلافت قائم ہوجائے۔ لیکن یہودیوں اور عالمی فری میسن تحریک (Freemason Movement) نے کم از کم تین قطب قائم کرکے مسنری (International Freemasonry) نے ایک ایسی کشش پیدا کردی جس میں دو فریق یعنی سابق شریف مکہ (اردن کے موجودہ شاہی خاندان کے جدّ امجد) اور آغاخان مثبت نما کردار اداکررہے تھے، یعنی یہ کہ خلافت قائم ہو اور وہ خلیفہ بن جائیں اور عبدالعزیز آل سعود منفی نما، یعنی خلافت سرے سے قائم ہی نہ ہو، اس لئے کہ ان کے مطابق اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہر دو صورتوں کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ خلافت کی باز یافت کی کوشش ناکام ہوگئی۔ (اسرار عالم، دجال: 3/88)
برادری کے پروردہ سیکولر جمہوری ترک حکمرانوں نے انہیں کسی بھی مسلم ملک کی طرف ہجرت نہ کرنے دی۔ انہیں بالجبر وسطی یورپ کے ملک سوئٹزر لینڈ روانہ کر دیا گیا تاکہ کسی بھی مسلمان معاشرے یا تحریک سے ان کا رابطہ نہ ہوسکے۔ اس کارِ خیر میں پورا مغرب، یعنی پورا جمہوریت پرست اور خلافت دشمن مغرب شریک تھا۔ 4 مارچ 1924ء کی صبح جب ترکی کے مسلمان بیدار ہوئے تو انہیں علم ہوا کہ قیامت بیت چکی ہے۔
آخری عثمانی خلیفہ کو بھی جدت پسندی کے حصول اور قدامت پرستی سے فرار کے فریب آمیز نعرے کے تحت ترکی سے جلاوطن کیا جاچکا ہے۔ خلافت کا ادارہ ختم ہوگیا ہے۔ ان کے سر سے سائبان چھن چکا ہے۔ بدلے میں کیا ملا؟ آزادی! کس سے آزادی؟ وہ تو بدترین جانبدارانہ نظام کے غلام ہوچکے تھے۔ ترقی! وہ تو ان سے کوسوں دور تھی۔ طیب اردگان تک وہ ترقی خواب ہی رہی جو حریت کے نام پر اسے جھانسہ دیا گیاتھا۔ ترکی کی معیشت بد ترین حد تک گرگئی۔ ترقی یافتہ یوروپ کے پڑوس میں ہوتے ہوئے وہ افریقہ کے کسی قحط زدہ ملک کی طرح بدعنوانی، شہری سہولتوں کے فقدان، جرائم کی بھر مار اور اندھیرے مستقبل کا معمار قرار دیا جاتا تھا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنے پیچھے فری میسن کی شیطنت کے علاوہ کچھ نہ چھوڑ کرگئے تھے۔ عثمانی خاندان کے ساتویں اور سلسلہ خلافت کے آخری حکمران خلیفہ عبد المجید آفندی نے بہادر شاہ ظفر کی طرح چپ چاپ جلاوطنی قبول کرکے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ انہیں اندرونِ خانہ موجود ایجنٹوں کے ذریعے خوفناک طریقے سے سہما دیا تھا۔ ان کے آخری ایام فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گزرے۔ پیرس کے بیس انتظامی اضلاع ہیں۔ ان میں سے آپ کی رہائش گاہ سولہویں ضلع میں تھی۔ اس کا پتا یہ تھا:
Boulevard Suchet Parice Xvle France. 16th arrondissement (Arrondissement de passy) دوسری جنگ عظیم (1939-45ئ) کے دوران 23 گست 1944ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ فری میسن کے لیے یہ دوسری بڑ خوش خبری تھی۔ خلافت کے بعد اب خلیفہ بھی اس دنیا میں نہ رہے تھے۔ اس نے اس لفظ کے اتنے غلط استعمالات دنیا میں اور لغت کی کتابوں میں پھیلائے کہ اس لفظ کے استعمال سے لوگ شرمانے لگے۔ اس لفظ کو اس کا حقیقی وقار اور اس منصب کو اس کا حقیقی افتخار لوٹانا آج کے مسلمان کا فرض ہے۔ آخری سلطان عثمانی کی طرح آخری عثمانی خلیفہ کو بھی غیر متعصب جمہوری حکمرانوں نے وطن میں دفن کے لئے چند گز زمین دینے سے انکار کردیا۔ بالآخر انہیں مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔ اب پہلے خلیفہ اسلام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آخری خلیفہ عبدالمجید آفندی چند قدموں کے فاصلے پر مدفون ہیں۔ دنیا والوں کو کو ن یہ باتیں سنائے اور یاد دلائے کہ ہمارا نظام حکومت خلافت ہے، جمہوریت نہیں خلافت کے خاتمے کے بعد اس خاندان کے آخری فرد کا انتقال تقریباً پانچ سال پہلے 27 ستمبر 2009ء کے دن ہوا۔ ان کا نام ارطغرل عثمان تھا اور یہ آخری خلیفہ عبدالمجید آفندی کے پوتے تھے۔ عثمانی شاہی خاندان نے دو رشتے باہر کئے تھے۔ دونوں کی آخری نسل کی آج کچھ خبر نہیں۔ کسی کو علم ہو توراقم کو اطلاع دے۔ ایک تو ہم لوگوں یعنی ہندوستانی مسلمانوں میں۔ آخری خلیفہ کی ایک صاحبزادی شہزادی درشہوار کی شادی ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں اور نظام میر عثمان علی خان کے سب سے بڑے صاحبزادے شہزادہ نواب اعظم خان سے ہوئی تھی۔ دوسرے انہی خلیفہ کے پوتے ارطغرل عثمان کا نکاح افغانستان کے آخری شاہ امان اللہ خان کی قریبی رشتہ دار شہزادی زینب ترزئی سے ہوا تھا۔ ارطغرل عثمان 1912ء میں پیدا ہوئے۔ 1924ء میں وہ آسٹریا میں زیر تعلیم تھے۔ (یہاں وہی غلطی دہرائی جارہی تھی کہ عثمانی خاندان کے افراد یوروپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے تھے جہاں وہ فری میسن کا آسانی سے شکار ہوجاتے تھے۔) انہیں اطلاع ملی کہ اتاترک نے ان کے خاندان کے تمام افراد کو جلاوطن کردیا ہے۔ انہوں نے حسبِ توقع جنبش بھی نہ کی۔ تعلیم پانے کے بعد اپنی زندگی کا بیشترحصہ (تقریباً 60 برس) نیویارک میں ایک ریستوران کے اوپر واقع چھوٹے سے فلیٹ میں شہزادی زینب کے ساتھ گزاردیا۔ وہ تو خیر گذری کہ ستمبر 2009ء میں بعمر97 سال ان کے انتقال کے وقت ترکی میں کسی سیکولر بچہ جمہورے کی نہیں، طیب اردگان جیسے شخص کی حکومت تھی جس کے دل میں ایمان کی چنگاری بہرحال روشن ہے۔ اس نے ان کے جسدِ خاکی کو نہ صرف وطن واپس لانے کی اجازت دی، بلکہ ہزاروں مسلمانوں کی نمازِ جنازہ کے بعد انہیں ان کے دادا سلطان عبدالمجید کے خاندانی قبرستان میں دفن کی اجازت بھی دی۔ رہے نام اللہ کا۔ اللہ باقی، سب فانی۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ہمیں یہود و نصاریٰ سے دوستانہ تعلقات سے منع کیا گیا تھا۔ ہم نے ان کو اپنا اور اپنے بچوں کا مربی بنالیا۔ مشنریز کو اسکول بنانے اور این جی اوز کو نام نہاد فلاحی ادارے چلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ ہمارے ذہین طلبہ کو اسکالر شپ پر بیرون ملک لے جانے پر شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے۔ تعلیم کے راستے یوروپی تہذیب تیزی سے سرایت کرتی جاتی ہے۔ نوجوان ترک جیسی نئی نسل تیار ہوتی جاتی ہے۔ دلفریب ناموں نے مرکزِ خلافت کا خاتمہ کر چھوڑا۔ مغربی تعلیم، مغربی تہذیب کو اور مغربی تہذیب مغرب کے پروردہ حکمرانوں کو جنم دے رہی تھی۔ ترقی اور آزادی کے نام پر بدترین پسماندگی اور غلامی کا جال بنا جارہا تھا۔ فری میسنز نے انتظار کیا مسلسل انتظار، خاموشی اور تحمل سے۔ ان کے پاس بہت وقت تھا۔ انہوں نے صدیوں تک برداشت کیا، بالآخر انہوں نے مسلم خلافت کے سقوط کیسے ایک عورت کے ذریعے وہ کام کردکھایا جو لاکھوں سپاہی اور ان گنت صلیبی جنگیں نہ کرسکیں۔ اس داستان سے ہمیں کیا پتا چلا؟
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہوا: دشمن کا پہلا وار عورت کی جانب سے ہوتا ہے۔ زن، زر اور زمین میں سے سب سے خطرناک شیطانی ہتھیار زن ہے۔ پاکستان سمیت عالم اسلام کے بہت سے سابقہ حکمرانوں کی بیویاں یا سیکریٹریاں غیرملکی تھیں۔ اور اتفاقیہ طور پر ان کی زندگی میں داخل ہوئی تھیں۔
انور سادات کی بیوی جہاں سادات، یاسر عرفات کی بیوی سوہا عرفات، اردن کے پورے شاہی خاندان کی بیویوں کی طرح بشارالاسد کی بیوی اسماء اسد سب کی سب امریکی یہودی یا برطانوی عیسائی ہیں۔ انور سادات اور یاسر عرفات کو امن کا نوبل انعام کبھی نہ ملتا اگر وہ ان کافر حسیناؤں کے شوہر نہ ہوتے۔ افغانستان میں کرزئی کے بعد جن مجوزہ حکمرانوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان کی بیویاں بھی غیرملکی ہیں اور حادثاتی طور پر ان کا سنگ حاصل کر کے رفیقۂ حیات کے منصب پر فائز ہوئی ہیں۔ عبداللہ عبداللہ کے بعد زلمے خلیل زاد کی ناول نگار اور تجزیہ نگار اہلیہ محترمہ شیرل بینارڈ Cheryl enard امریکی یہودی اور اشرف غنی کی زوجہ صاحبہ لبنانی عیسائی ہے۔ ہمارے ممدوح کپتان جناب عمران خان نسل سے پختون اور غیرت مند تھے لہٰذابرادری کے ہاتھوں استعمال ہونے سے انکار کرکے اس راستے سے واپس چلے آئے، ورنہ برادری نے ان کی شکل میں پاکستان کا تاحیات حکمران ڈھونڈ لیا تھا۔ جناب کے سسر صاحب سر جیمز گولڈ کا تعلق دنیا کے ان سات بڑے یہودیوں سے تھا جو یہودیوں کے ایک خاص کلب کے ممبر تھے جس میں بیک وقت سامی نسل کے خالص النسب سات افراد چنے جاسکتے ہیں، زیادہ نہیں۔ راقم بوجوہ وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یہ فتنہ خیز کافر حسینائیں مسلمان شہزادوں، ولی عہدوں کو اپنی زلفوں کا اسیر بنانے کے گُر جاننے کے علاوہ کبالا نامی بریہودی سفلی عملیات، جادو، ٹیلی پیٹھی اور مسمریزم یا ہپناٹائزم تک کسی حربے کو نہیں چھوڑتیں۔ شراب میں مخصوص مقدار میں دماغ معطل یا سن کرنے والی دواؤں کی ہلکی آمیزش کرتی رہتی ہیں۔ جس کے بعد تو یہ سب حکمران ان کے لئے مکمل تابع فرمان ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے ایسے تباہ کن فیصلے کر بیٹھتے ہیں، جن کے متعلق بعد انہیں خود سمجھ نہیں آتا کہ یہ معاہدہ ہم نے کر کیسے لیا؟
زناو شراب، رقص و موسیقی شیطان کے پھندے ہیں۔ اس کے ذریعے سے وہ اور اس کے چیلے انسانوں کو شکار کرکے پہلے اپنا پیرو کار پھر اپنا پجاری بناتے ہیں۔ فحاشی و عریانی پھیلانے والے رسالے، چینل، ویب سائٹس، دوستی کلب سب کے سب برادری کا وہ جال ہیں جس سے تو بہ کئے بغیر جو جتنا پھڑکے گا اتنا پھنسے گا۔
مغرب کے کچھ تعلیمی ادارے، کچھ مشرقی ممالک کے حکمرانوں اور ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی تعلیم گاہوں کے طور پر مخصوص و معروف ہیں۔ یہاں ان پر خصوصی محنت اور ذہن سازی ہوتی ہے،کوئی نہ کوئی دم چھلا یا دم چھلن یہیں سے ان کے ساتھ چپک جاتی ہے، یا چپکادی جاتی ہے۔ چنانچہ یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان جب اپنے ملک جاتے ہیں تو ایسی کھوپڑی میں مغربی نظریات کی زنبیل ساتھ لے جاتے ہیں۔ پھر سلطنتِ عثمانیہ کی طرح اسلامی ملک کے زوال کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مغرب سے مربوط تعلیم گاہیں، تعلیمی ادارے نہیں، اعلیٰ مناصب تک اپنے افراد پہنچانے کی کمندیں اور مقتدر قوت حاصل کرنے کی کار گاہیں ہیں۔ علامہ طاہرالقادری اور جناب فتح اللہ گولن جیسے لوگ بھی اس حربے کو استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ پڑھنے لکھنے کے سوا کا نعرہ لگانے والے بھی در اصل اسی تھالی کے بینگن ہیںیا اسی تھیلی کے چٹے پٹے۔ اب تو بہت سی دینی جامعات اوراس کے مہتمم صاحبان کے ورثہ پر کھلم کھلا، زبردست محنت سرمایہ کاری ہو رہی ہے تاکہ مستقبل میں ان خاک نشین اداروں کی سمت درست کی جاسکے۔ بیرونی اداروں کے تحت کورس کرنا، مقابلوں میں حصہ لینا بھی اسی قسم کی قومی خدمت ہے۔
٭نئی نسل کو مغرب کے قائم کیے ہوئے مغربی اسکولوں میں بھیجنا ان کی شرافت، مذہبیت اور مقصدیت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ خاص کر یورپی ایڈ پروگرام کے تحت طلبہ یا اساتذہ کو اسکالر شپ پر تعلیم کے لیے بھیجنا تو مملکتِ خداداد کو ویسا ہی کھوکھلا کر دے گا، جیسا کہ سلطنتِ عثمانیہ ترک نوجوانوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔
یہ چند ناقابلِ فراموش اسباق ہیں جو ہمیں آخری سلطنت خلافت کے زوال کے اسباب کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے کے لیے مستقبل کے راستے روشن رہتے ہیں اور اپنے احتساب سے بے خبر ہوکر ہوا کے رخ چلتے رہنے والوں کے لیے کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
انور سادات کی بیوی جہاں سادات، یاسر عرفات کی بیوی سوہا عرفات، اردن کے پورے شاہی خاندان کی بیویوں کی طرح بشارالاسد کی بیوی اسماء اسد سب کی سب امریکی یہودی یا برطانوی عیسائی ہیں۔ انور سادات اور یاسر عرفات کو امن کا نوبل انعام کبھی نہ ملتا اگر وہ ان کافر حسیناؤں کے شوہر نہ ہوتے۔ افغانستان میں کرزئی کے بعد جن مجوزہ حکمرانوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان کی بیویاں بھی غیرملکی ہیں اور حادثاتی طور پر ان کا سنگ حاصل کر کے رفیقۂ حیات کے منصب پر فائز ہوئی ہیں۔ عبداللہ عبداللہ کے بعد زلمے خلیل زاد کی ناول نگار اور تجزیہ نگار اہلیہ محترمہ شیرل بینارڈ Cheryl enard امریکی یہودی اور اشرف غنی کی زوجہ صاحبہ لبنانی عیسائی ہے۔ ہمارے ممدوح کپتان جناب عمران خان نسل سے پختون اور غیرت مند تھے لہٰذابرادری کے ہاتھوں استعمال ہونے سے انکار کرکے اس راستے سے واپس چلے آئے، ورنہ برادری نے ان کی شکل میں پاکستان کا تاحیات حکمران ڈھونڈ لیا تھا۔ جناب کے سسر صاحب سر جیمز گولڈ کا تعلق دنیا کے ان سات بڑے یہودیوں سے تھا جو یہودیوں کے ایک خاص کلب کے ممبر تھے جس میں بیک وقت سامی نسل کے خالص النسب سات افراد چنے جاسکتے ہیں، زیادہ نہیں۔ راقم بوجوہ وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یہ فتنہ خیز کافر حسینائیں مسلمان شہزادوں، ولی عہدوں کو اپنی زلفوں کا اسیر بنانے کے گُر جاننے کے علاوہ کبالا نامی بریہودی سفلی عملیات، جادو، ٹیلی پیٹھی اور مسمریزم یا ہپناٹائزم تک کسی حربے کو نہیں چھوڑتیں۔ شراب میں مخصوص مقدار میں دماغ معطل یا سن کرنے والی دواؤں کی ہلکی آمیزش کرتی رہتی ہیں۔ جس کے بعد تو یہ سب حکمران ان کے لئے مکمل تابع فرمان ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے ایسے تباہ کن فیصلے کر بیٹھتے ہیں، جن کے متعلق بعد انہیں خود سمجھ نہیں آتا کہ یہ معاہدہ ہم نے کر کیسے لیا؟
زناو شراب، رقص و موسیقی شیطان کے پھندے ہیں۔ اس کے ذریعے سے وہ اور اس کے چیلے انسانوں کو شکار کرکے پہلے اپنا پیرو کار پھر اپنا پجاری بناتے ہیں۔ فحاشی و عریانی پھیلانے والے رسالے، چینل، ویب سائٹس، دوستی کلب سب کے سب برادری کا وہ جال ہیں جس سے تو بہ کئے بغیر جو جتنا پھڑکے گا اتنا پھنسے گا۔
مغرب کے کچھ تعلیمی ادارے، کچھ مشرقی ممالک کے حکمرانوں اور ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی تعلیم گاہوں کے طور پر مخصوص و معروف ہیں۔ یہاں ان پر خصوصی محنت اور ذہن سازی ہوتی ہے،کوئی نہ کوئی دم چھلا یا دم چھلن یہیں سے ان کے ساتھ چپک جاتی ہے، یا چپکادی جاتی ہے۔ چنانچہ یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان جب اپنے ملک جاتے ہیں تو ایسی کھوپڑی میں مغربی نظریات کی زنبیل ساتھ لے جاتے ہیں۔ پھر سلطنتِ عثمانیہ کی طرح اسلامی ملک کے زوال کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مغرب سے مربوط تعلیم گاہیں، تعلیمی ادارے نہیں، اعلیٰ مناصب تک اپنے افراد پہنچانے کی کمندیں اور مقتدر قوت حاصل کرنے کی کار گاہیں ہیں۔ علامہ طاہرالقادری اور جناب فتح اللہ گولن جیسے لوگ بھی اس حربے کو استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ پڑھنے لکھنے کے سوا کا نعرہ لگانے والے بھی در اصل اسی تھالی کے بینگن ہیںیا اسی تھیلی کے چٹے پٹے۔ اب تو بہت سی دینی جامعات اوراس کے مہتمم صاحبان کے ورثہ پر کھلم کھلا، زبردست محنت سرمایہ کاری ہو رہی ہے تاکہ مستقبل میں ان خاک نشین اداروں کی سمت درست کی جاسکے۔ بیرونی اداروں کے تحت کورس کرنا، مقابلوں میں حصہ لینا بھی اسی قسم کی قومی خدمت ہے۔
٭نئی نسل کو مغرب کے قائم کیے ہوئے مغربی اسکولوں میں بھیجنا ان کی شرافت، مذہبیت اور مقصدیت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ خاص کر یورپی ایڈ پروگرام کے تحت طلبہ یا اساتذہ کو اسکالر شپ پر تعلیم کے لیے بھیجنا تو مملکتِ خداداد کو ویسا ہی کھوکھلا کر دے گا، جیسا کہ سلطنتِ عثمانیہ ترک نوجوانوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔
یہ چند ناقابلِ فراموش اسباق ہیں جو ہمیں آخری سلطنت خلافت کے زوال کے اسباب کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے کے لیے مستقبل کے راستے روشن رہتے ہیں اور اپنے احتساب سے بے خبر ہوکر ہوا کے رخ چلتے رہنے والوں کے لیے کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
مفتی ابو لبابہ شاہ منصور
http://zarbemomin.com.pk/index.php/m...h-k-chand-sabq
Read more:
https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?269315-تاریخ-کے-چند-سبق!مفتی-ابو-لبابہ-شاہ-منصور#ixzz58PBMzCwM
............
............
No comments:
Post a Comment