Saturday, 31 March 2018

صدر باز کا دوائوں کا نرخ متعین (ریٹ کنٹرول) کرنا؟

صدر باز کا دوائوں کا نرخ متعین (ریٹ کنٹرول) کرنا؟

(سلسلہ 1752 )

سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیسن کی ایک مارکیٹ میں تین ھول سیل ڈیلر ھیں جوکہ گاھک کے ساتھ %13 تک رعایت کرتے ھیں اور اسی مارکیٹ میں موجود دیگر دکاندار %5 تک رعایت کرتے ھیں ۔ زیادہ رعایت کرنے کی وجہ سے گاھک مارکیٹ میں موجود ھول سیل دکانداروں کے پاس جاتے ھیں اور عام دکانداروں کے پاس نھیں جاتے ۔ مارکیٹ میں موجود عام دکانداروں نے بازار کے صدر اور دیگر عہدیداروں سے گاھک کے نہ آنے اور سیل کے نہ ھونے کی فریاد کرتے ھوئے مطالبہ کیا کہ مارکیٹ میں % 5 سے زیادہ رعایت کرنے والوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ بھی گاھک کے ساتھ % 5 سے زیادہ رعایت نہ کریں۔ بازار کے صدر نے دوسرے دکانداروں کی مجبوری کو دیکھ کر مارکیٹ میں موجود تمام دکانداروں پر یہ پابندی عاید کردی کہ کوئی بھی دکاندار گاھک کے ساتھ 5 فیصد سے زیادہ رعایت نہ کریں اور اگر کسی نے اس پابندی کی پاسداری نھیں کی تو اس پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد ھوگا اور مارکیٹ کا کوئی بھی دکاندار اور تمام میڈیسن کمپنی والے اس کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کے پابند ھوگئے۔
مارکیٹ میں موجود ایک ھول سیل ڈیلر بازار کے صدر اوردیگر عھدیداروں کے اس فیصلے پر اعتراض کرتا ھوا کہتا ہے کہ یہ فیصلہ غیر شرعی اور ناجائز ھے اور بازار کے صدر وغیرہ کو اس طرح فیصلے کرنے کاشرعا حق حاصل نھیں جبکہ مارکیٹ کے تمام دکاندار اس فیصلے پر راضی ھیں اور اس کو قبول کرتےھیں ۔ مطلوبہ مسئلہ یہ ھے کہ صورت مذکورہ میں شرعا حق بجانب کون ھے ؟
مذکورہ مسئلہ سے فریقین کے درمیان اختلافات کے پیدا ھونے کا قوی امکان ھے اس لیے آپ مفتی صاحب کی خدمت میں درخواست ھے کہ حتی الوسع جواب جلدی اور مفصل دینے کی کوشش فرمائیں ۔ مستفتی اسد خلیل پشاور شھر۔ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
بائع اور مشتری کے مالی لین دین میں حکومت کو ریٹ کنٹرول کرکے مداخلت کرنا اصولا جائز نہیں ہے ۔
لیکن اگر ایسا نہ کرنے سے مارکیٹ کے اکثر تاجروں کی معاشی حالت خراب ہوسکتی ہو تو حکومت ماہرین اقتصادیات اور معاشی تجربہ کاروں کی مشاورت سے دوائوں کا نرخ متعین کرسکتی ہے ۔
تاکہ مارکیٹ میں اشیاء ضروریہ کی خرید وفروخت معتدل طریقہ سے چلتی رہے۔
صدر بازار یا حکومتی عہدیداران کی طرف سے مفاد اور حقوق عامہ کے پیش نظر ریٹ کنٹرول ہوجانے کے بعد بھی بائع کو یہ حق ہے کہ اپنی مملوکہ چیز جس سے جتنے میں چاہے فروخت کرسکتا ہے ۔
لیکن خریدار کے لئے متعین نرخ کے خلاف خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر بازار کے اکثر تاجر دوائوں کی قیمت متعین کردینے کے حق میں ہوں تو صدر بازار یا حکومتی عہدیداران کے لئے عام تجارتی نظام کو اپنی رفتار پر جاری رکھنے اور تجار کی معاشی حالتوں کو پٹری پر بحال رکھنے کے لئے قیمتیں متعین کردینے کی گنجائش ہے۔
خلاف ورزی کرنے والے پر مناسب جرمانہ لازم کرنے کا حق بھی شرعا ملتا ہے۔
حد سے زیادہ قیمت بڑھادینے کی صورت میں صارفین وگراہکوں کے ضرر فاحش کی وجہ سے نرخ متعین کردینے کا حق حاکم کو ملتا ہے ۔
اسی طرح جب بعض ہول سیل دکانداروں کی طرف سے زیادہ رعایت دینے کی صورت میں اکثر ریٹیل تاجروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہو تو اب یہاں بھی اسی علت ضرر کی وجہ سے تعیین نرخ کا حق شرعا ثابت ہوگا۔۔۔۔

ویکرہ التسعیر إلا إذا تعدی أرباب الطعام في القیمۃ تعدیا فاحشا کالضعف وعجز الحاکم عن صیانۃ حقوقہم إلا بالتسعیر فلا بأس بہ أي بالتسعیر بمشورۃ أہل الخبرۃ، أي أہل الرأی والبصارۃ؛ لأن فیہ صیانۃ حقوق المسلمین عن الضیاع، فإن باع بأکثر مما سعرہ أجازہ القاضي قیل: إذا خاف البائع أن یضربہ الحاکم إن نقص من سعرہ لا یحل ما باعہ لکونہ من معنی المکرہ … لکن في الہدایۃ وغیرہا: ومن باع منہم بما قدرہ الإمام صح؛ لأنہ غیر مکرہ علی البیع۔ (مجمع الأنہر، کتاب الکراہیۃ، فصل في البیع، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۲۱۴-۲۱۵)

قال العلامۃ التمرتاشی رحمہ اللّٰہ: ولایسعر حاکم الا اذا تعدی الارباب عن القیمۃ تعدّیَا فاحشًا بمشورۃ اھل الراي۔(تنویر الابصار علی صدر ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۴۰۰، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی البیع)
قال العلامۃ عبداللّٰہ بن محمودالموصلیؒ:ولاینبغی للسلطان ان یسعر علی الناس لمابیناقال الاان یتعدی ارباب الطعام تعدیافاحشافی القیمۃ فلابأس بذٰلک بمشورۃ اھل الخبرۃبہٖ لأن فیہ صیانۃ حقوق المسلمین عن الضیاع۔(الاختیار لتعلیل المختار:ج؍۴،ص؍۱۶۱،کتاب الکراھیۃ،فصل الاحتکار)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
12 رجب 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment