Friday, 9 March 2018

حرام پیشہ کرنے والے غیر مسلم کے یہاں دعوت کھانا؟

حرام پیشہ کرنے والے غیر مسلم کے یہاں دعوت کھانا؟
سوال (۵۷۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حرام پیشہ کرنے والے غیرمسلم کے یہاں دعوت کھانا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرام پیشہ کرنے والے غیرمسلم کے یہاں دعوت کھانے کی اُصولاً گنجائش ہے؛ کیوںکہ غیر مسلم مالی معاملات میں شریعت کا پابند نہیں ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمان بالخصوص علماء ومقتدیٰ حضرات ایسے شخص کی دعوت قبول کرنے سے احتراز کریں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: {لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہُ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ} [اٰل عمران: ۲۸]
لإنا أمرنا بترکہم وما یدینون، قال الشامي: فلا نمنعہم عن شرب الخمر وأکل الخنزیر وبیعہما۔ (الدر المختار مع الشامي ۴؍۳۱۲ زکریا)
روی محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في السیر الکبیر أخبارًا متعارضۃً، في بعضہا: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل ہدایا المشرک۔ وفي بعضہا: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقبل۔ فلا بد من التوفیق۔ واختلفت عبارۃ المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ في وجہ التوفیق … ومن المشایخ من وفق من وجہٍ آخر، فقال: لم یقبل من شخص علم أنہ لو قبل منہ یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ویلین لہ بسبب قبول الہدیۃ، وقبل من شخص علم أنہ لا یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ولا یلین بسبب قبول الہدیۃ، کذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الرابع عشر في أہل الذمۃ ۵؍۳۴۷-۳۴۸ زکریا، وکذا في المحیط البرہاني / الفصل السادس عشر في معاملۃ أہل الذمۃ ۶؍۱۰۴ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
....................
غیر مسلم کی اور بینک کی دعوتِ افطار
سوال:-{1165} رمضان شریف میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ غیر مسلم سیاسی قائدین، تجار، بینک وغیرہ افطار پارٹی کرتے ہیں، جس میں بعض علماء بھی شریک ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ غیر مسلم سیاسی قائدین اور بینک کا پیسہ مشکوک ہے ، افطار میں لگائے جانے والے پیسوں کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ حلال ہیں، تو اس طرح کی افطار پارٹیوں میں شریک ہونا کہاں تک درست ہے؟
(احمد جابری ، نظام آباد)

جواب:- دعوت غیر مسلم کی بھی قبول کی جاسکتی ہے ،اور خود رسول اللہ ا نے بھی غیر مسلموں کی دعوت اور ان کا تحفہ قبول کیا ہے، (۱) پھر یہ کہ غیر مسلم جب تک مسلمان نہ ہوجائے احکام شرعیہ کی تفصیلات کا مکلف نہیں، تجارت اورحلال و حرام کے جو احکام ہیں، ایمان لانے کے بعد انسان اس کا مخاطب بنتا ہے، جب تک ایمان نہ لے آئے یہ احکام اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ، اس لئے غیر مسلموں کی دعوت کے بارے میں ذریعۂ معاش کی تحقیق وتفتیش ضروری نہیں، ہاں کوئی ایسی چیز نہیں کھائی جاسکتی جو بذاتِ خود حرام ہو،
کتاب الفتاوی۔ جلد ۳
............
85108: غیر مسلم سے اسکی عید کے دن ہدیہ قبول کرنا
سوال: میری ایک امریکی نژاد عیسائی پڑوسن ۔۔۔۔، اور اسکے گھر والوں نے کرسمس کے موقع پر مجھے کچھ تحائف بھیجے۔ میں ان تحائف کو اس لئے مسترد نہیں کر سکتی کہ کہیں وہ مجھے سے ناراض نہ ہو جائے!! 
تو کیا مجھے یہ تحائف قبول کرنے کی اجازت ہے؟ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے تحائف قبول فرمائے تھے؟
Published Date: 2014-12-29
الحمد للہ:
اول:
بنیادی طور پر غیر مسلم سے تالیف قلبی ، اور اسلام کی طرف راغب کرنے کیلئے تحفہ لیا جا سکتا ہے، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  کچھ کفار مثلاً : مقوقس وغیرہ سے تحائف قبول فرمائے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ: "یہ باب مشرکین کے تحائف قبول کرنے کےبارے میں ہے " امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ جب ابراہیم علیہ السلام سارہ [علیہا السلام] کو لیکر ہجرت کیلئے نکلے تو ایک جابر بادشاہ کے علاقے میں داخل ہوئے۔۔۔ تو اس نے کہا کہ اسے (ابراہیم علیہ السلام کو)"آجر"[یعنی : ہاجرہ علیہا السلام، اسماعیل علیہ السلام  کی والدہ ماجدہ، تحفہ میں ] دے دو" اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو [یہود کی طرف سے] زہر آلود بکری تحفہ  میں دی گئی،  ابو حمید کہتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایلہ کے بادشاہ نے سفید [مؤنث] خچر،اور  ایک کپڑے کا جوڑا تحفے میں دیا، ساتھ میں آپکو  اپنے علاقے کا سربراہ مقرر کیا" پھر امام بخاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوایک  یہودی عورت کی طرف سے زہر آلودبکری  پیش کرنے کا  پوراقصہ  ذکرکرتےہیں۔
دوم:
ایک مسلمان کسی کافر، یا مشرک کو تالیف قلبی، اور اسلام کی طرف رغبت دلانے کیلئے  تحائف بھی دے سکتا ہے، اور اگر کافر یا مشرک رشتہ دار یا پڑوسی ہو تو اسے دینے کی خاص طور پر اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو مکہ میں  ایک سوٹ تحفہ دیا تھا۔ بخاری: (2619)
لیکن کافر کو اس کے تہوار میں تحائف دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ  ان مواقع پر انہیں تحائف دینا  باطل تہوار اور تقریبات کا اقراراور ان میں شرکت کرنے کے مترادف ہے۔
اور اگر ان کو دیے جانے والے تحائف ان کے تہوار میں معاونت شمار ہوں ، مثلاً: انکے لئے کھانا تیار کرنا، اور موم بتیاں  وغیرہ تحفہ میں دینا، تو اس کی حرمت مزید زیادہ  ہوگی، حتی کہ کچھ اہل علم نے اس طرزِعمل کو کفر کہا ہے۔
چنانچہ فقہ حنفی  سے منسلک زیلعی  رحمہ اللہ  "تبیین الحقائق"  (6/228) میں کہتے ہیں کہ:
"نوروز، اور مہرجان کے دن تحائف دینا جائز نہیں ہے،  یعنی ان دنوں کے نام پر  تحائف دینا حرام  ہے، بلکہ کفر ہے، اور ابو حفص الکبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : "اگر کسی شخص نے اللہ کی پچاس سال تک عبادت  کی اور پھر جب نوروز کا دن آیا  اور کچھ مشرکوں کو  ایک انڈا تحفہ میں  نوروز کی تعظیم کرتے ہوئے دےد یا، تو  اس نے کفر کیا، اور اسکے سارے اعمال ضائع ہوگئے" "جامع الاصغر" کے مصنف کہتے ہیں کہ: "اگر  اس نے نوروز کے دن کسی مسلمان کو تحفہ نوروز کی تعظیم کیلئے نہیں دیا، بلکہ کچھ لوگوں کو اس دن تحفہ دینے کی عادت ہے تو یہ شخص کافر نہیں ہے، لیکن اسے چاہیے کہ اس دن میں تخصیص کے ساتھ تحائف مت دے، بلکہ اس سے پہلے یا بعد میں تحائف دے، تا کہ کفار سے اس کی مشابہت نہ ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے)"
اور "جامع الاصغر" میں یہ بھی ہے کہ: "ایک شخص  نوروز کے دن کوئی چیز خریدتا ہے، اس دن سے پہلے  وہ خریدنا بھی نہیں چاہتا تھا، اگر اس نے یہ کام مشرکوں کی طرح اس دن کی تعظیم کیلئے کیا تو اس نے کفریہ کام کیا، اور اگر صرف کھانے پینے کی غرض سے خریداری  کی تو یہ کفریہ کام نہیں ہوگا" انتہی
اور اسی طرح "التاج والاكلیل"  (4/319) میں مالکی فقیہ کہتے ہیں کہ:
"ابن قاسم نے کسی عیسائی کو اسکی عید کے دن  بدلہ چکانے کیلئے تحائف دینے کو مکروہ سمجھا ہے، اور اسی طرح یہودی کو اسکی عید کے دن کھجور کے پتے تحفہ کرنا بھی مکروہ ہے"انتہی
ایسے ہی حنبلی فقیہ "الاقناع"  میں کہتے ہیں کہ: 
"یہودیوں اور عیسائیوں کے تہواروں میں شریک ہونا، اور انکے لیے عید کے دن معاون بننے والی اشیاء فروخت کرنا  حرام ہے."انتہی
بلکہ ان دنوں  میں کوئی مسلمان بھی کسی دوسرے مسلمان کو تحائف مت دے، جیسے کہ حنفی فقہاء کی گفتگو میں یہ بات پہلے گزر چکی ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"جو شخص مسلمانوں کی عید کے علاوہ دیگر مذاہب کی عید میں کوئی بھی تحفہ دے تو قبول نہیں  کرنا چاہیے، اور اگر یہ تحفہ غیر مسلموں سے مشابہت کا باعث بنے تو ممانعت مزید  سخت ہو جائے گی، مثلاً: کرسمس کے موقع پر موم بتیاں وغیرہ تحفہ میں دینا، یا غیر مسلموں کے روزوں میں آخری جمعرات  کے دن انڈے، دودھ، اور بکری کا تحفہ  دینا، بعینہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ان تہواروں کی وجہ سے تحائف مت دے، اور خصوصا ایسے تحفے مزید سختی کیساتھ ممانعت کے حقدار ہونگے جن میں  کفار سے مشابہت  کیلئے تعاون  ممکن ہو، جیسے کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے"انتہی
"اقتضاء الصراط المستقیم" (1/227)
سوم:
جہاں تک  غیر مسلموں سے ان کی عید کے دن تحفہ لینے کا تعلق ہےتو اس  میں کوئی حرج نہیں ، اس دن قبول ِتحفہ کو انکے تہوار میں شرکت ، یا اس  کا  اقرار  شمار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ احسان اور نیکی کی نیت سے قبول کر لینا چاہیے، تا کہ اسلام کی دعوت اچھے انداز سے اسے دی جاسکے،یہ بات ان غیر مسلموں کےساتھ احسان اور انصاف کرنے کے ضمن میں آتی ہے جومسلمانوں سے لڑتے نہیں ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ) 
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں  ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الممتحنہ: 8)
آیت میں مذکور نیکی اور انصاف کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ ان سے مودّت و محبت روا رکھی جائے؛ کیونکہ کافر سے مودّت و محبت رکھنا جائز نہیں ہے، انہیں دوست اور اپنا ساتھی بنانا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الأِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ) 
ترجمہ: تم کبھی یہ نہیں پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے،  چاہے وہ ان کے باپ ، یا ان کے بیٹے ، یا ان کے بھائی، یا ان کے خاندان والے ہوں۔ یہی  وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان پختہ کر دیا اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعے طاقت عطا کر دی۔  اللہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے، یہ اللہ کی جماعت ہے ، آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے۔ [المجادلہ:22]
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقّ) 
ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ  تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو  اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، ۔[الممتحنۃ:1]
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآياتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ) 
ترجمہ:  اے ایمان والو! تم اپنا گہرا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ وہ تمہارے نقصان کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے،  وہ تو چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑے رہو،  ان کی عداوت ان کی زبان سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے کہیں بڑ کر ہے،  ہم نے تمہارے لیے آیات بیان کر دیں تاکہ تم سمجھ جاؤ ۔[آل عمران: 118]
(وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ) 
ترجمہ:  ظالموں کی طرف مت مائل ہوجاؤ، کہ کہیں تمہیں آگ اپنی پکڑ میں لے لے، اور [وہاں] تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مدد گار نہ ہوگا، اور پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔[هود:113 ]
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)
ترجمہ:  اے ایمان والو! یہود و نصاری کو اپنا دوست مت بناؤ، یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں، اور تم میں سے جو کوئی ان کیساتھ دوستی رکھے  گا  تو وہ بھی انہی میں سے ہے، بیشک اللہ تعالی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔[ المائدة:51]
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل کفار کیساتھ دوستی اور محبت کی حرمت کے بارے میں موجود ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"کفار کی عید کے دن ان سے تحائف قبول کرنے کے بارے میں ہم نے پہلے بھی  بیان کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نوروز کے دن انہیں تحفہ دیا گیا تو آپ نے اسے قبول کر لیا۔
اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ: ۔۔ "ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا: ہمارے بچوں کو دودھ پلانے والی کچھ مجوسی خواتین ہیں، اور وہ اپنی عید کے دن تحائف بھیجتی ہیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "انکی عید کے دن ذبح کئے جانے والے جانور کا گوشت مت کھاؤ، لیکن نباتانی اشیاء کھاسکتے ہو"
ابو برزہ کہتے ہیں کہ: ان کے قریب کچھ مجوسی رہائش پذیر تھے جو نوروز اور مہرجان کے دن  تحائف بھیجتے تھے، تو ابو برزہ  اپنے اہل خانہ سے فرماتے: انکی طرف سے آنے والے پھل کھا لیا کرو، اور اس کے علاوہ دیگر اشیاء مسترد کردو"
ان تمام سے پتا چلتا ہے کہ کفار کی عید کے دن ان کے تحائف قبول کرنے میں  کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ عید یا غیرعید میں انکے تحائف قبول کرنے کا ایک ہی حکم ہے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے انکے کفریہ نظریات پر مشتمل شعائر  کی ادائیگی میں معاونت نہیں ہوتی۔۔۔"
اس کےبعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے متنبہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ اگرچہ حلال ہے، لیکن جو انہوں نے اپنی عید کے لئے ذبح کیا ہے وہ حلال نہیں ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں: "اہل کتا ب کی طرف سے عید کےدن  ذبح کیے جانے والے جانور کے علاوہ انکے [نباتاتی] کھانے  وغیرہ خرید کر یا ان سے تحفۃً لیکر کھائے جا سکتے ہیں۔
جبکہ مجوسیوں کے ذبیحہ کا حکم معلوم ہے کہ وہ سب کے ہاں حرام ہے، اور اہل کتاب کی طرف سے انکے عید ، تہوار  کے دن غیر اللہ مثلاً: مسیح اور زہرہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں، جس طرح مسلمان  اپنی حج اور عید کی قربانیاں اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ذبح کرتے ہیں،  تو اس کے بارے میں امام احمد سے دو  روایات منقول ہیں، جن میں مشہور ترین یہ ہے کہ ایسے ذبیحہ کا گوشت چاہے اس پر غیر اللہ کا نام نہ بھی لیا گیا ہو پھر بھی کھانا جائز نہیں ہے، یہی ممانعت عائشہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے" انتہی
"اقتضاء الصراط المستقیم" (1/251)
اور خلاصہ یہ ہوا کہ: آپ اپنی عیسائی پڑوسن سے تحفہ قبول کر سکتی ہو، لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں:
1-  تحفہ (اگرجانور کی صورت میں ہے)انہوں نے اپنی عید کیلئے ذبح نہ کیا ہو۔
2- اور اس تحفے کو انکی عید کے دن  کی مخصوص  رسومات میں استعمال نہ کیا جا تا ہو، مثلا: موم بتیاں، انڈے، اور درخت کی ٹہنیاں وغیرہ۔
3- تحفہ قبول کرتے وقت آپ اپنی اولاد کو عقیدہ ولاء اور براء کے بارے میں لازمی وضاحت سے بتلائیں، تا کہ ان کے دلوں میں عید  یا تحفہ دینے والے کی محبت گھر نہ کرجائے۔
4- تحفہ قبول کرنے کا مقصد اسلام کی دعوت اور اسلام کیلئے اسکا دل نرم کرنا ہو، محبت اور پیار مقصود نہ ہو۔
اور اگر تحفہ ایسی چیز پر مشتمل ہو کہ اسے قبول کرنا جائز نہ ہو تو تحفہ قبول نہ کرتے  وقت انہیں اسکی وجہ بھی بتلا دی جائے، اس کیلئے مثلاً کہا جا سکتا ہے: "ہم آپ کا تحفہ اس لئے قبول نہیں کر رہے کہ یہ جانور  آپکی عید کے لیے ذبح کیا گیا ہے، اور ہمارے لئے یہ کھانا جائز نہیں ہے." یا یہ کہے کہ: "اس تحفے کو وہی قبول کر سکتا ہے جو آپکے ساتھ آپکی عید میں شریک ہو، اور ہم آپکی عید نہیں مناتے؛ کیونکہ ہمارے دین میں یہ جائز نہیں ہے، اور آپکی عید میں ایسے نظریات پائے جاتے ہیں جو ہمارے ہاں درست نہیں ہیں" یا اسی طرح  کے ایسے جواب دیے جائیں جو انہیں اسلام کا پیغام سمجھنے کا سبب بنیں، اور انکے کفریہ نظریات کے خطرات سے آگاہ کریں۔
ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اپنے دین پر فخر  کرے، دینی احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے باعزت بنے، کسی سے شرم کھاتے ہوئے یا ہچکچاتے ہوئے ان احکامات  کی تعمیل سے دست بردار نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی سے شرم کھانے کا حق زیادہ ہے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (947) اور (13624) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
https://islamqa.info/ur/85108
............
سوال # 66154
اگر کسی غیر مسلم کے ساتھ کھانا کھانا اور اس کا جھوٹا پینا کیساہے؟کیا ہمارے لیے وہ نجس ہے؟ اس کے ساتھ بیٹھنے سے طہارت میں کوئی فرق پڑے گا؟
Published on: Jun 25, 2016 
جواب # 66154
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 909-895/N=9/1437
(۱، ۲) : اگر غیر مسلم کے ہاتھ یا منھ میں کوئی نجاست وناپاکی نہ ہو، جیسے: شراب وغیرہ تو اس کا جھوٹا کھانا کھانا یا پینے کی کوئی چیز پینا جائز ہے بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کی چیز فی نفسہ حلال وجائز ہو، حرام وناپاک نہ ہو؛ کیوں کہ غیر مسلم فی نفسہ ناپاک نہیں ہوتا، اگر اس کے جسم وغیرہ پر کوئی ناپاکی ہو تبھی اس پر ناپاکی کا حکم لگتا ہے ورنہ نہیں، اور قرآن پاک میں جو غیر مسلموں کو ناپاک کہا گیا ہے، اس سے کفریہ وشرکیہ اعتقاد کی ناپاکی مراد ہے، ظاہری ناپاکی مراد نہیں ہے؛ اس لیے کسی غیر مسلم کے ساتھ بیٹھنے سے مسلمان ناپاک نہیں ہوتا بشرطیکہ غیر مسلم کے جسم یا کپڑے پر کوئی ناپاکی نہ ہو یا مسلمان کے جسم یا کپڑے میں اس کی کوئی ناپاکی نہ لگے۔ 
البتہ بلا ضرورت ومجبوری غیر مسلموں کے ساتھ کھانے پینے یا ان کا جھوٹا کھانے یا مشروب لینے کی عادت ٹھیک نہیں ہے، اس سے مسلمانوں کو بچنا چاہئے، فسوٴر آدمي مطلقاً ولو کافراً ……طاھر الفم، … طاھر (الدر المختار مع رد المختار، کتاب الطھارة، باب المیاہ ۱: ۳۸۱، ۳۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”أو کافراً“؛ لأن علیہ الصلاة والسلام أنزل بعض المشرکین فی المسجد علی ما فی الصحیحین، فالمراد بقولہ تعالی: ﴿إنما المشرکون نجس﴾ النجاسة فی اعتقادھم۔ بحر۔ (رد المحتار)۔ 
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Rights--Etiquettes/66154
......................





No comments:

Post a Comment