خنثیٰ ( ہیجڑا) اور خنثیٰ مشکل کے احکام اور مسائل کیا ہیں شریعت میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ یہ ھیکہ
(۱) کیا خنثاء یعنی (کھدڑا: ھیجڑا) مردے کو غسل دے سکتا ہے؟
(۲) کیا یہ جماعت کی امامت کرواسکتا ہے؟
مکمل جواب دیکر اس کی وضاحت فرمادیں تاکہ ھمارے علم میں بھی اضافہ ھو الللہ پاک تمام علماء کرام کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور ان تمام حضرات کو جزائے خیر عطاء فرمائے ک جن کی وجہ سے ھمیں علاء کا یہ اجتماع میسر ھوا اور ھمیں ھماری رھنمائی کی درسگاہ ملی جس سے انشاءالللہ ھم سب مستفید ھونگے والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
جس خنثی کے مردانہ وزنانہ دونوں اعضاء ہوں ،لیکن کوئی عضو ظاہر وغالب نہ ہو جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ مرد ہے یا عورت ۔تو ایسے مخنث کو "خنثی مشکل" کہتے ہیں۔
یہ کسی بھی مردہ مرد یا عورت کو غسل نہیں دے سکتا۔
یہ اگر مرجائے اور بالغ یا قریب البلوغ ہو تو اسے غسل دینے کی بجائے تیمم کرایا جائے گا۔ اس کا کوئی محرم ہو تو وہ تیمم کرائے ورنہ کوئی بھی اجنبی ہاتھ میں کپڑا یا دستانہ پہن کے اسے تیمم کرادے ۔اور اگر نابالغی کی حالت میں مرے تو اسے مرد وعورت غسل دے سکتا ہے کہ نابالغ کا ستر نہیں ہوتا۔
خنثی مشکل علم وفضل کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی اعلی وافضل کیوں نہ ہو! لیکن وہ مردوں اور اپنے ہم جنس کا امام نہیں بن سکتا ۔
ہاں عورت کی امامت کرسکتا ہے۔
اگر کسی ہیجڑے کی مردانہ یا زنانہ علامت ظاہر وغالب ہو تو غلبہ کا اعتبار ہوگا اور وہ مرد یا عورت میں شمار ہوگا۔اس کا حکم اس سے مختلف ہے۔
اسی طرح جو شخص بیوی سے ہمبستری پر قدرت نہ رکھے اسے عنین یعنی نامرد کہتے ہیں۔ اس کا حکم بھی اس سے مختلف ہے۔
(۱) کیا خنثاء یعنی (کھدڑا: ھیجڑا) مردے کو غسل دے سکتا ہے؟
(۲) کیا یہ جماعت کی امامت کرواسکتا ہے؟
مکمل جواب دیکر اس کی وضاحت فرمادیں تاکہ ھمارے علم میں بھی اضافہ ھو الللہ پاک تمام علماء کرام کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور ان تمام حضرات کو جزائے خیر عطاء فرمائے ک جن کی وجہ سے ھمیں علاء کا یہ اجتماع میسر ھوا اور ھمیں ھماری رھنمائی کی درسگاہ ملی جس سے انشاءالللہ ھم سب مستفید ھونگے والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
جس خنثی کے مردانہ وزنانہ دونوں اعضاء ہوں ،لیکن کوئی عضو ظاہر وغالب نہ ہو جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ مرد ہے یا عورت ۔تو ایسے مخنث کو "خنثی مشکل" کہتے ہیں۔
یہ کسی بھی مردہ مرد یا عورت کو غسل نہیں دے سکتا۔
یہ اگر مرجائے اور بالغ یا قریب البلوغ ہو تو اسے غسل دینے کی بجائے تیمم کرایا جائے گا۔ اس کا کوئی محرم ہو تو وہ تیمم کرائے ورنہ کوئی بھی اجنبی ہاتھ میں کپڑا یا دستانہ پہن کے اسے تیمم کرادے ۔اور اگر نابالغی کی حالت میں مرے تو اسے مرد وعورت غسل دے سکتا ہے کہ نابالغ کا ستر نہیں ہوتا۔
خنثی مشکل علم وفضل کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی اعلی وافضل کیوں نہ ہو! لیکن وہ مردوں اور اپنے ہم جنس کا امام نہیں بن سکتا ۔
ہاں عورت کی امامت کرسکتا ہے۔
اگر کسی ہیجڑے کی مردانہ یا زنانہ علامت ظاہر وغالب ہو تو غلبہ کا اعتبار ہوگا اور وہ مرد یا عورت میں شمار ہوگا۔اس کا حکم اس سے مختلف ہے۔
اسی طرح جو شخص بیوی سے ہمبستری پر قدرت نہ رکھے اسے عنین یعنی نامرد کہتے ہیں۔ اس کا حکم بھی اس سے مختلف ہے۔
الخنثیٰ: ہو الذي لہ ذکر و فرج امرأۃ أو ثقب في مکان الفرج یخرج منہ البول، وینقسم إلی مشکل وغیر مشکل فالذي یتبین فیہ علامات الذکوریۃ، أوالأنوثیۃ، فیعلم أنہ رجل، أوامرأۃ، فلیس بمشکل وإنما ہو رجل فیہ خلقۃ زائدۃ أو امرأۃ فیہا خلقۃ زائدۃ و حکمہ من إرثہ وسائر أحکامہ حکم ما ظہرت علاماتہ فیہ۔ (المغني، دارالفکر ۶/۲۲۱، رقم:۴۹۱۰)
الخنثیٰ: ہو الذي لایعلم؛ أنہ ذکر، أو أنثیٰ بأن یکون لہ آلۃ الرجال، والنساء۔ (تاتارخانیۃ، زکریا۲۰/۳۵۲، رقم:۳۳۴۳۴، لغۃ الفقہاء، کراچي۲۰۱)
الخنثیٰ: ہو الذي لایعلم؛ أنہ ذکر، أو أنثیٰ بأن یکون لہ آلۃ الرجال، والنساء۔ (تاتارخانیۃ، زکریا۲۰/۳۵۲، رقم:۳۳۴۳۴، لغۃ الفقہاء، کراچي۲۰۱)
وفي ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ والخنثی المشکل المراہق لا یغسل رجلا ولا امرأۃ ولا یغسلہا رجل ولا امرأۃ ویُیَمِّم وراء الثوب ۔ واللہ أعلم ۔ (۱/۱۶۰، الفصل الثاني في الغسل)
وامامۃ الخنثیٰ المشکل للنساء جائزۃ …وللرجل والخنثیٰ مثلہ لا یجوز(فتاویٰ عالمگیریہ ص۸۵ جلد۱ الفصل الثالث فی بیان من یصلح اماما لغیرہ)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی \٦\١٤٣٩ ہجری
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی \٦\١٤٣٩ ہجری
...........
سوال: كيا خنثیٰ سے جماعت کی امامت کرواسکتے ھیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱) اگر اس خنثیٰ میں مرد کی علامتیں زیادہ ہیں تو اس کی امامت صحیح ہے اور اگر زنانہ علامتیں زیادہ ہوں یا دونوں علامتیں برابر ہوں تو اس کا امام بننا صحیح نہیں، بلکہ ہمجنس کا بھی امام نہیں بن سکتا، البتہ اس کے پیچھے عورتوں کی اقتدا درست ہے-
احسن الفتاوٰی ج۳ صـــ۲۷۶
..........
سوال: خنثیٰ اور خنثیٰ مشکل کے احکام اور مسائل کیاہیں شریعت میں؟
احسن الفتاوٰی ج۳ صـــ۲۷۶
..........
سوال: خنثیٰ اور خنثیٰ مشکل کے احکام اور مسائل کیاہیں شریعت میں؟
جواب: انسانی افراد میں سے خنثیٰ وہ فرد ہے جس میں مذکر ومؤنث دونوں کی علامات پائی جائیں ۔ بالغ ہونے سے پہلے اگر وہ لڑکے کی طرح پیشاب کرے تو اس کےا حکام لڑکوں والے ہوں گے اور اگر لڑکی طرح پیشاب کرے تو اس پر لڑکی کے احکام مرتب ہوں گے۔ بالغ ہونے کے بعداگر اس کی داڑھی نکل آئے یا عورت سے ہمبستری کےقابل ہوجائے یا مردوں کی طرح اسے احتلام ہونے لگے تو وہ مرد شمار ہوگا۔ا ور اگر اس کا سینہ نکل آئے یا حیض آنے لگے تو اس پرعورت کے احکام مرتب ہوں گے ۔ا ور اگر کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہواور پہچان مشکل ہو تو پھر وہ خنثیٰ مشکل ہے ۔ لہذا اس کے بارے میں تمام احکام میں احتیاط کی جائے (فتاویٰ شامی 6۔729 ، ط سعید) خنثیٰ کے بارے میں اسے لکھ کر حکم دریافت کیاجائے کلی طور پر تمام احکامات کا لکھنا مشکل ہے ۔
فقط واللہ اعلم
.........
الكتب » رد المحتار على الدر المختار » كتاب الصلاة » باب الإمامة
( ولا يصح اقتداء رجل بامرأة ) [ ص: 577 ] وخنثى ( وصبي مطلقا ) ولو في جنازة [ ص: 578 ] ونفل على الأصح الحاشية رقم: 1
(قوله ولا يصح اقتداء إلخ) المراد بالمرأة الأنثى [ ص: 577 ] الشامل للبالغة وغيرها ; كما أن المراد بالخنثى ما يشملهما أيضا . وأما الرجل ، فإن أراد به البالغ اقتضى بمفهومه صحة اقتداء الصبي بالمرأة والخنثى ، وإن أريد به الذكر أفاد عدم صحة اقتداء الصبي بالصبي ، وكلاهما غير واقع ; فالصواب في العبارة أن يقال : ولا يصح اقتداء ذكر بأنثى وخنثى، ولا رجل بصبي ح عن شيخه السيد علي البصير . أقول : والحاصل أن كلا من الإمام والمقتدي إما ذكر أو أنثى أو خنثى ، وكل منها إما بالغ أو غيره ; فالذكر البالغ تصح إمامته للكل ، ولا يصح اقتداؤه إلا بمثله ; والأنثى البالغة تصح إمامتها للأنثى مطلقا فقط مع الكراهة ، وتصح اقتداؤها بالرجل وبمثلها وبالخنثى البالغ ، ويكره لاحتمال أنوثته والخنثى البالغ تصح إمامته للأنثى مطلقا فقط لا لرجل ولا لمثله لاحتمال أنوثته وذكورة المقتدي ، ويصح اقتداؤه بالرجل لا بمثله ، ولا بأنثى مطلقا لاحتمال ذكورته ، وأما غير البالغ; فإن كان ذكرا تصح إمامته لمثله من ذكر وأنثى وخنثى ، ويصح اقتداؤه بالذكر مطلقا فقط ، وإن كان أنثى تصح إمامتها لمثلها فقط . أما الصبي فمحتمل ، ويصح اقتداؤها بالكل ، وإن كان خنثى تصح إمامته لأنثى مثله لا لبالغة ولا لذكر أو خنثى مطلقا ، ويصح اقتداؤه بالذكر مطلقا فقط ، هذا ما ظهر لي أخذا من القواعد ( قوله ولو في جنازة ) بيان للإطلاق الراجع إلى الاقتداء بالصبي . مطلب الواجب كفاية هل يسقط بفعل الصبي وحده؟
..............
..............
خنثیٰ ( ہیجڑا) مشکل کے احکام
سوال: خنثیٰ اور خنثیٰ مشکل کے احکام اور مسائل کیا ہیں شریعت میں؟
جواب: انسانی افراد میں سے خنثیٰ وہ فرد ہے جس میں مذکر ومؤنث دونوں کی علامات پائی جائیں ۔ بالغ ہونے سے پہلے اگر وہ لڑکے کی طرح پیشاب کرے تو اس کےا حکام لڑکوں والے ہوں گے اور اگر لڑکی طرح پیشاب کرے تو اس پر لڑکی کے احکام مرتب ہوں گے ۔ بالغ ہونے کے بعداگر اس کی داڑھی نکل آئے یا عورت سے ہمبستری کےقابل ہوجائے یا مردوں کی طرح اسے احتلام ہونے لگے تو وہ مرد شمار ہوگا۔ا ور اگر اس کا سینہ نکل آئے یا حیض آنے لگے تو اس پرعورت کے احکام مرتب ہوں گے ۔ا ور اگر کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہواور پہچان مشکل ہو تو پھر وہ خنثیٰ مشکل ہے ۔ لہذا اس کے بارے میں تمام احکام میں احتیاط کی جائے ( فتاویٰ شامی 6۔729 ، ط سعید ) خنثیٰ کے بارے میں اسے لکھ کر حکم دریافت کیاجائے کلی طور پر تمام احکامات کا لکھنا مشکل ہے ۔
فقط واللہ اعلم
http://www.suffahpk.com/khunsa-mushkil-hijra-k-ehkaam/
.....................
الحمد للہ:
اول:
1 ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنى نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.
اول:
1 ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنى نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.
اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر مردانہ یا زنانہ کوئی عضو ہی نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.
2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.
دوسرى قسم:
جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ عمدا حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار کرتا ہے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، چنانچہ خنثی کے مقابلے میں مخنت کے مرد ہونے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے.
3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: خننثى مشكل اور خنثى غير مشكل.
ا ـ خنثى غير مشكل:
جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ تعین ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد اعضاء پائے جاتے ہیں، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اعضاء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں علامات کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔
ب ـ خنثى مشكل:
يہ وہ ہے جس ميں مردانہ یا زنانہ کسی قسم كى علامات ظاہر نہ ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.
تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:
ایک تو وہ جس كے دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور دوسری ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو۔
4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى آلہ تناسل سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر اندام نہانی سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہوگی۔
اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ایک سے واضح ہو جائيگا:
اگر تو اس كى داڑھى آگئى، يا پھر ذكر سے منى کا اخراج ہو، يا اسکی وجہ سے عورت حاملہ ہوجائے، يا اس تک پہنچ جائے تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.
اور اگر اس كے پستان ظاہر ہوگئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آگيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہوجائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب مد مقابل علامات پر مقدم كيا جائےگا۔
اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر سابقہ تمام نشانیاں موجود نہ ہوں تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ خنثی مشكل ہے.
سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فقہ ميں جہاں بھى خنثى كو مطلق بيان كيا جائے تو اس سے خنثى مشكل مراد ہوتا ہے. انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 ).
دوم:
الخنثى: [یعنی خنثى مشكل] اس كے دونوں آلے يعنى مردانہ اور زنانہ دونوں عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں:
ایک تو ايسى قسم ہے جس کے بارے میں مرد یا عورت کا حکم لگانا ممکن نہیں، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارے ميں تعیین کی جاسکتی ہو، اس كى علامات ميں ميلان شامل ہے، چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہوگى.
اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہوگا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہوگا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہوگى.
اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہوسكتا ہے وہ كسى بيمارى كے سبب جنسى طور پر کمزور ہو، اس كا ہیجڑا پن كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہوسكتا ہے كہ وہ مخنث ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو.
ا ـ رہا ہيجڑے كى شادى كا مسئلہ تو اس كے متعلق عرض ہے كہ:
اگر تو وہ غير مشكل ہے تو اس كى حالت كے مطابق اس كى دوسرى جنس سے شادى كى جائيگا، اور اگر وہ خنثى مشكل ہے تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ احتمال ہے كہ وہ مرد ہو تو مرد مرد سے كيسے شادى كر سكتا ہے ؟! اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ عورت ہو تو عورت عورت سے كيسے شادى كرسكتى ہے؟!
اور اگر وہ عورت كى طرف مائل ہو اور مرد ہونے كا دعوى كرے تو يہ اس كے مرد ہونے كى علامت ہے، اور اسى طرح اگر وہ مرد كى طرف مائل ہو اور عورت ہونے كا دعوى كرے تو وہ عورت ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"خنثى يا تو مشكل ہوگا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے.
اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے:
خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں ہیجڑے کی اپنی بات معتبر ہوگی اور اسے مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے، اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ یہ ایسی بات ہے جو اسی جنس سے تعلق رکھنے والا ہی کہہ سکتا ہے، اور اس میں کسی پر زبردستی بھی نہیں ہوگی، تو بالكل اسکی بات معتبر ہوگی جیسے عورت کی بات حيض اور عدت ميں قبول کی جاتا ہے، وہ اپنے آپ كو جانتا ہے كہ اس كى طبيعت اور شہوت كس جنس كى طرف مائل ہوتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حيوانات ميں عادت بنائى ہے كہ مذكر مؤنث كى طرف مائل ہوتا ہے، اور مؤنث مذكر كى طرف مائل ہوتا ہے.
اور يہ ميلان نفس اور شہوت ميں ایک ايسا معاملہ ہے جسے کوئی اور نہیں جان سكتا صرف صاحب ميلان اور شہوت كو پتہ چلتا ہے، چنانچہ جب ظاہرى علامات کے ذریعے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تو ہمیں مجبورا اندرونی معاملات پر کی طرف رجوع کرنا پڑا"
ديكھيں: المغنى ( 7 / 319 ).
اور يہ كہنا كہ خنثى مشكل كى شادى صحيح نہيں يہ جمہور علماء كا قول ہے، اگر وہ اپنى طبيعت ميں ميلان اور شہوت ديكھے تو پھر كيا كرے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
ہم اسے كہيں گے صبر كرو، حتى كہ اللہ تعالى آپ كى حالت اس سے بہتر كر دے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"نكاح كے باب ميں"خنثى مشكل" جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں اعضائے تناسل ہوں، يعنى مرد كا عضو تناسل بھى اور عورت كى شرمگاہ بھى اور دونوں سے پیشاب کرنے کی وجہ سے يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، اور اس ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسے امتياز كرے كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، نہ تو وہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى مرد سے، عورت سے شادى اس لئے نہ كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى عورت ہو، اور عورت كى عورت سے شادى نہيں ہو سكتى، اور نہ ہى كسى مرد سے شادى كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى مرد ہو اور مرد كى مرد سے شادى نہيں ہو سكتى.
وہ اسى طرح بغير شادى كے ہى رہے حتى كہ اس كا معاملہ واضح ہو جائے، اور جب واضح ہوجائے تو اگر وہ مردوں ميں ہو تو عورت سے شادى كرلے، اور اگر عورتوں ميں شامل ہو تو مرد سے شادى كر لے، يہ اس وقت تك حرام ہے جب تك اس كا معاملہ واضح نہيں ہو جاتا۔
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 160 ).
اور شيخ رحمہ اللہ اس كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
"اور اگر اسے شہوت آتی ہو لیکن وہ شرعى طور پر شادى نہیں کرسکتا تو اب وہ كيا كرے؟
ہم اسے كہيں گے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت ركھتا ہے وہ شادى كرے كيونكہ يہ اس كى آنكھوں كو نيچا كرديتى ہے، اور شرمگاہ كو محفوظ كرتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے."
تو ہم اسے كہيں گے كہ تم روزے ركھو.
اور اگر وہ كہتا ہے كہ: ميں روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے ايسى ادويات دى جا سكتى ہيں جو اسے ٹھنڈا کردیں، اور يہ قول غير مشروع طريقہ سے منى خارج كرنے سے بہتر ہے.
ديكھيں: الشرح المتتع ( 12 / 161 ).
ب ـ اور جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى كے متعلق عرض ہے كہ:
شريعت ميں اس كے ليے كوئى مانع نہيں، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ جس سے شادى كر رہا ہے اس كے سامنے واضح كرے كہ وہ جنسى طور پر عاجز ہے يعنى اپنى پورى حالت بيان كرے، اور اگر بيان نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور عورت كو فسخ نكاح كا حق دیا جائے گا؛ كيونكہ استمتاع اور اولاد شادى كے عظيم مقاصد ميں شامل ہيں، اور يہ ان حقوق ميں شامل ہيں جو خاوند اور بيوى دونوں ميں مشترك ہيں"
اور الموسوعۃ الفقہيۃ ميں درج ہے:
"العنۃ: يعنى شہوت نہ ہونا: جمہور فقھاء كے ہاں يہ ايك ايسا عيب ہے جو ايك برس كى مہلت دينے كے بعد بيوى كو خاوند سے عليحدگى كا اختيار ديتا ہے.
حنابلہ ميں سے ايك جماعت جن ميں ابو بكر اور المجد ـ يعنى ابن تيميہ کے داداـ شامل ہيں، انہوں نے اختيار كيا ہے كہ عورت كو فوراً فسخِ نکاح كا اختيار حاصل ہے.
اور جمہور کی دلیل وہ وقعہ ہے جس میں عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے شہوت سے عاجز شخص كے ليے ايك برس كى مہلت دی تھى ؛ اور اسکی دلیل یہ بھی ہے كہ بیوی شادی عفت اور عصمت کیلئے کرتی ہے، اور شادی ہی واحد راستہ ہے جس سے یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے، چنانچہ اگر شادی کی کسی صورت میں یہ ہدف حاصل نہ ہو تو فریقین کو فسخ کا حق حاصل ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ خريد و فروخت ميں عيب كى وجہ سے تھوڑا سا بھى مال جاتا رہے تواس ميں اختيار ثابت ہو جاتا ہے، جبکہ عيب كى وجہ سے بالاولى نكاح كا مقصد فوت ہو جائيگا." انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 16 )
ليكن بعض اوقات کوئی عورت جو عمر رسیدہ يا كسى مرض كى بنا پر شہوت سے خالی ہو تو وہ راضى ہو سكتى ہے، تو پھر خدمت اور انس و محبت، نان ونفقہ، باہمی تعاون اور دوسرے مقاصد نكاح كے ليے اس سے شادى كرنے ميں كيا مانع ہے ؟
شيخ ابراہيم بن محمد بن سالم ضويان الحنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"اور جس كو شہوت نہيں مثلا عنين اور بڑى عمر كے شخص كے ليے شادى كرنا مباح ہے؛ كيونكہ شريعت ميں اس كى ممانعت نہيں ہے.
ديكھيں: منار السبيل ( 2 / 911 ).
"العنين" جماع سے عاجز شخص كو كہتے ہيں، اور بعض اوقات وہ جماع كى خواہش تو ركھتا ہے ليكن وہ جماع نہيں كرسكتا.
اگر بيوى كو معلوم ہوجائے كہ خاوند جنسى طور پر كمزور ہے اور وہ اس كے ساتھ رہنے پر راضى ہوجائے تو بيوى كا حق فسخ ساقط ہوجائيگا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"اور اگر اس نے [نکاح کے] وقت كہا كہ: ميں وطئ سے عاجز شخص پر راضى ہوئى تو مستقل طور پر اس كا اختيار ساقط ہوجاتا ہے"، مثلا ايسى عورت جو جماع كى استطاعت نہ ركھنے والے خاوند پر راضى ہو گئى، اور پھر باقى عورتوں كى طرح اس عورت كو بھى نكاح كى شہوت پيدا ہو گئى اور وہ اپنا نكاح فسخ كرنا چاہے تو ہم كہيں گے:
تمہیں كوئى اختيار نہيں، اور اگر وہ كہے كہ: اس وقت تو ميں اس كو پسند كرتى اور اس پر راضى تھى، ليكن اب مدت زيادہ ہو گئى ہے اور ميں اس كو نہيں چاہتى، تو ہم اسے كہيں گے: اب تجھے كوئى اختيار نہيں، كيونكہ يہ كوتاہى تيرى جانب سے ہى تھى."
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 211 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 102553 ) اور ( 10620 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خنثى يعنى ہيجڑے كى اگر حقيقت حال كا علم نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، تو اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اور اگر اس كى حالت واضح ہو كہ وہ مرد ہے: تو اس كى شادى كرنا صحيح ہے، ليكن يہ ضرورى ہے كہ ایسی حالت ميں ڈاكٹر سے رائے طلب كى جائے جو موروثی بیماریوں اور اس صورتِ حال کا ماہر ہو تا كہ اس كى حالت اور اس سے شادى كے امكان كى وضاحت کرسکے.
ليكن جنسى طور پر كمزور يا پھر جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى صحيح ہے، ليكن شادى سے قبل اسے اپنى حالت بيان كرنا ضرورى ہے، اگر وہ حالت بيان اور واضح كرتا ہے تو اس كى اس كے ساتھ صحيح ہے جسے علم ہو كہ وہ اسى حالت ميں اس كے ساتھ رہ سكتى ہے، مثلا كہ عورت بھى اسى طرح كى ہو اور اسے مردوں كى خواہش نہ ہو، ليكن نوجوان لڑكى تو شادى ميں وہى كچھ چاہتى ہے جس طرح دوسرى نوجوان لڑكىاں چاہتى ہیں.
https://islamqa.info/ur/114670
پہلى قسم:
جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.
دوسرى قسم:
جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ عمدا حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار کرتا ہے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، چنانچہ خنثی کے مقابلے میں مخنت کے مرد ہونے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے.
3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: خننثى مشكل اور خنثى غير مشكل.
ا ـ خنثى غير مشكل:
جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ تعین ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد اعضاء پائے جاتے ہیں، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اعضاء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں علامات کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔
ب ـ خنثى مشكل:
يہ وہ ہے جس ميں مردانہ یا زنانہ کسی قسم كى علامات ظاہر نہ ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.
تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:
ایک تو وہ جس كے دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور دوسری ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو۔
4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى آلہ تناسل سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر اندام نہانی سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہوگی۔
اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ایک سے واضح ہو جائيگا:
اگر تو اس كى داڑھى آگئى، يا پھر ذكر سے منى کا اخراج ہو، يا اسکی وجہ سے عورت حاملہ ہوجائے، يا اس تک پہنچ جائے تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.
اور اگر اس كے پستان ظاہر ہوگئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آگيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہوجائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب مد مقابل علامات پر مقدم كيا جائےگا۔
اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر سابقہ تمام نشانیاں موجود نہ ہوں تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ خنثی مشكل ہے.
سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فقہ ميں جہاں بھى خنثى كو مطلق بيان كيا جائے تو اس سے خنثى مشكل مراد ہوتا ہے. انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 ).
دوم:
الخنثى: [یعنی خنثى مشكل] اس كے دونوں آلے يعنى مردانہ اور زنانہ دونوں عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں:
ایک تو ايسى قسم ہے جس کے بارے میں مرد یا عورت کا حکم لگانا ممکن نہیں، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارے ميں تعیین کی جاسکتی ہو، اس كى علامات ميں ميلان شامل ہے، چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہوگى.
اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہوگا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہوگا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہوگى.
اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہوسكتا ہے وہ كسى بيمارى كے سبب جنسى طور پر کمزور ہو، اس كا ہیجڑا پن كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہوسكتا ہے كہ وہ مخنث ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو.
ا ـ رہا ہيجڑے كى شادى كا مسئلہ تو اس كے متعلق عرض ہے كہ:
اگر تو وہ غير مشكل ہے تو اس كى حالت كے مطابق اس كى دوسرى جنس سے شادى كى جائيگا، اور اگر وہ خنثى مشكل ہے تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ احتمال ہے كہ وہ مرد ہو تو مرد مرد سے كيسے شادى كر سكتا ہے ؟! اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ عورت ہو تو عورت عورت سے كيسے شادى كرسكتى ہے؟!
اور اگر وہ عورت كى طرف مائل ہو اور مرد ہونے كا دعوى كرے تو يہ اس كے مرد ہونے كى علامت ہے، اور اسى طرح اگر وہ مرد كى طرف مائل ہو اور عورت ہونے كا دعوى كرے تو وہ عورت ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"خنثى يا تو مشكل ہوگا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے.
اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے:
خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں ہیجڑے کی اپنی بات معتبر ہوگی اور اسے مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے، اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ یہ ایسی بات ہے جو اسی جنس سے تعلق رکھنے والا ہی کہہ سکتا ہے، اور اس میں کسی پر زبردستی بھی نہیں ہوگی، تو بالكل اسکی بات معتبر ہوگی جیسے عورت کی بات حيض اور عدت ميں قبول کی جاتا ہے، وہ اپنے آپ كو جانتا ہے كہ اس كى طبيعت اور شہوت كس جنس كى طرف مائل ہوتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حيوانات ميں عادت بنائى ہے كہ مذكر مؤنث كى طرف مائل ہوتا ہے، اور مؤنث مذكر كى طرف مائل ہوتا ہے.
اور يہ ميلان نفس اور شہوت ميں ایک ايسا معاملہ ہے جسے کوئی اور نہیں جان سكتا صرف صاحب ميلان اور شہوت كو پتہ چلتا ہے، چنانچہ جب ظاہرى علامات کے ذریعے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تو ہمیں مجبورا اندرونی معاملات پر کی طرف رجوع کرنا پڑا"
ديكھيں: المغنى ( 7 / 319 ).
اور يہ كہنا كہ خنثى مشكل كى شادى صحيح نہيں يہ جمہور علماء كا قول ہے، اگر وہ اپنى طبيعت ميں ميلان اور شہوت ديكھے تو پھر كيا كرے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
ہم اسے كہيں گے صبر كرو، حتى كہ اللہ تعالى آپ كى حالت اس سے بہتر كر دے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"نكاح كے باب ميں"خنثى مشكل" جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں اعضائے تناسل ہوں، يعنى مرد كا عضو تناسل بھى اور عورت كى شرمگاہ بھى اور دونوں سے پیشاب کرنے کی وجہ سے يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، اور اس ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسے امتياز كرے كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، نہ تو وہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى مرد سے، عورت سے شادى اس لئے نہ كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى عورت ہو، اور عورت كى عورت سے شادى نہيں ہو سكتى، اور نہ ہى كسى مرد سے شادى كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى مرد ہو اور مرد كى مرد سے شادى نہيں ہو سكتى.
وہ اسى طرح بغير شادى كے ہى رہے حتى كہ اس كا معاملہ واضح ہو جائے، اور جب واضح ہوجائے تو اگر وہ مردوں ميں ہو تو عورت سے شادى كرلے، اور اگر عورتوں ميں شامل ہو تو مرد سے شادى كر لے، يہ اس وقت تك حرام ہے جب تك اس كا معاملہ واضح نہيں ہو جاتا۔
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 160 ).
اور شيخ رحمہ اللہ اس كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
"اور اگر اسے شہوت آتی ہو لیکن وہ شرعى طور پر شادى نہیں کرسکتا تو اب وہ كيا كرے؟
ہم اسے كہيں گے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت ركھتا ہے وہ شادى كرے كيونكہ يہ اس كى آنكھوں كو نيچا كرديتى ہے، اور شرمگاہ كو محفوظ كرتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے."
تو ہم اسے كہيں گے كہ تم روزے ركھو.
اور اگر وہ كہتا ہے كہ: ميں روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے ايسى ادويات دى جا سكتى ہيں جو اسے ٹھنڈا کردیں، اور يہ قول غير مشروع طريقہ سے منى خارج كرنے سے بہتر ہے.
ديكھيں: الشرح المتتع ( 12 / 161 ).
ب ـ اور جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى كے متعلق عرض ہے كہ:
شريعت ميں اس كے ليے كوئى مانع نہيں، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ جس سے شادى كر رہا ہے اس كے سامنے واضح كرے كہ وہ جنسى طور پر عاجز ہے يعنى اپنى پورى حالت بيان كرے، اور اگر بيان نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور عورت كو فسخ نكاح كا حق دیا جائے گا؛ كيونكہ استمتاع اور اولاد شادى كے عظيم مقاصد ميں شامل ہيں، اور يہ ان حقوق ميں شامل ہيں جو خاوند اور بيوى دونوں ميں مشترك ہيں"
اور الموسوعۃ الفقہيۃ ميں درج ہے:
"العنۃ: يعنى شہوت نہ ہونا: جمہور فقھاء كے ہاں يہ ايك ايسا عيب ہے جو ايك برس كى مہلت دينے كے بعد بيوى كو خاوند سے عليحدگى كا اختيار ديتا ہے.
حنابلہ ميں سے ايك جماعت جن ميں ابو بكر اور المجد ـ يعنى ابن تيميہ کے داداـ شامل ہيں، انہوں نے اختيار كيا ہے كہ عورت كو فوراً فسخِ نکاح كا اختيار حاصل ہے.
اور جمہور کی دلیل وہ وقعہ ہے جس میں عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے شہوت سے عاجز شخص كے ليے ايك برس كى مہلت دی تھى ؛ اور اسکی دلیل یہ بھی ہے كہ بیوی شادی عفت اور عصمت کیلئے کرتی ہے، اور شادی ہی واحد راستہ ہے جس سے یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے، چنانچہ اگر شادی کی کسی صورت میں یہ ہدف حاصل نہ ہو تو فریقین کو فسخ کا حق حاصل ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ خريد و فروخت ميں عيب كى وجہ سے تھوڑا سا بھى مال جاتا رہے تواس ميں اختيار ثابت ہو جاتا ہے، جبکہ عيب كى وجہ سے بالاولى نكاح كا مقصد فوت ہو جائيگا." انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 16 )
ليكن بعض اوقات کوئی عورت جو عمر رسیدہ يا كسى مرض كى بنا پر شہوت سے خالی ہو تو وہ راضى ہو سكتى ہے، تو پھر خدمت اور انس و محبت، نان ونفقہ، باہمی تعاون اور دوسرے مقاصد نكاح كے ليے اس سے شادى كرنے ميں كيا مانع ہے ؟
شيخ ابراہيم بن محمد بن سالم ضويان الحنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"اور جس كو شہوت نہيں مثلا عنين اور بڑى عمر كے شخص كے ليے شادى كرنا مباح ہے؛ كيونكہ شريعت ميں اس كى ممانعت نہيں ہے.
ديكھيں: منار السبيل ( 2 / 911 ).
"العنين" جماع سے عاجز شخص كو كہتے ہيں، اور بعض اوقات وہ جماع كى خواہش تو ركھتا ہے ليكن وہ جماع نہيں كرسكتا.
اگر بيوى كو معلوم ہوجائے كہ خاوند جنسى طور پر كمزور ہے اور وہ اس كے ساتھ رہنے پر راضى ہوجائے تو بيوى كا حق فسخ ساقط ہوجائيگا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"اور اگر اس نے [نکاح کے] وقت كہا كہ: ميں وطئ سے عاجز شخص پر راضى ہوئى تو مستقل طور پر اس كا اختيار ساقط ہوجاتا ہے"، مثلا ايسى عورت جو جماع كى استطاعت نہ ركھنے والے خاوند پر راضى ہو گئى، اور پھر باقى عورتوں كى طرح اس عورت كو بھى نكاح كى شہوت پيدا ہو گئى اور وہ اپنا نكاح فسخ كرنا چاہے تو ہم كہيں گے:
تمہیں كوئى اختيار نہيں، اور اگر وہ كہے كہ: اس وقت تو ميں اس كو پسند كرتى اور اس پر راضى تھى، ليكن اب مدت زيادہ ہو گئى ہے اور ميں اس كو نہيں چاہتى، تو ہم اسے كہيں گے: اب تجھے كوئى اختيار نہيں، كيونكہ يہ كوتاہى تيرى جانب سے ہى تھى."
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 211 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 102553 ) اور ( 10620 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خنثى يعنى ہيجڑے كى اگر حقيقت حال كا علم نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، تو اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اور اگر اس كى حالت واضح ہو كہ وہ مرد ہے: تو اس كى شادى كرنا صحيح ہے، ليكن يہ ضرورى ہے كہ ایسی حالت ميں ڈاكٹر سے رائے طلب كى جائے جو موروثی بیماریوں اور اس صورتِ حال کا ماہر ہو تا كہ اس كى حالت اور اس سے شادى كے امكان كى وضاحت کرسکے.
ليكن جنسى طور پر كمزور يا پھر جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى صحيح ہے، ليكن شادى سے قبل اسے اپنى حالت بيان كرنا ضرورى ہے، اگر وہ حالت بيان اور واضح كرتا ہے تو اس كى اس كے ساتھ صحيح ہے جسے علم ہو كہ وہ اسى حالت ميں اس كے ساتھ رہ سكتى ہے، مثلا كہ عورت بھى اسى طرح كى ہو اور اسے مردوں كى خواہش نہ ہو، ليكن نوجوان لڑكى تو شادى ميں وہى كچھ چاہتى ہے جس طرح دوسرى نوجوان لڑكىاں چاہتى ہیں.
https://islamqa.info/ur/114670
No comments:
Post a Comment