Saturday 17 March 2018

بائیں ہاتھ سے تسبیح پڑھنا؟

بائیں ہاتھ سے تسبیح پڑھنا؟

قرآن و حدیث میں ذکر وتسبیح کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
"ذکر اللہ" کے لغوی مفہوم میں اگرچہ کافی عموم ہے۔ نمازوغیرہ کو بھی یہ شامل ہے۔ لیکن اس کا اصطلاحی اطلاق تسبیح وتہلیل وغیرہ پر زیادہ ہے۔
اذکار وتسبیح   کے شمار کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک انگلیوں کے پوروں پہ گننا ثابت و مروی ہے۔

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعقد التسبیح - قال ابن قدامة - بیمینہ ․ (سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰ وسکت عنہ ابوداود، ونقل المنذری تحسین الترمذی واقرہ واخرجہ الترمذی وفی روایتہ: بیدہ، واخرجہ ابن حبان ایضا بلفظ بیدہ)
”حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا، کہ آپ تسبیح شمار فرمارہے تھے- اس سند کے امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے شیخ ثانی ابن قدامہ نے اس روایت میں ”بیمینہ“ (دائیں ہاتھ مبارک سے) کا اضافہ نقل کیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ اپنے دائیں دست مبارک سے تسبیح شمار فرمارہے تھے۔“

2۔۔عن یسیرة وکانت من المہاجرات قالت: قال لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: علیکن بالتسبیح والتہلیل والتقدیس واعقدن بالانامل فانہن مسئولات مستنطقات ولا تغفلن فتنسین الرحمة․ قال الترمذی: ہذا حدیث انما نعرفہ من حدیث ہانی بن عثمان ․ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات، احادیث شتّی ۲/۱۹۹ سنن ابی داود، کتاب الصلاة، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۱۰۳ حدیث: ۸۳۹، مسند احمد ۶/۴۰۲ حدیث: ۲۷۱۵۴، وحسّنہ النووی فی ”الاذکار“ ص:۲۲ وابن حجر فی ”نتائج الافکار“ ۱/۸۴)
”حضرت یسیرہ (بنت یاسر) رضی اللہ عنہا سے جو مہاجرات میں سے ہیں، روایت ہے، کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم سے ارشاد فرمایا، کہ تم تسبیح (سبحان اللہ کہنا)، تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا)، اور تقدیس  کو لازم پکڑو، اور ان کو انگلیوں کے پوروں سے شمار کرو، اس لیے کہ (دیگر اعضاء کی طرح) پوروں سے بھی (قیامت کے دن ان سے کیے گئے اعمال کے بارے میں) سوال کیا جائے گا، اور ان میں گویائی پیدا کرکے ان کو بُلوایا جائے گا۔ اور ذکر سے غافل مت ہوؤ یعنی ذکر کو مت چھوڑو، ورنہ تم رحمت کو یعنی سبب رحمت کو چھوڑنے والی ہوں گی۔“

ان دونوں حدیثوں میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور عمل انگلیوں کے پوروں پہ تسبیحات شمار کرنے کا ہونا مصرح ہے۔ وہیں اس سلسلے میں کسی مخصوص ہاتھ کے پوروں کی تعیین وتحدید بھی نہیں کی گئی۔ بلکہ اس کے طریقے وکیفیت کے سلسلے میں یک گونہ آزادی دی گئی ہے۔ اور اس  جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ اس عمل خیر میں ہاتھ کے زیادہ سے زیادہ پوروے شریک ہوں تاکہ روز قیامت گواہی دے سکیں ۔
اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں متعدد صحابہ وامہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کنکریوں اور کھجور کی گٹھلیوں پر بھی تسبیحات شمار کی ہیں۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے دیکھا اور کچھ نکیر کئے بغیر اسے برقرار رکھا۔ مثلا؛

عن سعد بن ابي وقاص انہ دخل مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی امرأة وبین یدیہا نوی اوحصی تُسبِّحُ بہا، فقال: (الا) اخبرک بما ہو ایسر علیک من ہذا او افضل، فقال: سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء وسبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض وسبحان اللّٰہ عدد ما خلق بین ذلک وسبحان اللّٰہ عدد ما ہو خالق، واللّٰہ اکبر مثل ذلک، والحمد للّٰہ مثل ذلک، ولا الہ الا اللّٰہ مثل ذلک، ولا حول ولاقوة الا باللّٰہ مثل ذلک․ (سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰، جامع ترمذی، احادیث شتّی من ابواب الدعوات وقال الترمذی: حسن غریب ۲/۱۹۷، واخرجہ ابن حبان: الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۱۰۱ حدیث: ۸۳۵ والحاکم وقال الحاکم: صحیح الاسناد ووافقہ الذہبی: المستدرک للحاکم ج:۱، ص:۵۴۷، ۵۴۸، والطبرانی فی الدعاء ۳/۱۵۸۴ حدیث: ۱۷۳۸)

”حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں ایک خاتون کے پاس پہنچے (ام المومنین) دراں حالیکہ اس خاتون کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا سنگریزے تھے، وہ ان گٹھلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:
میں تم کو وہ نہ بتادوں، جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا فرمایا کہ اس سے افضل ہے؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (کہ تم اس طرح کہو)؛
سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء و سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض وسبحان اللّٰہ عدد ما بین ذلک و سبحان اللّٰہ عدد ما ہو خالق اللّٰہ أكبر عدد ما ہو خالق. (اللہ اکبر عدد ما خلق فی السماء واللہ اکبر عدد ما خلق فی الارض ․․․) الحمد للہ
اسی طرح لا الہ الا اللہ اسی طرح اور لاحول و لاقوة الا باللہ اسی طرح۔“
(۲)   وعن حفصة قالت
دخل علیّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین یدی اربعة آلاف نواة اسبح بہا (بہن) قال: لقد سبّحت بہذہ، الا اعلمک باکثر ممّا سبحت بہ فقلت: بلی علمنی فقال: قولی: سبحان اللّٰہ عدد خلقہ․ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات، باب بلا ترجمة قبیل احادیث شتّی من ابواب الدعوات، وقال الترمذی: ہذا حدیث غریب لانعرفہ من حدیث صفیة الا من ہذا الوجہ من حدیث ہاشم بن سعید الکوفی ولیس اسنادہ بمعروف ۲/۱۹۵ و اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۱/۵۴۷ وقال: ہذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ، ووافقہ الذہبی)
”حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، دراں حالیکہ میرے سامنے کھجور کی چار ہزار گٹھلیاں تھیں، جن کے ذریعہ میں تسبیح پڑھ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛
تم نے ان کے ذریعہ جتنی تسبیح پڑھی، میں اس سے زیادہ تم کو نہ بتلاؤں؟
میں نے عرض کیا؛
کیوں نہیں! مجھے سکھائیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
تم کہو: سبحان اللہ عدد خلقہ“۔
ان دونوں روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کنکروں اور گٹھلیوں پر بھی تسبیح پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اس سلسلے کی مزید روایات و آثار کے لئے ”سنن ابی داؤد“ ”باب التسبیح بالحصی“ (سنن ابی داود، ابواب الوتر ۱/۲۱۰)
اور  ”نیل الاوطار“  للشوکانی ”باب جواز عقد التسبیح بالید وعدّہ بالنوی ونحوہ“ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶) کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ (ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء)

دور جدید کے دھاگے دار تسبیح کے دانوں پر اذکار شمار کرنے کے جواز کی دلیل بھی یہی روایت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع فتاوی، جلد۔٢٢ص -٥٠٦- لکھتے ہیں:

وعد التسبيح بالأصابع سنة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم للنساء‏:‏ ‏"‏سبحن واعقدن بالأصابع فإنهن مسؤولات مستنطقات‏"‏‏.‏ وأما عده بالنوى والحصى ونحو ذلك، فحسن‏.‏ وكان من الصحابة رضي الله عنهم من يفعل ذلك، وقد رأى النبي صلى الله عليه وسلم أم المؤمنين تسبح بالحصى، وأقرها على ذلك، وروي أن أبا هريرة كان يسبح به‏.‏
وأما التسبيح بما يجعل في نظام من الخرز، ونحوه، فمن الناس من كرهه، ومنهم من لم يكرهه، وإذا أحسنت فيه النية، فهو حسن غير مكروه، وأما اتخاذه من غير حاجة، أو إظهاره للناس مثل تعليقة في العنق، أو جعله كالسوار في اليد، أو نحو ذلك فهذا إما رياء للناس، أو مظنة المراءاة ومشابهة المرائين من غير حاجة‏.‏ الأول محرم، والثاني أقل أحواله الكراهة؛ فإن مراءاة الناس في العبادات المختصة كالصلاة والصيام والذكر وقراءة القرآن من أعظم الذنوب۔"

انگلیوں پر تسبیح پڑھنا سنت ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے کہا تھا کہ اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھو کیونکہ ان انگلیوں سے بھی قیامت کے دن سوال ہو گا اور یہ کلام کریں گی۔ جہاں تک تسبیح کو گھٹلی یا کنکری وغیرہ پر پڑھنے کا تعلق ہے تو یہ بھی بہتر ہے کیونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا کرنا مروی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کو کنکریوں پر تسبیح پڑھتے دیکھا تو اس سے روکا نہیں۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ بھی کنکریوں پر تسبیح پڑھتے تھے۔
جہاں تک اس تسبیح کا تعلق ہے جو ایک دھاگے میں پرو کر تیار ہوتی ہے تو بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں اور بعض مکروہ نہیں سمجھتے ہیں۔ پس اگر تیری نیت اچھی ہو (مثلا ہر وقت اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھنا وغیرہ کی عادت ڈالنا) تو ایسا کرنا بہتر ہے اور اس میں کراہت نہیں ہے۔ اور اگر ایسا بغیر کسی وجہ کے کیا جائے یا لوگوں کو دکھلانے کے لیے ہو کہ اس تسبیح کو گردن میں لٹکالے یا ہاتھ میں گنگن کی طرح لپیٹ لے وغیرہ تو یہ عمل یا تو ریاکاری کے سبب سے کیا جاتا ہے یا ریاکاری اور ریاکاروں سے مشابہت کی صورت ہے۔ پہلی صورت یعنی ریاکاری کے لیے تسبیح پکڑنا حرام ہے جبکہ دوسری صورت یعنی ریاکاری یا ریاکاروں کے عمل سے مشابہت کا کم تر درجہ بھی کراہت ہے۔ مخصوص عبادات مثلا نماز، روزہ، ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ میں دکھلاوا کرنا عظیم ترین گناہوں میں سے ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
والحدیثان الاخران (حدیث سعد بن ابی وقاص الذی اخرجہ ابوداود والترمذی وغیرہما وحدیث صفیة الذی اخرجہ الترمذی والحاکم وصححہ السیوطی) یدلاّن علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی وکذا بالسبحة لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للمرأتین علٰی ذلک وعدم انکارہ․ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶)
تحفة الأحوذي   میں ہے :
ویدلّ علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی حدیث سعد بن ابی وقاص․․․ وحدیث صفیة ․․․ (تحفة الاحوذی بشرح جامع الترمذی ۹/۳۲۲)

وفیہ دلیل علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی وکذا بالسبحة لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للمرأة علٰی ذلک وعدم انکارہ ․․․ (تحفة الاحوذی ۱۰/۱۲)
ہکذا فی بذل المجہود شرح سنن ابی داود“ ۶/۲۲۹ دارالبشائر الاسلامیہ)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الروایات فی التسبیح بالنوی والحصی کثیرة عن الصحابة وبعض امہات الموٴمنین؛ بل رآہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واقرہا․ (مجموعة رسائل اللکنوی ۱/۱۳۲۔بحوالہ مولانا مفتی عمر لوہاروی صاحب یو کے۔ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند  )
یعنی باتفاق جمہور علماء کرام دھاگہ دار تسبیح پر اذکار شمار کرنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن جیساکہ حدیث سے واضح ہوا کہ انگلیوں کے پوروں پہ شمار کرنا زیادہ اولی وبہتر ہے ۔

پھر اوپر کی  جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ "اے خواتین! انگلیوں کے پوروں سے تسبیحات کو شمار کرو کہ ان سے بھی پوچھ ہوگی اور ان کو بھی گویائی عطا کی جائےگی"۔
اس ارشاد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دائیں اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں کوئی فرق نہیں فرمایا ہے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يُحِبُّ التَّيامُنَ ما استطاع: في طُهورِه وتنَعُّلِه وترَجُّلِه قال شُعبةُ: ثمَّ سمِعْتُ الأشعثَ بواسِطَ يقولُ: (يُحِبُّ التَّيامُنَ - وذكَر شأنَه كلَّه ثمَّ قال: - شهِدْتُه بالكوفةِ يقولُ: يُحِبُّ التَّيامُنَ ما استطاع .
الراوي: عائشة المحدث: ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 1091
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ دائیں طرف سے ابتداء کی جائے"۔
اس لئے  دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح پڑھنا بہتر اور اولی ہے۔ پہلے دائیں ہاتھ پہ پڑھے۔ ضرورت پڑنے پر  پھر بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر بھی تسبیح پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
کیونکہ بائیں ہاتھ کو عربی میں "اليسرى" کہتے ہیں۔
جس کے معنی ہی سہولت اور آسانی کے آتےہیں ۔اسی لئے مالداری کو "یسار" کہتے ہیں۔ تو بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ میں تسبیح وغیرہ گننے میں مددگار اور سہولت کار ہونے کی وجہ سے "الیسری" کہا جاتا ہے۔
امام رازی لکھتے ہیں:
[اليسر في اللغة معناه: السهولة؛ ومنه يقال للغنى والسعة: اليسار؛ لأنه يسهل به الأمور، واليد اليسرى قيل: تلي الفعال باليسر، وقيل: إنه يتسهل الأمر بمعونتها اليمنى۔ اهـ."مفاتيح الغيب" (5/258، ط. دار إحياء التراث العربي)

امام قرطبی رحمہ اللہ بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھتے ہیں۔
[سميت اليد اليسرى تفاؤلا، أو لأنه يسهل له الأمر بمعاونتها لليمنى] اهـ. القرطبي في "تفسيره" (2/301، ط. دار الكتب المصرية)

افضل الذکر قرآن کریم کی تلاوت ہے ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور تابعین نے اس افضل الذکر کو بائیں ہاتھ سے شمار فرمایا ہے ۔ملاحظہ ہو:
حافظ ابو عمرو دانی اپنی کتاب: البیان فی عد آي القرآن  میں روایت نقل کرتے ہیں :
: «أَن النَّبِي صلى الله عليه وآله وسلم كَانَ يعد ﴿بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم﴾ آيَةً فاصلة، {الْحَمد لله رب الْعَالمين الرَّحْمَن الرَّحِيم مَالك يَوْم الدّين﴾ وَكَذَلِكَ كَانَ يَقْرؤها،
﴿إياك نعْبد وَإِيَّاك نستعين اهدنا الصِّرَاط الْمُسْتَقيم﴾ إِلَى آخرهَا سبع، وَعقد بِيَدِهِ الْيُسْرَى وَجمع بكفيه».وأخرج أيضًا عَن التابعيِّ الجليل ابْن سِيرِين:
"أَنه كَانَ يعد الْآي فِي الصَّلَاة بِشمَالِهِ".

وأخرج عَن التابِعيَّيْن الجليلين طَاوُوس وَمُحَمّد بن سِيرِين: "أَنَّهُمَا كَانَا لَا يريان بَأْسًا بِعقد الْآي فِي الصَّلَاة، وَكَانَ
ابْن سِيرِين يعْقد بِشمَالِهِ".

وأخرج عن إِبْرَاهِيم بن سعد عَن أَبِيه: "أنه رأى عُرْوَة بن الزبير رضي الله عنه يعْقد الآي بيساره فِي الصَّلَاة".۔۔۔۔
الحافظ أبو عمرو الداني في كتابه "البيان في عدّ آي القرآن" (ص: 66، ط. مركز المخطوطات والتراث۔ بَاب ذكر من رأى العقد باليسار،
(شیخ مصراوی کے پیج سے)

جب دوران نماز قرآنی آیات بائیں ہاتھ سے شمار کی جاسکتی ہیں تو خارج نماز تسبیحات بائیں ہاتھ سے شمار کرنے میں کون سی قباحت ہے ؟؟؟
آخر یہ بھی تو قابل غور ہے کہ رکوع میں، سجدے میں جاتے اور اٹھتے ہوئے۔ رفع یدین میں۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے میں، معوذتین پڑھ کر بدن پر پھونک مارنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دونوں ہاتھ کا استعمال فرمایا ہے تو تسبیحات شمار کرنے میں دونوں ہاتھ استعمال کیوں نہ ہوں؟ ؟
اگر تسبیح شمار کرنے کے لئے بائیں ہاتھ میں کوئی خرابی ہے تو ان مذکورہ جگہوں میں یہ خرابی کیوں نہیں؟؟؟

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْفُثُ عَلَى نَفْسِهِ فِي الْمَرَضِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ فَلَمَّا ثَقُلَ كُنْتُ أَنْفِثُ عَلَيْهِ بِهِنَّ وَأَمْسَحُ بِيَدِ نَفْسِهِ لِبَرَكَتِهَا فَسَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ كَيْفَ يَنْفِثُ قَالَ كَانَ يَنْفِثُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ
صحيح البخاري 5403
بَاب الرُّقَى بِالْقُرْآنِ وَالْمُعَوِّذَاتِ

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بَكْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ أَطْرَافٍ وَجْهُهُ وَكَفَّاهُ وَرُكْبَتَاهُ وَقَدَمَاهُ 
صحيح مسلم 491

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
”جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء: چہرہ ، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدم سجدہ کرتے ہیں“۔
صحیح مسلم/الصلاة ۴۴ (۴۹۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۹۱ (۲۷۲)، سنن النسائی/التطبیق ۴۱ (۱۰۹۵)، ۴۶ (۱۱۰۰)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹ (۸۸۵)، (تحفة الأشراف: ۵۱۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۶) (صحیح)

دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے تسبیح واذکار شمار کی جاسکتی ہیں۔شرعا کوئی حرج نہیں۔
والله أعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
مركز البحوث الإسلامية العالمي
١٣\٣\٢٠١٨

No comments:

Post a Comment