Wednesday 7 March 2018

اکبر الہ بادی: اصلاحی شاعر Akbar Allahabadi: Satire Poet

اکبر الہ آبادی الہٰ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سیداکبر حسین رضوی تھا اور تخلص اکبر تھا۔ آپ 16 نومبر1846ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہو گئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھرمنصف مقرر ہوئے ۔ 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہو گئے۔ 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ انہوں نے جنگ آزادی ہند 1857ء، پہلی جنگ عظیم اور گاندھی کی امن تحریک کا ابتدائی حصہ دیکھا تھا۔ ابتدا میں حیدرعلی آتش سے اصلاح لی۔ پھر اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہو گئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا۔
خدا کے فضل سے دونوں میاں بیوی مہذب ھیں  
  حجاب ان کو نہیں آتا، انہیں غصہ نہیں آتا...
نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ھوتی
  مذاھب رھتے ھیں قائم،  فقط ایمان جاتا ھے...
ترقی پاتے ھیں لڑکے ھمارے نورِ دیں کھوکر
  یہ کیااندھیر ھے، بجھ لیتے ھیں یہ تب چمکتے ھیں...
جووقتِ ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
  مسلمانی میں طاقت خون ھی بہنے سے آتی ھے....
کریما ببخشائے برحالِ بندہ
   کہ ھستم اسیرِ کمیٹی وچندہ
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ھے مگر
خاتونِ خانہ ھوں وہ سبھا کی پری نہ ھوں...
شمشیر زن کو اب نئے سانچے میں ڈھالئے
  شمشیر کو چھپائیے، زن کو نکالئے ...
  کاھلی کرنے کی فرصت مل ھی جاتی ھے مجھے
  رشک آتا ھے عدیم الفرصتی پر وقت کی....
گذر ان کا ھوا کب عالمِ اللہ اکبر میں
پلے کالج کے چکر میں، مرے صاحب کے دفتر میں...
غزالی ورومی کی بھلاکون سنے گا
محفل میں چھڑا نغمۂ "اسپنسر "و "مل " ھے
نئی تہذیب میں بھی مذھبی تعلیم داخل ھے
مگریونہی کہ گویا آب زمزم مئے میں شامل ھے
ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کرگئے
بی اے ہوئے نوکر ہوئے پینشن ملی اور مرگئے
مدخولہ گورنمنٹ اکبر اگر نہ ہوتا
اس کو بھی آپ پاتے گاندھی کی گوپیوں میں
خود تو گٹ پٹ کیلئے جان دئیے دیتے ہو
اور ہم پہ تاکید کہ پڑھ بیٹھ کے قرآن مجید
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے رونق انجمن پہلے چراغ خانہ تھی
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے؟ فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے؟ فقط سرکاری ہے
صیاد ہنر دکھلائے اگر تعلیم سے سب کچھ ممکن ہے
بلبل کے لیے کیا مشکل ہے اُلو بھی بنے اور خوش بھی رہے

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
تم شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اُڑو چرخ پہ جھولو
لیکن ایک سخن بندہٴ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

Akbar Allahabadi: Satire Poet

Akbar Hussain Rizvi, popularly known as Akbar Allahabadi, was an Indian Urdu poet mainly known for satire in his poetry. Akbar Allahabadi was born in Allahabad, India. He first finished his basic education at 'madrasas' (religious elementary schools) which was the tradition for most Muslim children at that time. He later went on to college to study law and ended up retiring as a sessions judge from Allahabad High Court.
He published three 'kulliyats' (collection of his poems), the fourth volume was published in 1948.
"Hangaama Hai KyuuN Barpa, Thodi Sii Jo Pii Lii Hai" His poem sung by the ghazal singer Ghulam Ali in the early 1980s[4]
"Bas Jaan Gaya Mein Teri Pehchaan Yehi Hai, Tuu Dil Mein Tau Aata Hai, Samajh Mein Nahin Aata", A Hamd song ( in praise of God) by Mehdi Hassan, a Radio Pakistan production from the early 1970s

अकबर इलाहाबादी : शायरी में व्यंग्य की धार ही पहचान
सैयद अकबर हुसैन रिजवी के नाम से लोग भले ही परिचित न हों, लेकिन ‘अकबर इलाहाबादी’ का नाम सुनते ही लोगों के दिलों में गजलों और शायरी का शोर उमड़ने और भावनाएं हिलोर मारने लगती हैं। उनका लेखन हमारे व्यंग्य साहित्य की धरोहर में शुमार है


No comments:

Post a Comment