Wednesday, 7 March 2018

اسقاط حمل کے لئے کیا حکم ہے؟

سوال؛ ایک عورت کی ماہواری بند ہوگئی جب لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا تو 15 دن سے وہ حاملہ تھی تو وہ عورت یہ تفصیل چاہتی ہے کہ دوائیں گولیاں استعمال کرنا اور یہ 15 دن کے حمل ضائع کرنا اسلام میں کیسا ہے؟

جواب: ناجائز ہے. البتہ کوئی شرعی وجہ ہو تو اور بات ہے. ورنہ ایسے ہی ضائع کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں.
واللہ تعالی اعلم 

..........
(۷۴۵) اولاد کے اخراجات کے ڈر سے اسقاطِ حمل حرام ہے
سؤال
مفتی صاحب !
(۱)… دوماہ تا چار ماہ کا جائز حمل صفائی کرواسکتے ہیں یا نہیں؟
(۲)… شوہر صفائی کی اجازت دیتا ہے کیونکہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتا؟
(۳)…حمل کے دوران طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟
(۴)… حمل کے دوران اگرطلاق ہوجاتی ہے تو اس کی عدت کیسے ہوگی اور کتنی مہینے کی ہوگی؟
(۵)… طلاق کے بعد مہر کی رقم شوہر پر واجب ہے یا نہیں؟
(۶)… پہلی بچی کی عمر گیارہ سال، دوسرے لڑکے کی عمر دس سال، تیسری بچی کی عمر نو سال، چوتھے بچے کی عمر چھ سال، پانچویں بچی کی عمر پانچ سال ان تمام بچوں میںسےماں کو رکھنے کا حق کتنی عمر کے بچوں کا ہے؟
(۷)… اگر شوہر ان پانچوں بچوں کو نہ دے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟
(۸) … شوہر اگر اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور لڑکی اگر اپنے ماں باپ کے گھر آجائے تو لڑکی اپنے شوہر سے شرعی طور پر کیا کیا حق لے سکتی ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب
(۱)… اگر بچے کی ولادت سے جان کی ہلاکت یا جان لیوا بیماری لگنے کا خوف ہو تو اس صورت میں چار ماہ سے کم مدت کا حمل صاف کروانے کی گنجائش ہے لیکن بالکلیہ طور پر ولادت کی صلاحیت ختم کردینا جائز نہیں۔
(۲)… اولاد کے اخراجات کے ڈر سے اسقاط حمل کرنا بالکل جائز نہیں۔ یہ  باطل نظریہ رکھنے والوں کا فلسفہ ہے کہ اگر اولاد بڑھتی جائے گی تو کہاں سے کھائے گی، اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا ۔الخ۔
”اور زمین پر کوئی چوپایا نہیں ہے مگر اللہ پر اس کے رزق کی ذمہ داری ہے“
یعنی اللہ جل شانہ نے ہر ایک کے رزق کا بندوبست فرما رکھا ہے، اللہ تعالیٰ کسی کیڑے مکوڑے، درندے کو بھوکا نہیں مارتا کیا ان کو اللہ کے علاوہ کوئی اور کھلانے والا ہے؟ بلکہ سب مخلوق کو مساوی طور پر اس کی ضروریات کے بقدر اللہ جل شانہ رزق فراہم کرتے ہیں لہذا یہ نظریہ رکھنا کہ اخراجات کے بڑھنے کےڈر سے اسقاط حمل کرنا اور کروانا جائز ہے بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ بلا شرعی عذر کے اسقاط حمل کرنا، کرانا شریعت میں بالکل حرام ہے۔
(۳)…دورانِ حمل طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
(۴)… دورانِ حمل طلاق دی جائے تو اس کی عدت وضع حمل(بچے کی ولادت) تک ہے۔
(۵)… شوہر پر مہر کی ادائیگی بہر صورت فرض ہے، چاہے طلاق کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
(۶)… مذکورہ صورت میں ۶ سالہ بچے کو سات سال تک اور پانچ سالہ بچی کو ۹ سال تک ماں کو حق پرورش حاصل ہے۔ ان کے علاوہ دیگر بچوںسے متعلق ماں کو حقِ پرورش نہیں۔
(۷)… شرعی احکام کو سر تسلیم خم کرنا شان بندگی ہے اور اس سے ترش روئی وبیزار ہونا ہلاکت ہے، جن بچوں پر ماں کو حق پرورش حاصل ہے وہ بچے ماں کو سپرد کردینا شوہر پر لازم ہے وگرنہ گناہگار ہوگا۔
(۸)… شوہرکے گھر پر عدت گزارنا ضروری ہے، اور شوہر پر عدت کے مکمل ہونے تک مطلقہ بیوی کا نفقہ و سکنی لازم ہے (کھانا پینا ورہائش) لیکن اگر شوہر کے گھر پر بلا وجہ عدت نہ گزارے تو شوہر پر عورت کا کوئی حق نہیں البتہ مہر بہر صورت لازم ہے۔
لمافی القرآن الکریم (البقرة:۲۸۶): لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔
(الاسراء: ۳۱): وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْأً كَبِيْرًا۔
(الطلاق :۴): وَاُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَن يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔
(البقرة :۲۳۳): وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَه رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔
(البقرة: ۲۳۶):وَمَتِّعُوْهُنَّ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ
(الطلاق:۶): أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّن وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ۔
(النسآء:۴): وَآتُواالنِّسَاءَصَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً۔

وفی الدرالمختار (۵۷۵/۳):( لا ) نفقة لأحد عشر ۔۔۔ و ( خارجة من بيته بغير حق ) وهي الناشزة حتى تعود۔
وفی الرد تحتہ: قوله ( وهي الناشزة ) أي بالمعنى الشرعي أما في اللغة فهي العاصية على الزوج المبغضة له ۔
وفی الشامیۃ (۴۲۹/۶):( قوله ويكره إلخ ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل ( قوله وجاز لعذر ) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما ، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية۔
وفی الدرالمختار(۵۶۶/۳):( والحاضنة ) أما أو غيرها ( أحق به ) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب ۔۔۔ ( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي ( وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي ۔
وفی الشامیۃ :قوله ( مشتهاة اتفاقا ) بل في محرمات المنح بنت تسع فصاعدا مشتهاة اتفاقا سائحاني قوله ( كذلك ) أي في كونها أحق بها حتى تشتهي قوله ( وبه يفتى ) قال في البحر بعد نقل تصحيحه والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية۔

نجم الفتاوی
ناقل عطاء الرحمن بڑودوی
..........
پانچ مہینہ کے حمل کے متعلق ڈاکٹروں کی رائے اسقاط کی ہے تو کیا اسقاط درست ہے ؟:
(سوال ۲۵۱) کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت ہے جس کے حمل کا پانچواں مہینہ چل رہا ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے کئی مرتبہ بچے کا اسکان (خصوصی مشین سے بچہ کو دیکھنا ) کیا اور بتلایا کہ بچہ کی حالت اچھی نہیں ہے، اس کی ماں کی جانب بھی خطرہ میں ہوسکتی ہے کیوکہ بچہ کے اندر کئی قسم کے نقصانات ہیں
(۱) دل بائیں جانب کے بجائے دائیں جانب ہے (۲) دل میں بجائے چار منا فذ کے ایک منفذ ہے
(۳) بچہ کے دل میں خون کا اختلاط ہورہا ہے ، آکسیجن وبغیر آکسیجن والے خون کی وجہ سے بچہ اگر عند الولات زندہ بھی رہا تو نیلا رنگ ہوگا، نیز پیدا ہوتے ہی اس کا آپریشن کرنا ہوگا اور ا س کے بعد بچہ کی حیات بھی موہومہ ہے او ر ولادت کے وقت تکلیف بھی بہت ہوگی، ان کی ماں پر ان باتوں کا بڑا اثر ہے ، ان حالات کی وجہ سے کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ اسقاط کیاجائے، ایک طبیب عالم اور ایک حکیم حادق نے بھی یہی رائے دی ہے ایسی صورت حال میں اسقاط کا کیا حکم ہوگا؟ بینوا توجروا۔
(الجواب) حمل کا پانچواں مہینہ ہے بچہ کے اعضاء مکمل بن چکے ہون گے اور روح پڑ چکی ہوگی ،ایسی حالت میں اسقاط حمل کی اجازت نہیں ،ڈاکٹر جو بات کہہ رہے ہیں اس کا سوفیصدصحیح ہونا ضروری نہیں ہے ، حال ہی میں ایک جنین کے متعلق ڈاکٹر رپورٹ یہ تھی کہ بچہ کا صرف ایک پیر ہے دوسرا پیر نہیں ہے ، ماشاء اﷲ وہ بچہ صحیح سالم پیداہوا دونوں پیر صحیح سلامت ہیں ، لہذا اﷲ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے، دعاء کا سلسلہ جاری رکھیں ، بوقت ولادت بچہ کی والدہ کومؤطاامام مالک کھول کر بتایا جائے ، انشاء اﷲ ولادت آسان ہوگی ،نیز ولادت کی سہولت کے جو مجرب اور صحیح عمل ہیں انہیں بھی اختیار کیا جائے ۔
شامی میں ہے: وفی الذخیرۃ لوارادت القاء الماء بعد وصولہ الی الرحم قالو ا ان مضت مدۃ ینفخ فیہ الروح لایباح لھاوقبلہ اختلف المشائخ فیہ والنفخ مقدر بمائۃ وعشرین یوماً بالحدیث اھ قال فی الخانیۃ ولا اقول بہ لضمان المحرم بیض الصید لانہ اصل الصید فلا اقل من ان یلحقھا اثم وھذا لو بالا عذر ا ھ(شامی ۵/۳۲۹ قبیل باب الا ستبراء)
نیز درمختارمیں ہے ۔ ویکرہ ان تسعی لا سقاط حملھا وجاز لعذر حیث لا یتصور ۔ شامی میں ہے (قولہ ویکرہ الخ) ای مطلقاً قبل التصور و بعدہ علی ما اختارہ فی الخانیۃ کما قبیل الا ستبراء وقال الا انھا لا تأثم اثم القتل (قولہ وجاز لعذر) کالمرضعۃ اذا ظھربہ الحبل وانقطع لبنھا ولیس لا ب الصبی مایستأ جربہ الظئر ویخاف ھلاک الولد قالوا یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم ما دام الحمل مضغۃ او علقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدرواتلک المدۃ بمائۃ وعشرین یوماً وجاز لا نہ لیس بادمی وفیہ صیانۃ الآ دمی خانیۃ (قولہ حیث لا یتصور ) فیہ لقو لہ وجاز لعذر والتصور کما فی القنیۃ ان یظھر لہ شعر او اصبع او رجل او نحو ذلک (درمختار و شامی ص ۳۷۹ ج۵، قبیل کتاب احیاء الموات)
غایۃ الا وطار میں ہے:۔ ویکرہ ان تسعیٰ لا سقاط حملھا وجاز بعذر حیث لا یتصور،
اور عورت کا دو اپینا اپنی حمل کے اسقاط کے واسطے مکروہ ہے، اور اسقاط کرنا عذر کے سبب سے درست ہے جب کہ حمل کی صورت نہ بن گئی ہو) حمل کا گرانا بلا عذر مباح نہیں اور عذر سے درست ہے بشرط یہ کہ صورت نہ بن گئی ہو ، عذر اسقاط یہ ہے کہ مثلاً عورت لڑکے کو دودھ پلاتی ہے اور حمل رہنے سے دودھ جاتا رہا اور اس کے زوج کو دایہ رکھنے کی قدرت نہیں ہے اور ہلاکت طفل کا خوف ہے تو اس صورت میں حمل کا گرا دینا علاج وغیرہ سے درست ہے جب تک حمل ٹھہرا ہوا اعضاء نہ بن گئے ہوں۔ (غایۃ الا وطار ۴/۲۴۹، باب الا ستبراء)
(فقط واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔
فتاوی رحیمیہ جلد10
مرغوب الرحمٰن عفی عنہ
...............
115954: مسلسل حمل کے ڈر سے چالیس دن سے قبل اسقاط ِحمل کا حکم
ایک عورت کو اپنے چار ماہ کے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ دوسرے یا تیسرے ہفتے کی حاملہ ہے، تو کیا چارہ ماہ کے اندر اندر دوبارہ حمل ہونے کی وجہ سےلاحق ہونے والے اندیشے کے باعث اسقاط حمل کروانا جائز ہے؟ مزید برآں کہ ابھی اسکا نومولود بچہ دودھ پلانے کی مدت میں ہے؛ اور حمل کی وجہ سے وہ  اپنے بچے کو دودھ بھی نہیں پلا سکے گی۔.
Published Date: 2015-05-13
الحمد للہ:
اول:
فقہائے کرام کا چالیس دن سے پہلے  اسقاط حمل کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، چنانچہ  متعدد حنفی اور  شافعی فقہائے کرام کے ساتھ ساتھ حنبلی  فقہاء اسے جائز کہتے ہیں۔
جیسا کہ ابن ہمام رحمہ اللہ  "فتح القدير" (3/401) میں کہتے ہیں:
"حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟  جائز ہے، بشرطیکہ انسانی تخلیق شروع نہ ہو، مزید برآں دیگر کئی مواقع پر [حنفی فقہاء کا ] کہنا ہے کہ: تخلیق 120 دن گزرنے کے بعد ہی  شروع ہوتی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء نے "تخلیق" سے  روح پھونکنا مراد  لیا ہے، وگرنہ 120 دنوں کے بارے میں انکی یہ بات  غلط ہوگی؛ کیونکہ حمل میں 120 دنوں سے قبل ہی  انسانی اعضاء کی نشوو نما شروع ہوجاتی ہے" انتہی
اسی طرح رملی رحمہ اللہ "نہایۃ المحتاج" (8/443) میں کہتے ہیں:
"راجح موقف کے مطابق روح پھونکے جانے کے بعد  کسی طور سے بھی اسقاط حمل حرام ہے،  لیکن روح پھونکے جانے سے قبل جائز ہے" انتہی
اور اسی طرح:" حاشیہ قليوبی "(4/160) میں ہے کہ:
"روح پھونکے جانے سے قبل اسقاط حمل کسی دوا وغیرہ کے ذریعے کرنا بھی جائز ہے، لیکن غزالی کی رائے اس کے خلاف ہے" انتہی
مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (1/386) میں کہتے ہیں: 
"نطفہ ساقط کرنے کیلئے دوا کا استعمال کرنا جائز ہے، "الوجیز"[حنبلی فقہ کی کتاب] میں یہی بات مذکور ہے، اور "الفروع" میں بھی اسی کو  بیان کیا گیا ہے، البتہ ابن الجوزی نے "احکام النساء" میں کہا ہے کہ: "یہ عمل حرام ہے" ، جبکہ "الفروع" میں ہے کہ : کتاب "الفنون" میں ابن عقیل کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ: "روح پھونکنے سے قبل  اسقاط حمل جائز ہے"، اسے ذکر کرنے کے بعد  انہوں نے کہا: "یہ بات بھی کسی اعتبار سے درست معلوم ہوتی ہے" انتہی
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ "جامع العلوم والحكم" میں کہتے ہیں کہ: 
"رفاعہ بن رافع  سے نقل کیا گیا ہے کہ : میرے پاس عمر، علی، زبیر، اور سعد سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جمع ہوئے، اور "عزل" [جماع کے دوران انزال باہر کرنا]کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو سب نے کہا : "اس میں کوئی حرج نہیں ہے"، اس پر ایک آدمی نے کہا کہ: "کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی صورت ہے"، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا:"زندہ درگوری اس وقت شمار ہو گی جب سات مراحل گزرچکےہوں ، سب سے پہلے مٹی کا سلالہ [جوہر] ، پھر اس سے نطفہ، پھر علقہ[لوتھڑا]، پھر مضغہ [چبایا ہوا]، پھر ہڈیاں، پھر گوشت، اور پھر باقی اعضاء کی تخلیق  " اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:  "تم سچ کہتے ہو، اللہ تعالی آپکو لمبی زندگی دے" اس روایت کو  دارقطنی نے "المؤتلف و المختلف" میں نقل کیا ہے۔
پھر اس کے بعد ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جب نطفہ لوتھڑا بن جائے تو عورت کیلئے اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ  یہ نطفہ اب بچے کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگیا ہے، تاہم نطفہ  کے مرحلہ میں اسقاطِ حمل جائز ہے، اس لئے کہ ابھی بچے کی صورت شروع نہیں ہوئی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نطفہ بچے کی شکل اختیار ہی نہ کرے" انتہی 
[کیونکہ نطفہ سے اگر لوتھڑا بن جائے تو بچے کی نشوونما  ہوتی ہے، اور اگر نطفہ کی شکل میں ہی رہے تو بچہ کی نشوو نما نہیں ہوتی۔مترجم]
جبکہ تمام مالکی فقہاء مطلق طور پر  اسے منع قرار دیتے ہیں، یہی موقف کچھ حنفی، شافعی، اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔
چنانچہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبیر" (2/266) میں کہتے ہیں:
"رحم میں موجود منی کو چالیس دن سے پہلے خارج کروانا  جائز نہیں ہے، اور اگر روح پھونک دی جائے تو اجماعی طور پر حرام ہوگا" انتہی
تاہم کچھ  فقہائے کرام نے اس عمل کو جائز قرار دینے کیلئے عذر کی شرط لگائی ہے، اس کی تفصیلات کیلئے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية الكويتية" (2/57)
سپریم علماء کونسل  کے اجلاس میں منظور شدہ قرار داد میں ہے کہ:
1- حمل کے کسی بھی مرحلہ میں  اسقاط حمل جائز نہیں ہے، البتہ کسی شرعی عذر  کی بنا پر انتہائی  سنگین اور دشواری کی حالت میں اس کی اجازت ہے۔
2-  اگر حمل کا ابھی پہلا مرحلہ  یعنی ابتدائی چالیس دن  کی مدت میں ہو تو شرعی مصلحت، یا بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ساقط کرنا جائز  ہے، تاہم اس مدت میں صرف اس وجہ سے حمل ساقط کرنا کہ  بچوں کی پرورش میں مشقت ہو گی، یا انکی تعلیم و تربیت کے خرچے  برداشت نہیں ہوں گے، یا اس لئے ساقط کرنا کہ جتنے بچے  موجود ہیں یہی کافی ہیں،  تو یہ درست نہیں ہے" انتہی
"الفتاوى الجامعہ" (3/1055)
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (21/450) میں ہے:
"اصل یہی ہے کہ کسی بھی مرحلے میں شرعی عذر کے بغیر اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے، تاہم اگر حمل ابھی تک نطفہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہے، اور کسی شرعی مصلحت یا ماں کو حمل کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہے تو اسقاطِ حمل  جائز ہوگا، لیکن اس  میں بچوں کی پرورش، ان  کے خرچے، اور تعلیم و تربیت کے لئے درکار مشقت  کی وجہ سےاسقاطِ حمل درست نہیں  ہے، اسی طرح معین تعداد میں بچوں پر اکتفاء کرنا بھی  غیر شرعی  عذر شمار ہوتا ہے۔
اور اگر حمل کی مدت چالیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے؛ تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل حرام ہوگا، کیونکہ چالیس دن کے بعد نطفہ علقہ [لوتھڑا] بن جاتا ہے، اور یہ مرحلہ تخلیق انسان کی ابتدا ہوتی ہے، چنانچہ اس مرحلے میں پہنچنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے، اور اگر معتبر طبی ماہرین کی ٹیم یہ رائے دے کہ حمل ٹھہرنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہوگا،  اور اگر  حمل جاری رہا تو ماں کی زندگی شدید خطرے میں چلی  جائے گی، تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل جائز ہوگا" انتہی
سوال میں مذکور صورت کے بارے میں یہی ظاہر ہے کہ اسقاط حمل جائز ہے، کیونکہ  مسلسل حمل کی صورت میں  ماں ، اور شیر خوار بچے کو نقصان کا خطرہ ہے۔
واللہ اعلم.
https://islamqa.info/ur/115954

No comments:

Post a Comment