کائنات میں بلیک ہول سب سے زیادہ پراسرار جگہ ہے بلیک ہول ایسی جگہ ہے جہاں آپ کو روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے سفر کرنا ہوگا، اس سے بچنے کے لئے بلیک ہول کی کشش ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے روشنی بھی اس سے بچ نہیں پاتی البرٹ آئنسٹائن نے 1916 میں بلیک ہول کی پیش گوئی اپنی general theory of relativity کے ساتھ کی تھی
بلیک ہول 3 اقسام کے ہوتے ہیں Stellar بلیک ہول چھوٹے ہوتے ہیں اور بہت خطرناک ہوتے ہیں جب ایک ستارہ اپنا ایندھن ختم کرلیتا ہے تو یہ اپنی کشش ثقل کی وجہ سے اپنے مرکز میں گرنے لگتا ہے ہمارے سورج سے 3 گناہ بڑا ستارہ یا نیوٹران ستارہ بن جاتا ہے یا سفید بونا ستارہ لیکن جب ایک بہت بڑا ستارہ اپنا ایندھن ختم کرلیتا ہے تو یہ خود کو کمپریسس کرتا رہتا ہے اپنے مرکز کی طرف اور پھر سپرنووا دھماکہ ہو جاتا ہے پھر Stellar بلیک ہول پیدا ہوتا ہے ستارے کی موت سے پیدا ہونے والا بلیک ہول کافی چھوٹا ہوتا ہے لیکن ناقابل یقین حد تک کثافت رکھتا ہے اس طرح کا بلیک ہول ایک شہر کے سائز جتنا ہوتا ہے اور سورج سے 3 گناہ زیادہ ماس اپنے اندر رکھتا ہے supermassive black hole یہ بلیک ہول سورج سے اربوں گناہ زیاد
ماس رکھتا ہے اور سائز میں زمین جتنا ہو سکتا ہے یہ بلیک ہول ہر کہکشاں کے سینٹر میں مجود ہوتا ہے ہماری ملکی وے کہکشاں کے سینٹر میں بھی یہ supermassive بلیک ہول مجود ہے ابھی پتہ نہیں ہے یہ بلیک ہول اتنے بڑے کیسے ہیں ہوسکتا ہے چھوٹے بلیک ہول کھا کھا کر یہ بلیک ہول اتنے بڑے بن جاتے ہیں،
ماس رکھتا ہے اور سائز میں زمین جتنا ہو سکتا ہے یہ بلیک ہول ہر کہکشاں کے سینٹر میں مجود ہوتا ہے ہماری ملکی وے کہکشاں کے سینٹر میں بھی یہ supermassive بلیک ہول مجود ہے ابھی پتہ نہیں ہے یہ بلیک ہول اتنے بڑے کیسے ہیں ہوسکتا ہے چھوٹے بلیک ہول کھا کھا کر یہ بلیک ہول اتنے بڑے بن جاتے ہیں،
Intermediate black holes سائنسدانوں کا خیال تھا بلیک ہول یا تو چھوٹے ہوتے ہیں یا بڑے حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے بلیک ہول درمیانے سائز کے بھی ہوسکتے ہیں ابھی تک سائنسدان بلیک ہول کو دیکھ نہیں سکے بلیک ہول کا وجود ان کے ارد گرد کے علاقوں کو متاثر کرتا ہے بلیک ہول کے پاس ستاروں کی عجیب حرکت سے پتہ چلتا ہے وہاں کوئی بلیک ہول مجود ہے امید ہے انسان اس سال بلیک ہول کو حقیقت میں دیکھ سکے گا ملکی وے کہکشاں کے سینٹر میں مجود بلیک ہول Sagittarius A کو Event horizon telescope کی مدد سے
بلیک ہولز کیا ہیں؟
بلیک ہولز وہ کشش ثقل کے تجاذبی کالے میدان ہیں جو کائنات سے روشنی اور ستاروں کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں۔ بلیک ہولز کی کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہاں سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پاتی۔ ان کا مشاہدہ صرف باالواسطہ طور پر صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب ان میں گم ہوتے ہوئے اجسام سے تابکاری کی شعائیں نکلتی ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، بلیک ہول ویسے بھی کالے ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتے، لیکن یہ بلیک ہول ویسے بھی بہت تاریک ہے۔ یہ دیگر ایسے اجسام سے ایک ارب گنا مدھم ہے اور یہی چیز اسے پراسرار بناتی ہے۔ کہ یہ اتنے مدھم اور کالے کیوں ہیں۔
بوسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلن مارشر اور ان کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بلیک ہول کے معاملے میں اس گہرائی تک پہنچ گئے ہیں جہاں تک پہلے کوئی سائنسدان نہیں پہنچ سکا۔ اب تک ایجاد ہونے والی تمام قسم کی دور بینوں کو استعمال کرنے کے بعد پروفیسر مارشر نے یہ معلوم کیا ہے کہ ذرات کی لڑیاں کہاں اور کیسے بنتی ہیں۔
اس پروجیکٹ میں کام کرنے والے مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیو آلر نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ذرات کا رفتار پکڑنے کا عمل اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ ایک جیٹ انجن میں ہوتا ہے۔
سائنسی امور کے نامہ نگار نیل باؤڈلر کا کہنا ہے کہ اس اہم کامیابی کے باوجود سائنسدان یہ نہیں جان سکے کہ بلیک ہول کے اندر کیا ہوتا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ اگر نظری ماہرین طبیعات ٹھیک ہیں تو ہم بلیک ہولوں کے اندر کبھی بھی نہیں جھانک سکیں گے۔
حال ہی میں سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ بلیک ہول کی جانب ایک بہت بڑا بادل کھنچا چلا جارہا ہے جس کے نتیجے میں کوئی بہت بڑا تصاد م ہونے والا ہے۔ اگر یہ بلیک ہول اپنی جانب بڑھنے والے گیس کے بڑے بادل کو ہڑپ کر لیتا ہے تو اس موقع پر آتش بازی جیسا سماں ہو گا۔ کیونکہ ان گیسوں میں ستاروں کی موجودگی کا بھی شائبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
گیس کے اس بڑے بادل کو جی ٹو کا نام دیا گیا ہے، اور اس کی کمیت زمین سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسے پہلی باہر 2011 میں ہماری کہکشاں میں واقع سیجی ٹیریئس اے بلیک ہول کی جانب بڑھتے دیکھا گیا تھا۔ یہ تصادم کتنا ڈرامائی ہو سکتا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ گیس کے بادل کے اندر کیا ہے۔
ان دونوں کا تصادم اب چند ماہ دور ہے۔ اگر گیس کا یہ بادل بلیک ہول کے قریب پہنچتا ہے تو یہ اتنا گرم ہو جائے گا کہ اس سے ایکس ریز خارج ہوں گی جو بلیک ہول کی خصوصیات پر روشنی ڈالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
بہرحال بلیک ہولز کائنات کے کچھ ایسے راز سمیٹے ہوئے ہیں کہ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کہ اصل میں یہ کیا ہیں۔ اور کس طرح یہاں ستارے پہنچ کر یا اس کے اندر داخل ہوکر غائب ہوجاتے ہیں۔ یا ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری طرف سے نکل جاتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر علم والا ہے۔
اس پوسٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ کی قدرت کے کچھ نظارے کریں کہ اللہ کا علم اور قدرت کس قدر عظیم ہیں کہ ہمارے چھوٹے سے دماغ میں اللہ کا علم اور اس کی قدرت کو صیحح معنوں میں سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اور کائنات میں ناجانے کتنے راز پوشیدہ ہیں جن کا ہمیں ادراک ہی نہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق کائنات کی وسعت کو سمجھنے کے لئے آپ ایک بہت بڑی دیوار کے سامنے کھڑے ہوکر اس پر ایک چھوٹا سا نقطعہ لگائیں تو یہ نقطعہ ہماری زمین کی مثال ہوگا او ر پوری دیوار کائنات کی مثال ہوگی۔۔ تو ہم ابھی تک اپنی زمین کے متعلق تمام رازوں سے لاعلم ہیں تو کائنات کے راز کیسے معلوم کرسکتے ہیں۔ ہمیں تو کائنات کے صرف اشاروں تک ہی رسائی ہے۔
اور بیشک اللہ ہی کی ذات علم و حکمت والی ہے۔
No comments:
Post a Comment