اللہ سبحانہ وتعالی نے رسالت کو دین اسلام کے ساتھ ختم کیا ہے اور یہ وہی دین اسلام ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے یہ بتایا کہ اس کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہيں ہوگا۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ دین اسلام پر سب سے ایسا شدید حملہ ہوا ہے کہ بالغ لڑکی کا نکاح کرنے اور تعدد ازدواج سے نفرت کرنے کا مزاج فروغ پارہا ہے. یہی وجہ ہے کہ تمام اسلامی ریاستیں اسی شیطانی فتنے سے تباہ ہوچکی ہیں. جبکہ اس کا واحد تفقہ فی الدین حاصل کرنا ہے. اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا:
{بلاشبہ اللہ تعالی ہاں دین تو اسلام ہی ہے اورجو کوئی بھی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں بھی خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا} آل عمران (85)۔
لہذا کسی بھی بندہ بشر دین اسلام کو قبول نہ کرنا اور اس سے دور ہوجانا ہر ایک فردوبشر کے لئے بہت ہی بڑا خسارہ شمار ہوگا. ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو تعدد زوجات سے بعد رکھتے ہیں جبکہ اس بارے میں اہل علم سے رجوع ضروری ہوجاتا ہے:
اول:
دین اسلام میں تعدد زوجات کاحکم:
تعدد کی اباحت اور اس کے جواز میں شرعی نصوص:
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں فرمایا ہے:
{اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار سے لیکن اگر تمہیں برابری اور عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لونڈی، یہ زيادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ} النساء (3)۔
تو تعدد کے جواز میں یہ نص ہے اور اس آیت سے اس کے جواز پر دلیل ملتی ہے، لہذا شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ وہ ایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہيں۔
لیکن وہ ایک ہی وقت میں چار بیویوں سے زيادہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے، مفسرون، فقہاء عظام اور سب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہيں کیا۔
اور یہ بھی علم میں ہونا چاہئے کہ تعدد زوجات کے لئے کچھ شروط بھی ہیں: ان میں سے سب سے پہلی شرط عدل ہے:
اول:
{بلاشبہ اللہ تعالی ہاں دین تو اسلام ہی ہے اورجو کوئی بھی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں بھی خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا} آل عمران (85)۔
لہذا کسی بھی بندہ بشر دین اسلام کو قبول نہ کرنا اور اس سے دور ہوجانا ہر ایک فردوبشر کے لئے بہت ہی بڑا خسارہ شمار ہوگا. ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو تعدد زوجات سے بعد رکھتے ہیں جبکہ اس بارے میں اہل علم سے رجوع ضروری ہوجاتا ہے:
اول:
دین اسلام میں تعدد زوجات کاحکم:
تعدد کی اباحت اور اس کے جواز میں شرعی نصوص:
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں فرمایا ہے:
{اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار سے لیکن اگر تمہیں برابری اور عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لونڈی، یہ زيادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ} النساء (3)۔
تو تعدد کے جواز میں یہ نص ہے اور اس آیت سے اس کے جواز پر دلیل ملتی ہے، لہذا شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ وہ ایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہيں۔
لیکن وہ ایک ہی وقت میں چار بیویوں سے زيادہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے، مفسرون، فقہاء عظام اور سب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہيں کیا۔
اور یہ بھی علم میں ہونا چاہئے کہ تعدد زوجات کے لئے کچھ شروط بھی ہیں: ان میں سے سب سے پہلی شرط عدل ہے:
اول:
عدل:
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
{تو اگر تمہيں یہ خدشہ ہوکہ تم ان کے درمیان برابر اور عدل نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی کافی ہے} النساء (3)۔
تو اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لئے عدل شرط ہے، اور اگر آدمی کو یہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل وانصاف نہیں کرسکے گا تو پھر اس کے لئے ایک سے زيادہ شادی کرنا منع ہے۔
اور تعدد کے جواز کے لئے جو عدل اور برابری مقصود اور مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیویوں کے مابین نفقہ، لباس، اور رات بسر کرنے وغیرہ اور مادی امور جن پر اس کی قدرت اور استطاعت ہے میں عدل کرنا مراد ہے۔
اور محبت میں عدل کرنے کے بارہ میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس چيز کا اس سے مطالبہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کا بھی یہی معنی ہے:
{اور تم ہرگز عورتوں کے مابین عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو} النساء (129)۔
دوم: دوسری شرط:
بیویوں پر نفقہ کی قدرت (خرچہ کرنے کی استطاعت):
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزيز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{اور ان لوگوں کوپاکدامن رہنا چاہئے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے} النور (33)
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت اور طاقت رکھتا ہو اور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہو تو وہ پاکبازی اختیار کرے، اور نکاح کے مانع اشياء میں یہ چيزيں داخل ہيں:
جس کے پاس نکاح کرنے کے لئے مہر کی رقم نہ ہو، اور نہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ (6 / 286)۔
دوم:
تعدد نکاح کی اباحت میں حکمت:
1 – تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے، اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور ایک بیوی کی بنسبت اگر زيادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زيادتی ہوگی۔
اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لئے تقویت کا باعث ہوتی ہے، اور پھر افرادی قوت کی زيادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ حکمران ملک میں اگر تدبیری امور صحیح جاری کریں اور موارد سے صحیح طور پر نفع اٹھائيں تو پھر...
آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئيں کہ جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت سے زمین کے موارد کو خطرہ ہے اور وہ انہیں کافی نہیں رہيں گے، یہ ان کے بات غلط ہے اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حکیم و علیم ہے جس نے تعدد کومشروع کیا اور اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائی، اور زمین میں وہ کچھ پیدا فرمایا جو ان سب کے لئے کافی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ ہے، اور اگر کچھ کمی ہوتی ہے تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم وزیادتی اور غلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے۔
مثال کے طور پر آپ سکان اور افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جوکہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے، بلکہ کئی ہزار گناہ شمار ہوتا ہے، اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے، تو کون ہے جو چین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اور اس کی جرأت کرے کاش؟ اور پھر کیوں؟
2 - سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہيں زيادہ ہے، تو اس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتوں شادی کے بغیر بچ جائيں گے جو کہ معاشرے اور بذات خود عورت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔
عورت ذات کو جو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جو اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کے معاش اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اور حرام قسم کی شہوات سے اسے روک کررکھے، اور اس سے ایسی اولاد پید کرے جوکہ اس کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک ہو، جس کی بنا پر وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اور ضائع ہوجائے گی سوائے اس کے جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ۔
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
{تو اگر تمہيں یہ خدشہ ہوکہ تم ان کے درمیان برابر اور عدل نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی کافی ہے} النساء (3)۔
تو اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لئے عدل شرط ہے، اور اگر آدمی کو یہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل وانصاف نہیں کرسکے گا تو پھر اس کے لئے ایک سے زيادہ شادی کرنا منع ہے۔
اور تعدد کے جواز کے لئے جو عدل اور برابری مقصود اور مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیویوں کے مابین نفقہ، لباس، اور رات بسر کرنے وغیرہ اور مادی امور جن پر اس کی قدرت اور استطاعت ہے میں عدل کرنا مراد ہے۔
اور محبت میں عدل کرنے کے بارہ میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس چيز کا اس سے مطالبہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کا بھی یہی معنی ہے:
{اور تم ہرگز عورتوں کے مابین عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو} النساء (129)۔
دوم: دوسری شرط:
بیویوں پر نفقہ کی قدرت (خرچہ کرنے کی استطاعت):
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزيز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{اور ان لوگوں کوپاکدامن رہنا چاہئے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے} النور (33)
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت اور طاقت رکھتا ہو اور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہو تو وہ پاکبازی اختیار کرے، اور نکاح کے مانع اشياء میں یہ چيزيں داخل ہيں:
جس کے پاس نکاح کرنے کے لئے مہر کی رقم نہ ہو، اور نہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ (6 / 286)۔
دوم:
تعدد نکاح کی اباحت میں حکمت:
1 – تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے، اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور ایک بیوی کی بنسبت اگر زيادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زيادتی ہوگی۔
اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لئے تقویت کا باعث ہوتی ہے، اور پھر افرادی قوت کی زيادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ حکمران ملک میں اگر تدبیری امور صحیح جاری کریں اور موارد سے صحیح طور پر نفع اٹھائيں تو پھر...
آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئيں کہ جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت سے زمین کے موارد کو خطرہ ہے اور وہ انہیں کافی نہیں رہيں گے، یہ ان کے بات غلط ہے اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حکیم و علیم ہے جس نے تعدد کومشروع کیا اور اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائی، اور زمین میں وہ کچھ پیدا فرمایا جو ان سب کے لئے کافی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ ہے، اور اگر کچھ کمی ہوتی ہے تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم وزیادتی اور غلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے۔
مثال کے طور پر آپ سکان اور افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جوکہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے، بلکہ کئی ہزار گناہ شمار ہوتا ہے، اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے، تو کون ہے جو چین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اور اس کی جرأت کرے کاش؟ اور پھر کیوں؟
2 - سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہيں زيادہ ہے، تو اس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتوں شادی کے بغیر بچ جائيں گے جو کہ معاشرے اور بذات خود عورت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔
عورت ذات کو جو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جو اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کے معاش اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اور حرام قسم کی شہوات سے اسے روک کررکھے، اور اس سے ایسی اولاد پید کرے جوکہ اس کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک ہو، جس کی بنا پر وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اور ضائع ہوجائے گی سوائے اس کے جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ۔
اور جو کچھ معاشرے کو نقصان اور ضرر ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اورغلط اور گندے ترین راستے پر چل نکلے گی، جس سے وہ عورت زنا اور فحش کام میں پڑ جائے گی – اللہ تعالی اس سے بچاکر رکھے – اور معاشرے میں فحاشی اور گندے ترین ایڈز اور اس جیسے دیگر متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئی علاج نہیں، اور پھر خاندان تباہ ہوں گے اور حرام کی اولاد بہت زيادہ پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے؟
تو اس طرح انہیں نہ تو کوئی مہربانی اور نرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا، اور نہ ہی کوئی ایسی عقل ملے گی جو ان کی حسن تربیت کرسکے، اور جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں اور اپنی حقیقت حال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں تو ان کے سلوک پر برا اثر پڑے گا اور وہ الٹ جائيں اور پھر انحراف اور ضائع ہونا شروع ہوجائيں گے۔
بلکہ وہ اپنے معاشرے پر وبال بن جائيں گے اور اسے سزا دیں گے، اور کسے معلوم ہوسکتا کہ وہ اپنے معاشرے کی تباہی کے لئے کدال بن کر اسے تباہ کرکے رکھ دیں، اور منحرف قسم کے گروہوں کے لیڈر جن جائيں، جیسا کہ آج دنیا کے اکثر ممالک کی حالت بن چکی ہے۔
3 - مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جوکہ ہوسکتا ہے ان کی زندگی ہی ختم کردے، اس لئے کہ وہ بہت زيادہ محنت ومشقت کے کام کرتے ہیں، کہیں تو وہ لڑائيوں میں لشکر میں فوجی ہیں، تو مردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زيادہ ہے، جوکہ عورتوں میں بلاشادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث اور سبب ہے، اور اس کا صرف ایک ہی حل تعدد ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائيں۔
4 – مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہيں جن کی شھوت قوی ہوتی ہے اور انہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی، تو اگر ایک سے زيادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اور اس سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تو وہ بہت ہی زيادہ مشقت میں پڑجائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شھوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے۔
آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کو ہرماہ حیض بھی آتا ہے اور جب ولادت ہوتی ہے تو پھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حيض اور نفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے، اور پھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے، تو اس لئے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا۔
5 - یہ تعدد صرف دین اسلامی میں ہی مباح نہیں کیا گيا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا، اور بعض انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کئی عورتوں سے شادی شدہ تھے، دیکھیں اللہ تعالی کے یہ نبی سلیمان علیہ السلام ہیں جن کی نوے بیویاں تھیں، اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اور بعض کی پانچ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کو رکھیں اور باقی کوطلاق دے دیں ۔
6 – ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے ، اور خاوند کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے جوکہ اس کے لئے مباح ہے تواس کے لئے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسرے شادی کرے۔
تو اس لئے عدل و انصاف اور بیوی کے بھلائی یہی ہے کہ وہ بیوی بن کر ہی رہے اور اپنے خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دے دے۔
7 - اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہو جس کا کوئی اعالت کرنے والا نہ ہو اور وہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہو اور یہ شخص خیال کرتا ہوکہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بناکر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ گھر میں رکھے تا کہ اس کے لئے عفت وانفاق دونوں جمع کردے جوکہ اسے اکیلا چھوڑنے اور اس پر خرچ کرنے سے زيادہ بہتر ہے۔
8 - کچھ مشروع مصلحتیں جو تعدد کی دعوت دیتی ہيں:
مثلا دو خاندانوں کے مابین روابط کی توثیق، یا پھر کسی جماعت اور کچھ افراد کے رئیس اور ان کے مابین راوبط کی توثیق، اور وہ یہ دیکھے کہ یہ غرض شادی سے پوری ہوسکتی ہے اگرچہ اس پر تعدد ہی مرتب ہو یعنی اسے ایک سے زيادہ شادیاں کرنی پڑیں۔
اعتراض:
ہوسکتا ہے کوئی اعتراض کرتا ہوا یہ کہے:
تعدد یعنی ایک سے زائد بیویاں کرنے میں ایک ہی گھر میں کئی ایک سوکنوں کا وجود پیدا ہوگا، اور اس بنا پر سوکنوں میں دشمنی و عداوت اور فخر ومقابلہ پیدا ہوجائے گا جس کا اثر گھر میں موجود افراد یعنی اولاد اورخاوند پربھی ہوگا، جوکہ ایک نقصان دہ چيز ہے، اور ضرر ختم ہوسکتا ہے اور اسے ختم کرنے کے لئے تعدد زوجات کی ممانعت ضروری ہے۔
اعتراض کا رد:
اس کا جواب یہ ہے کہ:
خاندان میں ایک بیوی کی موجودگی میں بھی نزاع اور جھگڑا پیدا ہوسکتا ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سے زيادہ بیویاں ہونے کی صورت میں نزاع اور جھگڑا پیدا نہ ہو، جیسا کہ اس کا مشاہدہ بھی کیاگيا ہے۔
اور اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ایک بیوی کی بنسبت زیادہ بیویوں کی صورت میں نزاع اور جھگڑا زيادہ پیدا ہوتا ہے، تو اگر ہم اس جھگڑے کو ضرر اور نقصان اور شر بھی شمار کرلیں تو یہ سب کچھ بہت سی خير کے پہلو میں ڈوبا ہوا ہے، اور پھر زندگی میں نہ توصرف خير ہی خير ہے اور نہ ہی صرف شر ہی شر، مطلب یہ ہے کہ مقصود و مطلوب وہ چيز ہے جو کہ غالب ہو تو جس کے شر پر خیر اور بھلائی غالب ہوگی اسے راجح قرار دیا جائے گا، اور تعدد میں بھی اسی قانون کو مدنظر رکھا گيا ہے۔
اور پھر ہر ایک بیوی کا مستقل اور علیحدہ رہنے کا شرعی حق ہے، اور خاوند کے لئے جائز نہيں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی مشترکہ گھرمیں رہنے پر مجبور کرے۔
ایک اور اعتراض:
جب تم مرد کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مباح کرتے ہو تو پھر عورت کے لئے تعدد کیوں نہیں، یعنی عورت کویہ حق کیوں نہیں کہ ایک سے زیادہ آدمیوں سے شادی کرسکے ؟
اس اعتراض کا جواب:
عورت کو اس کا کوئی فائدہ نہيں کہ اسے تعدد کا حق دیا جائے، بلکہ اس سے تو اس کی قدر اور عزت میں کمی واقع ہوگی، اور اس کی اولاد کا نسب بھی ضائع ہوگا، اس لئے کہ عورت نسل بننے کا مستودع ہے، اور نسل کا ایک سے زيادہ مردوں سے بننا جائز نہیں اور پھر اس میں بچے کے نسب کا بھی ضياع ہے۔
اور اسی طرح اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی ضائع ہوگی اورخاندان بکھرجائے گا اولاد کے لئے باپ کے روابط ختم ہوجائيں گے جوکہ اسلام میں جائز نہیں، اور اسی طرح یہ چيز عورت کی مصلحت میں بھی شامل نہيں اور نہ ہی بچے اور معاشرے کی مصلحت میں ہے۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ (6 / 290) ۔
واللہ اعلم.
واللہ اعلم.
No comments:
Post a Comment