علماء کامقام ومرتبہ بہت بلندوبالا ہے، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور ان لوگوں کے جن کو علم عطاء کیاگیا درجے بلند گردیگا۔(سورہ مجادلہ پ ۲۸ ع ۲) خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتےہیں۔ (سورہ فاطر پ ۱۹ ع ۱۶)
اور اللہ کے نبی نے بھی بہت سی جگہوں پر علماء کے مقام ومرتبہ کا تذکرہ فرمایاہے، چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہیکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک فقیہ (عالم دین) شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ (ترمذی وابن ماجہ مشکوۃ باب العلم) ایک جگہ فرمایا: کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چوھدویں کے چاند کی فضیلت ستاروں پر، (مشکوۃ باب العلم ص ۳۳) اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھے تم سے ادنی شخص پر، (مشکوۃ باب العلم ۳۴) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی، اس کے فرشتے اور آسمان وزمین کی تمام مخلوق یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندرمیں اس شخص کے لئے دعائیں خیر کرتی ہے جو لوگوں کو بھلائی(علم دین) سکھاتاہے۔ (مشکوۃ باب العلم ۳۴) اور اسلئے بھی کیونکہ یہ دنیا تضاد کامجموعہ ہے۔یہاں بلندی ہے توپستیاں بھی ہے، سیاہ ہے توسفیدی بھی ہے، گرمی ہے تو سردی بھی ہے، بہارہے توخزاں بھی ہے، پھول ہیں توکانٹے بھی ہیں، دن ہے تورات بھی ہے، سنگ ہے تو موم بھی ہے، صدق ہے تو کذب بھی ہے، مومن ہیں تو کافر بھی ہیں، صالح ہیں تو فاسق بھی ہیں، جاہل ہیں تو عالم بھی ہیں، داعی الخیر ہیں تو داعی الی الشر بھی ہیں، اور اس کی حکمت اور فلسفہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ایک ضد کی پہچان اور قدروقیمت اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کی ضد موجود ہو۔ جیسے عربی کا ایک مقولہ ہے کہ:
تعرف الاشیاء باضدادھا"
اشیاء کو ان کی ضد سے پہچانا جاتا ہے۔
اگر دنیا میں غریبی کا وجود نہ ہوتا تو امارت کی قدر نہ ہوتی،
اگر بھوک کا نام ونشان ہی نہ ہوتا تو شکم سیری کی قدر کون کرتا،
اگرخزاں نہ ہوتی تو پھولوں کی توقیر کون کرتا،
اگر بیماری نہ ہوتی تو صحت قیمت کون جانتا،
اگر موت نہ ہوتی زندگی کی حفاظت کون کرتا،
اگر جہالت نہ ہوتی تو حصول علم کے لئے مشقت کون اٹھاتا،
پس زمین کی پشت جاہلوں سے خالی نہیں تو ضروری ہیکہ علماء بھی موجود ہوں، جب دنیا میں ضلالت وگمراہی کی طرف بلانے والے موجود ہیں تو ضروری ہے کہ حق وصداقت کی دعوت دینے والے بھی ہوں، جب وسوسے ڈالنے اور شکوک وشبہات بہت ہیں تو ضروری ہیکہ شکوک وشبہات کے کانٹے نکال کر دلوں میں ایمان و یقین پیداکرنے والے بھی ہو، جب فرعون وقارون کے وارثوں سے دنیا خالی نہیں تو ضروری ہےکہ انبیاء علیہم السلام کے وارثوں سے بھی بزم جہاں خالی نہ ہو، بلکہ میرادعوی یہ ہیکہ دنیا میں کسی. چیز کاوجود اتنا ضروری نہیں جتنا علماء حق کا وجود ضروری ہے، اس لئے کہ دنیا وآخرت کی کامیابی کے لئے بھی علماء کا وجود ضروری ہے، اور دنیا کی بقاء کے لئے بھی علماء کا وجود ضروری ہے، اس دنیا کی بقاء علماء حق کی وجہ سے مربوط ہے، اگرعلماء حق نہ رہے تو دنیا بھی باقی نہ رہیگی۔
بعض بدبخت انسان علماء کو نفرت وحقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اگرکوئی احمق انسان علماء کو ان کے عالم ہونے کی وجہ سے اور حافظ کو اس کے حافظ ہونیکی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھتاہے، تواس کو اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہئے، کیونکہ عالم دین اور حافظ قرآن سے نفرت کرناکفرہے۔اوراگر کوئی شخص عالم دین سے اس کی حرکتوں کی وجہ سے نفرت کرتاہے توایسے شخص کےلئے بھی لازم ہے کہ دوسرے علماء حق سے محبت وعقیدت کا رشتہ برقرار رکھیں۔کسی ایک عالم کی وجہ سے تمام علماء سے نفرت کرناانتہا درجہ کی حماقت ہے۔
آپ ایک لمحہ کےلئے سوچیں کہ اگر علماء حق نہ ہوتے توکیاہوتا، اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالٰی کادین کسی کا محتاج نہیں لیکن یہ علماء اسباب ہیں جہاں ہرچیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے، ہرمعلول کی کوئی علت ہے، ہراثر کاکوئی مؤثر ہے، تواس عالَمِ اسباب کے پیش نظر کہا جاسکتاہے کہ:
اگرعلماء نہ ہوتے تونبی کے ورثاء اور خلفاء نہ ہوتے،
اگرعلماء نہ ہوتے تو اولیااور اتقیاء نہ ہوتے،
اگر علماء نہ ہوتے قرآن و سنت کے تراجم وتفاسیر نہ ہوتیں،
اگرعلماء نہ ہوتے تو عوام عقائد وعبادات اور حلال و حرام کے مسائل سے غافل رہتے،
اگر علماء نہ ہوتے تو ملحدوں اور بدعتیوں کودین میں تحریف کرنے سے کون روکتا،
اگر علماء نہ ہوتےتو خود سر بادشاہوں کوشریعت میں ہیر پھیر سے روکنے والا کوئی نہ ہوتا،
اگر علماء نہ ہوتے تو اکبر جیسے سرپھروں کو دین اکبری کے ایجاد کرنے سے کون روکتا۔
علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والوں کو سرورکائنات ﷺ کی وہ وعیدیں بھی پیش نظر رکھنی چاہئے جو آپ ﷺ نے علماء کو برا بھلا کہنے والوں اور علماء حق کو اذیت دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرمائی ہیں، سرکار انبیاء ﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ مومن کو گالیاں دینا فسق ہے۔(جامع صغیر ) اگر ایک عام مومن کوگالیاں دینا فسق ہے تو کیا علماء اور اولیاء کو گالی دینا فسق نہیں ہے؟
ایک حدیث قدسی میں ہے الله تعالٰی فرماتے ہیں:
(من عاد لی ولیا فقد اٰذنتہ بالحرب)
جوشخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میری طرف سے اس کو اعلان جنگ ہے۔(مشکوۃ بخاری) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو دیکھا حضرت معاذ بن جبلؓ حضور اقدس ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں، حضرت عمرفاروقؓ نے عرض کیا، معاذ! کیوں رو رہےہو؟ انہوں نے عرض کیاکہ میں نے اس (پاک) قبروالے (ﷺ) سے ایک بات سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہاہوں (کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی اس میں مبتلا ہوجاؤں) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوے سناتھا کہ تھوڑا سادکھلاوا بھی شرک ہے اور جو اللہ کے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ اللہ کی لڑائی کےلئے مقابلہ کرتاہے۔(مستدرک حاکم) نبی کا ارشاد گرامی ہے کہ تم عالم بنو، یا طالب علم بنو، یاعلم سننے والا، یا(علم اورعلماء) سے محبت رکھنے والے، پانچویں قسم داخل مت ہونا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے (مقاصد حسنہ) حافظ ابن عبدالبر فرماتےہیں کہ پانچویں قسم سے مراد علماء کی دشمنی اور ان سے بغض رکھناہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتےہیں کہ جو شخص کسی فقیہ (عالم)کو اذیت پہنچاتاہے، اس نے رسول الله ﷺ کو اذیت پہنچائی اور جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی۔
حضرت علیؓ فرماتےہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند اور غالب کرنے لگے گی تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر چار قسم کے عذاب مسلط فرمادیں گے۔①قحط سالی ہوگی ②حاکم وقت کی طرف سے مظالم ہوں گے③حکام خیانت کرنے لگیں گے④دشمنوں کے پےدرپے حملے ہوں گے (حاکم)
آج کل ان عذابوں میں سے کونسا عذاب ہے جو امت پر مسلط نہیں ہے؟ لیکن ان کے باوجود امت ان اسباب کو دور کرنے کے لئے تیار نہیں جن کی وجہ سے عذاب پر عذاب آرہے ہیں، فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
من ابغض عالماً بغیرِسببٍ ظاھرٍ خیفَ علیه الکفر
کہ جو شخص کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری سبب کے بغض اس کے کفر کااندیشہ ہے۔
اور بھی بہت سی وعیدیں علماء سے نفرت رکھنے والوں کے لئے الله کے نبی بیان فرمائی ہیں۔
*علمائے سو*
میں مانتا ہوں کہ بعض علمائے سو بھی ہے جو علم کے نام پر دھبہ ہے، جن کا کام سوائے ضمیر فروشی کے کچھ نہیں، جو کتمان حق بلکہ تحریف حق سے بھی باز نہیں آتے، جن کی زندگی ہر حکمراں کے کاسہ لیسی میں گزر جاتی ہے، جو چند ٹکوں کے عوض نقد ایمان کا سودہ کرلیتے ہیں، جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں میں صاف صاف کہدینا چاہتاہوں کہ ایسے ضمیر فروشوں کو اللہ نے اس گدھے ساتھ تشبیہ دی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہواہو مگر وہ اس سے بے خبر ہو۔
لیکن آپ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ اس قسم کے چند بے عملوں کی وجہ سے ان بےشمار علمائے حق سے نفرت کرنے لگنا کہاں کا انصاف ہے جن کی زندگیاں اسلام کی چلتی پھرتی تصویر ہیں، جن کی راتیں عبادت میں گزرتی ہیں اور دن تبلیغ میں، جن کا اوڑھنا بچھونا قال اللہ وقال الرسول ہے، جو کسی ظالم وجابر کے سامنے حق بات کہنے سے نہیں ہچکچاتے، جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیاہے،
اسلئے نہ علماء کی محبت کو حقیر عمل سمجھو اور نہ ان سے نفرت کرنے کو معمولی بات سمجھو کیونکہ بعض اوقات اللہ کے نیک بندوں کی محبت کی وجہ سے ایک گنہگار جنت کا حقدار اور خدا کا پیارہ بن جاتاہے اور بعض اوقات ایک ایسا انسان جو بظاہر نماز روزے کا پابند ہوتاہے لیکن اللہ کے نیک بندوں سے نفرت اور انکو ستانے کی وجہ سے مردود ومبغوض ہوجاتاہے۔
*خود بھی عالم بنو اور اپنی اولاد کو بھی بناؤ*
آخر میں دوباتیں عرض کرنی ہے، ایک تو یہ کہ خود بھی عالم بنیں اور اپنی اولاد اور عزیزوں کو بھی عالم بنائیں، اور یاد رکھنا آپکے ذہن میں یہ بات بلکل نہ آئے کہ اگر ہمارے بچے عالم بن گئے تو کھائیں گے کہاں سے، ان کی معاشی ضروریات کیسے پوری ہوگی۔ مشاہدے اور تجربہ سے یہ دیکھا گیاہے کہ بہت سارے ایف اے اور ایم بی بی ایس تو بے روزگار پھرتے ہیں لیکن آپ کو کوئی عالم دین بے روزگار اور بھوکا نظر نہیں آئیگا۔ جو خدا کتوں اور بلیوں روزی دے سکتاہے تو کیا وہ دین کے سچے خادموں اور انبیاء کے وارثوں کو بھوکا رکھےگا؟ جو خدا اپنے دشمنوں کو نوازتا ہے کیاوہ اپنے دوستوں کو محروم رکھےگا؟
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ علم حقیت میں دین کا علم ہے جس خدا کی معرفت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے اس کے علاوہ جتنے علوم ہے وہ حقیت میں فنون ہیں۔
دوسری بات یہ ہیکہ اگر آپ خود یاآپ کی اولاد دین کے علم سے محروم ہے تو کم ازکم علماء سے محبت اور تعلق ضرور استوار رکھیں، ان شاءالله یہ محبت کبھی رائیگاں نہیں جائیگی۔۔
الله رب العزت سے دعاء ہیکہ اللہ تمام امت مسلمہ کو علماء کی قدردانی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں اورتمام علماء کرام کو دنیا وآخرت میں سرخ رو فرمائیں اور علماء سو ان کو بھی ھدایت نصیب فرمائیں۔۔.......... آمین اللھم آمین یارب العلمین
ازقلم: عبدالواحد مظفرنگری
No comments:
Post a Comment