Tuesday 6 March 2018

خلیجی ملک میں حنفی امام مثل اول پر عصر اور جہری نماز میں فاتحہ کے بعد سکتہ طویلہ کرسکتا ہے؟

خلیجی ملک میں حنفی امام مثل اول پر عصر اور جہری نماز میں فاتحہ کے بعد سکتہ طویلہ کرسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتیان کرام سے دو مسئلے دریافت طلب ہیں، امید ہے کہ باحوالہ جواب عنایت فرمائیں گے:
(1) ایک امام صاحب حنفی المسلک ہیں، جو بیرون ملک میں ایک ایسی مسجد میں امامت کرتے ہیں، جس کے مصلی حضرات اکثر شافعی المسلک ہیں، ان کے مسلک کے مطابق عصر کی نماز کا وقت چوں کہ مثل اول پر شروع ہوجاتا ہے، حنفی امام صاحب اب تک تو اپنے امام کے مسلک کے مطابق عصر کی نماز مثل ثانی کے شروع ہونے کے بعد ہی پڑھاتے رہے ہیں؛ لیکن اب تقریبا ایک مہینے سے مصلی حضرات کی طرف سے مثل اول پر عصر کی نماز پڑھانے پر اصرار ہے، تو کیا اس حنفی المسلک امام صاحب کے لیے ایسی مجبوری کے وقت پابندی سے حضرات صاحبین کے مسلک کے مطابق مثل اول پر عصر کی نماز پڑھانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟؟؟
(2) ان مصلیوں کی طرف سے اس حنفی المسلک امام صاحب کو روزانہ دوتین مصلیوں کی طرف سے بہ اصرار یہ کہا جاتا ہے کہ آپ جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد تھوڑا سا توقف کرکے ہمیں بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کا موقع دیں، تو کیا ان کے لیے سورہ فاتحہ کے بعد مصلیوں کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا موقع دینے کے لئے ضم سورة سے قبل  قدرے توقف کرنا درست ہے یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب وباللہ التوفیق
ظہر کے آخر وقت اور عصر کے اول وقت میں خود ائمہ حنفیہ کا اختلاف ہے۔
نہ تو مثلین علی اتفاق الحنفیہ مفتی بہ ہے اور نہ ہی مثل اول۔
ظاہر روایت اور اکثر متون حنفیہ میں مثلین اول وقت عصر لکھا ہوا ہے۔ لیکن  اس کی تصحیح و ترجیج پہ ائمہ احناف کا اتفاق نہیں ہے۔
صدر الشریعہ کا مختار یہی ہے۔ ینابیع، محیط وغیرہ میں اسی کو اختیار بھی کیا گیا ہے۔
لیکن طحاوی سمیت مختلف ائمہ حنفیہ نے مثل اول ہی کو مختار وماخوذ مانا ہے۔
ائمہ ثلاثہ سمیت صاحبین امام زفر اور خود صاحب مذہب امام ابو حنیفہ کا ایک قول بھی یہی ہے کہ مثل اول کے بعد عصر پڑھی جاسکتی ہے۔
لہذا معمول بنائے بغیر، کبھی مسلک غیر کی اقتدا کی مجبوری یا ملازمت وغیرہ کی مجبوری میں مثل اول میں عصر پڑھ لے  یا پڑھالے تو گنجائش ہے ۔۔۔ لیکن مثلین پر پڑھنے کو بالکلیہ نہ چھوڑدے۔ کبھی اس پر بھی عمل کرلیا کرے۔
اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی تحریر فرماتے ہیں:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ظاہر روایت جواکثر متون میں منقول ہے وہ یہی ہے کہ ظہر کا وقت زوال سے شروع ہوکر دو مثل سایہ ہونے تک باقی رہتا ہے اور اس روایت کو بدائع و محیط و ینا بیع میں صحیح اور غیا ثیہ میں مختار بتایا ہے اور اسی کو امام محبوبی نے اختیار کیا ہے اور امام نقی اور امام صدر الشریعۃ نے اس پر اعتماد کیا ہے لیکن خود امام صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک مثل تک ظہر کا وقت رہتا ہے اور دوسرے مثل سے عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور یہ مذہب امام ابو یوسف اور امام محمد اور امام زفر اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ (امام مالک، امام شافعی اور امام محمد رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین) کا ہے اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم اسی کو لیتے ہیں اور غرور الاذکار میں اسے ماخوذ بہ اور برہان میں اسے اظہر کہا ہے اور فیض میں لکھا ہے کہ اسی پر لوگوں کا عمل ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ انتھیٰ۔ یہ تمام مضمون درمختار اور رد المحتار میں موجود ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں مشائخ مذہب کا اختلاف ہے اور تصحیح اور فتویٰ بھی مختلف ہے بعضوں نے دو مثل کے قول کو ترجیح دی ہے اور بعضوں نے ایک مثل کی روایت کو مختار اور مفتی بہ بتایا ان دو قولوں اور دو روایتوں کے علاوہ امام صاحب سے ایک تیسری روایت اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ ظہر کی نماز ایک مثل کے اندر پڑھ لی جائے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے اور اس روایت کو شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے بہ نظر احتیاط پسند کیا ہے کہ اس میں دونوں نمازیں باتفاق ائمہ اپنے اپنے وقت میں بے تردد صحیح ہوجائیں گی۔
ووقت الظہر من زوالہ إلی بلوغ الظل مثلیہ و عندہ مثلہ وھو قولھما وزفر والا ئمۃ الثلاثۃ ‘قال الإمام الطحاوی‘ :’’ و بہ ناخذ‘ و فی غرر الأذکار وھو ماخوذ بہ‘ و فی البرہان : ’’ ھو الأظہر ’’ و فی الفیض : ’’ و علیہ عمل الناس الیوم؟ و بہ یفتی (درمختار) و فی الشامیۃ: ’’(قولہ إ لی بلوغ مثلیہ) ھذا ظاہر الروایۃ عن الإمام ’’نہایۃ‘‘ وھو الصحیح ’’بدائع و محیط و ینابیع‘‘ وھو المختار ’’غیاثیۃ ‘‘ واختارہ الإمام المحبوبی الخ و فی روایۃ عنہ ایضاً أنہ بالمثل یخرج وقت الظہر ولا یدخل وقت العصر الإ بالمثلین ذکرھا الزیلعی وغیرہ‘ والأحسن ما فی السراج عن شیخ الإسلام ان الاحتیاط أن لا یؤخر الظہر إلی المثل وأن لا یصلی العصر حتی یبلغ المثلین لیکون مؤدیاً للصلاتین فی وقتھما بالإ جماع (کتاب الصلوٰۃ : ۱/۳۵۹ ط سعید کمپنی)
کفایت المفتی جلد 3 /64
فتاوی محمودیہ جلد 21/454
ہمارے اکابر دیوبند میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے مثل اول میں پڑھنے کو ترجیح دی ہے۔ دیکھئے رشیدیہ قدیم 296۔۔299 ۔امداد الفتاوی زکریا 1 : 153 ۔
2۔۔۔۔۔ صحیح روایات میں دوران قرات جہریہ امام کے لئے دو جگہ طویل سکتہ کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک ثناء پڑھنے کے لئے۔ دوسرا قرات ختم کرکے رکوع میں جانے کے لئے۔
سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد صرف آمین کہنے کے لئے سکتہ ہوتا ہے۔ مقتدی کے سورہ فاتحہ پڑھنے کے لئے یہ تیسرا سکتہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی سورہ فاتحہ کے بعد والے لمبے سکتے ۔۔۔۔ جس میں مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ سکے ۔۔۔ کو واجب نہیں کہا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ صرف مستحب کہتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام مالک ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن باز ،ابن عثیمین رحمہم اللہ اس سکتہ کو مستحب نہیں کہتے۔ بعد کے حنابلہ مستحب کہنے لگے ہیں۔صاحب مذہب امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس کے استحباب کا قول ثابت نہیں ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ اس سکتہ کی مشروعیت ہی کے منکرہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسے مکروہ تحریمی مانتے ہیں۔ اگر آمین کہتے ہوئے سہوا لمبا سکتہ ہوگیا تب تو وجوب سجدہ سہو کے ساتھ کام چلے گا! لیکن اگر  عمدا سورہ فاتحہ پڑھنے کا موقع دینے کے لئے لمبا سکتہ کیا تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اس سے سجدہ سہو سے بھی کام نہ چلے گا۔ بلکہ نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سکتہ کو صحیح حدیث سے ثابت نہیں مانتے۔ اس لئے وہ بھی مستحب نہیں کہتے۔
شیخ ابن باز بھی اس سکتہ کو مشروع وثابت نہیں مانتے۔
اور ترک سکتہ کو وہ افضل کہتے ہیں۔
علامہ ابن عثیمین ترک سکتہ طویلہ کو سنت، اور سکتہ کو اقرب الی البدعت گردانتے ہیں۔
علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں سورہ فاتحہ کے بعد والا سکتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحیح حدیث سے ثابت ہے نہ ہی ضعیف حدیث سے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کا سکتہ فرماتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخفی کیسے رہ گیا ؟ پھر تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر جماعت اسے روایت کرتی! لیکن ایسا کچھ بھی ثابت نہیں۔
ترمذی شریف میں ہے:
بَاب مَا جَاءَ فِي السَّكْتَتَيْنِ فِي الصَّلَاةِ
251 حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ [ص: 31] سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ وَقَالَ حَفِظْنَا سَكْتَةً فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ قَالَ إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَاءَةِ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِذَا قَرَأَ ( وَلَا الضَّالِّينَ ) قَالَ وَكَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْقِرَاءَةِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَأَصْحَابُنَا
سنن الترمذي
ابو داؤد میں ہے:
780 حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ بِهَذَا قَالَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيهِ قَالَ سَعِيدٌ قُلْنَا لِقَتَادَةَ مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ قَالَ إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَاءَةِ ثُمَّ قَالَ بَعْدُ وَإِذَا قَالَ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ)
سنن أبي داؤد
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في مجموع الفتاوى - (ج 22 / ص 339):
"وأما السكوت عقيب الفاتحة فلا يستحبه أحمد كما لا يستحبه مالك وابوحنيفة والجمهور لا يستحبون أن يسكت الإمام ليقرأ المأموم".
وقال - أيضا- في مجموع الفتاوى - (ج 23 / ص 278):
"ولم يستحب أحمد أن يسكت الإمام لقراءة المأموم ولكن بعض أصحابه استحب ذلك ....... وأيضا فلو كان الصحابة كلهم يقرأون الفاتحة خلفه إما في السكتة الأولى وإما في الثانية لكان هذا مما تتوفر الهمم والدواعي على نقله فكيف ولم ينقل هذا أحد عن أحد من الصحابة أنهم كانوا فى السكتة الثانية خلفه يقرؤون الفاتحة مع أن ذلك لو كان مشروعا لكان الصحابة أحق الناس بعلمه وعمله فعلم أنه بدعة".
وقال ابن القيم في "الصلاة وحكم تاركها" (230):
"وبالجملة فلم ينقل عنه بإسناد صحيح ولا ضعيف أنه كان يسكت بعد قراءة الفاتحة حتى يقرأها من خلفه وليس في سكوته في هذا
المحل إلا هذا الحديث المختلف فيه كما رأيت ولو كان يسكت هنا سكتة طويلة يدرك فيها قراءة الفاتحة لما اختفى ذلك على الصحابة ولكان معرفتهم به ونقلهم أهم من سكتة الافتتاح".
{الفتاوي الكبرى ٢\٢٩٢}
قال ابن مفلح: في كلام الحنفية يحرم سكوته، لأن السكوت بلا قراءة حرام، حتى لو سكت طويلا ساهيا لزمه سجود السهو.
قال ابن باز في الفتاوى11/ 84: الأفضل تركها. وقال ابن عثيمين في الشرح الممتع3/ 72: السُّكوت بمقدار سُورةَ الفاتحة، إلى البدعة أقرب منه إلى السُّنّة. وقد أشار الإمام ابن تيمة إلى شيء من هذا، كما في الفتاوى23/ 279.
وقال الشيخ ابن باز رحمه الله: ليس هناك دليل صريح صحيح يدل على شرعية سكوت الإمام حتى يقرأ المأموم الفاتحة في الصلاة الجهرية..." انتهى من "مجموع الفتاوى" (11/235).
تفصيلات کے لئے درج ذیل مصادر کی مراجعت فرمائیں، 
:الاستذكار4/ 238، التمهيد3/ 188، بداية المجتهد ونهاية المقتصد 1/ 132، مجموع الفتاوى23/ 277-279، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 2/ 680، الفروع وتصحيح الفروع2/ 176، بل ذهب مالك إلى انكار السكتة الأولى التي بعد تكبيرة الإحرام. ولعله لم يبلغه حديث أبي هريرة الذي في المتفق عليه في قوله: "اسكاتك بين التكبير والقراءة ماذا تقول.." انظر: الإشراف على نكت مسائل الخلاف 1/ 230، مواهب الجليل في شرح مختصر خليل 1/ 544.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٤٦\١٤٣٩ہجری

No comments:

Post a Comment