Tuesday 6 March 2018

اساتذہ و طلبہ کے لئے اردو شروحات کے نقصان

ہمارے عربی مدارس میں اکثر اساتذہ درسیاتی نصاب کی اردو شرحوں کا سہارا لیتے ہیں۔ حتٰی کہ پہلی اور دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی آسان ترین اور نہایت معمولی مواد و ضخامت کی کتابوں کو حل کرنے کے لیے بھی انھیں ان کی ضرورت پڑتی ہے؛ یہ ہمارا ایک انتہائی شرم ناک المیہ ہے!!
مجھے نہیں لگتا، اگر میں اس صورتِ حال کو "المیے" اور "بحران" سے تعبیر کررہا ہوں، تو کوئی مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں۔۔۔ کیوں کہ کئی اساتذہ تو "میزان الصرف"، "معلم الانشاء" اور "قصص النبیین" کے پہلے حصے کی بھی شرحیں دریافت کرتے ہیں!! جہاں تک "ہدایۃ النحو"، "کافیہ" اور ان جیسی دوسری اصول و قواعد کی کتابوں کا سوال ہے، تو وہ تو گویا اردو شروح کے بنا پڑھائی ہی نہیں جاسکتیں!!
اس سوال نے ایک عرصے سے مجھے الجھن میں ڈال رکھا ہے کہ کیا اس طرح کی شروح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ یا ان سے پہلے کے لوگ، مثلاً حضرت گنگوہی، حضرت نانوتوی رحمہم اللہ وغیرہم کے زمانوں میں ہوا کرتی تھیں؟ مجھے یہ تو علم نہیں کہ اس طرح کی شرحیں ان کے زمانے میں تھیں یا نہیں!! مگر اس بات کا نہایت پختہ یقین ہے کہ وہ حضرات اس طرح کی شروح پر اعتماد اور تکیہ نہیں کرتے تھے، جو اساتذہ اور طلبہ: سب کی شخصیتوں کو ختم کر رہی ہیں؛ بل کہ وہ سب سے پہلے جامع عربی متون پر اعتماد کرتے تھے؛ بل کہ یوں کہنا چاہیے، انھیں یہ عربی متون نہایت پختہ اور ازبر ہوا کرتے تھے!!
یہی وہ بینادی سبب ہے، جس کی وجہ سے وہ حضرات، علم و فضل کے ہر میدان میں ہم سے میلوں آگے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ درسی کتابوں کی اِن اردو شروح میں سے اکثر بالعموم پچھلے پچاس، ساٹھ سالوں میں لکھی گئی ہیں۔۔۔ مگر اب یہ ہمارے عربی مدارس میں اساتذہ کا سب سے بڑا سہارا اور تکیہ بن کر رہ گئی ہیں۔۔۔ میں نے کئی اساتذہ کو دیکھا ہے، جو کسی درسی کتاب کی ایک عدد اردو شرح لکھنے پر فخر کر رہے ہیں — اگرچہ اس نے کسی کی نقل ہی کی ہو، کیوں کہ یہ اردو شروح عموماً ایک دوسرے کی نقل ہی ہوتی ہیں‌ ‌— اسی طرح کچھ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ فلاں شرح لکھنے والے ان کے استاذ ہیں یا ان سے انھوں نے فلاں کتاب پڑھ رکھی ہے!!
کم از کم میرے لیے تو یہ صورتِ حال نہایت الم ناک ہے۔۔۔ میں کوئی اردو شرح نہیں دیکھتا؛ بل کہ اساتذہ و طلبہ: سب کے لئے ان کا دیکھنا سخت ترین جرم سمجھتا ہوں۔۔۔ میں نے اپنے دارالعلوم دیوبند کے دورِ طالب علمی میں اپنے استاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کو یہ فرماتے ہوے سنا ہے کہ "اگر وہ یہاں کے مہتمم ہوجائیں، تو کم از کم احاطۂ دارالعلوم میں تو ان تمام اردو شروح کو جلا دیں"!!
ہر استاذ اور مدرس شکوہ کرتا سنائی دیتا ہے کہ ہمارے اِس زمانے میں طلبہ کی پہلی سی قابلیتیں اور بھرپور صلاحیتیں نہیں رہ گئی ہیں، یہ علم و تحقیق کے میدانوں میں ناکام ہو رہے ہیں یا ان میدانوں میں بلندیاں نہیں چھو رہے ہیں۔
مگر یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؛ جب ہم خود ہی اپنے ہاتھوں سے ان کی قابلیتوں کو منہدم کر رہے ہیں اور اس طرح کی اردو شروح کو اپناکر ان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں، جو شروح انھیں سے زبان سے ہی دور کرتی ہیں، جو علم کی اساس اور بنیاد ہے۔۔
عربی مدارس میں تعلیم و تربیت کے میدان سے منسلک ہر شخص کو میرا یہ خیر خواہانہ مشورہ ہے کہ ان بیکار کی کتابوں کو چھونے کے بہ جائے وہ اولاً اصل متون پر ہی اعتماد کرے اور اس کے بعد ان بہترین عربی شروح کا سہارا لے، جو قابلیتوں کو چمکاتی اور استعداد کو مزید نکھارتی ہیں!!
استاذِ محترم مولانا نصیرالدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم
استاذ شعبۂ عربی ادب: مدرسہ خادم الاسلام بھاکری، جودھپور راجستھان
https://t.me/raayelyaom
ترجمہ: نیک محمد 9001835816

افسوس اور بدنصیبی یہ ہے کہ یہ شرحیں اور ترجمے وہ اصحاب لکھ رہے ہیں جوان نصاب ہائے تعلیم کے ترجمان اور محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات بہت واضح ہے کہ جب تک درسی کتابوں کے ناقص اردو ترجموں اور شرحوں کا چلن ختم نہیں ہوتا، شرحوں کے نام پر غلط سلط کتابوں کا سامنے آنا اور ان کی اشاعت وطباعت کا سلسلہ بند اور ان کا مدرسوں میں داخلہ نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ امید کرنا کہ ان ترجموں کو پڑھ کر تیار ہونے والے طلبہ علمی لیاقت واستعداد حاصل کرلیں گے، اچھے عالم یا مدرس بن سکیں گے، دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ مدرسوں کے تیز رفتار تعلیمی زوال کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ بہت بنیادی اور نہایت ضروری ہے جب تک یہ نہیں ہوگا اس وقت تک باصلاحیت طلبہ اور ذی استعداد استادوں کی جستجو ناکام ہی رہے گی۔


No comments:

Post a Comment