Tuesday, 6 March 2018

سودی رقم کا مصرف؟ کیا اسے مستحق زکات شخص کو قرض پہ دے سکتے ہیں؟

سودی رقم کا مصرف؟
کیا اسے مستحق زکات شخص کو قرض پہ دے سکتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته
مفتی شکیل منصور صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں
سوال: بینک کے سود کے پیسوں کا مصرف کیا هے؟
کیا اس پیسوں سے اپنے گھر کا بیت الخلا بناسکتے هے؟
کیا اس پیسوں سے ذاتی زمین کی حدبندی کی جاسکتی هے؟
کیا اس پیسوں سے مدرسہ کے بیت الخلا بنواسکتے ہیں؟
کیا اس پیسوں سے اسکول کے بیت الخلا بناسکتے ہیں؟ جبکہ وہ اسکول عیسائی کی ہوں اور فیس لے کے نفع کماتی ہو؟
کیا رفاہی کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں؟کون کون سےرفاہی کام مراد ہیں؟
تفصیل سے وضاحت کرنےکی درخواست گے. جزاکم اللہ
سائل: محمد واصف پٹیل
مقیم حال: کینیا، مشرقی افریقہ
12/3/2017

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
بنک سے ملنے والی سودی رقم حرام مال ہے اور مال حرام کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے
لہذا اس سودی رقم کو کسی ایسے ٹیکس کی ادائی وغیرہ کی شکل میں حکومت کو لوٹادے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو ۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مال حرام کا تصدق علی الفقراء بلا نیت ثواب علی اصح الاقاویل ضروری ہے یعنی صدقات واجبہ کی طرح اس میں بھی تملیک فقراء واجب ہے۔ مفتی شفیع صاحب نے جواہر الفقہ میں مختلف دلائل سے اس کے وجوب کو ثابت کیا ہے
جبکہ مفتی کفایت اللہ دہلوی اور مفتی عبد الرحیم لاجپوری جیسے مفتیان کی رائے یہ ہے کہ تصدق علی الفقراء کے علاوہ دوسرے رفاہی کاموں میں بھی اسے صرف کیا جاسکتا ہے ان حضرات کی آراء کی روشنی میں مفاد عامہ کے لئے بیت الخلاء وغیرہ کی تعمیر کی بھی گنجائش ہے۔ ذاتی بیت الخلاء کی تعمیر میں ان کے یہاں بھی اجازت نہیں۔
عاجز کا رجحان یہ ہے کہ بنک وغیرہ کے سود کو کسی رفاہی تعمیراتی کاموں میں صرف نہ کیا جائے۔ کیونکہ اسے دیکھ کر سود کی قباحت لوگوں کی نظروں میں کم ہوجائے گی۔ محتاجوں اور ضرورت مندوں کو روپے دیدیئے جائیں۔ وہ اپنی ضرورتوں میں صرف کریں۔
اگر حکومت کا غیر واجبی ٹیکس قابل ادا ہوں تو اس کی ادائی تصدق علی الفقراء سے بھی مقدم ہے۔
إن سبیل التوبۃ مما بیدہ من الأموال الحرام إن کانت من ربا، فلیردہا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرًا، فإن أیس من وجودہ فلیتصدق بذٰلک عنہ۔ (الجامع لأحکام القرآن الکریم للقرطبي ۳؍۲۴۸، سورۃ البقرۃ: ۳۷۹ دار إحیاء التراث العربي بیروت)
إن من شرط التوبۃ: أن تردّ الظلامۃ إلی أصحابہا، فإن کان ذٰلک في المال، وجب أدائہ عینًا أو دینًا ما دام مقدورًا علیہ۔ (القواعد للزرکشي ۲؍۲۴۵ بیروت)
ویردّونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔ (الأشباہ والنظائر / القاعدۃ الخامسۃ ۱۴۹ مکتبہ دار العلوم دیوبند، کذا في البحر الرائق / باب الربا ۶؍۱۲۶ کراچی)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۷ سہارنفور، ۱؍۳۵۹ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
من ملک بملک خبیث ولم یمکنہ الرد إلی المالک فسبیلہ التصدق علی الفقراء الخ۔ (معارف السنن ۲؍۳۴ أشرفیۃ دیوبند)
تصدق علی الفقراء
کے تعین کے وقت "الفقراء" سے مراد فقراء مصارف زکوة ہیں جیساکہ فتاوی دارالعلوم میں صراحت ہے۔
تصدق بلانیت ثواب کی قید ملحوظ رکھی گئی ہے۔کیونکہ مال خبیث میں نیت کرنا بہتر نہیں۔لیکن خدمت انسانیت کی وجہ سے مآلا اس کو ثواب پہونچ سکتا ہے ۔
یہ تصدق در اصل خبیث مال کو جلانے اور دریا برد کردینے کے درجے میں ہے۔
اس مال خبیث کو تصدق علی الفقراء کے لئے وقت کی کوئی تحدید نہیں کی گئی ہے۔بس اتنا کہا گیا ہے کہ خود یہ شخص ذاتی طور پہ اس سے منتفع نہ ہو۔قرض دینا قرض دہندہ کا انتفاع نہیں ہے۔ مقروض کو تھوڑا سا نفع پہونچانا ہے ۔
پھر یہ رقم خود مقرض کے پاس لوٹ کر آئے گی۔ کیونکہ یہ قرض تھا۔ ہبہ و صدقہ نہیں۔
جب قرض کی واپسی ہوگی پہر اسے تصدق علی الفقراء کردیا جائے گا۔۔۔۔اس مال خبیث سے محتاجوں کو منتفع کرنا ہی اصل ہے! حقیقی منتفع صدقہ کرکے اور عارضی منتفع قرض دے کے۔
جواز تصدق، جواز اقراض کی بھی دلیل ہے کیونکہ اقراض تصدق سے ادون ہے۔۔۔۔۔ اعلی کے ضمن میں ادنی از خود ثابت ہوتا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا یہ مسئلہ بھی ہے کہ جو رقم بہ نیت زکاۃ علاحدہ رکھی گئی ہے، وہ جب تک مستحق تک پہنچ نہ جائے، اس وقت تک ذمہ سے وجوب ساقط نہیں ہوتا، اور زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، بل کہ وہ [علاحدہ کردہ مال] مالک کی ملکیت ہی میں رہتا ہے، اور وہ اس میں جیسا تصرف کرنا چاہے، کرسکتا ہے،لہٰذا اس مال سے قرض وغیرہ بھی دے سکتا ہے، البتہ قرض وغیرہ دینے کی وجہ سے ادائیگی زکوٰۃ میں غیر معمولی تاخیر ہوجائے، تو یہ درست نہیں۔
ٍولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.(الدرالمختار)ــــــــــــــ قال ابن عابدین: (قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء بحر عن المحيط.( رد المحتارعلی الدر المختار: ۲؍۲۷۰،کتاب الزکاۃ، 
مطلب قابل غور ہے کہ علیحدہ رکھی ہوئی رقم زکات  فقیر کو دینے سے قبل  قرض میں دینا  جائز ہے۔
جب واپس آئے گی تب پھ مستحقین کو  دےدی جاتی ہے۔
قرض دینا اگر انتفاع ہوجائے تو پھر مزکی کے لئے اپنی زکات خود پہ استعمال کرنا لازم ہوجائے ۔حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔
اسی طرح سودی رقم کے حوالے سے مستحق زکوة فقراء کو یہ رقم قرض پہ دی جاسکتی ہے۔
ہند،پاک کے متعدد ارباب افتاء نے اس کی اجازت دی ہے۔
شہید اسلام مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
سود کی رقم قرض دار کو قرض اُتارنے کے لئے دینا
س … سود کے پیسے اگر ہمارے پاس ہوں تو کیا ہم ان پیسوں سے قرض دار کو قرض ادا کرنے کے لئے دے سکتے ہیں یا نہیں؟ یا وہ پیسے صرف مسجد وغیرہ میں بیت الخلا پر ہی لگائے جاسکتے ہیں؟
ج … سود کے پیسوں سے اپنا قرض ادا کرنا جائز نہیں، نہ ان کو مسجد یا اس کے بیت الخلا میں لگایا جائے، بلکہ جس طرح ایک قابلِ نفرت اور گندی چیز سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، اس خیال سے یہ سود کے پیسے کسی محتاج کو بغیر نیتِ ثواب دے دئیے جائیں۔ سوال میں جس قرض دار کے بارے میں پوچھا گیا ہے اگر وہ واقعی محتاج ہے تو اس کو قرض ادا کرنے کے لئے سودی رقم دینا جائز ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد 6 ص 139۔ غیر موافق للمطبوع)
فتاوی فلاحیہ میں ہے:
اسی طرح سود کے پیسے کسی غریب کو بہ طور قرض دینے میں حرج نہیں۔
البتہ مستحق اور حق دار نہ ہو، تو ایسے آدمی کو [بہ طور قرض] دینا ٹھیک نہیں اور ایسے آدمی کے لئے لینا بھی مناسب نہیں
تاہم غریب کو بجائے قرض دینے کے، بلا نیت ثواب مالک بناکر ذمے سے وبال حرمت ختم کرنا چاہیے:لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه .(رد المحتار علی الدر المختار:۶؍۳۸۵، کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل في البيع، ط: دار الفكر)
وذكر في البزازية هنا أن من لا يحل له أخذ الصدقة فالأفضل له أن لا يأخذ جائزة السلطان.(حوالہ سابق:۲؍۲۹۲، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، قبیل:مطلب استحلال المعصية القطعية كفر)

فتاوی فلاحیہ جلد صفحہ 457 ۔تحقیق مفتی مجتبی حسن قاسمی ۔
انہی اکابر مفتیوں کے فتاوی کے پیش نظر میرا جواب یہ تھا:
سوال:
السلام علیکم
کیا فرما تے ہیں علمائے کرام
زید کے پاس 20000 سود کی رقم ہے
زید کا غیر مسلم پڑوسی بطور قرض زید سے کچھ روپیہ مانگ رہا ہے کیا زید سود والے پیسے میں سے اپنے پڑوسی کو قرض دے سکتاہے
المستفتی محمدخالدکلام الدین اعظمی
الجواب وباللہ التوفیق:
سود کی رقم مستحق زكوة (نہ کہ غیر مسلم) فقراء کو قرض پہ دے سکتے ہیں ۔بہتر یہ ہے کہ قرض کی بجائے  انہیں بلانیت ثواب تعاون کردیں ۔تاکہ حرام مال کے وبال سے جان چھوٹ جائے۔۔۔۔۔ لیکن قرض دینا بھی جائز ہے۔
غیر مستحق زكوة کو سودی رقم قرض پہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔اگر مسلم ہو تو اس کے لئے لینا  درست وبہتر نہیں۔ تاہم سخت مجبوری میں ان کے لئے بھی گنجائش ہے۔ لیکن غیر مسلم کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔
وذكر في البزازية هنا أن من لا يحل له أخذ الصدقة فالأفضل له أن لا يأخذ جائزة السلطان. (بدائع الصنائع:۲؍۲۹۲، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، قبیل: مطلب استحلال المعصية القطعية كفر)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٢\٦\١٤٣٩ہجری

No comments:

Post a Comment