سوال: نکاح کی شرطیں کیا ہیں؟
جواب: نکاح کی شرطیں درج ذیل ہیں
1۔ عاقدین عاقل بالغ اور آزاد ہوں۔ (بغیر عقل اور بلوغ کے ایجاب و قبول صحیح نہیں ہوگا۔ آزاد ہونا اس لئے ضروری ہے کہ باندی اور غلام کو مولا کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا اختیار نہیں)
2۔ جانبین میں سے ایک کا عورت ہونا
(ہم جنس کی شادی صحیح نہیں ہوگی).
(ہم جنس کی شادی صحیح نہیں ہوگی).
3۔۔ عاقدین اگر خود سے ایجاب و قبول کررہے ہوں تو دونوں ایجاب و قبول سنیں اور اگر وکیل یا ولی ایجاب و قبول کررہے ہوں تو اب عاقدین کا سننا ضروری نہیں۔
4۔۔دو آزاد، عاقل، بالغ، مسلمان مرد گواہ ہوں۔ (سب قید احترازی ہے۔ البتہ دو مرد میسر نہ ہوسکیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت بھی معتبر ہے).
5۔۔۔لڑکی اگر بالغہ، باکرہ یا ثیبہ ہو تو اس کی رضامندی ضرو ری ہے۔
6۔ ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں ہوں۔
7 ۔ ایجاب و قبول میں موفقت ہو (اگر ایجاب کے خلاف قبول ہوا تو نکاح صحیح نہیں)
8۔۔ دونوں گواہ ایجاب و قبول ایک ساتھ سنیں۔ الگ الگ سننے سے نکاح صحیح نہ ہوگا۔
9۔۔ نکاح کی نسبت عورت کے پورے جسم کی طرف ہو یا ایسے بعض عضو کی طرف ہو جس سے کل ہی مراد لیا جاتا ہو۔ جیسے سر یا گردن۔
10۔ گواہوں کو معلوم ہو کہ دولہا دلہن کون ہے؟ اور کون کس سے نکاح کرتا ہے۔
11 دنیا کی تمام ہی زبانوں میں ایجاب و قبول کرنے کی گنجائش ہے۔ اگرچہ عاقدین اس کے معنی نہ سمجھتے ہوں! (جامع الرموز، شرح الوقایہ)
12جب دولہا دلہن دونوں نابالغ ہوں یا ایک بالغ اور دوسرا نا بالغ، یا دونوں یا ایک کم عقل ہوں تو ان تمام صورتوں میں بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہوگا.
13 عورت اگر بالغہ ہو تو وہ خود بھی بغیر سرپرست اور وکیل کے براہ راست عقد نکاح کرسکتی ہے۔ البتہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اپنے کفو میں مہر مثل پر نکاح کرے. اپنے سے گرے ہوئے مرد سے نکاح نہ کرے جس سے اس کے کنبہ کو ننگ و عار لاحق نہ ہو..........
(واللہ تعالی اعلم بالصواب)
(واللہ تعالی اعلم بالصواب)
................
ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی کیا شرطیں
سوال # 149525
حضرت مفتی صاحب! ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی کیا شرطیں ہیں؟ کیا ایک سے زیادہ نکاح کرنا سنت ہے؟
Published on: Mar 15, 2017
جواب # 149525
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 548-511/N=6/1438
(۱): ایک سے زیادہ نکاح کرنے کے لیے، یعنی: بیک وقت نکاح میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے لیے اہم اور بنیادی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی ودینی حالات کی روشنی میں اپنے اوپر یہ بھروسہ رکھتا ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان حقوق واجبہ میں انصاف ووبرابری کرسکتا ہے، کسی ایک یا چند بیویوں کی طرف بہت زیادہ جھک کر دوسری بیویوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔ اور اگر کوئی شخص اپنے اوپر انصاف وبرابری کا بھروسہ نہیں رکھتا تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کرے، اس سے زیادہ کے چکر میں نہ پڑے۔ اور ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی صورت میں ان کے درمیان انصاف وبرابری آسان نہیں؛ اس لیے بلا ضرورت دوسری بیوی لانے کی کوشش قابل احتراز ہے بالخصوص ہندوستانی ماحول میں ؛ کیوں کہ ہندوستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں دوسری شادی کے بعد عام طور پر پہلی بیوی کی طرف سے جو حالات پیش آتے ہیں وہ ہر ایک کے لیے قابل تحمل وبرداشت نہیں ہوتے۔
قال اللہ تعالی:فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة الآیة (سورہ نسا، آیت:۳)،عن أبي ھریرةرضي الله عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامة وشقہ ساقط“(مشکوة شریف ص ۲۷۹،بحوالہ: سنن ترمذی وسنن ابو داود وغیرہ، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، (یجب) وظاھر الآیة أنہ فرض، نھر (أن یعدل) أي: أن لا یجور (فیہ ) أي: فی القسم بالتسویة فی البیتوتة (وفی الملبوس والمأکول) والصحبة الخ ( الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم، ۴: ۳۷۹،۳۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،(والبکر والثیب والجدیدة والقدیمة والمسلمة والکتابیة سواء) لإطلاق الآیة (المصدر السابق، ص:۳۸۴ ) ومکروھا لخوف الجور فإن تیقنہ حرم ذلک ( المصدر السابق، أول کتاب النکاح، ۴:۶۶)، قولہ: ”ومکروھا“:أي: تحریماً، بحر ، قولہ: ”فإن تیقنہ“أي: تیقن الجور ”حرم“؛ لأن النکاح إنما شرع لمصلحة التحصین وتحصیل الثواب وبالجور یأثم ویرتکب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان ھذہ المفاسد، بحر (رد المحتار)۔
(۲): حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک سے زائد (نو تک) نکاح فرمائے، وہ مختلف اہم مصالح کے تحت تھا جیسا کہ علماء نے لکھا ہے، جن میں سے چار سے زائد نکاح آپ کی خصوصیات میں سے ہیں اور چار تک نکاح ہم لوگ بھی کرسکتے ہیں اور غلام وباندی کے زمانے میں غلام شخص کو صرف دو نکاح کی اجازت تھی؛ لیکن یہ صرف اجازت ہے، لازم وضروری یا سنت نہیں ہے؛ اسی لیے حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین وغیرہم نے عمومی طور پر چار نکاح کا اہتمام نہیں فرمایا؛ البتہ آدمی بہ وقت ضرورت عدل وانصاف کی شرط کے ساتھ کرسکتا ہے، جائز ہے اور ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان نا انصافی کرنا سخت گناہ کا کام ہے ؛ اس لیے اس میں احتیاط چاہیے-
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/149525
..........................
نکاح— اصول وضوابط
اعتدال کی حالت میں نکاح کرناسنت ہے؛کیوں کہ حدیث میں ہے: النکاح من سنتی فقہا کرام نے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے اورنہ کرنے کے احکام بیان کیے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
فرض
اگر شہوت بہت زیادہ ہوحتی کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کایقین ہو،مہر اورنان ونفقہ اداکرسکتاہو،نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو،توایسی صورت میں نکاح کرلینافرض ہے۔
واجب
نکاح کرنے کا تقاضہ ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کااندیشہ ہو، مہر اورنان ونفقہ اداکرسکتاہونیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو، توایسی صورت میں نکاح کرلینا واجب ہے۔
سنت موٴکدہ
عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو،بیوی کے حقوق کو اداکرسکتاہو،بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو تو نکاح کرنا سنتِ موٴکدہ ہے۔
مکروہ تحریمی
اگر نکاح کرنے کے بعدبیوی کے مالی یاصنفی حقوق ادانہ کرنے کااندیشہ ہو تو نکاح کرنامکروہ تحریمی ہے۔
حرام
اگر نکاح کرنے کے بعدبیوی کے مالی یاصنفی حقوق ادانہ کرنے کا؛یا عورت پر ظلم کرنے کایقین ہو؛ یانکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرنا ہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے۔ (البحرالرائق ۳/۸۴، الدرالمختارعلی ردالمحتار:۳/۶، فتاوی محمودیہ۱۰/۴۷۲پاکستان)
نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر،ولیمہ مسنونہ اورمستقل طوپر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے؛ اس لیے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے، یاولیمہ میں بھاری بھرکم خرچہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے،نکاح نہ کرنایانکاح کو موٴخرکرنادرست نہیں ہے؛ بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہوتوایسی صورت میں سخت گناہ ہوگااوراپنے ذہن اور جسم وروح کے ساتھ ناانصافی بھی ہوگی۔
جہیز کامطالبہ کرنا
لڑکے کایااس کے گھر والوں کی طرف سے کسی کالڑکی سے یااس کے گھر والوں میں سے کسی سے کسی بھی سامان کایاکھانے کی دعوت کاصراحت کے ساتھ یااشارہ وکنایہ میں یارسم ورواج کی بنیاد پر مطالبہ کرناجائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے اورمرد کی غیرت کے خلاف ہے۔کپڑے، زیورات، اورگھریلوساز وسامان کاانتظام کرناسب مرد کے ذمہ ہے۔اگر لڑکی والے مطالبہ کے بغیرمگررسم ورواج یاسماج کے دباؤمیں آکرکچھ دے توبھی لینانہیں چاہیے۔نبی کریم …نے ارشاد فرمایا: ”لَا یَحِلُّ مَالُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ لِأَخِیہِ، إِلَّا مَا أَعْطَاہُ بِطِیبِ نَفْسِہِ“ (سنن الکبریٰ للبیہقی:۱۶۷۵۶) یعنی کسی دوسرے کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیرکسی کے لیے حلال نہیں۔سماجی دباؤمیں آکر دینے کا مطلب یہ ہے کہ دینے والایوں سمجھے کہ ہمارے یہاں اس موقع پرفلاں چیز دینے کی رسم ہے دیناہی پڑے گا،اگر نہیں دیں گے تو لوگ کیاکہیں گے؟اگر لڑکی ازخود کوئی سامان اپنے میکے سے لاتی ہے تو اس پر صرف اسی لڑکی کاحق ہے۔مرد کو اس میں اپناحق جتانایا بیوی کی اجازت کے بغیراس کااستعمال کرناصحیح نہیں ہے۔
حق مہر
نکاح کی وجہ سے بیوی کامہر واجب ہوتاہے۔ مہر کی مقدار کم از کم دس درہم یعنی تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی یااس کی مالیت کاہوناضروری ہے۔اس سے کم مالیت میں اگر نکاح کیاجائے مثلا پانچ سوروپئے میں یا صرف ۷۸۶ روپے میں تو نکاح تو منعقد ہوجائے گا؛ مگر دس درہم کی مقدارکااداکرناواجب ہوگا؛تاہم متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے مہر فاطمی یعنی ایک کلوپانچ سو تیس گرام نوسوملی گرام چاندی متعین کرنامستحب ہے۔ دین مہرکابعد نکاح فوراً اداکردینابہترہے۔اس کو موٴخر کرنامناسب نہیں،علماء کرام کامشورہ ہے کہ اس زمانہ میں سونے یاچاندی میں مہرمتعین کرنالڑکی کے حق میں مناسب ہے؛اس لیے کہ افراط زرکے اس زمانہ میں سالوں گزرنے کے باوجود اس کی مالی حیثیت میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔دوسرے یہ کہ یہ سنت سے زیادہ قریب ہے؛ کیوں کہ دورِنبوی میں عموماًسونے وچاندی سے مہر طے ہوتاتھا۔
ارکانِ نکاح
نکاح حرام کو حلال کرتاہے؛اس لیے اس کے ارکان اورشرائط کو بوقت نکاح ملحوظ رکھنانہایت ہی ضروری ہے، ورنہ بعض دفعہ نکاح منعقدہی نہیں ہوتاہے اورطویل عرصہ تک لڑکالڑکی دونوں حرام کاری کرتے رہتے ہیں۔نکاح کے ارکان ایجاب وقبول ہیں۔پیغام دینے اورپیش کش کرنے کو ایجاب کہتے ہیں، خواہ لڑکے کی طرف سے ہویالڑکی کی طرف سے اوردوسرے کی طرف سے منظورکرلینے کو قبول کہاجاتاہے۔
ایجاب وقبول کی شرائط
پہلی شرط: ایجاب وقبول کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہو، مثلاًایجاب جس مجلس میں ہوا اسی مجلس میں قبول ہوجائے ورنہ نکاح منعقدنہیں ہوگا،مثلاًاگرایجاب وقبول کی جگہ بدل جائے یاکوئی ایک مجلس سے اٹھ جائے پھر قبول کرے تو نکاح منعقدنہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع:۲/۲۳۲،ہندیہ:۱/۲۶۹)
دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ:
(الف)ایجاب وقبول کا تلفظ کیا گیا ہو، یعنی اگر ایجاب وقبول کرنے والا بولنے پر قادر ہے اور دونوں مجلس میں موجود ہیں تو ایجاب وقبول کی منظوری زبان سے دیناضروری ہے۔ مثلاًایجاب یوں کرے ”میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا“ اورقبول یوں کرے ”ہاں میں نے قبول کیا“ اگر ایجاب وقبول کے الفاظ لکھ دیے جائیں، یاصرف سر کوہلادیاجائے یانکاح نامہ میں صرف دستخط کردیے جائیں تو ان صورتوں میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(ب) اگرنکاح کرنے والوں میں سے کوئی ایک مجلس میں موجود نہ ہو؛مگر اس کی طرف سے اس کاولی جس کو اس نے نکاح کرانے کی اجازت دے رکھی ہویاوکیل جس کو اس نے نکاح کرانے کاوکیل بنایاہو،موجود ہوتو وہ خوداس کی طرف سے ایجاب یاقبول کرے۔ مثلایوں ایجاب کرے ”میں نے فلاں یافلانہ کانکاح آپ سے اتنے مہر کے عوض کیا“ اورقبول اس طرح کرے ”ہاں میں نے فلاں یافلانہ کی طرف سے قبول کیا“ یاقاضی ولی اوروکیل کاترجمان بن کراس کی موجودگی میں ایجاب کرے تو اس سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(ج) اگرکوئی ولی یاوکیل بھی موجود نہ ہوتواگر کسی ایک نے ایجاب کو لکھ کربھیجااوردوسرے نے جس مجلس میں اس کوایجاب کی تحریر پہونچی اسی مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں ایجاب کو پڑھ کریاکسی سے پڑھواکرزبان سے قبول کیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔(ہندیہ:۱/۲۶۹-۲۷۰)
تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے صیغے ماضی یاحال کے ہوں، مثلاًمیں نے آپ سے نکاح کیایانکاح کرتاہوں کہے،اسی طرح میں نے قبول کیایامیں قبول کرتاہوں،یامجھے قبول ہے وغیرہ الفاظ کہے، پس اگرمستقبل کے صیغے استعمال کیے جائیں، مثلاًیوں کہاکہ نکاح کروں گا، قبول کروں گایاٹھیک ہے کرلوں گاوغیرہ تو نکاح منعقدنہیں ہوگا۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۹/۳۵)
چوتھی شرط: چوتھی شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کم از کم دوایسے مسلمان عاقل وبالغ مرد یاایک مرد اور دو عورتو ں کی موجودگی میں ہو،جو فریقین کے ایجاب وقبول کے الفاظ کو سن سکیں؛لہٰذا اگردوگواہ نہیں ہیں یاگواہ تو ہیں؛ مگر مسلمان نہیں ہیں، یاصرف عورتیں ہیں،یاگواہ بالغ نہیں ہیں،یاعاقل نہیں ہیں تو نکاح منعقدنہیں ہوگا۔
نکاح کرنے کے طریقے
نکاح کرنے کے چار طریقے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:
اَصالتہً: یعنی نکاح کرنے والا خود ایجاب یاقبول کرے۔مثلاًلڑکایالڑکی دونوں میں سے کوئی ایک دوگواہوں کی موجودگی میں دوسرے سے کہے کہ میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا اور وہ کہے ہاں میں نے قبول کیا۔
وِلایةً: یعنی نکاح کرنے والے کا ولی، مثلاً اس کا باپ یادادا، بھائی، چچاوغیرہ(بالترتیب) اس کی طرف سے ایجاب یاقبول کرے،ایسا صرف اس صورت میں ہوتاہے؛ جب کہ لڑکا یالڑکی نابالغ ہو۔ اگر نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی، مثلاًبھائی، چچاوغیرہ نے کرایاہے،تب توان کوبالغ ہونے کے بعد اختیارہوگاکہ اس نکاح کو باقی رکھیں یاختم کردیں،اوراگرباپ دادا نے کرایاہے تو یہ اختیارنہیں رہے گا۔ ہاں اگر باپ دادا اپنے فسق وفجور میں مشہور ہوں تو پھر نکاح ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کو ”خیار بلوغ“ کہاجاتاہے؛مگر اس کے لیے قضاء قاضی شرط ہے، یعنی شرعی دارالقضاء میں جاکر قاضی شریعت کی خدمت میں فسخ نکاح کادرخواست دیناضروری ہے، قاضی محترم تحقیق کرنے کے بعد فسخ کرسکتے ہیں۔
اجازةً: اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہوتو اس کی طرف سے اجازت یا وکالت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عمومالڑکااورلڑکی کے والدین،اولیاء وسرپرستان نکاح کراتے ہیں،یہ ایک بہتر اورمستحسن عمل ہے؛ کیوں کہ دونوں کے اولیاء اپنی اولاد کی دینی اوردنیاوی بھلائی دیکھ کر ہی نکاح کرائیں گے۔ اسی وجہ سے شریعت میں ولی کی اجازت کے بغیرکیے گئے نکاح کوناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ نبی کریم … نے اولیاء کو حکم فرمایاہے کہ وہ اپنی بالغ اولاد کانکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہ کریں۔ ”لاَ تُنْکَحُ الأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْکَحُ البِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ“ (بخاری:۵۱۳۶) کیوں کہ ازدواجی زندگی دونوں میاں بیوی کو گزارنی ہے؛ اس لیے ان سے اجازت لی جائے۔
اجازت کا مطلب یہ ہے کہ بالغ لڑکا یا لڑکی اپنے ولی مثلا باپ، دادا، یا بھائی کواس بات کی اجازت دے دے کہ آپ میرانکاح فلاں سے کرادیں، یا جس سے چاہیں کرادیں،یاولی اپنے بیٹے یابیٹی سے اس بات کی اجازت لے لیں کہ وہ اس کانکاح فلاں یافلانہ سے کرانے جارہاہے، واضح رہے کہ اگر باپ دادانے کنواری لڑکی سے اجازت طلب کی اوروہ خاموش رہی تو اس کاخاموش رہنا بھی اجازت کے حکم میں ہوگا۔بہرحال ایسی صورت میں ولی کو بھی اپنے بالغ بیٹے یابیٹی کانکاح کرانے کا یعنی ایجاب یاقبول کرنے کاحق ہوگا۔اجازت دیتے یا لیتے وقت بہتر ہے کہ دو گواہ بھی موجود ہوں۔
وکالةً: یعنی نکاح کرنے والا لڑکا یا نکاح کرنے والی لڑکی کسی کوایجاب وقبول کرنے کا زبانی یا تحریری طور پر وکیل بنادے، مثلاًیوں کہے یا لکھ دے کہ میں نے فلاں بن فلاں کوفلانہ بنت فلانہ سے یافلاں بن فلاں سے اپنا نکاح کرانے کا وکیل بنادیا اوروکیل اس کی طرف سے ایجاب یاقبول کرے۔ مثلاً یوں ایجاب کرے کہ میں نے اپنے موٴکل یا موٴکلہ کو آپ کی زوجیت میں دیایا میں نے اپنے موٴکل یا موٴکلہ کا نکاح آپ سے کیا۔ قبول اس طرح کرے کہ میں نے اپنے موٴکل یا موٴکلہ کی طرف سے قبول کیا۔
واضح رہے کہ وکیل یا بالغ اولاد کا ولی خود اپنی طرف سے کسی کو نکاح کرانے کی اجازت نہیں دے سکتاہے اور نہ کسی کو وکیل بناسکتاہے؛اگرکسی نے ایساکرلیایعنی ولی نے کسی کونکاح کرانے کی اجازت دے دی یا کسی کو وکیل بنادیا یا وکیل نے خود کسی دوسرے کووکیل بنادیا یا نکاح کرانے کی اجازت دے دی اوراس نے نکاح کردیا تو ایسی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
ہاں دو صورتیں ایسی ہیں کہ نکاح منعقد ہوجائے گا: (۱) اسی مجلس میں ولی یاوکیل (اول) بھی موجود ہو،(۲) بعد نکاح جب لڑکی کو اس کی اطلاع ہوئی کہ فلاں نے میرانکاح فلاں سے کردیا ہے تو وہ انکار نہ کرے تو اس کی خاموشی بھی دلالتہً ایجاب کے حکم میں ہوگی اور نکاح منعقد ہوجائے گا۔ (الدرالمختارعلی ردالمحتار:۳/۸۵، ہندیہ:۱/۲۹۸)
جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ نکاح
ٹیلیفون، موبائل، وہاٹس ایپ، فیس بک میں، چیٹنگ کے ذریعہ ہو یا آیڈیوکانفرنس ہو یا ویڈیو کانفرس ہو نکاح کسی بھی صورت میں منعقد نہیں ہوگا؛کیوں کہ دونوں کی مجلس ایک نہیں ہے؛البتہ اگر ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو وکیل بنادیاجائے اوروہ وکیل اپنے موٴکل کی طرف سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب یاقبول کرے تو پھر نکاح منعقد ہوجائے گا۔
کورٹ میریج
کورٹ میں نکاح کرنے کی صورت میں اگر ایجاب وقبول کی ساری شرطیں موجود ہوں تو نکاح منعقد ہوگا، ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔ مثلاً اگرمتعلقہ افسر کے سامنے صرف کاغذپر دستخط کردیا،زبان سے ایجاب وقبول نہیں کیا۔یادونوں گواہ مسلمان نہیں تھے یاصرف عورتیں گواہ تھیں،تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
خطبہٴ مسنونہ
ایجاب وقبول سے پہلے خطبہ دینامسنون ہے۔جس میں سورہ نساء کی پہلی آیت، سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۲،سورہ احزاب کی آیت نمبر ۷۰، ۷۱،اورسورہ حجرات کی آیت نمبر ۳۱۔اسی طرح نکاح سے متعلق احادیث مثلاً”النکاح من سنتی“ وغیرہ کاپڑھنابہتر ہے۔
مجلسِ نکاح میں تقریر کرنا
مجلس نکاح میں اردو یامادری زبان میں تقریرکرناجس میں نکاح کی فضیلت، مسائل واحکام، اور میاں بیوی کے فرائض وحقوق کوبیان کرنااورانھیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرنامناسب ہے۔نیز طلاق وخلع کے نقصانات کو واضح کرنااوراس کے مسنون طریقہ کو بھی بیان کردینا مناسب ہے۔
میاں بیوی کو مبارکباد دینا
نکاح کے بعد میاں بیوی کو دعا اورمبارک باددیناسنت ہے، مبارکبادی کے الفاظ حدیث میں اس طرح منقول ہیں: بَارَکَ اللہُ لَکُمَا وَجَمَعَکُمَا فِی خَیْرٍ۔ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس نکاح میں برکت دے اورتم دونوں میاں بیوی کو خیر میں جمع کردے۔ (بخاری:۶۳۸۶)
نکاح کااعلان کرنا
حدیث میں ہے: أَعْلِنُوا ھٰذَا النِّکَاحَ، وَاجْعَلُوہُ فِی الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَیْہِ بِالدُّفُوف۔ (ترمذی:۱۰۸۹)، یعنی کھلے عام نکاح کرو،اس کو مسجد میں قائم کرواوردف بجاؤ؛تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں اورفلانہ کے درمیان نکاح ہواہے۔
نکاح کا وقت
نکاح کا کوئی وقت مقررنہیں ہے؛ البتہ شوال کے مہینے میں اور جمعہ کے دن نکاح کرنامستحب ہے؛ کیوں کہ نبی کریم … کاحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماہ شوال میں اورجمعہ کے دن نکاح کرنا منقول ہے۔ (الدرالمختارعلی ردالمحتار:۳/۸)
ولیمہ کرنا
نکاح کے فوراًبعد چھوارے یاکوئی میٹھی چیز تقسیم کرنامستحب ہے،اسی طرح نکاح کی خوشی میں ولیمہ کرنابھی لڑکے کے لیے مستحب ہے۔اسے چاہیے کہ اپنے اعزہ واقربہ کو اپنی وسعت کے مطابق کھاناکھلائے؛ بشرطے کہ کوئی نام ونمود نہ ہواورفضول خرچی نہ ہو۔کھاناکھلانے کے تعلق سے لڑکی یا اس کے گھر والوں پر کوئی چیز واجب یامستحب نہیں ہے۔ولیمہ کرنے کے نام پر لڑکے والے کالڑکی والے سے کچھ مانگنادرست نہیں۔اگر وسعت نہ ہوتوولیمہ ہی نہ کرے؛ مگردوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔
نکاح نامہ کی حیثیت
نکاح نامہ کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے،بعض دفعہ اس کی ضرورت پڑ تی ہے؛ اس لیے نکاح نامہ تیار کرالینابھی بہترہے؛تاہم اس کے بغیربھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
نکاح کارجسٹریشن کرانا
متعلقہ سرکاری دفترمیں جاکرنکاح کارجسٹریشن کرالینا چاہیے؛ تاکہ سرکاری طورپر بھی نکاح کا ریکارڈ رہے؛ البتہ رجسٹریشن کیے بغیر بھی نکاح شریعت کی نظرمیں صحیح ہوجاتا ہے۔
از: قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، ناگپاڑہ، ممبئی
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1511691581%2006-Nikah_Usul_Zawabit_MDU_10_Oct_17.htm
No comments:
Post a Comment