Monday, 28 July 2025

یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟

 یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟

-------------------------------

غزہ جل رہا ہے، آسمان خاک آلود ہے، زمین لہو سے لالہ زار!

ماں کی گود میں تڑپتے معصوم، بھوک کی چٹان سے ٹکرا کر دم توڑ رہے ہیں،

مائیں اپنی چھاتیوں سے خون چوسوانے پر مجبور ہیں،

اور امتِ مسلمہ کے ایوانوں میں بے حسی کا جنازہ اٹھ چکا ہے!

عالم اسلام کے سپہ سالار، حکمران اور جرنیل

سہولتوں کے قلعوں میں بیٹھے،

چائے کی چسکیوں میں شریعت اور حمیت کا خون پی رہے ہیں!


اے عاصم خالی!

اے پاکستان کے نام نہاد فولادی لشکر کے سپہ سالار!

تو نے لا الٰہ الا اللہ کا ورد پڑھ کر عہد کیا تھا کہ “جہاں ظلم ہوگا، وہاں تیغ اٹھے گی”

تو نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ “ہم اسلام کے محافظ ہیں”

تو پھر آج تیرے توپ خانے پر موت کا سکوت کیوں طاری ہے؟

کیا تیرے میزائل غزہ کی سمت اُڑنے سے انکاری ہیں؟

کیا تیرے ڈرون صرف افغان بچوں کے لیے رہ گئے ہیں؟

کیا تیری گولیاں صرف اپنی قوم کے مظلوموں پر برسنے کے لیے بنائی گئی ہیں؟


تو کہاں ہے، جنرل؟

کیا تیری وردی کا وقار صرف تقریروں، پریڈوں اور ٹی وی اشتہاروں تک محدود رہ گیا؟

کیا غزہ کے خون آلود بستروں پر سسکتے نوزائیدہ تیرے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں؟

کیا وہ معصوم بچی، جو اپنے شہید باپ کے سینے سے لپٹ کر دم توڑ گئی —

تیرے آہنی دل کو نہیں چیر سکی؟


اے وردی پوش!

یہ وردی عزت ہے یا زنجیر؟

یہ ستارے کیا صرف یونیفارم کی زیبائش ہیں؟

یا پھر شہداء کے لہو کی قسمیں، جنہیں تم نے بھلا دیا؟

تاریخ نہ تمہیں تمغوں سے یاد رکھے گی، نہ تمہاری پریس کانفرنسوں سے —

بلکہ وہ تمہیں پکارے گی:

“یہ وہ سالار تھا،

جو کعبہ کی سمت چلنے کے بجائے

اپنے اقتدار کے بت کو سجدہ کرتا رہا!”


اب سن لے، جنرل!

 جب غزہ کے بچے بھوک سے مر رہے تھے، تو تم میٹنگ میں تھے!

جب بیت المقدس کی ماؤں نے چیخ کر مدد مانگی، تو تم پروٹوکول کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے!

 جب تاریخ نے امت کے محافظ کو پکارا، تو تم خاموشی کی پناہ میں چھپ گئے!

 جب تمہارے میزائل غزہ کے لیے نکلنے چاہیے تھے، تو وہ مظاہروں کو کچلنے میں استعمال ہو رہے تھے!


اے نام نہاد سالارو!

یاد رکھو —

غزہ کے ایک بچے کی آہ، تمہاری پوری فوج کی بنیادیں ہلا سکتی ہے!

ایک شہید ماں کی سسکی، تمہارے توپ خانے کو راکھ میں بدل سکتی ہے!

اور ایک زخمی باپ کی فریاد، تمہارے تمام میڈلز کو خاک میں ملا سکتی ہے!


اٹھو! اگر ایمان باقی ہے

تو راکٹوں کی زبان میں جواب دو —

ورنہ اپنی وردی اتار کر

کسی مصلحت کے قبرستان میں دفن ہو جاؤ!


اور اب آو، نظر دوڑاؤ “خادمِ حرمین” کے ایوانوں کی طرف—

جہاں سونے کے محلوں میں رقصِ شیطانی کی محفلیں سجی ہیں،

جہاں بن سلمان کی محافل میں موسیقی کی لے پر کعبہ کی سمت پیٹھ کر کے، دنیاوی تاج کے لیے سجدے کیے جا رہے ہیں!


اے  بن سلمان!

تو نے اپنے باپ دادا کی غیرت بیچ دی!

تو نے حرمین کی عظمت کے بدلے ہالی ووڈ کا گلیمر خریدا!

تو نے ان ہاتھوں کو تھاما جن کے خون میں معصوم فلسطینی بچوں کی چیخیں بسی ہیں!

تو نے اسرائیلی قاتلوں کو اپنی سرزمین کی چاندنی بخش دی،

اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو بھوک، بارود اور بے کسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا!


تو عیاش شہزادہ!

تُو ساحلوں پر فیشن شو کروا کر سمجھتا ہے کہ یہ ترقی ہے؟

تُو سمجھتا ہے کہ بیت المقدس کے سودے پر تیرے محلات مضبوط ہو جائیں گے؟

یاد رکھ —

جب حطین کا سلطان ایوبی پلٹ کر آئے گا،

تو نہ تیری آرائش بچے گی، نہ تیری بادشاہی!


تُو “خادمِ حرمین” کہلاتا ہے —

لیکن تیرے دربار میں یروشلم کے غاصب سفیروں کے لیے قالین بچھتے ہیں،

جبکہ مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر گولیوں کی بارش ہوتی ہے!

تُو کس امت کا خادم ہے؟

جس کے دشمنوں کے ساتھ رقص کرتا ہے؟

جس کی مظلوم بیٹیوں کی چیخوں پر تیری موسیقی تیز ہو جاتی ہے؟


بن سلمان سن لے!

تُو کعبہ کا سایہ لے کر، تل ابیب کے خواب دیکھتا ہے؟

تُو حرم کی مٹی میں غداروں کے قدم بساتا ہے؟


تُو محمد ﷺ کے نام پر حکومت کرتا ہے، مگر یہود کا جھنڈا بلند کرتا ہے؟


یاد رکھ!

خانہ کعبہ کے طواف کرنے والے عرب،

ایک دن تیری بادشاہی کا طواف ختم کر دیں گے!

اور فلسطین کی ماؤں کے آنسو،

تیرے تیل سے بھی زیادہ جلانے والی آگ بن جائیں گے ان شاء اللہ !


اور وہ باقی عیاش حکمران!


ذرا قاہرہ کی گلیوں کی طرف دیکھو —

جہاں ایک جنرل، جس نے اپنے ہی عوام کا خون بہایا،

اب اسرائیلی خوشنودی کے عوض فلسطین کی لاشوں پر خاموش ہے!

نہ زبان کھلتی ہے، نہ سر اٹھتا ہے —

بس کرسی ہے، اقتدار ہے، اور امریکہ کا سایہ ہے!


اور ابوظہبی کے شہزادے!

جنہوں نے اپنے محلات کو اسرائیلی پرچموں سے آراستہ کیا،

جن کی راتیں تماشوں میں گزرتی ہیں،

اور جنہوں نے القدس کے سودے کو “امن” کا نام دے کر پوری امت کو فریب دیا!


یہ سب نئے فرعون ہیں —

جن کی تلواریں صرف اپنی عوام کے خلاف چلتی ہیں،

جن کے دل امت کے درد سے خالی،

اور جن کی زبانیں صیہونی ظلم کے سامنے گونگی ہیں!


یاد رکھو!

فلسطین کے بچوں کا لہو، نہ تمہیں چھوڑے گا، نہ تمہارے محلات کو!

جب تاریخ جاگے گی —

تو نہ تمہارا تیل بچے گا، نہ تمہاری تخت گاہیں!

بس باقی رہ جائے گا…

اللہ، مظلوم، اور شہید کا لہو!

(۳۰ محرم ۱۴۴۷ ہجری)