Sunday, 4 September 2022

حق کو اپنی پسند کے تابع نہ کریں

حق کو اپنی پسند کے تابع نہ کریں
-------------------------------
--------------------------------
انسانی فطرت میں مقابلہ آرائی، تصادم، تقابل، تغالب، مشاجرت ومخاصمت عداوت و چپقلش داخل ہے۔ باہمی حمایت ونصرت کا جذبہ بہت کم ہے، انسانوں کے باہمی تنازعات ومخاصمات کے ازالہ اور ان کے مابین عدل وانصاف کی فراہمی کے لئے کسی ایسے نظام کی سخت ضرورت تھی جو انسانی معاشرے میں پورے اعتدال وتوازن کے ساتھ مضبوط ومستحکم اور صاف وشفاف بنیادوں پر عدل وانصاف فراہم کرسکے، جس کے ذریعے ان کے باہمی جھگڑے و قضیے چکائے جاسکیں. اسی نظام کو "نظام قضاء اور عدل وانصاف" کہتے ہیں. عدل وانصاف کا قیام ونفاذ نظام کائنات کی جان اور شہ رگ ہے، انسانی معاشرے کا لازمی عنصر اور اس کے بقاء وتحفظ کا ضامن ہے، عدل وانصاف اسلامی ریاست کی اولیں ذمہ داری ہے 
حق کے مطابق فیصلہ کرنے "القضاء بالحق" کو "عدل" اور حقدار کو اس کا برابر حق دلادینے کو "قسط" کہتے ہیں. قرآن کریم کی قریب 29 مقامات میں عدل اور قریب 17 آیات میں قسط بمعنی انصاف کی اہمیت مختلف اسالیب میں بیان کی گئی ہے. عدل وانصاف کی تکمیل کے لئے ہی اللہ نے انبیاء و رسول علیہم الصلوۃ والسلام بھیجے۔ عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل بعثت انبیاء کا مقصد ہے. حق کے ساتھ فیصلہ کرنا اللہ کی شان ہے، اس نے اپنے نبیوں کو بھی اسی کی ہدایت کی. نبی آخرالزماں نے نہ صرف انسانوں میں عدل وانصاف قائم کرکے دکھایا بلکہ بیشمار اصولی ہدایات عطا فرمائی ہیں جو تاقیامت انسانی معاشرے میں اعتدال وتوازن پیدا کرنے کے لئے چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں، انسانی معاشرے میں عام انسانوں کے لئے اس کی شرعی حیثیت فرض کفایہ کی ہے. یعنی کچھ مسلمان اسے ادا کردیں تو بقیہ کے ذمے سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے؛ لیکن اسلامی خلیفہ اور فرماں روا کے حق میں یہ فرض عین ہے. لوگوں کو آپسی تصادم وٹکرائو سے بچانے، ظالم کا پنجہ مروڑنے، مظلوم کا ساتھ دینے، جھگڑوں کو چکانے اچھائیوں کا حکم اور منکرات سے روکنے جیسی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اس کی فرضیت عمل میں آئی ہے: 
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ 
إِلَيْكَ [المائدة: 49]
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (النور 51)
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُواْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا. (النساء - 65)
إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَىٰكَ ٱللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا (النساء - 105)
يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ. (ص 26)
وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط إن الله يحب المقسطين. [المائدة 42] .
ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون.[المائدة 44] .
ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون. (المائدة 45] 
ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون. [المائدة 46] 
فاحكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم عما جاءك من الحق. [المائدة 48] 
وأن احكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم واحذرهم أن يفتنوك عن بعض ما أنزل الله إليك [المائدة 49] 
عدل وانصاف اور حکم و قضاء کی بنیاد پیش کردہ دلائل و شواہد ہے. دلائل شواہد سے ثابت شدہ حق اور سچ کے برخلاف فیصلہ دینے کی سنگینی اوپر کی آیات میں واضح ہے، دوسرے کے لئے اپنی عاقبت خراب کرنے والا "منصف" نرالا احمق ہے. اس ذیل میں اس کڑوی حقیقت کا ذکر کئے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ ہم انسانوں کی خواہش من پسند اور مرضی کے فیصلے لینا ہوتی ہے. فراہمی انصاف میں جب شواہد سے انحراف کرکے کسی کی پسند وناپسند کو بنیاد بنایا جانے لگے تو اسی سے معاشرے میں پریشانیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے. حق وسچ کو حق وسچ رہنے دیا جائے. اسے اپنی پسند، مرضی ومشیت کے تابع نہ کردیا جائے:
وَاِذَا قٌلْتٌمْ فَاعْدِلٌوا وَلَوْ کَانَ ذَا قٌرْبٰی (الانعام: 152)
’’انصاف کی بات کرو چاہے اس کی زد میں تمہارا رشتہ کیوں نہ آئے ۔‘‘
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post.html


No comments:

Post a Comment