Monday, 29 August 2022

خودکشی کے اس واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا

خودکشی کے اس واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا 

بقلم: محمد قمر الزماں ندوی 

گزشتہ روز یعنی 27 (ستائیس) اگست 2022 کو مرادآباد ریلوے اسٹیشن پر مولوی صادق سنبھلی نے ٹرین کے آگے کود کر خودکشی کرلی، اس خبر کے عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر طوفان مچ گیا، چہ جائیکہ اس عمل کی شناعت بیان کی جاتی، اسباب و عوامل پر غور کیا جاتا، اصل واقعہ کے تہہ تک پہنچا جاتا، ساری ہمدری صرف مولوی صادق مرحوم کے ساتھ دکھانا شروع کردیا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جانے لگی کہ مدرسہ اور مسجد کے ناگفتہ حالات اور معاش سے تنگ آکر اس بیچارے نے اپنی جان گنوا دی، اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ خود کشی کی شناعت اور اس فعل کے حرام ہونے کا ذکر ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ 

سارا الزام اور قصور مدرسہ اور مسجد کے ذمہ داران پر تھوپنا شروع کردیا اور منتظمین مدرسہ کو اس واقعہ کا ذمہ دار اور وجہ قرار دیا گیا، یقینا مدارس کے نظام میں کمیاں اور خامیاں ہیں، اساتذہ کی تنخواہیں اس ہوش ربا گرانی میں بہت کم ہیں، ان کے مسائل کے انبار ہیں، (اس پر مستزاد یہ کہ کچھ ذمہ داران مدارس کے آس پاس بعض ایسے گھاگ قسم کے اساتذہ ہالہ بنائیں رہتے ہیں، جو ساری عنایات و توجہات اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور دوسروں کو ہمیشہ محروم کئے رہتے ہیں، اساتذہ کے عزل و نصب میں یہ بری طرح دخیل ہوتے ہیں، بعض جگہ اساتذہ کو اتنا بدلا اور ہٹایا جاتا ہے، جیسے عرب کے لوگ باندی بدلتے رہتے تھے) 

یقیناً مدارس کے اساتذہ کیلئے دقتیں اور پریشانیاں ہیں،ان کی خواہشات تو دور کی بات ہے، ان کی بنیادی ضرورتیں بھی اس تنخواہ سے پوری نہیں ہوپاتیں، اس لئے ذمہ داران مدارس کو عمارتوں کی تعمیرات سے زیادہ اساتذہ کے مسائل اور ان کی ضروریات پر توجہ دینی چاہئے۔ لیکن اساتذہ کی بھی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اپنے اندر صبر، شکر پیدا کریں۔ اعتماد، بھروسہ، ہمت، حوصلہ اپنے اندر پیدا کریں، اور خدا کی ذات پر توکل اور یقین رکھیں، بے صبری، بے اعتمادی اور حالات سے بہت جلد متاثر اور مرعوب اور گھبرا کر ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں جو شریعت کی نگاہ میں سنگین گناہ اور بہت بڑا جرم ہے اور جس کی معافی بھی نہیں ہے۔ 

کل کے اس اندوہناک واقعہ کے تمام پہلو پر نظر ڈالنے اور غور و فکر کے بعد راقم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اس واقعہ میں ادارہ کے ذمہ داران اور مسجد کے متولی اور مصلیان کو موردالزام ٹہرانا درست نہیں ہے، مولوی صاحب ذہنی و اعصابی کشیدگی اور یاسیت کے شکار تھے، مالی دشواری اور دقت و پریشانی اس واقعہ کا سبب کم ہے، مسجد اور مدرسہ اور دیگر ذرائع سے اس کی ماہنامہ آمدنی بائیس سے چوبیس ہزار تھی، جس سے ایک متوسط فیملی کا گزربسر آسانی سے ہوسکتا ہے، معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرحوم کے برادران بنسبت ان کے زیادہ خوشحال اور متمول تھے، وہ لوگ بھی ان کی دامے درمے تعاون کرتے رہتے تھے۔ لیکن خواہشات کی تو کوئی انتہا نہیں ہے، اگر لاکھوں تنخواہ مل جائے اور خرچ میں توازن اور اعتدال نہ ہو تو نصف مہینہ نہیں گزر پائے گا کہ اس کا ہاتھ خالی ہوجائے گا اور ادھار اور قرض کی نوبت آجائے گی، لیکن شعور اور سوجھ بوجھ سے انسان کام لیتا ہے، تو قلیل آمدنی میں بھی مہینہ کا خرچ پورا ہوجاتا ہے اور وقت ضرورت کے لئے کچھ بچا بھی لیتا ہے، اس لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اسراف اور فضول خرچی سے بچو، آمدنی کے اندر خرچ کرو اور اخراجات و خرچ  کا ایک نظام اور ترتیب قائم کرو۔ 

راقم الحروف کی تقرری مدرسہ نورالاسلام کنڈہ میں ۱۹۹۷ء یا ۱۹۹۶ء کے اختتام میں تیرہ سو روپے پر ہوئی اور آج پچیس چھبیس سال گزرنے کے بعد بھی تنخواہ پندرہ ہزار تک نہیں پہنچی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس مدرسہ میں اساتذہ کو بعض سہولیات اور رعایتیں ایسی ہیں، جو دوسرے مدرسوں میں کم ہیں، لیکن الحمدللہ تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کرتا ہوں کہ کبھی کسی کے سامنے بے چینی، بے کسی، بے بسی، بے کلی اور پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کی دولت پیسے اور عہدے اور منصب سے متاثر اور مرعوب ہوا، جہاں اور جس ماحول میں گیا اپنے عالمانہ وقار اور طمطراق سے گیا، پوری جرأت اور ہمت سے اپنی بات کو رکھا۔ اس کی گواہی وہ سارے لوگ دیں گے جو مجھ سے آشنا اور واقف ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ کتابوں سے اور قلمی کاوشوں سے بھی سالانہ کچھ نا کچھ آمدنی ہوتی ہے، بعض احباب اور رفقاء بھی میری محنتوں سے خوش ہوکر کبھی کبھی اکرامیہ سے نواز دیتے ہیں۔ ایک رقم والدہ محترمہ کی طرف سے سالانہ ملتی ہے، جس سے عیدالفطر بقرعید کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں، یہ اسی خدمت کا معاوضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ضروری خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے۔ 

طالب علمی کے زمانے میں ہی ارادہ کرلیا تھا کہ فراغت کے بعد مدرسہ میں رہ کر دین کی خدمت کروں گا اور درس و تدریس کو ہی اپنی زندگی کا حصہ بناؤں گا، یہ میری ذاتی پسند اور چوائس تھی، سرکاری نوکری بھی مل رہی تھی، بلکہ زور دیا جارہا تھا کہ بورڈ مدرسہ میں رہو اور یہیں سے علم کی روشنی پھیلاؤ۔ لیکن میں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔۔ 

والد صاحب مرحوم سرکاری ٹیچر تھے. ان کہنا تھا کہ آگے جہاں تک پڑھو میری طرف سے اجازت ہے، علی گڑھ چلے جاؤ، جامعہ ملیہ میں داخلہ لے لو۔ لیکن ہم نے اس میدان کو ترجیح دی۔ مجھے اپنے اس انتخاب پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا اور یک بگیر محکم بگیر کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے، ستائیس سال سے اس مدرسہ میں خدمت انجام دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس راہ کا انتخاب وہی کرے جو حالات و مسائل کو جھیل اور برداشت کرسکتا ہو، دقتوں کا سامنا کرسکتا ہو، ورنہ صحیح تو یہ ہے کہ جس کو جان و دل عزیز وہ اس گلی میں آئے کیوں؟ 

(S_A_Sagar#)

http://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_68.html








سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے لئے تیاری کیسے کریں؟

سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے لئے تیاری کیسے کریں؟
جسٹس جناب جی ایم اکبر علی نے بہت اچھے اور واضح انداز میں سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کو سمجھایا ہے۔ براہ کرم اس تفصیل کو غور سے پڑھیں اور دعسروں کے ساتھ شیئر بھی کریں۔ 
کسی شخص کے قانونی طور پرہندوستانی شہری ہونے کے حوالہ سے شہریت ایکٹ 1955 کیا کہتا ہے؟
مندرجہ ذیل کام کرلیں:
۱۔ اپنے گھر میں موجود ہر فرد کی تاریخ پیدائش نوٹ کرلیں۔
۲۔  ان تاریخ پیدائش کو تین حصوں میں تقسیم کرلیں۔
الف) وہ جو یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوئے۔
ب) وہ جو یکم جولائی 1987 اور 31 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوئے۔
ج) وہ جو 31 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہوئے۔
۳۔ جو لوگ یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوئے ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ یا پاسپورٹ میں سے کوئی ایک  لازمی طور پر ہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ان کے پاس موجود ہے تو، ان کو پیدائشی طور پر براہ راست ہندوستانی مانا جائے گا۔ ان کو کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
٤۔ یکم جولائی 1987 کے بعد پیدا ہونے والے تمام افراد اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ ضرور موجود ہو۔ اگر ان کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہے تو:
الف)  والدین میں سے کوئی ایک جو جولائی 1987 اور دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوا ہے وہ  ہندوستانی ہونا چاہئے۔ 
ب) ان کے والدین میں سے کسی کا سن پیدائش یا نام، پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ پر یکساں ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہے تو، وہ بھی نسل کے لحاظ سے ہندوستانی مانے جائیں گے۔ کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
۵۔ 31 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کے والدین اگر (شہریت ایکٹ 1955 کے مطابق) ہندوستانی ہوں اور ان کے نام ان کے سرٹیفکیٹ سے میچ ہورہے ہوں تو وہ بھی نسلا ہندوستانی ہیں۔ کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
مذکورہ تفصیلات کی بنیاد پر ہر شخص اپنے گھر کا جائزہ لے اور ان لوگوں کی فہرست بنالے جن کے پاس پاسپورٹ یا پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔
پاسپورٹ بنوانے کے لئے:
آدھار کارڈ، پین کارڈ اور راشن کارڈ کے ذریعہ پاسپورٹ بنوایا جاسکتا ہے۔ یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ 
پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے:
الف) اگر آپ کی پیدائش اسپتال میں ہوئی ہے تو، اس علاقہ/ گاؤں/ تعلقہ/ کارپوریشن آفس جائیں جہاں وہ اسپتال واقع ہے اور اپنی تفصیلات کے ساتھ وہاں درخواست دیدیں۔ یہ کام بھی آسانی سے ہوجاتا ہے۔ اس کی فیس صرف ۲۰۰ روپے ہے۔
ب) اگرآپ گھر میں پیدا ہوئے ہیں تو، نوٹری تصدیق کے ساتھ ایک حلف نامہ تیار کرلیں کہ آپ کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ پھر اسےاپنے گاؤں/ تعلقہ/ کارپوریشن آفس میں جمع کردیں۔ اس آفس سے آپ کو اس بات کا ثبوت فراہم کیا جائے گا کہ آپ کے پاس واقعی میں  پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ اس ثبوت کوآپ ڈسٹرکٹ کورٹ میں جمع کروادیں۔ وہاں آپ سے 200 روپئے سالانہ کے اعتبار سے جرمانہ وصول کرکے سرٹیفکیٹ فراہم کردیا جائے گا.
بس کام مکمل!
اگر اس طرح سے آپ کا کام ہوگیا ہو تو کم از کم ایک گھروالوں کی ان کے کاغذات بنوانے میں آپ بھی مدد کریں اور ان سے بھی کہیں کہ وہ کسی دوسرے اورکی مدد کریں۔ ان شاء اللہ اس طرح سےہم معاشرے میں کسی کو چھوڑے بغیر ہر ایک کے ہندوستانی ہونے کی قانونی دستاویز بنواسکتے ہیں۔
پی سید ابراہیم ایڈووکیٹ
 ہائی کورٹ، چنئی
(براہ کرم اس پیغام کو دوسروں کے ساتھ شیئر بھی کریں۔) S_A_Sagar#
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_29.html


How to prepare for CAA, NPR & NRC? 
Justice Mr. G. M. Akbar Ali explained CAA, NPR & NRC very  accurately and clearly.  Please read this description carefully and share with others. 
How can a person be legally certified as an Indian under the 1955 Citizenship Act?

Do each of the following:

1. Write down the Date of Birth of everyone in the house.

2. Divide it into three categories:

A.  Those born before July 1, 1987

B. Those born between July 1, 1987 and December 31, 2004

C. Those born after December 31, 2004.

3. Now, make sure that those born before July 1, 1987 have either a birth certificate or a passport.  If so, they are directly Indians by birth.  No other evidence is required.

4. All those born after July 1, 1987 must ensure to have a birth certificate.  If they have,

A. Make sure that one of the parents born between July 1987 and December 2004 is Indian.  

B. Make sure that one of their parents' birth, name and other details in the passport exactly match with birth certificate.  If so, they are also Indians by descent.  No other proof is required.

5. Both parents of persons born after December 2004 must be Indian and their names must match exactly in their certificates.  If so, they are also of Indian descent.  No other proof is required.

Based on the above, each person should check at home and take the list of those who do not have a passport or birth certificate.

To get a passport,  Aadhar Card, Pan Card or Ration card can be submitted and get a passport.  It's easy.

To get birth certificate:

1. If you were born in a hospital, go to the Area Village / Taluka / Corporation office where the hospital is located and apply with details. The cost is only 200 rupees.  Its available easily.

2. If born at home,

Prepare an affidavit with notary attestation stating that there is no birth certificate and submit it at your village / taluk / corporation office.  They will give a proof that there is no birth certificate. Submit it to the District Court.  A fine of  200 per year will be charged and the certificate be provided.

That's all.

If this helped you, try to help at least one house do this.  Ask them to do the same for someone else.  In sha Allah we can create a legal document for everyone to be Indian without leaving anyone in the society.
P. Syed Ibrahim Advocate 
 High Court Chennai.
(Please Share with Others)
S_A_Sagar#
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_29.html


Thursday, 25 August 2022

قرآنِ پاک پر اعراب کس نے لگوائے؟

قرآنِ پاک پر اعراب کس نے لگوائے؟
سوال
کیا یہ بات صحیح ہے کہ قرآنِ پاک پر اعراب حجاج بن یوسف نے لگوائے ہیں؟  کیا اس سے پہلے لوگ اعراب کے بغیر قرآن پڑھتے تھے؟
جواب
واضح رہے کہ قرآنِ پاک تو ابتدا سے ہی اعراب سمیت پڑھا جاتاہے، البتہ ابتدا  زمانے میں قرآنِ پاک کے نسخوں اور تحریرات میں عربی کے قدیم رسم الخط کے مطابق نقوش پر نقطے اور  اعراب نہیں لگے ہوتے تھے، لوگ نقطے اور اعراب لگائے بغیر ہی الفاظ کا تلفظ سمجھ جاتے تھے، چناں چہ قرآنِ مجید بھی پڑھ لیا کرتے تھے،  لیکن جب عجمی لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے اور ان کو بغیر اعراب اور نقطوں کے قرآن پڑھنے میں مشقت ہونے لگی، تو حضرت ابو الاسود دؤلی رحمہ اللہ  نے قرآن پاک پر نقطے اور اعراب (حرکات) لگانے کی ابتدا فرمائی، اس کے بعد حجاج بن یوسف کے حکم سے تین حضرات (حسن بصری، یحیی بن یعمر، نصر بن عاصم رحمہم اللہ) نے اس کی تکمیل فرمائی۔ (ماخوذ از  ’’علوم القرآن‘‘،  مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106201233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
--------------------------------------------------------

ٱلْحَرَامِ ۖ وَٱذْكُرُوهُ كَمَا هَدَىٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ

ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسْتَغْفِرُواْ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَٰسِكَكُمْ فَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنْ خَلَٰقٍۢ

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ

أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

------------------------------


قْنَٰكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَآءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍۢ يَعْقِلُونَ

بَلِ ٱتَّبَعَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَهْوَآءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۖ فَمَن يَهْدِى مَنْ أَضَلَّ ٱللَّهُ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّٰصِرِينَ

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ

ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَا 

----------------------------------------------

الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلا ......................( إلى قوله تعالى ) وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ أَفَلَمْ يَكُو
الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلا ......................( إلى قوله تعالى )
وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ أَفَلَمْ يَكُو
-------------------------
S_A_Sagar#
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_25.html

Wednesday, 24 August 2022

عدت کے دنوں میں بناؤ سنگار کی کوئی بھی چیز استعمال نہ کیجائے

عدت کے دنوں میں بناؤ سنگار کی کوئی بھی چیز استعمال نہ کیجائے
راوی: وعن أم سلمة قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه و سلم حين توفي أبوسلمة وقد جعلت علي صبرا فقال: "ما هذا يا أم سلمة؟" . قلت: إنما هو صبر ليس فيه طيب فقال: "إنه يشب الوجه فلا تجعليه إلا بالليل وتنزعيه بالنهار ولا تمتشطي بالطيب ولا بالحناء فإنه خضاب." رواه أبوداؤد والنسائي
(2/257) (3334 – [ 11 ]) (لم تتم دراسته)
وعنها عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: "المتوفى عنها زوجها لا تلبس المعصفر من الثياب ولا الممشقة ولا الحلي ولا تختضب ولا تكتحل." رواه أبوداؤد والنسائي
اور حضرت ام سلمہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں روایت کرتی ہیں کہ جب میرے پہلے شوہر ابوسلمہ کا انتقال ہوا اور میں عدت میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میں نے اپنے منہ پر ایلوا لگا رکھا تھا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ام سلمہ یہ کیا ہے؟ یعنی تم نے عدت کے دنوں میں منہ پر یہ کیا لگا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ تو ایلوا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خوشبو نہیں ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مگر ایلوا چہرے کو جوان بنا دیتا ہے یعنی ایلوا لگانے سے چہرہ چمکدار ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ نکھر جاتا ہے. لہذا تم اس کو نہ لگاؤ. ہاں اگر کسی وجہ سے لگانا ضروری ہی ہو تو) رات میں لگالو اور دن میں صاف کرڈالو کیونکہ رات میں استعمال کرنے سے بناؤسنگار کا گمان ہوتا ہے) اسی طرح خوشبودار کنگھی بھی نہ کرو اور نہ مہندی کے ساتھ کنگھی کرو کیونکہ مہندی سرخ رنگ لئے ہوتی ہے اور اس میں خوشبو ہوتی ہے  جبکہ یہ سوگ کی حالت میں ممنوع ہے. میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! پھر میں کس چیز کے ساتھ کنگھی کروں. یعنی اپنے بالوں کو کس چیز سے صاف کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیری کے پتوں کے ساتھ کنگھی کرو اور ان پتوں سے اپنے سر کو غلاف کی طرح ڈھانپ لو یعنی بیری کے پتے اپنے سر پر اتنی مقدار میں ڈالو کہ وہ تمہارے سر کو غلاف کی طرح ڈھانپ لیں (ابوداؤد نسائی)
تشریح: خوشبودار تیل کے بارے میں تو علماء کا اتفاق و اجماع ہے کہ عدت والی عورت اس کا استعمال نہ کرے البتہ بغیر خوشبو کے تیل مثلا روغن زیتون و تل کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تو بغیر خوشبو کا تیل لگانے بھی منع کرتے ہیں. البتہ ضرورت و مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت دیتے ہیں اور حضرت امام مالک حضرت امام احمد رحمہم اللہ اور علماء ظواہر نے عدت والی عورت کے لئے ایسے تیل کے استعمال کو جائز رکھا ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔
اور حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس عورت کا خاوند مرجائے وہ نہ کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہنے نہ گیرہ میں رنگا ہوا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے نہ ہاتھ پاؤں اور بالوں پر مہندی لگائے اور نہ سرمہ لگائے (ابوداؤد نسائی)
تشریح: اگر سیاہ اور خاکستری رنگ کے کپڑے پہنے تو کوئی مضائقہ نہیں  اسی طرح کسم میں زیادہ دنوں کا رنگا ہوا کپڑا کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو پہننا بھی درست ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالا عورت کو کسی عذر مثلا کھجلی یا جوئیں یا کسی بیماری کیوجہ سے ریشمی کپڑا پہننا بھی جائز ہے۔
(مشکوۃ شریف۔ جلد سوم۔ عدت کا بیان۔ حدیث 527) (عدت کے دنوں میں بناؤسنگار کی کوئی بھی چیز استعمال نہ کیجائے)
-------
واضح رہے کہ ایلوا (Aloes)۔ مصبّر اور صبر اس کا نام ہے۔ ایک درخت کا جما ہوا انتہائی کڑوا نچوڑ۔ ایلوائی جنس کا ایک سدا بہار پودا۔ اس کا پھل نہایت کڑوا ہوتا ہے اور مختلف دواؤں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پتے سخت دندانے دار اور پھول سرخ یا زرد ہوتے ہیں۔ پودے کی کھال سے ڈوریاں اور جال وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ یہ پودا جنوبی افریقہ میں خود رو حالت میں ملتا ہے۔ (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_67.html

کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو کبرسنی کے باعث طلاق دے دی تھی؟

کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو کبرسنی کے باعث طلاق دے دی تھی؟

 -------------------------------

--------------------------------
سوال: فقہ کی کتابوں میں باب القسم (بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا) میں جہاں بہت مسائل سے آتے ہیں ان میں ایک مسئلہ یہ بھی آتا ہیکہ اگر کوئی سوکن اپنی باری دوسری سوکن کو دینا چاہے تو دے سکتی ہے اور دلیل میں یہ پیش کیا جاتا ہیکہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیدیتی تھی. اس کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے اس میں قدرے اختلاف نظر آتا ہے. چنانچہ ہدایہ جلد ثانی کے حاشیہ میں امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہیکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دیدی تھی تو ایک دن آپ علیہ الصلاۃ والسلام نماز کے لئے نکلے تو انہوں نے آپ کا دامن پکڑلیا اور فرمایا کہ مجھے مردوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے. البتہ میری خواہش یہ ہیکہ روزمحشر میرا شمار آپ کی ازواج مطہرات میں ہو. اس لئے آپ مجھ سے رجوع فرمالیں. چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے رجوع فرمالیا. نیز حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میں اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیتی ہوں. جبکہ بعض مقامات پر ہیکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ صرف طلاق کا ارادہ کیا تھا، اگر مذکورہ دونوں باتوں کو مانیں تو معلوم یہ کرنا ہیکہ آخر کیا وجہ ہوئی تھی کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے طلاق دی تھی یا طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تھا؟؟ واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس کا جواب یہ دیا کہ کبرِسنی کی بنیاد پر آپ نے یہ عمل کیا تھا جبکہ یہ جواب نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی بنسبت بعید از عقل معلوم ہوتا ہے، اس کے برخلاف صاحب اعلاء السنن نے فتح الباری کے حوالہ سے لکھا ہیکہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ازخود اپنی باری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیدی تھی۔۔ دل لگتی بات تو فتح الباری کی ہی معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی اربابِ علم سے گذارش ہیکہ اس مسئلہ کو مزید منقح فرماکر ممنون و مشکور ہوں.
محمد واصف قاسمی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق:
اپنی باری گفٹ کردینے کی بات تو متعدد روایات سے ثابت ہے. البتہ اس کی وجوہات واسباب کے بارے متضاد باتیں نقل کی جاتی ہیں، من جملہ ان کے طلاق دے دینے سے متعلق روایات بھی ہیں؛ لیکن وہ روایات اسنادی حیثیت سے ضعیف ومنقطع ہیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بطیب خاطر بلا خوف طلاق از خود اپنی باری سیدہ عائشہ کو گفٹ کرنے اور اپنے حق جسمانی سے تنازل کرنے والی روایت صحیح اور ثابت ہے. جس کا مقابلہ منقطع روایات نہیں کرسکتیں. حضرت سودہ کا نکاح ہی غالباً پینسٹھ سال سے متجاوز ہونے کے بعد ہوا ہے. اس عمر میں شادی کا مقصد جسمانی تقاضوں سے لطف اندوزی قطعی نہیں ہوسکتا. جب یہ مقصد کبھی تھا ہی نہیں تو پھر کبرسنی کے باعث حضور کی طرف سے طلاق یا ارادہ طلاق بے معنی کی بات معلوم ہوتی ہے. ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ کی روایات:
۱: (عَنْ عروة بن الزبير قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ، وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَتْ: نَقُولُ: فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَفِي أَشْبَاهِهَا - أُرَاهُ قَالَ - : (وَإِنْ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزاً) .رواه أبو داود (2135) 
۲: عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَشِيَتْ سَوْدَةُ أَنْ يُطَلِّقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: "لَا تُطَلِّقْنِي، وَأَمْسِكْنِي، وَاجْعَلْ يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَفَعَلَ، فَنَزَلَتْ: (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ) . رواه الترمذي (3040)
یا ان جیسی روایات میں ان کا اپنے طور پہ کبر سنی کو باعث متارکت سمجھنے کی جو بات آئی ہے. وہ حضرت سودہ کا ذاتی استنتاج وقیاس ہے. شان رسالت مآب سے کبرسنی کے باعث ان کی تطلیق ثابت ہے نہ ارادۂِ تطلیق! بیہقی وغیرہ نے اس بابت جن روایات، پھر ان کی تبعیت میں مفسرین کرام 
"وإن إمرأة خافت من بعلها نشوراً" 
کے ذیل میں جن روایات یا اقوالِ مفسرین ذکر کئے ہیں: 
وہ ذیل کی روایت کے مقابل کھڑی نہیں ہوسکتیں، جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت سودہ کے اس عمل کا باعث محض رضاء نبوی طلب کرنا ہے، حضور کی جانب سے کبر سنی کے باعث طلاق کا خدشہ نہیں:  
"غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم تَبْتَغِى بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم" رواه البخاري (2453).
ایک شوہر دیدہ اور سن رسیدہ خاتون سے نکاح کا مقصد ہی حسن معاشرت کا کامل نمونہ پیش کرنا تھا، پھر کبر سنی کے باعث اسے حرم نبوی سے جدا کردینے کا فلسفہ ناقابل فہم ہے، کبر سنی کے باعث حضرت سودہ خود اندیشہ ہائے دوردراز (وسیع تر معنی ومفہوم میں) میں مبتلا ہوکر برضا ورغبت اپنی باری ایثار فرماگئیں، بخاری کی مذکورہ بالا روایت نے غلط فہمیوں کی بنیاد پر بنے گئے سارے جال یکسر کاٹ دی کہ حصول ثواب اور رضاء نبوی کے مقصد سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے ایثار کی یہ مثال قائم فرمائی. وہاں کوئی خوفِ طلاق دامن گیر تھا نہ معاشرتی جبر وجور کا ادنی خدشہ!
واللہ اعلم بالصواب 

(S_A_Sagar#) 

 https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_24.html


 

Monday, 22 August 2022

مسح علی الخفین کے شرائط واحکام

مسح علی الخفین کے شرائط واحکام 
-------------------------------
--------------------------------
٭ خفین طہارت کی حالت میں پہنے ہوں۔ 
٭ خفین پیر دھونے کے بعد پہنے ہوں۔ اور حدث سے پہلے وضو مکمل ہوگیا ہو۔ 
٭ خفین نے ٹخنوں کو ڈھانک لیا ہو۔ 
٭ خفین ۳ چٹّی انگلی کے برابر پھٹے ہوئے نہ ہوں۔ 
٭ پیروں پر بغیر باندھے ہوئے رک جانے والے ہوں۔ 
٭ ان دونوں موزوں کو پہن کر برابر چلنے والا ہو (چلنا ممکن ہو)
٭ مسح کے لئے ۳ چھوٹی انگلی کے بقدر پیر پر مسح کیا جاسکے۔ 
٭ مسح کے لئے مسح کرنے والی انگلیاں کھول کر پیر کی انگلیوں کی طرف سے پنڈلی کی جانب کھینچنے کا طریقہ اپنائے۔ 
(مسح کی مدت، کب تک کیا جاسکتا ہے)
٭ مقیم ایک دن رات تک مسح کر سکیگا.
٭ مسافر ۳ دن رات تک مسح کرسکے گا.
٭ مسح کی یہ مدت خفین کے پہننے کے وقت سے نہیں
بلکہ حدث وبے وضو ی لاحق ہونے سے ہے۔ 
٭ اگر مقیم نے مسح شروع کیا اور مدت پوری ہونے سے
پہلے وہ مسافر ہوگیا تو وہ مسافر کی مدت پوری کرلے گا.
٭اسی طرح اگر کوئی مسافر ایک دن رات پورا کرنے سے پہلے مقیم ہو جائے تو وہ اس مدت اقامت کو پورا کرے۔ 
٭ اور اگر کوئی مسافر ایک دن رات پورا کرنے سے پہلے مقیم ہوجائے تو وہ اپنی یہ مدت (اقامت) پوری کرلے گا۔ 
(مسح علی الخفین (موزوں کا مسح) کب ٹوٹ جائے گا کیسے ٹوٹ جائے گا)
1. جو چیز یں وضو کو توڑدیتی ہیں وہی موزوں کے مسح کو بھی توڑدیں گی.
2. موزوں کو اتار دینے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ
جائے گا.
3. قدم کا اکثر حصہ موزوں کی پنڈلی تک آ جانے سے
بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا.
4. مسح کی مدت پوری ہو جانے سے بھی موزوں کا
مسح ٹوٹ جائے گا.
5. پانی کسی ایک خف کے اکثر حصہ تک پہنچ جائے تو بھی ٹوٹ جائے گا.
عمامہ پر ۔ ٹوپی پر سر کے مسح کے عوض میں مسح
کرنا کافی وبدل نہیں ہو گا ۔ اسی طرح دستانوں پر بھی
دھونے کے عوض میں مسح کر لینا کافی نہیں ہوگا.
پٹّی (زخم پر باندھی ہوئی پٹی پر بھی) مسح کیا جاسکتا ہے جبکہ پٹی کو ہٹاکر دھونا ممکن نہ ہو دشوار ہو۔ 
اذیت رساں ہو۔ 
اس میں پٹی کے پاک حالت میں باندھنا شرط نہیں ہے۔ 
صحیح حصہ کو دھوکر پٹی والے حصہ کا مسح کرلیں گے۔ 
پٹی کے مسح کے لئے نیت شرط نہیں۔ 
پٹی گرجانے پر دوسری پٹی باندھ لیں گے اور دوسری پٹی پر مسح کرلینا اچھا ہوگا افضل ہوگا.
تیمم کے لئے تو نیت شرط ہے لیکن موزوں پر اور پٹی پر مسح کرنے کے لئے نیت شرط نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
(S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_22.html



Saturday, 20 August 2022

مركز البحوث الإسلامية العالمي کی ہدایات وگزارشات

مركز البحوث الإسلامية العالمي کی ہدایات وگزارشات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائے، خیالات اور نقطہائے نظر کا اختلاف مسلمانوں کی علمی روایات کا تابناک باب رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دینی، دنیوی اور حکومتی امور کے فہم کے ذیل میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف رائے ہوا۔لیکن کبھی بھی اس اختلاف پہ قدغن، بندش یا اسے محدود کردیئے جانے کا تصور پیدا نہ ہوا ۔فقہ حنفی کا سارا ذخیرہ اس کا اعلی نمونہ اور تابندہ نقوش ہے۔اختلاف رائے انسانی فکر کے زندہ ہونے کی پہچان ہے۔ بقول مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمه الله: 

’’اگر کسی کے دل میں یہ خواہش ہوکہ نظریات کے اختلاف مٹ جائیں تو یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ نظریاتی اختلاف کا مٹ جانا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے یا تو سب بے عقل ہوجائیں یا بددیانت‘‘۔ (رسالہ وحدت امت)

اقدار واخلاق، مروت، تحمل و برداشت کے ساتھ دلیل کی زبان میں مہذب،علمی اور شائستہ پیرایہ میں ہر کسی کے خیالات و نظریات سے  اختلاف کرنے کی گنجائش ہے۔بغیر دلیل ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنی پسند کسی پہ تھوپنے کا نام اختلاف نہیں، بلکہ تحکم ودادا گری ہے۔

ائمہ اربعہ نے بھی اختلاف کی یہ راہ کھلی چھوڑی ہے۔ یہ فکر سلیم کا حسن ونکھار ہے۔ یہ کسی شخصیت کی علمی عظمت وتقدس کے منافی نہیں۔

شرط یہ ہے کہ اختلاف، رائے سے ہو، ذات سے نہیں۔

افسوس ہے کہ آج کل فکری توسع کی اس راہ کو بند کردینے یا کم از کم تنگ کردینے کی کوشش ہورہی ہے۔علمی مسائل میں بھی اجتہادی بندش کے ساتھ غور وتدبر کی بندش کی بھی کوشش ہورہی ہے۔ جو حد درجہ افسوناک ہے۔

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ وہاٹس ایپ گروپ کا نشہ اپنے اعصاب پہ اس طرح سوار نہ کیجئے کہ ہر وقت اس پہ کچھ نہ کچھ ڈالا ہی جائے! 

بلکہ اسے افادہ واستفادہ کا ایک  دور رس و سہل ترین ذریعہ سمجھتے ہوئے برائے ضرورت اور قدر ضرورت ہی  استعمال کیجئے! اسے گیم یا سامان تفریح ہرگز نہ بنائیں۔

گروپ  مختلف مزاج، مذاق واذہان رکھنے والے افراد کی ایک عمومی مجلس کو کہتے ہیں۔

اس میں ضروری نہیں کہ ہر آدمی ہمارا ہم مزاج ہی ہو! اس لئے صبر وضبط اور قوت برداشت کے ساتھ ہمیں جڑے رہنا چاہئے۔

ممکن ہے ہم میں سے کسی کے  پاس خالی  وقت ہو۔لیکن گروپ کے ہر ممبر کا جیل کے قیدی کے مانند فارغ بیٹھے رہنا ضروری تو نہیں ہے ! اس لئے بلا ضرورت ہر در آمد کو اس حلقے میں برآمد (فارورڈ) کرکے علماء کرام کے تدریسی وتعلیمی مشاغل کو متاثر نہ کریں۔

علمی، تدریسی، تصنیفی، فقہی، ادبی، اصلاحی اور دعوتی لحاظ سے تسلیم شدہ صلاحیتوں اور خدمات کے حامل  جید اور قابل ترین فضلاء ومفتیان کرام کو اس علمی حلقے میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

افادہ اور استفادہ کو عام اور دور رس بنانے کے لئے ہم تمام لوگ درج اصول پہ توجہ دیں۔

1۔۔۔ جاندار کی تصاویر، حکومت، انتظامیہ یا کسی بھی سیاسی ودینی ادارے یا تنظیموں کے خلاف اہانت آمیز ریمارکس یا تبصرے وتجزئیے کی قطعا اجازت نہیں۔

2۔۔۔ دینی دعوتی، ادبی، فقہی وتاریخی مباحث پہ مشتمل صرف عربی یا اردو (ہندی اور رومن سخت ممنوع ہے) میں مضامین مشترک کرسکتے ہیں۔

3۔۔۔ گروپ میں مشترک کسی پوسٹ پر اعتراض ہو تو حلقہ میں مباحثہ کی اجازت نہیں۔ منتظم کو راست مطلع کریں۔

4۔۔۔ کسی ساتھی کو شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے مختصر تعارف کے ساتھ منتظم کے نجی نمبر پہ رابطہ کریں۔

5۔۔۔ اگر غلطی سے کوئی پوسٹ ہوجائے تو اس پہ اعتذار فرمائیں۔ غلط پوسٹنگ پہ معذرت کرلینے کے بعد کسی ممبر کو اس پہ کسی بھی قسم کی  حاشیہ نگاری کی اجازت نہیں۔

6۔۔۔ باہمی اخلاق وآداب کی رعایت لازمی ہے۔ بدزبانی یا بد انتظامی کے باعث منتظم کسی کو خارج کردے تو اسے تندئی خلق پہ محمول نہ کیا جائے۔

7۔۔۔ کسی مضمون کا مکرر سہ کرر اشتراک یوتیوب لنکس وغیر متعلقہ تحریر کے لنکس کا اشتراک وغیرہ ناقابل برداشت ہوگا۔

8۔۔۔ گروپ کے نگراں حضرت الاستاذ مولانا محمد صابر نظامی القاسمی مدظلہ العالی جنرل سکریٹری جمعیت علمائے بیگوسرائے 

حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب 

حضرت مولانا محمود احمد خاں دریابادی 

محترم جناب ایس اے ساگر صاحب 

ہیں۔

منتظمین میں 

محترم مولانا امجد اللہ صدیقی قاسمی بوکاروی۔

مولانا ومفتی محمد شاہنواز قاسمی، کویت 

مفتی شمشیر حیدر قاسمی  

مولانا نور الحسن قاسمی پڑتاب گڑھی

محترم ساگر صاحب صحافی 

مفتی توصیف صاحب قاسمی لکھنوی 

اور عاجز  "شکیل منصور القاسمی"  ہے۔

9۔۔۔ مجھ سمیت تمام ممبران کو ہدایات پر عملداری ضروری ہے۔ کسی کو بھی استثناء حاصل نہیں۔

10۔۔۔ حالات، وقت اور تقاضے کے مطابق اصول مذکورہ میں حذف وزیادتی  ہوسکتی ہے۔

شکیل منصور القاسمی

مركزالبحوث الإسلاميه العالمي

(S_A_Sagar#)

https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_20.html



Tuesday, 16 August 2022

مرکز البحوث الإسلامية میں فسق یزید پہ جاری بحث کی تفصیلی روئیداد اور اس کا تجزیہ

میں فسق یزید پہ جاری بحث کی تفصیلی روئیداد اور اس کا تجزیہ 
-------------------------------
--------------------------------
ماہ محرم آتے ہی چند سالوں سے ہمارے واٹس ایپ حلقے "مرکزالبحوث" میں فسق یزید پہ خواہی نخواہی بحثوں کا طویل سلسلہ چل پڑتا ہے، کئی سال سے یہ معمول چلا آرہا ہے، لیکن بحث بغیر نتیجہ و فیصلہ ہی ختم ہوجاتی تھی، سال رواں بھی یہ بحث ایک فاضل رکن کی ایک مشترک تحریر کے باعث جلقے میں دبے پاؤں در آئی، پھر کیا تھا؟ فضلائے حلقہ کی طرف سے اس بابت علمی تحقیق، تعلیق، تبصرے وتجزیئے کی گہرافشانی شروع ہوگئی۔ 
ایک طرف فاضل نوجواں ابوحنظلہ مولانا عبدالاحد صاحب قاسمی زید مجدہ تھے جن کا موقف تھا کہ فسق یزید پہ علماء متقدمین ومتاخرین کا اجماع و اتفاق ہے، اس ذیل میں انہوں نے حضرت الاستاذ مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی مدظلہ العالی کی کتاب "محرم" کے جواب میں مولانا نسیم احمد صاحب غازی بجنوری رحمہ اللہ کی تالیف کردہ کتاب کے حوالے سے بعض اقتباسات پیش کئے تھے جس میں غازی صاحب نے حضرت الاستاذ کو اپنی کتاب کے بعض مندرجات کے باعث اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا تھا، غازی صاحب کی کتاب چونکہ رد میں لکھی گئی ہے اس لئے اس کا لب ولہجہ اور اسلوب حد سے زیادہ ہی جارحانہ بلکہ بعض مواقع پہ تنقیص آمیز محسوس ہوتا ہے- 
دوسری طرف مولانا وڈاکٹر مفتی عبیداللہ صاحب قاسمی زید مجدہ اور مولانا عبدالعلیم اعظمی قاسمی وغیرہم کا خیال تھا کہ فسق یزید مجمع علیہ نہیں ہے، اور تفسیق یزید کا معاملہ عقائد اہل سنت کے لوازمات وواجبات میں سے نہیں ہے۔ یعنی فسق یزید کی تردید کرنے والے حضرات بھی اہل سنت والجماعت کہلائیں گے۔ انہی دو بنیادی نکتوں پہ بات چلتی رہی۔
خلاف معمول اس مرتبہ یہ طے کیا گیا کہ بحث بے نتیجہ نہ چھوڑی جائے، طرفین سے اپنا اپنا مدعا مدلل و مبرہن پیش کرنے کی گزارش کی گئی۔ پھر تکمیل بحث کے بعد حکم دلائل وبرائین کی روشنی میں اپنا فیصلہ قلمبند کرکے حلقے میں مشترک کریں گے۔
مولانا عبدالاحد صاحب کا دعوی ہے کہ فسق یزید اہلسنت کا اجماعی و اتفاقی  عقیدہ ہے۔ جس پر انھوں نے اسی (80) سے متجاوز محدثین و مورخین کے اقوال یکے بعد دیگرے پیش کردیئے، جو فرداً فرداً فسق کے قائل ہیں، ان کی پیش کردہ بعض عبارات اس طرح کی بھی ہیں جن میں فسق یزید کو اتفاقی و اجماعی بھی کہا گیا ہے۔ وہیں اکابر دیوبند کے ان گنت اقوال بھی پیش کئے  ہیں جن میں یزید کو فاسق بلا ریب کی تصریح موجود ہے۔ یوں وہ فسق یزید کو  متقدمین ومتاخرین اور اپنے اکابر کے اقوال کی روشنی میں اتفاقی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی. ان کا دعویٰ تھا کہ فسقِ یزید پر اہلسنت کا اتفاق ہے۔ نیز پوری جماعت میں کسی ایک آدھ کے اختلاف کرنے سے مسئلہ اختلافی نہیں بن جاتا ورنہ کوئی بھی مسئلہ اجماعی نہیں رہے گا۔
اجماع کے ثبوت کے دو طریقے ہیں:
1: پہلا یہ کہ علماء اہلسنت کا جم غفیر قرناً بعد قرنٍ کسی مسئلہ میں ایک ہی رائے کو مسلسل نقل کرتا رہے۔
2: دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اہلسنت کے علماء محققین کی ایک جماعت کسی مسئلہ پر اجماع و اتفاق کا دعویٰ کرے۔
انہوں نے دونوں طریق سے فسقِ یزید پر اجماع و اتفاق ثابت کرنے کی سعی کی۔ 
پہلے انہوں نے اہلسنت کے 56 متقدمین و متاخرین محدثین کی فسقِ یزید پر صاف ستھری عبارات نقل کی۔ 
پھر ابن خلدون، ابن حجرمکی، محمد بن علی الصبان، شاہ ولی اللہ، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ یوسف بنوری، وغیرہ تقریباً 15 محققین علماء کی ایسی عبارات نقل کیں جن میں فسقِ یزید پر اہلسنت کے اتفاق، ایک آدھ میں اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ 
ان کا خیال ہے کہ کسی بھی مسئلے کو اجماعی و اتفاقی ثابت کرنے کے لئے اتنے حوالے کافی ہونے چاہئیں۔
صرف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت سے اس اجماع و اتفاق کو باطل نہیں کیا جاسکتا، آخر میں انہوں  نے خود ابن تیمیہ کے حوالے: ”ومع هذا فيُقال: غاية يزيد وأمثاله من الملوك أن يكونوا فساقاً.“ سے یزید کی تفسیق ثابت کرنے کا دعوی فرمایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے برخلاف اہلسنت کا کوئی ایک بھی معتبر نام (ان کے علم کے مطابق) ایسا نہیں جس نے فسق یزید کا انکار کیا ہو۔
امام غزالی اور ابن صلاح کی بعض عبارات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ دونوں بزرگ فسق کے انکاری ہیں، انھی پیش کردہ عبارتوں سے ثابت کردیا کہ یہ دونوں بزرگ فسق کے نہیں؛ لعن کے انکاری ہیں اور لعن ہماری بحث سے خارج ہے، ہم خود لعنت کے انکاری ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ سے لیکر آخری زمانے تک کے پچاس سے زائد علماء دیوبند کے حوالے بھی محفوظ ہیں۔ نیز متقدمین و متاخرین علماء اہلسنت میں ابن عربی اور عبدالمغیث حربی کے علاوہ کسی کی بھی عبارت سے فسق کا انکار ثابت نہیں ہوتا۔
علماء دیوبند میں محدث اعظمی اور مفتی حبیب الرحمٰن صاحب خیرآبادی سے پہلے کسی نے بھی اس مسئلے میں اختلاف نہیں کیا اور محدث اعظمی کی رائے بھی لوگوں کو 2014 کے بعد معلوم ہوئی ورنہ اس سے پہلے یہ کتاب چھپی نہیں تھی اور پہلے محدث اعظمی خود فسق کے قائل تھے جیساکہ ان کے مقالات میں موجود ہے۔
دوسری جناب  مفتی وڈاکٹر عبیداللہ صاحب قاسمی اور مولانا عبدالعلیم اعظمی قاسمی کا کہنا تھا کہ:
فسق یزید کے سلسلے میں اہل سنت والجماعت کے تین اقوال ہیں۔
1۔ عام محدثین، مورخین اور علماء کا موقف ہے کہ یزید فاسق ہے۔ 
سببِ فسق یزید اور وقت میں ان کے مابین اختلافات ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ یزید حضرت معاویہ ہی کے دور شراب وغیرہ چھپ کر پیتا تھا، خلافت کے وقت اس کا فسق واضح ہوگیا، یہی وجہ بعض لوگ حضرت حسین کے بیعت نہ کرنے کا سبب فسق یزید قرار دیتے ہیں۔ 
2۔ یزید واقعہ کربلا یا بالفاظ دیگر قتل حسین کی وجہ سے فاسق ہے۔ 
3۔ یزید واقعہ حرہ کی وجہ سے فاسق ہے۔ 
2۔ اہل سنت کا دوسرا قول سکوت کا ہے۔ اس کے قائلین مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ امام احمد ابن حنبل (امام صاحب کی طرف جو لعنت وغیرہ اقوال منسوب ہے امام صاحب نے اس سے رجوع کرلیا تھا، آپ کی وفات سے تین دن قبل جو اقوال آپ سے نقل کئے گئے تھے اس میں یزید کے سلسلے میں سکوت تھا)  
2۔ سکوت کو علامہ ابن تیمیہ نے اصحاب امام احمد اور اس کے علاوہ بہت سارے مسلمانوں کی رائے قرار دی ہے۔  
3۔ امام مجدالدین عبدالسلام ابن تیمیہ ۔۔۔۔ جد امجد علامہ ابن تیمیہ  بحوالہ مجموع الفتاوی 
4۔ علامہ احمد بن مصطفی متوفی 922 ھجری 
5۔ موجودہ دور کے محتاط علماء کا قول بھی سکوت ہے۔
6۔ دارالعلوم دیوبند کا بھی حالیہ فتوی سکوت کا ہے۔ 
3۔ اہل سنت کا تیسرا قول ہے کہ یزید فاسق نہیں تھا۔ اس کے قائلین درج ذیل ہیں: 
1۔ حجۃ الاسلام امام غزالی بحوالہ وفات الاعیان ج 3 ص 288
2۔ ابوبکر ابن العربی  ۔۔۔۔ العواصم القواصم 
3۔ محدث امام عبدالمغیث بن زہیر علوی متوفی 583 ھجری 
4۔ علامہ نورالدین حنفی رامپوری بحوالہ نزھۃ الخواطر ج 7 ص 514 
5۔ علامہ دستی  بحوالہ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ 
6۔ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی 
7۔ مولانا منظور نعمانی 
8۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی 
9۔ مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی
10۔ مولانا رشید الاعظمی 
11۔ ڈاکٹر مسعود قاسمی
عدم اجماع/ اتفاق پر انہوں نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ابن تیمیہ نے یزید کے سلسلے میں تینوں قول کو اہل سنت والجماعت کے اقوال قرار دیئے ہیں. لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت کے مابین اس میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کا کسی بھی قول میں اختلاف اتفاق و اجماع نہیں ہے۔ بحوالہ مجموع الفتاوی۔ 
2۔ موصوف مولانا عبدالاحد صاحب قاسمی اگر اجماع برفسق سے لغوی معنی لے رہے ہیں تو ٹھیک ہے، لیکن اگر اجماع سے مراد فقہی اصطلاح ہے تو اجماع کہنا ہی غلط ہے۔ فسق یزید نہ تو کوئی فقہی مسئلہ ہے نہ دینی کہ اس کے لئے فقہی اصطلاح کے مطابق اجماع کیا جائے. یہ محض ایک تاریخی مسئلہ ہے۔ اگر بالفرض مان لیا جائے یہ دینی مسئلہ ہے۔ پھر اس میں امام غزالی، احمد بن حنبل اور متعدد کبار علماء کا اختلاف رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے جمہور کی رائے کہا جاسکتا ہے، اجماع نہیں۔ 
بالفرض اگر مان لیا جائے کہ عدم فسق کا قول اہل سنت والجماعت کا نہیں ہے۔ تو بھی اجماع و اتفاق ثابت نہیں ہوگا کہ اہل سنت والجماعت کا سکوت کا بھی ایک قول ہے جس میں امام احمد ابن حنبل، اکثر حنابلہ اور خود آج کے محتاط علماء بھی شامل ہیں۔ لہذا اس صورت میں اہل سنت کے درمیان اس مسئلہ میں دو رائے ہوگی اکثریت فسق یزید کے قائلین کی، اور اقلیت قائلین سکوت کی۔ لہذا اجماع و اتفاق کا دعوی اس صورت میں بھی باطل ہوجاتا ہے۔ (بعض دلائل انہوں نے نجی نمبر پر بھی ارسال کئے ہیں)
فسق یزید کے اہل سنت والجماعت کے عقیدے میں سے نہ ہونے کے دلائل کے ذیل میں اس فریق کا کہنا تھا کہ:
1۔ اہل سنت والجماعت کے عقائد پر لکھی گئی جو معتبر کتابیں ہیں اس میں کہیں فسق یزید کے مسئلہ کا ذکر نہیں ہے۔ (ممکن ہے ایک دو میں ہو لیکن اتنے اہم مسئلہ میں ایک دو مصنفین کے لکھنے کی وجہ سے اس کو عقائد اہل سنت میں نہیں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ عہدسلف کے اہم علماء کے اقوال کو مدنظر رکھا جائے گا۔ نہ کہ دسویں صدی کے بعد کوئی شخص اس کا دعوی کرے تو اس کو مان لیا جائے)
ذیل میں چند کتابیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ الفقه الأكبر لأبي حنيفة
2۔ العقائد النسفیۃ
3۔ عقیدۃ الطحاوی
2۔ شاہ ولی محدث دہلوی نے اہل سنت والجماعت سے  داخل اور خارج ہونے کے سلسلے میں دلیل قطعی سے ثابت عقائد و مسائل کو قرار دیا ہے۔ نہ کہ فروعی، غیر دینی، اور دلیل غیرقطعی سے ثابت چیزوں کو۔۔۔۔۔۔ تفصیل 'حجۃ اللہ' کے ابتدائی صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔ 
3: مولانا عبدالاحد قاسمی صاحب نے جن مورخین و محدثین اور فقہاء و علماء کی عبارتیں فسق یزید پر پیش کی ہے۔ بجز ایک دو کے کسی نے بھی فسق یزید کو عقائد میں نہیں شمار کیا ہے؛ جب کہ وہ فسق یزید کے قائل تھے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ جمہور محدثین، مورخین اور فقہاء کے بقول فسق یزید کا تعلق عقائد سے نہیں ہے۔ 
خلاصہ کے طور پہ اس فریق کا کہنا تھا کہ فسق یزید کا تعلق سنیت سے نہیں ہے بلکہ تحقیق سے ہے، سو جس کے نزدیک دلائل سے فسق یزید ثابت ہو اور وہ اسے فاسق مانتا ہو تو وہ بھی سنی ہے اور جس کے نزدیک دلائل قابل اطمینان نہ ہوں اور وہ فاسق نہیں مانتا تو وہ بھی سنی ہے۔ کوئی سکوت کررہا ہے تو وہ بھی سنی یے۔ اس لئے ہم سے یہ مطالبہ نہ کیا جائے کہ عدم فسق یا سکوت ثابت کرو بلکہ جو لوگ فسق یزید کا عقیدہ سنیت اور دیوبندیت کے لئے لازم قرار دیتے ہیں ان سے مطالبہ ہوگا کہ ثابت کیجئے کہ فسق یزید سنیت کا جز ہے۔ علاوہ ازیں اس فریق نے امام غزالی اور علامہ ابن صلاح کی عبارات سے بھی فسق یزید کی تردید ثابت کی۔
یزید اور فسق یزید 
—————
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے فرزند کا پورا نام "يزيد بن معاوية بن أبي سفيان بن حرب بن أميّة الأموي الدمشقي" ہے.
23 رمضان سن 26 کو پیدا ہوا، بروز منگل 14 ربيع الأول سن 64 ہجری کو وفات ہوئی، 15 رجب 60 ہجری سے 14 ربيع الأول 64 ہجری (قریب چار سال) تک فرماں روا اور تخت نشیں رہا.
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی صحیح تادیب وتربیت کا شروع سے بے حد خیال فرمایا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنی مطلقہ بیوی والدۂِ یزید "میسون بنت بحدل الکلبیہ" (تاريخ دمشق لابن عساكر - تراجم النساء - (ص 397-401) جوکہ اعلی خاندانی پس منظر اور حسب ونسب رکھنے والی خاتون تھیں، کے حوالے عرب کے اس وقت کے دستور کے مطابق اس مقصد سے کیا کہ یزید اپنی ماں کے ہمراہ دیہات میں رہے اور وہاں کی زبان، فصاحت، شجاعت، بہادری، گھڑسواری، غیرت وحمیت، شرافت ومروت سے آراستہ ہوسکے، والدہ کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے کے بعد پھر والد بزرگوار کے زیرتربیت و نگرانی رہنے لگا (تهذيب التهذيب لابن حجر (10/207) اپنے والد حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس اس کی تعلیم وتربیت اطمنان کی حد تک مکمل ہوچکی تھی، والد کے ساتھ رہتے ہوئے اس نے اپنے والد سے "من يرد الله به خيراً يفقه في الدين" جیسی حدیث کی روایت بھی کی، پھر اس سے اس کا بیٹا خالد اور عبدالملك بن مروان وغیرہ نے احادیث نقل کی ہیں، اسی باعث ابوزرعہ دمشقی نے صحابہ کے بعد والے طبقے یعنی طبقہ علیا میں اسے شمار کیا ہے. (البداية و النهاية لابن كثير (8/226-227) 
حضرت امیرمعاویہ نے انساب عرب اور عربی زبان وادب کے ماہر "دغفل بن حنظلہ السدوسی الشیبانی" متوفی 65 ہجری کو یزید کی تادیب وتربیت کے لئے باضابطہ اتالیق مقرر فرمایا. (تهذيب التهذيب لابن حجر (3/210) 
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آخر عمر میں فکرمند ہوئے کہ ان کے بعد کون خلیفہ ہوگا، ان کا خیال تھا کہ اگر وہ کسی کو خلیفہ نامزد کرنے سے قبل ہی انتقال کرجائیں تو فتنہ دوبارہ لوٹ آئے گا۔
چنانچہ انہوں نے اس معاملے میں اہل شام سے مشورہ کیا، انہوں نے تجویز پیش کی کہ ان کے بعد خلیفہ بنوامیہ میں سے ہونا چاہئے. چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو نامزد کیا، اور مصر اور باقی ملک سے اس کی منظوری لی گئی، یزید کا نام پاس ہوگیا۔ اس  بابت مشورہ کرنے کے لئے مدینہ بھی بھیجا گیا- وہاں بعض اکابر کی مخالفت پائی گئی، خاص طور پر حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی. (تاريخ الإسلام للذهبي – عهدالخلفاء الراشدين – (ص147-152) و سير أعلام النبلاء (3/186) و الطبري (5/303) و تاريخ خليفة (ص 213)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول، کاتب وحی اور خال المومنین ہیں، انہوں نے اپنے بیٹے کی خود تادیب وتربیت کی، اس کے لئے خصوصی انتظامات کئے، اس کی خاص نگرانی فرمائی، وہ اس کے احوال، اوصاف و اخلاق وعادات سے مکمل واقف و مطمئن تھے-
اگر اس میں اہلیت یا صالحیت نہ ہوتی، یا فسق وفجور کے جراثیم ہوتے تو کیا یہ متصور ہے کہ صحابی رسول فاسق وفاجر کے لئے دوسروں سے  بیعت لیں؟
بلکہ خود حضرت امیر معاویہ کی باتوں پر غور کریں، تو آپ کو اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ ان کے اس اقدام کا مقصد محض عوام کا فائدہ ہے نہ کہ شخصی مفادات کا حصول، کیونکہ انہوں نے اپنی زبان سے خود کہا ہے: 
اللهم إن كنت إنما عهدت ليزيد؛ لما رأيت من فضله، فبلغه ما أملت وأعنه، وإن كانت إنما حملني حبّ الوالد لولده، وأنه ليس لما صنعت به أهلاً، فاقبضه قبل أن يبلغ ذلك.
(تاريخ الإسلام للذهبي – عهد معاوية بن أبي سفيان – (ص169) و خطط الشام لمحمد كرد علي (1/137)
اے خدا! اگر میں نے یزید کے فضل کی بنیاد پر اسے ولی عہد بنایا ہے  تو آپ اسے میری امیدوں پر پورا اتار دے اور آپ اس کی معاونت فرما، اور اگر اس کی اہلیت کے بغیر محض والد کی محبتِ بیجا (اور موروثیت واقربا پروری وغیرہ) کے باعث ایسا ہوا ہے تو اس تک پہنچنے سے پہلے اس کا کام تمام کردے)۔
صحابی رسول کی زبانی جاری اس دعاء میں دیکھئے! کہ جلیل القدر صحابی رسول یزید کے لئے "فضل" اور "اھل" کی گواہی دے رہے ہیں، جس سے واضح ہے کہ تخت نشیں ہونے تک وہ متصف بالفسق نہیں تھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے میں اپنے بعد امارت کی صلاحیت واہلیت ضرور دیکھی ہوگی، کیونکہ "صاحب البیت اعلم بمافیہ" (صاحب خانہ وہ اپنے گھر کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوتا ہے)۔
علامہ ابن خلدون کہتے ہیں:
والذي دعا معاوية لإيثار ابنه يزيد بالعهد دون سواه، إنما هو مراعاة المصلحة في اجتماع…
بلاذری بیان کرتے ہیں کہ محمد بن علی بن ابی طالب - جو ابن الحنفیہ کے نام سے مشہور ہیں- ایک دن دمشق میں یزید بن معاویہ کے پاس آئے۔ اس کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اسے وداع کرنے کے لئے، تو یزید نے ان کی بڑی عزت وتکریم کی اور ان سے کہا: اے ابوالقاسم، اگر آپ نے مجھ میں کوئی ناپسندیدہ کردار دیکھا ہو تو بتائیں! میں اس کی اصلاح کرلیتا ہوں اور آپ کی ہدایت و مشورے پہ عمل پیرا ہوتا ہوں، انہوں نے کہا: خدا کی قسم اگر میں آپ میں کوئی برائی دیکھتا تو اس سے ضرور منع کرتا. اللہ کے واسطے آپ کو حق بات کی رہنمائی واطلاع کرتا، کیونکہ اللہ نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے کہ وہ لوگوں کو حق بتائیں، اسے ہرگز نہ چھپائیں، اور میں نے آپ سے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ (انساب الاشرف للبلاذری (5/17)۔
(يروي البلاذري أن محمد بن علي بن أبي طالب - المعروف بابن الحنفية - دخل يوماً على يزيد بن معاوية بدمشق؛ ليودعه بعد أن قضى عنده فترة من الوقت، فقال له يزيد، وكان له مكرماً: يا أبا القاسم، إن كنت رأيت مني خُلُقاً تنكره نَزَعت عنه، وأتيت الذي تُشير به علي؟ فقال: والله لو رأيت منكراً ما وسعني إلاّ أن أنهاك عنه، وأخبرك بالحق لله فيه؛، لما أخذ الله على أهل العلم عن أن يبينوه للناس ولا يكتموه، وما رأيت منك إلاّ خيراً. (أنساب الأشراف للبلاذري (5/17).
امام ابن كثير رحمہ الله (المتوفى 774) نے کہا:
"جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اور ان کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمدبن حنفیہ نے ان کی اس بات سے انکار کردیا، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزید شراب پیتا ہے، نماز چھوڑتا ہے. کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیسا تم کہہ رہے ہو، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اور اس کے ساتھ قیام کرچکا ہوں، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیر کا متلاشی، علم دین کا طالب، اور سنت کا ہمیشہ پاسدار پایا۔ تولوگوں نے کہا کہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہا تھا، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتا تھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جو بات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا؟ اگر ایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو، اور اگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کی ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے. گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح گواہی دینے کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ’’جو حق بات کی گواہی دیں اور انہیں اس کا علم بھی ہو‘‘، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا۔
(روي ابن كثير أن عبدالله بن مطيع - كان داعية لابن الزبير - مشى من المدينة هو وأصحابه إلى محمد ابن الحنفية؛ فأرادوه على خلع يزيد، فأبى عليهم، فقال ابن مطيع: إن يزيد يشرب الخمر، ويترك الصلاة، ويتعدى حكم الكتاب.
فقال محمد: ما رأيت منه ما تذكرون، قد حضرته وأقمت عنده، فرأيته مواظباً على الصلاة متحرياً للخير يسأل عن الفقه ملازماً للسنة، قالوا: ذلك كان منه تصنعاً لك، قال: و ما الذي خاف مني أو رجا حتى يظهر إليّ الخشوع؟ ثم أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر، فلئن كان أطلعكم على ذلك فإنكم لشركاؤه، وإن لم يكن أطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا، قالوا: إنه عندنا لحق وإن لم نكن رأيناه، فقال لهم: أبى الله ذلك على أهل الشهادة، و لست من أمركم في شيء.
(البداية والنهاية (8/233) و تاريخ الإسلام – حوادث سنة 61-80هـ – (ص274) 
ان دونوں روایتوں میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی، جلیل القدر تابعی، جن کے خانوادے کی درجنوں افراد نے کربلاء کے تپتے ریگستان میں خاک وخون میں تڑپ کر جام شہادت نوش کیا ہو، یعنی محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے یزید سے متعلق اس کے فسق و فجور کی اڑائی گئی تمام افواہوں کی تردید کردی اور ایسی باتیں کرنے والوں سے اپنی بات کی دلیل اور سچائی کا ثبوت طلب کیا تو ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا-
تردید فسق کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی؟
یزید کی طرف سے حرمین طیبین کی توہین کی روایت کے بارے میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں: 
"وأما ملوك المسلمين من بني أمية وبني العباس ونوابهم فلا ريب أن أحدا منهم لم يقصد أهانة الكعبة لا نائب يزيد ولا نائب عبدالملك الحجاج بن يوسف ولا غيرهما بل كان المسلمين كانوا معظمين للكعبة وإنما كان مقصودهم حصار ابن الزبير والضرب بالمنجنيق كان له لا للكعبة ويزيد لم يهدم الكعبة ولم يقصد إحراقها لا وهو ولا نوبه باتفاق المسلمين۔"
"جہاں تک مسلم بادشاہوں بنوامیہ، بنوعباس اور ان کے نائبین کی بات ہے تو بلاشبہہ ان میں سے کسی ایک نے بھی خانہ کعبہ کی اہانت کبھی نہ کی، نہ تو یزید کے نائب نے نہ عبدالملک الحجاج بن یوسف کے نائب نے، اورنہ ہی ان کے علاوہ کسی نے، بلکہ مسلمان تو ہمیشہ سے کعبہ کی تعظیم ہی کرتے آئے ہیں، ان میں سے بعض کا مقصود صرف یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو گرفتارکیا جائے، اور منجنیق کا استعمال عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ ہی کی خاطر ہوا تھا نہ کی خانہ کعبہ کی خاطر، اور یزید نے ہرگز بیت اللہ کو منہدم (شہید) نہیں کیا اور نہ ہی اسے جلانے کا ارادہ کیا، یقینا نہ تو ایسا اقدام یزید نے کیا اور نہ ہی اس کے نائبین نے کیا. اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق واجماع ہے۔" [منهاج السنة النبوية 4/ 577 ]
واقعہ حرہ کے موقع سے جب ابن زبیر کی قیادت میں اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا:
يُنْصَبُ لِكُلِّ غادِرٍ لِواءٌ يَومَ القِيامَةِ وإنَّا قدْ بايَعْنا هذا الرَّجُلَ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ، وإنِّي لا أعْلَمُ غَدْرًا أعْظَمَ مِن أنْ يُبايَعَ رَجُلٌ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ له القِتالُ، وإنِّي لا أعْلَمُ أحَدًا مِنكُم خَلَعَهُ، ولا بايَعَ في هذا الأمْرِ، إلَّا كانَتِ الفَيْصَلَ بَيْنِي وبيْنَهُ. (صحيح البخاري. 7111).
اس روایت کے پیش نظر گوکہ ہم تاویل کرتے ہوئے اس اقدام کا جواز ڈھونڈ نکالیں؛ نیز واقعہ کربلاء میں خانوادہ نبوی کو تہ تیغ کرنے میں گوکہ یزید کا عمل دخل ہونا روایتوں سے ثابت نہیں ہوپاتا ہے- کیونکہ بخاری کی روایت کے بموجب اہل عراق میں سے کسی نے ابن عمر سے مچھر کے خون کی نجاست کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ عراقیوں نے امام حسین کو قتل کردیا اور یہاں مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھ رہے ہو؟ 
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قتل حسین کے ذمہ دار عراق کے بلوائی تھے جو دھوکہ دیکر امام کو بلائے اور مدد کرنے سے مکر گئے:
روي البخاري عن شعبة عن محمد بن أبي يعقوب سمعت عبدالرحمن بن أبي نعيم: أن رجلاً من أهل العراق سأل ابن عمر عن دم البعوض يصيب الثوب؟ فقال ابن عمر: انظر إلى هذا يسأل عن دم البعوض و قد قتلوا ابن بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الحسن و الحسين هما ريحانتاي من الدنيا. الفتح (10/440) وصحيح سنن الترمذي (3/224) . 
شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله کہتے ہیں: إن يزيد بن معاوية لم يأمر بقتل الحسين باتفاق أهل النقل ولكن كتب إلى ابن زياد أن يمنعه عن ولاية العراق، ولما بلغ يزيد قتل الحسين أظهر التوجع على ذلك وظهر البكاء في داره  إلخ (منهاج السنّة 4 / 473) 
علامہ ابن صلاح لکھتے ہیں: "لم يصح عندنا أنه أمر بقتله – أي الحسين رضي الله عنه -، والمحفوظ أن الآمر بقتاله المفضي إلى قتله – كرمه الله – إنما هو عبيد الله بن زياد والي العراق إذ ذاك"
(فتاوى ومسائل ابن الصلاح 1/216-219)
امام غزالی  – رحمه الله - فرماتے ہیں: "فإن قيل هل يجوز لعن يزيد لأنه قاتل الحسين أو آمر به؟ قلنا: هذا لم يثبت أصلاً فلا يجوز أن يقال إنه قتله أو أمر به ما لم يثبت، فضلاً عن اللعنة ، لأنه لا تجوز نسبة مسلم إلى كبيرة من غيرتحقيق." (إحياء علوم الدين 125/3)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
وليس كل ذلك الجيش كان راضياً بما وقع من قتله – أي قتل الحسين – بل ولا يزيد بن معاوية رضي بذلك والله أعلم ولا كرهه، والذي يكاد يغلب على الظن أن يزيد لو قدر عليه قبل أن يقتل لعفا عنه، كما أوصاه أبوه، وكما صرح هو به مخبراً عن نفسه بذلك ، وقد لعن ابن زياد على فعله ذلك وشتمه فيما يظهر ويبدو" (البداية والنهاية 221/8)
لیکن قاتلین سے سختی سے نمٹنے، انہیں قرار واقعی سزا دینے یا اپنے کمانڈروں کو صاف صاف قتل حسین سے منع کرنے کا فرمان پہلے سے نہ بھیجنے جیسے حقائق سے پہلو تہی کرنا یا کمزور و نکمی تاویلات رکیکہ کے سہارے دلوں کو طفل تسلی دیتے ہوئے ان حقائق سے صرف نظر کرنا بڑا مشکل ہے. ٹھیک ہے یزید نے امام حسین کی نعش دیکھ کر غضبناک ہوا ہو. اس کی آنکھیں بھر آئی ہوں. ابن زیاد کو بد دعائیں دی ہوں. لیکن فرماروائے سلطنت ہونے کی حیثیت سے یزید کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا. قلمرو میں خچر مرجانے پہ حکمراں اور خلیفہ خود کو مسئول سمجھتے ہوئے قابل احتساب سمجھ  سکتا ہے تو اتنی بڑی شہادت سے یزید کا پلو جھاڑ لینا کسی طور سمجھ نہیں آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول تاریخ میں ثبت ہے: "فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی مرجائے تو اس کا سوال عمر سے ہوگا."
اجماع اور اتفاق 
———————-
کسی چیز کا پختہ ارداہ کرلینے کو لغوی اعتبار سے اجماع کہتے ہیں:
"فأجمعوا أمركم" يونس/ 71.)
وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ (یوسف: 102)
رحلت نبی کے بعد امت محمدیہ کے مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی  امر پر اتفاق کرنے کو کو اصطلاحاً اجماع کہتے ہیں:
"هو اتفاق مجتهدي أمة محمد - صلى الله عليه وسلم - بعد وفاته في حادثة على أمر من الأمور في عصر من الأعصار" انتهى من"البحر المحيط" للزركشي (6 / 379).
انعقاد اجماع کے لئے من جملہ شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ جس زمانے میں اجماع منعقد ہوا ہو اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اس امر حادث پر اتفاق ہوگیا ہو. 
اگر بعض مجتہدین کسی واقعہ میں اختلاف کریں یا کسی خاص علاقہ کے مجتہدین اتفاق کریں، دوسرے علاقہ کے نہیں تو پہر اسے اجماع اصطلاحی نہیں کہا جائے گا 
پوری امت مسلمہ کے تمام مجتہدین پیش آمدہ کسی مسئلے پر اتفاق کرلیں تب ہی وہ شرعی واصطلاحی اجماع ہوگا، اگر بیک وقت تمام کا اتفاق نہ ہوسکے. تو اسے اجماع اصطلاحی نہیں بلکہ "اتفاق" کہیں گے. "لاتجتمع امتی علی الضلالۃ" جیسی حدیث میں امت مسلمہ کی جس عصمت کی بات کی گئی ہے اور جوکہ حجیت اجماع کی نبوی دلیل بھی ہے، اس میں "امۃ" کو تمام امت پہ محمول کرنا "اکثر" افراد امت پہ محمول کرنے سے زیادہ احوط ہے. اکثر افراد امت کسی حکم حادث پہ متفق ہوں سب کے سب نہیں تو ان کا ضلالت سے محفوظ رہنا متیقن نہیں، پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہی ضلالت سے حفاظت کا ضامن ہوگا۔
مانعین زکات سے قتال نہ کرنے پر اکثر افراد امت کا اتفاق تھا، جبکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اکیلے اس سے اختلاف کرتے ہوئے قتال پہ مصر تھے، تو جس طرح اکثر صحابہ کا اتفاق علی عدم القتال اجماع نہیں کہلایا؛ کیونکہ ایک مجتہد، خلیفہ وقت کا اس سے اختلاف تھا، اسی طرح اگر کسی مسئلے میں تمام مجتہدین کا اتفاق نہ ہوسکا تو وہ بھی اصطلاحی اجماع نہیں کہلائے گا، لغوی اعتبار سے مجازاً اجماع بمعنی اتفاق کہدیا جائے تو مضائقہ نہیں۔
تفسیق، تکفیر اور لعن یزید کا معاملہ اصول دین میں سے بالکل نہیں ہے. اصول بزدوی میں امامت کی بحث کے ذیل میں ہے. 
لم يصح منه (یزید) تلك الأسباب (أسباب الكفر) ولاحاجة بأحد إلى معرفة حاله؛ فإن الله تعالى أغنانا عن ذالك (أصول الدين للبزدوي، مسألة الإمامة 205)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
[وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ إذْ ذَاكَ يَتَكَلَّمُ فِي يزيد بن معاوية، وَلَا كَانَ الْكَلَامُ فِيهِ مِنْ الدِّينِ (لأن يزيد بن معاوية إنما بويع له بالخلافة بعد وفاة أبيه معاوية). كتاب شرح الوصية الكبرى، لابن تيمية. الراجحي ص ١٠)
امام احمد بن حنبل اور علامہ کیا ہراسی شافعی سے تکفیر یزید کا منقول ہونا (دیکھئے فتاوی محمودیہ (48/6) بذات خود بھی دلیل ہے کہ یزید سے متعلقہ امور میں انہماک و اشتغال نہ امور دین میں سے ہے نہ ہی یہ مدار سنیت ہے. جب تکفیر ولعن مخرج سنیت نہیں، تو تردید تفسیق کیسے ہادم سنیت ہوسکتی ہے؟ اجماع کے حوالے سے اوپر کی سطروں میں مذکور قدر ضرورت مختصر لیکن بنیادی نوٹ کو اگر ہم ملحوظ رکھیں تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ فسق کی روایات کو زیادہ سے زیادہ "اتفاقی و اکثریتی قول" کہہ سکتے ہیں کہ درجنوں بلکہ سینکڑوں علماء نے بیشک اپنی کتابوں میں اسے "نقل" کیا ہے؛ لیکن اصطلاحی معنوں میں اسے اجماعی کہنا صحیح نہیں ہے۔ یزید سے نفرت ومحبت ہر دو چیزوں میں دامنِ اعتدال امت کے ہاتھ سے چھوٹا ہے۔ کچھ لوگوں نے  نفرت میں دنیا بھر کی برائیاں اس میں جمع کردی ہیں اور شیعیت زدہ اور تقیہ باز کمزور وضعیف مورخین کی انتہائی بودی وغیرثابت تاریخی روایتوں کے زیراثر یزید کو مجمع الفسق والفجور کہہ ڈالے ہیں. جبکہ کچھ لوگ اسے حق پرست، دودھ کا دھلا ہوا اور مقدس گائے خیال کرکے اس کی مدح خوانی اور قصیدہ گوئی میں لگے رہتے ہیں. فسق وفجور کی روایات نقل در نقل ہوکے حد وحساب سے ما وراء ہوگئی ہیں، فاسق وفاجر کہے جانے کی اصل بنیاد بعض تاریخی روایات ہیں جو قصہ گو اور جعل ساز و مجہول الحال راویوں نے بیان کی ہیں۔ جب یہ روایات مسترد ہوجاتی ہیں تو تفسیق کے اقوال بھی قابل غور ٹھہر جاتے ہیں. امور دین اور مسائل اعتقادیہ میں سے نہ ہونے کے باعث اس میں "انہماک بیجا" کو ناپسند کیا گیا ہے۔ یہی احوط واسلم و پسندیدہ طریق بھی ہے. فسق وفجور کی جو روایات عام کی گئی ہیں انہیں سن کے آگے چلتا کردینے کے بالمقابل ان کی تحقیق کرنا اور فنی اعتبار سے الزامات بے جا کی تردید کرنا سکوت اور کف لسان کے منافی نہیں ہے۔ 
علم وتحقیق کے اصول پہ فسق وفجور کی روایات ثابت نہیں ہوپارہی ہیں. صاحب واقعہ امام حسین، خانوادہ حسینی کے چشم دید گواہ، بعض صحابہ اور تابعین اجلاء کی شہادتوں سے ان الزامات کی تردید ہوتی ہے. صحابہ کرام اور اجلاء تابعین کی تردید تفسیق کے سامنے سالوں بعد کے متکلم فیہ مورخین یا علماے اہل سنت کے اتفاقی "نقلِ تفسیق" ثانوی درجے کی چیز ہوگی. خوب واضح رہنا چاہیے کہ نقل تفسیق الگ ہے. اور اثبات فسق امر آخر. تفسیق، تکفیر، یا لعن یزید اضافی اور ذیلی چیزیں ہیں 
جن اکابر کے یہاں تحقیق و تفتیش سے ثابت ہوا، انہوں نے تفسیق کی، جن کے یہاں تفسیق الزام محض قرار پائی. انہوں نے اس کے ثبوت سے انکار کرکے تفسیق کی تردید کی۔ ابھی (15.08.2022) ہم نے شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ سے ٹیلیفونک گفتگو میں استفسار کیا تو حضرت نے فرمایا کہ ہمیں خود پتہ نہیں کہ ہم خود فاسق ہیں کہ نہیں؟ ہم ایک فرزند صحابی جلیل کی تفسیق کے پیچھے کس منہ سے پڑیں؟ "تلک أمة قد خلت" الآية.  
پھر ہم نے پوچھا کہ اگر روایات تفسیق درجہ صحت واعتبار کو نہیں پہنچتیں تو ہمارے اکابر نے عمومی طور پہ اسے فاسق کیوں لکھا؟ 
تو حضرت نے فرمایا: انہوں نے فاسق کہا ہے تو ان کی نظر وتحقیق میں کوئی بنیاد ہوگی! ہماری نظر میں کوئی بنیاد اگر نہیں ہے تو ہم کیسے فاسق کہدیں؟
یزید بن معاویہ کے فسق وفجور کی ساری روایتوں کی بنیاد واقدی، ابومخنف، عوانہ بن الحکم اور عمر بن شبہ ہے۔ اور یہ رواۃ ناقابل اعتبار و استناد ہیں (واقدی اور ابومخنف متروک الحدیث ہے، عوانہ بن الحکم کو حافظ ابن حجر نے بنو امیہ کے لئے خبریں گھرنے والا قرار دیا ہے، عمر بن شبہ نے یزید کا زمانہ نہیں پایا ہے، لہذا شراب نوشی کی روایت منقطع ہوئی۔
یزید کے جوانی میں شراب نوشی کی روایت (يزيد كان يشرب الخمر في حداثته، فأرشده أبوه إلى شربها ليلاً فقط۔ أخرجها ابن عساكر وغيره من طريق محمد بن زكريا الغلابي) محمد بن حفص بن عائشة  نے بھی کی ہے؛ لیکن بخاری اور ابو حاتم کے یہاں یہ مجہول راوی ہے، اس کی سند میں محمد بن زکریا غلابی ہے جسے دارقطنی نے واضع حدیث قرار دیا ہے، 
پھر یہ بات کیسے متصور ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو شراب پینے اور رات کو چھپ کر پینے کی ترغیب واجازت دیدیں؟ 
یہ خال المومنین اور کاتب وحی ہیں، یہ خود اس حدیث رسول کے راوی ہیں کہ: "من شرب الخمر فاجلدوه". ("جو شراب پیے، اسے کوڑے مارو۔") 
اسی طرح "يحيى بن فليح بن سليمان المدني" نے عمر بن حفص کے بارے میں جو خبر دی ہے کہ انہوں نے جب مدینہ پاک میں منبر پہ کھڑے ہوکر یزید کی شراب نوشی اور ترک نماز کی گواہی دی، تب اہالیان مدینہ نے یزید کی بغاوت کا اعلان کردیا۔ 
(أخبرنا ابن فليح أن عمرو بن حفص وفد على يزيد فأكرمه، وأحسن جائزته، فلمّا قدم المدينة قام إلى جنب المنبر، وكان مرضياً صالحاً. فقال: ألم أجب؟ ألم أكرم؟ والله لرأيت يزيد بن معاوية يترك الصلاة سكراً. فأجمع الناس على خلعه بالمدينة فخلعوه"
یہ روایت بھی اس لئے درست نہیں ہے کہ ابن حزم کے نزدیک ابن فلیح مجہول ہے، نیز یہ روایت منقطع بھی ہے؛ کیونکہ فلیح کی پیدائش اس واقعہ کے کافی زمانہ بعد سنہ ۹۰ ہجری میں  ہوئی ہے، اور یہ اپنی پیدائش سے پہلے والا واقعہ بیان کررہا ہے، درمیان میں لمبا انقطاع زمانی ہے. جبکہ دوسری طرف شہادت کربلاء کا متاثرہ فریق، امام حسین کے بھائی اور عینی شاہد محمد بن الحنفیہ یزید پر عائد کردہ ان الزامات کی صریح تردید کررہے ہیں. اب ایک مجہول راوی کی منقطع روایت پہ اعتماد کیا جائے یا شہید کربلاء کے حقیقی بھائی کی تردید پر؟ چلئے! تھوڑی دیر کے لئے انہیں بھی چھوڑ دیا جائے! کیا خود حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے، مدینہ، پھر مکہ سے کربلاء تک کے پورے سفر اور اپنی پوری تحریک کے درمیان کبھی بھی یزید کو  فاسق وفاجر یا شرابی کبابی کہا ہے؟ اس بابت کوئی ایک مستند ومعتبر روایت حوالے میں پیش کی جاسکتی ہے؟ علی بن حسین اپنے والد کی شہادت کے بعد ایک ماہ کے قریب یزید کے پاس مقیم رہے. واپسی پر کیا انہوں نے یزید کے فسق وفجور. بے دینی وبے راہ روی کی بابت کوئی ایک بات بھی کہی ہے؟ 
سانحہ کربلاء یقیناً تاریخ کا سیاہ ودل دوز حادثہ تھا جس نے سب کا کلیجہ چھلنی کردیا، ان تمام ناقابل بیان قلق واضطراب کے باوجود اس کے بعد حدود سلطنت میں کہیں بھی ردعمل میں تفسیقی منجنیق کے گولے داغے گئے؟ یا تفسیق وخون ریزی کو بنیاد بناکر یزید کے خلاف کہیں بغاوت کی گئی؟ 
فاجتمعت بنو أمية في دار مروان بن الحكم، وأحاط بهم أهل المدينة يحاصرونهم، واعتزل الناس علي بن الحسين زين العابدين، وكذلك عبدالله بن عمر بن الخطاب لم يخلعا يزيد، ولا أحد من بيت ابن عمر.
وقد قال ابن عمر لأهله: لا يخلعن أحد منكم يزيد فتكون الفيصل ويروي الصيلم بيني وبينه، (البداية والنهاية 218/8)
مدینہ والوں نے جب یزید کی بیعت توڑدی تھی تو اس وقت علی بن حسین زین العابدین اور عبداللہ بن عمر اس بغاوت سے علیحدہ رہے، انہوں نے یزید کی بیعت نہیں توڑی۔ ابن عمر کے گھروالوں میں سے بھی کسی نے بیعت نہ توڑی، انہوں نے اپنے گھر والوں کو نقض بیعت سے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے بیعت توڑی تو میرے اور اس کے درمیان جدائی ہوجائے گی)۔
واقدی، ابومخنف، عوانہ بن الحکم، عمر بن شبہ، محمد بن زکریا غلابی، ابن فلیح، محمد بن حفص بن عائشة  وغیرہم کی ضعیف وغیرثابت طرق وروایتوں کی بنیاد پر فسق وفجور کی تاریخی روایتیں تسلیم شدہ حقائق کے بطورنقل درنقل بیان کی جارہی ہیں؛ لیکن شہید امام عالی مقام کے خانوادے کے معتبر افراد کی شہادت قابل سماع نہیں ٹھہر رہی ہے! آخر کیوں؟ 
اگر یزید واقعی اتنا ہی بے دین وفاجر اور ناہنجار تھا تو ابن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہونے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے پاس جاکر اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لئے کیوں تیار ہوگئے تھے؟ 
قال حصین فَحَدَّثَنِي هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ مَا بين واقصة إِلَى طريق الشام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يدعون أحدا يلج وَلا أحدا يخرج، فأقبل الْحُسَيْن وَلا يشعر بشيء حَتَّى لقي الأعراب، فسألهم، فَقَالُوا:
لا وَاللَّهِ مَا ندري، غير أنا لا نستطيع أن نلج وَلا نخرج، قَالَ: فانطلق يسير نحو طريق الشام نحو يَزِيد، فلقيته الخيول بكربلاء، فنزل يناشدهم اللَّه والإسلام، قَالَ: وَكَانَ بعث إِلَيْهِ عُمَر بن سَعْدٍ وشمر بن ذي الجوشن وحصين ابن نميم، فناشدهم الْحُسَيْن اللَّه والإسلام أن يسيروه إِلَى أَمِير الْمُؤْمِنِينَ، فيضع يده فِي يده
(تاریخ طبري بروایت حصین عن ہلال بن یساف  5/392، البداية والنهاية 8/170)
ابن اثیر کی روایت میں تین باتوں میں سے ایک کے اختیار کی بات ہے:
بل قال له: اختاروا مني واحدة من ثلاث : إما أن أرجع إلى المكان الذي أقبلت منه ، وإما أن أضع يدي في يد يزيد بن معاوية فيرى فيما بيني وبينه رأيه، وإما أن تسيروا بي إلى أي ثغر من ثغور المسلمين شئتم فأكون رجلا من أهله لي ما لهم وعلي ما عليهم. (الکامل في التاريخ لإبن الأثير، ثم دخلت سنة إحدى وستين 157/3)
کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ امام حسین یزید سے بہتر سلوک کے امیدوار تھے اور اسے ظالم سفاک یا یا فاسق وفاجر نہیں سمجھتے تھے. بلکہ انہوں نے یزید کو "امیرالمؤمنین" کہا ہے. 
علامہ ذہبی کا یزید کو فاسق وفاجر، ناصبی، قاتل حسین اور شراب نوش وغیرہ کہنا اس وجہ سے قابل سماع نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی اس جرح کی کوئی بنیاد و دلیل نہیں بتائی ہے. اگر بنیاد بتاتے تو ان کی بات بھی قابل سماع ہوتی. جبکہ ان کے بالمقابل ثقہ ومعتبر شخصیت امام لیث بن سعد نے یزید کو امیرالمومنین کہا ہے۔
امام ابوبکر بن العربی (المتوفی: 543ھ) کہتے ہیں:
"فإن قيل. كان يزيد خمارًا. قلنا: لا يحل إلا بشاهدين، فمن شهد بذلك عليه بل شهد العدل بعدالته. فروى يحيى بن بكير، عن الليث بن سعد، قال الليث: "توفي أميرالمؤمنين يزيد في تاريخ كذا "فسماه الليث "أميرالمؤمنين" بعد ذهاب ملكهم وانقراض دولتهم، ولولا كونه عنده كذلك ما قال إلا" توفي يزيد"
اگر کہا جائے کہ یزید شرابی تھا تو ہم کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی، تو کس نے اس بات کی گواہی دی ہے؟ بلک عادل لوگوں نے تو یزید کے عدل کی گواہی دی ہے۔ چنانچہ یحییٰ بن بکیر نے روایت کیا ہے کہ امام لیث بن سعد ؒ نے کہا: امیرالمومنین یزید فلاں تاریخ میں فوت ہوئے تو یہاں پر امام لیث ؒ نے یزید کو "امیرالمومنین" کہا ہے اور وہ بھی ان کی حکومت اور ان کا دور ختم ہونے کے بعد ۔ اگر ان کے نزدیک یزید اس درجہ قابلِ احترام نہ ہوتا تو وہ صرف یوں کہتے کہ یزید فوت ہوئے تھے۔" [العواصم من القواصم ص: 228]
بلاذری کی درج ذیل روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک سلسلہ گفتگو میں یزید کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی "صالح اولاد" قرار دے کر اس کی حکومت واطاعت تسلیم کرنے کی تلقین کی ہے: 
وإنّ ابنه يزيد لمَن صالحي أهله، فالزموا مجالسكم واعطوا طاعتكم وبيعتكم ( أنساب الأشراف 1/289 ق 4 تح ـ احسان عباس)
علاوہ ازیں حضرت نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی رسول کو مختلف اوقات میں مختلف ذمہ دارانہ حکومتی حیثیتوں اور عہدوں کے ساتھ یزید کے ساتھ لمبی مصاحبت اور ہم نشینی رہی. شب وروز کے واقعات و معمولات کو قریب سے دیکھنے، جھانکنے اور پرکھنے کا اوروں کی بہ نسبت انہیں بہتر موقع یقیناً ملا ہوگا؛ لیکن وہ تو یزید کے فسق وفجور پہ مطلع نہیں ہوسکے، لیکن سیاسی افیون میں بد مست جانبدار مورخین ان چیزوں پہ مطلع ہوگئے۔
واقعہ حرہ کے موقع سے جب ابن زبیر کی قیادت میں اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے فرمایا تھا:
يُنْصَبُ لِكُلِّ غادِرٍ لِواءٌ يَومَ القِيامَةِ وإنَّا قدْ بايَعْنا هذا الرَّجُلَ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ، وإنِّي لا أعْلَمُ غَدْرًا أعْظَمَ مِن أنْ يُبايَعَ رَجُلٌ علَى بَيْعِ اللَّهِ ورَسولِهِ ثُمَّ يُنْصَبُ له القِتالُ، وإنِّي لا أعْلَمُ أحَدًا مِنكُم خَلَعَهُ، ولا بايَعَ في هذا الأمْرِ، إلَّا كانَتِ الفَيْصَلَ بَيْنِي وبيْنَهُ.( صحيح البخاري. 7111).
شیعی فقیہ مطہر حلی المتوفى سنۃ 726 ه نے اپنی كتاب 'منهاج الكرامة' میں یزید کے ظالم ہونے اور اس پر آیت 'ألا لعنة الله على الظالمين' سے استدلال کرتے ہوئے اثبات لعنت کی کوشش کی تھی، اس کے جواب میں ابن تیمیہ نے علی سبیل التسلیم یہ کہا ہے کہ چلو مان لو! کہ یزید ظالم تھا، لیکن مختار ثقفی اور حجاج بن یوسف سے تو بہتر تھا. زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ یزید اور اس جیسا بادشاہ فاسق تھا، اور فاسق معین پہ لعنت کرنا جائز نہیں ہے، جواز لعنت کے لئے اس شخص کا فاسق وظالم ہونا. اس پہ اصرار کرتے ہوئے وفات پانا اور فاسق معین پہ حدیث سے جواز لعنت کو ثابت کرنا پڑے گا. جبکہ شخص معین پہ لعنت کا ثبوت نہیں ہے. لہذا یزید پر بھی لعنت کرنا جائز نہیں ہے. تو ابن تیمیہ نے فسق کی نسبت فریق مخالف کو خاموش ولاجواب کرنے کے لئے کیا ہے. اس لئے نہیں کہ ان کا موقف بھی یہی ہے. 
پورا جواب ملاحظہ فرمائیں:
القول في لعن يزيد بن معاوية:
"القول في لعنة يزيد كالقول في لعنة أمثاله من الملوك الخلفاء وغيرهم، ويزيد خيرٌ من غيره: خيرٌ من المختار بن أبي عبيد الثقفي أمير العراق، الذي أظهر الإنتقام من قتلة الحسين؛ فإن هذا ادعى أن جبريل يأتيه. وخير من الحجاج بن يوسف؛ فإنه أظلم من يزيد باتفاق الناس.
ومع هذا فيُقال: غاية يزيد وأمثاله من الملوك أن يكونوا فساقاً، فلعنة الفاسق المعيّّن ليست مأموراً بها، إنما جاءت السنة بلعنة الأنواع، كقول النبي صلى الله عليه وسلم: (لعن الله السارق؛ يسرق البيضة فتقطع يده). (منهاج السنة ص 362)
ابن تیمیہ کا واضح موقف فتاوی میں مذکور ہے- 
ولم يكن مظهرا للفواحش كما يحكي عنه خصومه (فتاوى ابن تيمية ح‍ ٣ / ٤١٠)
(یزید بن معاویہ فواحش کا اعلانیہ مرتکب نہیں تھا جیسے کہ اس کے دشمن اس کے متعلق بیان کرتے ہیں)
ابن تیمیہ کا یہی دو ٹوک موقف ہے، صیغہ تمریض کے ساتھ 'منہاج السنہ' میں جو فسق کی نسبت یزید اور دیگر ملوک کی طرف کی گئی ہے اس کا محمل ومصداق دوسرا ہے. 
اس ذیل میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لعنت کے لئے پہلے فسق وظلم ثابت کرنا پڑتا ہے. جہاں لعنت کی نفی ہوگی وہاں تبعاً فسق وظلم کی بھی نفی ہوتی ہے. لہذا تردید فسق سے لعنت کی بحث کو خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ کلام
——————
خلاصہ یہ ہے کہ احتیاط پر مبنی موقف تو سکوت کا ہے لیکن تحقیق پر مبنی موقف تردید فسق ہے. مسلمان میں عدل اصل ہے اور فسق اس کی نفی ہے، بغیر مضبوط وثابت دلائل کے تفسیق مسلم میں احتیاط برتنے کی ضروت ہے. 
تفسیق کیا؟ تکفیر ولعن یزید  بھی اگر کوئی کرے پھر بھی اسلام سے خارج نہیں ہوگا 
متعدد اہل بیت، اجلاء تابعین اور صحابہ سے یزید کے خلاف پھیلائے گئے الزامات فسق کی تردید ثابت ہے، اس کے سامنے شمس الدین ذہبی، ابن الجوزی، محمود آلوسی، قاضی شوکانی، تفتازانی، سیوطی، ابویعلی وغیرھم کی بے دلیل اور مبہم جرح کا اعتبار نہیں، یزید کی تفسیق سے اس کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تادیب وتربیت اور ان کا اعتماد بھی شکوک وشبہات کی زد میں آئے گا، سدًا لِباب الفتنہ روایات تفسیق کی تحقیق کرنا پڑتی ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معتدبہ جماعت نے جس کے ہاتھ پہ بیعت کی ہو. اجلاء صحابہ جس کے زیرامارت غزوہ قسطنطینیہ میں شریک رہے ہوں-
أوَّلُ جَيْشٍ مِن أُمَّتي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لهمْ (صحيح البخاري: 2924، مع الفتح (6/120).
یہ حدیث بتارہی ہے کہ قسطنطینہ کی جنگ میں شریک افراد جنتی اور مستحق مغفرت ہیں، یزید بھی اس جنگ میں ایک دستے کا سپہ سالار تھا، حافظ ابن حجر اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
"قوله‏:‏ ‏(‏يغزون مدينة قيصر‏)‏ يعني القسطنطينية، قال المهلب‏:‏ في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر، ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر۔(الفتح (6/120).
بعض لوگوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا  ہے کہ بخاری شریف میں صراحت نہیں ہے کہ یزید غزوہ قسطنطینیہ میں شریک تھا، تو عرض ہے کہ بخاری میں حضرت عتبان بن مالک کی ایک لمبی حدیث کے ذیل میں یزید کا ارض روم یعنی قسطنطینیہ میں بحیثیت سپہ سالار موجود ہوناثابت ہے، پوری حدیث اس طرح ہے:
كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي ببَنِي سَالِمٍ وكانَ يَحُولُ بَيْنِي وبيْنَهُمْ وادٍ إذَا جَاءَتِ الأمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقُلتُ له: إنِّي أنْكَرْتُ بَصَرِي، وإنَّ الوَادِيَ الذي بَيْنِي وبيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إذَا جَاءَتِ الأمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أنَّكَ تَأْتي فَتُصَلِّي مِن بَيْتي مَكَانًا، أتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه بَعْدَ ما اشْتَدَّ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فأذِنْتُ له فَلَمْ يَجْلِسْ حتَّى قالَ: أيْنَ تُحِبُّ أنْ أُصَلِّيَ مِن بَيْتِكَ؟ فأشَرْتُ له إلى المَكَانِ الذي أُحِبُّ أنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَكَبَّرَ، وصَفَفْنَا ورَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ علَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ له، فَسَمِعَ أهْلُ الدَّارِ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في بَيْتِي، فَثَابَ رِجَالٌ منهمْ حتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ في البَيْتِ، فَقالَ رَجُلٌ منهمْ: ما فَعَلَ مَالِكٌ؟ لا أرَاهُ. فَقالَ رَجُلٌ منهمْ: ذَاكَ مُنَافِقٌ لا يُحِبُّ اللَّهَ ورَسولَهُ، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لا تَقُلْ ذَاكَ ألَا تَرَاهُ قالَ: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بذلكَ وجْهَ اللَّهِ، فَقالَ اللَّهُ ورَسولُهُ أعْلَمُ، أمَّا نَحْنُ، فَوَ اللَّهِ لا نَرَى وُدَّهُ ولَا حَدِيثَهُ إلَّا إلى المُنَافِقِينَ، قالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: فإنَّ اللَّهَ قدْ حَرَّمَ علَى النَّارِ مَن قالَ: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بذلكَ وجْهَ اللَّهِ قالَ مَحْمُودُ بنُ الرَّبِيعِ: فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فيهم أبو أيُّوبَ صَاحِبُ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في غَزْوَتِهِ الَّتي تُوُفِّيَ فِيهَا، ويَزِيدُ بنُ مُعَاوِيَةَ عليهم بأَرْضِ الرُّومِ، فأنْكَرَهَا عَلَيَّ أبو أيُّوبَ، قالَ: واللَّهِ ما أظُنُّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، قالَ: ما قُلْتَ قَطُّ، فَكَبُرَ ذلكَ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إنْ سَلَّمَنِي حتَّى أقْفُلَ مِن غَزْوَتي أنْ أسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، إنْ وجَدْتُهُ حَيًّا في مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ، فأهْلَلْتُ بحَجَّةٍ أوْ بعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حتَّى قَدِمْتُ المَدِينَةَ، فأتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شيخٌ أعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عليه وأَخْبَرْتُهُ مَن أنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عن ذلكَ الحَديثِ، فَحدَّثَنيهِ كما حدَّثَنيهِ أوَّلَ مَرَّةٍ. (عن عتبان بن مالك. صحيح البخاري. 1186، مع الفتح (3/73)].
حافظ ابن کثیر بھی اسے شریک غزوہ قسطنطینہ مانتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ اس غزوے میں متعدد سادات و اجلاء صحابہ بھی شریک تھے؛ 
"ثم دخلت سنة تسع وأربعين 
فيها غزا يزيد بن معاوية بلاد الروم حتى بلغ قسطنطينية ، ومعه جماعة من سادات الصحابة، منهم; ابن عمر، وابن عباس، وابن الزبير، وأبو أيوب الأنصاري. 
وقد ثبت في "صحيح البخاري" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أول جيش يغزون مدينة قيصر مغفور لهم "فكان هذا الجيش أول من غزاها ، وما وصلوا إليها حتى بلغوا الجهد.
(البداية والنهاية 180/11)
ذہبی لکھتے ہیں کہ اس کے پاس بعض کمزوریوں کے علی الرغم غزوہ قسطنطینیہ میں شرکت کی صورت میں حسنات کا ذخیرہ موجود ہے:
"له على هناته حسنة، وهي غزو القسطنطينية، وكان أمير ذلك الجيش، وفيهم مثل أبي أيوب الأنصاري" (سيرأعلام النبلاء (4/36) 
اور بھی دیگر مورخین و محدثین نے اس غزوے میں اس کی شرکت کی صراحت کی ہے، لہذا وہ بمقتضائے حدیث مغفرت کی بشارت کے عموم میں شامل ہے، اسے بلاوجہ خارج کرنا قرین عدل وانصاف نہیں ہے۔
اگر اسے کمزور اور غیرثابت روایات کے ذریعے مجسم فسق گردانا جارہا ہو تو ان روایات کی تحقیق کے درپے ہونا اور الزامات کی بیخ کنی کرنا سکوت کے منافی نہیں ہے. ہاں اسے امام ہادی و مہدی ماننا یا اصحاب رسول کی طرح اس کی ہر بات کے دفاع کے فراق میں رہنا اور قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اسے خلیفہ راشد گرداننا بھی صحیح نہیں ہے. اہل بیت اور بعض اجلاء تابعین کی تعدیل کے سامنے بعد کے علماء کرام کی تفسیق بغیر مفسق چنداں ضرر رساں نہیں. تفسیق یزید اصول دین میں سے نہیں ہے. نہ یہ مدار سنیت ہے. اس کا مبنی تحقیق و تفتیش ہے. قائلین فسق کی نظروں میں ممکن ہے اس کی کوئی وجہ رہی ہوگی اور منکرین فسق کی نظروں میں بھی یقیناً اس کی وجوہات ہیں۔ تفسیق پہ زور صرف کرنا اور گہرائی میں اترنا. اسی طرح بیجا تعدیل وتوصیف اور قصیدہ گوئی کرنا دونوں جادہ اعتدال سے تجاوز ہے. 
کس قدر چشم کشا اور بصیرت افروز یہ بات ہے:
ويعلم أن الرجل الواحد تكون له حسنات وسيئات، فيحمد ويذم، ويثاب ويعاقب، ويحب من وجه ويبغض من وجه وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة، خلافاً للخوارج والمعتزلة ومن وافقهم (منهاج السنة (4/544)
یہ اس قابل ہے کہ اسے چشم سر کے راستے قلب ونظر میں اتار لیا جائے۔ قائلین فسق باحثین اتفاق اکابر ثابت کرنے میں کامیاب رہے. اجماع شرعی ثابت نہیں ہوسکا. اور فسق یزید کا جزو سنیت ہونا بھی ثابت نہیں ہوسکا. منکرین فسق باحثین تفسیق کو اصول دین میں سے اور مجمع علیہ شرعی نہ ہونے اور مدار سنیت نہ ہونے کو ثابت کرنے میں کسی قدر کامیاب رہے. صحابہ و تابعین کے اقوال میں تردید فسق یزید کے کافی مواد موجود ہیں، بار بار مطالبہ کے باوجود اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ 
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی طرف سے صادر فتاوی پورے ادارے کی ترجمانی کرتے ہیں. فتوی تحریر کرنے والے مفتی کی شخصی اور نجی حیثیت ملحوظ نہیں ہوتی. ہر صادر فتوی باضابطہ ادارے کا فتوی سمجھا جاتا ہے. جس سے ادارے کے موقف کی ترجمانی و عکاسی ہوتی ہے. ادارے کی طرف سے تصدیق وتائید شدہ شائع فتوی کو کسی خاص مفتی کی رائے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
حلقے میں مشترک ابحاث کے پیش نظر غایت عجلت میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے. جس میں نقص وکمی کا بسا امکان موجود ہے- اہل علم سے خامیوں اور کوتاہیوں پہ مطلع کرنے کی گزارش ہے. 
خیال رہے کہ یزید کی تفسیق کو امرتحقیق تک ہی محدود رکھیں! جس کی رسائی جہاں تک ہوسکے اسے اپنائے، خدا را اسے عوامی عقیدہ نہ بنائیں، ورنہ پھر یہ مختلف اندیشوں اور اضطرابات کا ذریعہ اور سبب بنے گا، إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه أنيب.
واللہ اعلم 
مورخہ 18 محرم الحرام 1444 ہجری 
مطابق 17 اگست 2022 عیسوی 
بروز چہار شنبہ
----------------
بانی حلقہ کی تمہیدی وضاحت 
———————————
ردو قدح، بحث وتمحیص اور تنقید وتحقیق؛ قوم وملت کے ضروری ووسیع تر تعمیری مفاد یا اصلاح، اور ارشاد و ہدایت کے جذبے سے ہو تو یہ بامقصد، دور رس، نتیجہ خیز اور ثمرآور کوشش کہلاتی ہے، جس سے قوم وملت کی فلاح و بہبود متعلق ہوتی ہے۔ فضل وکمال کے اظہار، یا ذاتی تفوّق و برتری کے لئے، اصول پسند دلیلوں سے انحراف اور طبع زاد بودی دلیلوں سے استشہاد کے ذریعہ، اپنی رائے، فکر، سوچ اور انفرادیت کو بزعم خود فیصلہ کُن سمجھنا، فرسودہ راگوں کو چھیڑنا، دور ازکار  فروعی اور ضمنی مباحث میں الجھنا والجھانا، لاطائل طبع آزمائی، تضییع اوقات، قوم وملت کی بیش قیمت اور صالح ذہانتوں کو انتشار کا شکار کرنا، عوام میں اختلاف و فتنے، تخریب، تضحیک اور تحقیر وتنقیص کے نئے دروازے کھولنا، تشویش و اضطراب کا زنجیری سلسلہ قائم کرنا ہے. جو عموماً بے سود ہوتا ہے۔
علم، حِلم اور عقل تینوں کا معتدلانہ و حقیقت پسندانہ فطری مجموعہ سے معاشرے میں صالح انقلاب وحقیقی تبدیلی آئے گی.
حلم وعقل پہ تسلط وغلبہ کے بغیر،  نِرا علم یا چرب زبانی نے عوام کے  لئے سوائے فتنے اور گمراہی کے کبھی کوئی اور پھل دیا ہے؟ جذبات کا شکار ہوکر حلم وعلم کے مقتضیات کو کھو بیٹھنا "خشک مزاجوں" خوش فہموں "انا پرستوں" اور "فتنہ انگیزوں" کا کام ہے۔ فسق یزید کے سلسلے میں گروپ میں جاری بحث میں بندے کی شروع سے کوئی دل چسپی نہ تھی، نہ اس نے مشترک تعلیق وتبصرے مکمل دیکھنے کی کبھی ضرورت محسوس کی. مشغول ماحول کی مصروف ترین زندگی میں ان چیزوں کے لئے وقت نکال پانا انتہائی دشوار امر ہے.
متعدد احباب حلقہ کے نجی طور پہ توجہ مبذول کرانے اور ترجیحی طور پہ اس کا حل نکالنے کی پیہم گزارش کے بعد حلقے میں فعال ہونا پڑا. اولاً قابل ترین متعدد فضلاء حلقہ کو تحریر طور پہ بھی اور بعضوں کو زبانی کلامی بھی اس بابت اپنا فیصلہ کن ومؤثر کرار ادا کرنے کی گزارش کی تھی، لیکن کوئی جیل کا قیدی بھی تو نہیں ہے کہ بے شغل بیٹھا رہے، ہر ایک کی اپنی نجی مصروفیات بھی ہوتی ہیں. درجہ مجبوری میں یہ مصیبت میرے ہی سر آئی، یہ کوئی باضابطہ مناظرہ نہیں تھا.
نہ دلائل وغیرہ کی نوعیت کے تئیں اس کے کچھ اصول طے ہوئے تھے، اختتام بحث کے بعد احباب کو اپنے بچے کھچے مستدلات نجی نمبر پر بھی بھیجنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی، ایک فریق نے بیشمار دلائل بھیجے بھی تھے۔ بندے کا پہلے ارادہ تھا اور حلقے میں اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ مضمون کی شکل میں ہم اپنا مؤقف اطمنان سے رکھیں گے. 
بالآخر طرفین کے پیش کردہ مستدلات کے تجزیہ کے ذیل میں ہی اس بارے اپنا موقف رکھ بھی دیا. اور نہ چاہتے ہوئے بھی تحریر دراز نفس ہوگئی. اس تحریر کو محاکمہ ہم نے کبھی نہیں کہا، مضمون کا عنوان ہی اس کا شاہد عدل ہے. محاکمہ وغیرہ جیسے الفاظ ارکان حلقہ کے اپنے تاثرات ہیں۔ اپنی تعریف وتوصیف سن کر کبھی پھولا ، نہ کبھی تعریف کنندہ کو "شکریہ" "عنایت" "مہربانی" جیسے رسمی الفاظ کہنے کو بہتر جانا. ہر کسی کے کچھ موافق ومخالف اور مادح و ذام ہوتے ہیں، دونوں کو اپنے حال پہ چھوڑ دینا چاہئے.
(كل أحد يؤخذ من قوله ويرد إلا صاحب هذا القبر - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ -) من قول مالك رحمه الله ،قاله السخاوي في (المقاصد الحسنة: 327 رقم: 815)
ويعلم أن الرجل الواحد تكون له حسنات وسيئات، فيحمد ويذم، ويثاب ويعاقب، ويحب من وجه ويبغض من وجه وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة، خلافاً للخوارج والمعتزلة ومن وافقهم (منهاج السنة (4/544)
ہم نے داخل مضمون صراحت کردی ہے کہ یہ کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، ایک مختصر سا مضمون ہے، موضوع سے متعلق جانبین سے  متعدد زبانوں میں ہزاروں صفحات پہ مشتمل باضابطہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں، جہاں ایک ایک جزو کے بال کی کھال نکالی گئی ہے، اور دقیق علمی موشگافیوں کے وافر جلوے دکھائے گئے ہیں۔ ہر اعتراض کا شافی وافی جواب دیا گیا ہے.
ہم نے جو کچھ حق وسچ جانا اور سمجھا اسے غیر جانبدارانہ طور پہ اس میں لکھ دیا ۔ 
اسے منوانے اور دوسروں پہ تھوپنے کا خبط بھی کبھی سوار نہیں ہوا الحمد للّٰہ۔
اگر کوئی اسے غلط سمجھتا ہے تو اظہار رائے کے اس حق کو ہم اس کے لیے بھی تسلیم کرتے ہیں، ہم یزید کو مجمع الفسق والفجور کے قائل نہیں ہیں، انتظامی کوتاہی عمل یا اندیشہاے  دراز کا شکار ہوکر خاطیوں پہ بروقت کارروائی نہ کرنے کی کمزوری کی بات علیحدہ ہے ، ایسی سیاسی وانتظامی کمزوریوں کے نظائر تاریخ میں موجود ہیں، جو حسنات کے باعث محو ہوتے رہتے ہیں ، ان سے حکمراں منزّہ نہیں ہوسکتے. نہ اسے جزو سنیت سمجھتے ہیں. اسی طرح ہم یزید کی تعریف وتوصیف میں بھی رطب اللسان نہیں رہتے. ہاں البتہ بحیثیت مسلمان اور فرزند صحابی جلیل اس کے خلاف افسانوی الزامات واتہامات کی تاریخی روایات کو غیرمحقق مانتے ہیں. یہ ہمارا علمی حق ہے. کسی کو اس کے خلاف جبر کا حق نہیں. نہ ہمیں کسی کی علمی رسائی پہ استبداد کا حق ہے. ہم ائمہ ثلاثہ جیسے اعلام امت سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرسکتے ہیں تو مؤرخین اور اپنے بعض علماء کے موقف سے دلائل کی بنیاد اختلاف کرنا حرام وناجائز تو نہیں؟ یہ ایک  ضمنی اور فروعی چیز ہے. اس پہ اصول دین کی بناء نہیں ہے۔ اللّٰہ نے ہمیں آج کے دور میں فسق یزید جیسی چیزوں میں آستینیں چڑھا کر بحث ومباحثہ کے میدان کارزار میں کود پڑنے سے یقیناً بے نیاز کردیا ہے. 
انسان کے پاس کرنے کے اور  کوئی اہم کام نہیں ہیں کہ ان لاطائل بحثوں میں سوال وجواب کر کے اپنی توانائیاں صرف کرتا رہے؟ ہم نے اپنا موقف رکھ دیا، کسی کو اس سے اتفاق نہ ہو تو وہ بھی مکمل ومرتب اپنا موقف رکھ دے، حقِ اظہار پہ آخر کسی نے پہرہ تو نہیں بٹھا رکھا ہے؟ بحث ومباحثہ اور سوال وجواب، جیساکہ پہلے عرض کرچکا ہوں تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں، اس کی بجائے انسان مثبت طور پہ مدلل انداز میں اپنا مکمل مضمون ہی قلمبند کردے. بحث ومباحثہ سے جو وقت بچے اسے دیگر مفید واہم علمی کاموں میں صرف کرے. سو ہمیں بحث ومباحثہ میں کوئی کھینچنے کی کوشش نہ کرے، ایسی خواہشوں کو ہم کسی طور قابل اعتناء نہیں سمجھتے. ہر چھیڑے گئے ساز پہ آخر غزل تو نہیں سنادی جاتی؟ اگر کسی بھائی کو اشتغال بالتفسیق سے ہی دلچسپی ہو اور انہیں آج کے دور کا یہ سلگتاموضوع نظر آتا ہو تو یہ اس کا اپنا معاملہ ہے۔ 
لکم دینکم ولی دین.
ہم اس معاملہ کو آج کے دور میں اشتغال بمالایعنی سمجھتے ہیں، ومن حسن إسلام المرء تركه مالا يعنيه .
جو کچھ ہم نے لکھا ہے اسے ہار جیت اور شکست وفتح یا و العیاذ باللہ تسکین انا کا مسئلہ ہر گز نہ بنایا جائے. اس دو ٹوک وضاحت کے بعد بھی اگر کسی کرم فرما نے متنازع موضوع میں (میرے ساتھ) بحث ومباحثہ کے ذریعے انتشار ذہن کی کوشش فرمائی اور پھر شاید میرا رویہ سخت ہوجائے تو تندئی خلق پہ ہرگز محمول نہ کریں۔
جمعرات ١٩ محرم الحرام سنة ١٤٤٤ هجرية
مطابق 18 اگست 2022 عیسوی 
--------------------
"فیصلہ کی تائید کرنے والے علماء ومفتیانِ حلقہ"
الحمدللہ. بہت مشکل قضیہ تھا. لیکن نہایت سنجیدگی کے ساتھ میزان عدل میں تول کر پیش کیا گیا. اللہ تعالیٰ اپنی شایان شان حضرت شکیل منصور القاسمی صاحب کو اجر عظا فرمائیں
(مولانا ابوسعد معروفی صاحب)
-----
آپ نے غایت محنت اور وقت کی قربانی کے ساتھ تفصیلی محاکمہ پیش کیا. فجزاک اللہ خیراً.
بعض جزوی چیزوں سے اختلاف کے ساتھ مجموعی طور پر محاکمہ میرے نزدیک بہت عمدہ ہے، تمام گوشوں کو حاوی ہے اور شاہکار تحریر ہے. اس گروپ میں آئندہ یزید کے موضوع پر گفتگو کی ممانعت بھی قابلِ تحسین عمل ہے. اللہ تعالی تمام احباب کو بھی جزائے خیر دے! اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
(مولانا مفتی ڈاکٹر عبیداللہ صاحب قاسمی، سابق استاذ دارالعلوم دیوبند)
-----
موضوع انتہائی حساس و نازک تھا، حکمیت مصیبتوں اور جذباتیت سے بھری ذمہ داری ہے، اس کے تقاضے بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں. شاید اسی لئے ہمارے دوست حضرات کمال خوبصورتی کے ساتھ کٹ گئے. بحیثیت منتظم ہمیں تو یہ وزنی پتھر تو اٹھانا ہی تھا، سو ہم نے اللہ کے نام پہ ہمت کرلی. خدا ہی بہتر جانتا ہے. کتنی راتیں جاگ کے گزارنا پڑیں. رفقاء کرام کے مراسم شخصیہ کی رعایت سے زیادہ اللہ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے مکمل عدل کو ملحوظ رکھتے ہوئے طالب علمانہ سعی کی گئی ہے. ترتیب وسیٹنگ میں مشہور صحافی اور صاحب قلم جناب ایس اے ساگر صاحب نگراں مركز البحوث الإسلامية کا تعاون ناقابل بیاں حد تک ملا، فجزاہ اللہ خیرا
-----
عمدہ صاف ستھری تحریرہے پڑھنے سے ہی حضرت مفتی صاحب کی انتھک کوشش کا اندازہ ہوتا ہے
الہھم زد فزد 
(مولانا افتخار حسن قاسمی. مدرس جامع العلوم کانپور)
-----
اس تحقیقی مضمون کو کتابچہ شکل میں پیش کیا جائے تو افادیت میں اضافہ ہوجائے گا.
(رشیداحمد قاسمی ناندیڑ مہاراشٹر)
------
ماشآءاللہ مضمون لاجواب تمام گوشوں کو حاوی ہے اللہ جزاۓ خیر عطاء فرماۓ آمین
(سعید احمد قاسمی)
-----
حضرت مفتی صاحب کی انتھک محنت، شبانہ روز کی جد وجہد کا یہ علمی، تحقیقی اور جاندار مقالہ شاہدعدل ہے! اللہ تعالی، حضرت مفتی صاحب کو بہترین بدلہ عطا فرمائے آمین
(مولانا امجداللہ صدیقی قاسمی بوکاروی، منتظم مرکز البحوث الاسلامیہ)
------
سماحة المفتي الوقور والأديب الموسوعي شكيل منصور القاسمي أسعدكم الله بطاعته ،،لقدأديتم حق الموضوع الهام علی بساطة البحث مخلصا جزيلا جميلا فجزاكم الله خيرا و أكرمكم في الدارين وقبل خدماتكم الحميدة المشكورة وألبسكم أثواب العافية و السلامة اللهم تقبل قبولا حسنا:::
(إعجاز أحمد القاسمي خويدم التدريس بدهره دون تحت مقاطعة أوترانشل)
------
تحریر پڑھ کے بڑی خوشی ملی مفتی صاحب کی محنت اور ایس اے ساگر کی ترتیب بہت ہی عمدہ ہے ایسا لگ رہا ہے کہ آج مفتی شکیل صاحب کی طرف سے بڑی اچھی دعوت ہوگئی ہے. اللہ دونوں کی محنت کو قبول کرے آمین
(نظام قاسمی، گڈاوی)
------
بالکل درست فرمایا. یقیناً یہ موضوع انتہائی حساس ونازک ہے. آپ نے بہت ہمت اور محنت سے کام لیا. البتہ آپ کے دوست حضرات جنہوں نے حکمیت سے انکار کردیا ظاہر ہے کہ انہوں نے اکابر کے ذریعے سکوت کی فہمائش کے پہلو کو اختیار کیا اور اچھی نیت سے ہی ایسا کیا ہوگا لہذا وہ بھی ان شاء اللہ ماجور ہونگے. بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ محاکمہ پیش کرنے والے، محاکمے سے انکار کرنے والے، بحث میں جانبین اور مساعدین سب ان شاء اللہ ماجور ہونگے کیونکہ کسی کی شرکت بدنیتی پر مبنی نہیں رہی ہوگی.
(ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی، دہلی کالج)
-------
ماشآءاللہ بہت عمدہ مفصل مدلل تحریر ہے جب پڑھنے میں اتنا وقت لگا تو پھر لکھنے میں کتنے دن لگے ہوں گے. اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایان شان بدلہ عنایت فرمائے اور آپکو صحت وسلامتی کے ساتھ لمبی عمر دے اور خوب دین کا کام لے
(مولانا وقاری نورالحسن قاسمی، منتظم مرکزالبحوث الاسلامیہ)
-------
مضمون بشکل روداد مکمل پڑھا، الحمدللہ وافی شافی ہے، میری کم علمی اور کتابوں سے دوری کی بنا پر کچھ نکات کو سمجھنے میں دقت ہوئی...
یہ نکتہ اہم ہے کہ یزید کی طرف منسوب کی گئی نفس الأمر میں کسی غلط بات کو غلط قرار دینا کف لسان کے منافی نہیں. یہ مضمون اس موضوع پر ایک مختصر اور جامع مقالے کی حیثیت رکھتا ہے... جہاں تک اس مقالے پر ممکنہ اعتراضات کا تعلق ہے تو یہ امر ناممکنات میں سے ہے اور خلاف فطرت ہے کہ کسی بھی کتاب یا مقالے میں ہر ہر اعتراض اور ہر مخالف وموافق پہلو کا اس طرح مکمل احاطہ کر لیا جائے کہ اشکال کی گنجائش باقی نہ رہے..... بہر کیف اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک حساس ترین موضوع ہے جس پر مفتی شکیل صاحب دامت فیوضہم نے قلم اٹھایا ہے اور بہت اعتدال کے ساتھ اسکا حق ادا کیا ہے. فجزاہ اللہ خیرا کثیرا جزیلاََ. مقالے کے اخیر میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی 'کف لسان اور توقف' پر تایید پڑھ کر اس فقیر نے راحت کی سانس لی. فللہ الحمد.
(مولانا عامر شیخ صاحب قاسمی ومظاہری).
----------
یہ مضمون پڑھ کر مفتی شکیل صاحب سے عقیدت میں بے حد اضافہ ہوا. جزاکم اللہ خیرا
(مولانا ومفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی)
-------
کئی سال قبل ایک دوسرے گروپ میں حضرت مفتی شکیل صاحب دامت برکاتہم سے بندہ متعارف ہوا تو حضرت کے بعض فتاوی پر بندے نے طالب علمانہ اشکال کیا لیکن حضرت نے ایسا مدلل جواب دوبارہ تحریر فرمایا اور اس قدر شفقت کے ساتھ حضرت نے جواب لکھا کہ بندہ اسی دن سے حضرت کا معتقد ہوگیا. ایک مسئلہ تھا سجدۂ شکر والا اور دوسرا تھا امتصاص الخ والا. خیر. اللہ پاک حضرت کو نظرِ بد سے محفوظ فرمائے
(مفتی شاہجہاں قاسمی، مدن پلی)
------
اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایانِ شان بدلہ عطاء کرے حضرت مفتی صاحب۔
(نسیم قاسمی پرتاب گڑھی حیدرآباد).
------
ماشآءاللہ. بہت ہی علمی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے. صحیح و غلط کا فیصلہ تو اس گروپ کے بالغ نظر ممتاز مسافران علم وتحقیق  کریں گے؛ لیکن ممتاز محقق شکیل منصور القاسمی صاحب نے جس اعتدال وتوازن اور دقّت نظر کے ساتھ مہذب اسلوب اور مدلل ومبرہن پیرائے میں محققانہ محاکمہ پیش کیا ہے. امید ہے کہ اہل علم ضرور اس سے متاثر ہونگے. میں بھی جب ان کے اس علمی تحقیقی مضمون کا مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ مبارکباد دینے والوں میں میرا شامل نہ ہونا یک گونہ حلق تلفی ہے .جو علمی کام کرنے والوں کے لئے حوصلہ شکن ثابت ہوسکتا ہے. بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے ضروری نہیں کہ سب اس جائزہ اور محاکمہ سے متفق ہی ہوں. اختلاف رائے تو علم وتحقیق کا حسن ونکھار ہے ، وہ تو سدا رہے گا: "كلٌ يؤخذ من كلامه ويُرد عليه الا صاحب هذا القبر"
؛ لیکن معاملہ تفسیق  چونکہ انتہائی حساس ودور رس اثرات کا حامل ہے. بات صرف یزید تک ہی محدود نہ رہے گی. سلسلہ چل پڑا تو  یہ معاملہ ان کے والد محترم کی تعلیم و تربیت پر جاکر ختم ہوتا ہے جو ایک صحابی رسول ہیں. اور ان کے بارے میں احادیث میں بڑے فضائل آئے ہیں. اس لئے میرے خیال میں مفتی شکیل صاحب کی معتدل تحریر جوکہ اپنے اکابر کی فکروں سے ہم آہنگ ہے. اسے قبول کرلینا چاہئے، مزید اس پر تبصرہ اور لایعنی بحثوں سے احتراز کرنا چاہئے.
(محمد ارشد شمس قاسمی. قاضی شہر پورنیہ)
------
آپ انتہائی خوش نصیب اور اہل علم و فن میں ممتاز و منفرد شخصیت کے مالک ہیں. مبدأ فیاض سے علم و تحقیق کا وافر حصہ عطا ہوا ہے. "ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء" ۔۔۔۔ "قلم گوید کہ من شاہ جہانم"۔۔ نوجوان علماء و فقہاء کی آپ کے علم و تحقیق پر وارفتگی میرے خیال کی تصدیق ہے۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ دراز رہے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب ہو کہ ہم جیسے رفقاء کو آپ کی خوبصورت رفاقت پر ناز رہے۔۔۔
(مفتی محمد اطہر القاسمی. نائب صدر جمعیت علماء بہار)
-------
ماشآءاللہ۔ آبروۓ نوجوان علماء دیوبند حضرت مولانا مفتی شکیل منصور صاحب قاسمی وامت برکاتہم نے اپنی علمی تحقیقی متوازن سنجیدہ تحریر سے حق حکمیت کماحقہ ادا فرمادیا ہے۔ جزا الله عنا خیرالجزاءفی الدنیا والآخرۃ۔ الله رب العزت حضرت مفتی صاحب کو عمرخضر عطاء فرمائے اور علم۔ اعمال صالحہ۔ خوب خوب برکت عطاء فرمائے۔ اور دینی ۔ دنیاوی۔ اخروی۔ ظاہری۔ باطنی۔ میں خیرات وبرکات کا نزول فرمائے۔ اور امت کی صحیح رہنمائی کے لئے قبول فرمالے آمین یا رب العالمین۔
(خورشید انور قاسمی، چمپا نگر ، بھاگلپور)
------
بفضل رب مفتی مولانا شکیل منصور القاسمی صاحب زید مجدہ نے قلم اٹھایا اور موضوع کا حق ادا کردیا، افراط وتفریط سے پاک انتہائی معتدل تحریر ہے، جچے تلے الفاظ، کوثر و تسنیم سے مغسول سے تحریر سے سے واضح ہوگیا کہ وہ شمعِ انجمن ہیں وہ سب کے رفیق ہیں اور سب سے جدا بھی، وہ بے ہمہ بھی ہیں اور باہمہ بھی، وہ دور اندیش بھی ہیں اور تیز نظر بھی. مضمون کے ہر پیراگراف سے ظاہر ہوا کہ وہ پہاڑ کے اس پار دیکھنے کی قدرت و صلاحیت رکھتے ہیں ماشآء اللہ! میرا من کرتا ہے آن حضور کی خدمت میں کوئی نذرانہ پیش کروں، اس لئے 500 روپے بطور ہدیہ پیش کرتا ہوں اگر قبول افتد۔ اللہ تمام شرور و فتن اور نظربد سے مامون و محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین
(فخرالزماں قاسمی مظفر نگری).
---------
آپ کے دلی جذبات اور محبتوں کی بے حد قدر ہے. نذرانہ تو کسی مسکین عالم دین کو دیدیں. علمی وتحقیقی کام خدمت واشاعت دین کے جذبے سے انجام دیتا ہوں اس پہ مالی نذرانے قبول کرنا بندے کا اصول نہیں ہے. آپ سے مخلصانہ اٹوٹ محبت ہی سرمایہ حیات ہے. آپ کی طرف سے سب سے بڑی سوغات غائبانہ دعاء ہوگی کہ اللہ تعالی میری زندگی اور صحت وعافیت کو اشاعت وحفاظت دین کے لئے قبول فرمائے. اور تادم زیست جادہ حق پہ قائم اور مسلک دیوبند کا پہرہ دار بناکے رکھے.
------
ماشآءاللہ، تبارک اللہ. انتہائی مفصل تحریر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تحریر کو مسئلہ یزید سے متعلق، حلقے میں گفتگو کے خاتمے کا ذریعہ بنائے۔ اور آپ کو اپنی شایان شان بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ آمین
(مفتی سعد مذکر قاسمی، نئی دہلی)
-----
ماشآءاللہ. بہت خوب، اللہ تبارک و تعالٰی بھر پور اجر عطا فرمائے، فسق یزید کے موضوع پر تحقیقات کی یہ تدقیقات انیقہ اصل حقیقت کی بہترین عکاسی ہے، تحقیقات کے حوالہ جات کی تہ میں غوطہ زن ہوکر اس میں مستور و مکنون درہائے نایاب تک رسائی کی یہ سعی جمیل نہایت ہی قابل تحسین عمل ہے، حضرت مفتی صاحب کو اس خامہ فرسائی پر ہم دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، اور بارگاہ الہی سے ان کے لئے اجر جزیل کے متمنی ہیں،
فسق یزید کے تعلق سے پیش کردہ مثبت و منفی ہر دو قسم کے حوالوں کو مکمل چھان پھٹک کر اور اس پر چھائے ہوئے کائیوں کو صیقل کرکے اس کی اصلیت کو اس محاکمے میں بے نقاب کردی گئی ہے، جس سے فکر و نظر کو تزلزل اور گہرے دلدل میں پھنسنے بچایا جاسکے گا، 'ان اللہ گو الموفق للسداد'
(مفتی شمشیر حیدر صاحب قاسمی ارریاوی ، نگراں و استاذ شعبہ افتاء جامعہ رحمانی خانقاہ، مونگیر، بہار، منتظم مرکز البحوث الاسلامیہ)
-------
ماشآءاللہ. الفاظ نہیں ہے میرے پاس! پہلی بار اس طرح کا تحقیقی جائزہ پڑھنے کا موقع ملا۔ دو بار پڑھ چکا ہوں دل صدا لگا رہا ہے مزید متعدد بار پڑھوں۔ 'بارك الله فيك وصانك الله من كل شطط وحماك الله من كل زلل.' فجزاکم اللہ احسن خیر الجزاء. ماشآءالله
(مفتی غلام مصطفی عدیل قاسمی)
--------
یزید کے سلسلے میں محترم مفتی شکیل منصور قاسمی زید مجدہ کی تحریر نظر نواز ہوئی. جناب مفتی صاحب کی صلاحیت، قابلیت، ان کے زورقلم، تحریر کی شگفتگی، بے ساختگی اور روانی میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس میں بھی شک نہیں کہ یہ محققانہ تحریر بڑی جانکاہی، سینکڑوں کتابوں کی ورق گردانی اور ہزاروں اقتباسات پر غور فکر کے بعد معرض وجود میں آئی ہوگی، یقینا اس کے لئے کئی راتوں کی نیندیں قربان کرنی پڑی ہونگی، کھانے پینے کے اوقات متاثر ہوں گے، نہ جانے کتنے ضروری کاموں کو مؤخر اور ملتوی کرنا پڑا ہوگا ـ ......... بہر حال یہ ایک شاہکار تحریر ہے اور دستاویزی حیثیت بھی رکھتی ہےـ اللہ تعالی موصوف کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے، ان کے فیض کو مزید عام فرمائے، اُن کے علم و عمل میں برکت اور ترقی عطا فرمائے. مکمل تحریر پڑھنے بعد ذہن میں جو تاثر ابھرتا ہے ایمان داری کی بات یہ ہے کہ اُس کا تذکرہ بھی کرنا چاہئے اس لئے چند جملے مزید عرض کرتا ہوں.  ہم سب جانتے ہیں کہ ہر خبر کے اندر ایک خبر پوشیدہ ہوتی ہے جس کو خبروں کی تراش خراش سے واقف ہر شخص دیکھ سکتا ہے، اسی طرح ہرتحریر کے اندر بھی ایک تحریر ہوتی ہے اور دو سطروں کے درمیان ایک بین السطور ہوتا ہے، اس کو بھی لکھنے پڑھنے سے شغف رکھنا والا ہر آدمی محسوس کرسکتا ہے ـ ........... حالانکہ مفتی صاحب نے تحریر کے آخری حصے میں سمھالنے کی کوشش کی ہے مگر مجھ ناقص کے خیال کے مطابق مکمل تحریر پڑھنے کی بعد وہ لوگ جو یزید کی (دبے الفاظ ہی میں سہی) کسی حد تک تعریف کرتے نظر آتے ہیں اپنے حق میں اس تحریر کا استعمال کرسکتے ہیں، ممکن ہے اِس حقیر کا یہ خیال "خیالِ خام" ہو. واللہ اعلم
(مولانا محمود خاں صاحب دریابادی، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، چیرمین آل انڈیا علماء کونسل، ممبئی، ونگراں مرکز البحوث)
---------
مولانا دریابادی صاحب کے تبصرہ پہ تبصرہ. حضرت معذرت اور معافی کے ساتھ... 
بڑے ادب سے عرض ہے کہ آپکے بیان کردہ اس نکتے سے انکار نہیں... لیکن حق یہ ہے کہ موضوع چاہے فسق یزید ہو یا مخالفت یزید، ہر دو میں رافضیت یا ناصبیت والوں کے لئے مواد رہتا ہے اب یہ قاری کی دیانت پر ہے کہ صاحب تحریر کے ہر جملے کا کیا محمل تلاش کرتا ہے اور اسے کس طرح justify کرتا ہے. قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں علامہ حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کو رافضیت نظر آگئی اور علامہ حبیب الرحمن کی کتاب میں علامہ طاہر گیاوی صاحب کو ناصبیت مترشح ہوتی محسوس ہوئی ....... اور ان دونوں کی کتابیں اس وقت پڑوسی ملک میں دونوں رجحان کے لوگ (یعنی رافضی اور ناصبی) اپنے مستدل کے طور پر پیش کرتے ہیں. معلوم ہوا کہ مسئلہ صرف رجحان کی شدت کا ہے، رجحان میں جس درجے شدت ہوگی، قاری کو تحریر میں اس کے اثرات محسوس ہونگے ..... بخاری شریف کی صحیح روایات جہاں ایک طرف رافضیت کی مستدل ہیں وہیں دوسری روایات صحیحہ خارجیوں اور ناصبیوں کی بھی مستدل ہیں (نفس الأمر میں مستدلات کی صحت و سقم اور محمل صحیح سے بحث نہیں) حتی خارجیوں کو "إن الحکم الا للہ" کی دلیل قرآن پاک سے بھی مل گئی.
لہذا کسی موضوع پر بھی قلم اٹھانا اور اسکے لوازمات سے دامن بچانا خلاف فطرت ہے.
(مولانا عامر شیخ مظاہری قاسمی)
--------
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ. 
حضرت! اس مضمون کو پڑھنے میں اور اس قیمتی عادلانہ منصفانہ آپ کی تحریر کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے میں واللہ. چالیس منٹ مجھے تقریباً لگے ہیں. اور تقریبا دو ہزار چودہ سے بندہ واٹس ایپ استعمال کررہا ہے. اب تک  سینکڑوں کی تعداد میں گروپ میں شرکت رہی. بہت سارے گروپ کو ترک بھی کر دیا چھوڑ دیا. ابھی معدود چندے گروپ باقی ہے. جن میں سے سب سے اعلی گروپ یہ مرکز البحوث الاسلامیہ ہے. جو کہ سب سے ممتاز و منفرد  ہے. آپ کی تحریر نے آج بہت ہی زیادہ دل خوش کردیا ہے. جو آپ کی سابقہ تحریروں میں یہ سب سے منفرد اور انوکھی تحریر ہے. بہت ہی شاندار ہے. عمدہ ہے. مدلل ہے. ہر پہلو کو اس میں ملحوظ رکھا گیا. غیرجانبدارانہ. منصفانہ. بالکل اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے آپ نے اس کو مرتب فرمایا ہے.. اور بڑے بڑے اکابرین نے جو لکھا اور دیگر حضرات نے جو لکھا کسی نے تفسیق کا قول لیا. کسی نے عدم تفسیق کا قول لیا ہے تمام جزیات کو آپ نے مدلل انداز میں اس میں مرتب فرمایا. واقعی بڑی جانفشانی کے ساتھ آپ نے کئی راتیں جاگ کرکے اپنا خون پسینہ بہاکے آپ نے تحریر فرمایا ہے. اب ہم گروپ والوں پر لازم ہے کہ وہ آپ. دعوت کریں! حضرت! یقیناً آپ کی دعوت ہونی چاہئے بلکہ ایک زوم میٹنگ ہونی چاہئے. جس میں ہم سب مل کر آپ کا شکریہ ادا کریں. چونکہ آپ باہر رہتے ہیں اس لیے براہ راست آپ کی دعوت ناممکن ہے. تو زوم میٹنگ ایک رکھ لی جائے. جس میں کلمات تشکر ہو اور آپسی مذاکرہ ہو. کسی ایک موضوع کو لے لیا جائے تو انشآءاللہ بڑا فائدہ رہے گا. بندہ بس یہی عرض کرنا چاہتا ہے کہ چالیس منٹ اس کو پڑھنے میں لگے. واٹس ایپ میں اتنا لمبا مضمون اور اتنا وقت لگاکر میں نے کبھی اتنے طویل زمانے میں آٹھ نو سال کے زمانے میں میں نے کبھی نہیں پڑھا. آپ کا مضمون پڑھتا گیا, پڑھتا گیا.. دلچسپی بڑھتی رہی کہ آخر تک پڑھ ڈالا آخر میں ایک دو سطر پر پہنچا تو مغرب کی اذان ہوگئی. تو نماز پڑھا کرکے ابھی واپس آیا ہوں. اللہ تعالی آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے. اور جانبین کو  یہ جو قول فیصل ہے اس پر اطمینان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو اسی طرح کی مزید تحریریں لکھنے کی، فتاوی مرتب کرنے کی اور آپ کے جتنے فتاوی اس سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں  مختلف مقامات پر شائع ہوئے ہیں ان سب کو میرے جیسا کہ پہلے بھی میری آرزو تھی اور آپ سے عرض بھی کیا تھا کہ باضابطہ کتابی شکل میں آپ کی اس تمام تحریریں آنی چاہئے. اللہ تعالی اس کو بھی انجام تک پہنچائے. آمین. والسلام علیکم ورحمۃ اللہ.
(مفتی شاہجہاں قاسمی مدن پلی، آندھرا پردیش)
----------------------------
مفتي شكيل منصور قاسمی صاحب دامت بركاتهم کی تحرير پر ميرے ملاحظات
محمد نوشاد نوري قاسمي دارالعلوم وقف ديوبند
مفتي شكيل منصور قاسمي صاحب زيد مجدہم كي تحرير ديكھی، جو انهوں نے گروپ ميں جاري فسق يزيد كے محاكمے كے طورپر لكھي ہے، بلاشبه مفتي صاحب نے اس تحرير كے لئے بڑی محنت كی ہوگی، ممبران گروپ نے اس تحرير پر خوب صورت احساس كا اظہار كيا ہے، جو قابل قدر ہے، بحث كے دوران ہی كئي بار ميں نے بحث كے خاتمہ كی درخواست كی تھی، مجھے اندازه تھا كہ يه بحث كسي نتيجے پر نہیں پہنچے گی، مفتی شكيل صاحب كی تحرير ديكھنے كے بعد جو ملاحظات ميرے دل ميں آئے، وه من وعن لكھتا ہوں، تحرير پر ديگر ممبران كي تبصرے كي طرح اسے بھي ايك تبصره ہي سمجھا جائے۔ 
1- كسی مسئلہ ميں محاكمہ الگ چيز ہے اور كسی مسئلہ كي تحقيق الگ چيز ہے، محاكمہ فريقين كے پيش كرده مواد كے درميان محصور ہوتا ہے، جب كہ تحقيق كي تحديد نہيں كي جاسكتي ہے، محاكمہ بحث كو ختم كرتا ہے، جب كہ تحقيق بحث كے نئے دروازے كھولتی ہے، اس تحرير ميں دونوں چيزيں جمع ہوگئی ہيں، اس لئے خلجان پيدا ہونا معقول ہے، ابتدائي حصہ محاكمہ كي روح ليے ہوا ہے، اس لئے متانت اور سكون ہے، جب كہ بعد كا حصہ تحقيق كی قبيل سے ہے، جس ميں ایک نظريہ كی تائيد ہے، اس لئے تموج اور عاطفيت كا عنصر نماياں ہے۔
2- جو لوگ فسق يزيد كے قائل نہیں ہیں، ان ميں ایک نام حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمۃ الله عليہ كا بھی لكھا گيا ہے، اگر یہ صحيح ہے تو یہ بات اهم هے، اس لئے کہ ان كا شمار فكرديوبند كے اہم ترين شارح ميں هوتا هے، اس سلسلے ميں گزارش هے کہ ان كي كوئی تحرير حوالے ميں پيش کی جائے، جس ميں انہوں نے بصراحت فسق يزيد کی نفی کی ہو۔
3- حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت بركاتہم اور حضرت مولانا عبدالعليم فاروقی صاحب دامت بركاتہم نے تحریری طور پر فسق يزيد كے سلسلے ميں كيا موقف اپنايا ہے، اسے ديكھنے کی ضرورت ہے، یہ ميں اس لئے لكھ رہا ہوں کہ مجھے ياد پڑتا ہے کہ انہوں نے بھي اپنی تحريروں ميں فسق يزيد کی بات لکھی ہے۔
4- مفتی شكيل منصور قاسمی صاحب زيد مجدہم کی یہ تحرير اگر مسئلہ فسق يزيد کی تحقيق ہے جيسا کہ دلائل اور دلائل پر تبصرے سے معلوم هورها هے تو يه بهت ناقص تحرير هے، اور بهت سي وه باتيں لكھ دي گئي هيں ، جن كا جواب اكابرين علماء بتحقيق دے چكے هيں ، جيسےيه عبارت:"اگر اس میں اہلیت یا صالحیت نہ ہوتی، یا فسق وفجور کے جراثیم ہوتے تو کیا یہ متصور ہے کہ صحابی رسول فاسق وفاجر کے لئے دوسروں سے  بیعت لیں؟"، جمهور علماء كے نزديك فسق يزيد كا مسئله حضرت معاويهؓ كي وفات كے بعد كاهے، جيسا كه اسباب فسق كو ديكھ كر اندازه كيا جاسكتا ہے۔ 
5- يه عبارت مفتی شكيل منصور صاحب کی ہے: ’’لیکن قاتلین سے سختی سے نمٹنے، انہیں قرار واقعی سزا دینے یا اپنے کمانڈروں کو صاف صاف قتل حسین سے منع کرنے کا فرمان پہلے سے نہ بھیجنے جیسے حقائق سے پہلو تہی کرنا یا کمزور و نکمی تاویلات رکیکہ کے سہارے دلوں کو طفل تسلی دیتے ہوئے ان حقائق سے صرف نظر کرنا بڑا مشکل ہے. ٹھیک ہے یزید امام حسین کی نعش دیکھ کر غضبناک ہوا ہو. اس کی آنکھیں بھر آئی ہوں. ابن زیاد کو بد دعائیں دی ہوں. لیکن فرماروائے سلطنت ہونے کی حیثیت سے یزید کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا. قلمرو میں خچر مرجانے پہ حکمراں اور خلیفہ خود کو مسئول سمجھتے ہوئے قابل احتساب سمجھ سکتا ہے تو اتنی بڑی شہادت سے یزید کا پلو جھاڑ لینا کسی طور سمجھ نہیں آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول تاریخ میں ثبت ہے: "فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی مرجائے تو اس کا سوال عمر سے ہوگا"۔
اس عبارت ميں ’’پلو جھاڑ لينا‘‘ اور ’’كسی طور سمجھ نہیں آتا‘‘ كا كيا مفهوم ہے؟ كس نے پلو جھاڑا اور كس كو سمجھ نہیں آئی؟ شہادت حسين رضی اللہ عنہ كے واقعہ پر یہ تبصره بہت ہی ہلكا اور پھُسپھُسا ہے۔
6- فسق يزيد کی تمام روايتوں کی بنیاد واقدی، ابومخنف، عوانہ بن الحکم اور عمر بن شبہ پر نہیں ہے؛ بلكه صحيح روايات بھی ہيں۔
7- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ديگر لوگوں كا بيعت نه توڑنا يا اس كو اميرالمؤمنين كهنا عدالت يزيد کی دليل نہيں هے، كيوں كه خليفه فاسق هونے كے بعد بھی اميرالمؤمنين ہے اور فسق كے بعد بھی اس کی اطاعت بہت سارے علماء كے نزدیک واجب ہے۔ 
8- حضرت عبدالله بن مطيع رضی اللہ عنہ جن کی گفتگو محمد رحمۃ اللہ علیہ بن الحنفيہ سے کوئی ہے، وه صحابی ہيں، انہوں نے شرب خمر كے بارے ميں کہا کہا: ’’ہم نے نہيں ديكھا؛ مگر يه حق ہے‘‘، صحابی ؓ کی بات كو ہم بلاوجہ كا افتراء نہيں كہہ سكتے۔ 
9- ’’سانحہ کربلاء یقیناً تاریخ کا سیاہ ودل دوز حادثہ تھا جس نے سب کا کلیجہ چھلنی کردیا، ان تمام ناقابل بیان قلق واضطراب کے باوجود اس کے بعد حدود سلطنت میں کہیں بھی ردعمل میں تفسیقی منجنیق کے گولے داغے گئے؟ یا تفسیق وخون ریزی کو بنیاد بناکر یزید کے خلاف کہیں بغاوت کی گئی؟ْ‘‘
يه عبارت بهت تكليف ده هے، كيا جن اكابر علماء (جن كي تعدادسينكڑوں ميں نهيں بلكه هزاروں ميں ہے) نے يزيد كو فاسق كها، انهوں نے تفسیقی منجنیق کے گولے داغے؟ يه تعبير كسي درجہ ميں بے ادبی سی معلوم ہوتی هے، اور كيا فسق امير يا خليفہ كے بعد بغاوت فرض اور متفق علیہ مسئلہ ہے؟ کہ اسے بنياد بناكر يزيد کی پاکی داماں کی حكايت بڑھائی جارہی ہے؟
10- يزيد كے ہاتھ ميں هاتھ دينے والي وه بات جو شهيد كربلاء رضی الله عنہ نے زياد سے كہی تھي اس كو بنياد بناكر جس قدر يزيدكو قابل اعتماد اور معتبر بنانے كي كوشش كي جائے گی ، حضرت شہيدؓ كربلاء كا خروج اتنا ہی سؤالات كے گھيرے ميں آتا چلا جائے گا، پھر كيا وجہ ہوئی كه حضرت ؓنے ابن زياد كے سامنے بيعت نه كي اور اپنےليے اور تمام ساتھيوں اور اہل بيت كے لئے مظلوماً شہيد ہونا گواره كرليا؟ يہيں پر آكر فسق يزيد كا مسئلہ دفاع صحابہ ؓسے ہم رشتہ ہوجاتا هے اور اس طرح ضمنی طور پر، ثانوی عقيدے سے متعلق ہوجاتا ہے۔
11- افسوس ہے کی دلائل پر گرم گفتاری كے ساتھ تبصره كرتے هوئے واقعہ حره كو نظرانداز كردياگيا؟ كيا واقعہ حره ميں بھي يزيد كا عمل دخل نہیں تھا؟ اور كيا یہ بھی مؤرخين (يا مفتی شكيل صاحب کی تعبير ميں:سیاسی افیون میں بد مست جانبدار مؤرخين) کی افسانه نگاری ہے؟
12- مفتی شكيل منصور صاحب كا يہ دعوے ہنوز محتاج ثبوت ہے كہ: متعدد اہل بیت، اجلاء تابعین اور صحابہ سے یزید کے خلاف پھیلائے گئے الزامات فسق کی تردید ثابت ہے‘‘، حضرت محمد بن الحنفيہ كے سوا كس نے ان الزامات فسق كی ترديد كی؟ اور حضرت محمد بن الحنفيه كي روايت بھي انهي تاريخ كي كتابوں ميں هے اور ان هي راويوں سے منقول هيں جنهيں ’’قصہ گو اور جعل ساز و مجہول الحال‘‘ هونے كي سند دی گئی، تو كيا وجہ ہے کہ اسے مسئلہ كا مدار بنايا جارہا ہے؟ بيعت نہ توڑنا يا اميرالمؤمنين كہنا يا يزيد كے عہدخلافت ميں كوئی ذمه داری قبول كرنا؛ ان امور سے قطعا فسق يزيد كي ترديد پر استدلال نہیں كيا جاسكتا، اس لئے کہ يه تمام امور فاسق امير كے ساتھ بھي انجام ديے جاسكتے هيں۔
13- حيرت هوتي هے كه وه مؤرخين جو فسق يزيد كے مسئله ميں  سیاسی افیون میں بد مست جانبدارتھے، وه غزوه قسطنطيه والی حديث ميں كيسے معتبر هوگئے؟ اور اس حديث كي تشريح ميں معتبر شراح حديث کہ توجيهات كيوں نظر انداز كردی گئيں؟
14- غلمان من قريش اور امارة الصبيان والي صحيح احاديث اور ان كے مصداق ميں جمهور محدثين كے موقف كو نظر انداز كرنے كي وجه بھي سمجھ ميں نهيں آئي۔ 
15- فسق يزيد كا مسئله عقيده كا مسئله نهيں هے؛ ليكن وه محض تاريخي مسئله بھي نهيں هے؛ بلكه ايك نظرياتي مسئله هے، ظاهر هے جن اكابر علماء نے اس موضوع پر لب كشائی کی، انهوں نے بحيثيت مؤرخ لب كشائي نهيں كي هے؛ بلكه بحيثيت عالم اور مفكر اس پر اظہار خيال فرمايا ہے، اور نظریاتی مسئلہ ميں هماري تحقيق بھي، اكابر علماء كي ترجيحات كے دائره ميں هوني چاہئے، يہاں تحقيق كے عمل كو بالكل بے مهار نهيں چھوڑا جاسكتا هے، فسق يزيد كے مسئله ميں فكر ديوبند كي اساسي شخصيات كي تصريحات كي روشنی ميں جماعت ديوبند كا ايك موقف متعين ہوجاتا ہے، جس ميں كسي كي بھي تحقيق، انفرادی رائے يا انفرادی تحقيق سے آگے نہیں بڑھ سكے گي۔ 
خلاصه: 
حضرت مفتی شكيل منصور قاسمی صاحب ميرے لئے بهت محترم هيں ، ميں نے هميشه ان كے خيالات كو بڑي اہميت دی هے، اختلاف رائے كا مطلب كسی طرح شخصيت كو مجروح كرنا نهيں هے، انهوں نے اپنے مضمون ميں خود ہی اہل علم سے خامیوں اور کوتاہیوں پہ مطلع کرنے کی گزارش كي هے، اسي خير خواهي ميں يه گزارشات پيش كي گئي هيں، اميد هے ان سے مزيد غور وخوض کی راه ہموار ہوگی. ان شآء الله۔ 
محمد نوشاد نوری قاسمی. 19 محرم 1444ھ
--------------------
مولانا نوشاد نوری صاحب! 
محترم!!! اعتراضات کی اس سے دوگنی فہرست بھی بن سکتی ہے اور جب اس مسئلے پر قاری طیب صاحب نور اللہ مرقدہ ، علامہ حبیب الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ کی مفصل کتب بھی بے شمار اعتراضات کا شکار رہیں تو یہ مختصر تحریر تو یقیناً اعتراضات کی زد میں آئے گی ہی، یہ تحریر محض چند نکات پر نظر رکھ کر لکھی گئی ہے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہ مقصود ہے اور نہ ہوسکتا ہے، مفتی شکیل صاحب کی تحریر پر بندے نے اپنے تبصرے میں یہ بات لکھی بھی تھی کہ کسی بھی تحریر میں تمام تر ممکنہ اعتراضات کا احاطہ ممکن نہیں.... بہرکیف... آپکے ذکر کردہ نکات میں اصلاََ صرف دو نکتے لائق التفات ہیں:
ایک: محمد بن الحنفیہ کی روایت: 
دوسرے: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یزید کی بیعت پر آمادگی:
بقیہ نکات کا حل تھوڑی سی گفت شنید کے بعد حل ہوسکتا ہے، آپ خود بھی حل کرسکتے ہیں لیکن جس نوع کا جذبہ اس تبصرے میں عیاں اس کے پیش نظر آنمحترم سے اعتدال کی توقع ذرا کم ہے.
(عامر شیخ مظاہری قاسمی)
------------------------------
مولانا نوشاد نوری صاحب کے ملاحظات پر عاجز کے گزارشات 
بقلم: محمد توصیف قاسمی 
1: محاکمہ و تحقیق یقیناً دو الگ الگ چیزیں ہیں، گروپ "مرکز البحوث الاسلامیۃ" پر جو گفتگو ہوئی تھی وہ باقاعدہ مناظرہ تو نہ تھی، شکل مناظرہ کی ضرور تھی، ویسے آنا تو محاکمہ ہی تھا؛ کہ جانبین کے نزاعی قضیہ چکانے کو محاکمہ کہتے ہیں؛ مگر مفتی شکیل صاحب گروپ پر پہلے ہی وعدہ کرچکے تھے کہ وہ اپنی تحقيق و تحریر بھی پیش کریں گے، نیز اس کا مقصد اس بحث کو گروپ سے ہمیشہ کے لئے بند و ختم کرنا بھی تھا، جس کے لئے کارواں کا میر میر نہ بنے تو کون مناسب ہوگا؟
یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ تحقیق و تنقیح کوئی انتہاء نہیں، اور جب تحقیق ہو وہاں تقلیدی باتیں و حوالے بھی مفید نہیں۔
2،3: یہ شخصیات کی باتیں ہیں، کم از کم حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب کے بارے جو بندہ کو سمجھ میں آیا ہے وہ اس بحث کو ہی فضول سمجھتے ہیں، سکوت کو ترجیح دیتے ہیں، نیز سکوت کو رد رافضیت کا بڑا ذریعہ بتاتے ہیں، یہ بھی سناکہ یزید پر جتنی گفتگو ہوگی رافضیت کو اتنی تقویت ہوگی۔
4: فسق یزید کا مسئلہ خود طے شدہ نہیں، اگر بعد کا ہے تو وقت شہادت، بیعت کی درخواست جوکہ متعدد تاریخی مصادر میں ثابت ہیں کی ہی نہ جاتی!، جب کہ ایک طرف کے مؤرخین خروج کے وقت فسق کے اتنے دلائل دیتے ہیں کہ اس کا فسق نہ ہوا کفر ہوگیا، حیرت کی بات نہیں بعض کو کفر کا قائل بھی ہونا پڑا۔
5: جب تک ہم نے اس عنوان کی کتابوں کو نہیں دیکھا تھا تب تک نہیں دیکھا تھا، مگر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ فسق کی روایات نقل کرنے والے کس قدر بودی باتوں کا سہارا لیتے ہیں۔
ایک مصنف نے بلاذری کی انساب کو اس لئے غیر معتبر کہہ دیا کہ اسے اسرائیل نے طبع کروایا تھا۔ 
یہ کس درجہ رکیک جواب ہے، ایک عام مولوی کہتا تو کوئی بات نہ تھی، مگر ایک نامور محقق ہی ایسے پھسپھسے جوابات دیتے ہیں، اور حامیین حضرات مواقع بحث میں کہتے کہ اس کا جواب فلاں نے دے دیا ہے۔
جبکہ علم و تحقیق کے طالب کے لئے یہ سب باتیں لائق توجہ تک نہیں۔
6: محققین فسق یزید اگر ان روایات کو نہیں لیتے تو لطف کی بات یہ ہے کہ ان کا وہ رد بھی نہیں کرتے، اردو مصنفین میں تقریبا سب کا حال یہی ہے، شاید یہ خیال آتا ہوکہ کہیں یہ بھی یزید کی حمایت نہ ہوجائے۔
روایات اور ان کے محامل متضاد ہیں، اسے قبول کرنا بعض حضرات کے لئے مشکل ہے۔
7: صحابی کا سکوت مسئلہ نہیں، مگر صحابہ کا سکوت مسئلہ ہے، اگر کل کا سکوت ہے تب تو اجماع ہوگیا، اگر ایک تعداد کا سکوت ہے تو یہ منجملہ ایک رائے ہے، جس سے کم از کم سکوت تو ثابت ہوتا ہے۔
8: عبداللہ بن مطیع صحابی ہیں تو محمدبن حنفیہ عالم ربانی صاحب علم وفضل تابعی شہید کربلا کے عصبہ ہیں، ایسے مجتہد و ابن علی و برادر شہید کربلا سے یہ توقع نہیں کہ وہ کسی ناسمجھی میں ایسی تردید کر بیٹھیں، صاحب البیت ادری بما فیہ۔
9: ایسی لفظی گرفتوں کو اگر دیکھا جائے تو اکابر کے اکابر تک کا قلم محفوظ نہیں، اس پر ایک تبصرہ زیر تحریر مضمون ميں متوقع ہے. ان شآءاللہ.
10: دفاع صحابہ ضمنی عقیدہ نہیں، مستقل عقیدہ ہے، یہی بات اگر سمجھ لی جائے تو سکوت سے افضل کچھ نہ لگے۔
نیز یہ بات اگر سمجھ لی جائے تو فسق یزید کے درپے ہونا یا اسے عقیدہ کہنا خود بے معنی ہوجائے گا، ایک طرف حضرت حسین ہیں دوسرے طرف حضرت معاویہ ہیں۔
رہی بات یہ کہ شہادت حسین رض فسق یزید پر موقوف ہے یا نہیں؟
تو اس کا جواب مفصل تحریر میں ان شآءاللہ عرض کروں گا.
11: واقعہ حرہ وغیرہ کا ذکر فسق یزید میں شمار کرنا یہ بیان کرتا ہے کہ یہ صرف دفاع شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ نہیں۔
12: روایات متضاد ہیں، اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔
ایک فاسق امام، بادشاہ و امیر جس نے جگر گوشہ رسول کو قتل کیا ہوا اس تصور کے باوجود کتنا غیرت مند مسلمان ہوگا جو اس کی امارت کےکام خاموشی سے انجام دیتا رہے گا؟
ایک آدمی کا ایمان بھی اتنا گرا نہیں ہوسکتا، صحابی تو صحابی ہیں۔
13و 14: روایات کے عموم عام ہوتے ہیں،  شراح کے اقوال بس ایک احتمال ہوتے ہیں،  مگر اسے فضیلت کی احادیث میں قول، اور مذمت کی روایات میں عقیدہ کہنا انصاف و ایمانداری نہیں۔
15: میں معذرت نہیں چاہتا مگر یہ کہنا ضرور چاہتا ہوں کہ یہ ہمارے حلقہ کا بڑا عیب ہے کہ ہمارے یہاں "اکابر کی ترجیحات" یا تحقیقات حدود و قیود ہیں، اگر کوئی اس کے خلاف نکل جائے تو گمراہ یا مثل گمراہ ہوجاتا ہے، اور آپ کو حیرت ہوگی کہ ان میں سے اکثر و بیشتر ترجیحات ظنی و فروعی مسائل میں سے ہیں۔
سچ جانئے کہ اس مفروضے کی کوئی حقیقت نہیں، اگر حقیقت ہے تو آپ ہمیں بتائیں کہ دیوبندیت کے یہ نئے اصول فقہ و دین کون سے ہیں؟ جن میں اکابر کی تحقیق سے خروج واجب تردید یا لائق متارکت عمل ہوجاتا ہے۔
نیز کیا خود اکابر دیوبند نے ایسا کیا تھا وہ کسی کی ترجیحات کے درمیان محدود و مقید رہنا واجب سمجھتے تھے؟
ایسا کچھ بھی نہیں، انھوں نے اہل السنہ کے اصول دین و فقہ، اصول تفسیر و حدیث وغیرہ انھیں اصول و قواعد کو برتا جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں،  انھوں نے ان سے خروج کو گمراہی سمجھا، ہم بھی یہی عقیدہ و فکر رکھتے ہیں، اگر ان اصول کے دائرے میں رہ کر کوئی اکابر سے الگ اہل السنہ کے حدود میں رائے قائم کرے تو وہ یہ دیوبندیت کے خلاف ہے نہ اکابر دیوبند کی  ترجیحات کی مخالفت۔ ایک غلط فہمی اور ہے کہ فسق یزید کا تعلق عقیدہ یا نظریہ سے ہے۔
مولانا نوری صاحب کے لئے تو مزید موقع تھا کہ "آئینہ کردار یزید" میں ان پر یا فسق کو عقیدہ ہونے پر جو ملاحظات قائم کئے گئے ہیں. اسی ضمن میں اس بات کو اہل سنت کے اصول سے درجہ تحقیق کو پہنچادیتے، اگر ایسا کچھ لکھا ہو تو ہماری نظر سے نہیں گذرا، ہم منتظر ہیں کہ اس سے استفادہ کریں۔
واضح رہے کہ فقہاء اسلام، علماء مذاہب اربعہ نے بس ایک ہی تقسیم کی ہے اور اس میں دو قسمیں کی ہیں، ایک یقینیات و قطعیات، دوسرے ظنیات و فروع۔
یقینیات کے دو دائرے ہیں، ایک ایمان و کفر، دوسرے سنت و بدعت۔
اس میں بین بین نظر و فکر نام کی کوئی چیز نہیں، فکر نظریہ عموما و اطلاقا عقیدہ پر ہی بولا جاتا ہے، اگر اس سے علیحدہ یہ کوئی نئی یا الگ اصطلاح ہے تو اسے اصولوں سے ثابت کیا جائے۔
خلاصہ یہ کہ:
📔 فسق یزید عقیدہ کا حصہ نہیں، بس ایک تحقیق ہے۔
📔 ہمیں دفاع کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وہ صحابی نہیں، کہیں بطور جواب یا دفاع چیز معلوم ہوتی ہے تو صرف بطور معارضہ یا اثبات تضاد کے لئے ہے۔
📔 حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید حقیقی ہیں، اس کا انکار یا کسی طرح کردار کشی صحابیت سے بغض کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت کے مترادف ہے۔
📔 حضرت حسین کی شہادت فسق یزید پر موقوف نہیں، اس پر کچھ کلام مفصل تحریر میں اصلی قاتلوں کی تعیین سے ہوجائے گا۔
📔 عدل و فسق کے بجائے ہمیں سکوت اسلم و احوط معلوم ہوتا ہے۔
📔 اہل عدل و فسق کا باہم نفرتوں کا بازار اور حق سے اخراج کتنا بڑا فسق ہے یہ خود واجب تحقیق مسئلہ ہے۔
(محمد توصیف قاسمی منتظم مرکز البحوث)
----------------
ایک خالص علمی بحث کو جدلی نہ بنائیں
بقلم: شمشیر حیدر قاسمی، جامعہ رحمانی مونگیر
زیربحث قضیہ یزید سے قطع نظر! ناچیز کو حضرت علی و حسنین و جملہ اہل بیت اطہار  سے عشق ہے، واقعہ کربلا جب بھی کسی کتاب میں پڑھا غیراختیاری طور پر آنکھیں اشکبار ہوئیں، اور اہل بیت اطہار کی محبت وعقیدت میں اضافہ ہوا، در اصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومیت، اور ان پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کی داستان دلخراش، ہے ہی اس قدر المناک؛ کہ اس واقعہ کو اگر بنظر انصاف پڑھا جائے، اس پر غور کیا جائے تو بدیہی طور پر اہل بیت اطہار کی مظومیت، ان کی حق گوئی، و حق پسندی کا نقشہ ذہن و دماغ پر چھاجاتا ہے، اور عمروبن زیاد کی تاناشاہی، ظلم و بربریت، درندگی و حیوانیت اور بددینی و بدتہذیبی بالکل دو دو چار کی طرح آشکارا ہوکر سامنے آجاتی ہے، لیکن جب بات یزید بن معاویہ تک پہنچتی ہے، تو روایات کے تضادات اور تنوعات کی بھول بھلیوں میں ایک متلاشیِ حق عجیب شش و پنجم میں پڑجاتا ہے، اور کسی ایک فیصلے پر بآسانی پہنچ پانا  اس کے لئے ایک مشکل ترین مسئلہ بن جاتا ہے، کیوں کہ ایک طرف جب یزید کی ملوکیت میں یہ سب ہوتا نظر آتا ہے، جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہوا، اور یزید کا اس طرح کے واقعات کے پیچھے ہاتھ رہا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایسا شخص جس کا ہاتھ خانوادہ نبوی کو تاراج کرنے میں ہو یقیناً وہ لائق ملامت اور قابل طعن و تشنیع ہے، ایسے میں ایک عاشق خانوادہ نبوی سے جذبۂ عشق سے مغلوب ہوکر یزید کے لئے لعنت وغیرہ جیسے کلمات نکل جانا قابل تنقید نہیں بلکہ ایک امر مستحسن ہی کہا جاسکتا ہے،
مگر یہاں جب واقعہ کربلا کے بعد یزید اور یزید کے اہل خانہ کی طرف سے اہل بیت اطہار کے ساتھ حسن سلوک اور واقعہ کربلا پر کف افسوس ملنے والی رواتیں اور اہل بیت کی طرف سے یزید کے حق میں کلمات خیر کہے جانے کی روایتیں سامنے آتی ہیں تو یزید کے بارے میں عدل و انصاف کی زبان یہ صدا بلند کرنے لگتی ہے کہ: "وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُواْ ۚ ٱعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ."
یہاں پر محبین بیت اطہار کی زبان رک جاتی ہے، اور طعن و تشنیع و لعنت و ملامت سے سکوت اختیار کرلیتی ہے،
اب کیا جائز اور کیا ناجائز ہے؟ شاید اس کا تعلق اندرونی جذبات سے ہے، دل یہ کہتا ہے کہ ہر دو طبقہ حق پر ہیں، دلی کیفیتوں کے اعتبار سے ہر ایک کے لئے اس کے مطابق احکام ہونے چاہئیں،
بہرکیف! یہ چند جملے بھی یوں ہی سپرد قرطاس ہوگئے، کسی کی طرفداری  مقصود نہیں ہے، لیکن ایک بات ارباب علم و دانش کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ گروپ کے مباحثے و مناقشے کو بطور خاص ایسے مباحثے جن میں طرفین کے درمیان شدت پائی جاتی ہو اسے گروپ سے باہر دیگر ذرائع مثلاً فیس بک وغیرہ کے ذریعے عام نہ کیا جائے تو بہتر ہے، کیوں کہ فیس بک یا دیگر حلقوں میں عام کرنے کے بعد طرفین کے تعلق سے حامیان و شیعیان تیار ہونے لگتے ہیں، پھر بات علمی کے بجائے "جدلی" بن کر رہ جاتی ہے، اور اچھے بھلے تعلقات بدمزگیوں و غلط فہمیوں کا شکار ہوکر کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ 
---------
-------------------------------
--------------------------------
انسانی فطرت میں مقابلہ آرائی، تصادم، تقابل، تغالب، مشاجرت ومخاصمت عداوت و چپقلش داخل ہے۔ باہمی حمایت ونصرت کا جذبہ بہت کم ہے، انسانوں کے باہمی تنازعات ومخاصمات کے ازالہ اور ان کے مابین عدل وانصاف کی فراہمی کے لئے کسی ایسے نظام کی سخت ضرورت تھی جو انسانی معاشرے میں پورے اعتدال وتوازن کے ساتھ مضبوط ومستحکم اور صاف وشفاف بنیادوں پر عدل وانصاف فراہم کرسکے، جس کے ذریعے ان کے باہمی جھگڑے و قضیے چکائے جاسکیں. اسی نظام کو "نظام قضاء اور عدل وانصاف" کہتے ہیں. عدل وانصاف کا قیام ونفاذ نظام کائنات کی جان اور شہ رگ ہے، انسانی معاشرے کا لازمی عنصر اور اس کے بقاء وتحفظ کا ضامن ہے، عدل وانصاف اسلامی ریاست کی اولیں ذمہ داری ہے 
حق کے مطابق فیصلہ کرنے "القضاء بالحق" کو "عدل" اور حقدار کو اس کا برابر حق دلادینے کو "قسط" کہتے ہیں. قرآن کریم کی قریب 29 مقامات میں عدل اور قریب 17 آیات میں قسط بمعنی انصاف کی اہمیت مختلف اسالیب میں بیان کی گئی ہے. عدل وانصاف کی تکمیل کے لئے ہی اللہ نے انبیاء و رسول علیہم الصلوۃ والسلام بھیجے۔ عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل بعثت انبیاء کا مقصد ہے. حق کے ساتھ فیصلہ کرنا اللہ کی شان ہے، اس نے اپنے نبیوں کو بھی اسی کی ہدایت کی. نبی آخرالزماں نے نہ صرف انسانوں میں عدل وانصاف قائم کرکے دکھایا بلکہ بیشمار اصولی ہدایات عطا فرمائی ہیں جو تاقیامت انسانی معاشرے میں اعتدال وتوازن پیدا کرنے کے لئے چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں، انسانی معاشرے میں عام انسانوں کے لئے اس کی شرعی حیثیت فرض کفایہ کی ہے. یعنی کچھ مسلمان اسے ادا کردیں تو بقیہ کے ذمے سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے؛ لیکن اسلامی خلیفہ اور فرماں روا کے حق میں یہ فرض عین ہے. لوگوں کو آپسی تصادم وٹکرائو سے بچانے، ظالم کا پنجہ مروڑنے، مظلوم کا ساتھ دینے، جھگڑوں کو چکانے اچھائیوں کا حکم اور منکرات سے روکنے جیسی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اس کی فرضیت عمل میں آئی ہے: 
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ 
إِلَيْكَ [المائدة: 49]
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (النور 51)
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُواْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا. (النساء - 65)
إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَىٰكَ ٱللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا (النساء - 105)
يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ. (ص 26)
وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط إن الله يحب المقسطين. [المائدة 42] .
ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون.[المائدة 44] .
ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون. (المائدة 45] 
ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون. [المائدة 46] 
فاحكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم عما جاءك من الحق. [المائدة 48] 
وأن احكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم واحذرهم أن يفتنوك عن بعض ما أنزل الله إليك [المائدة 49] 
عدل وانصاف اور حکم و قضاء کی بنیاد پیش کردہ دلائل و شواہد ہے. دلائل شواہد سے ثابت شدہ حق اور سچ کے برخلاف فیصلہ دینے کی سنگینی اوپر کی آیات میں واضح ہے، دوسرے کے لئے اپنی عاقبت خراب کرنے والا "منصف" نرالا احمق ہے. اس ذیل میں اس کڑوی حقیقت کا ذکر کئے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ ہم انسانوں کی خواہش من پسند اور مرضی کے فیصلے لینا ہوتی ہے. فراہمی انصاف میں جب شواہد سے انحراف کرکے کسی کی پسند وناپسند کو بنیاد بنایا جانے لگے تو اسی سے معاشرے میں پریشانیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے. حق وسچ کو حق وسچ رہنے دیا جائے. اسے اپنی پسند، مرضی ومشیت کے تابع نہ کردیا جائے:
وَاِذَا قٌلْتٌمْ فَاعْدِلٌوا وَلَوْ کَانَ ذَا قٌرْبٰی (الانعام: 152)
’’انصاف کی بات کرو چاہے اس کی زد میں تمہارا رشتہ کیوں نہ آئے ۔‘‘

(S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_16.html