Thursday, 15 February 2018

جمعہ کا خطبہ اردو اور عربی میں؟

نماز اور خطبہ صرف عربی زبان میں
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نماز اور خطبہ صرف عربی زبان میں
نماز صرف عربی میں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے بلکہ نماز سے قبل یعنی اذان واقامت کا بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا ضروری ہے۔ حتی کہ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے تحریر کیا ہے کہ سجدہ کی حالت میں اور نماز کے آخر میں درود سے فراغت کے بعد عربی زبان میں وہی دعائیں پڑھنی چاہئیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہیں۔ قرآن وحدیث میں وارد دعاؤں کے علاوہ عربی زبان میں نماز میں دعائیں مانگنے کو علماء کرام نے مکروہ قرار دیا ہے، بلکہ علماء کرام کی ایک جماعت نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز کے اندر دعائیں پڑھنے پر نماز کے اعادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے ہمیں نماز میں تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کچھ نہیں پڑھنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے تھے حتی کہ عجمیوں کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا مگر ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   یا کسی صحابی نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز پڑھنے کی یا نماز میں کسی دوسری زبان میں دعا مانگنے کی اجازت دی ہو بلکہ صحابۂ کرام پھر تابعین اور تبع تابعین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام عرب وعجم کو عملی طور پر یہی تعلیم دی ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوتِ قرآن ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، تشہد ، درود اور مخصوص دعائیں صرف عربی زبان میں ہی پڑھنی ہیں۔ احکام شرعیہ کی بنیاد عقل پر نہیں کہ کس کو صحیح یا غلط سمجھتی ہے بلکہ قرآن کریم میں وارد احکام اور صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ سے منقول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے اقوال وافعال یعنی احادیث نبویہ پر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا ہے کہ سجدہ کے دوران اور نماز کے آخر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، لیکن صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشا د فرمایا:نماز میں لوگوں کے کلام سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے بلکہ نماز میں صرف اللہ کی تسبیح اور تکبیر اور قرآن کریم کا پڑھنا ہے۔ (صحیح مسلم: باب تحریم الکلام فی الصلاۃ ونسخ ما کان من اباحتہ) اسی لئے نماز کے دوران سلام کا جواب دینا یا کسی چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ نمازمیں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا جن کا پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کی رائے کتابوں میں مذکور ہے، چنانچہ مختلف فیہ مسائل میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو ترجیح دینے والے ہند وپاک کے علماء نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ نماز میں دنیاوی امور سے متعلق دعائیں نہ کی جائیں بلکہ عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ سجدہ کی حالت اور نماز کے آخر میں درود پڑھنے سے فراغت کے بعد کے علاوہ متعدد مواقع ہیں کہ جن میں کی گئی دعائیں قبول کی جاتی ہیں، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والے دعا رد نہیں ہوتی ہے، لہذا اس وقت خوب دعائیں کرو۔ (ترمذی، مسند احمد، ابوداود، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان) اس لئے نماز کے اندر اپنی دنیاوی ضرورتوں کو نہ مانگا جائے بلکہ نماز کے باہر بے شمار اوقات اور حالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان اوقات وحالات میں اپنی، اپنے بچوں اور گھر والوں کی دنیاوی ضرورتوں کو خوب مانگیں۔
حنبلی مکتبِ فکر کی مشہور کتاب (الانصاف) میں تحریر ہے کہ وہ دعائیں جو قرآن کریم میں وارد نہیں ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت نہیں ہیں اور اخروی امور سے متعلق نہیں ہیں تو صحیح مذہب یہی ہے کہ نماز میں اس طرح کی دعائیں نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس نوعیت کی دعاؤں سے نماز باطل ہوجاتی ہے، اکثر علماء کی یہی رائے ہے۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم علامہ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب (المغنی ۲ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ نماز میں ایسی دعائیں کرنا جائز نہیں جن کا تعلق دنیا کی لذتوں اور شہوتوں سے ہے اور جن کا تعلق انسانوں کے کلام اور ان کی خواہشوں سے ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اور علماء امت کے اقوال کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوگیا کہ اگر ہم اپنی نماز کے اندر (یعنی سجدہ کی حالت میں اور آخری رکعت میں درود پڑھنے کے بعد) دعا کرنا چاہتے ہیں تو عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے یا جن کا پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے۔ جن حضرات کو ایسی دعائیں یا د نہیں ہیں تو ان کے لئے نماز کے علاوہ بے شمار اوقات وحالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، مثلاً اذان واقامت کے درمیان کا وقت، فرض نماز سے فراغت کے بعد وغیرہ وغیرہ، ان اوقات وحالات میں جتنا چاہیں اور جس زبان میں چاہیں اپنی اور اپنے بچوں کی دنیاوی واخروی ضرورتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے مانگیں، وہ قبول کرنے والا ہے۔
خطبہ صرف عربی میں:
نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوت قرآن اور رکوع وسجدہ کی تسبیحات وغیرہ کی طرح جمعہ اور عیدین کا خطبہ بھی صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے کیونکہ خطبہ میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اللہ کا ذکر مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ نمازِ جمعہ کے لئے خطبہ کا ضروری ہونا، خطبہ پڑھنے کے لئے ظہر کے وقت کا ضروری ہونا، خطبہ کا نمازِ جمعہ سے قبل ضروری ہونا، خطبہ سے فراغت کے بعد بلا تاخیر نمازِ جمعہ کا پڑھنا، خطبہ کے دوران سامعین کا گفتگو نہ کرنا حتی کہ کسی کو نصیحت بھی نہ کرنا، نیز نماز کی طرح بعض احکام کا مسنون ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ میں اصل مطلوب اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور وعظ ونصیحت کی حیثیت ثانوی ہے کیونکہ وعظ ونصیحت کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ قرآن کریم، سورۃ الجمعۃ (فَاسْعَوْا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ) میں وارد ذکر کے لفظ سے اس کی تأیید ہوتی ہے، نیز صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لئے نکلتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لئے مسجد کے اندر آجاتے ہیں۔ غرضیکہ قرآن وحدیث میں نماز کی طرح خطبہ کو ذکر سے تعبیر کیا ہے یعنی خطبہ نماز کی طرح اللہ کا ذکر یعنی عبادت ہے، لہذا ہمیں خطبہ دینے کے لئے انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ملتا ہے۔
اگر جمعہ کا خطبہ کسی دوسری زبان میں دینا جائز ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے پوری زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اس کا ثبوت ملتا، لیکن تمام عمر نبوی میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی مروی نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم   کے بعد صحابۂ کرام بلاد عجم میں داخل ہوکر دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے۔ ان صحابۂ کرام کے خطبوں کے الفاظ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، ان میں کسی ایک صحابی نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی بلاد عجم میں داخل ہونے کے باوجود مخاطبین کی زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا، حالانکہ وہ لوگ احکام شرعیہ سے واقفیت کے لئے آج سے کہیں زیادہ محتاج تھے۔ بہت سے صحابۂ کرام دوسری زبانیں بھی جانتے تھے مگر کسی نے عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مختلف زبانیں جانتے تھے، اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارس کے رہنے والے تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ روم کے باشندے تھے، بعض صحابۂ کرام کی مادری زبان عربی کے علاوہ دوسری تھی مگر تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا جس میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کسی صحابی نے جمعہ کا خطبہ دیا ہو۔ صحابۂ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے بھی عربی زبان میں ہی خطبہ دینے کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ کسی مشہور محدث یا مفسر سے بھی عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سیاسی وانتظامی امور کے لئے مختلف زبانوں کے ترجمان بھی رکھے گئے مگر ایک مرتبہ بھی خطبہ کسی دوسری زبان میں نہیں پڑھا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بعض مقاصد کے لئے اپنے پاس ترجمان رکھے تھے مگر ایک مرتبہ بھی انہوں نے خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبان میں نہیں دیا۔
بر صغیر کی اہم ومعروف شخصیت جن کو ہندوپاک کے تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۷۶۲م) نے اپنی شرح موطا میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ہونا چاہئے کیونکہ تمام مسلمانوں کا مشرق ومغرب میں ہمیشہ یہی عمل رہا ہے باوجودیکہ بہت سے ممالک میں مخاطب عجمی لوگ تھے۔ ریاض الصالحین کے مصنف وصحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ کے شرائط میں یہ بھی ہے کہ وہ عربی زبان میں ہو۔ہندوپاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے کہ خطبہ صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب مخاطبین عربی عبارت کو نہیں سمجھتے تو عربی زبان میں خطبہ پڑھنے سے کیا فائدہ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ خطبہ میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر یعنی عبادت ہے، اور عبادت میں اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے صرف انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ملتا ہے۔ نیز اگر یہ اعتراض خطبہ پڑھنے پر عائد ہوتا ہے تو نماز، قرأتِ قرآن، اذان واقامت اور تکبیرات نماز وغیرہ سب پر یہی اعتراض ہونا چاہئے بلکہ قرأت قرآن پر بہ نسبت خطبہ کے زیادہ عائد ہونا چاہئے کیونکہ قرآن کے نزول کا تو مقصد ہی لوگوں کی ہدایت ہے، اور عمومی طور پر ہدایت کے لئے صرف تلاوت کافی نہیں ہے بلکہ اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے، مگر دنیا کا کوئی بھی عالم نماز میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں قرأت قرآن کی اجازت نہیں دیتا۔
لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کی اتباع میں خطبہ صرف عربی زبان میں دیں تاکہ کسی طرح کا کوئی شک وشبہ ہماری عبادت میں پیدا نہ ہو، خواہ خطبہ مختصر ہی کیوں نہ ہو بلکہ خطبہ مختصر ہی ہونا چاہئے کیونکہ احادیث کی کتابوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی تعلیمات مختصر خطبہ دینے کی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم   خود بھی عمومی طور پر زیادہ لمبا خطبہ نہیں دیا کرتے تھے۔ ہاں اذانِ خطبہ سے قبل یا نماز جمعہ کے بعد خطبہ کا ترجمہ مخاطبین کی زبان میں تحریری یا تقریری شکل میں پیش کردیا جائے تاکہ خطبہ کا دوسرا مقصد وعظ ونصیحت بھی مکمل ہوجائے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی اتباع کرنے والا بنائے، آمین، ثم آمین۔
http://www.najeebqasmi.com/urdu-articles/143-prayer-namaz/1327-khutba-in-arabic
.......................
سوال: جمعہ کا خطبہ اردو اور عربی ایک ساتھ منبر پر دینا کیسا ہے؟ بعض مسجد میں اردو بیان منبر کے نیچے اور صرف عربی خطبہ منبر پر دیتے ہیں کیا ایسا بھی جائز ہے؟ یا دونوں درست ہے؟ برائے مہربانی دلیل کے ساتھ جواب دیں۔
Published on: Feb 16, 2012
جواب # 37302
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 325=268-3/1433
جمعہ کا خطبہ صرف عربی زبان میں دینا مسنون ہے، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں دینا مکروہ ہے، اور سنت کے خلاف ہے۔ اور خطبہ سے پہلے وعظ منبر سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر کرنا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/37302
..............
سوال # 35856
میری مسجد میں امام صاحب جمعہ نماز کے دو نوں خطبوں میں سے پہلا خطبہ اردو میں د یتے ہیں دوسرا عربی میں، کیا جمعہ کا خطبہ اردو میں دینا صحیح ہے۔ 
دوسرا سوال دوسرے خطبے کے درمیان کچھ لوگ زور زور سے درود شریف پڑ ھتے ہیں ، کیا خطبہ کے بیچ میں زور سے یا دھیرے سے درود پڑھنا صحیح ہے؟ اور کیا خطبہ والی اذان کا جواب دینا چاہیے؟ جو مولانا صاحب نماز پڑھاتے ہیں، وہ ماشااللہ ندوہ سے فارغ ہیں اور دیوبندی خیالات کے ہیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب دینے کی زحمت کریں۔ 
Published on: Dec 12, 2011 
جواب # 35856
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (ل): 40=36-1/1433
جمعہ کی نمازمیں دونوں خطبوں کا خالص عربی میں پڑھنا مسنون ومتوارث ہے، عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں خطبہ ثابت نہیں، اگرچہ صحابہ بلکہ خلفاء کے زمانے میں ہی فارس وغیرہ فتح ہوگئے تھے اور لوگوں کے جدید الاسلام ہونے کی وجہ سے ان کی زبان میں تفہیم کی ضرورت آج سے بہت زیادہ تھی اور صحابہ اور مسلمانوں میں فارسی جاننے والے بھی کثرت سے موجود تھے باوجود اس کے عربی کے سوا کسی اور زبان میں خطبہ نہیں پڑھا گیا، اس لیے خطبہ کا طریقہ ماثورہ متوارثہ مسنونہ یہی ہے کہ وہ خالص عربی میں ہو، آپ کی مسجد کے امام صاحب کا دونوں خطبوں میں سے پہلے خطبہ کو اردو میں پڑھنے کا طریقہ صحیح نہیں، ان کو چاہیے کہ دونوں خطبے عربی میں پڑھا کریں۔
(۲) خطبہ کو سننا اور اس وقت خاموش رہنا ضروری ہے، خطبہ کے دوران زور یا آہستہ سے درود شریف پڑھنا درست نہیں، اگر دورانِ خطبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آجائے تو دل دل میں درود شریف پڑھ لیا جائے، یہی حکم خطبہ والی اذان کے جواب کا ہے یعنی زبان سے جواب دینا صحیح نہیں، دل دل میں جواب دے سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/35856
..............
سوال # 37856
فتوی (ب) 325=268-3/1433
جمعہ کا خطبہ صرف عربی زبان میں دینا مسنون ہے، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں دینا مکروہ ہے، اور سنت کے خلاف ہے۔ اور خطبہ سے پہلے وعظ ممبر سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر کرنا چاہیے۔
میں سوال میں دلیل مانگا تھا مگر قرآن و حدیث کیعلاوہ اجماع و قیاس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ مجھ سیپوچھنے والوں نیپوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ممبر کے نیچے نصیحت یا بیان نہیں کی ہے اور جمعہ کا خطبہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے دیا جاتا ہے اور لوگوں کو عربی نہیں آتی، اس لیَے اردو میں سمجھاتے ہیں۔ اور اگر باالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم تامل ناڈو میں بھیجے جاتے تو آپ کی زبان تامل ہوتی کیوں کہ نبی قوم کی زبان میں بھیجا جاتا ہے۔ دوسری بات ممبر کے نیچے ایک نیا کام ہے اور دین میں نئی چیز ایجاد کرنا بدعت ہے؟
Published on: Mar 27, 2012 
جواب # 37856
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 565-476/B=5/1433
جس قدر عربی میں کتب فتاویٰ متداول ہیں، ان میں کہیں دلائل نہیں لکھے ہوئے ہیں، نہ ہی ہم مقلدین کے لیے دلائل کی ضرورت ہے، دلائل تو مجتہد کے لیے درکار ہوتے ہیں، ہم تو مجتہد نہیں نہ ہی مفتی ہیں بلکہ ناقل فتاویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں، مجازا لوگ ہمیں مفتی کہہ دیتے ہیں، مفتی تو درحقیقت مجتہد کو کہتے ہیں اور مجتہد چوتھی صدی ہجری میں ناپید ہوگئے، آج ایک ہزار برس سے کوئی مجتہد دنیا میں پیدا نہیں ہوا، جس میں تمام شرائطِ اجتہاد پائے جاتے ہوں، اس لیے ہم نے دلائل نہیں لکھے۔ کتاب الحجة اور مستدرک حاکم میں حدیث موجود ہے کہ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ
 خطبہ سے پہلے کچھ احادیث بیان فرماتے تھے، اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی بیان فرماتے تھے، اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
 خطبہ کے لیے ممبر پر تشریف لاتے تھے، کسی صحابی نے حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
 نے بھی اس پر نکیر نہ فرمائی۔
جمعہ کا خطبہ صرف لوگوں کو سمجھانے کے لیے وعظ ونصیحت نہیں ، اگر یہی بات ہے تو قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تذکرہ، ذکریٰ، ہدیً للعالمین وغیرہ فرمایا ہے، یعنی قرآن لوگوں کے لیے نصیحت وہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے، لہٰذا اسے بھی اُردو میں یا ہرمقام میں وہاں کی زبان میں پڑھنا چاہیے، نماز میں ا لحمد للہ رب العالمین پڑھنے کے بجائے ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے کہنا چاہیے۔ آپ جیسے مجتہد کی بات تسلیم کی جائے تو دین کا بیڑا غرق ہوجائے۔ اگر خطبہ سے پہلے ممبر کے نیچے یا اس سے ہٹ کر وعظ ونصیحت کرنا آپ کو نیا کام اور بدعت معلوم ہوتا ہے تو آپ کو ہم کب مجبور کررہے ہیں، آپ وعظ ونصیحت بند کردیں۔ خطبہ شرائط جمعہ میں سے ہے۔ جمعہ کا جز اور عبادت ہے، خطبہ میں باوضو ہونا اللہ کی حمدوثنا کرنا اسلام کی سرکاری زبان یعنی عربی میں دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے لے کر اب تک سنت متوارثہ چلی آرہی ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت سے ممالک فتح کیے وہاں کی زبان سیکھیں مگر پھر بھی جمعہ کا خطبہ عربی زبان ہی میں دیا۔ یہ ساری چیزیں دلیل ہیں جو عمل کرنے والے کے لیے کافی ہیں۔ اور اعتراض برائے اعتراض کرنے والوں کے لیے تو تمام دلائل بے سود ہیں۔ 
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/37856

No comments:

Post a Comment