Thursday, 4 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
-------------------------------
-------------------------------
مدارسِ اسلامیہ صدیوں سے دین کی حفاظت، علم کی اشاعت اور ایمان کی آبیاری کے قلعے کے طور پر امت کا سرمایۂ افتخار رہے ہیں۔ ان کے اساتذہ و فضلا نے صبر و قناعت کی زندگی اختیار کی، عسرتوں پر مسکرائے، اور اپنی تنگ دستی کو امت کی سعادتوں میں ڈھال دیا۔ یہی برصغیر کے اکابر علماء کا طرۂ امتیاز تھا؛ مگر آج ایک نئی آندھی اٹھی ہے، جو ان چراغوں کی لو کو مدھم کرنے لگی ہے۔ پرکشش سرکاری نوکریوں کی چمک نے مدارس کے بہت سے تازہ دم سپاہیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جو قافلہ کل دین کی پاسبانی کے لئے صف بستہ کھڑا تھا، آج وہ سرکاری اسکولوں و مکاتب کی راہوں کا مسافر بن رہا ہے۔ یہ صورت حال مدارس کے قابل اساتذہ کے وجود اور ان کے مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
طبقۂ علماء کے لئے سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ معاش کی فکر میں اس قدر الجھ جائیں کہ علم و دین کی اصل خدمت پس منظر میں چلی جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اکابر نے سادہ زیست کو زینت بنایا، عسرتوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا، مگر علمِ دین کی شمع بجھنے نہ دی۔ ان کی زندگیاں مسلسل جدوجہد، بے پناہ ایثار اور دین کی خاطر جاں فشانی سے عبارت ہیں۔
طالبِ علمانہ دور میں ایک جواں سال طالبِ علم معمولی وسائل کے ساتھ، شب و روز کی مشقت سہہ کر، محض ذوق و شوق کے سہارے علمی پیاس بجھاتا ہے۔ یہی قربانی اس کے مستقبل کی برکتوں کی ضمانت بنتی ہے۔ اگر یہی جذبہ تدریسی دور میں بھی چند سال برقرار رہے، اور وہ گنتی کے کچھ عرصۂِ عسرت کو مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کر لے، تو اللہ تعالیٰ آسائشوں کے ایسے ایسے دروازے کھول دیتے ہیں جن کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ جنہوں نے صبر کیا، قناعت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، اور معمولی وسائل پر سادہ زیست اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسی فتوحات کے در کھولے کہ شاہانِ وقت ان کے قدموں میں جھکنے لگے۔ انہی کے ذریعے امت کو علمی، فکری اور روحانی فتوحات نصیب ہوئیں۔
افسوس کہ آج کے دور میں ایک نیا طوفان اٹھا ہے۔ یوپی بورڈ اور بہار مدرسہ بورڈ، اور پھر بی پی ایس سی وغیرہ کے امتحانات نے جب نوکریوں کی راہیں کھولیں تو ہزاروں باصلاحیت مدرسین اور کہنہ مشق اساتذۂ حدیث مدارس سے رخ موڑ کر سرکاری بحالیوں کی طرف لپک پڑے۔ یہ ایسا عمومی انحراف ہے جس نے مدارس کی علمی و روحانی فضا کو بری طرح مجروح کردیا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی حکومتی منظم سازش کا شاخسانہ ہے یا طبقۂ علماء کی محض وقتی مجبوریوں کا اثر؟؛ مگر اتنا طے ہے کہ مدارس کے لئے یہ منظر نہایت تشویشناک ہے۔ 
اس سے مجالِ انکار نہیں کہ زندگی کی اس مادّی دنیا میں رزق کا مسئلہ ایک تسلیم شدہ ہمہ گیر حقیقت ہے، جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ انسان خواہ کتنی ہی روحانی بلندیوں کو چھو لے، اس کے وجود کی زمینی ضرورتیں اُسے دستک دیتی رہتی ہیں۔ بھوک، پیاس، لباس اور سر چھپانے کی جگہ، یہ سب تقاضے انسان کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ آمدنی کے بغیر زیست کا بار اٹھانا تقریباً ناممکن ہے۔
اسلام نے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ؛ بلکہ اسے دین کے دائرے میں شامل کیا۔ عبادات اور ایمانی فرائض کے بعد، معاش کی جدوجہد کو ایک مستقل ذمہ داری قرار دے کر دوسرا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ:
"حلال روزی کی تلاش وجستجو، فرض عبادات کے بعد ایک اور فریضہ ہے۔" (مرقاۃ المفاتیح، كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج: 5، ص:1904، ط: دارالفكر)
اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ کسبِ حلال محض ایک دنیاوی ضرورت نہیں؛ بلکہ دینی تقاضہ بھی ہے۔
انبیاء کے وارثوں کے لئے بالخصوص یہ امر نہایت اہم ہے کہ وہ ایسے ذرائعِ آمدنی اختیار کریں جن سے اُن کی خودداری محفوظ رہے۔ اُس کی پیشانی علم کی روشنی سے روشن ہو، نہ کہ سوال کی زنجیر سے جھکی ہوئی۔ محتاجی کا داغ اُس کے شایانِ شان نہیں۔
تاریخِ انبیاء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہاتھ سے محنت کئے بغیر زندگی بسر نہ کی۔ کسی نے لکڑی تراشی، کسی نے کھیتی باڑی کی، کسی نے جانور چَرائے، اور کسی نے تجارت کی۔ اور جانِ کائنات، سرورِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اجیاد کے پہاڑوں پر اجرت پر لوگوں کی بکریاں چَرائیں، قافلۂ تجارت کے ساتھ ملک شام کا سفر کئے، اور مدینہ کے نواح (مقام جُرُف) میں کھیتی باڑی میں ہاتھ ڈالا۔ گویا عرش کے فرستادہ بھی زمین پر اپنے ہاتھ سے کماتے تھے، تاکہ امت کو یہ سبق دیں کہ عزّت محنت میں ہے، ذلت سوال میں اور حلال روزی کی طلب ہر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم میں جلوہ گر ہے۔
اسی تناظر میں علماء و اہلِ تدریس وتعلیم کے لئے موزوں یہی ہے کہ تدریس کو محور بنائے رکھتے ہوئے اور اس کے نظام کو متاثر کئے بغیر، بوقت ضرورت، خارج اوقات میں تجارت، مضاربت، حرفت، یا کوئی اور جائز ذریعہ اختیار کریں۔ یوں علم بھی محفوظ رہے گا، عزّت بھی سلامت رہے گی اور ضروریاتِ حیات بھی پوری ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر محض ذریعہ معاش کی تلاش میں کتاب وسنت کے درس و تدریس سے کٹ کر دوسری راہوں کا رخ کیا جائے تو نہ یہ دانشمندی ہے اور نہ ہی پائیدار حل!
فوج در فوج تدریس کے سپاہی اگر مدارس چھوڑ کر عصری اسکولوں کی نوکریوں میں کھو جائیں، تو یہ طرزِ عمل مدارس کے وجود کے لئے سم قاتل ہے۔
مدارس کا اصل سرمایہ ان کے مخلص، ایثار پیشہ اور قناعت شعار اساتذہ ہیں۔ اگر یہی قافلہ منتشر ہو گیا تو مدارس محض اینٹوں کی عمارتیں اور نصاب کی کتابیں بن کر رہ جائیں گے، ان کی روح پرواز کر جائے گی۔ آج سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم اپنی اصل حیثیت کو پہچانیں، اپنے اکابر کے روشن نقوش پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصدِ اعلیٰ بنائیں۔ چند سال کی ریاضت اور صبر وتحمل کے بعد دنیا بھی آپ کے قدموں میں آئے گی، عزت بھی رفیق ہوگی اور شہرت ووقار بھی! 
یہی وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے امت کا مستقبل منور ہوتا ہے:
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیجئے!
(بدھ 10 ربیع الاوّل 1447ھ3 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_4.html

No comments:

Post a Comment