اسقاط حمل کیوں ممنوع ہے؟
(ایک تبصراتی تحریر)
------------------------------------
------------------------------------
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على اشرف المرسلين وخاتم النبيين ورحمه الله للعالمين سيدنا محمد وعلى اله وصحبه اجمعين. اما بعد!
نسل انسانی کی افزائش، اس کا تحفظ، فروغ وبقاء شریعت اسلامی کے ان پانچ مقاصدِ ضروریہ، کلیات وتحفظ ات خمسہ میں سے ایک ہے جن کے تحفظ کے لئے احکام شریعت کا نزول ہوا ہے۔ ان میں سے ہر مقصد کا تحفظ کلی اور اساسی وبنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر نظام زندگی تہہ وبالا ہوجاتا ہے، نسلِ انسانی کو وجود میں آنے سے روکنا، اسے محدود کرنا، یا وجود میں آنے کے بعد اسے ختم کرنا شریعت کی منشا ومقصد کے منافی ہے؛ اسی لئے اسلام نے زواج ونکاح کو نہ صرف یہ کہ مشروع کیا، اس کی ترغیب دی، بلکہ اسے بذاتِ خود اطاعت اور عبادت قرار دیا، لذائذِ حیات سے کنارہ کشی، تجرد کی زندگی اور ترک واعراضِ نکاح (تبتل) سے سختی سے منع کیا، قطعِ نسل یا اس میں رکاوٹ ڈالنے والے طریقوں (خصی ہوجانے وغیرہ) سے منع کیا، نکاح کرنے کو اللہ کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا، نکاح کے بیشمار مقاصد میں سے اولاد کے حصول کو سب سے اولیں مقصد گردانا گیا، ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی جو امت محمدیہ میں کثرت واضافے کا باعث بنے، زنا کو حرام کیا گیا، اس کی تحریم کا اصل مقصد وعلت بھی نسل انسانی کا تحفظ ہی ہے؛ کیونکہ زنا کی وجہ سے نسل انسانی کا تحفظ متاثر ہو تا ہے اور نسب گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں پیٹ کے بچے کی زندگی کی وہی اہمیت و احترام ہے جو کسی زندہ انسان کی ہوتی ہے، اس لیے اس کی زندگی کی حفاظت بھی اسی طرح فرض کی گئی ہے جس طرح زندہ انسان کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے؛ اسی احترام وتحفظ کی پیش نظر حاملہ عورت کو رمضان کے مہینے میں روزہ توڑنے کی گنجائش دی گئی ہے اور تو اور؛ خود ماں کو بھی اس کا حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں نشو ونما پانے والے بچے کو کوئی نقصان پہنچائے، زنا کی وجہ سے ٹھہرنے والےحمل کو ساقط کرانے کا حق بھی عورت کو اسی لئے نہیں دیا گیا ہے، جنین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ موت کی سزا پانے والی عورت اگر حاملہ ہے تو اسے اس وقت تک موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور اس کے دودھ چھڑانے کی عمر نہ ہو جائے۔
متعدد شرعی نصوص کے مطابق حملِ انسانی مختلف مراحل ( نطفہ ، گاڑھا اور جامد خون، گوشت کا لوتھڑا ، پھر نفخ روح سے گزرکر) نفس انسانی بنتا ہے ، تام الخلقت ہوجانے اور حمل میں جان پڑجانے کے مرحلے (عموماً چار ماہ) کے بعد باتفاق علماء واہل مذاہب اس نفس انسانی کا اسقاط بالکل ناجائز ہے، لیکن نفخ روح (چار ماہ) سے پیشتر اور ظہور بعض اعضاء (استبانۂ خلق) کے بعد (لیکن کامل تخلیق اعضاء سے پہلے) بھی فقہاء احناف کے راجح قول کے مطابق اسقاط حمل کی گنجائش نہیں ہے، یہ حمل تام الخلقت بچے اور نفس انسانی کے حکم میں ہوتا ہے؛ گوکہ اس پر چار ماہ کی مدت پوری نہ ہوئی ہو ، ہاں البتہ حمل جبکہ بالکل ابتدائی مرحلے میں ہو، اور اس کا حمل ہونا اور غدود وگٹھلی وغیرہ نہ ہونا متحقق ہوجائے تو محققین حنفیہ کا خیال ہے کہ بعض اعضاے انسانی کے ظہور سے پیشتر بھی بلا عذر شرعی اسقاط مکروہ ہے؛ کہ یہ افزائش وتحفظ نسلِ انسانی جیسے مقصد شرع کے منافی عمل ہے۔
حمل پہ چار ماہ یا ایک سو بیس دن سے پہلے اسقاط کی جو بات مطلقاً لکھی یا نقل کی جاتی ہے وہ قول محقَق نہیں ہے.
اسقاط کی گنجائش یا ممانعت کا مدار اعضاے انسانی کا ظہور (استبانہ خلق ) ہے ، چار ماہ کی مدت مدار حکم نہیں ہے۔
اس وقت میرے سامنے اِسی موضوع پر “بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر “ کی مصداق ایک مختصر کتاب "اسقاط حمل" ہے.
جس میں اس موضوع پر انتہائی جامع، بصیرت افروز، چشم کُشا اور سیر حاصل فاضلانہ بحث کی گئی ہے۔
کتبِ مذہب اور متعدد نصوص سے مرتب نے ثابت کیا ہے کہ ظہور اعضاے انسانی کے بعد جنین بحکم ولد اور نفس انسانی ہوجاتا ہے گوکہ اس پر ابھی چار ماہ کی مدت پوری نہ ہوئی ہو، ایک سو بیس دن والے منقول فقہی قول کے معیار اسقاط ہونے کے اصل مأخذ کی نشاندہی کے ساتھ محققین احناف کے حوالے سے اس قول کو مخدوش ثابت کیا ہے، اور چار ماہ والی تحدید کا خوبصورت محمَل پیش کرنے کے ساتھ بظاہر متعارض فقہی روایات کی قابل قبول تطبیق بھی پیش کی ہے۔
کتبِ مذہب، روایاتِ حدیث، آثار صحابہ وتابعین سے استشہاد واستدلال کے ساتھ انہوں نے طبی ماہرین واہل اختصاص کے اقوال اور بعض تحقیقاتی اداروں کی طرف سے چار ماہ سے پیشتر ظہور اعضاء انسانی کی مہیا کردہ تصاویر سے بھی اپنے موقف پر کامیاب استدلال کیا ہے
میں نے یہ کتاب پوری پڑھی ہے. انداز واسلوب خالص علمی ، فقہی وتحقیقی ہے، فقہ وفتاوی سے اشتغال رکھنے والے اہل علم کے لئے "بیش قیمت سوغات" ہے۔ کتاب اس لائق ہے کہ اسے چشم سر کے راستے لوح قلب میں ثبت کرلیا جائے، صاحب کتاب نوجوان عالم دین اور دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل ہیں ، معراج العلوم چیتا کیمپ ممبئی کے استاذ فقہ عزیز محترم مفتی محمد ثاقب قاسمی فتح پوری زید فضلہ اس کے مرتب ومؤلف ہیں. مؤلف حلقہ علماء میں خاص اعتبار وشناخت رکھتے ہیں، بڑی خموشی، شوق، لگن، عرق ریزی، جاں کاہی اور یکسوئی کے ساتھ سلگتے فقہی موضوعات پر وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی مہربانی یا حسن ظن ہے کہ وہ اپنا ہر مسودہ عاجز کو نظر نواز کرتے ہیں، اس سے پہلے بھی جدید فقہی موضوعات پر ان کی کئی بیش قیمت کتابیں مسافرانِ علم وتحقیق اور اصحاب فقہ وفتاوی سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں. زیر نظر کتاب بھی ان کی دیگر تالیفات کی طرح انتہائی چشم کشا اور بصیرت افروز ہے.
امید قوی ہے کہ کتاب ہذا بھی علمی حلقوں میں شوق کے ہاتھوں لی جائے گی اور قدر کی نگاہوں سے پڑھی جائے گی. میری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول عام عطا کرے، اور مرتب محترم کو پئے مقصد سرگرم عمل اور سدا تازہ دم رکھے ، آمین!
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_26.html
No comments:
Post a Comment