Wednesday, 28 June 2023

مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نےشیوسینا UBT کے پرمکھ ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی ـ یونیفارم سول کوڈ اور دیگر مسائل پر گفتگو

مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نےشیوسینا UBT کے پرمکھ ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی ـ یونیفارم سول کوڈ اور دیگر مسائل پر گفتگو 
                   ـــــــــــــــــــ

   ممبئی ۲۸ جون ـ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک وفد نے ملک کے بڑے لیڈر اور شیوسینا کے پرمکھ مسٹر ادھوٹھاکرے سے شیوسینا بھون دادر میں ملاقات کی اور ان سے ملی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی ـ 
 دراصل گزشتہ ۵ فروری کو لکھنو میں بورڈ کی جو عاملہ کی میٹنگ ہوئی تھی اُس میں طے ہوا تھا کہ یہ جو آج کل کچھ پارٹیاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششیں مختلف جہات سے کررہی ہیں، کبھی عدالتوں کا سہارا لیا جارہا ہے اور کبھی مرکزی وریاستی سطح پرقانون سازی کی بات کی جارہی ہے، یونیفارم سول کوڈ کے لئے تو باقاعدہ الیکشن مینی فیسٹو میں وعدے کئے جارہے ہیں، گزشتہ دنوں ملک کے لاکمیشن نے بھی 14 جولائی تک کامن سول کوڈ کے لئے عوام سے رائے طلب کرکے اس معاملے کو اور ہوا دیدی ہے، جبکہ ہمارے ملک کا دستور ہر باشندے کو اپنے مذہب اپنی تہذیب اور زبان بولنے،عمل کرنے اور بغیر کسی لالچ یا دباو کے تبلیغ کرنے کا حق دیتا ہے ـ یہی ہمارے ملک کی خصوصیت اور خوبصورتی ہے ـ کچھ لوگ اس ملک کے حُسن کو برباد کرنا چاہتے ہیں ـ 
 
    اسی طرح کمزور طبقات، اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات پر حملوں اور اُن پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ـ اب تو کوشش یہ بھی کی جارہی ہے کہ وقف کا قانون ہی ختم کرکے ساری وقف کی زمینیں ہتھیالی جائیں ـ  
 
   ہندوستانی مسلمان ایسے ظالمانہ اقدامات جن سے اُن کی مذہبی شناخت ختم ہوسکتی ہے کی وجہ سے سخت تشویش میں مبتلاء ہیں، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی عاملہ نے طے کیا تھا فی الحال کوئی عوامی تحریک شروع کرنے کے بجائے ملک کے وہ لیڈران اور وہ پارٹیاں جو سیکولر ہونے کی دعویدار ہیں اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں نیز وہ مذہبی اقلیتیں جو یونیفارم سول کوڈ کے متفق نہیں ہیں، ساتھ ہی دیگر انصاف پسند شخصیات جو ہندوستان کی کثیر مذہبی، کثیر لسانی وتہذیبی خوصیات کو جمہورہت کے لئے ایک آئیڈیل تصور کرتے ہیں اُن  سے ملاقات کرکے اُنھیں مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کیا جائے اور اُنھیں اُن کی ذمہ داری بتائی جائے کہ ملک کی مشترکہ وراثت کی حفاظت کرنا جہاں ہر ہندوستانی باشندے کا فرض ہے وہیں قومی ومذہبی لیڈران کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ـ
  
     چنانچہ اسی سلسلے میں ادھو ٹھاکرے سے  آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد نے ملاقات کی اور اُنھیں یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اُس کے بعد ہونے والی دشواریوں سے واقف کرایا، اراکین وفد نے مسٹر ٹھاکرے کو کو یاد دلایا کہ یہ ملک کسی ایک مذہب، کسی ایک تہذیب کے ماننے والوں یا کسی ایک زبان کے بولنے والوں کا نہیں ہے، بلکہ یہاں تو ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے درمیان تہذیب اور آستھا کا فرق پایا جاتا ہے ، مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب، قبائل اور آدی واسیوں کے اپنے پرسنل لاء ہیں اگر اِن سب کو ختم کرکے کسی ایک مذہب کا قانون تھوپ دیا جائے گا تو یہ ملک کی یکجہتی کے لئے انتہائی خطرناک بات ہوگی ـ...........  وفد نے یاد دلایا کہ اس پہلے 2018 میں سابقہ لاکمیشن نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے لئے عوام سے رائے طلب کی تھی اور کچھ سوالات کے جواب مانگے تھے، اس وقت بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اُن سوالات کے جواب دئے تھے اور لاءکمیشن کے چیرمین سے ملاقات کرکے اُن کو یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اس کے نفاذ کے بعد ہونے والی دشواریوں سے آگاہ کیا تھا، اسی کے بعد سابقہ لاکمیشن نے اپنی رپورٹ میں یونیفارم سول کوڈ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں بلکہ آئندہ دس سال تک بھی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیئے ـ سابقہ کمیشن کے اس واضح تبصرے کے بعد بھی پتہ نہیں کیوں موجودہ لاکمیشن نے ایک بار پھر اس گڑے مردے کو اُکھاڑنے کی کوشش کی ہے ـ 
    
    اسی طرح عبادت گاہوں پر حملے،ماب لنچنگ اور اوقاف کی ملکیت میں جو بڑے پیمانے پر خرد برد ہورہا ہے وقف قانون ختم کرنے کی بات بھی ہورہی ہے یہ بھی ہمارے لئے سخت تکلیف دہ بلکہ ناقابل برداشت بات ہے ـ

وفد کے اراکین نے ادھو ٹھاکرے سے کہا کہ آپ ملک کے بڑے لیڈروں میں ہیں، آپ کی بات حکومتی ایوان میں غور سے سُنی جاتی ہے، میڈیا و عوام میں بھی آپ کے زبردست اثرات ہیں اس لئے ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اپنے اثرورسوخ کا استعمال کریں، مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو بند کرانے کی کوشش کریں، خصوصا یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اس کے نتائج سے حکومت، میڈیا اور عوام کو واقف کرائیں نیزاوقاف کی جائدادوں میں خرد برد کے خلاف بھی اپنی اثرانداز آواز کو بلند کریں تاکہ جلد از جلد یہ مسئلہ بھی حل ہوسکے ـ
   
   مسٹر ٹھاکرے نے پوری گفتگو غور سے سنی اور کہا کہ ابھی یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ـ ہمیں لگتا ہے کہ اس سے صرف مسلمان ہی نہیں دیگر طبقات بلکہ ہندو بھی متاثر ہوں گے، انھوں نے کہا کہ ہم اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اس پر اپنا موقف ظاہر کریں گے ـ انھوں نے اعتراف کیا کہ بھارت مشرکہ مذاہب، تہذیبوں اور مختلف زبانوں کا ملک ہے یہی اس کی خوبصورتی ہے، یہاں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیئے ـ ملاقات کے دوران ادھو ٹھاکرے کے ساتھ، مبر پارلمنٹ اروند ساونت، ممبر پارلیمنٹ سنجے راوت اور دیگر شیوسینا کے بڑے لیڈران بھی موجود تھے ـ
    
     آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا وفداس سلسلے میں اب تک این سی پی سپریمو مسٹر شرد پوار اور مہاراشٹرا کانگریس کے صدر مسٹر نانا پٹولے سے ملاقات کرچکا ہے نیز دوسرے بڑے لیڈران سے بھی ملاقات کا پروگرام ہے، اسی کے ساتھ دیگر مذاہب کی مذہبی شخصیات جیسے عیسائیوں کے کارڈینیل، بدھ سماج، جین سماج، سکھ برادران کے مذہبی رہنما اور آدی واسی و قبائلی لیڈران سے بھی ملاقات ہوگی  ـ اس وفد کے اراکین میں مولانا محمود احمد خاں دریابادی، ڈاکٹر ظہیر قاضی، مولانا ظہیر عباس رضوی، عبدالحسیب بھاٹکر، مولانا انیس احمد اشرفی، مولانا عبدالجلیل سلفی، فرید شیخ، سلیم موٹر والا اور شاکر شیخ شامل تھے ـ
    رابطہ ـ   9820135838

Tuesday, 27 June 2023

بچوں کو خوبصورت بنانے ٹوٹکے جو خطرناک ہوسکتے ہیں


"بچوں 
کو ’خوبصورت‘ بنانے 
کے ٹوٹکے جو خطرناک ہوسکتے ہیں"
کہتے ہیں خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے لیکن اگر آپ ہندپاک سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ خوبصورتی دیکھنے والی آنکھیں آپ کی ماں کی ہوں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے معیار اتنے اونچے ہیں کہ اِن پر شاید ہی کوئی پورا اُتر سکے۔
یہاں پہلے شادی کرنے کا پریشر ہوتا ہے، ہو جائے تو بچے پیدا کرنے کا پریشر۔ بچہ ہو جائے تو یہ پریشر کہ اب وہ معاشرے کی ’خوبصورت‘ ہونے کی تعریف پر پورا بھی اُترے۔
اگر کسی ایک کو بھی اعتراض ہو تو پورا خاندان، محلہ اس بچے کے نین نقش نکھارنے میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ بچے پر اپنا زیادہ حق سمجھنے والے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ مشورے دے کر کام چلاتے ہیں۔

’بچی کا سر بنانا ہے تو پلیٹ پر رکھ دو‘
ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر معصومہ کو پتہ چلا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا اور پھر تین ماہ بعد ہیماٹوما ٹھیک ہوگیا۔
آپ نے بعض مرتبہ سنا ہوگا کہ فلاں کا سر بہت اچھا بنا ہوا ہے یا پھر سر ٹھیک سے نہیں بنایا گیا اور اسے لمبا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ماؤں پر بچوں کا فلیٹ سر بنانے کا بہت پریشر ہوتا ہے۔
معصومہ رضا کو اسی پریشر کا سامنا ایک سال پہلے تب کرنا پڑا جب ان کی بچی کی پیدائش ہوئی اور ہیماٹوما یا جمے ہوئے خون کی وجہ سے بچی کے سر کے اوپر تھوڑی سی جگہ ابھری ہوئی تھی۔
معصومہ کہتی ہیں گھر والوں نے تو خیال کرتے ہوئے پوچھا لیکن باہر والے لوگوں نے انھیں ایسے مشورے بھی دیئے جو انھوں نے مانگے بھی نہیں تھے۔
معصومہ نے بتایا ’لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا کہ یہ کیا مسئلہ ہے، الگ سے نظر آ رہا ہے۔ ایک جاننے والی خاتون تو پلیٹ ہی لے کر آگئیں کہ لاؤ تہھیں سکھلاؤں بچی کا سر پلیٹ میں رکھ کر بنانا کیسے ہے۔‘
ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر انھیں پتہ چلا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا اور پھر تین ماہ بعد ہیماٹوما ٹھیک ہوگیا۔
معصومہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ٹھان لی کہ نہ پریشر لوں گی اور نہ کبھی اپنی بچی کو لینے دوں گی۔ ہمارا کلچر بن گیا ہے کہ بیٹی ہے تو ایسے خوبصورت بناؤ۔۔۔ آنکھیں اتنی بڑی ہونی چاہیں، ماتھے پر بال نہ ہوں، ناک پتلی ہو۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، ہمارے معاشرے کو بھی تھوڑا آزاد خیال ہونا چاہیے۔‘

’12 دن کی بچی کی ویکسنگ کردو، بال ختم ہوجائیں گے‘
ماہم حسّان جب پہلی بار ماں بنیں تو انھیں یہ پتہ نہیں تھا کہ لوگ بچے کو خوبصورت بنانے کے لئے کتنا پریشر ڈالتے ہیں۔
ان کی بیٹی کے روئیں جیسے بال دیکھ کر ایک جان پہچان والی خاتون نے کہا کہ آٹے کی لوئی لے کر بال صاف کردو ایک اور خاتون نے انھیں بتایا کہ بچوں کی ویکس بھی آتی ہیں۔
ماہم اس وقت دنگ رہ گئیں جب ایک خاتون نے انھیں مشورہ دیا کہ بچوں کی ویکس بھی آتی ہے اور اگر وہ اپنی 12 دن کی بچی کی ویکس کردیں گی تو بعد میں شکر کریں گی کہ بچی کے بال دوبارہ نہیں آئے۔
وہ کہتی ہیں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کوئی 12 دن کی بچی کو ویکس کرنے کا کیسے سوچ سکتا ہے!

ٹوٹکے اور ان کی حقیقت:
بچوں کو ’پیارا‘ بنانے والے ٹوٹکوں اور ان سے جڑے کئی سوالات لے کر میں شفا اسپتال میں چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر معصومہ فاطمہ کے پاس گئی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ٹوٹکوں کو بچوں پر آزمانے سے کیا ہوتا ہے۔

آنکھیں بڑی کرنے کے لئے سرمہ لگانا:
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق خالص سرمے میں لیڈ یا سیسہ ہوتا ہے جو نومولود بچوں کی آنکھوں میں فوراً جذب ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے لیڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ صرف ایک بار سرمے کے استعمال سے بھی بچوں کے جسم میں لیڈ لیول بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرمے کی سلائی سے بچے کی آنکھوں میں انفیکشن ہونے کا خدشہ رہتا ہے جو ان کے پورے جسم میں پھیل سکتا ہے۔

بچوں کا رنگ گورا کرنے کے لیے کریمیں لگانا:
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کا وہی رنگ ہو گا جو ان کو جینیاتی طور پر ماں باپ سے ملے گا۔ اس کے لیے ان کی جلد پر مختلف چیزیں لگانے سے گریز کریں ورنہ کیمیکل بچوں کی جلد پر ریش کی شکل میں اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

بچوں کا فلیٹ یا سیدھا سر بنانا:
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں پاکستان میں فلیٹ سر بنانے کا رواج بہت عام ہے اور اسے اچھا سر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دماغ کی شیپ دیکھیں تو دماغ کا ایک حصہ سر کی پچھلی طرف موجود ہوتا ہے جسے دبا کر سخت سطح پر رکھا جاتا ہے تاکہ سر کو فلیٹ کیا جاسکے۔
ان کے مطابق دماغ ایڈجسٹ تو کرلیتا ہے لیکن اس سے نہ صرف کان کی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے بلکہ بچوں کی ذہنی نشونما میں کچھ کمی رہنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ تو اگر ان کا سر پیچھے سے گول بھی ہے تو یہ نارمل بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹائٹ ٹوپی پہنانے کا نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کے سر کا سائز چھوٹا رہنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

نومولود بچوں کے بال اتارنا:
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ بہت سے بچوں کے جسم پر بالخصوص پری میچور یا وقت سے پہلے پیدا ہونے کی صورت میں کافی بال ہو سکتے ہیں لیکن بچوں کے جسم سے آٹے کی لوئی یا بیبی ویکس کے ذریعے بال اتار کر بچے کو تکلیف پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کیونکہ جسم پر بالوں کا تعین بچے کی جینیات کرتی ہیں یعنی اگر ماں باپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں ہیں تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ بچے کے جسم پر بال بھی ایک سال تک پہنچنے کے بعد کم ہو جائیں۔

بچوں کی ناک دبا کر پتلی کرنا:
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کی ہڈیاں، خاص طور پر ناک کی ہڈی بہت نرم اور نازک ہوتی ہے۔ ناک کو دبانے سے ہڈی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔

گھنے بالوں کے لیے بچوں کا سر شیو کروانا:
ڈاکٹر معصومہ کہتی ہیں کہ اگر ماں باپ کے بال اچھے ہیں تو سائنس یہی کہتی ہے کہ بچوں کے بال اچھے ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ بچوں کے اچھے بال عوماً ایک سال کے بعد ہی آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی بچے کا سر ایک سال سے پہلے خالی بھی ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

وزن بڑھانے کے لئے 6 ماہ سے کم بچوں کو روٹی، انڈے وغیرہ کھلانا:
چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ دینا چاہئے اور گائے یا بکری کا تازہ دودھ یا انڈے وغیرہ کسی صورت نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس سے بچوں میں الرجی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر معصومہ کے مطابق بچوں کے لیے ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے۔ اس کے بعد کم مقدار میں چاول یا پھل، سبزی دی جا سکتی ہے۔

بچوں کا مساج کرنا چاہئے:
تو نومولود بچوں کے لئے کوئی ٹوٹکا مفید بھی ہے؟
جی ہاں۔ ہلکے ہاتھوں کے ساتھ بچوں کی مالش کی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر معصومہ زیتون کا تیل استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے مطابق مساج کرنے سے بچہ پُرسکون محسوس کرے گا۔

Monday, 26 June 2023

منی میں حاجیوں کا برا حال

"منی 
میں ہندستانی 
حاجیوں کا بہت برا حال"
(بقلم: اسلم جاوداں)
بھیڑ بکریوں کی طرح حاجیوں کو کیمپ میں رکھا گیا ہے
منی (پریس ریلیز) اردو کونسل ہند کے ناظم اعلیٰ اسلم جاوداں نے منی سے تشویشناک خبر دی ہے کہ وہاں  ہندستانی حاجیوں  کا بہت برا حال ہے۔ انہیں خیمہ میں بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا. خیمہ کی گنجائش سے بہت زیادہ حاجیوں کو زبردستی اندر داخل کروادیا گیا ہے. عورتوں کے خیموں کا اور بھی برا حال ہے. 2/6 کے بستر  پر تین تین عورتیں بیٹھی ہیں۔ مرد حضرات نے عورتوں کے خیمے میں بے دھڑک گھس کر اپنی اپنی عورتوں کو زبردستی بٹھایا. جس سے عورتوں میں ڈر اور خوف کا ماحول بنارہا. بہت سی عورتوں اور مردوں  کو خیمے سے باہر راستے بیٹھا دیا گیا. یہاں  اتنا برا حال ہے کہ فجر کے وقت استنجاء خانہ اور وضوخانے جانے کا تصور ہھی محال تھا. دن میں بھی لمبی لمبی قطار لگی رہی۔ لوگ بے حال ہوتے رہے. اپنی جگہ بیٹھ کر نماز پڑھنا بھی مشکل ہے. ایسا افراتفری اور وحشت کا ماحول اس سے پہلے نہ دیکھا گیا نہ سنا گیا. استنجا خانے اور وضوخانے کا انتظام بہت ہی ناقص ہے. انھوں بتایا کہ یہ روداد بہار کے حاجیوں کے کیمپ نمبر 29 اور 30  کی ہے. تقریبا یہی صورت حال تمام ہندستانی کیمپ کی ہے۔ جبکہ اطلاع کے مطابق دیگر ملکوں کے کیمپوں میں اطمینان بخش صورتحال ہے.
اسلم جاوداں میں گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حج کمیٹی آف انڈیا مطالبہ کیا ہے کہ ان حالات کے پیش نظر فوری مداخلت کرے اور عرفات کے کیمپ میں بہتر انتظام کے لئے ہدایات جاری کرے. انہوں نے دیگر مذہبی جماعتوں  سے اس سلسلے میں ضروری اقدام کرنے کی گزارش کی ہے۔  انہوں نے کہا کہ اس بار ہندوستانی حاجیوں کے ساتھ ہر سطح پر ناانصافی کی گئی ہے اور منی میں یہ نا انصافی ظلم کی حد کو پہنچ گئی ہے۔ 
اسلم جاوداں نے مرکزی وزارت اقلیتی امور سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے اعلی سطحی جانچ کراکے  خا طیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ انہوں نے نتیش حکومت سے بھی  امید ظاہر کی ہے کہ وہ بھی اس معاملے اپنی سطح سے فوری اور کارگر اقدام کرے گی۔  
(اسلم جاوداں.  منی ، مکہ) ( S_A_Sagar# )


Tuesday, 20 June 2023

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

 محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

20 جون 712 عیسوی کو محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکست دے کرسندھ فتح کیا تھا۔ اس موقع کی مناسبت سے یہ تحریر آج دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران راجہ ڈاہر کو جب اموی سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہوگئی تو ان کی دو بیٹیوں سوریا اور پریمل کو محمد بن قاسم نے راجہ کی ہلاکت کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس دارالخلافہ بغداد روانہ کردیا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب بڑی بیٹی سوریا سے خلوت کا ارادہ کیا تو سوریا نے چال چلی اور خلیفہ سے کہا کہ محمد بن قاسم پہلے ہی ان کے ساتھ خلوت اختیار کر چکا ہے چنانچہ وہ اب خلیفہ کے شایانِ شان نہیں رہیں۔ غصے میں خلیفہ کو تحقیق کا ہوش نہیں رہا اور انھوں نے اسی وقت محمد بن قاسم کے نام پروانہ جاری کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں خود کو کچی کھال میں سلوا کر دارالخلافہ کو واپس ہوں۔ محمد بن قاسم نے ایسا ہی کیا اور دارالخلافہ کے راستے میں ہی دو دن بعد ان کی موت ہوگئی۔ یہ کہانی کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ میں بیان کی گئی ہے۔ روایت کے مطابق اس کے بعد راجہ ڈاہر کی بیٹی کا ایک طویل خطاب ہے جس میں وہ محمد بن قاسم کی عادل حکمرانی کی گواہی دیتی ہیں مگر ان کی ہلاکت کی سازش رچنے کو اپنے والد کا بدلہ قرار دیتی ہیں۔اسی خطاب میں وہ محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہتی ہیں کہ انھیں فرمانبرداری میں بھی عقل سے کام لینا چاہئے تھا اور خلیفہ کو بھی کہتی ہیں کہ اسے بھی سنی سنائی بات پر اتنا سخت حکم جاری کرنے سے قبل تحقیق کر لینی چاہئے تھی۔ چچ نامہ کے مطابق راجہ ڈاہر کی بیٹی نے کہا: دانا بادشاہِ وقت پر واجب ہے کہ جو کچھ بھی دوست یا دشمن سے سنے، اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور دل کے فیصلوں سے اس کا موازنہ کرے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ پاک دامنی کے اعتبار سے محمد بن قاسم ہمارے لیے باپ اور بھائی جیسا تھا اور ہم کنیزوں پر اس نے کوئی دست درازی نہیں کی۔ لیکن چونکہ اس نے ہند اور سندھ کے بادشاہ (راجہ داہر) کو برباد کیا تھا اس لیے ہم نے انتقاماً خلیفہ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔ اس پر خلیفہ نے غضبناک ہوکر دونوں بہنوں کو دیوار میں چن دینے کا حکم دیا۔  بنوامیہ کے دور میں سندھ فتح کرنے والے نوجوان سالار محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور کی ’مبینہ‘ کنیز انار کلی کی موت کی کہانیوں میں خواتین کے دیوار میں چ±نوائے جانے کی قدر مشترک ہے۔ انار کلی کے بارے میں کہانی یہ منسوب ہے کہ اکبر بادشاہ نے انھیں شہزادہ نور الدین محمد سلیم (بعد میں جہانگیر) سے معاشقے کی وجہ سے دیوار میں چنواکر ہلاک کروا دیا تھا۔ مگر انارکلی کے وجود کے بارے میں ہی مؤرخین کو شبہ ہے اور ان کے بارے میں تاریخی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کی موت کی کہانی تو دور کی بات ہے۔ اور محمد بن قاسم اور راجہ داہر کی بیٹیوں کی ہلاکت سے متعلق اس پوری کہانی پر بھی مؤرخین کو اعتراضات ہیں۔

تو پھر محمد بن قاسم کی موت واقعتاً کیسے ہوئی اور مندرجہ بالا واقعے کی تاریخی حقیقت کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھیں گے کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟ اگر آپ کراچی سے گوادر جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے تو آر سی ڈی ہائی وے پر کوئی دو گھنٹے کی ڈرائیو کریں گے جس کے بعد بائیں جانب مکران کوسٹل ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے آپ میں حیرتوں سے بھرپور سڑک ہے۔ یہیں پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب ایک پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ یہاں فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں موجود ہیں۔ نامور مصنف و محقق سلمان رشید کے مطابق یہ قبریں محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی نہیں ہیں کیونکہ آٹھویں صدی میں عرب سندھ کے چوکنڈی قبرستان جیسی نقش و نگار سے مزیّن قبریں نہیں بنایا کرتے تھے، اور ویسے بھی قبروں کا یہ طرزِ تعمیر تقریباً سولہویں صدی کا قرار دیا جاتا ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق یہ قبریں اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا تذکرہ منان احمد آصف نے اپنی کتاب ’اے بک آف کونکوئسٹ‘ میں بھی کیا ہے۔ مگر پاکستان میں محمد بن قاسم سے متعلق متنازع باتوں میں سے یہ صرف ایک بات ہے۔ مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں اکثر و بیشتر یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسی دن پڑگئی تھی جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ محمد بن قاسم اموی دورِحکومت کے وہ سالار تھے جنھوں نے 712 سنِ عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے راجہ ڈاہر کو شکست دی۔بعض مورخین کے نزدیک محمد بن قاسم کے آنے سے جنوبی ایشیا میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، سندھ فتح ہوا اور یوں واقعات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔

مگر مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل بھی عرب تاجر برِصغیر میں رہائش پذیر تھے اور کچھ کے نزدیک یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں تک کر رہے تھے۔کتاب ’دی گریٹ مغلز اینڈ دیئر انڈیا‘ میں مصنف ڈرک کولیئر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انڈیا کے جنوب مغرب میں مالابار کے ساحلی علاقے (موجودہ کرناٹک اور کیرالہ) میں عرب تاجر یہاں پہلے سے مقیم تھے اور جب خطہ عرب میں اسلام آیا تو ممکنہ طور پر ان عربوں نے بھی اسلام قبول کیا ہوگا۔ اپنی کتاب کے ابتدائیے میں انھوں نے خطہ برِصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے متعدد نظریات کا ذکر کیا ہے جس میں ہجرت، تلوار، خوف، صوفیا کے عمل اور تبلیغ، سماجی رتبے کے حصول اور پرامن روابط مثلاً تجارت اور باہمی شادیاں شامل ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے (چند) واقعات کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، تاہم کئی دیگر علاقوں مثلاً مالابار کے ساحلوں میں اسلام کی کامیابی کا تعلق جبر یا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی برتری سے نہیں تھا۔اس کے علاوہ ان کے نزدیک نئے مذہب کے مضبوط اور مساوات پر مبنی پیغام کا اثر بالخصوص نچلی ذات کے افراد پر ضرور ہوا ہو گا۔چنانچہ وہ اس علاقے میں پہلے سے عربوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے کہیں قبل برِصغیر میں اسلام کی آمد کا عرصہ متعین کرتے ہیں۔لہٰذا پاکستان کی درسی ک±تب میں عام طور پر پڑھائے جانے والے بیانیے کے برعکس تاریخی بیانیے بھی موجود ہیں۔

کتاب فتوح البلدان نوویں صدی عیسوی میں عباسی دورِ حکومت میں تحریر کی گئی اور اسے اسلامی فتوحات کی تاریخ کی اہم ترین اور مستند کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں مصنف احمد بن یحییٰ البلاذری نے محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بعد کے واقعات خصوصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے بہت سے مفتوحہ علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے، واپس فتح ہوئے، کسی نے واپس اپنا پچھلا مذہب اختیار کر لیا تو کسی نے مسلمانوں سے اپنا معاہدہ توڑ لیا۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن قاسم سے پہلے کوئی مسلمان مہم سندھ میں آئی تھی یا نہیں؟بلاذری کے مطابق خلیفہ دوم عمر بن الخطاب کے دور میں 15 ہجری میں انھوں نے عثمان بن ابوالعاص الثقفی کو بحرین اور عمان پر گورنر مقرر کیا، تو عثمان نے ایک فوج تھانہ (یا تانہ) کی جانب بھیجی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ عثمان کے بھائی الحکم نے اپنے بھائی المغیرہ ابن ابوالعاصی کو خلیجِ دیبل کی جانب بھیجا جہاں انھوں نے دشمن پر فتح پائی۔فتوح البلدان کا اردو ترجمہ سید ابوالخیر مودودی نے کیا ہے جس میں انھوں نے دیبل کو تو دریائے سندھ کے قریب واقع ایک بڑا تجارتی شہر قرار دیا ہے مگر تھانہ کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ کون سا شہر ہے۔

اس کا تذکرہ ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے جب ا±نھوں نے یمن کی بندرگاہِ عدن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہاں انڈیا کے کئی شہروں بشمول ’تھانہ‘ سے بھی جہاز آتے ہیں۔چنانچہ یہ شہر ’تانہ‘ انڈین ریاست مہاراشٹر کا شہر تھانے یا تھانہ ہے جو ممبئی کا پڑوسی شہر ہے اور یہاں تک وسائی کھاڑی (ندی) کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو اس شہر کو ساحل سے کافی دور ہونے کے باوجود بحیرہ عرب سے ملا دیتی ہے۔

خطہ سندھ اور بلوچستان میں اوّلین اسلامی مہمات

موجودہ پاکستان کے دیگر خطوں میں محمد بن قاسم سے پہلے مسلمانوں کی آمد کے بارے میں ایک اور روایت فتوح البلدان سے ہی ملتی ہے جس کے مطابق سنہ 38 یا سنہ 39 ہجری میں حضرت علی کے دور میں اور پھر سنہ 44 ہجری میں امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں قیقان (موجودہ قلات) اور بنہ (موجودہ بنوں) پر حملے کیے گئے۔اگر محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی پہلی فوجی مہم نہیں تھی اور اس سے قبل بھی اس علاقے پر حملے کیے جاتے رہے تھے تو پھر اس واقعے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ کی جانب بھیجا؟یہ کہانی بھی چچ نامہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔چچ نامہ یا فتح نامہ سندھ، خطہ سندھ کی فتح پر لکھی گئی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل مو¿رخین نے سندھ اور ہند کی فتح پر باب تو باندھے ہیں لیکن مکمل کتابی صورت میں صرف چچ نامہ ہی ملتی ہے۔

چچ نامہ تیرہویں صدی میں علی کوفی کی فارسی میں ترجمہ کردہ کتاب ہے جو ان کے مطابق انھوں نے ایک عربی کتاب سے فارسی میں منتقل کی، تاہم وہ عربی کتاب اب تک باقاعدہ دریافت نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس حوالے سے معلومات ہیں کہ وہ کس کی تصنیف تھی۔ تاہم اس کتاب میں موجود روایات اور تاریخی حوالوں کو محققین پرکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ چچ نامہ میں بیان کئے گئے دیگر واقعات کے برعکس مسلمان قیدیوں کے بارے میں تحریر اس واقعے کی شروعات میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور محقق و مصنف منان احمد آصف کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ درست نہیں ہے۔اس کے علاوہ تاریخ ابنِ خلدون میں بھی دیبل کی فتح کے باب میں اس واقعے کا تذکرہ نہیں ہے۔مذکورہ واقعے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ حجاج کے گورنر محمد بن ہارون بن ذراع النمری کے دور میں پیش آیا تاہم بلاذری اور چچ نامہ، دونوں ہی نے وہ سال نہیں لکھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔محمد بن ہارون النمری کا تقرر چچ نامہ کے مطابق سنہ 86 ہجری میں ہوا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ 93 ہجری یا 712 عیسوی میں ہوا۔ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو کس سال میں ہوا اور یہ کہ اس واقعے کے کتنے عرصے بعد محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی۔اس کے علاوہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر ولید بن عبدالملک کے دور تک کا جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کئی دہائیوں طویل سلسلے میں تازہ ترین کوشش تھی جس میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ پھر تاریخ کی کتب میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ اس وقت علافی یا علوی گروہ کے کئی لوگ مکران میں آ بسے تھے۔ ا±ن میں سے ایک کو حجاج کے عملدار سعید بن اسلم کلابی نے قتل کیا تھا، چنانچہ بدلے میں علافیوں نے بھی سعید بن اسلم کو قتل کردیا، جس پر حجاج بن یوسف نے علافیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تھا۔

جب خلافتِ اموی کی طرف سے مکران میں بسے ان علافیوں کیخلاف بار بار مہمات کی گئیں تو یہ لوگ سندھ میں راجہ ڈاہر کے پاس چلے گئے چنانچہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ خود حجاج بن یوسف کے دور میں مکران اور سندھ کی طرف بنو ا±میہ کے مخالفین موجود تھے۔اس کے علاوہ سندھ کی فتح کی اس مہم پر بلاذری کے مطابق چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے اور اس کے بدلے میں 12 کروڑ درہم کا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔چنانچہ منان احمد آصف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’جب السند (سندھ) پر حملہ ہوا تو اس کا تعلق بنو امیہ کی شاخِ مروان کے مالیاتی امور یا باغیوں کیخلاف سرحدی خطے پر قبضے سے تھا، نہ کہ قزاقوں کی کسی رومانوی داستان سے۔‘چچ نامہ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی ہلاکت راجہ ڈاہر کی دو بیٹیوں کی سازش کی وجہ سے ہوئی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی من گھڑت اور افسانوی ہے۔سندھ کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان (این اے) بلوچ نے چچ نامہ کی صحت اور اس میں موجود تاریخی حوالوں کے بارے میں جرح کی ہے۔ڈاکٹر این اے بلوچ کا چچ نامہ پر تحریر کیا گیا مقدمہ بھی اپنے آپ میں ایک پوری کتاب ہے جس میں ا±نھوں نے محمد بن قاسم کی ہلاکت اور پھر راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کے بغداد کی کسی دیوار میں چ±ن دیے جانے کی کہانی کو کہانی ہی قرار دیا ہے، حقیقت نہیں۔سب سے پہلے تو اس کہانی کے مطابق خلیفہ نے محمد بن قاسم کو دارالخلافہ بغداد بلوایا۔ حالانکہ ا±س زمانے میں بغداد کا وجود نہیں تھا، بلکہ دارالخلافہ دمشق تھا۔اس کے بعد اس میں لکھا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی موت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر ہوئی تاہم بلاذری اور دیگر مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں پیش آیا۔

بلاذری کے مطابق ولید بن عبدالملک کی موت کے بعد سلیمان بن عبدالملک حکمران ہوئے تو انھوں نے صالح بن عبدالرحمان کو عراق کا والی اور یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عملدار مقرر کیا۔یزید نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے صالح کے پاس عراق بھیج دیا جہاں انھیں حجاج بن یوسف کے سابقہ انتظامی ہیڈکوارٹر واسط کے ایک عقوبت خانے میں قید کرکے ایذا رسانیاں کی گئیں اور وہ ہلاک ہوگئے۔ اسی بیان کی تصدیق تاریخ ابنِ خلدون سے بھی ہوتی ہے۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید میں تھے تو انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر یہ اشعار کہے:

ہر چند کہ میں واسط میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں

مگر کبھی میں نے ایران کے کتنے ہی شہ سوار زیر کئے

اور اپنے جیسے کتنے ہی پہلوانوں کو پچھاڑا ہے

ایک اور شعر جو محمد بن قاسم سے منسوب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:

انھوں نے مجھے ضائع کردیا، جوان بھی ایسا کہ مردِنبرد اور سرحد کا محافظ تھا۔

چنانچہ محمد بن قاسم کی معزولی اور ہلاکت سے اس دور میں ہونے والی سیاسی سازشیں اور آپسی دشمنیاں بھرپور انداز میں عیاں ہوجاتی ہیں۔

(بقلم:بلال کریم مغل) (#ایس_اے_ساگر)



محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی ’مبینہ‘ قبریں بلوچستان میں

Monday, 19 June 2023

کیا آپ کا فون بھی پھٹ سکتا ہے؟

کیا آپ کا فون بھی پھٹ سکتا ہے؟

اس کا مختصر جواب "ہاں" ہے، کیونکہ فون پھٹنے کے بہت سے واقعات ہیں، وہ کون سی وجوہات ہیں جو آپ کے فون کو پھٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں. مثال کے طور پر:

• ہارڈ ویئر کے مسائل: سب سے اہم وجوہات جو فون کو پھٹا سکتی ہیں وہ ہیں فون کے اندرونی ہارڈ ویئر خصوصا the بیٹری کے مسائل ، اور یہ پریشانی عام طور پر مینوفیکچرنگ پریشانیوں یا غلط استعمال کی ہوتی ہیں۔

• فون سے زیادہ گرمی: ایپل نے نوٹ کیا آئی فون کا درجہ حرارت کسی بھی صورت میں 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس طرح سے زیادہ درجہ حرارت ایسی چیز ہے جو فون کے اندرونی ساخت کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور اس طرح اسے جلاسکتے ہیں لیکن فون اس معاملے میں آپ کو الرٹ ونڈو دکھائے گا۔ اس کے علاوہ، اگر آپ گرم آب و ہوا میں رہتے ہیں تو مناسب مواد سے تیار کردہ کور کو ضرور استعمال کریں جس سے فون کو ہوا گردش کرنے کا موقع مل سکے۔

• سستے لوازمات استعمال کریں. سستے یا کم معیار کے لوازمات کا استعمال کرنا یا یہاں تک کہ وہ فون کے لئے براہ راست ارادہ نہیں رکھتے ہیں جو عام طور پر فون کی کارکردگی کو خراب کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ، لیکن ایسی عادت فون کے پھٹنے یا جلانے میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ ....

 فون گرم کیوں ہوتا ہے اور اسے ٹھنڈا کیسے رکھا جائے؟

آپ اپنے لنچ بریک پر باہر بیٹھے ہیں اور آپ کا فون پر آپ کو اوور ہیٹ یا گرم ہونے اور صحیح طریقے سے کام نہ کر سکنے کا پیغام ملتا ہے۔ ایسے میں آپ ٹک ٹاک یا اپنے دوستوں سے بات کرنے کے لئے فون کیسے استعمال کریں گے؟

برطانیہ سمیت دنیا بھر میں جاری حالیہ ہیٹ ویو نہ صرف انسانوں بلکہ ان کے الیکٹرونک آلات کو بھی متاثر کررہی ہے۔

انسانوں کے برعکس، فونز کو پسینہ نہیں آتا۔ یہ انھیں ہاتھ میں پکڑنے والوں کے لئے اچھا ہے لیکن ہمارے ہینڈ سیٹس کے لئے اچھا نہیں ہے۔ تو ہمارے الیکٹرونکس آلات گرمی میں کیوں گرم ہوجاتے ہیں اور ہم اس بارے میں کیا کرسکتے ہیں؟

جیسے ہی فون گرم ہوتا ہے اس کا پروسیسر سست پڑجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم شدید گرمی میں ایک ہی رفتار سے کام کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، فون کے پروسیسر کے لیے بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔

فون پروسیسر دراصل فون میں موجود ایک چپ ہے جو اس کے اہم فنکشنز کے لیے ذمہ دار ہے۔

لیڈز بیکٹ یونیورسٹی میں الیکٹرانک اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی ایک سینئر لیکچرر ڈاکٹر روز وائٹ ملنگٹن کہتی ہیں کہ ’اندرونی چیزیں جو حقیقت میں یہ سب کام کرتی ہیں، بدقسمتی سے، وہ خود اپنے کام کرنے کے طریقے سے حرارت پیدا کرتی ہیں۔‘

’اور جیسے جیسے یہ ڈیوائسز فونز کے لیے زیادہ گرم ہوتی جاتی ہیں، پروسیسر خود کو زیادہ گرم ہونے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں سب کچھ سست ہو جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر روز کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس کو عام طور پر 35 سینٹی گریڈ تک کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بیٹریاں توانائی ذخیرہ کرتی ہیں اور انھیں مخصوص درجہ حرارت پر کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

’وہ جتنی گرم ہوتی ہیں، ان کے لئے کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ اتنی ہی زیادہ توانائی استعمال کرتی ہیں۔‘

جس کا مطلب ہے کہ بیٹری زیادہ تیزی سے ختم ہو گی کیونکہ اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر روز کہتی ہیں کہ جب ہم باہر دھوپ میں ہوتے ہیں تو ہم اکثر سکرین کی روشنی کو بڑھا دیتے ہیں، اس کا اثر بھی بیٹری جلد ختم ہونے پر ہوسکتا ہے۔

’وہ اپنی حالت کی نگرانی کے لئے بھی توانائی کا استعمال کرتی ہیں اور اس لیے بنیادی طور پر انھیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

اگر آپ نے اپنے فون کی سکرین پر کوئی معمولی سے تبدیلی محسوس کی ہے تو ایسا گرمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر روز کہتی ہیں کہ ’اگر یہ پرانا فون ہے اور اگر اس میں کوئی معمولی خرابی ہے، تو گرمی اس کو بڑھا دے گی۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ اسکرین پروٹیکٹر اکثر اپنے اندر زیادہ گرمی رکھ سکتے ہیں، جو کہ گرم حالات میں اچھا نہیں ہوتا۔

فون کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر روز کہتی ہیں کہ ’جب آپ اپنی بیٹری چارج کررہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اگر واقعی گرمی ہے تو آپ مزید حرارت پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کا فون چارج ہوتا ہے تو یہ زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔‘

اسے دھیان سے رکھیں:

وہ کہتی ہیں کہ ’اسے براہ راست سورج کی روشنی سے دور رکھنے سے مدد مل سکتی ہے۔ اسے اپنی کار میں مت چھوڑیں، جتنا ہوسکے تو سائے میں رکھیں۔ اگر ہوسکے تو اسے پنکھے کے سامنے رکھیں۔‘

اسے ہلکا رکھیں:

یہ بات یہ فون کے اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر آپ نے اسے کسی کیس میں رکھا ہے تو اس سے باہر نکالیں اور ان تمام فنکشنز کو بند کر دیں جن کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔

ڈکٹر روز کہتی ہیں کہ ’اگر آپ جی پی ایس استعمال نہیں کررہے ہیں، اگر آپ چیزیں استعمال نہیں کررہے ہیں، تو اسے بند کردیں۔ کیونکہ آپ جتنی کم چیزیں استعمال کریں گے، آپ جتنی کم توانائی استعمال کریں گے، اتنی ہی کم گرمی پیدا ہو گی۔‘

کم پاور موڈ

آپ جتنی کم پاور استعمال کریں گے، آپ کا فون اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ’کبھی کبھی اگر آپ کا فون واقعی مشکل میں ہے تو اسے چند منٹ کے لیے بند کر دیں اور اسے ٹھنڈا ہونے دیں اور پھر اسے دوبارہ آن کریں۔‘

لیکن اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے فریج یا فریزر کا استعمال نہ کریں۔۔۔ ’اسے برف کے تھیلے میں نہ رکھیں، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘

درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلیاں فون کے لئے واقعی خراب ثابت ہوسکتی ہیں اور برف سے اس میں پانی کے گھس جانے کا باعث بن سکتی ہے۔

ڈاکٹر روز کا کہنا ہے کہ فون میں زیادہ گرمی کے میکانزم بنائے گئے ہیں تاکہ انھیں ’خود کو تباہ کرنے سے روکا جا سکے، جو کہ واقعی گرمی میں ہو سکتا ہے۔‘

(بشکریہ: منیش پانڈے) (عہدہ بی بی سی نیوز بیٹ)

(18 جون 2023) ( اضافہ و تدوین: #ایس_اے_ساگر )



Wednesday, 14 June 2023

موبائل فون کے آداب و احکام

‏رات 
کی تنہائی میں 
موبائل فون کی اسکرین 
زلیخا کی طرح ہے جو ہر نوجوان 
کو دعوت دیتی ہے: "ھیْتَ لَک" (آجا گناہ کرلے) 
لیکن اے نوجوان! تو سنتِ یوسفی زندہ کرتے ہوئے کہہ دے: "مَعَاذَ اللّٰه اے اسکرین! میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں!!
موبائل فون کے آداب و احکامات کیا ہیں؟
دنیا کی ترقی اور نئی ایجادات میں سے ایک’’فون‘‘ بھی ہے جس نے عوامی رابطہ کو بہت آسان کردیا. کوسوں دور رہنے والے بھی اس کے ذریعہ آپس میں ربط بآسانی پیدا کرسکتے ہیں، اور ایک دوسرے کے حال چال سے باخبر رہ سکتے ہیں۔ فون بالخصوص موبائل فون اس وقت ہر انسان کی ایک ضرورت بناہوا ہے ،اور تقریبالوگ اس کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں، بلاتفریق امیر وغریب، شہری ودیہاتی، پڑھا لکھا و ان پڑھ ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھارہا ہے۔ یہ بھی اسلام کا حسن اور کمال ہے کہ اس نے ہر موضوع پر اہل ِ ایمان کو تعلیمات و ہدایات سے نوازا ہے. اور چیزوں کے صحیح و غلط استعمال کے طریقوں سے آگاہ کیا ہے۔ چناں چہ ذیل میں ہم موبائل فون سے متعلق چندضروری مسائل ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر لوگوں کو پیش آتے ہیں اور جن سے ناواقفیت کی وجہ سے الجھن اور پریشانی کا شکار رہتے ہیں یا اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔
فون پر بات کرنے کے آداب:
فون کے اہم مسائل جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس پر کس طرح ربط کیا جائے اور اس کے کیا آداب ہیں. ان سے واقف ہوا جائے تاکہ ہمارا کوئی عمل کسی کے لئے بھی تکلیف کا باعث نہ ہو اور غلط استعمال کا وبال نہ آئے۔ چناں چہ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒرحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(۱) کسی شخص سے ایسے وقت میں ٹیلیفون پر مخاطب کرنا جو عادۃ ً اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں یا نماز میں مشغول ہونے کا وقت ہو بلاضرورتِ شدیدہ جائز نہیں. کیوں کہ اس میں بھی وہی ایذارسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔
(۲) جس شخص سے ٹیلیفون پر بات چیت اکثر کرنا ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کرلیاجائے کہ آپ کو ٹیلیفون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے، پھر اس کی پابندی کرے۔
(۳) ٹیلیفون پر اگر کوئی طویل بات کرنا ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو ذرا سی فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں، کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی پر آدمی طبعاً مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیان کہنا چاہتے ہے اور اس ضرورت سے وہ کسی بھی حال میں اور اپنے ضروری کام میں ہوتو اس کو چھوڑ کر ٹیلیفون اٹھاتا ہے. کوئی بے رحم آدمی اس وقت لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
(۴) بعض لوگ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور کوئی پروا نہیں کرتے نہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے، کیا کہنا چاہتا ہے؟یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے، جیسے حدیث میں آیا ہے: کہ جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے کہ اس سے بات کرو اور بلا ضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو، اسی طرح جو آدمی ٹیلیفون پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے. اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں۔ (معارف القرآن: 6/394)
تین بار گھنٹی جانے کے بعد اگر کوئی فو ن نہ اٹھایا جائے تو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت رابطہ ممکن نہیں کسی اور وقت میں رابطہ کی کوشش کرنی چاہئے۔
٭اگر کوئی فون کی گھنٹی کاٹ دے یا کال ریجیکٹ کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ آدمی کسی عذر کی وجہ سے مشغول ہے. لہذا باربار کال کرکے پریشان نہیں کرنا چاہئے، کچھ دیر انتظار کرلیں۔
٭آوازوں کو تبدیل کرکے گفتگو کرنا گویا کسی کو دھوکہ دینا ہے یہ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے درست نہیں ہے۔
٭ جس طرح گفتگو کی شروعات سلام سے ہونا چاہئے. اسی طرح آخر میں بھی ’’السلام علیکم کہنا چاہئے کہ ملاقات کا اختتام سلام پر ہوجائے.
٭ فون پر کال ختم کرتے وقت ’’خداحافظ‘‘ یا ’’اللہ حافظ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ایک دعا ہے جس کے معنی ہے کہ اللہ آپ کی حفاظت کرے. اس کو استعمال کرنے گنجائش ہے. البتہ رخصتی کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کی تعلیم دی ہے. سلام کے ساتھ اس کو کہنا چاہئے.
٭موبائل فون سے ایک گناہ ِ کبیرہ لوگوں کی گفتگو کی جاسوسی ہے، لوگ دوسری طرف سے آنے والی آواز کو اپنے موبائل میں محفوظ کرلیتے ہیں جسے بعد میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں یا وہاں موجود لوگوں کو سنانے کے لئے لاؤڈ اسپیکرکھول دیتے ہیں، جس کا سامنے والے کوعلم نہیں ہوتا، اگر وہ بات ان کو پتہ چل جائے تو ناراض ہوجائے یا سنبھل کر بات کرے، عام حالات میں بلا اجازت موبائل فون میں کسی کی گفتگو محفوظ کرنا یا ت دوسروں کو سنانا جائز نہیں، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجلسوں میں کہی گئی بات امانت ہے، ریکارڈ کرنے کی وجہ سے یہ امانت محفوظ نہ رہے گی۔(تلخیص از: موبائل فون کا استعمال اور اس کے چند شرعی احکام 18,12)
اب آئیے موبائل فون سے متعلق ضروری اور اہم مسائل کو ملاحظہ فرمائیں، اس وقت چوں کہ موبائل فون کا رواج ہی عام ہوگیا اور لینڈ لائن فون بہت انفرادی اور گھروں میں بہت کم اور دفتروں وغیرہ پر زیادہ استعمال ہونے لگے ہیں اس لئے ہم نے موبائل فون کا عنوان رکھا ہے۔ آداب تو دونوں کو ایک جیسے ہی ہیں لیکن موبائل فون کے مسائل اس کی جدت اور مختلف سہولیات کی وجہ سے کچھ اضافہ ہے.
ہیلو کے ذریعہ بات کا آغاز کرنا:
لفظ ِ ہیلو کے بجائے ٹیلیفون پر ’’السلام علیکم‘‘ کے ذریعہ گفتگو کا آغاز کرنا چاہئے ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کلام سے پہلے سلام کی تعلیم فرمائی اس لئے ٹیلیفون پر ’’السلام علیکم‘‘ کے بجائے ہیلو سے کلام کا آغاز کرنا خلافِ سنت ہے. (المسائل المہمۃ: 1/173)
گانے اور میوزک والی رنگ اور کالر ٹون :
آج کل موبائل فون کی رنگ ٹون اور اسی طرح کالر ٹون میں کوئی گانا یا گانے کی میوزک فیڈ کیا جاتا ہے. جبکہ گانا یا میوزک کا رنگ ٹون میں رکھنا جائز نہیں ہے. کیوں کہ اسلام میں گانے سننے اور میوزک کے استعمال کرنے سے سخت منع کیا گیا ہے، اور حتی المقدور بچنے کی تعلیم دی ہے۔
"واستماع ضرب الدف المزمار وغیر ذلک حرام ،وان سمع بغتۃ یکون معذورا ویجب ان یجتھدان لایسمع"
(شامی: 9/566 الریاض)
رنگ ٹون میں اذان یا آیت ِ قرآنی اور نعت رکھنا:
رنگ ٹون کا مقصد اس بات کی اطلاع دینا ہے کہ کوئی آپ سے بات کرنے کامتمنی ہے. گویا دروازہ پر دستک دینے کے حکم میں ہے. اس اطلاعی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قرآن پاک کی آیات یا اذان کی آواز کو استعمال کرنا بے محل ہے بلکہ ایک درجہ میں اس سے ان مقدس کلمات کی توہین بھی ہوتی ہے. اسی بناء پر فقہاء نے اس طرح کے مقاصد کے لئے کلماتِ ذکر کا استعمال ناجائز قرار دیا ہے؛ لہذا موبائل کی رنگ ٹون میں اذان، آیات اور نعت وغیرہ فیڈ کرنا درست نہیں ہے، بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی استنجاء خانہ میں موبائل لے کر جاتا ہے اور وہیں کال آنے پر قرآن کی آیت کی آواز شروع ہوجاتی ہے، اس سے اہانت کا پہلو بھی نکلتا ہے، اس سے بہرحال بچنا چاہئے۔
"یکرہ ان یقرا القراٰن فی الحمام لانہ موضع نجاسات ولا یقرا فی بیت الخلائ۔۔۔لا یقرا القراٰن جھرا عند المشتغلین بالاعمال ومن حرمۃ القراٰن  ان لایقرای فی الاسواق وفی موضع اللغو"
(فتاوی ھندیہ:5/391 بیروت، کتاب النوازل: 17/87)
بیلنس لون لینا:
بسا اوقات کسی شخص کے موبائل فون کا بیلنس ختم ہوجاتا ہے ،تو وہ کمپنی کی طرف سے بیلنس لون منگواتا ہے،جس کی کٹوتی میں کمپنی کچھ پیسے بطور ٹیکس چارج کرتی ہے. شرعا ان زائد پیسوں کو سود نہیں کہا جائے گا، کیوں کہ یہ حقیقت میں ادھار کی وجہ سے کال ریٹ بڑھانا ہے جو بلاشبہ جائز ہے۔ (المسائل المہمۃ: 7/201)
موبائل کے ایس ایم ایس سے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ڈیلیٹ کرنا:
موبائل کی حیثیت ایک آئینہ کے مانند ہے، جس میں عکس ظاہر ہوتا ہے، اور کسی چیز کو مٹانے سے یا آئینہ کو سامنے ہٹانے سے اصل چیز کا مٹانا نہیں پایا جاتا ہے؛ لہذا قرآنی آیات، احادیث شریفہ اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء پر مشتمل میسج کو ڈیلیٹ کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ (کتاب النوازل: 17/114)
نماز میں فون بند کرنا:
اگر کوئی نماز سے پہلے موبائل بند کرنا بھول گیا تھا اور نماز کے دوران موبائل بجنا شروع ہوجائے تو صرف ایک ہاتھ کی مدد سے اس کو بند کردے،دونوں ہاتھ کو استعمال نہ کریں، ورنہ عمل کثیر کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی۔ بعض لوگ دوران نماز موبائل میں کال آنے کی صورت میں موبائل نکال کر دیکھتے ہیں کہ کس کی کال ہے، پھر رکھ دیتے ہیں. یہ صورت صحیح نہیں ہے. (نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا: 4/158)
کیمرہ والا موبائل خریدنا:
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کیمرہ والا موبائل نہیں خریدنا چاہئے، واضح رہے کہ کیمرہ والے موبائل کو خریدنا مطلقا ناجائز نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا ناجائز استعمال ہی ناجائز ہوگا. (کتاب النوازل: 17/99)
اگر غلط ریچارج ہوجائے:
اگر کوئی شخص اپنے موبائل میں ری چارج کررہا تھا ،لیکن غلط نمبر ڈائل کرنے کی وجہ سے کسی اور کے موبائل میں ری چارج ہوگیا ،تو اسے اس شخص سے جس شخص کے موبائل میں ری چارج گیا ہے ،اپنی ری شارج کردہ رقم کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا ،اور شخصِ آخر کے لئے اس ری چارج کا استعمال حلال نہیں ہوگا۔ (المسائل المہمۃ: 1/177)
اجنبیہ سے مسیج کرنا:
موبائل پر کسی اجنبیہ سے مسیج کے ذریعہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے آمنے سامنے گفتگو کرنا. اس لئے یہ بھی ناجائز ہے۔ (المسائل المہمۃ: 1/175)
سجدہ ٔ تلاوت کا حکم:
ریکارڈ میں آیت ِ سجدہ سننے سے سجدہ ٔ تلاوت واجب نہیں ہوتا ،موبائل پر اگر براہ ِ راست تلاوت کرنے والے کی آواز سن رہا ہے تو آیت ِ سجدہ سننے سے سجدہ واجب ہوجائے گا ورنہ ٹیپ ریکارڈ کا حکم ہے. (فتاوی دارالعلوم دیوبند آن لائن)
موبائل میں بلاوضو قرآن کو چھونا:
موبائل میں قرآن کریم ہو مگر اسکرین پر اس کی آیتیں نظر نہ آرہی ہوں تو موبائل کو بلاوضو چھوسکتے ہیں اور اگر اسکرین پر قرآن کریم کی آیتیں نظر آرہی ہوں تو ایسی صورت میں اسکرین پر بلاوضو ہاتھ لگانا ناجائز ہے، البتہ موبائل کے دوسرے حصوں پر ہاتھ لگانے کی گنجائش ہے، لیکن احتیاط بہتر ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند نمبر 1438)
موبائل پرقرآن پڑھنا:
بغیر وضو موبائل کو ہاتھ میں لے کر تلاوت کرسکتے ہیں؛ البتہ اسکرین جس پر قرآنی آیات ظاہر ہوں ان کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ (فتوی نمبر 1437)
مسجد میں موبائل چارج کرنا:
مقیم شخص کا مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا درست نہیں ہے. اگر چارج کیا تو عوض اداکرنا ضروری ہے۔مسافر مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کیا تو تو کچھ رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کردے کیوں کہ یہ نماز سے زائد ایک ضرورت پوری کی گئی ہے. اس کا معاوضہ مسجد میں جمع کرنا چاہئے. (کتاب النوازل: 17/101)
آخری بات:
یہ چند ضروری اور اہم مسائل ذکر کئے گئے ہیں جن کا جاننا ضروری ہے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہونا بھی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موبائل جو ہماری ایک ضرورت ہے اس کا استعمال بے جا اور غیرضروری نہیں ہونا چاہئے اور بالخصوص مساجد میں داخل ہوتے وقت بند کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے ورنہ اس کی وجہ سے خود اپنی نماز بھی خراب ہوگی اور دوسری کی نماز میں بھی خلل آئے گا اور موبائل پر اپنے قیمتی اوقات کو ضائع ہونے سے بھی بچانا چاہئے۔
(بقلم: مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری) ( S_A_Sagar# )

بوڑھی راہباؤں کے پیشاب سے بنی دوا، جس سے سینکڑوں بانجھ افراد نے اولاد پائی

 بوڑھی 

راہباؤں کے پیشاب سے بنی دوا، 

جس سے سینکڑوں بانجھ افراد نے اولاد پائی

کہا جاتا ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ سال میں دنیا بھر میں لاکھوں گودیں اٹلی کی بوڑھی راہباؤں کے باعث ہری ہو چکی ہیں، ان کی دعا سے، ان کے پیشاب سے بننے والی دوا سے۔ دعا تو راہبائیں کرتی ہی ہیں لیکن دوا کی کہانی کیا ہے، جاننے کے لیے چلتے ہیں 1940 کی دہائی میں۔ ان برسوں میں اطالوی سائنس دان پایرو ڈونینی نے یہ دریافت کیا کہ مختصر طور پر ’ایل ایچ‘ اور ’ایف ایس ایچ‘ کہلانے والے دو ہارمون خواتین کی بیضہ دانی یا اووری سے انڈوں کو نکلنے اور یوں ان کے حاملہ ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ سنہ 1940 کی دہائی میں انھوں نے ان ہی دو ہارمونز کے لئے سینکڑوں خواتین کے پیشاب کی جانچ کی اور جانا کہ یہ ایسی خواتین میں زیادہ تھے جن کی ماہواری رُک چکی تھی۔

ماہواری رکنے یا مینوپاز کے بعد، جب بیضہ دانی انڈے پیدا کرنا بند کردیتی ہے، تو ایل ایچ اور ایف ایس ایچ بڑھ جاتے ہیں کیونکہ جسم ان کی پیداوار کو متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے ڈونینی نے یہ طے کیا کہ ایسی خواتین سے ان ہارمونز کا حصول کہ جن کی ماہواری رک چکی ہو، بانجھ خواتین کے لئے مددگار ہوسکتا ہے۔

اس تولیدی حقیقت کا پتہ کیسے چلا؟

ڈونینی نے پیشاب کے کچھ ایسے نمونوں سے ہارمونز الگ کر کے بنائی ترکیب کو ’پرگونال‘ کا نام دیا۔ اطالوی زبان میں اس کا مطلب ہے ’گوناڈز میں سے‘ (گوناڈز بیضہ دانی اور خصیے ہیں)۔

ڈونینی کے پاس دوا کا نسخہ تو تھا اور انھیں یقین بھی تھا کہ پرگونال حمل میں مددگار ہوگی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے بڑی مقدار میں تیار کہاں کیا جائے اور ہارمونز الگ کرنے کے لئے درکار پیشاب کی اتنی زیادہ مقدار کہاں سے حاصل کی جائے۔ اسی الجھن میں کم و بیش دس سال گزرگئے۔ اولیور سٹیلے کی تحقیق ہے کہ ایک دہائی بعد بانجھ پن پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے ڈونینی کے کام کے بارے میں سنا۔ سنہ 1996 میں شائع ہونے والی کتاب ’اے ٹیل آف ٹو ہارمونز‘ کے مطابق اس دریافت کا پتہ دیتا ان کا مقالہ اس پیشرفت تک گمنامی ہی میں تھا۔ سٹیلے نے لکھا ہے کہ ’ڈونینی سے جنیوا میں کام کرنے والے میڈیکل کے طالب علم برونو لونن فیلڈ نے رابطہ کیا جو حمل کو متحرک کرنے کے لئے انسانی ہارمونز کے استعمال پر تحقیق کر رہے تھے۔ آسٹریا کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھنے والے لونن فیلڈ، ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی آبادی بہت کم ہونے کے بعد ان میں شرح پیدائش بڑھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

’لونن فیلڈ نے کلینیکل ٹرائل کے لئے کافی مقدار میں دوا تیار کرنے کے لئے دواساز کمپنی سیرونو کے ایگزیکٹوز کے سامنے اپنا کیس پیش کیا لیکن اس دوا کے لئے مینوپاز والی خواتین سے ہزاروں گیلن پیشاب کی ضرورت تھی۔ نوجوان لونن فیلڈ دوا کے لئے لابی کرنے سیرونو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ملے۔‘

لونن فیلڈ نے بعد میں اسرائیلی اخبار ہارٹز کو بتایا کہ ’میں ان کے سامنے ایک بچہ ہی تو تھا۔ میں نے اس دریافت کے بارے میں بات کرنے کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز سے درخواست کی کہ وہ روزانہ اپنا پیشاب جمع کرنے پر راضی مینوپاز والی چار سوخواتین کی تلاش میں مدد کریں۔ میں نے اپنی بات ختم کی، سب نے شائستگی سے تالیاں بجائیں اور پھر بورڈ کے چیئرمین کھڑے ہوئے اور کہا کہ بہت اچھا، لیکن ہم دوا کی فیکٹری ہیں، نہ کہ پیشاب کی فیکٹری۔ میں روتے ہوئے باہر بھاگا۔‘

تاہم سیرونوکے ایک ایگزیکٹو نے انھیں اطالوی اشرافیہ اور پوپ پیوس کے بھتیجے گیولیو پیسیلی سے متعارف کرایا۔ پیسلی سیرونو بورڈ کے رکن بھی تھے۔ پیسیلی نے لونن فیلڈ کے کام میں دلچسپی لی اور بہت سی ملاقاتوں کے بعد، لونن فیلڈ کے ساتھ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بات کرنے پہنچے۔

’پیسیلی نے بالکل وہی تقریر کی جو میں نے 10 دن پہلےکی تھی لیکن آخر میں انھوں نے ایک جملے کا اضافہ کیا: میرے چچا پوپ پیوس نے ہماری مدد کرتے ہوئے اولڈ ایج ہومز میں راہباؤں کو اس مقدس مقصد کے لئے روزانہ پیشاب جمع کرنے کے لئے کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً اس جملے نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو فوری طور پر پیسے اور وسائل کے ساتھ ہمارے تحقیقی منصوبے کی مدد کے لئے قائل کیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ویٹیکن کے پاس سیرونو کے 25 فیصد حصص ہیں۔‘

دس راہبائیں، دس دن ،ایک علاج:

جلد ہی ٹینکر ٹرک اٹلی بھر میں کیتھولک ریٹائرمنٹ ہومز سے سیکڑوں راہباؤں کا پیشاب روم میں سیرونو کے ہیڈ کوارٹر لے جانے لگے۔ ایک علاج کے لئے کافی پیشاب پیدا کرنے میں تقریباً دس راہباؤں کو دس دن لگتے۔

سنہ 1962 میں تل ابیب میں پرگونال کے علاج سے ایک خاتون نے ایک بچی کو جنم دیا۔ پرگونل کی خوراک پٹھوں میں ٹیکے کے ذریعہ دی جاتی۔ یہ اس علاج سے پیدا ہونے والا پہلا بچہ تھا۔ دو سال کے اندر اندر، پرگونال کےعلاج سے مزید 20 حمل ٹھہرے۔ یکم اکتوبر 1964 کو نیویارک ٹائمز کی خبر تھی کہ پرگونال کی امریکی تقسیم کار لیبارٹریز نے ایک انتباہ جاری کیا ہے کہ پرگونل صرف تحقیقی استعمال کے لئے ہے۔ اسی خبر میں تھا کہ کوئینز اور سویڈن میں دوا کے استعمال کے بعد چار چار بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ستر کی دہائی کے آغاز سے امریکی خواتین بھی باقاعدگی سے یہ دوا استعمال کرنے لگیں۔ ٹائمز ہی کی ایک اور خبر کے مطابق کچھ ہی عرصے میں امریکہ میں سالانہ تقریباً دو لاکھ خواتین حمل کی دوا لے رہی تھیں۔ ان میں سے تقریباً 9,000 ایسی تھیں جن کا علاج پرگونال سے ہورہا تھا، جس پر ڈاکٹروں کی فیس اور کلینک کے اخراجات سمیت تقریباً 10,000 ڈالر خرچ ہوتے تھے۔

مردوں کے لئے دوا کی منظوری:

ٹائمز ہی کی 21 جنوری 1982 کی خبر تھی کہ بانجھ خواتین کی مدد کے لئے 10 سال سے استعمال ہونے والی ہارمونل دوا پرگونال کو گذشتہ روز فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے زرخیزی کے مسائل والے مردوں کے استعمال کے لیے بھی منظور کرلیا ہے۔ 'اس حالت میں مبتلا مردوں میں پٹیوٹری غدود یا گلینڈ کے دو ضروری ہارمونز، ایل ایچ یا ایف ایس ایچ، یا دونوں میں سے کسی ایک کے اخراج میں ناکامی سے اسپرم کی پیداوار رک جاتی ہے۔‘

’فارماسیوٹیکل ریسرچ فار اسیرونو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رسل ڈبلیو پیلہم کا اندازہ ہے کہ 10,000 سے 50,000 مرد اس دوا کے علاج کے امیدوار ہیں۔‘اخبار نے لکھا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمینٹ کے سینیئر تحقیق کار ڈاکٹر رچرڈ شیرنس نے 12 سال تک مردوں پر پرگونل کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ مریضوں میں چھ سے نو ماہ کے اندر اس کا اثر ہوتا ہے جبکہ کچھ کو کئی سال تک علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

’اٹھارہ دیگر ممالک پہلے ہی مردوں کے لئے پرگونل کے استعمال کی منظوری دے چکے ہیں اور اسے کم از کم سات مزید ممالک میں مرد استعمال کرتے ہیں۔‘ ڈاکٹر پیلہم کے مطابق مردوں کے علاج سے زیادہ تعداد میں بچوں کی پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا اور نہ ہی مضر اثرات سامنے آئے۔ سنہ 1980 کی دہائی کے وسط تک مانگ اتنی بڑھ گئی کہ سیرونو کو دوا کی کافی مقدار بنانے کے لئے ایک دن میں 30،000 لیٹر پیشاب کی ضرورت پڑتی۔

ایک بار میں کئی بچے:

پرگونال نے ایک وقت میں ایک سے زیادہ بچوں کی پیدائش کے لئے بھی شہرت پائی۔ مئی 1985 میں کیلیفورنیا میں ایک جوڑے کے ہاں سات بچے پیدا ہوئے تو انھوں نے فرٹیلٹی کلینک کے خلاف یہ کہہ کر مقدمہ دائر کر دیا کہ انھوں نے دوا کے استعمال کو صحیح مانیٹر نہیں کیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بچوں کے والد سیموئیل فرسٹاسی نے کہا کہ ’ہم کوئی ریکارڈ بنانے نہیں نکلے تھے۔‘ پھر تحقیق اور دوا کا استعمال بہتر ہونے سے ایک سے زیادہ پیدائشوں میں کمی آتی گئی۔ ٹائمز سے بات کرتے ہوئے سیرونو لیبارٹریز کے صدر ڈاکٹر جیرالڈ ای سٹائلز کا کہنا تھا کہ ’پرگونال لینے والی خواتین میں سے 80 فیصد کے ہاں ایک ایک بچہ پیدا ہوا اور 15 فیصد کے ہاں جڑواں بچے۔‘ سنہ 1991 میں اسی جوڑے کے ہاں اسی دوا کی مدد سے جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ پیدائش کا اعلان ان کے وکیل براؤن گرین نے کیا۔ گرین وہی وکیل ہیں جنھوں نے سات بچوں کی پیدائش پر اس جوڑے کا 2.7 ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ لڑا اور جیتا تھا تاہم سنہ 1990 میں جولائی میں تصفیہ کے اعلان کے فوراً بعد یہ معلوم ہوا کہ پیٹی فرسٹاسی نے دوبارہ حاملہ ہونے کے لیے پرگونال کا استعمال کیا۔ چھ سال پہلے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار لڑکوں اور تین لڑکیوں میں صرف تین بچے ہی زندہ بچ سکے تھے اور ہر ایک کو طبی اور نشوونما کے مسائل کا سامنا تھا۔ لیکن گرین نے جڑواں بچوں کے بارے میں بتایا کہ ’وہ صحت مند ہیں۔ انھوں نے لڑکے کا نام بھی میرے نام پر رکھا ہے، جو اعزاز کی بات ہے۔‘ دوا کی ضرورت کے مقابلے میں پیشاب کی مقدار کے ناکافی ہونے پر کمپنی نے لیبارٹری میں ہارمونز بنانا شروع کر دیے۔ اس کے نتیجے میں تیار ہونے والا علاج، گونال-ایف کے نام سے پہلی بار 1995 میں منظور کیا گیا۔ سیرونو کو مرک نے سنہ 2007 میں خرید لیا۔ یہ آج بھی اس دوا کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے تاہم چونکہ ہارمونز اب لیبارٹری میں تیار کرلئے جاتے ہیں اس لیے دوا بنانے کے لیے بوڑھی راہباؤں کے پیشاب کی ضرورت نہیں رہی۔

(مصنف: وقار مصطفیٰ. عہدہ, صحافی، محقق. 14 جون 2023) ( #ایس_اے_ساگر )



Tuesday, 13 June 2023

قرآن و حدیث سے فرائض غسل کی دلیل

قرآن و حدیث سے فرائض غسل کی دلیل 

-------------------------------
--------------------------------
سوال: غسل میں کتنے فرائض ہیں مع دلیل ارسال فرمائیں اور دلیل کی تھوڑی وضاحت فرمائیں؟ کیوں کہ قرآن سے ظاہر ہوتا ہے فقط ایک فرض.

محمد مدثر مونگیری
الجواب وباللہ التوفیق:
و فرض الغسل، المضمضة، والاستنشاق، وغسل سائرالبدن) وعندالشافعی ھماسنتان فیہ،لقولہ علیہ السلام:عشرمن الفطرة،ای من السنةوذکرمنھا المضمضة، و الاستنشاق، و لھذا کانا سنتین فی الوضوئ۔ (الھدایہ مع الدرایہ صفحہ 30)
حدیث میں ہے عن علی قال ان رسول اللہ ۖ قال من ترک موضع شعرہ من جنابة لم یغسلھافعل بھا کذا کذا من النار(ابو داؤد شریف، باب فی الغسل من الجنابة ص ٣٨ نمبر ٢٤٩)

معلوم ہوا کہ ایک بال برابر بھی غسل میں خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا اسی لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ عن ابی ھریرة ان النبی ۖ جعل المضمضة والاستنشاق للجنب ثلاثا فریضة (سنن دار قطنی، باب ما روی فی مضمضة والاستنشاق فی غسل الجنابة ج اول ص ١٢١ نمبر ٤٠٣) 

اس حدیث میں ہے کہ جنبی پر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے.
٢: ولنا قولہ تعالیٰ و ان کنتم جنباً فاطھروا امر بالاطھار وھو تطھیرجمیع البدن الا ان ما تعذر ایصال الماء الیہ خارج ٣ بخلاف الوضوء لان الواجب فیہ غسل الوجہ، و المواجھة فیھما منعدمة
٤ والمراد بما روی حالة الحدث بدلیل قولہ علیہ السلام انھما فرضان فی الجنابة سنتان فی الوضوئ۔

ترجمہ: ٢ اور ہماری دلیل اللہ تعالی کا قول ہے:

وان کنتم جنباً فاطّھروا۔ (آیت ٦ سورة المائدة ٥) میں خوب خوب پاک کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ اسی صور ت میں ہو سکتا ہے کہ تمام بدن کو پاک کرے مگر جہاں پانی پہنچانا مشکل ہو وہ جگہ اس سے خارج ہے.

تشریح: آیت میں، فاطھّروا، تشدید کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے کہ خو ب خوب پاک کرو یعنی جہاں جہاں انگلی پہنچ سکتی ہووہاں تک دھوؤ اور ناک اور منہ میں آسانی سے پانی جاسکتا ہے اسلئے ان دونوں کوبھی ا یت کی بناء پر دھونا فرض ہوگا۔ البتہ جہاں پانی پہنچانا مشکل ہے جیسے ناک کے نرمے سے بھی اوپر، یا کان کے سوراخ کے اندرونی حصے میں تو وہاں پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تکلیف مالا یطاق ہے. اور آیت میں ہے.

"لا یکلف اللہ نفسا ً الا وسعھا" (آیت ٢٨٦ سورة البقرة ٢) 

کہ وسعت سے زیادہ اللہ تکلیف نہیں دیتے۔ احناف کے نزدیک نام اور منہ ظاہر بدن میں شامل ہے لہذا "فاطھروا" کے عموم میں وہ بھی داخل ہونگے اور ان کا دھونا بھی غسل جنابت میں فرض ہوگا۔اس کی تائید مختلف حدیثوں سے بھی ہوتی ہے۔ یہی مذھب مالکیہ اور حنابلہ کا بھی ہے۔ صرف سیدنا الامام الشافعی کا اس میں اختلاف یے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی ( #ایس_اے_ساگر )

http://saagartimes.blogspot.com/2023/06/blog-post_13.html