Thursday, 29 December 2022

متن کے آس پاس

مفتی اسکیم! 
"باتیں دل کی" سے پہلے "من کی بات" 
 اول: انگلیوں سے ورق پر جمع کیا ہوا خزانہ انمول ہوتا ہے. اس کی کیا قیمت متعین کی جائے! میں حد سے حد طباعت کے صرفے کو نگاہ میں رکھتا ہوں. پیش نظر کتاب کی طباعت میں فقط 140 روپے کا صرفہ آیا ہے. اس لئے خرید کر پڑھنے کے شوقین واصولین یہ کتاب( مع ڈاک خرچ) صرف200 میں حاصل کرسکتے ہیں.
دوم: بدست پبلشر دہلی میں کتاب  حاصل کرنے والے احباب فقط 140 روپے ادا کریں.
سوم: میرے پاس "مفتی اسکیم" بھی ہے. اس اسکیم سے مستفید ہونے والے مجھے فون فرمالیں کہ آخر انھیں مفت کتابیں کیوں دی جائیں؟
ہر ایک کو نہ سہی، چند ایک کو ضرور ان شآءاللہ  مفت کتابیں بھیجی جائیں گی.
ایک المیہ یہ ہے کہ مفت کتاب نہ دینے کا نعرہ بلند کرنے والے بھی "غیر قاری عہدے داروں" کو فری کتاب پہنچاتے ہیں، اور وہ فقط ہم عمروں سے "قیمتی نگاہ" ٹکائے بیٹھے رہتے ہیں. حالاں کہ انھیں عہدے داروں سے کم از کم "سہ چند" قیمت وصول کرنی چاہیے۔
میں تحفتاً بھی کتاب بھیجنے میں یقین رکھتا ہوں؛ عہدے دار اور غیرعہدے دار دونوں کو!
آج سرکاری اداروں سے ہر مصنف کو اشاعتِ کتب کے لئے مالی تعاون مل ہی جاتا ہے تو تحفتاً کتاب دینے میں بھی شاید کوئی حرج نہیں! 
چہارم: کوئی ایک نسخہ حاصل کرکے کئی ایک نسخوں کی رقم ادا کرنا چاہے تو "دامن مصنف" حاضر ہے.
پنجم: بک سیلر صرف 70 روپے میں کتاب حاصل کرسکتے ہیں.
رنگ برنگ کے خریداروں کے لئے اکاؤنٹ نمبر حاضر ہے
31533922349
ABDUS SAMAD
SBI, JNU, New Delhi
....
9810318692
صرف گوگل پے، سن رہے ہیں نا آپ، صرف گوگل پے کے لیے یہ نمبر ہے. فون پے یا بذریعہ پے ٹی ایم بھیجی گئی رقم سے ہمارا کویی لینا دینا نہیں.
واٹس ایپ نمبر 8287287093 
جزاک اللہ

Tuesday, 20 December 2022

پسند کی شادی پر حدیث

سوال:
"پسند کی شادی"
کے لئے حدیث کا حوالہ مطلوب ہے!
-------------------------------
--------------------------------
بیٹی پسند کی شادی کا کہے تو اسے بے حیا اور برا مت کہو. پسند کی شادی بیٹیوں کا حق ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت ہے. براہ مہربانی اس حدیث کا حوالہ عنایت فرمائیں.  
الجواب و باللہ التوفیق:
نکاح کرنے اور نہ کرنے کا حق عاقلہ بالغہ لڑکی کی اپنی مرضی واپنا اختیار ہے، وہ مالی حقوق میں حق تصرف کی طرح اپنی جان میں بھی تصرف کی خود مالکہ ہے؛ چنانچہ ہر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے نکاح کا ایجاب وقبول شرعی گواہوں کی موجودگی میں خود سے اور دوسرے لڑکے یا لڑکی کے نکاح کا ایجاب وقبول وکیل کی حیثیت سے کرسکتی ہے اور بغیر ولی کے اس کا کیا ہوا نکاح درست اور صحیح ہے؛ بشرطیکہ جس لڑکے سے نکاح کرے وہ خاندانی ،نسبی اور دینی اعتبار سے اس کے مساوی وہم پلہ (کفو) ہو۔ 
صحت نکاح کے لئے اولیاء یعنی باپ دادا بھائی وغیرہ سے اجازت لینا  سماجی و معاشرتی ضرورت ہے۔شرعی وقانونی ضرورت نہیں کہ صحت نکاح کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوجائے.
قرآن کریم نے اس بابت اسے حق خودمختاری دی ہے:
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ."
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کرلے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں. بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِالٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ ﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔
البقره، 2: 230
اور فرمایا:
"فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ."
جب وہ (طلاق یافتہ عورتیں) شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو.
البقره، 2: 232
ان آیتوں میں نکاح کرنے کا اختیار لڑکی کو دیا گیا ہے نہ کہ اس کے ولی کو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرفوع حدیث میں یہ حق واختیار عاقلہ بالغہ لڑکی کو دیا ہے۔ اس کے ولی کو نہیں! حضرت عبداللہ بن عباس حدیث مرفوع نقل کرتے ہیں: 
"حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ قُلْتُ لِمَالِكٍ حَدَّثَكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا قَالَ نَعَمْ۔" (صحيح مسلم. 1421۔ كتاب النكاح)
بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
لا تُنْكَحُ الأيِّمُ حتَّى تُسْتَأْمَرَ، ولا تُنْكَحُ البِكْرُ حتَّى تُسْتَأْذَنَ قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، وكيفَ إذْنُها؟ قالَ: أنْ تَسْكُتَ. (صحيح البخاري: 5136).
(ثیبہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے، فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے)۔
بلکہ ایک دفعہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا تو آپ نے اس کا نکاح فسخ کردیا:
عَنْ خَنْسَاءَ بنْتِ خِذَامٍ الأنْصَارِيَّةِ: أنَّ أبَاهَا زَوَّجَهَا وهي ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذلكَ فأتَتِ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهَا. (صحيح البخاري: 6945).
(حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کردیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے میرا نکاح فسخ کردیا)۔
شادی کے سلسلے میں اسلام نے لڑکی کی پسند کا بھی لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے، لیکن اسے بالکل شتر بے مہار بھی نہیں چھوڑدیا گیا کہ گھر سے بھاگ کر غیرکفو میں نکاح رچاتی پھرے. لڑکی کو اپنے اولیاء کو اپنے نکاح کی بابت راضی کرلینا بہتر اور نکاح کے دیرپا رہنے میں ممدومعاون  ہے۔ یہ بڑی شقاوت وبدبختی ہے کہ زندگی بھر پوسنے پالنے اور پرورش کرنے والے والدین کی رضامندی اور ان کے اعتماد کو شادی ونکاح کے معاملے میں اہمیت نہ دی جائے اور ان کے جذبات وامنگوں کا احساس نہ کیا جائے. اور اپنی پسند سے اس طور شادی کرلی جائے کہ والدین کو پتہ تک نہ چلے۔ 
اسی حقیقت کو اور اولیاء سے استصواب ومشورے کی اہمیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل. فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجروا فالسلطان ولی من لاولی له.
 أخرجه أبوداؤد (2083)، والترمذي (1125)، وابن ماجه (1789)،
’’جوعورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کرلی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘
حدیث مذکور میں بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کو باطل‘ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے، مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی صحیح ہوجاتا ہے۔ اسی لئے فرمایا: اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرکے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی نہ نکاح ہوتا نہ حق مہر لازم ہوتا۔
حضرت امام مالک، امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا ہے. چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ نکاح اسی وقت صحیح ہوتا ہے جب کہ ولی عقد کرے۔ عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوتا عورت خواہ اصیلہ ہو یا وکیلہ ہو۔ جبکہ حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق یا تو زجر وتوبیخ سے ہے یا نابالغہ اور غیرعاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا. خلاصہ یہ کہ عاقلہ بالغہ اپنے کفو میں شرعی گواہان کی موجودگی میں ازخود نکاح کرسکتی ہے۔ والدین کی اجازت و رضامندی قانونا ضروری نہیں، ہاں سماجی ومعاشرتی اعتبار سے یہ ضروری ہے۔
شکیل منصور القاسمی (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/12/blog-post_20.html?m=1

Thursday, 8 December 2022

کیا فرض منصبی کی ادائیگی کیلئے دعوت و تبلیغ انتہائی ضروری ہے؟

کیا فرض منصبی کی ادائیگی کیلئے دعوت و تبلیغ انتہائی ضروری ہے؟
(بقلم: مولانا محمد ضمیر رشیدی)
(وارث پورہ، کامٹی، ضلع ناگپور )           
بکری سے انسان کو دودھ ملتا ہے؛ اس لئے انسان بکری کی دیکھ بھال کرتا ہے،دھوپ بارش سے اس کے بچاؤ کا انتظام کرتا ہے، بیمار ہونے پر اس کا علاج کرتا ہے۔ کتے سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ الغرض اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے؛ مگر جب یہی بکری اس کے کام کی نہیں رہ جاتی، تب اسے قصائی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ قصہ مختصر کہ جب تک بکری اپنے مقصد کو پورا کررہی تھی تب تک اس کا مقام اس کے مالک کے پاس تھا؛ مگر جونہی وہ اپنے مقصد سے دور ہو گئی، اس کا اپنا وجود ہی ختم ہوگیا۔یہی حال باقی ساری چیزوں کا ہے کہ جب تک وہ اپنے مقصد کو پورا کرتی ہیں، اپنا وجود باقی رکھتی ہیں۔ٹھیک اسی طرح کائنات اور انسان کے پیدا کرنے کا بھی ایک مقصد ہے۔قرآن مجید کی رو سے ساری مخلوقات کو انسان کے لیے بنایا گیا ہے؛ جبکہ انسان کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔مزید یہ کہ امتِ محمدیہ چونکہ آخری نبی کی امت ہے؛ لہٰذا اس پر ایک اضافی ذمہ داری امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر اور شہادت علی الناس یعنی غیر مسلم اقوام تک دعوت حق کو پہنچانے کی بھی ہے؛جب تک امت مسلمہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کر رہی تھی ،تب تک یہ عزت کی چوٹیوں پر تھی؛ مگر جب سے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے دوری پیدا ہوئی ہے، تب سے ذلت و رسوائی ا س کا مقدر ہے۔کہیں اس کی عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں، کہیں ان کی عصمت و عفت داؤ ں پر لگی ہوئی ہے، کہیں انکے ملک و مال پر آفت ہے، تو کہیں ان کی اسلامی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وغیرہ۔

                اگرچہ یہ ایک ٹھوس اور نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں اسلام سے سلامتی آئے گی اور ایمان سے امن آئے گا؛ مگر اپنے فرضِ منصبی کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے اسلام کے ماننے والوں کی سلامتی ہی ہر جگہ خطرہ میں ہے اور ایمان والوں کو ہی کہیں امن نصیب نہیں ہو رہا ہے؛اس لیے ضروری ہے کہ اپنے فرضِ منصبی کی طرف رجوع کیا جائے؛ تاکہ ذلت و رسوائی کے غار سے نکلا جاسکے ۔

                اگرچہ اب تک بے شمار نئے نئے طریقے اس امت کو اس کے کھوئے ہوئے مقام تک پہنچانے کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں؛ مگر ایسی تمام کوششیں تباہیوں اور بربادیوں میں مزید اضافہ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا سلسلہ بدستورہنوز جاری ہے؛مگر افسوس صد افسوس! کہ کسی روشن خیال کی نظر بھی اس طرف نہیں جاتی کہ حقیقی طبیب و شفیق مربی حضرت محمد نے اس مرض کی کیا دوا تجویز کی ہے۔ در اصل اب تک ہمارے مرض کی تشخیص ہی صحیح طور سے نہیں ہو پائی ہے۔جب قرآن حکیم کی تلاوت کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کو ایک خاص منصبی ذمہ داری کے ساتھ نکالا گیا ہے اوراس ذمہ داری کی ادائیگی کی صورت میں ہی اس امت کو خیرالامم کا لقب دیا گیا ہے؛چنانچہ اس امت کے منصب کو قرآن مجید میں اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔(سورہ آل عمران۔آیت نمبر:۱۱۰)

                اے امت محمدیہ! تم افضل امت ہو تم کو لوگوں کے نفع کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم لوگوں کو بھلی باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے ان کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اس آیت شریفہ کی رو سے امتِ محمدیہ کو خیرِ امت کا درجہ دیا گیا ہے، نیز ساتھ ہی اس کی علت یہ بیان کی گئی کہ معروف کا حکم کرتے ہو اور برائی سے رو کتے ہو۔یہ ہمارا فرضِ منصبی ہے اور خصوصی تمغہٴ امتیاز بھی! خصوصی تمغہٴ امتیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کو اسی شان و شوکت اور خصوصی اہتما م کے ساتھ کیا جائے جس کا یہ متقاضی ہے، ورنہ کہیں چلتے پھرتے تبلیغ و اشاعت، تعلیم و تربیت ، مذاکرہ و مشورہ ، وعظ و نصیحت، تقریر و تحریر یا تھوڑا سا غور و فکر کر لینا کافی نہیں۔دراصل امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کوئی سادہ ۱ ور معمولی کام نہیں. یہ کام گہری بصیرت اور ٹھوس یقین کے ساتھ کیے جانے کاطالب ہے۔ ورنہ جس داعی کے اند رخود اپنی دعوت کی بصیرت اور یقین نہ ہو، وہ دعوت ہی کیا! پھر اپنی دعوت کی دلیل عمل سے دینا یہ اس کا اگلا مرحلہ ہے۔ یہ کام پوری زندگی کو اللہ کی مرضیات کے تابع کرنے کا نام ہے۔ یہ حضرت محمد کے عشق میں سرشار ہو کرزندگی گزارنے کا نام ہے۔ دل میں اس نور کے پیدا کرنے کا نام ہے جس کی روشنی میں ہر حال میں اللہ کے حکموں اور حضرت محمد کے طریقوں میں یقینی کامیابی نظر آتی ہے۔بالفاظِ دیگر یہ کام اس یقین کے پیدا کرنے کا ہے جس میں ا للہ کے اوامر اور حضرت محمد کی سنتوں سے معمولی انحراف میں یقینی ہلاکت نظر آتی ہے۔ یہ سیم و زر، حکومت و سیاست، عہدہ و منصب وغیرہ کے ہر بت کو دنیا کے چوراہے پر تو حید کی ٹھوکر مارنے والا کام ہے۔ ہماری پوری زندگی صبغتہ اللہ (اللہ اور رسول کے رنگ) میں رنگ دینے کا کام ہے۔

                 طاقت و قوت ، جاہ و جلال اور حکومت و سیاست کی بالا دستی اور رعب و دبدبہ کے بغیر نیکی کا حکم دیا جا سکتاہے اورنہ برائی سے روکا جا سکتا۔لہٰذا قرآنِ کریم کی روشنی میں اہلِ ایمان پر یہ فرض ہو جا تا ہے کہ وہ ہر قسم کی طاقت و قوت کو اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کی خاطرحاصل کریں؛ کیونکہ دنیا طاقت کی زبان جانتی اور سمجھتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ یہ کام وہی لوگ بخوبی انجام دے سکتے ہیں؛ جو طاقت و قو ت کے تنِ تنہا مالک ہوں۔یہ کام طاقت کے اثر سے ہی رونما ہو سکتا ہے؛ کیوں کہ طاقت ڈھل جانے کا نام نہیں؛ بلکہ ڈھال دینے کا نام ہے،مڑ جانے کو قو ت نہیں کہتے ، موڑ دینے کو طاقت کہتے ہیں۔دنیا میں کمزوروں اور نا تواں افراد، یا ان کے مجموعے نے کبھی کوئی قابلِ ذکر کار نامہ انجام نہیں دیا؛بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔طاقت کے آ گے سارے فلسفے، حقائق، اچھائیاں اور دلائل سب بے معنی اور ہیچ ثابت ہوتے ہیں؛اس لیے اس کام کی پشت پناہی کے لیے مال و دلت کی کثرت، حکومت و اقتدار کی آب و تاب اور علم و دلیل کی طاقت وغیرہ ضروری ہیں ۔ خلاصہٴ کلام یہ کہ طاقت و قوت اس کام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے درجہ میں ہے اور حق کو اس کا جائز مرتبہ و مقام اسی وقت مل سکتاہے؛ جب کہ اس کی پشت پر ایک ز بردست قوت موجود ہو ورنہ حق ، حق نہیں رہ جاتا؛ بلکہ وہ محض فلسفہ بن کر سمٹ اور سکڑجاتا ہے۔ قوت کے بغیر سچائی کی حیثیت ردی کے کاغذ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ قوت و طاقت کے بغیر مومن ، محتسب اقوامِ عالم نہیں رہتا؛ بلکہ اس کی شخصیت سمٹ اور سکڑ جاتی ہے اورپھر وہ راہب بن جاتا ہے۔اور دنیا کی تمام تر طاغوتی طاقتوں کی کوشش اور چاہت بھی یہی ہوتی ہے کہ مومن اس عالمِ رنگ و بو کو چھوڑکر گوشہ نشینی اختیار کرلے؛ تاکہ وہ جس طرح چاہیں، اس جہاں میں تصرف کرسکیں۔

                مزیدوا ضح ہو کہ جس دعوت کی پشت پر عمل کی مہرثبت نہ ہو ، وہ اپنی سنجیدگی کھو دیتی ہے ۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ دنیا میں دعوت کی صداقت و سچائی کی سب سے بڑی دلیل دعوت کے مطابق داعی کی زندگی میں عمل ہی ہے۔ جس دعوت کے ساتھ عمل نہ ہو، وہ از خود ایک کمزور دعویٰ ہے اپنی سچائی کا؛ جبکہ عمل کے ساتھ دعوت ا یک مضبوط دلیل ہے اپنے دعوے کی ۔اگر ہم اپنی دعوت میں مخلص اور سچے ہیں تو ہمیں اس کا ثبوت اپنے عمل سے دینا ہوگاکہ دنیا اس میں یقین کرتی اور رکھتی ہے، جو اس کے مشاہدہ میں آتا ہے؛کیونکہ قولی دعوت سے زیادہ اثر رکھتی ہے عملی دعوت! مگر آج صورتِ حال بر عکس ہے۔ ایمان و یقین میں ضعف اور اضمحلال عام ہے اورنتیجتاً اللہ کے احکام اور پیارے آقا کی سنتیں آج ہماری زندگی سے رخصت ہو تی جا رہی ہیں۔اس کی مثال خود ہمارے روزآنہ کے مشاہدہ میں ہے۔مثلاً نماز جیسے مہتم بالشان عمل سے نوے فی صد افرادِ امت غفلت کے شکار ہیں۔بے نکاحی لڑکی کا جوڑا مل جانے کے باوجود جہیز کی تیاریوں کے لیے نکاح کو ٹالا جاتا ہے۔میت ہو جانے پر دور دراز کے رشتہ داروں کی خاطر تجہیز و تکفین میں دیر کی جاتی ہے۔ میراث کی تقسیم میں ٹال مٹول کیا جاتا ہے۔دیر رات تک گھروں میں بے ہودہ و فحش سیریل دیکھے دکھائے جاتے ہیں اور ان پر تبصرہ کیا جا تا ہے۔ دین و شریعت کی معمولی جانکاری رکھنے والا شخص بھی بآسانی کہہ سکتا ہے کہ یہ ساری چیزیں جو اس وقت مسلم معاشرہ میں پائی جارہی ہیں وہ خلا فِ اسلام ہیں۔ دینِ اسلام کی فطری تعلیمات جن میں سادگی،آسانی، عفت اور پاکی پائی جاتی ہیں انھیں چھوڑکر خلافِ اسلام چیزوں کو دانتوں سے پکڑا جا رہا ہے، جن میں پیچید گی، پریشانی اوربے حیائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ غیر مسلم اقوام جو اس وقت مادہ پرستی ، الحاد ، لا دینیت، دہریت کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے ، کسی بھی لحاظ سے مسلمانوں کے اعمال سے اسلام کی طرف کو ئی کشش محسوس نہیں کرتی ہیں؛ حتیٰ کہ وہ مسلمانوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتیں!

                انصاف کی بات یہ ہے کہ ہر عاقل بالغ مسلمان مرد اپنے گھر کی عدالت کا قاضی القضاة ہے، اپنے گھر کی پارلیمنٹ کا وزیر قانون ہے ۱ ور ساتھ ہی اپنے گھر کی مملکت کا خلیفہ و فرماں روا؛ لیکن ان سب کے باوجود اپنے گھر کے جملہ کاموں اور امور میں شریعت کے قانون کی روشنی میں کتنے معاملات کو طے کرنے کے لیے شریعتِ اسلامی سے اصو ل و ضوابط اخذ کرتے ہیں، شریعت کے قانون کے مطابق کتنا فیصلہ کرتے ہیں ، شریعت کے قانون کی کتنی پاسدار ی کرتے ہیں، شریعت کے فیصلوں کو اپنے گھروں میں کتنا نافذ کرتے ہیں، ہر شخص کے اپنے گریباں میں دیکھنے کی بات ہے ، دوسرا شخص کسی کے متعلق کیا کہہ سکتا ہے۔مسلمانوں کی اپنی منصبی ذمہ داری (امربالمعروف و نہی عن المنکر) ادا نہ کرنا اپنے فرضِ منصبی سے نہ صرفِ راہ فرار اختیار کرنا ہے؛ بلکہ خدائے ذوالجلال کے احکامات سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔ یہ معاملہ اس ملٹری افسر جیسا ہے، جو اپنی ڈیوٹی کو چھوڑ کر دشمنوں کا آلہٴ کار بن جائے ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے کسی بھی افسر سے نہ صرف ساری سہولتیں اور مراعات چھین لی جاتی ہیں؛ بلکہ اسے گرفتار کر کے کورٹ مارشل کے تحت سخت سے سخت سزا ئیں دی جاتی ہیں؛ چنانچہ اب اس امت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے۔اپنے مقصدِزندگی یعنی فرضِ منصبی کی عدم ادائیگی کی صورت میں اس امت کو اغیار و باطل کے حوالے کر دیا گیا ہے؛ اس لیے کوئی اس کے ملک و مال کو لوٹ رہا ہے، کوئی اس کی عصمت و عفت کو تار تار کر رہا ہے، تو کوئی اس کی عبادت گاہوں کو مسمار کر رہا ہے۔

                ایک حدیث میں اس کام کو انجام نہ دینا لعنت اور پھٹکار کا موجب بتایا گیا ہے؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے۔ لوگو! اللہ تعالی کا حکم ہے کہ بھلی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو، مبادا وہ وقت آجائے کہ تم دعا مانگو اور میں اس کو قبول نہ کروں اور تم مجھ سے سوال کرو اور میں اس کو پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔اس حدیث شریف میں متعین ، واضح اور صاف لفظوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تر ک کرنے پر تین قسم کی پھٹکاراور وعیدیں سنائی گئی ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ بار گاہِ ایزدی سے آج ہماری دعائیں ، ہمارے سوالات اور مدد کی پکار رد کی جا رہی ہیں۔ آج ہم بھلائی کا حکم کیا دیتے ، ایک دو نہیں بے شمار برائیاں خود ہمارے معاشرے میں در آئی ہیں۔اور ہم خیرالامم کے منصب سے معزول و برطر ف کر دیے گئے ہیں۔ حدیث شریف میں اس منصبی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے پر جن آسمانی و زمینی پریشانیوں، آلام و تکالیف کی پیشین گوئی کی گئی ہیں، انھیں آج ہم مشاہدہ کی شکل میں اپنے سامنے پاتے ہیں؛مگر افسو س کہ ہمارے دل سخت ہو گئے ہیں ۔اورہم خوابِ غفلت سے جاگنے کو تیار نہیں۔ ایسے سخت اور صبر آزما حالات کو ایمان و یقین کی درستگی و پختگی اور فرضِ منصبی کی ادئیگی سے ہی بدلا جا سکتا ہے کہ یہی ایک یقینی اور حقیقی سبب ہے ۔یہی ہمارا نقطئہ آغا زہے ، یہی ہمارے لیے راہِ عمل ہے اور راہ ِنجات بھی، اس سے کم کوئی چیز ہمیں موجودہ عذاب و فساد سے بچانے والی نہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )

کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟

کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟حدیث ’’إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ‘‘ کی تشریح میں امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم وہی معتبر ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے وارثین اہلِ علم سے سیکھ کر حاصل کیا جائے۔ (فتح الباری: بَاب الْعِلْم قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ) اس لئے اہلِ علم کو چھوڑ کر کسی مذہبی اسکالر، ڈاکٹر، انجینیئر یا موٹیویشنل اسپیکر سے دین کا علم حاصل کرنے سے اجتناب کیجئے! (صححہ: #ایس_اے_ساگر ) (بشکریہ: Mufti Mubeen Ur Rahman Official )

----------
عنوان: کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟
سوال : ۔ 1) حدیث "إنما العلم بالتعلم" کا مطلب کیا ہے؟
2) بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں مولویت نہیں ہے. ہر شخص خود سے دین سیکھ سکتا ہے۔ براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اعتراض کا مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ (خیرا)
جواب نمبر: 608592
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 574-450/M=05/1443
”إنما العلم بالتعلم“ کا واضح اور صحیح مطلب یہی ہے کہ صحیح اور معتبر علم وہی ہے جو اہل علم سے سیکھ کر حاصل کیا جائے، دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس سے عقائد درست ہوجائیں، فرائض کی ادائیگی پر قادر ہوجائے اور حلال و حرام میں تمیز کرسکے، یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ اور تفصیلی طور پر قرآن و حدیث اور شریعت کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، اسی فرض کفایہ کو ادا کرنے والے یہی مولوی حضرات ہیں؛ لہٰذا یہ کہنا کہ ”اسلام میں کوئی مولویت نہیں ہے.“ درست بات نہیں ہے۔ اور یہ کہنا کہ ”ہر شخص خود سے دین سیکھ سکتا ہے.“ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ: ”ہر شخص ازخود ڈاکٹر بن سکتا ہے.“ ظاہر ہے کہ باقاعدہ طور پر کسی ماہر صاحب فن کے پاس رہے بغیر جب کسی فن کا اعتبار نہیں کیا جاتا تو علم دین کے بار ے میں ایسا کہنا کیوں کر درست ہوگا؟
قال ابن حجر فی فتح الباری: قولہ: ”إنما العلم بالتعلّم“ المعنی: لیس العلم المعتبر إلاَّ المأخوز من الأنبیاء وورثتہم علی سبیل التعلّم۔ (1/161، ط: دارالمعرفة، بیروت)۔
وقال الشامی فی شرح عقود رسم المفتی: وقد رأیت في فتاوی العلاّمة ابن حجر، سئل في شخصٍ یقرأ ویطالع الکتب الفقہیة بنفسہ، ولم یکن لہ شیخ، ویفتي، ویعتمد علی مطالعتہ في الکتب، فہل یجوز لہ ذلک أم لا؟ فأجَاب بقولہ: لا یجوز لہ الإفتاء یوجہٍ من الوجوہ؛ لأنہ عاميّ جاہل لا یدري ما یقول۔ (ص: 17، ط: مکتبة البشریٰ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند (صححہ: #ایس_اے_ساگر ) 

http://saagartimes.blogspot.com/2022/12/blog-post_27.html?m=1


نفس اور شیطان کے دھوکہ میں فرق

"نفس اور شیطان کے دھوکہ میں فرق"
انسان کو دھوکہ شیطان بھی دیتا ہے اور نفس بھی، مگر دونوں کے طریقہ کار میں فرق ہے، شیطان کسی گناہ کی ترغیب اس طرح دیتا ہے، کہ اس کی تاویل سجھادیتا ہے، کہ یہ کام کرلو اس میں دنیا کا فلاں فائدہ اور فلاں مصلحت ہے، جب کسی کے تاویل و مصلحت دل میں آئے تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے، اور نفس گناہ کی ترغیب لذت کی بنیاد پر دیتا ہے، کہتا ہے کہ یہ گناہ کرلو بڑا مزا آئے گا. جب کسی گناہ کا خیال لذت حاصل کرنے کیلئے آئے تو سمجھ لو کہ یہ نفس کا دھوکہ ہے،
بقول ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمہ اللہ خلیفہ مجاز حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
از ملفوظات عارفی صفحہ 179
--------
عنوان: نفس اور شیطان میں کیا فرق ہے؟
سوال: مفتی صاحب! شیطان اور نفس انسان کو کیسے بہکاتے ہیں؟ تھوڑا فرق واضح کردیں۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: نفس انسان کے اند ایک طاقت ہے، جس سے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے، خواہ وہ خواہش بھلائی کی ہو یا برائی کی، اس کو نفس کہتے ہیں اورشیطان ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواه وه انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے ہو۔
شیطان اپنے خاص معنی کے اعتبار سے ابلیس اور اس کی اولاد پر بولا جاتا ہے، اور معنی عام کے اعتبار سے ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواه وه انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے۔

نفس اور شیطان میں مختلف اعتبار سے فرق ہے:
۱۔نفس شیطان سے قوی ہے، کیونکہ جس وقت ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، اس وقت شیطان نہیں تھا، ابلیس کے نفسِ امّارہ نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا تھا، نفس کے بارے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوٰی"۔ (سورۃ النازعات: ۴۰،۴۱)
ترجمہ: لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا، تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
اس آیت سے نفس کی قوت معلوم ہوتی ہے، اور اس کو روکنے اور کنٹرول کرنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جب کہ شیطان کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: "انّ کیدالشیطان کان ضعیفا" (سورۃ النساء: ۷۶)
ترجمہ: (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔
اس آیت سے شیطان کی چال کا کمزور ہونا ثابت ہوگیا، لہذا واضح ہوگیا کہ نفس شیطان سے قوی اور بڑا دشمن ہے۔
۲۔ شیطان کا کام انسان کے دل میں صرف وسوسے ڈالنا ہے، لیکن جب انسان زیادہ دھیان نہیں دیتا، تو وہ فوراً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر بار بار دل میں وسوسے آرہے ہوں اور گناہ کا تقاضہ بار بار ہورہا ہو، تو یہ نفس ہے، اسی طرح اگر بار بار ایک ہی گناہ کا تقاضہ ہو، تو یہ نفس کی طرف سے ہے، لیکن اگر ایک دفعہ ایک گناہ کا تقاضا ہوا اور پھر دوسرے گناہ کا، تو یہ شیطان کی طرف سے تقاضہ ہوگا، کیونکہ شیطان کو مقصود صرف کوئی گناہ کرانا ہے، اور اس کو گناہ سے حَظّ (لذت اور سرور) نہیں ہوتا اور نفس کو حَظّ (لذت اور سرور) ہوتا ہے۔
۳۔ نفس مہیج (ابھارنے والا) ہے، قرآن مجید میں ہے:
"إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ" (سورۃ یوسف: ۵۳)
ترجمہ: واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے۔
اور شیطان صرف مشورہ دیتا ہے، قرآن مجید میں ہے:
"وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي" (سورۃ ابراہیم: ۲۲)
ترجمہ: اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان (اپنے ماننے والوں سے) کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی، اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی۔
اس آیت میں لفظِ "دعوتکم" (میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی) سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان صرف مشورے ہی دیتا ہے، اور اہل اللہ پر اس کا بس نہیں چلتا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۹۹) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ" (سورۃ النحل: ۹۹۔۱۰۰)
ترجمہ: اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں، اس کا بس تو ان لوگوں پر چلتا ہے، جو اسے دوست بناتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔
لہذا واضح ہوا کہ گناہ کا اصل داعی نفس ہوتا ہے، کیونکہ نفس مہیج ہے اور شیطان مشیر ہے، گناہ کے کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
۴۔ شیطان اس وقت وسوسہ ڈالتا ہے، جب انسان غافل ہو، اور اگر وہ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہو، تو اس وقت وہ بھاگ جاتا ہے، لیکن نفس ہر وقت گناہ پر ابھارتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے
"الوسواس الخناس"
کی تفسیر میں منقول ہے کہ
"الشیطانُ جاثمٌ علیٰ قلبِ ابنِ ادمَ، فَإذا سَهَا و غَفَلَ وَسْوَسَ وَإِذا ذَکر الله خنسَ."
یعنی ’’شیطان اولادِآدم کے دل میں بیٹھ جاتا ہے، پس جب بندے سے بھول ہوئی اور غفلت میں پڑا تو شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ نفس اور شیطان دونوں ہی انسان کے دشمن ہیں، اور دونوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! شیاطین جن اور شیاطین انس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا : ہاں!
اس لئے نفس اور شیطان دونوں کے شرّ سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہئے، اللہ تعالی ہمیں نفس اور شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف ابن أبي شيبة: (رقم الحدیث: 35919، ط: مکتبة دارالقبلة)
جرير، عن منصور، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس في قوله: {الوسواس الخناس} [الناس: ۴]، قال: «الشيطان جاثم على قلب ابن آدم، فإذا سها وغفل وسوس، وإذا ذكر الله خنس»
سنن النسائی: (رقم الحدیث: 5522، ط: دارالحدیث)
عن أبي ذر قال: دخلت المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فجئت فجلست إليه، فقال: «يا أبا ذر، تعوذ بالله من شر شياطين الجن والإنس» قلت: أو للإنس شياطين؟ قال: «نعم»

تفسیر الرازی: (120/13، ط: دار إحياء التراث العربی)
اختلفوا في معنى شياطين الإنس والجن على قولين الأول أن المعنى مردة الإنس والجن والشيطان كل عات متمرد من الإنس والجن وهذا قول ابن عباس في رواية عطاء ومجاهد والحسن وقتادة وهؤلاء قالوا إن من الجن شياطين ومن الإنس شياطين وإن الشيطان من الجن إذا أعياه المؤمن ذهب إلى متمرد من الإنس وهو شيطان الإنس فأغراه بالمؤمن ليفتنه والدليل عليه ما،روي عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال لأبي ذر: «هل تعوذت بالله من شر شياطين الجن والإنس؟» قال قلت وهل للإنس من شياطين؟ قال «نعم هم شر من شياطين الجن» .والقول الثاني أن الجميع من ولد إبليس إلا أنه جعل ولده قسمين فأرسل أحد القسمين إلى وسوسة الإنس. والقسم الثاني إلى وسوسة الجن فالفريقان شياطين الإنس والجن ومن الناس من قال القول الأول أولى لأن المقصود من الآية الشكاية من سفاهة الكفار الذين هم الأعداء وهم الشياطين ومنهم من يقول القول الثاني أولى لأن لفظ الآية يقتضي إضافة الشياطين إلى الإنس والجن والإضافة تقتضي المغايرة وعلى هذا التقدير فالشياطين نوع مغاير للجن وهم أولاد إبليس.

لسان العرب لابن منظور: (238/13، ط: دار صادر)
الشاطن: البعيد عن الحق، وفي الكلام مضاف محذوف تقديره كل ذي هوى، وقد روي كذلك۔۔۔والشيطان: معروف، وكل عات متمرد من الجن والإنس والدواب شيطان۔

ملفوظات حکیم الامت: (437/26،ط: ادارة تالیفات اشرفیة)

عمدۃ السلوک للشیخ سید زوّار حسین شاہ: (ص: 289، ط: زوار اکیدمی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (فتویٰ نمبر 8412) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )

http://saagartimes.blogspot.com/2022/12/blog-post_8.html?m=1


Friday, 2 December 2022

الحاد اور تمام فتنوں سے بچنے کا نسخہ

"الحاد 
اور تمام فتنوں 
سے بچنے کا نسخہ..."
ہر شبہہ کا جواب دینے سے شبہات 
رفع نہیں ہوسکتے.. تم منشاء کا علاج کرو.. 
جیسے ایک گھر کے اندر رات کو اندھیرے میں چوہے، چھچھوندر کودتے پھرتے تھے.. گھروالا ایک ایک کو پکڑکر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے.. ایک عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں.. تم لیمپ روشن کردو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے.. چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے.. 
اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں ان کا منشاء ظلمت قلب ہے جس کا علاج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کرلو.. وہ نور نورمحبت ہے.. یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ و سوسہ نہیں پیدا ہوتا..
 اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہوجائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ "سر بازار کپڑے اتارکر آؤ تو میں تم سے بات کروں گی ورنہ نہیں." تو فلسفی صاحب اس کے لئے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی! اس میں تیری مصلحت کیا ہے..؟ اب کوئی اس (فلسفی) سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی..؟
میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیدا ہوتے ہیں ان کے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے.. ان کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے.. 
تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے.. اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ اس سے بہت جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے.. پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے..
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ 

Specially college or university students, islam ki basic maloomat ka ilm nahi hai debates karte hai samne wale ke questions counter nahi kar pate is liye nahi ke uske questions islam ke upar sahi hai balke khud ko maloomat na hone ki wajah se, or shaitan dil me islam ke mutalliq doubts paida kar deta hai, aaj kal apostates agnostics atheist banne ki ek badi wajah ye bhi hai.
(S_A_Sagar#)
https://facebook.com/100063975462349/posts/pfbid02keL7LczgLzyeZYVUnfHPkFxwiJ7zyBBTzzAzVUyAps2WBsdHgzLAD2W8c4bZrmMyl/