Thursday, 31 May 2018

اپنے والدین اور تمام مومنین کے لئے مغفرت کی دعا

اپنے والدین اور تمام مومنین کے لئے مغفرت کی دعا 

Bismillahirrahmanirrahim
-----------------
✦ Apne Waldein Aur Tamam Momeeno Ke Liye Magfirat Ki Qurani Dua
-----------------

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

✦ Rabbana Agfirlee Waliwalidaeeya Wa lilmumeenina Yauma Yaqaumul hisab
-----------------
✦ Al Quran : Eh hamare RABB mujhko aur mere waldein (parents) ko aur momeeno ko hisab wale din baksh dena.
Surah Ibrahim (14) , Aayat 41
-----------------
✦ Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi Wasallam ne farmaya RABB apne bando se khush hota hai jab wo (banda) kahta hai ki mere gunaho ko bakhsh de , wo janta hai ki uske siwa gunaho ko koi bhi maaf nahi kar sakta
Sunana Abu dawud, Jild 2, 830-Sahih
-----------------

اے پروردگار حساب (کتاب) کے دن مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور مومنوں کوبخش دینا
القرآن ١٤:٤١
-----------------
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔
سنن ابو داوود جلد ٢ / ٨٣٠ -صحیح
-----------------

✦ एह हमारे रब मुझको और मेरे वालदेन को (माँ बाप को) और मोमीनों को हिसाब वाले दिन बख्श देना
सुरह इब्राहीम (14) , आयत 41
-----------------
✦ रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ने फरमाया रब अपने बन्दों से खुश होता है जब वो (बंदा) कहता है की मेरे गुनाहों को बख़्श दे ,क्यूंकि वो जानता है की उसके सिवा गुनाहों को कोई भी माफ़ नही कर सकता
सुनन अबू दाऊद, जिल्द 2, 830-सही
.............
"اللہ تعالی نے روزوں کے احکام کے درمیان میں اس آیت کو ذکر کر کے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اور رہنمائی فرمائی ہے کہ روزوں کی تعداد پوری ہوتے وقت بلکہ ہر روزے کی افطاری کے وقت دعا کریں" انتہی
"تفسیر ابن كثیر" (1/ 509)

دعا کرتے ہوئے جامع دعا مانگے، ثابت شدہ ادعیہ کا اہتمام کرے، اور اپنی دعاؤں میں حد سے تجاوز مت کرے، اسی طرح دعا کے دیگر آداب بھی ملحوظ خاطر رکھے، ذیل میں کچھ ایسی دعائیں ہیں جنہیں رمضان اور غیر رمضان میں کثرت سے مانگنا چاہیے:

-        "رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ"
ترجمہ:  ہمارے پروردگار ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

-        "رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا"
ترجمہ: ہمارے پروردگار! ہماری بیویوں اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔

-        "رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ . رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ"
ترجمہ: میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نمازوں کا پابند بنا اور میری دعا قبول فرما، ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنوں کو قیامت کے دن معاف فرما دے۔

-        "اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ"
ترجمہ: یا اللہ! بیشک تو سراپا معاف کرنے والا ہے، تو معافی پسند بھی فرماتا ہے، لہذا مجھے معاف فرما دے۔

-        "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ منه عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا"
ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے جلد یا دیر سے ملنے والی ہر قسم کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں، جسے میں جانتا ہوں اسکا بھی اور جسے نہیں جانتا اس کا بھی طلب گار ہوں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جلد یا دیر سے ملنے والی ہرشر سے، جسے میں جانتا ہوں اس سے بھی اور جسے نہیں جانتا اس سے بھی، یا اللہ! میں تجھ سے ہر اس چیز کا سوال کرتا ہوں جس کا تیرے بندے اور نبی نے تجھ سے کیا، اور ہر اس چیز سے تیری پناہ چاہتا ہوں جس سے تیرے بندے اور نبی نے پناہ مانگی، یا اللہ! میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور میں جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور یہ بھی مانگتا ہوں کہ تیرا میرے بارے میں کیا ہوا ہر فیصلہ میرے حق میں بہتر بنا دے۔

-        "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي ، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي ، اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي ، وَعَنْ شِمَالِي ، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي"
ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگتا ہوں، یا اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، دنیا، اہل و عیال اور مال سے متعلق معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں ، یا اللہ! میرے عیوب کی پردہ پوشی فرما، اور مجھے دہشت زدہ کرنے والی اشیاء سے امن عنایت فرما، یا اللہ! میری آگے ، پیچھے، دائیں ، بائیں، اور اوپر سے حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے نیچے سے اچک لیا جائے۔

-        اسی طرح کتاب و سنت سے ثابت دیگر جامع دعائیں، اور کوئی بھی اچھی دعا اہتمام کیساتھ مانگے، انسان کو اللہ کیساتھ تعلق بنانے میں  بھرپور کوشش کرنی چاہیے، تاہم کسی دعا کو رمضان کے کسی حصہ کیساتھ مختص مت کرے۔

-        اسی طرح افطاری کے بعد یہ کہنا بھی مسنون ہے: 
"ذَهَبَ الظَّمَأُ ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ"
ترجمہ: پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور ان شاء اللہ اجر  یقینی ہو گیا۔
اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (14103) اور (26879) کا مطالعہ کریں۔

-        ہر رات کی آخری تہائی میں  خوب محنت کیساتھ دعا مانگے۔
اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (140434)

-        آخری عشرہ میں کثرت کیساتھ کہے: 
"اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ" 
ترجمہ: یا اللہ! بیشک تو سراپا معاف کرنے والا ہے، اور معافی کو پسند بھی فرماتا ہے، لہذا مجھے معاف فرما دے! 
.............
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللٰہ وبرکاتہ...... 
ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر بت پرست تھے...... مشرک تھے تو حضرت ابراہیم نے انکے لئے مغفرت کی دعاء کیوں مانگی؟     
شرح و بسط کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں نوازش ہوگی
بندہ خدا۔ قطر 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق 
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (41)
یہ دعا غالباً اپنے والد کے حالت کفر پر مرنے کی خبر موصول ہونے سے پہلے کی۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ اسے اسلام کی ہدایت کرکے قیامت کے دن مغفرت کا مستحق بنا دے۔ اور اگر مرنے کی خبر ملنے کے بعد دعا کی ہے تو شاید اس وقت تک خدا تعالیٰ نے آپ کو مطلع نہیں کیا ہوگا کہ کافر کی مغفرت نہیں ہوگی۔ عقلاً کافر کی مغفرت محال نہیں، سمعاً ممتنع ہے۔ سو اس کا علم سمع پر موقوف ہوگا اور قبل از سمع امکان عقلی معتبر رہے گا۔ بعض شیعہ نے یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو جو کافر کہا گیا ہے وہ ان کے حقیقی باپ نہ تھے بلکہ چچا وغیرہ کوئی دوسرے خاندان کے بڑے تھے۔ (تفسیر عثمانی)۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے لئے اور مومنین کے حق میں دعاء مغفرت کرنا تو ایک صاف اور سیدھی سی بات ہے البتہ شبہ اس میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے کافر والد کے حق میں دعائے مغفرت کیسے کردی؟ سو اگر یہ دعاء آپ (علیہ السلام) نے ان کی زندگی ہی میں کی تھی جب تو آپ (علیہ السلام) کی مراد یہی ہوگی کہ انہیں توفیق ہدایت دے کر ان کی مغفرت کا سامان کردیاجائے۔ اور اگر بعد وفات یہ دعا کی تھی تو یہ دعاء ان کی ایمان کے ساتھ (علم الہی میں) مشروط ہوگی، یعنی اے پروردگار اگر تیرے علم میں ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے تو ان کی مغفرت کردے۔ (آیت) ”اغفرلی“۔ غفر کے معنی ہیں رحمت الہی کا ڈھانپ لینا، اور اس کی حاجت جس طرح عاصی کو رہتی ہے، معصوم کو بھی رہتی ہے اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے حق میں طلب مغفرت کرنے سے ان کا غیر معصوم ہونا ہرگز لازم نہیں آتا۔ (تفسیر ماجدی)
ربنا اغفر لی ولوالدی اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والدین مسلمان تھے۔ آذر آپ کا چچا تھا اور تارخ آپ کے باپ کا نام تھا۔ تفصیل سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ چونکہ 'اب' کا لفظ چچا کیلئے بھی بولا جاتا ہے‘ اسلئے اگر والدیَّ کی جگہ اَبَوَیَّ کا لفظ استعمال کیا جاتا تو خیال ہوسکتا کہ شاید حضرت نے آذر کیلئے بھی دعائے مغفرت کی تھی (باوجودیکہ آذر مشرک تھا اور مشرک ناقابل مغفرت ہے) اس خیال کو دفع کرنے کیلئے وَالِدیَّ فرمایا، یعنی حقیقی ماں اور حقیقی باپ اور بالفرض اگر آذر کو (حقیقی) باپ مان بھی لیا جائے تو اس کیلئے دعائے مغفرت کی وجہ خود ہی اللہ نے بیان فرمادی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باپ کیلئے دعائے مغفرت صرف اس وعدہ کی وجہ سے کی تھی کہ اس سے وعدہ کرلیا تھا ‘ لیکن جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے اور بیزاری کا اظہار کردیا۔ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ الاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ ۔
وللمؤمنین یوم یقوم الحساب اور (تمام) ایمان والوں کو جس روز حساب برپا ہوگا۔ برپا ہونے سے مراد ہے: موجود ہونا یا ظاہر ہونا۔ یہ معنی قیام علی الرجل (پاؤں پر کھڑا ہونا) سے مستعار لیا گیا ہے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے:
قَامَتِ الحربُ عَلٰی ساقٍ لڑائی اپنی پنڈلی پر کھڑی ہوگئی (یعنی برپا ہوگئی) یا الحسابُ سے پہلے لفظ اَہْلُ محذوف ہے، یعنی جس روز اہل حساب کھڑے ہوں گے۔ جیسے آیت واسْءَلِ الْقَرْیَۃَ اور بستی سے پوچھ لو، یعنی بستی والوں سے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کھڑے ہونے کی نسبت حساب کی طرف مجازی ہے (پہلی صورت میں مجاز فی الحذف ہوگا اور اس صورت میں مجاز فی الاسناد) یعنی لوگ حساب کیلئے کھڑے ہوں گے۔ (مظہری)
اس میں والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائی حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے ہوسکتا ہے کہ یہ دعاء اس وقت کی ہو جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کافروں کی سفارش اور دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا تھا جیسے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے (آیت)
وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۔ (معارف القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

دو ماہ کے حمل کے اسقاط کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں

دو ماہ کے حمل کے اسقاط کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
ایک عورت نے دواء کی ذریعہ دو مہینے کا حمل گرادیا اب یہ عورت کتنی دن تک نماز اور روزہ سے باز رہیگی مسئلہ بتاکر بندی کو مدد کرے تو عین کرم ہوگا.
نور الحسن القاسمی پڑتاب گڑھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
حمل پہ ایک سو بیس دن گزرنے کے بعد (قریب پانچ ماہ) اسقاط ہوا ہو تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس کہلائیگا۔ جو مانع صوم وصلات ہے۔
ایک سو بیس دن سے کم مدت کے حمل کے اسقاط کے بعد نکلنے والا خون نفاس شمار نہیں ہوگا۔ نماز روزہ ادا کرتی رہے۔
(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه، وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء.(الدر المختار مع الرد:۱؍۳۰۲- ۳۰۳، باب الحیض،ط: دار الکتب العلمیۃ-بیروت٭فتح القدیر:۱؍۱۸۹، کتاب الطھارات،فصل في النفاس، ط:زکریا- دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

حمل گرگیا؛ یہ نفاس ہے یا حیض؟

حمل گرگیا؛ یہ نفاس ہے یا حیض؟
سوال: اگر کوئی حاملہ دو تین مہینے میں بچے گرجائے تو اسکی مدت؟
براہ کرم جواب دینے میں جلدی کریں 
مطلب ابھی دو مہینے ہوئے حمل کو کہ حمل گرگیا، خون آنا شروع ہوگیا تو وہ لڑکی نفاس کی مدت شمار کرینگے یا حیض کی؟
فقط 
محتاج دعا.
ابوسعید المعین
جواب: اگر کسی عورت کا بچہ گرگیا یا گرادیا گیا تو چار ماہ یا اس سے زیادہ کے حمل کو ساقط کرنے پر جو خون آئے گا وہ نفاس سمجھا جائے گا، اور اگر حمل چار ماہ سے کم ہو تو یہ خون مسلسل تین روز یا اس سے زیادہ دس دن کے اندر اندر آنے کی صورت میں حیض شمار ہوگا، بشرطیکہ اس سے پہلے کم از کم پندرہ دن پاکی کی حالت رہی ہو، ورنہ (یعنی تین دن برابر خون جاری نہ رہا اور اس سے پہلے کامل طہر ہویاتین دن خون جاری رہا؛ لیکن اس سے پہلے کامل طہر نہیں تھا یا تین دن سے کم خون آیا جب کہ اس سے پہلے کامل طہر نہیں رہا تو ان تینوں صورتوں میںیہ خون) استحاضہ ہوگا۔ 
والمرئی حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ۔ (درمختار) أی أن لم یدم ثلاثاً وتقدمہ طہر تام، أو دام ثلاثا ولم یتقدمہ طہر تام، أو لم یدم ثلاثاً ولا تقدمہ طہر تام۔ (شامی بیروت ۱؍۴۳۵، زکریا ۱؍۵۰۱) وقال قبلہ فی التنویر: ظہر بعض خلقہ کید أو رجل فتصیر بہ نفساء۔ (تنویر الابصار بیروت ۱؍۴۳۴، زکریا ۱؍۵۰۰، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ترکی۱؍۱۳۲)
.........................
جواب: ۱)
اگرحمل میں بچے کے اعضاء بن چکے تھے، پھر اسقاط ہوا، اس صورت میں اسقاط کے بعد آنے والا خون’’نفاس کا خون‘‘ کہلائے گا.
اگر اسقاط حمل اس حال میں ہواکہ بچے کا کوئی عضو نہیں بنا ہے، صرف خون ہی نظر آیا ہے، تو وہ خون حیض کا کہلائے گا، حیض کی جو عادت ہے، اتنے دن گزرنے کے بعد غسل کرکے نماز وغیرہ شروع کردے گی، عادت سے بڑھ جائے اور دس دن سے بھی تجاوز کرجائے، تو عادت سے زائد جتنا بھی خون آیا ہے، سب استحاضہ کہلائے گا؛ لیکن دس دنوں کے اندر ہے، تو حیض کہلائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ حیض کے متعلق اس کی عادت بدل گئی ہے۔(۲)
فقط، واللہ اعلم بالصواب
اسقاط کا حکم: سقط کی تین صورتیں ہیں:
(١) مستبین الخلقة: جس کے کل اعضاء یا کوئی ایک عضو (جیسے بال، ناخن، ہاتھ، پاؤں، انگلی و غیرہ) ظاہر ہو۔
حکم: اس کا حکم زندہ بچے جیسا ہے، یعنی اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہوگا، اس سے عدت پوری ہوجائے گی، باندی ہو تو ام ولد بن جائے گی، اگر طلاق ولادت سے معلق ہے تو واقع جائے گی۔
(٢) غیرمستبین الخلقة: کوئی ایک عضو بھی ظاہر نہ ہو، اس کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں بلکہ حیض یا استحاضہ ہے۔ اگر نصاب حیض ہے اور طہر تام کے بعد ہے تو حیض ہے ورنہ استحاضہ۔
(٣) الاشتباہ فی الخلقة: یعنی اعضاء کے ظہور و عدم ظہور کا علم نہ ہو۔
حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حمل چار ماہ یا اس سے زیادہ کا ہو تواسقاط کے بعد آنے والا خون نفاس ہوگا اس سے کم مدت کا ہو تو حیض یا استحاضہ
احکام حیض ونفاس واستحاضہ۔۔۔۔

تربت یداک کا مطلب کیا؟

تربت یداک کا مطلب کیا؟
سوال: محترم مفتی صاحب
مندرجہ ذیل حدیث میں "تربت یداک" کا مطلب کیا ہوگا، بتانے کی زحمت گوارا فرمائیے.
جواب: رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے؛
1. اول اس کا مالدار ہونا
2. دوم اس کا حسب نسب والی ہونا
3. سوم اس کا حسین وجمیل ہونا اور
4. چہارم اس کا دین دار ہونا
لہذا دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ
اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت وخواری اور ہلاکت کی بددعا کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس جملہ سے یہ بددعا مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔
یہ ایک محاورہ ہے، اس میں لفظی معنی مراد نہیں ہوتے ہیں، 
جیسے اردو میں کہتے، دھت تیرا بھلا ہو وغیرہ
.............
یہ حدیث بخاری (4802) اورمسلم (1466) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)
"قاضی رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں کی عادت ہے کہ وہ خواتین کی مذہبی اور معاشرتی مناسبت سے انکی خاص صفات کو مدّ نظر رکھتے ہیں، جبکہ دین کو بنیادی حثییت ہونی چاہے کہ اسی کی بنیاد پر اپنایا جائے اور چھوڑا جائے، خصوصی طور پر وہ خصال جو دیر پا ہوں، اور اثرات زیادہ ہوں" انتہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دیگی) کے معنی میں بہت زیادہ آراء پائی جاتی ہیں، چنانچہ نووی نے شرح مسلم میں فرمایا:

"محققین کے ہاں سب سے قوی اور صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس کا معنی اصل میں ہاتھوں کے خالی ہونے کے مترادف ہے، لیکن عرب کے ہاں کچھ کلمات استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان کا اصل معنی مراد نہیں ہوتا، جیسے "تربت یداک" تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، "قاتلہ اللہ" اللہ اسے برباد کرے، "ما اشجعہ" بڑا بہادر ہے، "لا أم له" اسکی ماں مرے، "لا أب لك" تیرا باپ نہ رہے، "َثَكِلَتْهُ أُمّه" تیری ماں تجھے گم پائے، "َوَيْل أُمّه" اسکی ماں ہلاک ہو، وغیرہ، یہ الفاظ کسی چیز کے انکار، ڈانٹ ڈپٹ، مذمت، تعظیم، ترغیب، اور پسندیدگی کے اظہار کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم" انتہی .
.......................
ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ
[البلد/ 16]
یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب (افعال) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب (ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں۔
ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کےلئے دیندار عورت تلاش کرو۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاوگے۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو۔ 
ترائب سینہ کی پسلیاں (مفرد ت ربیۃ) قرآن میں ہے۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [الطارق/ 7]
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْكاراً عُرُباً أَتْراباً
[الواقعة/ 36- 37] 
کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر۔ 
اور ہم نوجوان عورتیں۔ 
اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (اور) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں۔ 
(ت ر ث) 
تراث (ورثہ) یہ اصل میں وراث مثال وادی ہے۔ (جیسا کہ ورث میں بیان ہوگا ۔ قرآن میں ہے:۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [الفجر/ 19] 
اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو ۔ 
(ت ر ف) 
الترفۃ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ 
..........................
تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَع
ایس اے ساگر
اہل علم نے نکاح کو نصف ایمان قرار دیا ہے. اس کی روشنی میں شریک حیات کا انتخاب ایک اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے، جس میں خوب باریک بینی سے کام لینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت مطہرہ میں نکاح سے قبل استخارہ بھی ثابت ہے۔ ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح سے قبل استخارہ کیا تھا. اللہ کو ان کا یہ عمل ایسا پسند آیا کہ باری تعالٰی نے آپ کا نکاح نبی کریم اللہ علیہ و سلم سے کردیا. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ رشتہ کرنے میں بڑی عجلت اور جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے اور استخارہ کا اہتمام تو درکنار کسی قسم کی چھان بن اور تفتیش تک نہیں کی جاتی۔ اسلام رشتہ کرنے میں دیرنہ کرنے کا حکم ضرور دیتا ہے، مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ آنکھیں بندکرکے جہاں بھی ہو ، جیسے بھی ہو رشتہ کردیا جائے۔ بلکہ مناسب دینی و اخلاقی چھان بین کے بعد ہی رشتہ طے کرنا عقلی اور دینی تقاضا ہے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ کی صورتوں سے بہر صورت بچنا چاہئے۔ فضول شرائط و اہداف اور خود ساختہ وغیرہ ضروری معیارات مقرر کرنا مناسب نہیں ہے۔ پیغام نکاح کے سلسلہ میں چند اہم دینی تعلیمات اور بزرگوں کی نصائح کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے ، جن کا خیال رکھنا ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت فائدہ مند بھی ہے۔ رشتہ پررشتہ نہ بھیجا جائے: جس لڑکی کے لئے رشتہ کا پیغام بھیجا جارہا ہوں ، وہاں یہ دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا رشتہ کہیں طے نہ ہوا ہو، یا کسی اور اور کی طرف سے اس کے ساتھ رشتہ کی بات چیت نہ چل رہی ہو، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:ترجمہ: کوئی آدمی اپنے بھائی کے رشتہ پر رشتہ نہ بھیجے، یہاں تک کہ وہ نکاح کرلے یا وہ چھوڑدے۔ (بخاری شریف) ہاں! اگر لڑکی والوں کی طرف سے کہیں اور نکاح سے حتمی انکار کردیا گیا ہو تو پھر اس لڑکی کیلئے نکاح کا پیغام دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر پہلے رشتہ بھیجنے والے کا کردار ٹھیک نہیں ہے تو اس صورت میں دوسرے شخص کیلئے اپنے نام سے پیغام بھیجنا جائز اور درست ہے، کیونکہ ایک مسلمان کا حق یہ ہے کہ اس لڑکی کو کسی فاسق و فاجر کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اس سے نجات دلائے۔
رشتہ بھیجنے سے پہلے لڑکی کو دیکھنا: ایک حدیث میں ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک لڑکی کو رشتہ کا پیغام دینے کا ارادہ کیا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کو دیکھ بھی لیا؟ عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اس کو دیکھ لو، کیونکہ یہ تمہارے درمیان محبت پیداکرنے کا ذریعہ ہے۔ (ترمذی شریف)
شادی سے پہلے لڑکی کے دیکھ لینے کو علماء نے مستحب لکھا ہے، کیونکہ یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے ، لڑکی پسند آگئی تو یہ ان کے لئے پوری زندگی کے لئے خوشی کا باعث ہوگا اور اگر نہ دیکھا اور خدانخواستہ بعد میں وہ پسند نہ آئی تو آپس میں ناچاقی اور زندگی تلخ ہوجائے گی۔ اگر رشتہ بھیجنے والا اپنے ارادے میں پختہ اور شادی کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہے تو ایسے شخص کو چہرے اور ہتھیلیوں کے دیکھنے کی اجازت ہے، بلکہ اس کے لئے یہ بھی مناسب ہے کہ خاندان کی کچھ مخلص عورتوں کو لڑکی کے گھر بھیجے، تاکہ وہ لڑکی کے اخلاق اور اس کی عادات و اطوار کا انداز کریں۔دین داری کو ترجیح دینا چاہیے: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
کسی عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب نسب کی وجہ سے، اس کے دین کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، لیکن دیکھو ! تم دین دار عورت سے نکاح کرنا۔ لڑکی کے انتخاب کے وقت جو صفات مد نظر رکھنی چاہئیں، ان میں سب سے اہم صفت نیک اور دین دار ہونا ہے۔
روى البخاري (4802) ومسلم (1466)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ) .
وليس في الحديث أمر
أو ترغيب في نكاح المرأة
لأجل جمالها أو حسبها أو مالها.
وإنما المعنى :
أن هذه مقاصد الناس في الزواج ،
فمنهم من يبحث عن ذات الجمال ،
ومنهم من يطلب الحسب ،
ومنهم من يرغب في المال ،
ومنهم من يتزوج المرأة لدينها ،
وهو ما رغب فيه النبي صلى الله عليه وسلم بقوله :
( فاظفر بذات الدين تربت يداك ) .
قال النووي رحمه الله في شرح مسلم :
" الصحيح في معنى هذا الحديث
أن النبي صلى الله عليه وسلم
أخبر بما يفعله الناس في العادة
فإنهم يقصدون هذه الخصال الأربع ،
وآخرها عندهم ذات الدين ،
فاظفر أنت أيها المسترشد بذات الدين ،
لا أنه أمر بذلك ...
وفي هذا الحديث الحث على مصاحبة أهل الدين في كل شيء
لأن صاحبهم يستفيد من أخلاقهم وحسن طرائقهم
ويأمن المفسدة من جهتهم " اهـ باختصار .
وقال المباركفوري في تحفة الأحوذي :
" قال القاضي رحمه الله :
من عادة الناس أن يرغبوا في النساء
ويختاروها لإحدى الخصال
واللائق بذوي المروءات وأرباب الديانات
أن يكون الدين مطمح نظرهم فيما يأتون ويذرون ،
لا سيما فيما يدوم أمره ، ويعظم خطره " اهـ .
وقد اختلف العلماء في معنى قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
( تربت يداك ) اختلافاً كثيراً ، قال النووي رحمه الله في شرح صحيح مسلم :
" وَالْأَصَحّ الْأَقْوَى الَّذِي عَلَيْهِ الْمُحَقِّقُونَ فِي مَعْنَاهُ :
أَنَّهَا كَلِمَة أَصْلُهَا اِفْتَقَرَتْ ,
وَلَكِنَّ الْعَرَب اِعْتَادَتْ اِسْتِعْمَالهَا غَيْر قَاصِدَة حَقِيقَة مَعْنَاهَا الْأَصْلِيّ ,
فَيَذْكُرُونَ تَرِبَتْ يَدَاك , وَقَاتَلَهُ اللَّه ,
مَا أَشْجَعه , وَلَا أُمّ لَهُ , وَلَا أَب لَك ,
وَثَكِلَتْهُ أُمّه , وَوَيْل أُمّه , وَمَا أَشْبَهَ هَذَا مِنْ أَلْفَاظهمْ يَقُولُونَهَا عِنْد إِنْكَار الشَّيْء ,
أَوْ الزَّجْر عَنْهُ , أَوْ الذَّمّ عَلَيْهِ , أَوْ اِسْتِعْظَامه ,
أَوْ الْحَثّ عَلَيْهِ , أَوْ الْإِعْجَاب بِهِ . وَاللَّهُ أَعْلَم " اهـ .
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے خواہاں حضرات کی اس جانب رہنمائی فرمائی کہ وہ دینداری کا انتخاب کریں تاکہ عورت اپنے شوہر اور بچوں کا مکمل حق ادا کرسکے اور اسلامی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کے ارشادات کے مطابق گھر کا نظم و نسق چلاسکے۔ اگر عورت دین دار نہ ہوگی تو نہ مرد کے حقوق کی حفاظت کرے گی اور نہ ہی اولاد کی تعلیم و تربیت صحیح طور پر کر پائے گا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خوبصورت اور حسن و جمال کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نیا رشتہ تلاش کرتے وقت محض خوبصورتی کو سب کچھ نہ سمجھا جائے۔ رفیقہ حیات میںمطلوبہ صفات اور بزرگوں کی نصائح:علماء کرام نے احادیث کی روشنی میں کچھ اور صفات بھی ذکر کی ہیں، جن کو ملحوظ رکھنا چاہیے مثلاً: یہ کہ عورت کا مزاج اچھا ہونا چاہیے، بد مزاج عورت ناشکری اور جھگڑالو ہوتی ہے، جس سے زندگی خراب ہوجاتی ہے۔
عورت کا مہر کم ہونا بھی ایک اچھی صفت ہے، رسول اللہ ﷺ نے عورت کا مہر کم ہونے کو اچھی صفت قرار دیا ہے۔ ایک اچھی صفت یہ ہے کہ عورت نوجوان اور کنواری ہو، اس میں بہت ساری حکمتیں اور فائدے ہیں: ایسی عورت سے مرد کو زیادہ محبت ہوگی اور عورت کو بھی مرد سے زیادہ محبت ہوگی کیونکہ شادی شدہ عورت پہلے ایک مرد دیکھ چکی ہوتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہی پہلا مرد اس کے دل و دماغ پر حاوی رہے اور دوسرے شوہر میں وہ پہلے کی سی الفت نہ پائے جس کی وجہ سے دوسرے کیلئے اس کے دماغ میں جگہ نہ بن سکے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے: تم غیر شادی شدہ عورتوں سے شادی کرو اس لئے کہ وہ شیریں دہن، پاک و صاف رحم والی ، کم دھوکہ دینے والی اور تھوڑے پر قناعت کرنے والی ہوتی ہیں۔ایک اچھی صفت یہ ہے کہ وہ اچھے دین دار خاندان کی ہو، کیونکہ دیندار گھرانے کے بچوں پر خاندانی تربیت کے اثرات ہوتے ہیں۔ لوگوں میں شرافت اور ذلت اور تقویٰ و صلاح کے اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے۔ اسی بات کو کسی نے بہت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے: پہلے یہ نہ پوچھا جائے کہ ہونے والی بیوی نے کس درس گاہ میں تعلیم پائی ہے بلکہ پہلے یہ معلوم کیاجائے کہ اس کی پرورش کس گھرانے میں ہوئی ہے۔
حضرت عثمانی بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کو شادی کے معاملہ میں یہ وصت کی کہ : اے میرے بیٹے! نکاح کرنے والی کی مثال ایسی ہے جیسے بیج بونے والا، اس لئے انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کہاں بیج ڈال رہا ہے۔ بری ذات و نسل کی عورت بہت کم شریف و نجیب بچہ جنتی ہے، اس لئے شریف النسل لڑکی کا انتخاب کرو چاہے اس میں کچھ وقت کیوں نہ لگے۔ داماد کیسا ہونا چاہئے ؟ :لڑکیوں کا رشتہ ناتہ کرتے وقت یہ بات دیکھنی چاہئے کہ لڑکا اور داماد با اخلاق ہو، اس لئے کہ ایسا شخص اپنی بیوی کا حق بھی پہچانے گا اور اس کو آرام و سکون سے رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اور اسی طرح خادندان کی دیکھ بھال، بیوی کے حقوق اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری کو مکمل طور پر ادا کرتا ہے۔ اگر کسی کے پاس مال و دولت تو بہت کچھ ہو، لیکن دین اور اخلاق نہ ہو تو وہ شخص اپنی بیوی کا حق ہی نہیں پہچانے گا اور اس کے ساتھ وفاداری کیا کرے گا۔ افسوس ہے کہ اب یہ پیمانہ بہت کم خاندانوں میں رہ گیا ہے، اب اگر کوئی پیمانہ رہ گیا ہے تو صرف مادی اور مالی پیمانہ ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو دین داری کو اہمیت دیتے ہیں ، چنانچہ اگر لڑکی والوں کو کہا جائے کہ لڑکا زنا کا عادی ہے تو کہتے ہیں کہ شادی کے بعد سدھر جائے گا اور کہا جائے کہ نماز کا پابند نہیں تو کہتے ہیں کہ ابھی جوان ہے ، بعد میں پابندی کرلے گا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اورکچھ زیادہ مالدار نہیں ہے تو ان کا منہ بن جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی نیک اور اچھی سیرت کا مالک ہو۔)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ جس وقت کہ پیغام بھیجے نکاح کا طرف تمہارے وہ شخص کہ راضی ہو تو اس کےدین سے اور اس کے خلق سے پس نکاح کرو اس سے اگر نہ کرو گے تم نکاح تو ہوگا فتنہ زمین میں اورفساد بڑا۔ ‘‘(مظاہرحق، جلدسوم، ص۱۰۴)
ایک نیک اور شریف عورت کیلئے یہ بہت بڑا فتنہ ہے کہ اس کا رشتہ ایسے شخص سے کردیا جائے جو آزاد خیال، فاسق، مغرب زدہ یا ملحد ہو، کیونکہ وہ اسے بے پردگی، بے غیرتی اور دوسرے گناہوں پر مجبور کرے گا اور بالآخر اس نیک و شریف عورت کا دین و اخلاق تباہ و برباد ہوجائے گا۔سلف صالحین کا طریقہ: سلف صالحین کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ جب ان کی اولاد سن بلوغ کو پہنچتی اور وہ نکاح کے قابل ہوتی تو وہ ان کیلئے نیک، شریف اور دین دار گھرانوں میں ان کیلئے شادی کی بات کرتے، بہت زیادہ تکلفات اور مال داری کے بجائے شرافت اور نیکی کو معیار بناکر جلد از جلد رشتہ طے کرکے نکاح اور رخصتی کردیتے۔ تاریخ کی کتابوں سے بطور نمونہ سلف صالحین حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ کا واقعہ امت کے لئے مشعل راہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابو دائود رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں حضرت سعیدبن مسیّب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر رہا کرتا تھا ، اتفاق سے میں کچھ روز حاضر خدمت نہ ہوسکا، آپ نے میری غیر حاضری کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا۔ جواب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ میں نے عرض کیا: میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا، میں اس کی تجہیز و تکفین میں لگا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، میں بھی شریک ہوجاتا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ نے فرمایا:
پھر تم نے کوئی اور لڑکی دیکھی؟ میں نے عرض کیا:
خدا آپ کا بھلا کرے، بھلا مجھ سے کون نکاح کرے گا؟ میرے پاس شاید دو تین درہم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا:
میں اپنی بیٹی سے تمہارا نکاح کراتا ہوں۔ میںنے کہا: آپ نکاح کروائیں گے؟
آپ نے کہا :
ہاں!
چنانچہ اسی وقت آپ نے خطبہ پڑھا، خدا کی حمدو ثنا بیان فرمائی، درود شریف پڑھا اور دو یا تین درہم مہر پر میرا نکاح کرادیا، میں آپ کی مجلس سے اٹھا تو مارے خوشی کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھاکہ میں کیا کروں؟ پھر میں نے اپنے گھر کی راہ لی اور راستہ میں سوچنے لگا کہ کسی سے کچھ قرض لوں، کسی سے کوئی ادھار لوں، پھر میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور اپنے گھر لوٹا، گھر پہنچ کر میں نے چراغ جلایا، میرا روزہ تھا، اس لئے افطار کیلئے کھانا اپنے سامنے رکھا، میرا کھانا کیا تھا، روٹی اورزیتون کا تیل تھا، اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹارہا ہے، میںنے کہا: کون ہے؟ آواز آئی، میں سعید ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میںنے سعید نامی ایک ایک آدمی کا تصور کیا کہ یہ کون سعید ہوسکتا ہے؟ لیکن سعید بن مسیّب کی طرف میرا ذہن بھی نہیں گیا۔ کیونکہ چالیس سال کا عرصہ ان پر ایسا گزرا کہ وہ گھر سے مسجد کے علاوہ کہیں نہیں نکلے، نہ کہیں گئے۔ میں لپک کر دروازہ پر پہنچا، دیکھا تو حضرت سعید بن مسیّب تشریف فرماہیں، مجھے وہم ہوا کہ شاید آپ کا ارادہ بدل گیا ہے، میں نے عرض کیا:
ابو محمد! (یہ حضرت سعید رحمہ اللہ کی کنیت ہے) اگر آپ اطلاع کردیتے تو میں خود آجاتا، آپ نے فرمایا:
نہیں، تم اس کے زیادہ مستحق تھے کہ تمہارے پاس آیا جائے۔ میں نے عرض کیا : کہئے کیا حکم ہے ؟ انہوںنے فرمایا: تم غیر شادی شدہ تھے، اب تمہاری شادی ہوگئی ہے، اس لئے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ تم رات تنہا گزارو۔ یہ تمہاری بیوی حاضر ہے، میں نے دیکھا کہ آپ کی صاحبزادی یعنی میری اہلیہ آپ کے ٹھیک پیچھے کھڑی ہیں ، آپ نے صاحبزادی کو دروازے سے اندر داخل کیا اور خود لوٹ کر تشریف لے گئے۔راوی کہتے ہیں : اب میں نے ان سے تخلیہ کیا، میں نے دیکھا کہ حسن و جمال میں وہ یگانہ روزگار تھیں، لوگوں سے کہیں زیادہ انہیں کلام پاک یاد تھا، احادیث نبوی ﷺ ان کے نوک زبان پر تھیں، اور سب عورتوں سے کہیں زیادہ شوہر کے حقوق سے انہیں کامل واقفیت حاصل تھی۔ حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ کی اس صاحبزادی سے خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید بن عبدالملک کیلئے پہلے سے پیغام بھیجا تھا، ان دنوں ولید ولی عہد تھا، لیکن حضرت سعید رحمہ اللہ نے انکار فرمادیا۔ اس واقعہ سے یہی سبق ملتا ہے کہ مال داری کی بجائے دین داری اور شرافت کو معیار بنانا چاہیے۔
(بشکریہ ختم نبوت)
By S A Sagar

عشاء کی نماز کا وقت

عشاء کی نماز کا وقت
سوال: محترم المقام مفتی صاحب
السلام علیکم 
بعد سلام مسئلہ یہ ہے کہ پشاور میں عشاء کا وقت اوقات صلات کے نقشوں کے مطابق نو بجکر تیرہ منٹ (9:13) پر داخل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بعض مساجد میں پونے نو (8:45) بجے اذان ہوتا ہے اور نو (9:00) بجے جماعت ہوتی ہے۔ کیا یہ اذان اور نماز ہوجاتی ہے یا اس کی قبل ازوقت ہونے کی وجہ سے اعادہ ضروری ہے؟
جواب: وعليكم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ 
اذان و نماز دونوں نماز کا وقت ہونے کے بعد ہونی چاہئے،
وقت سے پہلے دی ہوئی اذان معتبر نہیں پھر سے دینی ہوگی۔
اور وقت سے پہلے سرے سے نماز ہوگی ہی نہیں اور عشاء نہ ہوئی تو تراویح بھی نہ ہوگی، پس اسطرح ہرگز نہیں کرنا چاہئے
سوال: ویسے مستفتی کو چاہئے سوال مکمل پوچھے.. پوچھنا یہ چاہئے کہ پشاور میں شفق ابیض 15 :9 پر غروب ہوتی ہے جبکہ شفق احمر آدھا گھنٹہ پہلے. تو کیا شفق احمر کے بعد کوئی عشاء کی نماز پڑھے تو ہوجاتی ہے؟
ابو زید السروجی
جواب: صورت مسئولہ میں شفق احمر کے غروب ہوجانے کے بعد عشاء کی نماز ادا کرلینے کی گنجائش ہے عملا بقول الصاحبین فی مواقع العذر وفی اعلاء السنن ۲/۱۱ (طبع ادارۃ القرآن کراچی)، و فی البحر الشفق ھو البیاض عند الامام الی ان قال فثبت ان قول الامام ھو الاصح ولا یعدل عنہ الی قولھما او قول احدھما او غیرھما الا لضرورۃ من ضعف دلیل او تعامل بخلافہ کالمزارعۃ و ان صرح المشایخ بان الفتویٰ علی قولھما کما فی ھذہ المسئلۃ، و فی السراج الوھاج فقولھما اوسع للناس و قول ابی حنیفۃ احوط۔
از فتاوی عثمانی
العبد محمد اسلامپوری
...............
سوال # 19712
مجھے معلوم کرنا تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت کب تک رہتا ہے اور عصر کی نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے، کب تک رہتاہے؟
Published on: Mar 6, 2010 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 420=343-3/1431
آفتاب غروب ہوجانے کے بعد آسمان میں سرخی پچھم کی سمت میں ہوتی ہے، اُس کو شفق احمر کہتے ہیں، وہ ختم ہوتی ہے تو اس کی جگہ سفیدی آتی ہے، اس کو شفق ابیض کہتے ہیں، پھر کچھ دیر بعد وہ بھی غائب ہوجاتی ہے، نماز مغرب کا وقت آفتاب کے غروب ہونے سے لے کر شفق ابیض کے غائب ہونے تک رہتا ہے۔
(۲) ٹھیک زوال کے وقت ہرچیز کا جو سایہ ہوتا ہے، وہ سایہ اصلی کہلاتا ہے جب سورج سمت مغرب میں ڈھلے گا تو یہ سایہ بڑھتا رہے گا، بڑھتے بڑھتے اُس چیز کے دو مثل (علاوہ سایہ اصلی کی مقدارکے) جب سایہ ہوجائے تو عصر کا وقت شروع ہوتا ہے اور اصفرار شمس ہونے پر مکروہ ہوجاتا ہے، پس عصر کی نماز اصفرار (دھوپ کا پیلی اور کمزور ہوجانا) سے اتنی دیر پہلے اداء کرلی جائے کہ اگر نماز فاسد ہوجائے تو اصفرارِ شمس سے پہلے دوبارہ پڑھ لی جائے، اگر اس کے بعد پڑھی تو غروبِ آفتاب تک اگرچہ اداء ہی ہوگی مگر مکروہ ہے، یعنی غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ لی تو اداء ہی کا حکم عصر پر لاگو ہوگا۔ 
....................
سوال # 24528
میں پانچوں نماز کے وقت ختم ہونے کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں، فجر کا وقت تو معلوم ہے، سورج نکلنے سے پہلے، ظہر کا وقت کب تک رہتاہے؟ یعنی عصر کی اذان سے کتنے پہلے تک؟ اور عصر کا وقت مغرب سے کتنے پہلے ختم ہوجاتاہے؟ مغرب کا عشاء سے کتنے پہلے؟ اور عشاء کا وقت کب تک رہتا ہے؟
Published on: Aug 5, 2010
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 1659=1217-8/1431
سایہٴ اصلی کے علاوہ ہرشے کا سایہ دو مثل ہوجانے پر ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے البتہ جب آفتاب بہت نیچا ہوجائے اور دھوپ کمزور اور پیلی پڑجائے تو وقتِ مکروہ داخل ہوجاتا ہے باقی غروب تک وقت اداء ہی ہوتا ہے اور غروبِ آفتاب ہوتے ہی وقتِ مغرب شروع ہوجاتا ہے اور سمتِ پچھم میں شفق احمر (سرخی) رہتی ہے، پھر وہ غائب ہوکر شفق ابیض (سفیدی) آجاتی ہے اس کے غائب ہوجانے پر مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے،اوراس کے بعد عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور ایک تہائی رات تک وقت عشاء مستحب رہتا ہے اور اس کے بعد مباح اور آدھی رات کے بعد مکروہ وقت ہوتا ہے، یہ تفصیل بحساب گردش لیل ونہار اور رفتارِ سورج کو ملحوظ رکھ کر ہے، کتب فقہ وفتاوی میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ لکھ دیا گیا۔ البتہ گھڑی گھنٹوں کے اعتبار سے معتبر نقشوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
..................
سوال # 1866
عشا کی نماز کے لیے بہترین وقت کیا ہے؟ تاخیر ہونے کی صورت میں کب تک عشا کی نماز کی پڑھی جا سکتی ہے؟ فجر سے پہلے اگر دوگھنٹے ہوں تو عشا کی نماز کی پڑھ سکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو مکمل یا فرض اور وتر؟
Published on: Nov 7, 2007 
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 599/ م= 594/ م
گرمی میں عشاء کی نماز میں تعجیل اولیٰ ہے یعنی عشاء کا وقت شروع ہونے کے بعد اول وقت میں عشاء کی نماز ادا کرلی جائے اور سردی میں تاخیر افضل ہے یعنی وقت شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کی جائے، اور عشاء کی جماعت اتنی تاخیر سے کرنا مکروہ ہے کہ جس کی وجہ سے جماعت فوت ہونے یا تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، درمختار میں ہے: وتاخیر عشاء إلی ثلث اللیل قیدہ في الخانیة وغیرھا بالشتاء، أما الصیف فیندب تعجیلھا اور تاخیر ہونے کی صورت میں عشاء کی نماز فجر سے پہلے تک پڑھی جاسکتی ہے، یعنی عشاء کی ادا نماز کا وقت مغرب کا وقت ختم ہونے سے لے کر فجر کا وقت شروع ہونے تک ممتد رہتا ہے، کما في الدر المختار: و وقت العشاء والوتر منہ إلی الصبح، وفي رد المحتار: قولہ منہ أي من غروب الشفق علی الخلاف فیہ لہٰذا اگر فجر سے پہلے دو گھنٹے ہوں تو بلاشبہ عشاء کی نماز پڑھ سکتے ہیں اور مکمل نماز پڑھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
............
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں اگر عشاء کی اذان سے پیشتر سو جاؤ پھر عشاء کا وقت باقی ہو، تب آنکھ کھلے، تو بھی عشاء بہرحال قضا ہوگئی، کیونکہ سو کر اٹھنے کے بعد تہجد کا وقت شمار ہوگا؟ اور اب جو عشاء پڑھی تو وہ قضا ہی شمار ہوگی، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عشاء کی اذان سے پیشتر کوئی سو جائے پھرجب آنکھ کھلے تو عشاء کا وقت اگرچہ باقی ہو لیکن اس کی عشاء کی نمازقضاء ہوگئی کیونکہ سوکر اٹھنے سے تہجدکا وقت شمارہوتا ہے تو ان لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ طلوعِ فجر تک عشاء کا آخری وقت باقی رہتا ہے اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا پھر طلوعِ فجر سے پہلے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لے تو وہ نمازادا شمارہوگی ،قضاء شمار نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ عشاء کا آخری وقت ہے۔ البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لیا کرے تاکہ کراہت نہ ہو۔ 
فقط واللہ اعلم

Wednesday, 30 May 2018

अज़्दहा और किंग कोबराازدہا اور کنگ کوبرا


کیا خوب فوٹوگرافی ہے 
اس میں دو سانپوں کو دکھایا گیا ہے جس میں ایک اژدھا ہے جو کہ پکڑ اور گرفت میں کمال مہارت رکھتا اور دوسرا کنگ کو برا کو انتہائی زہریلا سانپ ہے یہ تصویر ایک تو فوٹوگرافر کی کمال مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے دوسری طرف یہ ہمارے لیے بہت سے پیغامات اپنے اندر سموۓ ہوۓ ہے. یہ تصویر دونوں سانپوں کی مردہ حالت کی ہے یعنی کوبرا اژدھے کی گرفت میں آکر جان کی بازی ہار گیا اور اژدھا کوبرا کے زہر کے سامنے نہ ٹک سکا 
فرقہ واریت انہی دونوں سانپوں کی مثال ہے جو کلمہ گو لوگوں کو ایک خدا ایک نبی ﷺ اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے کی طاقت کو اپنے ہی خلاف استعمال کرواتی ہے 
نقصان آخر کس کا ہوتا ہے یہ اس تصویر سے بھی ظاہر ہے۔ قرآن سنت سے دوری اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کے بعد بڑی وجہ ہے وہ دین فروش عناصر ہیں جو ان معصوم ذہنوں میں اپنے ہی مسلمان بھاٸیوں کے خلاف زہر بھرتے ہیں اور آج حالت یہ ہے ہم کسی غیر مسلم کو اپنے ساتھ برداشت کر سکتے ہیں جو ہمارے آقا ﷺ کو بھی ماننے سے انکاری ہے لیکن کسی غیر مسلک کو برداشت نہیں کرسکتے اس کہ وجہ کیا ہے ہم نے اللہ کہ رسی کو چھوڑ دیا ہے بلکہ ہمیں وہ رسی نظر ہی نہیں آتی 
دین اسلام کی غلبہ کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ فرقہ واریت ہے ہم دین کی ترویج کیلیے کچھ کریں یا نہ کریں اپنے مسلک کاپرچار ضرور کرتے ہیں کیا 
یہی وجہ ہے ہم نے مسلمان کم اور کافر زیادہ بناۓ ہیں


क्या खूब फोटोग्राफी है...  इसमे दो सांपों को दिखाया गया है जिसमे एक "अज़्दहा" है जो के पकड़ और गिरफ्त में कमाल महारत रखता है और दूसरा "किंग कोबरा" को इंतिहाइ ज़हरीला सांप है. ये तस्वीर एक तो फोटोग्राफी की कमाल महारत का मुंह बोलता सबूत है दूसरी तरफ ये हमारे लिए बहुत सारे पैगामात अपने अंदर समोए हुए है। ये तस्वीर दोनों सांपों की मुर्दा हालत की है, यानी "कोबरा" "अज़्दहा" की गिरफ्त में आकर जान की बाज़ी हार गया और अज़दाह कोबरा के ज़हर के सामने ना टिक सका।
फिरकावारियत इन्ही दोनों सांपों की मिसाल है जो कालिमा गो लोगों को एक खुदा एक नबी ﷺ और एक किताब के मानने वाले है आपस में लड़वा कर एक दूसरे की ताक़त को अपने ही खिलाफ इस्तिमाल करवाते है।
नुकसान आखिर किसका होता है ये इस तस्वीर से भी ज़ाहिर है, क़ुरआन सुन्नत से दूरी इसकी सबसे बड़ी वजाह है और उसके बाद बड़ी वजाह है वह दीन फरोश उलमा जो इन मासूम ज़हनों में अपने ही मुसलमान भाइयों के खिलाफ ज़हर भरते है और आज हालत ये है हम किसी गैर मुस्लिम को अपने साथ बर्दाश्त कर सकते है जो हमारे आक़ा ﷺ को मानने से इंकारी है।
लेकिन किसी गैर मसलक को बर्दाश्त नही कर सकते इसकी वजह क्या है हमने अल्लाह के रसूल  को छोड़ दिया है बल्कि हमें वह रस्सी नज़र ही नही आती। दीने इस्लाम की गलबे की सबसे बड़ी रुकावट ये फिरकावारियत है हम दीन की मेहनत के लिए कुछ करे या ना करे अपने मसलक का प्रचार जरूर करते है...
क्या यही वजह है हमने मुसलमान कम औऱ काफ़िर ज़ियादा बनाए है!!

نماز میں قرات کی کس قسم کی غلطی سے نماز فاسد ہوجاتی ہے

نماز میں قرات کی کس قسم کی غلطی سے نماز فاسد ہوجاتی ہے

سوال: نماز میں قرات کی کس قسم کی غلطی سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؟
نیز قرات غلط کرنے کے بعد فورا درست کرلے تو کیا حکم ہے؟ کیا تراویح اور عام نمازوں میں قرات کی غلطی نماز میں یکساں اثر انداز ہونگی یا تراویح اھون ہے. رہنمائی فرمائیے گا.

الجواب حامداومصلیاً:

قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر قرأت میں ایسی غلطی ہو جس سے تغیر فاحش ہوجائے تو نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں، تغیر قرأت کی چند مشہور اقسام مع احکام یہ ہیں:

۱. ایک کلمہ کے ایک حرف کو دوسرے کلمہ کے حرف سے ملا دینا جیسے اِیَّاکَ نَعبُدُ کو اِیَّا، کَنَعبُدُ پڑھا تو صحیح یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی

۲. ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دینا اگر معنی نہ بدلیں مثلاً اِنَّ المُسلِمِینَ کو اَنَّ المُسلِمُونَ پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر معنی بدل گئے تو اگر ان میں فرق کرنا آسان ہے اور پھر فرق نہیں کیا جیسے طالحات کی جگہ صالحات پڑھ دیا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر فرق کرنا مشکل ہے تو فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی مگر صحت کی کوشش کرتا رہے

۳. کسی حرف کا حذف کردینا اگر ایجاز و ترخیم کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہ ہوگی اس کے علاوہ ہو تو معنی بدلنے پر نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں

۴. کسی ایک یا زیادہ حرف کی زیادتی، اگر معنی بدل جائیں تو نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں

۵. ایک کلمہ کو چھوڑکر اس کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھا اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں ہے اور معنی میں تغیر نہیں ہوتا تو بالاتفاق نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر معنی میں تغیر ہے تو نماز فاسد ہوگی اور اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں نہیں ہے لیکن معنی میں اس کے قریب ہے تو احتیاطاً نماز فاسد ہوگی

۶. ایک کلمہ کو چھوڑ گیا اور اس کے بدلے میں بھی کوئی کلمہ نہیں پڑھا تو اگر معنی نہیں بدلے تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی بدل گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی

۷. کوئی کلمہ زیادہ کرنا اور وہ کسی کلمے کے عوض میں بھی نہ ہو، پس اگر معنی بدل جائیں تو نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں

۸. حرف یا کلمے کی تکرار، پس اگر حرف کی زیادتی ہوگی تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر کلمے کی زیادتی ہوگی تو معنی بدل جانے پر نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں اگر کلمہ بےساختہ دوبارہ نکل گیا یا مخرج کو صحیح کرنے کے لئے کلمے کو دوبارہ کہا یا کوئی بھی ارادہ نہ کیا تو نماز فاسد نہ ہوگی

۹. کلمہ یا حرف کی تقدیم و تاخیر، اگر معنی نہ بدلے تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر معنی بدل گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی

۱۰. ایک آیت کو دوسری کی جگہ پڑھ دینا اگر آیت پر پورا وقف کرکے دوسری آیت پوری یا تھوڑی سے پڑھی تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر وقف نہ کیا بلکہ ملا دیا تو معنی بدل جانے کی صورت میں نماز فاسد ہوگی ورنہ نہیں

۱۱. بے موقع وقف و وصل و ابتدا کرنا، عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اسی پر ہے کہ کسی صورت میں نماز فاسد نہ ہوگی

۱۲. اعراب و حرکات میں غلطی کرنا، متقدمین کے نزدیک اگر معنی میں بہت تغیر ہوا تو نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں اس میں احتیاط زیادہ ہے اور ایسی نماز کو لوٹا لینا ہی بہتر ہے اگرچہ متاخرین کے نزدیک کسی صورت میں بھی نماز فاسد نہ ہوگی اور عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے

۱۳. تشدید کی جگہ تخفیف اور تخفیف کی جگہ تشدید کرنا یا مد کی جگہ قصر اور قصر کی جگہ مد کرنا اس میں بھی اعراب کی طرح عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی

۱۴. ادغام کو اس کے موقع سے چھوڑ دینا یا جہاں اس کا موقع نہیں ہے وہاں ادغام کرنا اس میں بھی نماز فاسد نہیں ہوگی

۱۵. بے موقع امالہ یا اخفا یا اظہار یا غنہ وغیرہ کرنا ان سب میں بھی نماز فاسد نہیں ہوگی

۱۶. کلمے کو پورا نہ پڑھنا خواہ اس سبب سے کہ سانس ٹوٹ گیا یا باقی کلمہ بھول گیا اور پھر یاد آنے پر پڑھ دیا مثلاً الحمد اللہ میں ال کہہ کر سانس ٹوٹ گیا باقی کلمہ بھول گیا پھر یاد آیا اور حمداللہ کہہ دیا تو فتویٰ اس پر ہے کہ اس سے بچنا مشکل ہے اس لئے نماز فاسد نہ ہو گی، اسی طرح کلمے میں بعض حروف کو پست پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی

۱۷. تحسین (راگنی) سے پڑھا یعنی نغموں کی رعایت سے حروف کو گھٹا بڑھا کر پڑھا تو اگر معنی بدل جائیں نماز فاسد ہوجائے گی ورنہ نہیں لیکن ایسا پڑھنا مکروہ اور باعث گناہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے

۱۸. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تانیث داخل کرنا، بعض کے نزدیک اس سے نماز فاسد ہوجائے گی بعض کے نزدیک فاسد نہیں ہوگی.

فائدہ: اگر کسی نے قرأت میں کھلی ہوئی غلطی کی پھر لوٹاکر صحیح پڑھ لیا تو اس کی نماز جائز و درست ہے.

قرآن کریم کو سمجھے بغیر پڑھنا

قرآن کریم کو سمجھے بغیر پڑھنا
عالم مشاہدہ اور عالم غیب کی مقدس اور عظیم ترین مخلوقات؛ کعبہ، انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام، عرش، کرسی، لوح وقلم، مقرب فرشتے، جنت اور اس کی تمام نعمتوں میں بطور خاص "قرآن مجید" ہی وہ واحد کلام  ہے جو مخلوق ہونے کی بجائے راست "کلام خداوندی" اور اس کی "حقیقی صفت" ہے۔
اس کا تعلق براہ راست ذات باری تعالی کے ساتھ قائم ہے۔
قرآن کی یہی حیثیت اسے دیگر مقدسات اسلام سے ممتاز کرتی ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے انسانوں کو اپنی ذات سے قریب کرنے کے لئے اپنے کلام کی "تلاوت محضہ"  کی ترغیب دے کر سب سے پہلے اپنے کلام کا گرویدہ بنایا۔
جب کلام ربانی کی قرات و تلاوت  کا شغف پیدا ہوجائے گا تو یہی جذبہ قاری کو  غور وتدبر کی طرف بھی لے جائیگا جو اصل مقصود ہے ۔
الفاظ ونقوش سے رغبت کے بغیر معانی ومفاہیم میں تدبر ممکن نہیں ۔بلکہ اس سے تنفیر کا سبب بنے گا ۔
دیگر آسمانی کتابیں تحریف وتبدیل سے اس لئے نہ محفوظ نہ رہ سکیں کہ ان کے الفاظ ونقوش یاد کرنے یا پڑھنے کی اس قدر ترغیب نہ دی گئی۔
اسی لئے اسلام نے قرآن کریم سے شغف رکھنے اسے پڑھنے اور دہرانے کو ذکر ودعاء تسبیح وتہلیل سے بھی زیادہ افضل عمل بلکہ عبادت  قرار دیا ہے:
انّ افضل عبادة امتی قرأة القرآن (اتقان،ج۱،ص۱۳۷)
(میری امت کی سب سے افضل ترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے)
ایک حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے:
عن أبي سعيد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول الرب تبارک وتعالیٰ: من شَغَلَہ القرآنُ عن ذکری ومسئلتی اعطیتُہ افضلَ ما اُعطی السائلین وفضل کلام اللّٰہ علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ (ترمذی بحوالہ فضائل قرآن، ص:۸ )
ذکر، دعا اور درود شریف میں سے  امام نووی نے قراء تِ قرآن کو افضل  قرار دیتے ہو ئے اسے کبار علماء کا پسندیدہ  ومعتمد قول قرار دیا ہے؛ ( التبیان، ص۲۴۔)
قرآن پڑھنا عبادت مقصودہ ہے:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی ذیل کی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ صحیح تلفظ کے ساتھ صرف تلاوت بھی عبادت ہے۔
انّ افضل عبادة امتی قرأة القرآن( اتقان،ج۱، ص۱۳۷ )
غور وتدبر اور سمجھ کی شرط لگائے بغیر محض بندگی اور رضائے رب کے طور پر ادا کئے جانے ہر عمل کو عبادت کہتے ہیں:
العِبَادَةُ : الخضوع للإله على وجْه التعظيم۔
حقيقة العبادة
التذلل الكامل لله تعالى مع كمال المحبة له، وكمال الخضوع، والاستسلام، والخوف، والتواضع لله عز وجل، كما أنّها المُضِّي في هذه الحياة وِفق شرع الله تعالى وابتغاء مرضاته.
العبادةمعناها لغة: التذلل، والخضوع، والطاعة.
ومعناها شرعاً: الخضوع والتذلل لله تعالى وحده تعظيماً له،
(المعجم الوسيط)
شریعت میں جس چیز کو عبادت کہا جائے اسے سمجھ کر بجالانے کی لازمی  شرط  فضول ہے ۔بس کمال محبت کے ساتھ اظہار بندگی کے طور پر اسے بجالانا ہی مقصود عبادت اور شان ربوبیت کا تقاضہ ہے۔
جب قرآن پڑھنے کو زبان رسالت مآب سے عبادت کہا گیا تو اب جہت عبادت کے لئے سمجھ کر پڑھنے کی شرط لگانا ضلالت ہے یا نہیں ؟؟؟
قرآن کریم کے بنیادی حقوق:
قرآنِ کریم کے بنیادی حقوق یہ ہیں :
(۱) اس کے حق ہونے پر ایمان ویقین۔
(۲) اس کی تلاوت۔
(۳) اس کا ادب واحترام۔
(۴) اس کو سمجھنے کی کوشش۔
(۵) اس پر مکمل عمل۔
ان حقوق خمسہ میں دوسرے نمبر کا حق "تلاوت" بہت ہی اہم عبادت ہے۔ اس پہ اسلام میں کافی زور دیا گیا ہے ۔حضور کی اولیں ذمہ داری اسے قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں، قرآن کی تلاوت سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے، تلاوت سے اللہ کی محبت میں ترقی ہوتی ہے، یہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
حضرت انس بن مالک سے مَروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں:
”إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يُحَدِّثَ رَبَّهُ تَعَالَى فَلْيَقْرَأْ“
جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے باتیں کرنا چاہے تو اُسے چاہیئے کہ قرآن کریم پڑھے۔ (أخرجہ الخطیب فی تاریخہ : 8/164) (کنز العمال : 2257)
یہ حدیث صاف بتارہی ہے کہ یہ صرف قرآن کا اعزازوامتیاز ہے کہ اسے فہم معانی کے بغیر پڑھنا بھی قربت وطاعت ہے ۔
حضرت ابوہریرہ کی روایت میں تلاوت قرآن کو سب سے بڑی عبادت قرار دیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:
”أَعْبَدُ النَّاسِ أَكْثَرُهُمْ تِلَاوَةً لِلْقُرآنِ“
لوگوں میں سب سے بڑا عبادت گزار وہ ہے جو سب سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والاہے۔ (کنز العمال : 2260)
حضرت اُسیر بن جابر کی روایت میں قرآن کریم کی تلاوت کو  سب سے افضل عبادت قرار دیا گیا ہے:
”أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ قِرَاءَةُ الْقُرآنِ“
سب سے افضل عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہے۔ (کنز العمال : 2263)
حضرت نعمان بن بشیر کی روایت میں تلاوت قرآن کو سب سے افضل عبادت قرار دیا گیا ہے:
حضرت نعمان بن بشیر سے مَروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
”أَفْضَلُ عِبَادَةِ أُمَّتِي قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ“
میری امّت کی سب سے افضل عبادت قرآن کی تلاوت ہے۔ (شعب الایمان :1865)
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے مَروی ہے نبی کریم ﷺ کا اِرشاد ہے:
”مَثَلُ المُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الأُتْرُجَّةِ،رِيْحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ المُؤْمِنِ الَّذِي لاَيَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ،لاَرِيْحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ مَثَلُ الرَّيْحَانَةِ،رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي لاَيَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الحَنْظَلَةِ، لَيْسَ لَهَا رِيْحٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ“
جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اس کی مثال ترنج کی سی ہےکہ اس کی خوشبو بھی عُمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ ہوتا ہے، اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اُس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن شریف نہ پڑھے اُس کی مثال حنظل کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآن شریف پڑھتا ہےاس کی مثال خوشبودار پھول کی ہے کہ خوشبو عُمدہ اور اور مزہ کڑوا۔ (بخاری:5427)
حضرت عبد اللہ بن مسعودنے حضورﷺکا یہ اِرشاد نقل کیاہے:
”مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ،وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَاأَقُولُ:الٰم حَرْفٌوَلٰكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ“
جوشخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے اس کیلئےاس حرف کے بدلےایک نیکی ہےاور ایک نیکی کا اَجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سارا ”الٰمٰ“ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔(ترمذی: 2910)
حضرت عبد اللہ بن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد نقل فرماتے ہیں:
”إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ،كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ“
بیشک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہےجیسا کہ لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! اُس کی صفائی کی کیا صورت ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ“
موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔ (شعب الایمان : 1859)
حدیثِ قدسی میں ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں:
”يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِيْ
وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِينَ“

جس شخص کو قرآن کریم میں مشغولیت کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی مَیں اُس کو تمام دعاء مانگنے والوں سے زیادہ افضل اور بہتر چیز عطاء کرتا ہوں۔ (ترمذی:2926)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
(اِقْرَؤوْ ا الْقُرْآنَ فَاِنَّہ یَأتِْ یَوْمَ الْقِیَاْمَةِ شَفِیْعاً لِأصْحَاْبِہ)
( أخرجه مسلم في صحيحه: حديث/ 804، 1/ 553، وأحمد: حديث/ 22246، 5/ 254، والبيهقي في الصغرى: حديث/ 998، 1/ 547، والطبراني في الأوسط: حديث/ 468، 1/ 150.)

ترجمہ: (قرآن کریم کی]خوب زیادہ [تلاوت کیاکرو، کیونکہ یہ] قرآن [قیامت کے روزاپنے ساتھیوں] یعنی قرآن کی تلاوت کرنے والوں [کیلئے شفیع] یعنی سفارش کرنے والا [بن کرآئیگا)
قرآن پڑھنے کے تین درجے:
1۔۔۔۔۔قرات
زبان سے تلفظ اور نطق کو  لغوی اعتبار سے قرأت کہتے ہیں ۔ فہم معانی کے بغیر تصحیح حروف کے ساتھ قرآن پڑھنے پر بھی اجر وثواب کا ترتب ہوتا ہے۔ قرآن کی مختلف آیتوں میں تلاوت قرآن کا یہ درجہ "قرات قرآن" مذکور ہوا ہے۔ مثلا:
(( فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ فَاسْأَلِ ٱلَّذِينَ يَقْرَءُونَ ٱلْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَآءَكَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ))
وقال الله (( ٱقْرَأْ كِتَٰبَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ ٱلْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيباً ))
وقال الله (( وَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِٱلآخِرَةِ حِجَاباً مَّسْتُوراً ))
وقال الله  (( إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْآنِ ----))
2۔۔۔۔تلاوت
امام راغب لکھتے ہیں:
تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2]
(ت ل و) تلاہ (ن)
کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے۔ اور آیت کریمہ: ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے۔
التِّلاَوَةُ فِي اللُّغَةِ: الْقِرَاءَةُ، تَقُول: تَلَوْتُ الْقُرْآنَ تِلاَوَةً قَرَأْتَهُ، وَتَأْتِي بِمَعْنَى تَبِعَ، تَقُول: تَلَوْتُ الرَّجُل أَتْلُوهُ تُلُوًّا: تَبِعْتَهُ، وَتَتَالَتِ الأُْمُورُ: تَلاَ بَعْضُهَا بَعْضًا. وَتَأْتِي بِمَعْنَى التَّرْكِ وَالْخِذْلاَنِ ۔
وَالتِّلاَوَةُ اصْطِلاَحًا: هِيَ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ مُتَتَابِعَةً .
وَفِي فُرُوقِ أَبِي هِلاَلٍ: الْفَرْقُ بَيْنَ الْقِرَاءَةِ وَالتِّلاَوَةُ: أَنَّ التِّلاَوَةُ لاَ تَكُونُ إِلاَّ لِكَلِمَتَيْنِ فَصَاعِدًا، وَالْقِرَاءَةُ تَكُونُ لِلْكَلِمَةِ الْوَاحِدَةِ، يُقَال قَرَأَ فُلاَنٌ اسْمَهُ، وَلاَ يُقَال تَلاَ اسْمَهُ، وَذَلِكَ أَنَّ أَصْل التِّلاَوَةُ اتِّبَاعُ الشَّيْءِ الشَّيْءَ، يُقَال تَلاَهُ: إِذَا تَبِعَهُ، فَتَكُونُ التِّلاَوَةُ فِي الْكَلِمَاتِ يَتْبَعُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَلاَ تَكُونُ فِي الْكَلِمَةِ الْوَاحِدَةِ إِذْ لاَ يَصِحُّ فِيهَا التُّلُوُّ .
وَقَال صَاحِبُ الْكُلِّيَّاتِ: الْقِرَاءَةُ أَعَمُّ مِنَ التِّلاَوَةُ
( لسان العرب، والمصباح المنير مادة (تلو) .
الكليات 2 / 95.
الفروق لأبي هلال العسكري ص 84)
یعنی تلاوت ، حروف کی واضح ادائی اور فہم معانی کے ساتھ پڑھنے کو کہتے ہیں ۔
یہ لفظ قرآن کریم  میں دیگر معانی میں بھی مستعمل ہے
جیسے :
مطلق قراءة کے معنی میں جیسے  آل عمران/ 93 میں " قل فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين.
اتباع احکام میں جیسے سورہ  الشمس/ 2 میں: والقمر إذا تلاها.
عمل کرنے کے معنی میں،  جیسے  البقرة/ 121 میں: الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته، أي يعملون به حق عمله، قاله مجاهد في تفسيره (1/ 87) .
نقل وروايت کے معنی میں، جیسے  البقرة/ 102 میں: واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان.
وحی بھیجنے کے معنی میں، جیسے (القصص/ 3) میں: نتلوا عليك من نبإ موسى وفرعون بالحق «2» .
لیکن "اتباع احکام" لفظ تلاوت کے  سب سے مشہور معنی ہیں۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَاب َيَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ [البقرة:121]،
میں یہی معنی مراد ہیں۔
علامہ ابن کثیر اور طبری نے ابن مسعود سے یہاں  تلاوت کے معنی یہ نقل کئے ہیں کہ
قرآن کے حلال کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام سمجھا جائے اور من مانی تاویل وتفسیر یا کسی بھی قسم کی تبدیل وتحریف سے اجتناب کیا جائے۔
"تلاوت" اور "قرأت" میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ یعنی ہر تلاوت قرات کہلائے گی لیکن ہر قرات تلاوت کو شامل نہیں۔
3۔۔۔۔۔ترتیل
انتہائی سکون کے ساتھ مرتب، متوازن، معتدل ومتناسب  انداز واسلوب میں پڑھنے کو " ترتیل " کہتے ہیں۔
جس میں حسن تناسب کے ساتھ خوش الحانی وخوش آوازی بھی داخل ہے۔
نزول قرآن کی ترتیب یہی تھی۔
یہ سب سے اعلی وافضل درجہ ہے۔
قال الله الملك (( أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ ٱلْقُرْآنَ تَرْتِيلاً))
وقال المليك ((وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ ٱلْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ [ تَرْتِيلاً] ))
چونکہ نزول قرآن کی کیفیت ترتیل  تھی ۔اس لئے اس کے مقصود ہونے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش یقینا نہیں ہے!
لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء:
اللهم ارزقني تلاوته أناء الليل وأناء النهار
اور شب وروز تلاوت قرآن کو اپنا شغل بنانے والے بندے خدائی نظر میں قابل رشک ہونے کی بات بھی حدیث میں آئی ہے
اس لئے خود صحابہ کرام کا اس بابت اختلاف تھا کہ کثرت تلاوت وختم قرآن افضل ہے یا غور وتدبر اور ترتیل قرآن کے ساتھ پڑھنا ؟؟؟
صحابہ کرام میں دونوں طریقے معمول بہ تھے۔
اختلاد صرف ترجیح میں  ہے۔
امام نووی کی تطبیق بہت ہی عمدہ ہے کہ:
افضلیت میں اختلاف لوگوں کے( فہم وذکاوت میں) اختلاف کی وجہ سے ہے پس جو شخص ایسا ہوکہ دقیق فکروں سے قرآن کے لطائف اور معارف اس پر ظاہر ہوتے ہوں تو اس کو چاہیے کہ تلاوت کی اتنی مقدار پر اکتفاء کرے جس سے اس کو اپنی قرأت میں کمال فہم وتدبر حاصل رہے۔ اسی طرح جو شخص علم کے نشر (جیسے تدریس، تصنیف اور تذکیر) میں، مقدمات خصومات کافیصلہ اور دیگر دینی وملی امور کی انجام دہی میں مشغول ہوتو اسے چاہیے کہ اتنی مقدارِ تلاوت پر اکتفاء کرے جس سے اس کے ضروری کاموں میں خلل واقع نہ ہو اور اگر کوئی مذکورہ لوگوں میں سے نہ ہو تو  پھر جتنا زیادہ ممکن ہو تلاوت کرے بشرطیکہ اکتاہٹ پیدا نہ ہو اور نہ ایسی رفتار سے کہ حروف مخلوط ہونے لگیں اور پڑھا ہوا سمجھ میں  نہ آئے (اتقان،ج۱،ص۱۳۸ عن التبیان۔)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں "لَاَن أقرأ البقرةَ وآل عمران أرتِّلُہما وأتدبَّرُہما أحبُّ اِلیَّ مِن اَن اقرأ القرآنَ کلَّہ ہذرمة" (التبیان،ص۸۹)  
یعنی ترتیل وتدبر کے ساتھ سورئہ بقرہ وآل عمران پڑھوں یہ مجھے پسند ہے اس سے کہ تیز رفتاری سے پورا قرآن پڑھوں۔ حضرت عبیدہ مکی مرفوعاً نقل کرتے ہیں:
"یَا أہلَ القرآنِ لا توسَّدوا القرآنَ واتلوہ حقَّ تلاوتِہ آناءَ اللیلِ وآناءَ النہارِ وافشوہ وتدبَّروا ما فیہ لعلکم تُفلحون "(اتقان،ج۱،ص۱۳۷)
حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے "لا یفقہُ مَنْ قرأ القرآنَ فی اقلِّ من ثلث"ٍ (التبیان)
ہَذْرَمَةٌ کے معنی ”کثرة الکلام“ اور ”السرعة فی القرأة والکلام والمشی“ ہے، جیسے ابن عباس سے منقول ہے لأن اقرأ القرآنَ فی ثلثٍ احبُّ اِلیَّ مِنْ أنْ اقرأہ فی لیلةِ ہذرمةً (لسان العرب،ج۱۵،ص۶۶)۔
بعض صحابہ ایک ہفتہ میں قرآن ختم فرماتے تھے۔ اور تین دن سے کم میں ختم کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ) قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً ... حَتَّى قَالَ (فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ) .
رواه البخاري (4767) ومسلم (1159) .
وعَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ) .
رواه الترمذي (2949) وأبو داود (1390) وابن ماجه (1347) .
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: "اقرؤوا القرآن في سبع، ولا تقرؤوه في أقل من ثلاث" .
رواه سعيد بن منصور في "سننه" بإسناد صحيح كما قاله الحافظ ابن حجر في "فتح الباري" (9 / 78) .
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه أنه كان يكره أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث .
رواه أبو عبَيد في "فضائل القرآن" (ص 89) وصححه ابن كثير في "فضائل القرآن" له (ص 254) .
تین دن سے کم میں ختم قرآن کی ممانعت دوام پہ محمول ہے۔
اماکن مخصوصہ (حرمین طیبین آفاقی کے لئے) اور ازمنہ مخصوصہ (رمضان وشب قدر وغیرہ) میں تین دن سے کم میں ختم قرآن بھی مستحب ہے اور اصحاب رسول کے عمل سے ثابت ہے۔ (لطائف المعارف ص 171)
چونکہ  دیگر صحابہ کرام کا عمل ایک رات میں ختم کرنے کا بھی رہا ہے۔ اس لئے جمہور علماء کے یہاں کثرت تلاوت مستحب عمل قرار پایا "یُستحبُّ الاکثارُ مِنْ قرأةِ القرآنِ وتلاوتِہ" اتقان )
امام نووی تحریر فرماتے ہیں:
قال النووي في الأذكار:
[فصل] : ينبغي أن يحافظ على تلاوته ليلاً و نهاراً، سفراً و حضراً ، و قد كانت للسلف رضي اللّه عنهم عادات مختلفة في القدر الذي يختمون فيه ، فكان جماعةٌ منهم يختمون في كل شهرين ختمة ، و آخرون في كل شهر ختمة ، و آخرون في كل عشر ليال ختمة ، و آخرون في كل ثمان ليالٍ ختمة ، و آخرون في كل سبع ليالٍ ختمة ، و هذا فعل الأكثرين من السلف ، و آخرون في كل ستّ ليال ، و آخرون في خمس ، و آخرون في أربع ، و كثيرون في كل ثلاث ، و كان كثيرون يختمون في كل يوم و ليلة ختمة ، و ختم جماعة في كل يوم و ليلة ختمتين . و آخرون في كل يوم و ليلة ثلاث ختمات ، و ختم بعضهم في اليوم و الليلة ثماني ختمات: أربعاً في الليل ، و أربعاً في النهار: و ممّن ختم أربعاً في الليل و أربعاً في النهار السيد الجليل ابن الكاتب الصوفي رضي اللّه عنه ، و هذا أكثر ما بلغنا في اليوم و الليلة .
و روى السيد الجليل أحمد الدورقي بإسناده عن منصور بن زاذان بن عباد التابعي رضي اللّه عنه أنه كان يختم القرآن ما بين الظهر و العصر ، و يختمه أيضاً فيما بين المغرب و العشاء ، و يختمه فيما بين المغرب و العشاء في رمضان ختمتين و شيئاً ، و كانوا يؤخرون العشاء في رمضان إلى أن يمضي ربع الليل .
و روى ابن أبي داود بإسناده الصحيح أنّ مجاهداً رحمه اللّه كان يختم القرآن في رمضان فيما بين المغرب و العشاء .
و أما الذين ختموا القرآن في ركعة فلا يُحصون لكثرتهم ، فمنهم *عثمان بن عفان، وتميم الدّاري ، و سعيد بن جبير. اه
الاذکار للنووی (ص 102)
کثرت تلاوت کا عمل اسلاف میں:
تاریخی روایات  اس قسم کے واقعات سے بھڑے پڑے ہیں کہ صحابہ و تابعین واسلاف کرام کی زندگیاں تلاوت قرآن کے مشغلے سے لبریز ہیں ۔
چنانچہ اسود بن یزید غیر رمضان میں چھ دنوں میں جبکہ رمضان میں دو راتوں میں قرآن ختم کرتے تھے ۔(سیر اعلام النبلاء للذہبی 4/51 )
سعید بن جبیر رمضان میں عشاء آخر وقت میں پڑھتے اور مغرب وعشاء کے بیچ وہ ایک ختم قرآن کرلیا کرتے تھے (ذہبی 324/4 )
اور اسی کتاب کے صفحہ 325 پہ ان کا عمل دو راتوں میں ایک ختم کرنے کا بھی درج ہے۔
سلام بن ابی  مطیع  کا بیان ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  عموما سات یوم میں ختم قرآن فرماتے جبکہ رمضان میں ہر تین دن میں اور اخیر عشرہ کی ہر ایک رات میں قرآن ختم فرماتے تھے (ذہبی 276/5 )
منصور بن زاذان صبح سے عصر تک میں ایک ختم اور چاشت نماز میں ایک ختم ، اس طرح دن میں دو ختم قرآن فرمالیتے تھے (سیر ذہبی 442/5 )
ہشام بن حسان  مغرب وعشاء کے بیچ ایک  ختم قرآن فرمالیتے تھے (ذہبی 442/5 )
ابن شبرمہ کا بیان ہے
حضرت کرز کو اللہ نے اسم اعظم کا علم عطا فرمایا
جس کی بدولت وہ دن رات میں تین ختم قرآن فرمالیتے تھے (ذہبی 85/6 )
عطاء بن سائب ہر رات ایک ختم قرآن فرماتے تھے (ذہبی 112/6 )
ابو بکر بن عیاش چالیس سالوں تک ہر رات ایک ختم قرآن فرماتے تھے (ذہبی 503/8)
یحی بن سعید قطان روزانہ ایک ختم قرآن کرکے ایک ہزار انسانوں کو ایصال ثواب کرتے تھے (ذہبی 178 /9)
امام شافعی رمضان میں نمازوں میں 60 قرآن ختم فرماتے۔ (ذہبی 83/10 )
ابن عمار ہر تین روز میں قرآن ختم کرتے (ذہبی 166/11 )
بقی بن مخلد رات میں  نوافل  کی 13 رکعتوں میں ختم قرآن کرتے (ذہبی 298/3 )
ابو العاص بن شادل روزانہ ختم قرآن کرتے (ذہبی 263/14 )
شیخ المالکیہ محمد بن عبد اللہ ابو الولید کھڑے کھڑے روزانہ ایک ختم قرآن فرمالیتے (ذہبی 586/17 )
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
ابو بکر بن عیاش نے اپنے کمرہ میں پوری زندگی میں 24 ہزار قرآن کا ختم فرمایا ۔(شرح مسلم للنووی 79/1)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی ہزاروں ختم قرآن کرنا ثابت ہے۔
جس جگہ امام صاحب کا انتقال ہوا صرف وہاں وہ  سات ہزار ختم قرآن فرماچکے تھے۔ بقیہ جگہوں کے ختم علیحدہ ہیں۔ (تاريخ بغداد للخطیب  : 15 / 484)
بغیر فہم کے قرآت قرآن باعث اجر کیوں؟
طور سینا کی مقدس وادی میں خوش قسمت مبارک درخت کے ذریعہ حضرت موسی کو کلام الہی سنایا گیا۔
جو لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں ان کے نصیبہ میں شجرہ موسوی کا یہ شرف آتا ہے
حصول سعادت کے لئے نہ وہاں فہم معانی ضروری تھا اور نہ یہاں ۔
قرآن پاک کوئی قانونی یا اخلاقی وطبی کتاب نہیں کہ اس کی مراد سمجھے بغیر پڑھنا فضول ہوجائے!
دنیا کی تمام کتابوں میں یہ قرآن ہی کا امتیاز ہے کہ اسے سمجھے بغیر پڑھنا بھی  نفع سے خالی نہیں ،بلکہ یہ بھی مستقل عبادت ہے۔اس لئے کہ اللہ کے ساتھ محبت وعبدیت کے تعلق کو ظاہر کرنے والا یہ عمل ہے۔
ہاں کمال نفع اور کماحقہ استفادہ کے لئے کلام کا فہم وتدبر بھی ضروری ہے لیکن رب کی خوشنودی اسی پر موقوف نہیں۔
اگر تدبر ہی ضروری ہوتا تو نماز میں چار بار سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم نہ ہوتا کیونکہ تدبر کے لئے  ایک مرتبہ پڑھنا ہی کافی ہے!
علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ
مَن قرأ حرفا من کتاب اللّٰہ فلہ حسنةٌ والحسنةُ بعشر امثالِہا لا أقول ا لم حرفٌ بل الفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیم حرفٌ۔(ترمذی)
یعنی  کتاب اللہ کے ہرحرف کے پڑھنے پر کم از کم دس نیکیاں ملنے والی حدیث میں بطور مثال جس حرف "الم" کو ذکر کیا گیا ہے، وہ مسمّیٰ نہیں؛ بلکہ اسم ہے یعنی ہر حرف کو الگ الگ اس کے نام سے پڑھا جاتا ہے اور اس طرح کے حروف چند سورتوں کے شروع میں ہیں جنھیں ”حروف مقطعات“ کہتے ہیں تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حرف پر دس نیکیوں کے حصول کی مثال ایسے حرف سے دی جس کے معنی اور مراد آج تک کسی امتی کو معلوم نہ ہوسکے اور نہ کسی حکیم وفلسفی کو اس کا سراغ لگ سکا اورنہ ہی قیامت تک کوئی اسے سمجھ سکتا ہے، حتیٰ کہ مختار قول کے مطابق نبی آخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حقیقت کا علم نہیں دیا گیا۔ (اتقان، ج:۲، ص:۱۱)
یہ نبوی تمثیل یہ بتادینے کے لئے کافی ہے کہ فہم معانی کے ساتھ ترتیلا قرآن پڑھنا اگرچہ افضل واولی ہے تاہم جہت عبادت کا تحقق اس پہ موقوف نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی  ابتدائی ذمہ داری صحابہ وصحابیات کو قرآن پڑھانا تھی۔ آپ قرآن پڑھتے بھی تھے  پڑھاتے بھی تھے ۔جبریل کا دور سننتے اور خود انہیں سناتے بھی تھے۔ رمضان میں یہ تعداد دگنی ہوجاتی ۔صحابہ کو بھی یاد کرواتے، رٹواتے اور پہر بعض صحابہ سے از خود قرآن سنتے تھے ۔
اس یاد کرنے؛ دور سننے، سنانے، رٹنے اور رٹوانے کے عمل میں غور وتدبر قطعی نہیں ہوتا ۔چونکہ یہ عمل ایک عظیم ترین اسلامی ضرورت کی تکمیل یعنی سینوں میں قرآن محفوظ کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ بذات خود نفع بخش اور عبادت مقصودہ ہے۔اگر قرآن کے معانی کا سمجھنا ہی لازم ومقصود ہوتا تو  قرآن میں آیات متشابہات کو کیوں شامل کیا گیا؟؟
جن کے معانی وتاویل اللہ اور راسخین فی العلم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
ان آیات کے معانی کے  پیچھے پڑنے والے کو قرآن نے فتنہ پرور  کیوں کہا؟؟ ۔
الغرض صحت کے ساتھ بغیر سمجھے قرآن پڑھنا مستقل عبادت ہے اور مقصود ہے
احادیث نبویہ اور اجلاء صحابہ سے اس کا عملی توارث وثبوت موجود ہے۔ ہاں غور وتدبر کے ساتھ پڑھنا اولی وافضل ضرور ہے !
کثرت تلاوت کو ضیاع وقت اور فضول شغل کہنا مستشرقین کی گمراہ کن ریشہ دوانی ہے جس کے پس پردہ عزائم  لوگوں کو قرآن سے دور کرنا ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی بیگوسرائیوی
14 رمضان المبارک 1439 ہجری