نئے زمانہ کے پیش آمدہ مسائل جن کا حکم متون اور شروحات وغیرہ میں صراحۃً نہیں ملتا، ان کے متعلق فتوی دینے کے لئے مفتی مقلد کو درج ذیل طریقے اپنانے چاہئے:
۱:…کتب فقہیہ کا گہرائی سے مطالعہ کرے اور اگر کوئی جزئیہ مل جائے تو اس پر فتوی دے۔
۲:…اگر صریح جزئیہ نہ مل سکے اور مفتی بالغ نظر بھی نہ ہو تو اسے مسائل جدیدہ میں خامہ فرسائی نہ کرنی چاہئے، بلکہ معاملہ بڑے مفتی صاحب کے حوالہ کردینا چاہئے۔
۳:…اگر مفتی بالغ نظر ہو اور اصول وقواعد سے بخوبی واقف ہو تو قواعد و نظائر کو سامنے رکھ کر مسئلہ کا حکم بیان کرے۔
۴:…اگر مسئلہ کے متعلق کوئی نظیر یا فقہی قاعدہ دستیاب نہ ہو تو بالغ نظرمفتی براہ راست نصوص شرعیہ سے حکم کا استنباط کرسکتا ہے۔
۵:… تا ہم اس طرح کے مسائل میں ہم عصر علماء سے مشورہ کر لینا بہتر ہے، جلد بازی میں فتوی ہرگز نہ دیا جائے۔
(فتوی نویسی کے رہنما اصول ص ۲۳۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس میں مفتی حضرات کے لئے چند مفید ہدایات ہیں۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا عجیب واقعہ
امام ابو یوسف ؒ امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کی اجازت کے بغیر مسند تدریس پر بیٹھے اور استاذ محترم کو اس کی اطلاع تک نہ دی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو پانچ سوالات لے کر بھیجا، جن کے جواب میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے خطا واقع ہوئی۔
پہلا:… سوال یہ تھا کہ:
ایک دھوبی نے اولا کپڑے لینے سے انکار کردیا، پھر کپڑا دھوکر لایا تو کیا وہ اجرت کا مستحق ہوگا؟
امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا:
ہاں، اجرت کا مستحق ہے۔
سائل نے کہا آپ نے غلط کہا۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
اجرت کا مستحق نہیں۔
سائل نے کہا کہ اب بھی آپ نے غلط کہا۔
پس امام ابو یوسف ؒ متحیر رہ گئے،
پھر سائل نے کہا کہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے، اگر کپڑے کا دھلنا انکار سے پہلے پایا گیا تھا تو اجرت کا مستحق ہوگا ورنہ نہیں۔ یعنی بالاجمال حکم لگانا باطل ہے۔
دوسرا:… سوال یہ تھا کہ:
نماز میں داخل ہونا فرض کے ساتھ ہوتا ہے یا سنت کے ساتھ؟
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
فرض کے ساتھ۔
سائل نے اس کو غلط قرار دیا۔
امام ابو یوسف ؒنے فرمایا سنت کے ساتھ ۔سائل نے اس کو بھی غلط قرار دیا،
پھر سائل نے کہا کہ دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔(تکبیر فرض ہے اور رفع یدین سنت ہے تو فرض و سنت دونوں کے ساتھ ہوا)
تیسرا:… سوال یہ تھا کہ:
ایک ہانڈی چولھے پر رکھی ہوئی ہے جس میں گوشت اور شوربا ہے۔ اڑتا ہوا پرندہ اس میں گرگیا۔ آیا وہ دونوں (گوشت وشوربا) کھائے جائیں گے یا نہیں؟
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
دونوں کھائے جائیں گے۔
سائل نے اس کو غلط قرار دیا۔
اس پر امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
پھر دونوں نہیں کھائے جائیں گے۔
سائل نے اس کو بھی غلط قرار دیا، پھر اس نے بتلایا کہ اگر گوشت پرندے کے گرنے سے پہلے پک چکا تھا، اس کو تین مرتبہ دھوکر کھالیا جائے گا اور شوربے کو پھینک دیا جائے گا، ورنہ کل کو پھینک دیا جائے گا۔
چوتھا:… سوال یہ تھا کہ:
ایک مسلمان کی ذمیہ بیوی تھی جو بحالت حمل مرگئی اس کو کس کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؟
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
مسلمانوں کے قبرستان میں۔
سائل نے کہا کہ آپ نے غلط فرمایا۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا کہ کافروں کے مقابر میں۔
سائل نے اس کو بھی غلط قراردیا،
پھر سائل نے بتلایا کہ یہود کے مقابر میں دفن کیا جائے گا، مگر اس کا چہرہ قبلہ سے پھیر دیا جائے گا تاکہ بچہ کا چہرہ قبلہ کی طرف ہوجائے، چونکہ پیٹ میں بچہ کا چہرہ ماں کی پیٹھ کی طرف ہوتا ہے۔
پانچواں:… سوال یہ تھا کہ:
کسی شخص کی ام ولد اگر بغیر آقا کی اجازت کے نکاح کرلے اور آقا مر جائے تو آیا اس پر عدت واجب ہے یا نہیں؟
امام ابویوسف ؒ نے فرمایا:
ہاں عدت واجب ہے۔
سائل نے کہا آپ نے غلط کہا۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا کہ واجب نہیں۔سائل نے کہا یہ بھی غلط ہے.
جس پر امام ابو یوسف ؒ حیران رہ گئے،
اس کے بعد سائل نے بتلایا کہ اگر شوہر نے اس کے ساتھ دخول کر لیا ہو تب تو عدت واجب نہیں ورنہ عدت واجب ہے۔
اس پر امام ابو یوسف ؒ کو اپنی تقصیر پر آگاہی ہوئی اور شرمندہ ہوئے۔
اسی طرح ’’ الاشباہ والنظائر ‘‘ کے فن ہفتم میں’’ اجازات الفیض‘‘ سے مروی ہے۔
اس واقعہ سے ہدایات
اس حکایت میں ارباب افتاء و علماء کے لئے چند اشارات عجیبہ اور ہدایات مفیدہ ہیں:
۱:… اول یہ کہ: مفتی کو چاہئے کہ سوال کے جواب میں اچھی طرح غورو فکر کرے اور جواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ دیکھو امام ابو یوسف ؒ نے اس سائل کے جواب دینے میں جلدی کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ ندامت اور حسرت اٹھانی پڑی۔
۲:… دوسرا اشارہ یہ ہے کہ:
مفتی کو ہر مسئلہ میں مطلق جواب نہیں دینا چاہئے، ہاں جہاں موقع ہو بیشک اس موقع پر مطلق جواب دے اور جہاں تفصیل کا موقع ہو وہاں تفصیل سے جواب دے، امام ابو یوسف ؒ نے ہر سوال کا جواب مطلق دیا اور کسی جواب میں تفصیل یا شرائط نہیں بتائیں تو ا س کا نتیجہ یہ ہو اکہ امام ابو ایوسف ؒ کو پریشانی اٹھانی پڑی۔
۳:… تیسرا اشارہ یہ ہے کہ:
مفتی اور عالم کے لئے سزا وار نہیں ہے کہ وہ سائل پر سختی اور غصہ کرے، اگر چہ سوال میں سائل سختی اختیار کرے جیسا کہ سائل نے امام ابو یوسف ؒ کو ہر سوال کے جواب میں خطا کار بتلایا۔ اسی طرح ایسی بات سے مفتی کورنج و ملال نہ ہو۔
۴:…چوتھا اشارہ یہ ہے کہ:
ایک عالم و مفتی کے لئے مناسب ہے کہ قائل کے قول کو تسلیم کرے بشرطیکہ وہ حق ہو اور مردوں کی پہچان حق کی وجہ سے کرنی چاہئے نہ کہ حق کی پہچان مردوں سے ہے، چنانچہ امام ابو یوسف ؒ نے ان پانچوں مسائل کا حکم وہ تسلیم کرلیا جس کو سائل نے بیان کیا۔ حق کو اپنے میں منحصر نہیں سمجھا۔
۵:…پانچواں اشارہ یہ ہے کہ:
استاذ اور عالم کے لئے اپنے سے ادنی کا امتحان لینا جائز ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے امام ابو یوسف ؒ کا امتحان لیا۔
نیز روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا امتحان لیا۔
۶:… چھٹا اشارہ یہ ہے کہ:
اپنے سے بڑوں کی موجودگی میں اپنی شہرت کی طرف رغبت نہیں ہونی چاہئے۔جیسا کہ واقعہ سے پتہ چلتا ہے۔
۷:… ساتواں اشارہ یہ ہے کہ:
اپنے نفس کے کمال پر خوش نہیں ہونا چاہئے خواہ کمال از قبیل عبادت ہو یا از قبیل علم۔ (نفع المفتی والسائل اردو ص ۱۱۹و ۱۲۰)
ہندوستان میں کار افتاء
ہندوستان میں جب تک اسلامی حکومت رہی،اس وقت عموما اسلامی قانون رائج رہا، لیکن جب مسلم دور حکومت ختم ہوا ،اسلامی نظام بھی جاتارہا ۔سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے نصرت ربانی و توفیق ایزدی سے اسلامی نظام کی یاد گار کوکسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا (حق تعالی ان کی قبروں کو نور سے بھر دے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان کی روح پر کہ ان کے احسانات سے مسلمانان عالم کی گردن جھکی ہوئی ہے) اس دور میں جن علماء کرام نے افتاء کے فرائض ذاتی طور پر انجام دیئے ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( م ۱۲۳۹ھ) کا نام نامی و اسم گرامی ہے۔
ان نامی گرامی علماء میں حضرت مولانا عبد الحئی فرنگی محلی ؒ ،امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒبھی ہیں۔ ان حضرات اکابر ؒ کے فتاوی ’’فتاوی عزیزی‘‘ و’’مجموعۃ الفتاوی‘‘و ’’فتاوی رشیدیہ‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔
پھر قیام دار العلوم دیوبند کے بعد عوام و خواص کا رجوع مسائل شرعیہ کے حل کے لئے اسی کی طرف ہونے لگا تو مستقل دارالافتاء کی تحریک عمل میں آئی اور جو مرکزیت دیوبند کو حاصل ہوئی ا س کی مثال ملنی نا ممکن نہیں تو مشکل ہے۔
بعد ازاں دارالافتاء کا یہ سلسلہ ہندوستان کے صوبہ صوبہ میں پھیلتا گیا اور اس کا فیض عام ہوگیا، پھر وہ وقت بھی آیا دیوبند کے فیض یافتگاں ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں بغرض دعوت و تبلیغ و دینی خدمت تشریف لے گئے تو وہاں بھی دار الافتاء کا یہ مبارک سلسلہ شروع ہوا۔
لطائف افتاء
علامہ عبد النبی احمد نگری رحمہ اللہ نے فتوی کے سلسلہ میں سات اہم نکات بیان کئے ہیں، جو ایک مفتی کو اپنے پیش نظر رکھنے چاہئے:
(۱)…افتاء :جو در اصل’’ فُتِیَ‘‘ سے ماخوذ ہے ‘باعتبار ثلاثی مجرد کے افعال غیر متصرف میں سے ہے ، اس میں اشارہ ہے کہ ایک مفتی بنیادی اصول اور نصوص میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتا، البتہ فروعات میں تصرف کر سکتا ہے۔
(۲)…افتاء: ایک متعدی فعل ہے، اس لئے مفتی کا علم بھی متعدی ہونا چاہئے۔
(۳)…افتاء: باب افعال سے ہے‘ جو ثلاثی مزید فیہ کے ابواب میں پہلا باب ہے، اس لئے اس میں عبرت یہ ہے کہ جو شخص درجہ افتاء کو پہنچ گیا‘ اس کے سامنے
کامیابی اور مزید ابواب بھی کھلیں گے۔
(۴)… مفتی کے لئے مناسب ہے کہ وہ صاحب فتوت ہو، کیونکہ فتوی اور فتوۃ کے درمیان اخوت ہے، اس لئے مفتی نہ تو فتوی پوچھنے والے سے کسی قسم کا طمع یا لالچ رکھے، اور نہ فتوی کی کثرت سے کسی قسم کے ملال یا بیزاری کا اظہار کرے۔
(۵)…افتاء: کے اول و آخر میں’’الف‘‘ ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ مفتی کو ابتدا سے انتہاء تک امور دین کے بارے میں استقامت و صداقت کا پیکر ہونا چاہئے۔
(۶)…افتاء: کی باعتبار ابجد عددی گنتی ۴۸۲؍ ہے، جس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مفتی کے پاس اصول و فروع کی کتابوں کی تعداد اس سے کم نہ ہو، چنانچہ کتب ظاہر الروایہ کے تفحص و مطالعہ کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کتب افتاء کی تعداد اس عددی گنتی کے برابر ہے۔
(۷)…افتاء: میں پانچ حروف اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مفتی ظاہر الروایہ کی پانچ کتب پر نظر رکھنے کے علاوہ اسلام کے ارکان خمسہ کا بھی پورا پورا خیال رکھے۔
از: افادات حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
(دائرۃ المعارف اردو ص ۱۴۰ ج۱۵۔ فتاوی حقانیہ ص ۵۷ ج۱)