Thursday, 31 March 2016

موت کا خوف اور یادگار بننے کا جنون

ایس اے ساگر

یوں تو دنیا بھر میں انسان کی بنائی ہوئی عظیم تعمیرات کے بیشمار نمونے بکھرے پڑے ہیں لیکن ان میں اہرام مصر ایسے نمونے تسلیم کئے جاتے ہیں جو اپنے دیکھنے والوں کو ان عظیم ہنرمندوں کی یاد دلاتے ہیں جو شاید پراسرار قوتوں کے مالک نہیں تھے،  لیکن اس کے باوجود انھوں نے مصر کے لق و دق  ریگستان میں کاریگری کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی تعمیر، ساخت اور ترتیب پر دنیا آج بھی حیران ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ ششدر ہیں کہ مصر بھر میں اب تک کل 138 اہرام دریافت کئے گئے ہیں جنھیں اندازاً 2,630 قبل از مسیح قدیم بتایا جاتا ہے۔ البتہ قاہرہ سے باہر غزہ کے مقام موجود تین اہراموں خوفو، خافرہ اور مینکاور کا شمار دنیا کے قدیم عجائبات میں ہوتا ہے جن میں سب سے بڑا اہرام خوفو یا بادشاہ چیوپیس کا ہے.

تاکہ لوگ رکھیں یاد :

فرعون خوفو نہ تو جنگجو تھا اور نہ ہی فاتح۔ اس نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ وہ قانون ساز یا عالم بھی نہیں تھا لیکن خوفو نے اس بات کا اہتمام ضرور کیا کہ ہزاروں سال گزر نے کے بعد جب ان گنت بادشاہوں اور شاہی خاندانوں کا نام مٹ جائے تو لوگ اِسے یاد رکھیں۔ یہی سوچ کر اس نے ایسا پرشکوہ مقبرہ تعمیر کیا کہ انسانی ہاتھ اس سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا بناسکے۔ یہی شاہکار اِسے نقش دوام دے گیا۔ خوفو کا ہرم دریائے نیل کے مغربی کنارے سے پانچ میل دور الجزیزہ جیزہ Giza گاوں کے قریب واقع ہے۔ یہ ہرم گویا ایک مصنوعی پہاڑ ہے۔ خوفو نے اسے ’اخت‘ یعنی ’عظیم الشان‘ کا نام دیا۔ یہ نام اس عمارت کی تعمیر کے پچاس صدیاں گزر نے کے باوجود ہرم پر موزوں لگتا ہے۔ خوفو کو تاریخ کا حصہ بنے پانچ ہزار سال گزر چکے۔ وہ مصر کا مشہور فرعون گزرا ہے۔ اس کا دور حکومت ۲۹۰۰ سے ۲۸۷۵ قبل از مسیح رہا۔

یوسف علیہ السلام کے دور میں تھا موجود :

مطلب یہ کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے وزیر کی حیثیت سے کام کیا تو یہ ہرم کافی قدیم ہو چکا تھا۔ وہ یقینا اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اُسے دن کے وقت دمکتے اور رات کو ستاروں سے باتیں کرتے دیکھتے ہوں گے۔ ہرم کے قریب ایک معبد بھی تھا جہاں پروہت دن رات اس بادشاہ کی مناجات کیا کرتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ ہرم آج کی نسبت زیادہ اونچا تھا۔ کیونکہ گزشتہ صدیوں میں اس ہرم کے پتھرقلعہ قاہرہ اور محل تعمیر کرنے میں استعمال کر لیے گئے۔ نرم چونے کے پتھروں یا پالش کئے ہوئے گرینائٹس نے اس کی بالائی سطح کو ڈھکا ہوا تھا لیکن اب ان کابھی وجود باقی نہیں۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی سطح آج بھی متاثر کن ہے۔ ماضی میں ہرم ۴۸۱ فٹ بلند تھا۔ اب اس کی بلندی ۴۵۵ فٹ رہ گئی ہے۔ اس کے نچلے حصے کی چوڑائی ایک سے دوسرے کونے تک ۵۶ فٹ ہے۔ اس کا رقبہ ساڑھے بارہ ایکڑ ہے۔ اس کی تعمیر میں پتھر کے ۲۳ لاکھ بلاک استعمال کئے گئے جبکہ ہر پتھر کا وزن اڑھائی ٹن کے قریب ہے۔ وقت اور انسان کے ہاتھوں شکست و ریخت کے باوجود اس کا رقبہ ۸ کروڑ ۵۰ لاکھ مربع فٹ تک پہنچتا ہے۔

عدم تحفظ کا احساس :

یہ دیوہیکل عمارت کوئی مندر نہیں کہ دیو تاوں کی عظمت کا ثبوت پیش کرے۔ یہ شاہی دربار یا دفاعی نوعیت کی عمارت بھی نہیں، محض ایک مقبرہ ہے۔ پھر بھی خوفو اپنے محل کی کھڑکیوں سے اسے تعمیر ہوتا دیکھ کر یقینا بہت خوش ہوتا ہو گا۔ تاہم خوشی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فن تعمیر کی محبت نے اسے یہ عظیم عمارت بنانے پر اکسایا بلکہ اس کو بنانے سے اسے احساس تحفظ ملا۔ عدم تحفظ کا یہ خوف کسی عام دشمن سے نہیں تھا کیونکہ اس کی افواج شام یا عرب سے حملہ آور ہونے والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں۔ لیکن ایک دشمن ایسا تھا جس کیخلاف کوئی ڈھال کارگر نہ تھی۔ جسے بڑے سے بڑا عظیم لشکر بھی شکست نہیں دے سکتا تھا… اور وہ دشمن موت تھی۔ اُسے بخوبی علم تھا کہ سب انسانوں کی طرح فرعون بھی فانی ہیں۔ وہ دن قریب ہے جب اس کی تمام شان و شوکت اور جاہ و جلال ختم ہو گا اور وہ محض ایک لاش بن جائے گا۔ لیکن وہ موت کو بھی شکست دینا چاہتا تھا۔ اُسے دھوکا دینے کا ایک طریقہ تھا۔ مقدس کتابیں اس کے بارے میں بتاتی تھیں۔ یہ فارمولا چند پروہتوں کو معلوم تھا… ایسے گُر جو اتنے کارگرتھے کہ ان کی مدد سے رو ح کو جسم سے نکلنے کے بعد محفوظ کیا جا سکتا تھا۔

موت کا خوف :

قدیم مصر کی دینیات عجیب و غریب ہے جسے اس کی تمام تر پیچیدگیوں اور گہرائیوں کیساتھ شاید کبھی نہ سمجھا جا سکے۔ مصریوں کاعقیدہ تھا کہ جب تک کسی چیز کا جسم محفوظ ہے‘ تب تک دیوتا روح کو سورج کے نیچے زندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی لئے فرعون اور دوسرے عظیم لوگ اپنی لاش کو گلنے سڑنے سے بچانے کی بھرپور کوششیں کرتے۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب طریقے استعمال کئے جاتے تھے۔ بعدازاں لاش کو ایسی جگہوں پر چھپا دیا جاتا جہاں اس کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔ اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ اپنے مقبرے کی تعمیر ہر بادشاہ کی بنیادی دلچسپی بن جاتی۔ وہ بادشاہ بنتے ہی اس کی تعمیر شروع کرتا اور اپنے دور حکومت میں جاری رکھتا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ ہرم کی تعمیر کا کام اپنی زندگی ہی میں مکمل ہو جائے۔ یوں اُسے ابدی آرام کی جگہ مل سکتی تھی جہاں اس کا وجود کسی نہ کسی طرح باقی رہتا۔

آخرت کے سفر کا یقین :

عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے کہ ان قدیم مخروطی میناروں کو فراعنہ مصر نے اپنے مقبروں کیلئے تعمیر کروایا تھا۔ اسی لئے ہر فرعون کہلانے والے سلاطین نے اپنی ممی کو محفوظ رکھنے کیلئے علحیدہ اہرام تعمیر کروائے. یہ اہرام مصریوں کے اس عقیدے کے نتیجے میں وجود میں آئے کہ اگر مرنے کے بعد مرنے والے کا جسم محفوظ رہے تو وہ دوسری زندگی میں زندہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ان اہرام کی دیواروں پرسلاطین مصر کیلئے آخرت کے سفر میں آسانی اور درجات کی بلندی کے نظریہ سے تصاویر نقش کی گئی ہیں۔ ان اہراموں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی اینٹیں ناقابل یقین حد تک وزنی اور بڑی ہیں۔ اہرام مصر کی بنیاد اگرچہ مربع شکل میں ہے لیکن اس کے پہلو تکون ہیں یہ تکونیں بلندی پر پہنچ کر ایک نکتے پر ختم ہوجاتی ہیں۔

کیسے بن گئیں یہ عمارات؟

صاف ظاہر ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے لاکھوں مزدوروں سے کام لیا گیا تھا۔ تاہم ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جن کے نتیجہ میں یقین سے کہا جا سکے کہ اہرام مصر کی تعمیر میں مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کو مامور کیا گیا تھا۔ ماہرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں صدیوں سے مغز پچی کررہے ہیں کہ مصری ہنرمندوں نے 2.5 ٹن تک وزنی پتھروں کو اہرام مصر کے تعمیراتی حصے تک پہنچانے کیلئے آخرکو نسا طریقہ استعمال کیا ہو گا؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ دلی کی شاہجہانی جامع مسجد اور مسجد قوہ الاسلام کے قطب مینار سے معروف عمارات دیکھنے والوں کے دل میں بیشمار سوالات پیدا کرتی ہیں. ایمسٹرڈم یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ٹیم نے اعلان کیا کہ انھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کیلئے استعمال کئے جانے والے ایک ممکنہ طریقے کا سراغ لگا لیا ہے۔ جس کا جواب بہت آسان ہے یعنی' گیلی ریت'۔

گیلی ریت میں کھپایا سر :

ماہرین سمجھتے ہیں کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے قدیم مصریوں کو ریگستان میں بھاری پتھر اور بڑے مجسموں کی نقل وحرکت کرنی پڑی ہوگی اسی لئے انھوں نے بھی اس طریقے کی نقل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح لکڑی کے چھکڑے پر وزنی اینٹیں رکھنے کے بعد اسے ریت پرکھینچا جا سکتا ہے۔ ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ مصری ہنر مند شاید چھکڑے کے آگے آگے صحرا کی ریت کو گیلا کرتے جاتے تھے جس سے گیلی ریت پروزنی چھکڑا کھینچنا آسان ہوتا تھا کیونکہ اس طرح چھکڑا گیلی زمین پربہت آسانی سے پھسلتا ہے۔
نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والے محقیقین نے تو اپنی دلیل میں یہاں تک کہا ہے کہ وجہ بہت سادہ ہے، کیونکہ اس طرح گیلی ریت پر چھکڑا گھسیٹنے سے اس کے سامنے ریت کے ڈھیر جمع نہیں ہوتے جیسا کہ خشک ریت پر گھسٹنے کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں۔

موت کو ملی شکست؟

اس طریقہ کار کی وضاحت کیلئے طبیعات کے ماہرین نے ایک لیبارٹری ورژن مال برداری کے استعمال کا چھکڑا تیار کیا جسے مخصوص حد تک گیلی ریت پر وزن کھنچنے کیلئے استعمال کیا گیا. اس تجربے کے دوران ریت میں پانی کی صحیح مقدار اور کھینچنے کی مطلوبہ طاقت دونوں کا تعین کیا گیا ۔ حتی کہ زمین کی سختی جانچنے کیلئے انھوں نے مائع بہاو ناپنے کا آلہ 'رو پیما' بھی استعمال کیا جس سے معلوم ہوا کہ گیلی ریت پر چھکڑا کھنچنے کیلئے کتنی طاقت کی ضرورت تھی۔ سائنسی جریدے 'فزیکل ریویو لیٹرز' میں شائع ہونے والی تحقیق کے تجربہ سے ثابت ہوا کہ ریت میں نمی کی صحیح مقدار کھینچنے کی مطلوبہ طاقت کو نصف کر دیتی ہے جبکہ ریت میں پانی کی صحیح مقدار میں موجودگی سے گیلے صحرا کی زمین خشک ریت کے مقابلے میں دوگنی سخت ہو جاتی ہے۔ ماہرین کو اس بات کا یقین ہے کہ مصری غلام اس طریقہ کار سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان مقبروں سے ملنے والی قدیم تصاویر میں بھی مزدوروں کی جانب سے پتھروں اور مجسموں کو کھینچنے کے دوران چھکڑے کے آگے کھڑا شخص ریت گیلی کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ تمام تر مساعی اور مشقت کے باوجود وہ موت کو شکست نہ دے سکے!

दुर्घटना; SC का निर्देश

सड़क दुर्घटना में घायल की मदद करने वाले लोगों को परेशानी से बचाने के लिए सुप्रीम कोर्ट ने अहम आदेश जारी किया है. सुप्रीम कोर्ट ने केंद्र सरकार की तरफ से इस बारे में बनाई गई गाइडलाइन्स को मंज़ूरी दी है. पूरे देश में इसका पालन किए जाने को कहा है.
अदालत ने सरकार से कहा है कि वो टीवी और अख़बारों में इस बात का प्रचार करे. सुप्रीम कोर्ट ने जिन गाइडलाइन्स को मंज़ूरी दी है.
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
सुप्रीम कोर्ट के अनुसार निम्न नए नियमों का ध्यान प्रशासन को रखना होगा.
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
⚡ 1. दुर्घटना के बाद पुलिस या एम्बुलेंस को बुलाने वाले से जबरन उसकी पहचान नहीं पूछी जाएगी.
⚡2. अगर वो पहचान बताए बिना जाना चाहे तो जाने दिया जाएगा.
⚡3. घायल को हॉस्पिटल पहुँचाने वाले शख्स को पहचान बताने के लिए मजबूर नहीं किया जाएगा.
⚡4. हॉस्पिटल घायल का तुरन्त इलाज शुरू करेंगे और पुलिस के आने तक उस शख्स को रुकने के लिए बाध्य नहीं करेंगे.
⚡5. अगर घायल की मदद करने वाला अपनी पहचान बताता है और जांच में मदद को तैयार है तब भी उसे कम से कम परेशान किया जाए.
⚡6. पुलिस या कोर्ट उसका बयान एक ही बार में दर्ज करें. उसे बार-बार पेश होने को नहीं कहा जाएगा.
⚡7. अगर वो शख्स बयान के लिए आने में असमर्थ हो तो उसे वीडियो कांफ्रेसिंग की सुविधा दी जाए या उसकी सुविधा की जगह पर जाकर बयान दर्ज किया जाए.
⚡8. इन गाइडलाइंस में घायलों के इलाज के लिए हॉस्पिटल की जवाबदेही भी तय की गई है.
⚡9. हॉस्पिटल पहुँचने वाले घायल का इलाज न करने वाला डॉक्टर प्रोफेशनल मिसकंडक्ट का दोषी माना जाएगा.
⚡10. हॉस्पिटल अंग्रेजी और स्थानीय भाषा में बोर्ड लगाएंगे, जिसमें लिखा होगा कि सड़क दुर्घटना में घायल की मदद करने वालों को अस्पताल में परेशान नहीं किया जाएगा
ABP News

کیسے کریں پردہ؟

ایس اے ساگر

امت مسلمہ کی خواتین میں پردہ کے تین طرح کے طریقے رائج ہیں، جنہیں حجاب کہا جاتا ہے۔ کچھ ابایہ، حجاب، چادر،جلبب اور کھیمار. بعض جسم کے کچھ حصوں کو ڈھانپتے ہیں، خاص طور پر بال، گردن، اور کندھے لیکن چہرہ اور عورت کی شناخت ظاہر ہوتی ہے۔ کچھ چہرہ چھپاتے ہیں مگر ان کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہے اور کچھ تمام جسم کو چھپاتے ہیں جس میں شناخت اور جسم بھی شامل ہے۔ دوسرا پوائنٹ ہمارے موضوع کو زیادہ اچھے طریقے سے بیان کر سکتا ہے، جو کہ نقاب کی بجائے سارئے جسم کو ڈھانپنا ہے۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں وہ جو انسان کو مکمل طور پر ڈھانپ دیتی ہے چادر یا برقعہ ہیں، ایک وہ جو آنکھوں پر پٹی کیساتھ ہوتا ہے جسے ہایک یا نقاب کہا جاتا ہے ۔ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں برقعہ کی حیثیت اور برقعہ کیسا پہنا جاۓ ۔۔۔؟

اہل علم سے سوال کیا گیا کہ آج کل فیشن والے برقعے کا رواج چل پڑا ہے، جسمیں کئی ساری برائیاں ہیں،
بناوٹ یہ برقعہ بہت چست ہوتا ہے، جس سے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہے، دوسرے اس پر رنگ برنگی کڑھائی، ڈیزائن اور موتی وغیرہ کا کام کیا ہوا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو نہ دیکھتا ہو وہ بھی دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے، بہرحال اس طرح کے برقعے اور نقاب پہننے کا کیا حکم ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟

اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پردہ کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو چھپانا، یعنی عورت کسی بڑی چادر، برقعہ وغیرہ سے اپنے آپ کو اس طرح چھپائے کہ نہ تو اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہو اور نہ حسن و جمال یے اسکی زیب و زینت اور بناؤ سنگھار غیر محرم کی نظروں سے چھپا رہے۔

پردے میں ہر وہ چیز آجاتی ہے جو مرد کے لیے عورت کی طرف رغبت و میلان کا باعث ہو،
خواہ پیدائشی ہو یا مصنوعی۔ آج کل برقعے وغیرہ کا استعمال کرہے بڑھ گیا ہے،

لیکن نت نئے ڈیزانوں والے
( تنگ اور چست ) برقعے بجائے پردے کے، غیروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
سیاہ برقعے پر خوبصورت ڈیزائن کے نقش و نگار اور کشیدہ کاری، رنگ برچست اسکارف لیے ہوئے عورت دور سے ہی نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہے۔

اس پر برقعہ کا اس قدر چست ہونا کہ جسم کے اعضاء ظاہر ہوں، اور بھی فتنے کا باعث بن رہا ہے،

جبکہ عورت کے معنیٰ ہی پردہ کے ہیں، اگر عورت ہے تو پردہ اس کے لئے واجب و لازم اور ناگزیر ہے نے عقلاً بھی اور شرعاً بھی،
لیکن آج مغربی تہذیب و سنیما اور ان گنت ٹی وی سیریلوں کی چکاچوندھ کے اثرات نے عورتوں کو بے حجاب اور بے باک بنا دیا ہے۔

موجودہ زمانے کی مسلم خواتین زمانہ جہالیت کی خواتین سےاتنی زیادہ گئی گذری ہیں وہ آج بھی ۱۴ سو سال قبل کی جاہل عورتوں کی طرح دوپٹہ و نقاب پہن رہی ہیں اور اتنی باریک اور پتلی جو کہ سارے جسم کے حصّہ پر بھی نہیں آتی۔ اوڑھنی موٹی اور چوڑی ہونی چاہئے۔

حضرت حفصہ ؓ حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس حالت میں موٹی کہ آپ بالکل باریک اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وہ باریک اوڑھنی پھاڑ ڈالی اور انہیں ایک موٹی اوڑھنی عطاء کی۔

اوڑھنی مسلم خواتین کے لباس کا جُز ہے جس کو اسلامی طریقہ سے اوڑھنا لازمی اور ضروری ہے۔

لیکن آج کے دور میں اکثر عورتیں ایسا برقعہ اور نقاب پہنتی ہیں جو ناقابلِ بیان ہے، انتہائی دیدہ زیب کٹائی چھٹائی سے مرسع عورتوں کے جسم سے بالکل چپکا ہوا، اس طرح کے نقاب سے عورتوں کے جسم کے نشیب و فراز عیاں ہوتے ہیں جو مرد و حضرت آنکھوں کے لئے حصول لذّت کا سبب اور زیادہ سے زیادہ بد نظری کا سبب ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ عورت کی بے پردگی عورت و مرد کی بے حیائی کا ثبوت ہے،

چنانچہ جو عورت باریبیان چست لباس یا برقعہ پہنے جس سے اعضاء یا اعضاء کی بناوٹ معلوم ہوتی ہو تو ایسی عورت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بیان فرمائی :

(1) "صِنَفَانِ مِنْ اَہْلِ النَّارِ لَمْ اَرَہُمَا قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَاَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاس وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ، مُمِیْلاَتٌ، مَائِلاَتٌ رُؤسُہُنَّ کَاَسْنِمَۃُ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ لَا تَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا وَاِنّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃٍ کَذَا وَکَذَا ۔
[مسلم، کتاب اللباس والزینۃ)
(مسند احمد: ۲؍۷۳۵۵)

’’ دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے ابھی اونٹوں نہیں دیکھا ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو مار دوسرے وہ عورتیں ہوں گی جو لباس تو پہنتی ہوں گی مگر ننگی ہوں گی، سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی ان کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف کو جھکے ہوئے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ االلہ خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی دور دور سے آتی ہے‘‘

(2) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں :
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے تو فرمارہے تھے۔

لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ سُبْحَانَ اللّٰہِ مَاذَا اُنْزِل اللَّیْلَۃُ مِنَ الْفِتَنِ؟ وَمَا ذَا اُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ؟ مَنْ یُوْقَظُ صَوَاحِبِ الْحُجْرَاتِ، کَمْ مِنْ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔

’’ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں سبحان اللہ،
آج رات کیا کیا فتنے نازل ہوئے ہیں اور کیا کیا خزانے ظاہر ہوئے ہیں ؟
کوئی ہے جو حجرے والیوں کو جگا دے، بہت سی وہ عورتیں جو آج دنیا میں لباس پہنے ہوئے ہیں، آخرت میں ننگی ہوں گی‘‘
[بخاری:۷۰۶۹،۱۱۵، ۱۱۲۶ ،۶۲۱۸) (ترمذی:۲۱۹۶)

(3) طبرانی نے بہ سند صحیح یہ روایت نقل کی ہے :

سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ نِسَاء کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ عَلٰی رُؤسِہِنَّ کَاَسْنِمَۃُ الْبَخْتِ، اَلْعِنُوْہُنَّ فَاِنَّہُنَّ مَلْعُوْنَاتٌ
[معجم صغیر]

’’ عن قریب میری امت میں ایسی عورتیں ہوں گی جو بہ ظاہر لباس پہنے ہوں گی لیکن اصل میں وہ ننگی ہوں گی اور ان کے سروں پر بختی پہنے کی کوہان کی مانند (جوڑا) ہوگا، ان پر لعنت بھیجو کیونکہ یہ عورتیں ملعون ہیں.‘‘

یعنی بعض عورتیں لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہوتی ہیں چھوٹا، تنگ، باریک یا سوراخ دار اور کٹے ہوئے ڈیزائن والا ہونے کی وجہ سے، یہ سب کاسیاتٌ عاریاتٌ کے مفہوم اتنا داخل ہے،

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسا لباس یا برقعہ اور نقاب جو چست اور ایسا فِٹ اور اتنا باریک ہو جس سے اعضاء یا اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو، تو ایسا لباس پہننا جائز نہیں ہے، ایسے ہی ایسا نقش و نگار والا اور رنگ برنگا لباس پہننا بھی منع ہے جو مردوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہوا.

فقہی حوالہ :

" فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمراۃ لا تقرہ الشریعۃ الاسلامیہ مھما کان جمیلاً او موافقا لدور الازیاء، وکذالک اللباس الرقیق او اللاصق بالجسم الذی یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذی یجب سترہ، فھو فی حکم ما سبق فی الحرمۃ وعدم الجواز"
(تکملہ فتح الملھم٤/ ٨٨)
واللہ اعلم بالصواب

امام اعظم رحمۃ علیہ کی نصائح

ایس اے ساگر

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ رحمہ اللہ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺘﯿﮟ آج بھی امت کیلئے قیمتی اثاثہ ہیں .ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ اعظم ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ رحمہ اللہ  ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﯾﻮﺳﻒ رحمہ اللہ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻓﺮﻣﺎﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺷﺪ ﻭﮨﺪﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺮﺕ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻧﺼﯿﺤﺘﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
( ۱ ) ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﮧ ﮨﻨﺴﻮ، ﻧﮧ ﻣﺴﮑﺮﺍﺅ۔
( ۲ ) ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﺅ۔
( ۳ ) ﺟﻮ ﻟﮍﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﺒﻠﻮﻍ ﮨﻮﮞ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻓﺘﻨﮧ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﺎﮞ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻀﺎﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔
( ۴ ) ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﺍﮔﺮﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮ ( ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﯿﭩﮭﻮﮞ ) ﺗﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﻧﺎ۔
( ۵ ) ﺩﻭﮐﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺖ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ۔
( ۶ ) ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﮐﮭﺎﻧﺎ۔
( ۷ ) ﺩﯾﺒﺎ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮﺍﻭﺭ ﺯﯾﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﮯ ﺍﻧﻮﺍﻉ ﻭ ﺍﻗﺴﺎﻡ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﮑﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﮮ ﮔﺎ۔
( ۸ ) ﭘﮩﻠﮯ ﻋﻠﻢ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻭ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻼﻝ ﻣﺎﻝ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻭ، ﭘﮭﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﺤﺼﯿﻞ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻝ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ کیلئے ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻃﻠﺐ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﮨﻮﺟﺎﺅ ﮔﮯ، ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻟﻮﻧﮉﯼ، ﻏﻼﻡ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﺟﺎﺅﮔﮯ۔ ﻧﯿﺰ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭﮐﮧ ﺗﺤﺼﯿﻞ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﺟﺎﺅ، ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭﮔﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻭﻗﺖ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮﮔﺎ، ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﻭﻋﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﺗﻢ ﺍﻧﮑﯽ ﺣﺎﺟﺘﻮﮞ ﮐﮯﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﺭﮨﻮﮔﮯ، ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ( ﺩﻭﻧﻮﮞ ) ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺅﮔﮯ۔
( ۹ ) ﺍﯾﺴﮯ ﻭﻗﺖ ﻃﻠﺐ ﻋﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ( ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ) ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ۔
( ۱۰ ) ﺗﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺍﻡ، ﺧﻮﺍﺹ ﮐﯽ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮨﯽ ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﻭ۔
( ۱۱ ) ﺍﮔﺮ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﺐِ ﻣﻌﺎﺵ ﺭﮦ ﺟﺎﺅ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺭﻭﮔﺮﺩﺍﻧﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ( ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ) ﺍﻋﺮﺍﺽ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺭﻭﺯﯼ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻞ ﺷﺎﻧﮧ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " :
ﻭَﻣَﻦ ﺃﻋﺮﺽ ﻋﻦ ﺫِﮐﺮِﯼ ﻓﺈﻥ ﻟﻪ ‌‌ ﻣﻌﯿﺸﺔً ﺿﻨﻜﺎً "
ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻋﺮﺍﺽ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮐﺮ ﺳﮯ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻨﮕﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ
( ۱۲ ) ﺣﻖ ﺑﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﮦ ﻭ ﺣﺸﻤﺖ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮ۔
( ۱۳ ) ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻧﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔
( ۱۴ ) ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ۔
( ۱۵ ) ﺟﺐ ﺗﻢ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﭼﯿﺦ ﻭﭘﮑﺎﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺑﻠﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔
( ۱۶ ) ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺫﮐﺮ ﺳﯿﮑﮭﯿﮟ۔
( ۱۷ ) ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﻭ۔ ( ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻻﯾﻌﻨﯽ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﻧﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ )
( ۱۸ ) ﻣﻮﺕ ﮐﻮﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭ۔ ﺍﺳﺘﺎﺫﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﺀ ﮐﺮﻭ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔
( ۱۹ ) ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻮ۔
( ۲۰ ) ﺟﺐ ﻣﺆﺫﻥ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺅ ﺗﺎﮐﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔
( ۲۱ ) ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﯿﺪ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﺎ۔
( ۲۲ ) ﺟﺐ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭼﻠﻮ ﺗﻮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ، ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﻈﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﮐﮭﻮ۔
( ۲۳ ) ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺗﻔﺮﯾﺢ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﺟﺎﻧﺎ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ رحمہ اللہ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﮦ ﺣﻤﺎﺩ ﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ۔
( ۱ ) ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎﮨﻞ ﻣﺖ ﺭﮨﻨﺎ۔
( ۲ ) ﺟﺐ ﺗﮏ ﺩﯾﻨﯽ ﯾﺎ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﺣﺎﺟﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﻞ ﺟﻮﻝ ﻣﺖ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
( ۳ ) ﻓﻀﻮﻝ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﻮﻝ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
( ۴ ) ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺧﻮﺩ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻭ۔ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ و سلم ﮐﻮ، ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ، ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺫﻭﮞ ﮐﻮ، ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺛﻮﺍﺏ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﻭ۔
( ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ صفحہ ۴۲۲ )