ایس اے ساگر
دارالعلوم دیوبندکے طلبا سے شروع ہونے والا احتجاج سہارنپور کے بعد بھوپال تک جا پہنچا ہے ، دارالعلوم کے طلبا سڑکوں پر نکلے، دیوبند کے چیئرمین نے پہل کی اور اپنے پیغمبر کی ناموس کی حفاظت کیلئے کملیش تیواری کیخلاف سخت احتجاج کیا۔لیکن کیا ہوا؛ کملیش کو گرفتار کرکے پولس حراست میں لے لیا گیا؛ گویا اب وہ پولس کی حفاظت میں ہے، آج اسے سرکاری سیکورٹی مل گئی ہے، اب اسے کوئی خطرہ نہیں، اب وہ آرام سے سکون کی نیند سو رہا ہے جبکہ محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کیلئے صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کیخلاف معاملہ درج ہوگیا ہے۔
اپنی کم مائیگی کا احساس :
ہم مسلمان تو بیوقوف ٹھہرے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سخت ترین گستاخی کرنے والا پولس کی حراست میں ہے اور ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ہمارا مطالبہ تو یہ تھا کہ اس کو گرفتار کرکے سر عام پھانسی دی جائے لیکن ایسا کیوں کر ہوگا؟ جبکہ ہندوستان کی عدالت میں مجرم کے حامیوں کا ہی زیادہ اثر ورسوخ ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مغلوب الجذبات تاثرات گردش کررہے ہیں کہ اے کاش، کملیش ملعون گرفتار ہی نہ کیاجاتا تاکہ ہمارا کوئی غیرت مند مسلمان بھائی موقع پاکر اسے قتل کے گھاٹ اتار دیتالیکن ہم اب بھی چپ نہیں بیٹھنے والے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس گستاخ کو جلد از جلد پھانسی پر لٹکایا جائے اور اگر تم ایسا کرنے سے قاصر ہو تو اسے مسلمانوں کے حوالے کردو؛ قسم اس پاک ذات کی جس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر ہم پر سب سے بڑا احسان کیا ہے، کملیش یادو کو ہم ایسی موت دیں گے ان شائ اللہ کہ ہر عدوِ اسلام گستاخی کرنا تو دور اسلام کیخلاف سوچنے سے بھی گھبرائیے گا۔
ایک نیند ہے جو لوگوں کو رات بھر نہیں آتی
اور ایک ضمیر ہے جو ہر وقت سویا رہتا ہے
کہاں ہیں اہل علم حضرات؟
اس کیساتھ تحفظ ناموس رسالت کیلئے استفسار بھی قابل غور ہے، مفتیان کرام اور علماعظام توجہ دیں:
گذشتہ تین روز پہلے گستاخ رسول کملیش تیواری نے جس طریقہ سے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عفت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کیا اور پھر دیوبند میں باشندگان اور طلبہ کی جانب سے پرامن احتجاج کے بعد لکھنو ¿ میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔پھر عشاق رسول کی کاوشوں کے نتیجہ میں اس ملعون پر کئی جگہ ایف آئی آر درج ہوئیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی جیل میں ہی ہے،اور ہندو مہا سبھا نے اس سے اپنا پلہ جھاڑلیا ہے،یہ کہتے ہوئے کہ کملیش تیواری کا ہندو مہا سبھا سے کوئی تعلق نہیں اسے کافی پہلے نکال دیا گیا ہے۔
اور ہندو مہاسبھا کا نام استعمال کرکے شہرت چاہتا ہے۔
ان سب کے بعد توجہ دیں،
کچھ علمااور بڑی تنظیموں کے ذمہ داران اور منسلکین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کے احتجاج کا کوئی فائدہ نہیںبلکہ اس سے اس گستاخ کی اور شہرت کرنا ہے۔ایسی بیان بازیوں پر سب کو مصلحت کے مطابق خاموش رہنا چاہئے،اور یہ احتجاج کرنے والے مصلحت سے کورے ہیں،انہیں حالات کا علم نہیں۔
اور اپنے اس دعوی کی تائید میں ایک طبقہ آیت قرآنی
ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذیً کثیراً۔وان تصبروا و تتقوا فان ذلک من عزم الامور
کو پیش کر رہا ہے۔
اور دوسرا طبقہ حالات کے بگڑنے سے ڈرا رہاہے۔
بی جے پی کی یو پی حکومت میں آنے کی سازش بتا رہا ہے اور اس طریقہ کے احتجاج کے نتیجہ میں مراکز اسلامیہ کیلئے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، بتا رہا ہے۔ اب آپ حضرات سے مو ¿دبانہ درخواست ہے کہ ان سوالات کا جواب دیں،کیا واقعی اس طریقہ کی گستاخی پر خاموش رہا جائے ؟صبر اور مصلحت سے کام لیا جائے؟اپنے آئینی و دستوری حقوق کا بھی استعمال نہ کیا جائے؟اور جو کچھ احتجاج ابھی تک ہوا ہے اسے غلط اور نقصان دہ قرار دے کر ہاتھوں میں تسبیح لے کر گھروں اور مسجدوں میں بیٹھا جائے؟اور یہ انتظار کیا جائے کہ آسمان سے فرشتے اتر کر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا بدلہ لیں گے؟کیا عشق رسول دعوائے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تقاضا ہے؟
یا پھر اگر ’عزیمت‘ یعنی گستاخ رسول کا قتل پر عمل ممکن نا ہونے پر ’رخصت‘یعنی دستور کے مطابق اس مردود کو سخت سے سخت سزا دلانے اس کی تنظیم پر پابندی لگوانے اور اس کے اخبار’آگ انگارے‘پر روک لگوانے اس کے ایڈیٹر کے این سنگھ کو بھی گرفتار کروانے کیلئے ملک گیر مہم چلائی جائے۔ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کی مدد لے کر دستور و آئین کے دفعات کے مطابق ہر جگہ مقدمہ درج کروائے جائیں؟اور اسے ایسی عبرتناک سزا دلائی جائے کہ تمام اسلام مخالف طاقتیں آئندہ زبان کھولنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوجائیں،اور اس کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہر جگہ ہر شہر میں پر امن مظاہرے کرکے حکومت کو کارروائی کرنے پر مجبور کیا جائے؟ازراہ کرم سبھی حضرات علی الفور ان سوالات کا جواب دیں تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
یکے از عاشقان رسول
ناموس رسالت زندہ آباد
کیا ایسا ممکن ہے؟
اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ گستاخ کو سخت سزا دی جائے اور مسلمہ طور پر بھی ایسا قانون بنانا ہوگا کہ جس کی رو سے گستاخ کو سزا دی جاسکے۔اس ذیل میں اولا ان علما اور ملی تنظیموں اور امارات شرعیہ کا اتحاد لازمی ہوگا ، جمعیة میم اور الف دونوں، مسلم پرسنل لا ، مجلس مشاورت، جمعیة الانصار، و جمعیة القریش؛ الغرض تمام تنظیمیں متفق ہوکر احتجاج کریں اور سخت سزا کا مطالبہ کریں۔اس موڑ پر پہنچنے کے بعد 200 سے زائد نوجوان فضلادار العلوم دیوبندنے جمعیة علما ہندکے نام ایک مشترکہ کھلا خط تحریر کیا ہے:
حضرت والا دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ،امید کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔
1۔ ملکی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا کے علمبرداروں, ملک دشمن اور فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے بڑی تیزی کیساتھ عدمِ رواداری اور فرقہ وارانہ حملوں کے واقعات انجام دیئے جارہے ہیں اور اس خطرناک رجحان کو منصوبہ بند سازش کے تحت پورے ملک میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارسِ اسلامیہ پر دہشت گردی اور طرح طرح کے بےجا الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی طرف سے ملک کے نظامِ تعلیم کو بھگواکرن کی کوشش کی جارہی ہے،سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں سے بھی سرسوتی وندنا کروایا جارہا ہے اور مسلمانوں کے مذہبی عقائد، اخلاق اور تہذیب پر شدت کیساتھ حملے کئے جارہے ہیں۔پورے ملک میں بڑھتے ان واقعات کی وجہ سے ملک کا مسلمان انتہائی خوف و ہراس, پست ہمتی اور مایوسی کا شکار ہوتا جارہا ہے اور سخت گھٹن محسوس کر رہا ہے۔
2۔ بین الاقوامی سطح پر بھی مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ شام، فلسطین، عراق اور دوسرے متعدد اسلامی ممالک میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں معصوم مسلمان بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ اسلام دشمن طاقتوں کے بموں اور گولیوں سے قتل کئے جارہے ہیں۔ پورا عالمِ اسلام معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوچکا ہے۔ اور اس طرح کے حملے گھٹنے کی بجائے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔
3۔ مسلمانوں کا ہر دو ملکی و بین الاقوامی سطح پر بحرانی دور سے دوچار ہونے کے مہیب ماحول میں ملک کے مسلمانوں کی نگاہِ امید اور بالخصوص علماکی نگاہیں ،جن میں مرکز المعارف اور اس طرز کے دیگر انگریزی مراکز کے فارغ سینکڑوں نوجوان علما دیوبند کے علاوہ دیگر بہت سارے دردمند علماشامل ہیں،جمعیة علمائ ہند کی طرف جاتی ہیں۔ مرکز المعارف وغیرہ سے انگریزی تعلیم یافتہ ہم سینکڑوں فارغینِ دار العلوم دیوبند ملکی میڈیا اور مسلمانوں کے حالات اور ان سے متعلق انگریزی میں شائع ہونے والی ملکی وغیرملکی خبروں کے پیشِ نظر بہت بے چینی اور اضطراب محسوس کرتے ہوئے آپ حضرات سے بہت درد کیساتھ مشترکہ طور پر درخواست کرتے ہیں کہ اکابر کی قائم کردہ ملک کی سب سے بڑی مسلم تنظیم جمعیة علماہند کی ہوئی تقسیم کو ختم کرکے اسے متحد کیا جائے تاکہ جمعیة کی قیادت مضبوط ہو اور اس کی آواز میں طاقت پیدا ہو، اور اس پلیٹ فارم سے پیغمبر انسانیت کو گالیاں دینے والے کملیش تیواری کیخلاف فوری طور پر تحریک شروع کرکے،طاقتور ریلیاں نکال کر حکومتِ ہند پر دباو ¿ بنایاجائے تا کہ اسے عبرتناک سزا دی جائے۔ ہم آپ حضرات سے امید کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ جمعیة متحد ہوجائے اور ملک کے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی آبرو واپس آجائے، آمین۔
والسلام
منجانب جمیع ممبران
MMERC & AL-Qalam
whatsapp groups
مورخہ 20 صفر 1437 ہجری مطابق 3 دسمبر 2015 بروز جمعرات
واضح رہے کہ یہ درخواست مشترکہ طور پر 200 سے زائد نوجوان فضلادار العلوم دیوبند کی طرف سے ہے جن میں مرکز المعارف اور اس طرز کے دیگر اسلامی انگریزی اداروں کے فارغین شامل ہیں اور ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک بشمول عرب ممالک، برطانیہ، امریکہ و جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔
کیا کہتے ہیں اسدالدین اویسی؟
اس درخواست کا متعلقہ حضرات نے کیا جواب دیا ،اس کا تو علم نہیں البتہ نقیب ملت شیر ہندوستان جناب اسدالدین اویسی صاحب نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کیخلاف تعزیرات ہند کی کونسی دفعہ نافذ ہوتی ہے، واضح کی ہے۔ اپنی اس ویڈیو کلپ میں اسد صاحب نے امت مسلمہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے صبر اور تحمل اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کیلئے رحمت بن کے آئے ہیں،زحمت بن کے نہیں آئے۔ کوئی خلاف بولتا ہے یا لکھتا ہے تو اس کو گالی دینے کی بجائے تعزیرات ہندکے آئی ٹی ایکٹ کی 66 ،153/A اور295/A کے تحت قانونی کارروائی کے ذریعہ غیر ضمانتی دفعات نافذ ہوتی ہیں۔لہذا قانونی طور پر اس کا مقابلہ کریں۔
دارالعلوم دیوبندکے طلبا سے شروع ہونے والا احتجاج سہارنپور کے بعد بھوپال تک جا پہنچا ہے ، دارالعلوم کے طلبا سڑکوں پر نکلے، دیوبند کے چیئرمین نے پہل کی اور اپنے پیغمبر کی ناموس کی حفاظت کیلئے کملیش تیواری کیخلاف سخت احتجاج کیا۔لیکن کیا ہوا؛ کملیش کو گرفتار کرکے پولس حراست میں لے لیا گیا؛ گویا اب وہ پولس کی حفاظت میں ہے، آج اسے سرکاری سیکورٹی مل گئی ہے، اب اسے کوئی خطرہ نہیں، اب وہ آرام سے سکون کی نیند سو رہا ہے جبکہ محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کیلئے صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کیخلاف معاملہ درج ہوگیا ہے۔
اپنی کم مائیگی کا احساس :
ہم مسلمان تو بیوقوف ٹھہرے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سخت ترین گستاخی کرنے والا پولس کی حراست میں ہے اور ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ہمارا مطالبہ تو یہ تھا کہ اس کو گرفتار کرکے سر عام پھانسی دی جائے لیکن ایسا کیوں کر ہوگا؟ جبکہ ہندوستان کی عدالت میں مجرم کے حامیوں کا ہی زیادہ اثر ورسوخ ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مغلوب الجذبات تاثرات گردش کررہے ہیں کہ اے کاش، کملیش ملعون گرفتار ہی نہ کیاجاتا تاکہ ہمارا کوئی غیرت مند مسلمان بھائی موقع پاکر اسے قتل کے گھاٹ اتار دیتالیکن ہم اب بھی چپ نہیں بیٹھنے والے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس گستاخ کو جلد از جلد پھانسی پر لٹکایا جائے اور اگر تم ایسا کرنے سے قاصر ہو تو اسے مسلمانوں کے حوالے کردو؛ قسم اس پاک ذات کی جس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر ہم پر سب سے بڑا احسان کیا ہے، کملیش یادو کو ہم ایسی موت دیں گے ان شائ اللہ کہ ہر عدوِ اسلام گستاخی کرنا تو دور اسلام کیخلاف سوچنے سے بھی گھبرائیے گا۔
ایک نیند ہے جو لوگوں کو رات بھر نہیں آتی
اور ایک ضمیر ہے جو ہر وقت سویا رہتا ہے
کہاں ہیں اہل علم حضرات؟
اس کیساتھ تحفظ ناموس رسالت کیلئے استفسار بھی قابل غور ہے، مفتیان کرام اور علماعظام توجہ دیں:
گذشتہ تین روز پہلے گستاخ رسول کملیش تیواری نے جس طریقہ سے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عفت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کیا اور پھر دیوبند میں باشندگان اور طلبہ کی جانب سے پرامن احتجاج کے بعد لکھنو ¿ میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔پھر عشاق رسول کی کاوشوں کے نتیجہ میں اس ملعون پر کئی جگہ ایف آئی آر درج ہوئیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی جیل میں ہی ہے،اور ہندو مہا سبھا نے اس سے اپنا پلہ جھاڑلیا ہے،یہ کہتے ہوئے کہ کملیش تیواری کا ہندو مہا سبھا سے کوئی تعلق نہیں اسے کافی پہلے نکال دیا گیا ہے۔
اور ہندو مہاسبھا کا نام استعمال کرکے شہرت چاہتا ہے۔
ان سب کے بعد توجہ دیں،
کچھ علمااور بڑی تنظیموں کے ذمہ داران اور منسلکین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کے احتجاج کا کوئی فائدہ نہیںبلکہ اس سے اس گستاخ کی اور شہرت کرنا ہے۔ایسی بیان بازیوں پر سب کو مصلحت کے مطابق خاموش رہنا چاہئے،اور یہ احتجاج کرنے والے مصلحت سے کورے ہیں،انہیں حالات کا علم نہیں۔
اور اپنے اس دعوی کی تائید میں ایک طبقہ آیت قرآنی
ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذیً کثیراً۔وان تصبروا و تتقوا فان ذلک من عزم الامور
کو پیش کر رہا ہے۔
اور دوسرا طبقہ حالات کے بگڑنے سے ڈرا رہاہے۔
بی جے پی کی یو پی حکومت میں آنے کی سازش بتا رہا ہے اور اس طریقہ کے احتجاج کے نتیجہ میں مراکز اسلامیہ کیلئے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، بتا رہا ہے۔ اب آپ حضرات سے مو ¿دبانہ درخواست ہے کہ ان سوالات کا جواب دیں،کیا واقعی اس طریقہ کی گستاخی پر خاموش رہا جائے ؟صبر اور مصلحت سے کام لیا جائے؟اپنے آئینی و دستوری حقوق کا بھی استعمال نہ کیا جائے؟اور جو کچھ احتجاج ابھی تک ہوا ہے اسے غلط اور نقصان دہ قرار دے کر ہاتھوں میں تسبیح لے کر گھروں اور مسجدوں میں بیٹھا جائے؟اور یہ انتظار کیا جائے کہ آسمان سے فرشتے اتر کر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا بدلہ لیں گے؟کیا عشق رسول دعوائے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تقاضا ہے؟
یا پھر اگر ’عزیمت‘ یعنی گستاخ رسول کا قتل پر عمل ممکن نا ہونے پر ’رخصت‘یعنی دستور کے مطابق اس مردود کو سخت سے سخت سزا دلانے اس کی تنظیم پر پابندی لگوانے اور اس کے اخبار’آگ انگارے‘پر روک لگوانے اس کے ایڈیٹر کے این سنگھ کو بھی گرفتار کروانے کیلئے ملک گیر مہم چلائی جائے۔ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کی مدد لے کر دستور و آئین کے دفعات کے مطابق ہر جگہ مقدمہ درج کروائے جائیں؟اور اسے ایسی عبرتناک سزا دلائی جائے کہ تمام اسلام مخالف طاقتیں آئندہ زبان کھولنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوجائیں،اور اس کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہر جگہ ہر شہر میں پر امن مظاہرے کرکے حکومت کو کارروائی کرنے پر مجبور کیا جائے؟ازراہ کرم سبھی حضرات علی الفور ان سوالات کا جواب دیں تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
یکے از عاشقان رسول
ناموس رسالت زندہ آباد
کیا ایسا ممکن ہے؟
اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ گستاخ کو سخت سزا دی جائے اور مسلمہ طور پر بھی ایسا قانون بنانا ہوگا کہ جس کی رو سے گستاخ کو سزا دی جاسکے۔اس ذیل میں اولا ان علما اور ملی تنظیموں اور امارات شرعیہ کا اتحاد لازمی ہوگا ، جمعیة میم اور الف دونوں، مسلم پرسنل لا ، مجلس مشاورت، جمعیة الانصار، و جمعیة القریش؛ الغرض تمام تنظیمیں متفق ہوکر احتجاج کریں اور سخت سزا کا مطالبہ کریں۔اس موڑ پر پہنچنے کے بعد 200 سے زائد نوجوان فضلادار العلوم دیوبندنے جمعیة علما ہندکے نام ایک مشترکہ کھلا خط تحریر کیا ہے:
حضرت والا دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ،امید کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔
1۔ ملکی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا کے علمبرداروں, ملک دشمن اور فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے بڑی تیزی کیساتھ عدمِ رواداری اور فرقہ وارانہ حملوں کے واقعات انجام دیئے جارہے ہیں اور اس خطرناک رجحان کو منصوبہ بند سازش کے تحت پورے ملک میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارسِ اسلامیہ پر دہشت گردی اور طرح طرح کے بےجا الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی طرف سے ملک کے نظامِ تعلیم کو بھگواکرن کی کوشش کی جارہی ہے،سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں سے بھی سرسوتی وندنا کروایا جارہا ہے اور مسلمانوں کے مذہبی عقائد، اخلاق اور تہذیب پر شدت کیساتھ حملے کئے جارہے ہیں۔پورے ملک میں بڑھتے ان واقعات کی وجہ سے ملک کا مسلمان انتہائی خوف و ہراس, پست ہمتی اور مایوسی کا شکار ہوتا جارہا ہے اور سخت گھٹن محسوس کر رہا ہے۔
2۔ بین الاقوامی سطح پر بھی مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ شام، فلسطین، عراق اور دوسرے متعدد اسلامی ممالک میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں معصوم مسلمان بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ اسلام دشمن طاقتوں کے بموں اور گولیوں سے قتل کئے جارہے ہیں۔ پورا عالمِ اسلام معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوچکا ہے۔ اور اس طرح کے حملے گھٹنے کی بجائے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔
3۔ مسلمانوں کا ہر دو ملکی و بین الاقوامی سطح پر بحرانی دور سے دوچار ہونے کے مہیب ماحول میں ملک کے مسلمانوں کی نگاہِ امید اور بالخصوص علماکی نگاہیں ،جن میں مرکز المعارف اور اس طرز کے دیگر انگریزی مراکز کے فارغ سینکڑوں نوجوان علما دیوبند کے علاوہ دیگر بہت سارے دردمند علماشامل ہیں،جمعیة علمائ ہند کی طرف جاتی ہیں۔ مرکز المعارف وغیرہ سے انگریزی تعلیم یافتہ ہم سینکڑوں فارغینِ دار العلوم دیوبند ملکی میڈیا اور مسلمانوں کے حالات اور ان سے متعلق انگریزی میں شائع ہونے والی ملکی وغیرملکی خبروں کے پیشِ نظر بہت بے چینی اور اضطراب محسوس کرتے ہوئے آپ حضرات سے بہت درد کیساتھ مشترکہ طور پر درخواست کرتے ہیں کہ اکابر کی قائم کردہ ملک کی سب سے بڑی مسلم تنظیم جمعیة علماہند کی ہوئی تقسیم کو ختم کرکے اسے متحد کیا جائے تاکہ جمعیة کی قیادت مضبوط ہو اور اس کی آواز میں طاقت پیدا ہو، اور اس پلیٹ فارم سے پیغمبر انسانیت کو گالیاں دینے والے کملیش تیواری کیخلاف فوری طور پر تحریک شروع کرکے،طاقتور ریلیاں نکال کر حکومتِ ہند پر دباو ¿ بنایاجائے تا کہ اسے عبرتناک سزا دی جائے۔ ہم آپ حضرات سے امید کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ جمعیة متحد ہوجائے اور ملک کے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی آبرو واپس آجائے، آمین۔
والسلام
منجانب جمیع ممبران
MMERC & AL-Qalam
whatsapp groups
مورخہ 20 صفر 1437 ہجری مطابق 3 دسمبر 2015 بروز جمعرات
واضح رہے کہ یہ درخواست مشترکہ طور پر 200 سے زائد نوجوان فضلادار العلوم دیوبند کی طرف سے ہے جن میں مرکز المعارف اور اس طرز کے دیگر اسلامی انگریزی اداروں کے فارغین شامل ہیں اور ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک بشمول عرب ممالک، برطانیہ، امریکہ و جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔
کیا کہتے ہیں اسدالدین اویسی؟
اس درخواست کا متعلقہ حضرات نے کیا جواب دیا ،اس کا تو علم نہیں البتہ نقیب ملت شیر ہندوستان جناب اسدالدین اویسی صاحب نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کیخلاف تعزیرات ہند کی کونسی دفعہ نافذ ہوتی ہے، واضح کی ہے۔ اپنی اس ویڈیو کلپ میں اسد صاحب نے امت مسلمہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے صبر اور تحمل اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کیلئے رحمت بن کے آئے ہیں،زحمت بن کے نہیں آئے۔ کوئی خلاف بولتا ہے یا لکھتا ہے تو اس کو گالی دینے کی بجائے تعزیرات ہندکے آئی ٹی ایکٹ کی 66 ،153/A اور295/A کے تحت قانونی کارروائی کے ذریعہ غیر ضمانتی دفعات نافذ ہوتی ہیں۔لہذا قانونی طور پر اس کا مقابلہ کریں۔
051215 tahaffuz namoos risalat kiya nikla hal by s a sagar
No comments:
Post a Comment