انسانی بالوں کی خرید وفروخت اور ان سے بنے وگوں کا استعمال؟
پوری کائنات میں سب سے افضل واشرف مخلوق انسان ہے۔
خواہ زندہ ہو یا مردہ، مسلم ہو یا کافر بحیثیت انسان اس کی تکریم واحترام کو اسلام میں واجب قرار دیا گیا ہے، اس کی یا اس کے کسی عضو جسمانی کی توہین اسلام میں جائز نہیں ہے۔
اس کے کسی بھی جزء سے انتفاع و استفادہ کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے مدت رضاعت سے زائد مدت دودھ پلانا بھی ممنوع ہے۔
ہر اس عمل سے اسلام نے روکا ہے جو انسان کی اشرفیت وافضلیت کے منافی ہو۔ اگر اسلام انسان کی تکریم واحترام کی اتنی موکد تعلیم نہیں دیتا تو انسان قابل تکریم اور اشرف المخلوقات کی بجائے متاع بازار بن کے رہ جاتا اور لوگ اس کے گوشت پوست سے سربازار بھوک مٹاتے نظر آتے!
پھر انسان اپنے جسم کا خود مالک بھی نہیں ہے بلکہ وہ صرف امین ہے۔ جسم کا مالک اللہ ہے۔ جب جسم انسان کا مملوک نہیں تو پھر غیر مملوک شئے میں کسی بھی قسم کا تصرف کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ۔۔ اس لئے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے جسم کے کسی حصہ (بال بھی جسم انسانی کا ایک حصہ ہے) کی بیع یا ہبہ وعطیہ ملک غیر میں تصرف کے باعث ناجائز ہے۔
قال العلامۃ کمال الدین ابن الہمام ؒ: والانتفاع بہ لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا وفی بیعہ اھانۃ لہٗ وکذا فی امتھانہ باالانتفاع۔ (فتح القدیر:ج؍۶، ص؍۶۳، باب البیع الفاسد)
قال العلامۃالکاسانیؒ: والاآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والاحترام ابتذالہ بالبیع والشراء۔ (البدائع والصنائع:ج؍۵، ص؍۱۴۵، کتاب، البیوع، فصل واماالذی یرجع الی المقصود۔۔۔۔۔الخ
ومثلہ فی ردالمحتار: ج؍۶،ص؍۳۷۲، فصل فی النظر والمس۔کتاب الخطر والاباحۃ۔
والآدمي مکرم شرعًا، والمراد تکریم صورتہ وخلقتہ، وکذا لم یجز کسر عظام میت۔ (شامي ۷؍۲۴۵ زکریا، البحر الرائق ۶؍۸۱)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴)
الاٰدمي مکرمٌ شرعًا وإن کان کافرًا، فإیراد العقد علیہ وإبتذالہ بہ، وإلحاقہ بالجمادات إذلالٌ لہ أي وہو غیر جائز، … وصرح في فتح القدیر ببطلانہ۔ (رد المحتار، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد، مطلب: الآدمي مکرم شرعًا ولو کافرًا ۵؍۵۸ دار الفکر بیروت، ۷؍۲۴۵ زکریا، فتح القدیر، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد ۶؍۳۹۰ زکریا، ۶؍۴۲۵ مصطفیٰ البابي الحلبي مصر، البحر الرائق ۶؍۸۱، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴ زکریا)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴)
مضطر لم یجد میتۃ وخاف الہلاک، فقال لہ رجل: إقطع یدي وکلہا، أو قال: اقطع مني قطعۃ وکلہا لا یسعہ أن یفعل ذٰلک، ولا یصح أمرہ بہ کما لا یسع للمضطر أن یقطع قطعۃ من نفسہ فیأکل۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الحادي عشر في الکراہۃ في الأکل الخ ۵؍۳۳۸، الفتاویٰ البزازیۃ مع الہندیۃ ۳؍۴۰۴)۔
اس لئے اعضاء انسانی کی خرید وفروخت یا ہبہ وعطیہ اسلام کے بنیادی تصور کے خلاف ہے اور ناجائز ہے۔
ہمارا ملک ہندوستان گرچہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کا مجموعہ ہے، تاہم یہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے، ہندو مذہب میں منتوں اور مرادوں کو پورا ہونے کے بعد قسمت کی دیوی کی توجہ اہنی جانب مبذول کروانے کے لئے بالوں کا عطیہ (مونڈن) دیا جاتا ہے، اور عقیدت مند عورتیں دیوتائوں کے سامنے اپنے اور اپنے بچوں کے بالوں کی قربانی دیتی ہیں، اس مونڈن کی بڑی مذہبی اہمیت ہے، اس مقصد کے لیے دور دراز سے سفر کرکے بعض مندروں اور مقامات کا رخ کیا جاتا ہے، مندروں اور مذہبی مقامات پہ سینکڑوں ٹن بالوں کا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے، مندروں سے ٹنوں کے حساب سے بال ہول سیلرز کو فروخت کیے جاتے ہیں۔
پھر یہ بال دیگر ملکوں کو برآمد کردیے جاتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان بالوں کی برآمد میں دنیا میں سرفہرست ملک بن گیا ہے۔
فیشن کی دلدادہ مغربی خواتین خصوصا افریقی ممالک کی خواتین میں مصنوعی طریقے سے اپنے بال لمبے کروانے کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کاروبار سے منسلک کمپنیوں کے مطابق ہندوستان سے بالوں کی تجارت کا سالانہ حجم قریباً 9 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
ایک کلو بالوں کی قیمت امریکی ملکوں میں کم وبیش 300 ڈالر ہے۔ ان بالوں کا کافی بڑا حصہ مختلف تطہیری مراحل سے گزارنے کے بعد وگ بنانے کے کام میں استعمال ہوتا ہے، ان بالوں سے تیار ہونے والی وگوں کو امریکہ، افریقہ اور یوروپ کے مختلف ممالک میں فروخت کے لیے اچھی قیمتوں پر باہر بھیجا جاتا ہے۔
پھر یہ وگ عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے مقصد سے تزئین و آرائش کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
اس ترقی و فروغ پذیر منافع بخش تجارت سے غیروں کے دیکھا دیکھی کچھ مسلمان بھی منسلک ہورہے ہیں۔ اور مجھے اس حوالے سے دستیاب اطلاع کے مطابق بڑے بڑے مسلمان تجار اس میں ملینوں کا انویسٹ مینٹ کرچکے ہیں، ان کی آمدنی اس پیشہ سے وابستہ ہوچکی ہے
اس لئے ضروری ہے کہ شرعی اصولوں کی روشنی میں اس کاروبار کا حکم جانا جائے۔
چاروں فقہی مذاہب کے علماء کا اتفاق ہے کہ انسان کا بال خواہ سر میں لگا ہوا ہو یا اس سے جدا کیا ہوا، مسلمان کا ہو یا کافر کا، خود انسان کی طرح وہ بھی قابل اکرام ہے، اس کی خرید وفروخت یا ہبہ و عطیہ کرنا یا اسے کسی بھی طرح استعمال میں لانا جزو انسان کی توہین ہونے کے سبب ناجائز وحرام ہے۔
صاحب ہدایہ امام مرغيناني الحنفي فرماتے ہیں:
انسانی بالوں کی فروخت جائز نہیں ہے؛ کیونکہ انسان قابل احترام ہے، اس کے کسی جزء کی تو ہین (خرید وفروخت) جائز نہیں:
"الهداية" (6/ 425-426، ط. دار الفكر): [(ولا يجوز بيع شعور الإنسان..) لأن الآدميَّ مكرمٌ لا مبتذلٌ فلا يجوز أن يكون شيءٌ مِن أجزائه مُهانًا ومُبتذلًا] اهـ.[(ولنا: أن عدم الانتفاع به والبيع لكرامته) ش: أي لأجل كرامته؛ لأن الآدميَّ مكرمٌ بالنص، والضميرُ في (به) يرجع إلى الشعر، وفي (كرامته) يجوز أن يرجع إلى الشعر أيضًا، ولكونه مكرمًا بكرامة صاحبه] (الإمام بدر الدين العيني الحنفي في "البناية شرح الهداية" (1/ 429، ط. دار الكتب العلمية)
(قوله: ولا يجوز بيع شعر الإنسان) مع قولنا بطهارته (..لأن الآدمي مكرمٌ غير مبتذلٍ؛ فلا يجوز أن يكون شيءٌ من أجزائه مهانًا ومبتذلًا) وفي بيعه إهانة] (كمال بن الهمام الحنفي في "فتح القدير" (6/ 425-426، ط. دار الفكر)۔
مالکیہ کی کتاب “مختصر خلیل“ کے حاشیہ میں امام مالک سے بالوں کی فروخت کے سلسلے میں کراہت کا قول منقول ہے:
(تنبيه): سُئِلَ مالكٌ عن بيع الشعر الذي يُحلَقُ من رءوس الناس؟ فكرهه] (أبو الحسن العدوي المالكي [ت: 1189هـ] في "حاشيۃ أبی الحسن العدوي المالكي [ت: 1189هـ] على شرح مختصر خليل للخرشي" (1/ 83، ط. دار الفكر): و "الكافي" (ص: 328، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)
شافعیہ کی کتاب "مغني المحتاج" للخطيب الشربيني الشافعي (1/ 406، ط. دار الكتب العلمية) میں انسان کے کسی بھی عضو سے انتفاع کو یکسر حرام قرار دیا گیا ہے: [والآدمي يحرم الانتفاع به وبسائر أجزائه لكرامته] اهـ
حنابلہ کی کتاب "كشاف القناع" للإمام البهوتي الحنبلي (1/ 57، ط. دار الكتب العلمية) میں بھی اس کی فروخت کو ناجائز کہا گیا ہے:
[(ولا يجوز استعمال شعر الآدمي) مع الحكم بطهارته (لحرمته) أي احترامه]
"الموسوعة الفقهية" (26 / 102) میں ہے:
واتّفق الفقهاء على عدم جواز الانتفاع بشَعْر الآدميّ بيعاً واستعمالاً؛ لأنّ الآدميّ مكرّم، لقوله سبحانه وتعالى: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ) .
فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهاناً مبتذلاً" انتهى۔
چاروں فقہی مسالک میں سے کسی میں بھی انسانی بالوں کی و گوں کا برائے زینت استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، لہذا یہ مسئلہ اتفاقی ہوا کہ خوبصورتی اور زیب و زینت کے لئے وگ تیار کرنے والے ادارے یا شخصیات کے ہاتھ انسانی بالوں کو فروخت کرنا یا عطیہ دینا از روئے شرع جائز نہیں ہے۔
ہاں بعض رفاہی عالمی ادارے ایسے بھی ہیں جو صرف کینسرزدہ یا جلے ہوئے لوگوں کے لئے بالوں کی وگ تیار کرتے ہیں
اور مصیبت وآفت زدگان کو یہ وگ فراہم کرتے ہیں (جیسے 'راج ہیئر انٹرنیشنل' نامی کمپنی کینسر کے مریضوں کو وگ بطور عطیہ فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی تقریبا 56 ممالک میں وگوں کو برآمد بھی کرتی ہے۔)
خواتین اور بچوں کے سر منڈوانے سے حاصل ہونے والے بالوں کا کافی بڑا حصہ وگ بنانے کے کام آتا ہے۔
تو ایسے وگ تیار کرنے والے خیراتی اداروں کے لئے اپنے بال مفت عطیہ کرنے کی اجازت بعض عرب علماء (شیخ عثیمین وغیرہ) دیتے ہیں بشرطیکہ وہ با اعتماد ہوں۔
جبکہ ناقابل اعتبار اور خوبصورتی کے لئے وگ تیار کرنے والے اداروں کے لئے بال عطیہ کرنے کی گنجائش ان کے یہاں بھی نہیں ہے
ہمارے ملک میں بالوں کو جمع کرنے والے رفاہی ادارے خال خال جبکہ مہنگے داموں میں اس کی خرید وفروخت کا دھندا روز افزوں ترقی پذیر ہے،
اس طرح یہ کارو بار شرعا باطل اور ناجائز ہے، اس کے ذریعہ حاصل شدہ آمدن بھی شرعا جائز نہیں، مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ناجائز تجارت سے کنارہ کش ہوکے حلال اور پاک وطیب ذریعہ معاش ڈھونڈیں۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
٧ شوال ١٤٤٠هجري
https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/blog-post_84.html
پوری کائنات میں سب سے افضل واشرف مخلوق انسان ہے۔
خواہ زندہ ہو یا مردہ، مسلم ہو یا کافر بحیثیت انسان اس کی تکریم واحترام کو اسلام میں واجب قرار دیا گیا ہے، اس کی یا اس کے کسی عضو جسمانی کی توہین اسلام میں جائز نہیں ہے۔
اس کے کسی بھی جزء سے انتفاع و استفادہ کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے مدت رضاعت سے زائد مدت دودھ پلانا بھی ممنوع ہے۔
ہر اس عمل سے اسلام نے روکا ہے جو انسان کی اشرفیت وافضلیت کے منافی ہو۔ اگر اسلام انسان کی تکریم واحترام کی اتنی موکد تعلیم نہیں دیتا تو انسان قابل تکریم اور اشرف المخلوقات کی بجائے متاع بازار بن کے رہ جاتا اور لوگ اس کے گوشت پوست سے سربازار بھوک مٹاتے نظر آتے!
پھر انسان اپنے جسم کا خود مالک بھی نہیں ہے بلکہ وہ صرف امین ہے۔ جسم کا مالک اللہ ہے۔ جب جسم انسان کا مملوک نہیں تو پھر غیر مملوک شئے میں کسی بھی قسم کا تصرف کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ۔۔ اس لئے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے جسم کے کسی حصہ (بال بھی جسم انسانی کا ایک حصہ ہے) کی بیع یا ہبہ وعطیہ ملک غیر میں تصرف کے باعث ناجائز ہے۔
قال العلامۃ کمال الدین ابن الہمام ؒ: والانتفاع بہ لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا وفی بیعہ اھانۃ لہٗ وکذا فی امتھانہ باالانتفاع۔ (فتح القدیر:ج؍۶، ص؍۶۳، باب البیع الفاسد)
قال العلامۃالکاسانیؒ: والاآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والاحترام ابتذالہ بالبیع والشراء۔ (البدائع والصنائع:ج؍۵، ص؍۱۴۵، کتاب، البیوع، فصل واماالذی یرجع الی المقصود۔۔۔۔۔الخ
ومثلہ فی ردالمحتار: ج؍۶،ص؍۳۷۲، فصل فی النظر والمس۔کتاب الخطر والاباحۃ۔
والآدمي مکرم شرعًا، والمراد تکریم صورتہ وخلقتہ، وکذا لم یجز کسر عظام میت۔ (شامي ۷؍۲۴۵ زکریا، البحر الرائق ۶؍۸۱)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴)
الاٰدمي مکرمٌ شرعًا وإن کان کافرًا، فإیراد العقد علیہ وإبتذالہ بہ، وإلحاقہ بالجمادات إذلالٌ لہ أي وہو غیر جائز، … وصرح في فتح القدیر ببطلانہ۔ (رد المحتار، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد، مطلب: الآدمي مکرم شرعًا ولو کافرًا ۵؍۵۸ دار الفکر بیروت، ۷؍۲۴۵ زکریا، فتح القدیر، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد ۶؍۳۹۰ زکریا، ۶؍۴۲۵ مصطفیٰ البابي الحلبي مصر، البحر الرائق ۶؍۸۱، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴ زکریا)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴)
مضطر لم یجد میتۃ وخاف الہلاک، فقال لہ رجل: إقطع یدي وکلہا، أو قال: اقطع مني قطعۃ وکلہا لا یسعہ أن یفعل ذٰلک، ولا یصح أمرہ بہ کما لا یسع للمضطر أن یقطع قطعۃ من نفسہ فیأکل۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الحادي عشر في الکراہۃ في الأکل الخ ۵؍۳۳۸، الفتاویٰ البزازیۃ مع الہندیۃ ۳؍۴۰۴)۔
اس لئے اعضاء انسانی کی خرید وفروخت یا ہبہ وعطیہ اسلام کے بنیادی تصور کے خلاف ہے اور ناجائز ہے۔
ہمارا ملک ہندوستان گرچہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کا مجموعہ ہے، تاہم یہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے، ہندو مذہب میں منتوں اور مرادوں کو پورا ہونے کے بعد قسمت کی دیوی کی توجہ اہنی جانب مبذول کروانے کے لئے بالوں کا عطیہ (مونڈن) دیا جاتا ہے، اور عقیدت مند عورتیں دیوتائوں کے سامنے اپنے اور اپنے بچوں کے بالوں کی قربانی دیتی ہیں، اس مونڈن کی بڑی مذہبی اہمیت ہے، اس مقصد کے لیے دور دراز سے سفر کرکے بعض مندروں اور مقامات کا رخ کیا جاتا ہے، مندروں اور مذہبی مقامات پہ سینکڑوں ٹن بالوں کا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے، مندروں سے ٹنوں کے حساب سے بال ہول سیلرز کو فروخت کیے جاتے ہیں۔
پھر یہ بال دیگر ملکوں کو برآمد کردیے جاتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان بالوں کی برآمد میں دنیا میں سرفہرست ملک بن گیا ہے۔
فیشن کی دلدادہ مغربی خواتین خصوصا افریقی ممالک کی خواتین میں مصنوعی طریقے سے اپنے بال لمبے کروانے کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کاروبار سے منسلک کمپنیوں کے مطابق ہندوستان سے بالوں کی تجارت کا سالانہ حجم قریباً 9 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
ایک کلو بالوں کی قیمت امریکی ملکوں میں کم وبیش 300 ڈالر ہے۔ ان بالوں کا کافی بڑا حصہ مختلف تطہیری مراحل سے گزارنے کے بعد وگ بنانے کے کام میں استعمال ہوتا ہے، ان بالوں سے تیار ہونے والی وگوں کو امریکہ، افریقہ اور یوروپ کے مختلف ممالک میں فروخت کے لیے اچھی قیمتوں پر باہر بھیجا جاتا ہے۔
پھر یہ وگ عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے مقصد سے تزئین و آرائش کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
اس ترقی و فروغ پذیر منافع بخش تجارت سے غیروں کے دیکھا دیکھی کچھ مسلمان بھی منسلک ہورہے ہیں۔ اور مجھے اس حوالے سے دستیاب اطلاع کے مطابق بڑے بڑے مسلمان تجار اس میں ملینوں کا انویسٹ مینٹ کرچکے ہیں، ان کی آمدنی اس پیشہ سے وابستہ ہوچکی ہے
اس لئے ضروری ہے کہ شرعی اصولوں کی روشنی میں اس کاروبار کا حکم جانا جائے۔
چاروں فقہی مذاہب کے علماء کا اتفاق ہے کہ انسان کا بال خواہ سر میں لگا ہوا ہو یا اس سے جدا کیا ہوا، مسلمان کا ہو یا کافر کا، خود انسان کی طرح وہ بھی قابل اکرام ہے، اس کی خرید وفروخت یا ہبہ و عطیہ کرنا یا اسے کسی بھی طرح استعمال میں لانا جزو انسان کی توہین ہونے کے سبب ناجائز وحرام ہے۔
صاحب ہدایہ امام مرغيناني الحنفي فرماتے ہیں:
انسانی بالوں کی فروخت جائز نہیں ہے؛ کیونکہ انسان قابل احترام ہے، اس کے کسی جزء کی تو ہین (خرید وفروخت) جائز نہیں:
"الهداية" (6/ 425-426، ط. دار الفكر): [(ولا يجوز بيع شعور الإنسان..) لأن الآدميَّ مكرمٌ لا مبتذلٌ فلا يجوز أن يكون شيءٌ مِن أجزائه مُهانًا ومُبتذلًا] اهـ.[(ولنا: أن عدم الانتفاع به والبيع لكرامته) ش: أي لأجل كرامته؛ لأن الآدميَّ مكرمٌ بالنص، والضميرُ في (به) يرجع إلى الشعر، وفي (كرامته) يجوز أن يرجع إلى الشعر أيضًا، ولكونه مكرمًا بكرامة صاحبه] (الإمام بدر الدين العيني الحنفي في "البناية شرح الهداية" (1/ 429، ط. دار الكتب العلمية)
(قوله: ولا يجوز بيع شعر الإنسان) مع قولنا بطهارته (..لأن الآدمي مكرمٌ غير مبتذلٍ؛ فلا يجوز أن يكون شيءٌ من أجزائه مهانًا ومبتذلًا) وفي بيعه إهانة] (كمال بن الهمام الحنفي في "فتح القدير" (6/ 425-426، ط. دار الفكر)۔
مالکیہ کی کتاب “مختصر خلیل“ کے حاشیہ میں امام مالک سے بالوں کی فروخت کے سلسلے میں کراہت کا قول منقول ہے:
(تنبيه): سُئِلَ مالكٌ عن بيع الشعر الذي يُحلَقُ من رءوس الناس؟ فكرهه] (أبو الحسن العدوي المالكي [ت: 1189هـ] في "حاشيۃ أبی الحسن العدوي المالكي [ت: 1189هـ] على شرح مختصر خليل للخرشي" (1/ 83، ط. دار الفكر): و "الكافي" (ص: 328، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)
شافعیہ کی کتاب "مغني المحتاج" للخطيب الشربيني الشافعي (1/ 406، ط. دار الكتب العلمية) میں انسان کے کسی بھی عضو سے انتفاع کو یکسر حرام قرار دیا گیا ہے: [والآدمي يحرم الانتفاع به وبسائر أجزائه لكرامته] اهـ
حنابلہ کی کتاب "كشاف القناع" للإمام البهوتي الحنبلي (1/ 57، ط. دار الكتب العلمية) میں بھی اس کی فروخت کو ناجائز کہا گیا ہے:
[(ولا يجوز استعمال شعر الآدمي) مع الحكم بطهارته (لحرمته) أي احترامه]
"الموسوعة الفقهية" (26 / 102) میں ہے:
واتّفق الفقهاء على عدم جواز الانتفاع بشَعْر الآدميّ بيعاً واستعمالاً؛ لأنّ الآدميّ مكرّم، لقوله سبحانه وتعالى: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ) .
فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهاناً مبتذلاً" انتهى۔
چاروں فقہی مسالک میں سے کسی میں بھی انسانی بالوں کی و گوں کا برائے زینت استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، لہذا یہ مسئلہ اتفاقی ہوا کہ خوبصورتی اور زیب و زینت کے لئے وگ تیار کرنے والے ادارے یا شخصیات کے ہاتھ انسانی بالوں کو فروخت کرنا یا عطیہ دینا از روئے شرع جائز نہیں ہے۔
ہاں بعض رفاہی عالمی ادارے ایسے بھی ہیں جو صرف کینسرزدہ یا جلے ہوئے لوگوں کے لئے بالوں کی وگ تیار کرتے ہیں
اور مصیبت وآفت زدگان کو یہ وگ فراہم کرتے ہیں (جیسے 'راج ہیئر انٹرنیشنل' نامی کمپنی کینسر کے مریضوں کو وگ بطور عطیہ فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی تقریبا 56 ممالک میں وگوں کو برآمد بھی کرتی ہے۔)
خواتین اور بچوں کے سر منڈوانے سے حاصل ہونے والے بالوں کا کافی بڑا حصہ وگ بنانے کے کام آتا ہے۔
تو ایسے وگ تیار کرنے والے خیراتی اداروں کے لئے اپنے بال مفت عطیہ کرنے کی اجازت بعض عرب علماء (شیخ عثیمین وغیرہ) دیتے ہیں بشرطیکہ وہ با اعتماد ہوں۔
جبکہ ناقابل اعتبار اور خوبصورتی کے لئے وگ تیار کرنے والے اداروں کے لئے بال عطیہ کرنے کی گنجائش ان کے یہاں بھی نہیں ہے
ہمارے ملک میں بالوں کو جمع کرنے والے رفاہی ادارے خال خال جبکہ مہنگے داموں میں اس کی خرید وفروخت کا دھندا روز افزوں ترقی پذیر ہے،
اس طرح یہ کارو بار شرعا باطل اور ناجائز ہے، اس کے ذریعہ حاصل شدہ آمدن بھی شرعا جائز نہیں، مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ناجائز تجارت سے کنارہ کش ہوکے حلال اور پاک وطیب ذریعہ معاش ڈھونڈیں۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
٧ شوال ١٤٤٠هجري
https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/blog-post_84.html
No comments:
Post a Comment