Wednesday 19 June 2019

غائبانہ نمازِ جنازہ کی عدم مشروعیت پر ایک تحقیقی جواب

غائبانہ نمازِ جنازہ کی عدم مشروعیت پر ایک تحقیقی جواب

سوال: مفتی صاحب آپ کا غائبانہ نماز جنازہ پر ایک جواب نظر نواز ہوا۔ اس میں آپ نے لکھا ہے کہ نجاشی اور حضرت معاویہ مزنی رضی اللہ عنہما کا جنازہ بطور معجزہ آپ کے سامنے کردیا گیا تھا۔ برائے مہربانی اس کی دلیل عنایت فرمادیں اور احناف کے موقف کے مزید دلائل مطلوب ہیں۔ 
(المستفتی: عباداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق: 

مسئلہ ھذا میں ہمارے پاس دلیل نہیں بلکہ دلائل نقلیہ و عقلیہ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ دلائل مرغوب الفتاوی میں مذکور ایک محقق و مدلل مضمون سے نقل کیے جارہے ہیں، جنہیں فاضل مرتب نے حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری کے ایک فتوی اور مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین صفدر اکاڑوی رحمہما اللہ کے ایک مضمون کی مدد سے تیار کیا ہے، اور اسے خود بھی مزید تحقیق وحوالہ جات سے مزین کیا ہے۔ تمام دلائل عنوان کے تحت درج کیے گئے ہیں، نیز یہاں تمام دلائل کے حوالہ جات اور عربی عبارات نقل نہیں کیے جاسکے، مکمل حوالہ جات مرغوب الفتاوی جلد سوم میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
نجاشی کی نماز جنازہ:
آنحضرت ﷺنے نجاشی کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی ہے، اس سے استدلال صحیح نہیں۔ اس لئے کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی کا جنازہ آپ ﷺ کے سامنے کردیا گیا تھا۔ اور صحابہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جنازہ آپ ﷺ کے سامنے ہے۔ جیسا کہ آگے مذکور روایات سے معلوم ہوگا۔
نجاشی کا اعزاز:
نیز اس میں نجاشی کا اعزاز بھی مقصود تھا۔نجاشی کی خدمات بہت ہیں۔ مکہ مکرمہ میں جب مشرکین مکہ نے صحابہ ؓ پر بہت ہی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کیا کہ کسی طرح اسلام سے بر گشتہ ہوجائیں تو آنحضور ﷺ کے حکم سے صحابہ ؓ نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔وہاں نجاشی نے صحابہ ؓ کا بہت ہی اعزاز و اکرام کیا اور ہر طرح ان کو راحت پہنچائی اور خود بھی حلقہ بگوش اسلام ہوکر مسلمان بن گئے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۹۹/۱)
ایسے وقت میں جب صحابہ ؓ کا کوئی معاون ومددگار نہ تھا نجاشی نے ان کو پناہ دی اور ہر طرح مدد کی تو جب آنحضو ر ﷺ کو ان کی وفات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے صحابہ ؓ سمیت ان کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھائی۔ اس میں نجاشی کا اعزاز بھی مقصود ہے، لہٰذا یہ حکم عام نہ ہوگا اور اس سے استدلال صحیح نہ ہوگا۔
آنحضرت ﷺ کا کسی صحابی و شہید پر ؓ غائبانہ نماز نہ پڑھنا:
خود آنحضرت ﷺ کے مبارک زمانہ میں بے شمار صحابہ ؓ مدینہ منورہ کے باہر شہید ہوئے اور ان کے شہید ہونے کی خبر خود آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ کو دی، مگر ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی، حالانکہ خود حضور ﷺ کی ہدایت تھی کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے تو مجھے اس کی اطلاع دو، اس لئے کہ میرا نماز پڑھانا مردے کے لئے باعث رحمت ہے۔
اور فرمان خدا وندی ہے : {اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ}
بے شک آپ کی دعا ان کے لئے باعث تسکین ہے۔
بیر معونہ کا واقعہ اور کسی شہید پر نماز جنازہ نہ پڑھنا:
بیر معونہ کا مشہور حادثہ پیش آیا جس میں ستر قراء صحابہ ؓ کو دشمنان اسلام نے دھوکہ سے اپنے ساتھ لے جاکر بڑی بے دردی سے شہید کردیا۔حضور ﷺ کو اس سے بہت ہی صدمہ ہوا۔ ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی، مگر ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
غزوۂ موتہ کے شہداء پر نماز جنازہ نہ پڑھنا:
غزوۂ موتہ میں خود حضور ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ ، حضرت جعفر بن ابی طالب، ؓ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کی خبر دی، ان کے لئے دعائے مغفرت کی مگر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ اگر غائبانہ نماز جنازہ کا عام رواج ہوتا تو آپ ﷺ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے اور آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ ؓ پڑھتے، مگر اس کا صحیح طور پر ثبوت نہیں۔ لہٰذا اب کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھے، اگر پڑھے گا تو یہ خلاف سنت ہوگا۔
نجاشی کی نمازِ جنازہ کے جوابات:
غائبانہ نماز جنازہ کے قائلین کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپ ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے کئی جوابات دئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ اس روایت کے راوی حضرت ابوہریرہ ؓ ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ راوی ٔ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھی؟
نجاشی کا انتقال رجب ۹ ہجری جمعرات کے دن ہوا۔ (حاشیہ موطا)
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا انتقال ۵۷ ہجری میں ہوا۔
معلوم ہوا نجاشی کے واقعہ کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ ۴۸ یا ۴۹ سال زندہ رہے۔ کیا اس کا ثبوت ہے کہ اس طویل عرصہ میں راویٔ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کسی ایک میت پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو؟
حضرت جابر ؓ سے بھی یہ روایت مروی ہے۔
اب دیکھئے حضرت جابر ؓ کا انتقال۷۴ ہجری میں ہوا۔  اس طویل عرصہ تقریبا ۶۴ سال میں حضرت جابر ؓ کا ایک مرتبہ بھی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت ہے؟
اسی طرح حضرت عمران بن حصین ؓ اس واقعہ کے راوی ہیں۔ان کی وفات ۵۲ ہجری میں ہوئی۔
۴۳ سال میں انہوں نے کسی ایک کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ہے؟
حضرت عمران بن حصین ؓ نے تو بات واضح فرمادی کہ:
’’وما نحسب الجنازۃ الا موضوعۃ بین یدیہ‘‘
یعنی ہم خیال نہیں کرتے، مگر یہ کہ جنازہ آپ ﷺ کے سامنے رکھا ہوا ہے۔
اور ابن حبان کے الفاظ ہیں: ’’وھم لایظنون الا ان الجنازۃ بین یدیہ‘‘۔
یعنی صحابۂ کرام خیال نہیں کرتے تھے مگر یہی کہ جنازہ حضرت ﷺ کے سامنے ہے۔ مسند ابو عوانہ میں یہ ا لفاظ ہیں: ’’نحن لا نری الا ان الجنازۃ قد امنا‘‘۔
یعنی ہم نہیں دیکھتے تھے، مگر جنازہ ہمارے آگے ہے۔
معلوم ہوا صحابۂ کرام ؓنے یہ سمجھ کر نجاشی کا جنازہ پڑھا ہی نہیں کہ جنازہ غائب ہے، بلکہ اس خیال سے پڑھا کہ جنازہ حضور ﷺ کے سامنے ہے۔
نجاشی پر نمازِ جنازہ کی خصوصیت کی وجہ:
رہا سوال کہ نجاشی کے جنازہ کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ کیوں پیش آیا؟ تو امام محمد ؒ فرماتے ہیں:
’’الایری انہ صلی علی النجاشی بالمدینۃ وقد مات بالحبشۃ فصلوۃ رسول اللہ ﷺ برکۃ و طہور ولیست کغیرھا من الصلوات وھو قول ابی حنیفۃ ؒ‘‘
کیا نہیں دیکھتا کہ آنحضرت ﷺنے مدینہ منورہ میں نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی، حالانکہ وہ حبشہ میں انتقال کرگئے تھے۔ آپ ﷺ کی نماز برکت والی اور پاک کرنے والی تھی اور دوسروں کی نمازوں جیسی نہیں تھی، یہی فرمان امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے۔
دوسری و جہ یہ تھی کہ نجاشی کی وفات اپنے ملک میں ہوئی تھی اور ان پر کسی نے نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، اس لئے آپ ﷺ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
امام ابو داؤد ؒ نے اس حدیث پر ان الفاظ سے باب قائم کیا ہے ’’باب فی الصلوۃ علی المسلم یموت فی بلاد الشرک‘‘ یعنی یہ باب اس مسلمان پر نماز جنازہ پڑھنے کے بیان میں ہے جو بلاد شرک میں فوت ہوجائے۔
اس بات کی شرح میں علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں:
نجاشی ایک مسلمان آدمی تھے۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی، مگر وہ اپنا ایمان چھپاتے تھے اور جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو مسلمانوں پر اس کی نماز جنازہ ادا کرنا واجب ہے۔ نجاشی چونکہ اہل کفر میں مقیم تھے اور وہاں کوئی نہ تھا جو ان کی نماز جنازہ پڑھتا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے لئے ان کی نماز جنازہ پڑھنا ضروری تھا، کیونکہ آپ ﷺ ان کے نبی تھے اور لوگوں کی نسبت اس کے زیادہ حق دار تھے، پس اسی سبب سے آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی دعوت دی۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ:
حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک نماز جنازہ مشروع ہی نہیں۔ جہاں تک نجاشی کے واقعہ کا تعلق ہے سو یہ ان کی خصوصیت ہے۔ نیز وہ مسلمان بادشاہ تھے اور مسلمانوں کی انہوں نے بطور خاص مدد کی اور ان پر کسی نے نماز نہیں پڑھی تھی، اس لئے آپ ﷺ نے ان پر مدینہ منورہ میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’نبی کریم ﷺ نے نجاشی کا جنازہ پڑھا، کیونکہ وہ کفار کے درمیان فوت ہوئے تھے اور ان کا جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔
’’کما صلی النبی ﷺ علی النجاشی لانہ مات بین الکفار ولم یصل علیہ۔
تیسری وجہ خصوصیت کی یہ ہے کہ: جب نجاشی اسلام لاچکے تھے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ ایک آدھ دفعہ تو خدمت اقدس میں حاضر ہوتے بالخصوص جب کہ کوئی مانع بھی نہیں تھا، پس ان کے اسلام کی اشاعت کے لئے آپ ﷺ نے ان کی نماز پڑھ کر اس کو ظاہر فرمادیا۔
چوتھی وجہ خصوصیت کی یہ ہے کہ: دوسرے بادشاہوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے اور جو دوسرے بادشاہ آپ ﷺ کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے ان کے استیلاف قلوب کے لئے نجاشی پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
قائلین غائبانہ نماز جنازہ کی دوسری دلیل اور اس کا جواب:
غائبانہ نماز جنازہ پر ایک استدلال حضرت معاویہ بن معاویہ مزنی ؓ کے واقعہ سے بھی کیا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تبوک میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی، حالانکہ ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔
اس واقعہ کے کئی جوابات دیئے گئے ہیں:
پہلا یہ کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں۔
اور علامہ ابن عبد البر ؒ فرماتے ہیں:
ان احادیث کی سندیں قوی نہیں ہیں، اگر یہ احکام سے متعلق ہوتیں تو ان میں سے کوئی بھی قابل حجت نہ ہوتیں۔ (الاستیعاب، ۳۷۵/۳)
اور ظاہر ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ  کا جواز احکام ہی سے متعلق ہے تو یہ سندیں کیسے حجت ہوسکتی ہیں؟
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ کے راوی حضرت انس ؓ ہیں۔ ان کا انتقال اس واقعہ کے ۸۴ سال کے بعد ۹۳ ہجری میں ہوا۔ ان ۸۴ سال میں سینکڑوں صحابہ ؓ کا وصال ہوا، مگر حضرت انس ؓ نے کسی ایک کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا نہ کی۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ نجاشی کی طرح اس واقعہ میں بھی کہ یہ ان کی خصوصیت تھی۔ اور وجہ اس خصوصیت کی خود روایت میں موجود ہے :
’’عن انس بن مالک ؓ قَالَ نَزَلَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام علی النبی ﷺ فقال یَا مُحَمَّد! مَاتَ مُعَاوِیَۃَ بْنُ مُعَاوِیَۃَ الْمَزَنِیؓ اَفَتُحِبُّ اَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَضَرَبَ بِجَنَاحَیْہِ فَلاَ شَجَرَۃٌ وَلاَ اَکَمَۃٌ اِلاَّ تَضَعْضَعَتْ وَ رُفِعَ سَرِیْرُہٗ حَتّٰی نَظَرَ اِلَیْہِ وَصَلّٰی عَلَیْہِ وَخَلْفَہُ صَفَّانِ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ کُلُّ صَفٍّ سَبْعُوْنَ اَلْفاً وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ بِمَ نَالَ ھٰذِہِ الْمَنْزِلَۃَ قَالَ بِحُبِّہِ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ وَقِرَائَ تِہٖ اِیَّاھَا ذَاھِباً وَجَائِیاً وَقَائِماً وَقَاعِداً وَعَلٰی کُلِّ حَالٍ‘‘۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: یا محمد!معاویہ بن معاویہ مزنی ؓ فوت ہوگئے ہیں آپ ان پر نماز جنازہ پڑھنا پسند کریں گے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں! حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنے دونوں پر مارے تو تمام درخت اور تمام ٹیلے نظروں کے سامنے سے ہٹ گئے اور جنازہ کی چار پائی سامنے لائی گئی حتی کہ آپ ﷺ نے اسے دیکھا اور اس پر نماز جنازہ پڑھی اور آپ ﷺ کے پیچھے فرشتوں کی دو صفیں تھیں، ہر صف میں ستر ہزار فرشتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا معاویہ ؓ نے یہ مقام کیسے پایا؟انہوں نے جواب دیا {قل ھو اللہ احد} سے محبت کی وجہ سے اور آتے جاتے، اٹھتے بیٹھتے اور ہر حال میں اس کے پڑھنے کی و جہ سے۔
اس روایت پر ایک نظر:
حضرت معاویہ ؓ کے واقعہ کی روایت میں ایک راوی محبوب بن ہلال ہیں۔ جن کے بارے میں ابو حاتم ؒ کہتے ہیں: ’’لیس بالمشہور‘‘، البتہ ابن حبان ؒ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’فوضع جبرئیل علیہ السلام جناحہ الایمن علی الجبال فتواضعت حتی نظرنا الی المدینۃ‘‘
ایک اور روایت میں ہے ’’قال جبرئیل علیہ السلام : فھل لک ان تصلی علیہ فافیض لک الارض قال نعم فصلی علیہ‘‘۔
اب ذرا اس روایت پر نظر ڈالیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ معاویہ ؓ کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنا دایاں پر پہاڑوں پر رکھا اور وہ دب گئے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ہمیں نظر آنے لگا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر نماز جنازہ مشروع ہوتی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو سوال کرنے کی پھر پر رکھ کر مدینہ منورہ دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور جب نظر آگیا تو غائب کہاں رہا، اسی لئے حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے نماز جنازہ پر دلیل پکڑنا جائز نہیں، کیونکہ پردے اٹھادیئے گئے تو جنازہ حاضر ہوگیا (غائب نہ رہا)۔
پورے ذخیرۂ حدیث میں غائبانہ نماز جنازہ کے صرف یہی دو واقعے ملتے ہیں۔ جن کی توجیہات گذر چکی۔
خلفاء اربعہ ؓ کا عمل:
خلاصہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے ان دو حضرات کے علاوہ نہ کسی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور نہ صحابہ ؓ کو پڑھنے کا حکم فرمایا، پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور مبارک میں کتنے قاری صحابہ ؓ مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتدین سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنی ؓ، حضرت علی مرتضی ؓ کے دور میں کتنے جلیل القدر صحابہ ٔ کرام ؓ نے مدینۃ الرسول ﷺ سے باہر جا م شہادت نوش فرمایا، یا بغیر شہادت کے وصال فرمایا، مگر کوئی ایک ثبوت نہیں ملتا کہ ان حضرات خلفاء ؓ نے کسی پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو اور اس کا بھی ثبوت مشکل ہے کہ ان حضرات خلفاء ؓ پر دوسرے صحابہ ؓ نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔
اور حضرت عثمان ؓ کی شہادت کیسی مظلومیت سے ہوئی۔ جمعہ کے دن عصر کے وقت شہادت کا واقعہ پیش آیا ۔ اتوار کی رات کو کل سترہ افراد نے کابل سے مراکش تک کے فرماں روا کی نماز جنازہ حضرت زبیر ؓ یا حضرت جبیر بن مطعم ؓ کی امامت میں پڑھی۔ معلوم ہوا اس دور میں نماز جنازہ غائبانہ کا نام و نشان نہیں تھا۔
*آپ کا میت پر نماز پڑھنے کی حرص کے باوجود غائبانہ نماز نہ پڑھنا*
نبی پاک ﷺ کی شفقت امت پر اس قدر تھی کہ آپ ﷺ کی موجودگی میں کسی کا وصال ہوجاتا اور آپ ﷺ کو اطلاع نہ ہوتی یا نہ کی جاتی تو آپ ﷺ اس میت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھتے اور بعض مرتبہ تنبیہ فرمائی کہ ’’افلا کنتم اٰذنتمونی‘‘ تم نے مجھ کو کیوں خبر نہ کی؟
کبھی فرمایا:
’’لا یموت فیکم میت ما دمت بین اظھرکم الا یعنی اٰذنتمونی بہ فان صلوتی لہ رحمۃ‘‘
یعنی جب تک میں تم میں موجود ہوں اس وقت تک اگر کوئی شخص وفات پاجائے تو مجھے بتادیا کرو، کیونکہ میرا اس پر نماز جنازہ پڑھنا اس کے لئے رحمت ہے۔
حضرت ام سعد بن عبادہ ؓ آنحضرت ﷺ کی غیر موجودگی میں فوت ہوگئیں جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو ان کی (قبر پر) نماز جنازہ پڑھی، جب کہ ان کی وفات کو ایک ماہ ہوچکا تھا۔
’’ان ام سعد ؓ ماتت والنبی ﷺ غائب فلما قدم صلی علیہا وقد مضی لذالک شھر‘‘
اس شفقت و حرص کے باوجود آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں اکابر صحابہ ؓ پر بھی سوائے ان دو مرتبہ کے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ مشروع ہی نہیں۔
مستفاد: مرغوب الفتاوی، جلد سوم، صفحہ 156 تا 164، مکتبہ جبریل)

فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 شوال المکرم 1440




No comments:

Post a Comment