Sunday, 16 June 2019

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار پیاری بیٹیاں اورکذاب شیعہ آصف رضا علوی​

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار پیاری بیٹیاں اورکذاب شیعہ آصف رضا علوی​

اس بات میں اہل سنت والجماعت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑی زینب، اس کے بعد رقیہ، اس کے بعد ام کلثوم پھر فاطمہ رضی اللہ عنہما۔ بیٹیوں کی ترتیب میں اختلاف ہے مگر مذکورہ ترتیب ہی اصح ہے، ابن عبدالبر نے لکھا ہے: والذي تسكن إليه النفس على ما تواترت به الأخبار ترتيب بنات رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن زينب الأولى ، ثم الثانية رقية ، ثم الثالثة أم كلثوم ، ثم الرابعة فاطمة الزهراء۔(الاستيعاب:ص 612) .
ترجمہ: متواتر اخبار سے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی ترتیب میں جس بات پر نفس کو سکون ملتا ہے وہ یہ ہے کہ زینت سب سے بڑی، دوسری رقیہ، تیسری ام کلثوم اور چوتھی فاطمہ الزاھراء رضی اللہ عنہما۔
اس بات پہ اہل السنہ کا اجماع ہے جو اس جماع کا منکر ہے وہ گمراہ شخص ہے۔ یہاں دو تاریخی بات بھی ذہن میں محفوظ کرلیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھیں سوائے ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور ساری اولاد آپ کی حیات مبارکہ میں ہی فوت ہوگئیں سوائے فاطمہ کے جوآپ کی وفات کے چھ ماہ بعد انتقال فرمائیں۔ 
شیعہ کے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کے متعلق دو موقف ہیں۔ 
(1) شیعہ میں بھی یقینا بعض لوگ بعض امور میں حق بیانی سے کام لیتے ہیں، اس معاملہ میں بھی وہ لوگ حق پر ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں لکھا ہے۔ متعدد شیعہ کتب میں اس بات کا ذکر ہے چنانچہ شیعہ کے عقیدہ کے مطابق امام مہدی کے نائب امام حسین بن روح سے پوچھا گیا: 
كم بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ فقال: أربع، قال: فأيهن أفضل؟ فقال: فاطمة (الغيبة للطوسي:1/409)
ترجمہ: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی بیٹیاں تھیں؟ انہوں نے کہا چار۔ پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سی تھیں؟ انہوں نے کہا فاطمہ۔
یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے، یہاں سے عربی عبارت کاپی کرکے گوگل میں سرچ کرسکتے ہیں بلکہ اس مضمون میں پیش کئے گئے شیعہ کے تمام حوالے انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں کوئی ان مراجع کی طرف التفات کرنا چاہے تو آسانی سے کرسکتا ہے۔
چاروں بیٹیوں کے اسماء بھی شیعہ کتب میں موجود ہیں چنانچہ شیعہ کتاب "الخصال" میں مذکور ہے۔ 
ولد لرسول الله ( صلى الله عليه وآله) من خديجة القاسم والطاهر وهو عبد الله وأم كلثوم ورقية وزينب وفاطمة (الخصال لابن بابویہ القمّي، ص : 404)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی: قاسم، عبد اللہ طاہر، ام کلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ۔
شیعہ عالم عبداﷲ مامقانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کا اس طرح ذکر کرتا ہے:
"وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم" (تنقیح المقال:3/73) 
ترجمہ: اور ان (خدیجہ رضی اﷲ عنہا) سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں تمام نے دور اسلام پائیں اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کیں۔ وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ 
اور بھی شیعہ کتابوں میں نام کے ساتھ چار بیٹیوں کا ذکر ہے، تاہم ان چند ثبوت سے ہی میرا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ 
(2) شیعہ کے نزدیک دوسرا موقف یہ ہے کہ رقیہ اور زینت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں ہیں بلکہ یہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں جب ان کی ماں وفات پاگئیں تو خدیجہ نے گود لے لیا۔ شیعہ عالم ابن شہر آشوب مناقب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی بات لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ سے جب شادی ہوئی تو وہ کنواری تھیں، اس بات کو تقویت پہنچانے کے لئے یہ عبارت لکھتا ہے: 
يؤكد ذلك ما ذكر في كتابي الأنوار والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة(مناقب آل أبي طالب :1 / 138)
ترجمہ: اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو الانوار اور البدع نامی کتابوں میں مذکورہے کہ رقیہ اور زینب، خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں۔
یہ دوسرا موقف جھوٹ، افتراء اور شیعی جعل سازی پر مبنی ہے۔ اس کے پردے میں اسلام پر، مقدس ہستیوں پر اور بے داغ سیرت نبوی پر انگشت نمائی کرنا چاہتا ہے۔ 
میرے پاس کئی لوگوں نے کذاب شیعہ آصف رضا علوی جو اپنی شکل سے ہی منحوس ولعنتی معلوم پڑتا ہے، کی ایک ویڈیو بھیجی ہے، اس میں یہ منحوس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بے غیرت والے لفظ سے کرتا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ اللہ اور اس کے فرشتوں کی بے شمار لعنتیں اس ملعون پر برسے۔ یہ اپنے بیان میں ذکرکرتا ہے کہ 25 سال میں نبی کی شادی ہوئی، چارسال تک آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی، 29 سال میں پہلی اولاد قاسم پیدا ہوئی جس سے آپ ابوالقاسم مشہور ہوئے۔ 40 سال میں نبوت ملی اور نبوت سے 5 سال پہلے 3 بیٹیوں کی شادی کردی تھی۔ اتنا بیان کرنے کے بعد پھر یہ ملعون ریاضیات کے حساب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی پیدائش اور نکاح کا حساب لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شادی اورنبوت میں 15 سال کا فاصلہ ہے۔ 4 سال تک کوئی اولاد نہیں، اگر پندرہ میں سے چار سال نکال دئے تو بچے 11 سال۔ نبوت سے 5 سال پہلے ہی تین بیٹیوں کا نکاح ہوچکا تھا، اس وجہ سے 11 میں سے 5 نکال دئے تو اولاد کی پیدائش اور نکاح کا وقفہ بنا صرف 6 سال۔ اتنا کہہ کر بے غیرت کا لفظ استعمال کرتا ہے پھر کہتا ہے کہ کس مذہب میں ہے کہ عمریں پوری کرو۔ 6 سال میں بچے بھی پیدا ہوگئے، جوان بھی ہوگئے اور شادی بھی ہوگئی۔ یہ ہے شیعہ کذاب کا علم ریاضیات سے سیرت نبی اور بنات رسول اللہ پر حملہ۔
ہمارے لئے اللہ کے کلام میں کسی چیز کا ذکر اور فرمان رسول میں اس کا تذکرہ ہی کافی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: 
يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذلك أدنى أن يعرفن فلا يؤذين وكان الله غفورا رحيما (الأحزاب :59)
ترجمہ:اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکالیا کریں یہ بات اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اوراللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے بنات کا لفظ ذکر کیا ہے جو ایک سے زائد پر بولا جاتا ہے ، گویا قرآن کی آیت اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں، صرف فاطمہ ہی اکیلی بیٹی نہیں ہے بلکہ زینت، رقیہ اور ام کلثوم بھی آپ کی بیٹیاں ہیں۔ 
اور فرمان رسول میں جابجا زینت بنت رسول اللہ، رقیہ بنت رسول اللہ، ام کلثوم بنت رسول اللہ کا ذکر آیا ہے۔ بطور مثال صرف صحیح بخاری کی صرف ایک روایت پیش کرتا ہوں جس میں تمام بیٹیوں کا ذکر اکٹھے آگیا ہے۔ 
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ (صحيح البخاري: 1258)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی فوت ہوگئی تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا: اسے تین بار یا پانچ بار اوراگر مناسب خیال کرو تو اس سے زیادہ بارغسل دو۔
اس حدیث میں بنات النبی کا لفظ آیا ہے جو ایک سے زائد بیٹیوں پر بولا جاتا ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں۔ 
اب آتے ہیں شیعہ کے جھوٹے بیان کی طرف، اس بیان میں شیعہ نے دو مفروضہ قائم کیا ہے۔ ایک مفروضہ تو یہ ہے کہ شادی کے چار سال بعد پہلی اولاد ہوئی اس کا نام قاسم ہے جس سے آپ ابوالقاسم مشہور ہوئے۔ دوسرا مفروضہ یہ قائم کیا ہے نبوت کے پانچ سال پہلے ہی تین بیٹیوں کا نکاح تین مشرکوں سے کردیا تھا۔ انہی دونوں مفروضوں پہ شیعہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ چھ سال میں پیدائش، جوانی اور شادی کیسے ہوگئی؟ چھ سال کی یہ مدت بتلاتی ہے کہ سیرت رسول میں چار بیٹیوں کا تذکرہ حقیقت نہیں افسانہ ہے۔ 
ان دونوں مفروضوں کی حقیقت جاننے کے لئے قاسم، زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ کی پیدائش ووفات اور نکاح پر تاریخی حوالے سے نظر ڈالتے ہیں۔
(1) قاسم بن محمد ﷺ: امام نووی رحمہ اللہ تہذیب الاسماء واللغات میں "فصل فی ابنائہ وبناتہ ﷺ" (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے اور بیٹیوں کے بیان میں) ۔ میں ذکرکرتے ہیں ۔ 
كان له ـ صلى الله عليه وسلم ـ ثلاثة بنين: القاسم وبه كان يُكَّنَّي، وُلِدَ قبل النبوة، وتوفي وهو ابن سنتين(تہذیب الاسماء واللغات)
ترجمہ: نبی کے تین بیٹے تھے، ایک تھے قاسم اور اسی کی طرف نسبت کرکے آپ نے کنیت (ابوالقاسم) رکھا تھا، یہ نبوت سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور دو سال کی مدت میں وفات پاگئے ۔ 
قاسم کی ولادت میں شیعہ عالم نے بھی بعثت سے قبل لکھا ہے اور یہی تاریخی حوالے سے قوی موقف ہے ۔ شیعہ عالم ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی نے لکھا ہے: وتزوج خديجة وهو ابن بضع وعشرين سنة، فولد له منها قبل مبعثه عليه السلام القاسم، ورقية، وزينب، وأم كلثوم (الكافي: 1/487)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ سے نکاح کیا اس وقت آپ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے آپ کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم ہیں۔
گویا شیعہ کا یہ کہنا کہ شادی کے چار سال بعد قاسم کی ولادت ہوئی سراسر جھوٹ ہے، سچائی ہے کہ نبوت سے قبل قاسم کی ولادت ہوئی اور نبوت سے قبل کہنے کا مطلب شادی کے فورا بعد بھی ولادت ہوسکتی ہے۔
(2) زینب بنت محمد ﷺ: آپ کی ولادت بعثت سے پہلے ہوئی، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: وقد ولدت قبل البعثة بمدة قيل إنها عشر سنين وتزوجها ابن خالتها أبو العاص بن الربيع العبشمي (الاصابة: 7/665)
ترجمہ: وہ (زینب) بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئیں اوررسول اللہ نے ان کی شادی اپنے خالہ کے بیٹے ابوالعاص بن ربیع عبشی سے کردی۔ 
زینب کی شادی دس سال میں ہوئی اور آٹھ ہجری میں وفات پاگئیں (الطبقات لابن سعد: 8/32, السير للذهبي: 2/250,الاصابة: 4/306)
ابوالعاص نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
(3) رقیہ بنت محمد ﷺ: ابن عبدالبر نے لکھا ہے: 
وولدت رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم ابن ثلاث وثلاثين سنة (الاستيعاب: 4/292)
ترجمہ: رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 33 سال تھی۔ 
اور ابن الاثیر نے لکھا ہے: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد زوج ابنته رقية من عتبة بن أبي لهب، وكانت دون العاشرة (أسد الغابة :7/126)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ کا نکاح عتبہ بن ابولہب سے دس سال سے کم میں کیا۔ 
علامہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے: وماتت رقية ورسول الله صلى الله عليه وسلم ببدر(البداية والنهاية:5/256, الطبقات الكبري لابن سعد: 8/36) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر (دوہجری کی جنگ) میں تھے کہ رقیہ وفات پاگئیں۔ 
(4) ام کلثوم بنت محمد ﷺ: بعثت سے قبل رقیہ کی ولات کے ایک سال بعد پیدا ہوئیں اور بعثت سے قبل ہی آپ کا ابولہب کے بیٹے عتیبہ سے نکاح ہوا۔ (نکاح کے لئے دیکھیں،الاستيعاب:4/294) اور نو ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ (الطبقات لابن سعد: 8/38, العبر للذهبي: 1/9, الاصابة: 4/466)
جب ابولہب کی بربادی کا اعلان بزبان رسالت ہوا تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں سے اپنی اپنی بیوی کو طلاق دینے کو کہا، تو حضرت عثمان رضی اللہ سے پہلے رقیہ کا نکاح ہوا، ان کی وفات کے بعد آپ ہی سے ام کلثوم کا بھی نکاح ہوا۔ 
(5) فاطمہ بنت محمد ﷺ: بعض نےلکھا ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 41 سال تھی مگر اصح قول کے مطابق 35 سال تھی یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔ (الطبقات الكبرى لابن سعد: 8/16).
غزوہ بدر کے بعد سن دو ہجری میں حضرت فاطمہ بنت محمد ﷺ کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا (الطبقات الكبرى لابن سعد 8/18)
رمضان المبارک 9 ہجری میں 29 یا اس جیسی عمرمیں انتقال فرماگئیں۔ (الطبقات الكبرى: 8/23)
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹے شیعہ آصف رضا علوی کا پہلا مفروضہ نکاح نبوی کے چار سال بعد پہلی اولاد ہوئی بالکل جھوٹ ہے کیونکہ متعبر تاریخ میں قاسم کی ولادت کا ذکر بعثت سے قبل لکھا ہےاور قابل اعتناء یہ ہے کہ اس بابت شیعہ حوالہ بھی مذکور ہے۔ اسی طرح دوسرا مفروضہ نبوت سے قبل تین بنات رسول کے نکاح کا، یہ بھی جھوٹا ہے کیونکہ نبوت کے سال کے قریب تقریبا دس سال کی عمر میں زینت اور رقیہ کے نکاح کا باوثوق حوالوں سے پتہ چلتا ہے۔ عرب تاریخ میں کم عمری میں عقد نکاح معروف تھا، سیرت کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوجائے گا، سات آٹھ سال میں بھی عقد ہوا کرتا تھا۔ عرب کی اس تاریخ کو جاننے کے لئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شیعہ کی کتابوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ شیعہ کے یہاں آپ کی تاریخ ولادت میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اکثر نے نبوت کے پانچ سال بعد لکھا ہے یعنی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 45 تھی اس وقت فاطمہ پیدا ہوئیں۔ (حوالہ: کلینی کی الکافی: 1/458، اربلی کی کشف الغمۃ: 1/449، طبری کی دلائل الامۃ: 79، ابن شہرآشوب کی المناقب: 3/357)
اور سیدہ فاطمہ کی حضرت علی سے شادی کا ذکر شیعہ کتب میں 1/ ذوالحجہ 2 ہجری کو ہے۔ اسی لئےشیعہ اس تاریخ کو زواج نورین کے نام سے مناتے ہیں۔ اس حساب سے فاطمہ کی ولادت اور نکاح میں دس سال کا وقفہ ہے۔ شیعہ یہ بات بھی مانتا ہے کہ فاطمہ کا نکاح صغر سنی میں ہوا تھا اور دلیل میں نسائی، ابن حبان، مستدرک وغیرہ میں موجود صحیح سند سے مروی حدیث سے استدلال کرتا ہے۔ 
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَطَبَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَاطِمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا مِنْهُ (صحيح النسائي:3221)
ترجمہ: حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو چھوٹی ہے۔ پھر حضرت علی ؓ نے پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فاطمہ کا نکاح کردیا۔
ابوبکر وعمر سے نکاح نہ کرنے کی وجہ شیعہ نے لکھا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ کو علی سے شادی کرنے کا حکم دیا تھا۔ (مجمع الزوائد: 9/207 کی یہ روایت موضوع ہے مگر یہاں شیعہ کا موقف پیش کرنا مقصود ہے۔)
گویا یہ تقریبا وہی تاریخ نکاح ہے جو زینت ورقیہ کا ہے۔ بھلا فاطمہ کی مدتِ نکاح شیعہ کے یہاں قابل اعتراض نہیں تو دیگربنات رسول کے عقد پہ اعتراض کیوں کر؟ 
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں اور شیعہ کا ریاضیات کے حوالے سے اس ٹھوس تاریخی حقیقت کا انکار کرنا سراسر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بنات رسول سے بغض کا اظہار ہے۔ اس کے پردے میں نہ صرف تاریخی حقیقت کا انکار کرتا ہے بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی کرتا ہے۔ اللہ ایسے گستاخوں کو غارت کرے۔
تحقیق: مقبول احمد سلفی 
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف (مسرہ) سعودی عرب
https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/blog-post_16.html


No comments:

Post a Comment