Thursday, 13 June 2019

مسجد سے گمشدہ چپل کے بدلے دوسرے کی چپل لے جانا؟

مسجد سے گمشدہ چپل کے بدلے دوسرے کی چپل لے جانا؟
مسجد میں عید کی نماز کے وقت چپل بدل گئے. آٹھ نمبر کی جگہ کوئی نو نمبر کے لے گیا تو کیا اس کے ہوبہو آٹھ نمبر والے چپل یہ آدمی لے سکتا ہے کمپنی ایک ہی ہے اور اب تک وہ چپل اس نے اسی انتظار میں وہیں رکھ چھوڑے ہیں کہ شاید وہ بدلنے آوے لیکن اب تک تو نہیں آیا تو کیا وہ لے سکتا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
نیز اگر کسی کی چپل مسجد میں چوری ہوجائے تو اس شخص کے لئے یہ جواز نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے جوتے چپل کے ساتھ اسی حرکت کا ارتکاب کرے اور وہ خود چوری کا مرتکب ہوجائے ؛ اس لئے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
’’لا ضرر ولا ضرار‘‘ (سنن ابن ماجۃ ،کتاب الأحکام، باب من بنی في حقہ ما یضر بجارہ ، حدیث نمبر : ۲۳۳۲) یعنی نہ ابتداءً کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ رد عمل میں 
(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
........
نیز احسن الفتاوی میں بھی شاید عدم جواز ہی لکھا ہے.
...........
جن جوتوں کے بارے میں خیال ہوکہ مالک ان کو تلاش کرے گا ان کا پہننا جائز نہیں۔ اورجن کو اس خیال سے چھوڑدیا گیا کہ خواہ کوئی لے، ان کا پہننا جائز ہے۔ ولو من الحرم․․․ فینتفع الرافع بہا أي إلی أن یغلب علی ظنہ أن صاحبہا لا یطلبہا (الدر مع الرد ۴/۲۷۹ کتاب اللقطة ط: سعید) 

------------
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ کی وضاحت فرمائیں عرض ھیکہ میں مسجد گیا وہاں میرا چپل غائب ہوگیا تو میں نے دیکھا جو سب سے آخر میں جو چپل بچا میں اسے پہن کر گھر آگیا پھر اسے واپس لے کر مسجد نہی لے گیا حالانکہ میرا بھی چپل نہی ملا تو میں یہ سمجھ کر نہی لے کر گیا شائد یہ اس کا ہوگا جو میرا لے کر گیا ہے تو اور ایک جگہ غائب ہوا تھا تو میں نے وہاں پر بھی اس طرح ہی کیا لیکن دوسری جگہ میرا مل گیا تھا اس کے بعد بھی میں اس کا کسی وجہ سے نہی واپس کر پایا حضرت بس میری رہنمائی فرمائیں میں نے کہاں تک صحیح اور کہاں تک غلط کیا میرے دونوں مسئلے کو الگ الگ سمجھائیں اس کے بدلے میں میں کیا کرو فقط والسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا گر کسی کی چپل مسجد میں چوری ہوجائے تو اس شخص کے لئے شرعا یہ جائزنہیں ہے کہ وہ دوسرے کے جوتے چپل کے ساتھ اسی حرکت کا ارتکاب کرے اور وہ خود چوری کا مرتکب ہوجائے؛ چوری پہ اسلام میں سزا متعین ہے۔ پھر مسجد جیسے مقدس جگہوں میں اس کی شناعت اور بڑھ جائے گی۔
اس لئے اس سے اجتناب کرنا لازما کرنا چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لا ضرر ولا ضرار‘‘ (سنن ابن ماجۃ، کتاب الأحکام، باب من بنی في حقہ ما یضر بجارہ، حدیث نمبر: ۲۳۳۲) یعنی نہ ابتداءً کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ رد عمل میں۔
آپ نے جو کچھ کیا وہ آپ کے لئے مناسب نہیں تھا۔ آپ کا یہ عمل سرقہ میں داخل ہے۔ 
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
----------------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر

-----------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/blog-post_47.html

No comments:

Post a Comment