بقیع الغرقد کہنا چاہئے، یا جنة البقيع؟
سوال: بقیع الغرقد کہنا چاہئے، یا جنة البقيع؟
ہمارے دیار میں جنت البقیع کہا جاتا ہے ۔کیا اس کے کہنے کا کوئی ثبوت ہے؟
نیز بیانات میں جنت البقیع کہیں یا بقیع کہیں؟.
جواب: بقیع اہل مدینہ کا مقبرہ ہے.
الغرقد کی وجہ تسمیہ یہ کہ اس مقبرہ کے پاس کچھ کانٹے دار درخت یا صنوبر کے درخت تھے جنہیں غرقد کہا جاتا ہے.
احادیث میں صراحت کا ساتھ بقيع الغرقد وارد ہوا ہے.
بقيع کے ساتھ لفظ جنت بندہ کو تلاش کے باوجود حدیث اور عربی شروحات حدیث میں نہیں ملا، البتہ بقیع سے متعلق کتب احادیث اور شروحات کی مراجعت سے یہ بات سمجھ آئی کہ ہوسکتا ہے کہ اس تسمیہ کا پس منظر اس کے سلسلہ میں وارد فضائل سے ہو.
جیسے ایک روایت میں آیا ہے کہ روز قیامت بقیع کے 70 ہزار مدفون لوگ مثل قمر کے اٹھائے جائیں گے اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے ۔
نیز اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق آپ علیہ السلام کو اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت دعا حکم دیا گیا۔
چناں چہ آپ علیہ السلام کا معمول تھا کہ آپ بقیع تشریف لے جایا کرتے اور اہل بقیع کے لیے دعا مغفرت فرمایا کرتے تھے.
نیز کعب الاحبار نے فرمایا کہ تورات میں بقیع کے لیے لفظ کفتة استعمال کیا گیا ہے.
"کفتة" کے بارے میں مدینہ منورہ کے قاضی شیخ عطیہ محمد سالم فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں ضم یعنی ملانا، یعنی روزے قیامت (اس کو یا اس کے مدفونین کو) جنت کے ساتھ ملایا جائے گا۔
ممکن ہے اسی وجہ سے ہمارے یہاں عجم میں اس کو جنت البقیع کہا گیا ہو.
خلاصہ یہ ہے کہ بقیع الغرقد کا لفظ روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے، بھتر یہ ہے کہ اسی کو بیان کیا جائے.
جنت البقیع کی تسمیہ روایات میں موجود نہیں، بلکہ عجم کے علماء کرام نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے، اس کی توجیہ عرض کردی گئی ہے.
اس لئے لا مشاحة فی الاصطلاح کی قبیل سے اس میں گنجائش نظر آتی ہے۔
لیکن اس خیال سے کہ جو بقیع میں دفن کیا جائے وہ جنت ضرور جائے گا ایسا کہنا بالجزم درست نہیں ہوگا اور اس کا ثبوت بھی روایات میں نہیں ملتا.
یاد رہے یہ ایک اصطلاح ہے اس پر لازمی طور پر جنت میں جانا سمجھا جائے یا برکت مکان کا اثر ہر حال میں ہوگا یہ درست نہیں، البتہ اہل ایمان میں سے اگر کوئی یہاں مدفون ہو تو مکان اور یہاں مدفون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء کرام کی برکت سے اس کو بھی رحمت خداوندی کی وسعت میں جگہ مل جائے اس کی امید کی جاسکتی ہے۔
استدراک
قال الشيخ محمد طلحه بلال أحمد منيار حفظه الله:
جيد ما كتبتموه ، وهو أصل التسمية تقريبا ، يعني لتقدسها وكثرة المدفونين من الصحابة والتابعين والأولياء فيها ، وهم أهل الجنان ، فهو من باب التغليب .
وذكر هيكل في كتابه : أن هذه التسمية انتشرت في حكم الأتراك العثمانيين ، حيث كان مكتوبا على باب المقبرة بخط جلي جميل: "جنت البقيع" ، وتداولها الناس وانتشرت على الألسنة .
گویا وجہ تسمیہ کا سبب اس مقبرہ کے فضائل، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جن کا اہل جنت ہونا یقینی ہے) وتابعین اولیاء کرام کے یہاں مدفون ہونا ہے، گویا من باب التغلیب اسے جنت البقیع سے موسوم کیا گیا ہے.
عوام میں اس تسمیہ کے پھیلنے اور مشہور ہونے کی وجہ یہ بنی کہ ترک خلافت عثمانیہ کے دور میں اس مقبرہ کے دروازہ پر واضح اور خوبصورت خط میں جنت البقیع لکھا گیا تھا جیسا کہ شیخ طلحہ بلال صاحب نے ھیکل کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
ابو الخیر عارف محمود
No comments:
Post a Comment