رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا نکاح
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں _ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ نے ابو العاص بن الربیع سے کیا _ انھیں آپ نے بہترین داماد قرار دیا _ حضرت رقیّہ اور حضرت ام کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان بن عفّان سے کیا _ اس بنا پر وہ ذو النورین کہلائے _ سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ کا نکاح آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی سے کیا _ یہ نکاح بھی سابق نکاحوں سے کم اہمیت کا حامل نہیں تھا _
جناب ابوطالب کثیرالعیال اور مالی اعتبار سے تنگ دست تھے _ انھیں سہارا دینے کی غرض سے حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کیا کہ ان کے ایک ایک بچے کو اپنی کفالت میں لے لیں _ چنانچہ عباس نے جعفر کو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو لیا _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو علی کی عمر 10 برس کے قریب تھی _ وہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والوں میں سے تھے _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سرپرستی کرتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان چھڑکتے _ ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر معمولی اعتماد کا مظہر یہ ہے کہ ہجرت کی رات، جب دشمن گھر کے باہر تلواریں سونتے ہوئے کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے بستر پر لٹایا اور اہلِ مکہ کی امانتیں بہ حفاظت انھیں واپس کرکے مدینہ آنے کی تاکید کی _
ہجرتِ مدینہ کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی فکر ہوئی _ اس وقت حضرت علی کی عمر 20 برس سے کچھ زائد اور حضرت فاطمہ کی عمر 20 برس سے کچھ کم تھی _ فاطمہ کے لیے پیغامات آنے لگے _ متعدد صحابہ ان سے رشتے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کے خواہش مند تھے، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی خواہش کا اظہار کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر خاموشی اختیار کی _ تب متعدد لوگوں نے، جن میں بعض خواتین بھی تھیں، حضرت علی کو مشورہ دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر فاطمہ سے رشتہ کی خواہش کا اظہار کریں _ ان کے بار بار کہنے پر حضرت علی نے ہمّت کی، خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے، لیکن دیر تک بیٹھے رہنے کے باوجود مارے شرم کے اظہارِ مدّعا نہ کرسکے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت بھی کیا: "کیوں آئے ہو؟ "مگر خاموش رہے _ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاید تم فاطمہ سے نکاح کے خواہش مند ہو؟" انھوں نے سَر ہلا دیا _
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح علی (رضی اللہ عنہ) سے کرنے کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی تھی، لیکن اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے بیٹی کی مرضی اور اجازت ضروری سمجھی _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور فرمایا:
"بیٹی! یہ علی آئے ہیں، تم سے نکاح کے خواہش مند ہیں، تمھاری کیا مرضی ہے؟" علی کی پرورش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہی میں ہوئی تھی _ وہ ان کے شب و روز سے اچھی طرح واقف تھیں _ علی کی دین داری، علم و فضل، دین کی راہ میں قربانی، جذبۂ جہاد اور شجاعت ان کی نگاہوں کے سامنے تھی _ انھوں نے شرماتے ہوئے جواب دیا: "اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فیصلے پر میں راضی ہوں _"
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علی سے دریافت کیا: "تمھارے پاس فاطمہ کو دینے کے لیے کیا ہے؟" عرض کیا: " آپ میری مالی حالت اچھی طرح جانتے ہیں _ میرے پاس ایک حُطَمی زرہ کے علاوہ اور کچھ نہیں _"
(ابوداؤد :2125) اس زرہ کی قیمت تقریباً 400 درہم تھی _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے ہی دے دو _" علی نے اسے فروخت کرکے مہر ادا کیا _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ، ابو بکر، عمر، سعد اور فلاں فلاں کو بُلا لاؤ _ " وہ آئے تو آپ نے ان کی موجودگی میں نکاح پڑھایا _
(ابوداؤد :2125) اس زرہ کی قیمت تقریباً 400 درہم تھی _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے ہی دے دو _" علی نے اسے فروخت کرکے مہر ادا کیا _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ، ابو بکر، عمر، سعد اور فلاں فلاں کو بُلا لاؤ _ " وہ آئے تو آپ نے ان کی موجودگی میں نکاح پڑھایا _
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بعد فاطمہ اور علی کے لیے علیٰحدہ گھر کا انتظام کیا _ ایک صحابی نے اس کے لیے اپنا ایک گھر پیش کردیا تھا _ آپ نے گھر گرہستی کا کچھ ضروری سامان بھی فراہم کیا: چارپائی، چمڑے کا تکیہ، جس میں روئی کی جگہ کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں، کچھ برتن _ حضرت اسماء بنت عمیس اور حضرت ام ایمن نے فاطمہ کو نئے گھر پہنچایا اور انھیں تیّار کیا _ عشاء کی نماز کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا، اسے علی اور فاطمہ دونوں پر چھڑکا اور ان کے لیے خیر و برکت اور سلامتی و عافیت کی دعا کی _
حضرت علی نے ولیمہ میں جَو، باجرہ، کھجور اور گھی کھلایا _ ایک روایت میں ہے کہ ایک مینڈھا بھی ذبح کیا تھا _ یہ انتظام انھوں نے بعض انصار کی مدد سے کیا تھا _
حضرت فاطمہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیٹی تھیں _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے _ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آتیں تو آپ اٹھ کر ان کا استقبال کرتے، ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے، ان سے پیار و محبت کی باتیں کرتے _ وقتاً فوقتاً خود بھی ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے احوال دریافت کرتے _ فاطمہ گھر کا سارا کام خود کرتیں _ کنویں سے پانی لاتیں، کھانا پکاتیں، چکّی پیستیں، جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں نشانات پڑگئے تھے اور دوسرے گھریلو کام انجام دیتیں _
ایک مرتبہ حضرت علی کو خبر ملی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے ہیں _ انھوں نے فاطمہ سے کہا:
" جاکر اپنے ابّا سے ایک غلام مانگ لاؤ، تاکہ تمھیں کچھ سہولت ہوجائے _" وہ گئیں، لیکن باپ کے سامنے اظہار کرنے کی ہمّت نہ کرسکیں _ حضرت عائشہ کو بتاکر واپس آگئیں _ بعد میں حضرت عائشہ نے آپ تک وہ بات پہنچائی _ دیر رات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بیٹی کے گھر تشریف لے گئے، جب کہ بیٹی داماد دونوں بستر پر جاچکے تھے _ انھوں نے اٹھنا چاہا، لیکن آپ نے منع کردیا اور دونوں کے درمیان میں جاکر بیٹھ گئے _ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَانِي؟ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، تُكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، وَتُسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ (بخاری: 3750)
"کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ سکھادوں جو اس سے بہتر ہے جس کی تم نے خواہش کی ہے _ جب لیٹنے چلو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو _ یہ ایک خادم سے بہتر ہے _ "
"کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ سکھادوں جو اس سے بہتر ہے جس کی تم نے خواہش کی ہے _ جب لیٹنے چلو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو _ یہ ایک خادم سے بہتر ہے _ "
ایک مرتبہ آپ تشریف لے گئے تو گھر میں علی کو نہ پایا _ دریافت کرنے پر بیٹی نے بتایا کہ کسی بات پر خفا ہوکر باہر چلے گئے ہیں _ آپ علی کی تلاش میں نکلے _ اِدھر اُدھر پتا لگایا _ معلوم ہوا کہ مسجد میں سو رہے ہیں _ آپ مسجد پہنچے _ دیکھا کہ چادر ہٹ گئی ہے اور بدن پر مٹّی لگ گئی ہے _ آپ پیار سے مٹّی جھاڑنے لگے اور کہتے جاتے تھے: قُمْ أَبَا تُرَابٍ" اٹھو ، اے مٹّی میں اَٹے ہوئے سونے والے" (بخاری :441) چنانچہ علی کا لقب ہی 'ابو تراب' پڑگیا _
اس تفصیل سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
(1) والدین کو بچوں کے بالغ ہونے کے بعد جلد ان کے نکاح کی فکر کرنی چاہیے _ اس میں تاخیر کرنا متعدد دینی و دنیوی اسباب سے مناسب نہیں ہے، بلکہ آئے دن اس کے نقصانات سامنے آتے رہتے ہیں _
(2) جوڑا ڈھونڈنے میں حسب ونسب، وجاہت اور مال و دولت وغیرہ سے زیادہ دین داری کو پیش نظر رکھنا چاہیے _ اس سے دنیاوی زندگی بھی سکون سے گزرتی ہے اور اخروی اعتبار سے بھی یہ فائدہ مند ہے _
(3) کوئی رشتہ پسند آجائے تو اسے فائنل کرنے سے پہلے بیٹی کی(اور بیٹے کی بھی) مرضی ضرور معلوم کرلینی چاہیے _ نکاح کے معاملے اولاد پر اپنی مرضی تھوپنی والدین کے لیے مناسب نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ دور میں _
(4) مہر عورت کا حق ہے _ اس کی ادائیگی شوہر کی طرف سے نکاح کے وقت ہی ہونی چاہیے _ (اگر نہ ہوسکے تو جلد از جلد اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے _ جب تک ادا نہ ہو یہ شوہر پر بیوی کا قرض ہوتا ہے _)
(5) مہرِفاطمی کی کوئی امتیازی حیثیت نہیں ہے _ حضرت فاطمہ کا جو مہر تھا اتنا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام ازواج مطہرات کا مہر تھا _ (سوائے حضرت ام حبیبہ کے کہ ان کا مہر نجاشی شاہِ حبشہ نے ادا کیا تھا)
(6) جہیزِ فاطمی کی کوئی حیثیت نہیں _ حضرت علی بچپن ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں رہے تھے، اس لیے ان کی گھر گرہستی کا انتظام کرنا آپ کی ذمے داری تھی _ ورنہ آپ نے اپنی دوسری بیٹیوں کے نکاح کے موقع پر بھی کچھ دیا ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا _ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علی کی زرہ فروخت ہونے سے جو رقم حاصل ہوئی تھی اس کے نصف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر ادا کروایا تھا اور نصف سے گھر گرہستی کا سامان خریدوایا تھا _ گویا جو کچھ سامان فراہم کیا گیا تھا اس میں علی ہی کا پیسہ لگا تھا _
(7) ولیمہ مسنون ہے _ آدمی اپنی سماجی حیثیت کے مطابق اس کا انتظام کرے _ اس میں گوشت روٹی بھی کھلایا جا سکتا ہے اور معمولی ناشتے پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے _
(8) نکاح کا اعلان ہونا چاہیے، تاکہ سماج میں تمام لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ دو مرد و عورت ، جو اب تک اجنبی تھے، نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ہیں _
(9) نکاح کے بعد نئے جوڑے کے لیے الگ رہائش فراہم کرنا بہتر ہے _ تاکہ ان کی پرائیویسی باقی رہے _ اگر کسی وجہ سے الگ گھر فراہم کرنا ممکن نہ ہو تو مشترکہ رہائش گاہ کا ایک حصہ نئے جوڑے کے لیے خاص کردینا چاہیے ، تاکہ اس میں وہ آزادانہ طور پر رہ سکیں _
(10) بیٹی کے نکاح کے بعد بھی اس سے تعلق میں کمی نہیں آنے دینا چاہیے _ وقتاً فوقتاً اس کے گھر جانا، اسے اپنے گھر بلانا ، اس سے ملاقات ہونے پر خوشی کا اظہار کرنا، اس کے احوال دریافت کرتے رہنا ، ان کاموں کو اپنے معمول کا حصہ بنالینا چاہیے _
(11) نکاح کے بعد بیٹی کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ پسندیدہ ہے _ بیٹی بھی اگر مناسب سمجھے تو اپنی ضروریات اپنے والدین سے بیان کرسکتی ہے _
(12) والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کو دنیوی آسائشیں فراہم کرنے سے زیادہ قناعت کی ترغیب دیں _ یہ چیز زندگی میں زیادہ سکون لانے والی ہوتی ہے _
(13) والدین کو اس کا بھی برابر جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ بیٹی داماد یا بیٹے بہو کے درمیان نا ہم آہنگی تو نہیں فروغ پا رہی ہے _ اس سے غفلت کے بسا اوقات بڑے بُرے نتائج سامنے آتے ہیں _ پتا اُس وقت چل پاتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے _ اس وقت والدین کی مداخلت سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور معاملہ علیٰحدگی تک جاپہنچتا ہے _
(14) زوجین کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے تو والدین کو آنکھ بند کرکے بیٹی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ پہلے غیر جانب داری کے ساتھ معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے _ پھر اگر قصور بیٹی کا نظر آجائے تو اس کی فہمائش کرنی چاہیے _
(محمد رضی الاسلام ندوی)
(محمد رضی الاسلام ندوی)
No comments:
Post a Comment