Monday 24 June 2019

پریشانی میں زبان سے کفریہ کلمات کہنے کی گنجائش

پریشانی میں زبان سے کفریہ کلمات کہنے کی گنجائش

کیا اسلام میں محض زبان سے کفریہ کلمات کہنے کی گنجائش ہے جبکہ اغیار کے ہاتھوں تکلیف کو برداشت کرنا دوبھر ہوجائے یا ثابت قدمی سے جان گنوادے؟
الجواب وباللہ التوفيق:
ایسی صورت حال میں زبان سے کفریہ کلمات کہنے کی گنجائش ہے اور اگر نہ کہے بلکہ تکلیف کو برداشت کرے تو یہ بھی جائز ہے
مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النخل ١٠٦)
وفي تفسير ابن كثير: وأما قوله: (إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان) فهو استثناء ممن كفر بلسانه ووافق المشركين بلفظه مكرها لما ناله من ضرب وأذى، وقلبه يأبى ما يقول، وهو مطمئن بالإيمان بالله ورسوله.
وقد روى العوفي عن ابن عباس: أن هذه الآية نزلت في عمار بن ياسر حين عذبه المشركون حتى يكفر بمحمد - صلى الله عليه وسلم - فوافقهم على ذلك مكرها وجاء معتذرا إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - فأنزل الله هذه الآية . وهكذا قال الشعبي ، وأبو مالك وقتادة.
وقال ابن جرير: حدثنا ابن عبد الأعلى، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن عبد الكريم الجزري، عن أبي عبيدة [بن] محمد بن عمار بن ياسر قال: أخذ المشركون عمار بن ياسر فعذبوه حتى قاربهم في بعض ما أرادوا، فشكا ذلك إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال النبي - صلى الله عليه وسلم - : "كيف تجد قلبك؟" قال: مطمئنا بالإيمان قال النبي - صلى الله عليه وسلم - : "إن عادوا فعد" .
ورواه البيهقي بأبسط من ذلك، وفيه أنه سب النبي - صلى الله عليه وسلم - وذكر آلهتهم بخير ، وأنه قال : يا رسول الله، ما تركت حتى سببتك وذكرت آلهتهم بخير . قال: "كيف تجد قلبك؟" قال: مطمئنا بالإيمان. فقال: "إن عادوا فعد" . وفي ذلك أنزل الله: (إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان).
ولهذا اتفق العلماء على أنه يجوز أن يوالي المكره على الكفر؛ إبقاء لمهجته، ويجوز له أن يستقتل، كما كان بلال - رضي الله عنه - يأبى عليهم ذلك وهم يفعلون به الأفاعيل، حتى أنهم ليضعون الصخرة العظيمة على صدره في شدة الحر، ويأمرونه أن يشرك بالله فيأبى عليهم وهو يقول: أحد، أحد. ويقول: والله لو أعلم كلمة هي أغيظ لكم منها لقلتها - رضي الله عنه وأرضاه .
واللہ تعالیٰ اعلم
----------------------
اگر مسلمان ہونے کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو تو کیا ایسی صورت میں وقتی طور پر جھوٹ بول کر یہ کہہ دینے سے کہ میں مسلمان نہیں تو کیا ایسا شخص داٸرٸے اسلام سے نکل جاٸے گا یعنی کافر ہوجاٸے گا؟ 
والسلام
الجواب حامداو مصليا:
اصل ایمان تو تصدیق قلبی کا نام ہے اور زبان سے اقرار کرنا احکام کے لیے ضروری ہے غرض ایسی حالت میں جب کہ ایمان یعنی مسلمان ہونا کسی کی جانی نقصان کا سبب ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں 
عزیمت: اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنی مسلمانیت کا اقرار کرنا اس صورت میں اگرچہ اس کو جانی نقصان ہوگا لیکن اس صورت میں عنداللہ اجر عظیم بھی ہے اور اسلام کی عظمت بھی 
 رخصت: اگر جان کا خطرہ ہو تو زبانی طور پر یا ظاہری طور پر ایمان سے انکار کرنا جب کہ تصدیق دل میں ہو تو ایسا شخص اضطراری حالت میں خود کو کافر ظاہر کرسکتا ہے اور ایسا کرنے سے وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
”ثم ذکر فی فضل الاکراہ علی الکفر انہ اذا امتنع من ذلک حتی قتل لم یکن آثما وقد بینا انہ ماجور فیہ کما جاء فی الاثر ان المجبر فی نفسہ فی ظل العرش یوم القیامة ان ابی الکفر حتی قتل و حدیث خبیب ؓفیہ معروف واشار الیھالاصل الذی بینا ان اجراءکلمة الشرک فی ھذہ الحالة رخصة لہ والامتناع ھو العزیمة فان ترخص بالرخصة وسعہ وان تمسک بالعزیمة کان افضل لہ: لان فی تمسکہ بالعزیمة اعزاز الدین وغیظ المشرکین فیکون افضل“
(المبسوط: ٤٩٤٢)
”النوع الذی ھو مرخص فھو اجراءکلمة الکفرعلی اللسان مع اطمٸنان القلب بالایمان اذا کان الاکراہ تاما وھو محرم فی نفسہ مع ثبوت الرخصة فآثر الرخصة فی تغیر حکم الفعل وھو المٶاخذة لا فی تغیر وصفہ وھو الحرمة لان کلمة الکفر مما لا یحتمل الاباحة بحال فکانت الحرمة“
(بداٸع وصناٸع : فصل فی بیان حکم مایقع علیہ الاکراہ: ١٩٠٧)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: ١٥جمادی الاخرة ١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ:٢٢ فروری٢٠١٩ ۶
تصحیح وتصویب: مفتی انس عبد الرحیم
-------------------------
اگر کوئی مسلمان موت کےڈر کی وجہ سے اپنا ایمان چھپائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ 
الجواب وباللہ التوفيق:
اگر ایمان ظاہر کرنے میں جان جانے کا خوف ہو تو ایمان مخفی رکھا جاسکتا ہے۔ (سورۃ النحل آیت نمبر106، سورۃ المؤمن آیت نمبر 28)
''بما زاده البخاريُّ في هذا الحديث، من حديث ابن عبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ ؛ أنّه صلى الله عليه وسلم قال للمقداد: إِذَا كَانَ مُؤْمِنٌ يُخْفِي إِيمَانَهُ مَعَ قَوْمٍ كُفَّارٍ، فَأَظْهَرَ إِيمَانَهُ، فَقَتَلْتَهُ؟ كذلك كُنْتَ تُخْفِي إيمانَكَ بمكة!!'' 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143909201115
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
------------------------
کیا اگر انسان کی زبان سے بلا ارادہ کوئی کفریہ جملہ نکل جائے یا یہ کہ وہ کہنا کچھ اورچاہتا تھا مگر کچھ اور نکل گیا تو کیا وہ آدمی کافر ہوجاتا ہے؟ اور اگر ایسی بات ہے تو کیا دوبارہ خود ہی کلمہ پڑھنے سے وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے گا؟ اور کیا اگر شادی شدہ ہے تو دوبارہ نکاح کرنا ہوگا یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفيق:
بلاقصد و ارادہ غلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے، تو اس کی وجہ سے آدمی کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چنانچہ شامی میں ہے: ومن تکلم بھا مخطئًا أو مکرہًا لا یکفر عند الکل۔
واللہ تعالیٰ اعلم
--------------------------------------
میرا سوال یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ کفریہ کلمات ادا کرنے سے نکاح ٹوٹ گیا تو کیا کرنا چا ہئے؟ اگر بیوی کفریہ کلمات ادا کریں تو کیا کرنا چاہئے، اور اگر شوہر کفریہ کلمات ادا کرے تو کیا کرے ۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سوال کا جواب جلدی دیدیں۔ شکریہ
الجواب وباللہ التوفيق:
”کفریہ کلمات“ سے کون سے کلمات مراد ہیں؟ اس کی وضاحت ضروری تھی، کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا انتہائی نازک مسئلہ ہے، بہرحال اگر کسی شادی شدہ شخص نے ایسا کلمہٴ کفر ادا کیا جس کی بنا پر معتبر مفتیان نے تحقیق واقعہ کے بعد اس شخص کے”مرتد“ ہونے کا فتوی دے دیا، تو اس کا نکاح ٹوٹ گیا اوربیوی اس سے بائنہ ہوگئی، وہ عدت گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر بیوی نے اس طرح کی حرکت کی ہے تو مفتی بہ قول کے مطابق اس کا نکاح سابق شوہر سے بدستور قائم رہے گا؛ لیکن شوہر کے لیے، عورت کی طرف سے تجدید نکاح سے پہلے اس کے ساتھ وطی یا دواعی وطی شرعاً جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں ”بیوی“ یا تو تجدید اسلام کرکے اپنے سابق شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارے یا پھر شوہر سے طلاق حاصل کرلے۔ وارتداد أحدہما أي الزوجین فسخ فلا ینقص عدداً عاجل بلا قضاء الخ (درمختار مع الشامی: ۴/۳۶۶، ط: زکریا، والحیة الناجزة: ۲۰۸ تا ۲۱۲ جدید) 
واللہ تعالیٰ اعلم
----------------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر
-----------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/blog-post_27.html


No comments:

Post a Comment