Wednesday, 19 June 2019

سلام کی مروجہ شکلوں کا شرعی حکم

سلام کی مروجہ شکلوں کا شرعی حکم

تلنگانہ میں ایک باشرع شخص کو اسمبلی اسپیکر بنایا گیا ہے. ریاستی اسمبلی میں اسپیکر موصوف نے ہاتھ جوڑکر 'سلام' کا جواب بھی دیا. زید کا قول ہے کہ "مسلمانوں کے پاس جواب دینے کا سب سے بہترین انداز ہے ۔۔۔۔ وہ دائیں ہاتھ کو سلامی کے انداز میں پیشانی تک لے جاکر جواب دے سکتا ہے ۔۔۔۔ وہ اسی طرح اپنے دائیں ہاتھ کو دل تک لے جاکر جواب دے سکتا ہے ۔۔۔۔ بحث کیوں نہیں کی جانی چاہئے؟  ۔۔۔۔ کیا عقائد کو اتنا آسان سمجھ لیا گیا ہے؟ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کفریہ اور شرکیہ شاعری تک کو بعض نوجوان علماء وفضلاء بسروچشم قبول کرنے لگے ہیں ۔۔۔۔ برہما کماری کے پچاس ہزار افراد کے ایک اجلاس میں' ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنی تقریر سلام سے شروع کی اور اس کی تشریح پر دو منٹ صرف کئے۔۔۔۔ تقریر کے بعد سامعین کے ساتھ ساتھ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے 31 بڑے زعماء ہاتھ جوڑکر کھڑے ہوئے مگر میں نے سلامی کے انداز میں دایاں ہاتھ اٹھاکر پیشانی تک لے جاکر ان کے احترام کو قبول کیا اور کسی کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی ۔۔۔۔ ہاتھ صرف خدائے وحدہ لاشریک کے آگے جوڑے جاسکتے ہیں ۔۔۔۔ علماء ومفتیان سے پوچھئے۔۔۔۔ یہ دراصل تربیت کا مسئلہ ہے۔۔۔۔ آج ہر عمل کو آسان سمجھ لیا گیا ہے اور کلچر کے نام پر عقائد کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔۔۔۔" براہ کرم سلام کی مروجہ شکلوں کا شرعی حکم واضح فرمائیں.

الجواب وباللہ التوفیق:
حدیث میں ہے: تَسْلِیْمُ الْیَہُوْدِ، الاشَارَةُ بِالأصَابِعِ، وَتَسْلِیْمُ النَّصَاریٰ الاشَارَةُ بِالأَکُفِّ، یعنی یہودیوں کا سلام کرنا، انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے اور عیسائیوں کا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (ترمذی: ۲۶۹۵، کراھیة إشارة الید)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
لَاتُسَلِّمُوا تَسْلِیْمَ الْیَہُوْدِ، فانَّ تَسْلِیْمَہُمْ بِالرُّوٴُوْسِ وَالأَکُفِّ وَالْاشَارَةِ: یہودیوں کی طرح سلام نہ کرو، اُن کا سلام سر، ہاتھ اور اشارے سے ہوتا ہے۔ (عمل الیوم واللیلة للنسائی، رقم: ۳۴۰)
ایک دوسری روایت میں ہے:
تَسْلِیْمُ الرَّجُلِ بِأُصْبُعِ وَاحِدَةٍ یُشِیْرُ بِہَا، فعلُ الیہودِ:کہ آدمی کا اشارہ کر کے ایک انگلی سے سلام کرنا، یہودی فعل ہے۔ (الترہیب: ۳/۴۳۵)
شارحینِ حدیث نے اِن جیسی احادیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ سر، ہاتھ یا جسم کے دوسرے اعضاء سے ا شارہ کرکے، الفاظ بولے بغیر سلام کرنا یا جواب دینا جائز نہیں؛ بلکہ یہودیوں اور مُتکبِّر لوگوں کا کام ہے۔
”مظاہرِ حق جدید“ میں ہے:
چناں چہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کو، گویا مُکَاشْفَہ ہوا کہ میری امت کے کچھ لوگ بے راہ روی کاشکار ہوکر، سلام کرنے کا وہ طریقہ اختیار کریں گے، جو یہودیوں، عیسائیوں اور دوسری غیر اقوام کا ہے، جیسے انگلیوں یا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنا، ہاتھ جوڑلینا، کمر یا سر کو جھکانا اور صرف سلام کرنے پر اکتفا کرلینا وغیرہ وغیرہ؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوری امت کو مخاطب کرتے ہوئے، اِس بارے میں تنبیہ بیان فرمائی اور یہ وعید بیان کی کہ جو شخص سلام کے اِن رسم ورواج کو اپنائے گا جو اسلامی شریعت اور ہماری سنت کے خلاف ہیں، تو اُس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا شمار، ہماری امت کے لوگوں میں نہیں ہوگا۔ (مظاہر حق:۵/۳۴۷)
حدیث کا ضُعف اور اس کا جواب:
اوپر سنن ترمذی کی جو روایت ذکر کی گئی ہے، اُس کے بارے میں امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے: إسنادُہ ضعیف کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یعنی قابلِ استدلال نہیں؛ لہٰذا محض اشارے سے سلام کے عدمِ جواز پر استدلال درست نہیں، ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے اِس کا جواب دیا ہے کہ محض کسی حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حکم بھی بدل جائے، یہ ضروری نہیں ہے؛ نیز یہ حدیث دوسری صحیح سند سے مروی ہے مثلا: عمل الیوم واللیلة والی روایت، حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے: وسندُہ جیّد․ (فتح الباری:۱۱/۱۹)
علاوہ ازیں صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سلام باللفظ مسنون ہے اور اِسی طرح اُس کا جواب بھی زبان سے دینا واجب ہے؛ لہٰذا محض اِس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اشارے سے سلام کے عدمِ جواز کا حکم نہیں بدلے گا۔ (مرقاة: ۹/۵۷)
تعارُض اور اُس کا حل:
محض اشاروں سے سلام کے جواز کے سلسلے میں حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کی ایک روایت پیش کی جاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ایک روز مسجد سے گذرے اور وہاں عورتوں کی ایک جماعت (دینی تعلیم کے حصول کے لیے) موجود تھی، تو آں جناب نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے سلام کیا اور امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اِس حدیث کے بارے میں ”ہذا حدیثٌ حسنٌ“ کہا ہے۔
علامہ نووی رحمة اللہ علیہ نے اِس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے لفظ، اشارہ دونوں کو جمع کیا تھا، صرف اشارے سے سلام نہیں کیا تھا، اور اِس کی تائید اِس سے ہوتی ہے کہ ابوداوٴد نے بھی اِس روایت کو نقل کیا ہے اور اُس میں فَأَہْویٰ بِیَدِہ (اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا) کے بعد فَسَلّم علینا کے الفاظ زائد ہیں، اگر صرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا تو فَسَلَّم علینا کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ (فتح ا لباری: ۱۱/۱۸، مرقاة: ۹/۵۷)
ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر مان لیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے زبان سے نہیں؛ بلکہ محض اشارے سے سلام کیا تھا، تب بھی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیوں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے، نہ کرنے اور اشارہ سے سلام کرنے نہ کرنے؛ ہرطرح کا اختیار ہے، ثانیاً کبھی اشارہ سے بغیر سلام کے قصد کے، محض تواضُع کو مراد لیا جاتا ہے، ثالثاً اشارہ سے سلام کرنا، عورتوں کے حوالے سے، بیانِ جواز پر محمول ہے، مَردوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ (مرقاة المفاتیح:۹/۵۷)
فائدہ: ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کی جو تاویلات پیش کی ہیں، اُن سے اُن ساری روایتوں کا جواب بن جاتا ہے، جس میں کچھ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اشارے سے سلام کرنا مروی ہے، ایسی روایات کے لیے دیکھیے امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی الأدب المفرد (باب من سلم إشارة) لیکن امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ایسی روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد آخری روایت عطا بن ابی رباح رحمة اللہ علیہ کی نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں: کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ التسلیمَ بالید، وقال: کان یَکْرَہ التسلیمَ بالید (الأدب المفرد: رقم: ۹۴۰)
 یعنی اکثر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے کو نا پسند کرتے تھے، اور خود حضرت عطا بھی اِسے ناپسند کرتے تھے۔
راقم عرض گزار ہے کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس آخری روایت سے اِس جانب اشارہ کیا ہے کہ محض ہاتھوں کے اشارہ سے سلام، کچھ صحابہٴ کرامسے ثابت ہے؛ لیکن اکثر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زبان سے سلام کرتے تھے اور یہی معمول بہا ہے۔
چند مسائل:
مسئلہ: سلام کے ساتھ ہاتھ اٹھانے کی بھی گنجائش ہے؛ اگر چہ ضرورت نہیں۔ (محمودیہ: ۹/۷۳)
مسئلہ: لفظ اور اشارہ کا جمع کرلینا، جیسا کہ ہمارے بلاد میں معمول ہے، اگر چہ اولیٰ نہ ہو؛ مگر جائز ہے؛ خصوصاً جب کہ یہ اشارہ علامتِ تعظیم وتوقیر، عرفاً قرار پاچکا ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۱۰/۱۳۱)
مسئلہ: قرآن مجید میں ہے کہ جب تم کو کوئی سلام کرے تو اُس سے اچھا جواب دو، یا ویسا ہی لوٹادو، اِس سے معلوم ہوا کہ سلا م کے جواب میں سرہلا دینا یا ہاتھ اٹھادینا کافی نہیں۔ (فروع الایمان مع اصلاحی نصاب: ۴۲۱)
معلوم ہوا کہ سلام کے موقع پر صرف ہاتھ اٹھا دینا کافی نہیں ہے، شہر حیدرآباد میں، دیکھا جاتا ہے کہ سلام کرنے والا، سلام کرتے وقت، اپنا ہاتھ مخصوص اندازمیں اپنے چہرے یا سینہ تک لے جاتا ہے اور بعض لوگ ہاتھ کو حرکت بھی دیتے ہیں، یہ طریقہ، اسلامی نہیں ہے، اور جواب دینے والا بھی بعض دفعہ ایسے ہی کرتا ہے، یہ بھی زائد چیز ہے۔
مسئلہ: جب بُعد (دوری) یا کسی اور وجہ سے آوازِ سلام سمجھ میں نہ آسکے تو ہاتھ سے اِعلام واِعلان مباح ہے۔ (فتاوی رحیمیہ:۱۰/۱۳۱)
یعنی عام حالات میں صرف ہاتھ سے یاسر سے سلام کرنا جائز نہیں؛ بلکہ مجبوری کی حالت میں ہاتھ سے اشارہ کرسکتا ہے؛ لیکن لفظِ سلام اور جواب سلام کے الفاظ اور اشارہ دونوں کو جمع کرے، اور گونگا کا مسئلہ الگ ہے، وہ ہاتھ کے اشارے سے ہی سلام یا سلام کا جواب دے گا، اُس کے حق میں اِشارہ تلفظ کے درجہ میں ہے۔
سلام کے جواب میں صرف سر ہلانا، بد مذاقی ہے:
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے مواعظ میں ہے:
”بعض لوگ جو سلام کے جواب میں، سر ہلاتے ہیں اور زبان سے”وعلیکم السلام“ نہیں کہتے ہیں وہ بد مذاق ہیں کہ ٹکاسی زبان نہیں ہلاتے اور دھڑا سا سر ہلادیتے ہیں، ممکن ہے کوئی معقولی اِس کی توجیہ کرے کہ فعلِ بسیط، فعل مرکب سے آسان ہوتا ہے اور سر کا ہلانا اضافہ او رفعلِ بسیط ہے، اور زبان کا چَلانا فعلِ مرکب ہے؛ کیوں کہ الفاظ کو مخارج سے خاص ہیئت وترکیب کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے۔
سو جواب اِس کا یہ ہے کہ اس لحاظ سے؛ اگر چہ سر ہلانا سہل ہے؛ مگر جس غرض سے سلام کرتے ہیں اُس غرض وغایت کے لحاظ سے زبان ہی کا فعل آسان ہے؛ کیوں کہ سر ہلانے سے وہ غرض حاصل نہیں ہوتی، سلام سے مقصود دعا ہے اور وہ بدونِ کلام وتکلم کے حاصل نہیں ہوتی تو جو لوگ سلام وجوابِ سلام میں سر ہلاتے ہیں، ان کو غایات ومقاصد سے دلچسپی نہیں اور یہی بد مذاقی کی علامت ہے“۔ (خطبات حکیم الامت:۲۸/۱۲۳، اصلاح ظاہر)
سلام اور جوابِ سلام میں جہر اور سنانا ضروری ہے:
سلام چاہے ابتدائاً ہو یا جواباً ہو: بہرحال ایک دوسرے کو سنانا ضروری ہے، بغیر سنائے نہ تو سلام، سلام ہوگا اور نہ ہی جواب، جواب ہوگا، سلام ایک مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے، جہر کے بغیر اِس کا مقصد حاصل نہیں ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی معمول تھا کہ سلام اور جوابِ سلام میں جہر کرتے تھے؛ لیکن یہ بلند آواز معتدل ہو، آواز اِتنی تیز نہ ہو کہ سننے والے کو دِقّت اور تنگی محسوس ہو اور نہ ہی آواز اتنی پست ہو کہ سلام کرنے والے یا سننے والے سن ہی نہ سکیں۔
دلائل: حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد أَفْشُوا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ (اپنے درمیان سلام کو رواج دو) کی شرح میں لکھا ہے:
۱-  الإفشاءُ، الإظہارُ والمرادُ نَشْرُ السَّلامِ بینَ ا لناسِ؛ لیُحْیُوا سُنتَہ․
افشاء، اظہار کو کہتے ہیں: اور مقصد اِس سے لوگوں کے درمیان سلام کو پھیلانا ہے؛ تاکہ لوگ آپ کی سنت کو زندہ کریں۔ (فتح الباری: ۱۱/۲۰)
۲- علامہ نووی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے علامہ عینی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے:
وأقلُّ السَّلامِ ابتداء ً ورداًّ أن یُسمِعَ صاحِبَہ، وَلاَ یُجْزِئْہُ دونَ ذلک․
سلام اور جوابِ سلام میں کم از کم درجہ یہ ہے کہ مُتَعَلِّقہ شخص کو سنایا جائے، اور اس سے کم سلام کافی نہیں۔ (عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)
علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
۳- فکذلک إذا أجاب بجوابٍ لم یُسمَعْ منہ، فَلَیْسَ بِجَوابٍ․ اگر کوئی جواب دے اور سنائے نہ ،تو وہ جوابِ سلام نہیں ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن:۵/۳۰۳)
ایک شبہ اور اس کا جواب:
سوال (۳۵۷) سلام کا جواب اگر آہستہ دیا کہ مسلَّم (جس کو سلام کیاجارہا ہے) نے نہ سنا، تو جواب ادا ہوگا یا اِسماع بھی ضروری ہے، بعض صحابہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے سلام کا جواب نہایت آہستہ سے دیا کہ بوجہ عدم سماع، تکرارِ سلام کی نوبت آئی، آخر حضور واپس ہوئے تھے؛ گو علت یہاں استماعِ کلام وتحصیل برکت ہے، مگر بہ ظاہر شبہ جواز کا معلوم ہوتا ہے۔
الجواب: اِعلام ضروری ہے، اگر قریب ہو تو اِسماع سے اور اگر بعید یا اَصَمّ (بہرہ) ہو تو اشارہ سے مع تلفُّظ بہ لسان کے اور صحابی کا یہ فعل عارض سے تھا فَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہ․(امداد الفتاوی: ۴/۲۷۶)
ایک مبنی بر حکمت رائے:
مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہ لکھتے ہیں: میں نے حضرت تھانوی کی کسی کتاب میں دیکھا تھا کہ سلام کا جواب دینا واجب تو ہے؛ لیکن جواب کوسنانا مستحب ہے؛ کیوں کہ ایسی صورت اُس شخص کے لیے ہے جو جواب سنا نے سے عاجز ہو یا جواب سنانا مشکل ہو تو اُسے ترک ِواجب کا گناہ نہ ہو، اُس کے لیے آسانی رہے گی؛ لیکن یہ بات فقہاء کی کتابوں میں مجھے نہیں ملی۔ (تکملہ ۴/۲۴۵)
سلام کرنے کا لب ولہجہ اور انداز:
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے افادات بنام ”اسلامی تہذیب“ میں ہے:
۱- شریعت نے صیغہٴ سلام یعنی ”السلام علیکم“ کے لفظ میں چھوٹے بڑے میں کچھ تفریق وتفصیل نہیں رکھی ، ہاں لہجہ میں فرق ہونا چاہیے؛ کیوں کہ یہ عظمت وادب میں داخل ہے، جس کی شریعت میں تعلیم ہے۔
۲- چھوٹے بڑوں کو نیازمندی کے لہجہ میں سلام کریں اور بڑے اُن کو حقیر نہ سمجھیں۔
۳- باپ کو بیٹا ایسے لہجہ میں سلام کرے کہ سلام کے لہجہ سے معلوم ہوجائے کہ سلام کرنے والا بیٹا ہے، اِس میں کون سا حرج اور کون سی تحقیر کی بات ہے۔
۴- بعض لوگ کچھ ایسی ادا سے اور ایسے لب ولہجہ سے سلام کرتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا محبت ٹپکی پڑتی ہے، بعض اوقات کسی کے فقط سلام کرنے سے عمر بھر کے لیے محبت ہوگئی۔ (اسلامی تہذیب: ۵۸)
گونگے کا سلام اور جوابِ سلام:
(۱) اگر کسی نے گونگے کو سلام کیا تو و ہ اشارے سے جواب دے دے، فرض ساقط ہوجائے گا۔ (عمدة القاری:۱۵/۳۴۶)
(۲) اگر گونگے نے اشارے سے کسی کو سلام کیا تو اُسے جواب دینا چاہیے؛ کیوں کہ اشارہ گونگے کے حق میں بہت سے احکام میں تلفظ کے قائم مقام ہے۔ (ایضا)
بہرے کو سلام کرنا:
اگر کوئی ایسے شخص کو سلام کرے جو بہرہ ہے تو سلام کرنے والے کو چاہیے کہ تلفظ کے ساتھ ساتھ اشارہ بھی کرے؛ تا کہ وہ سمجھ جائے کہ مجھے سلام کیا جارہا ہے، ورنہ مستحقِ جواب نہیں ہوگا اور اگر بہرے نے کسی کو سلام کیا تو جواب میں تلفظ کے ساتھ ساتھ اشارہ بھی ضروری ہے۔ (ایضا)
اللہ تعالیٰ ہم سب کوسنت کے مطابق افشاء سلام کی توفیق عطا فرمائے۔
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
--------------------------------------
اسلام اور سلام
          دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اور مخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، ہمارے ملک میں ہمارے برادران وطن ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں ’گڈ نائٹ‘ و ’گڈ مارننگ‘ اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کی بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ ابن العربی رحمة اللہ علیہ نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)
سلام کی جامعیت ومعنویت:
          سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:
(۱)      سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری ۲/۹۲۰ کتاب الاستیذان)
(۲)      اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔
(۳)     عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔
(۴)     سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
(۵)      تذکیرہے، یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچا نہیں سکتے۔
(۶)      یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔
(۷)     قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عََٰی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی․
(۸)     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔
(۹)      تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(۱۰)     آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن ۲/۵۰۱، معارف الحدیث۶/۱۴۹)
سلام کی اہمیت وفضیلت:
          سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔
          اسلامی سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا، فرشتوں نے جواب میں عرض کیا وعلیکم السلام ورحمة اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان ۲/۲۱۹)
          صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
          تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)
          حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
          لوگو! خداوند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ (محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ، اخلاص اورمحبت کے کھانا کھلایا جائے، جو لوگوں کو جوڑنے اور باہم محبت والفت پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ ہے) اور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے (ترمذی، باب الاستیذان ۲/۹۸، ابوداؤد، ابواب السلام ۲/۷۰۶)
          ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
          اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔ (ترمذی ۲/۹۹)
          حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
          کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری۲/۹۲۱)۔
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۷)
          حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
سلام کا اجر وثواب:
          سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاة المفاتیح ۸/۴۲۱ باب السلام)
          جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۴)
          حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ۲/۹۸، ابوداؤد۲/۷۰۶)
          اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔
سلام کے آداب:
          (۱)      سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی ۲/۹۹، ابوداؤد۲/۷۰۶)
          ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
          (۲)      سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویة:۱۹۴)
          (۳)     سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویة:۱۹۵)
          (۴)     جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔
          اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔ (النساء:۸۶)
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ پھر ایک صاحب آئے انھوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة  اللہ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھاکر فرمایا وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ“ پھر ایک اور صاحب آئے انھوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھاکر کہا ”السلام علیک یا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ  وبرکاتہ“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ ارشاد فرمایا: ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”وعلیک“ پر اکتفاء فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا، اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۳)
          (۵)      عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۶)      چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۷)     سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)
          (۸)     پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۹)      چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۱۰)     اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)
          (۱۱)     جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللّٰہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)
          (۱۲)     اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)
          (۱۳)    اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد ۲/۷۰۸)
          (۱۴)    اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)
          (۱۵)     اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
          (۱۶)     جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)
          (۱۷)    جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)
          (۱۸)    اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)
          (۱۹)     سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)
          (۲۰)    اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے؟
          (۱) بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)
          (۲) زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)
          (۳) جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ (بخاری۲/۹۲۵)
          (۴) جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)
          (۵) بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰)
          نوٹ: بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاًصبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)
          مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:
          (۱)      نمازپڑھنے والے (۲) تلاوت کرنے والے (۳) دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے (۴) ذکر کرنے والے (۵) اذان دینے والے (۶) اقامت کہنے والے (۷) جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔
          (۸)     اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے، اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
          (۹)      کھانے والے کو سلام کرنا۔
          (۱۰)     قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
          (۱۱)     جماع میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
          (۱۲)     جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)

          مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔
مولانا عبداللطیف قاسمی‏، استاذ جامعہ غیث الہدیٰ بنگلور
----------------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر
-----------------------------------



No comments:

Post a Comment