Sunday, 23 June 2019

’رمضان میں کئے جانے والے 5 غیر ثابت شدہ اعمال‘ کی تحقیق

’رمضان میں کئے جانے والے 5 غیر ثابت شدہ اعمال‘ کی تحقیق

ایک غیر مقلد نے مجھ سے ’رمضان میں کئے جانے والے 5 غیر ثابت شدہ اعمال‘ سوالات کئے ہیں مجھے ان کے جوابات مطلوب ہیں۔

رمضان أوله رحمة ...، مشہور حدیث کی تحقیق
 بسم الله الرحمن الرحیم
حدیث: ‏(رَمَضَان: اَوَّلُہُ رَحْمَة وَاَوْسَطُہُ مَغْفِرَة وَآخِرَہُ عِتْقٌ مِّنَ النَّار‏) کے متعلق  بعض حضرات کافی سخت الفاظ استعمال کرکے اس روایت کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں، اورچونکہ یہ حدیث برصغیر کے بعض علماء نے اپنی کتابوں میں تحریر کررکھی ہے، اس وجہ سے بعض حضرات ان کو تنقید کا نشانہ بناکر شدید نکیر کرتے ہیں۔
تو معلوم کرنا تھا یہ حدیث کس درجہ کی ہے، اور بیان کے قابل ہے یا نہیں؟
الجواب باسم ملہم الصواب:
یہ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت سے مشہور ہے، ان سے متعدد اسانید سے وارد ہے، چند اسانید ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ عن علي بن حُجر السَّعدي المروزي، حدثنا يوسف بن زياد ، حدثنا همام بن يحيى، عن علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان به.
تخریجہ:
أخرجه بهذا الإسناد ابن خزيمة في "صحيحه" (1887) وابن أبي الدنيا في "فضائل رمضان" (41) وابن شاهين في "فضائل شهر رمضان" (16) والبيهقي في "فضائل الأوقات" (37 و38) وفي "الشعب" (3336) وغيرهم ۔
اسناد کا حال:
إسناده واه ، فيه يوسف بن زياد، هو أبو عبد الله البصري. قال البخاري وأبو حاتم والساجي: منكر الحديث، وقال النسائي: ليس بثقة، وقال ابن حجر: يوسف ضعيف جدا، كما في "كنز العمال" (8/ 477) . وذكره العقيلي وابن حبان في "الضعفاء".وفيه علي بن زيد، وسيأتي الكلام عليه.
۲۔ عبد الله بن بكرالسَّهمي، عن  إياس بن أبي إياس، عن علي بن زَيد، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان.
تخریجہ:
أخرجه الحارث في "مسنده" كما في "زوائده"ص112والعقيلي في "الضعفاء" 1/ 35 وابن أبي حاتم في "علل الحديث" 1/249 ۔
وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" (5/ 223) برقم 3336 فسماه (إياس بن عبد الغفار).
اسناد کا حال:
قال العقيلي في ترجمة إياس: "مجهول وحديثه غير محفوظ". اهـ.
وقال الذهبي في "الميزان" (1/282): إِيَاس بن أبي إِيَاس عَن سعيد بن الْمسيب لَا يعرف، وَالْخَبَر مُنكر.
وقال أبو حاتم في "العلل" 1/249- وقد سأله ابنه عن هذا الحديث - : هذا حديث منكر غلط فيه عبد الله بن بكر، إنما هو (أبان بن أبي عياش) فجعل عبد الله بن بكر: "أبان": "إياس".
3- يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّار، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ سَلْم، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ .
تخریجہ:
أخرجه ابن شاهين في "فضائل شهر رمضان" (15) ۔
اسناد کا حال:
إسناده واه أيضاً، يحيى بن سعيد العطار قال فيه ابن معين: ليس بشيء، وقال العقيلي والجوزجاني :منكر الحديث، وضعفه ابن حبان .
4- سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَوَابٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجُدْعَانِيُّ القُرشي أبو وهب ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ...
تخریجہ:
أخرجه المحاملي في "الأمالي" (ص: 286) وابن عدي في "الكامل" (6/512) وابن الشجري كما في "ترتيب الأمالي الخميسية" (2/ 16) ، وقال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ...إلخ فزاد متابعة قتادة لعلي بن زيد.
اسناد کا حال:
عبد العزيز القرشي تكلم فيه ابن عدي. وقال: هو القرشي البصري، ثم ساق له هذا الحديث ، وقال: عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات. (الكامل 6/512، ميزان الاعتدال 2/630).
خلاصہ حال اسانید:
جیساکہ واضح ہوگیا کہ اس حدیث کی کوئی بھی سند ضعیف راویوں سے خالی نہیں ہے، مزید بر آں کہ مذکورہ تمام اسانید کا دار ومدار (علی بن زید بن جدعان) پر ہے، جس کے بارے میں نقاد حدیث کا موقف مختلف ہے ، بعضوں نے اس پر جرح کی ہے، اور یہاں پر اس کا تفرد بھی پایا جارہا ہے، مگر بعض محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے، اور اس کی بعض روایتوں کی تصحیح یا کم از کم تحسین کی ہے:
امام ترمذی ایک جگہ فرماتے ہیں: حدیث حسن صحیح۔ ذھبی "تلخیص المستدرک" (8543) میں لکھتے ہیں: ابن جدعان "صالح الحديث"، اور (8699) میں لکھتے ہیں: "اسناده قوى"۔
علامہ ابن الملقن لکھتے ہیں: "وہو حسن الحديث". (تحفۃ المحتاج)۔
خلاصۂ حال حدیث:
محدثین کی ایک جماعت نے حدیث کی سند میں کمزوری کی وجہ سے ضعیف کہا ہے، بلکہ بعض علماء نے ضعیف راوی کے تفردکی بناء پر منکر تک کہا ہے، چند احکام ملاحظہ فرمائیں:
ابو حاتم رازی نے "العلل" میں کہا: (هذا حديث منكر).
عقيلی نے "الضعفاء الكبير" میں فرمایا: (قد رُوي من غير وجهٍ، ليس له طريقٌ ثبتٌ بيّن).
ابن خزيمہ نے"صحيح" میں تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے: (إن صحّ الخبر).
ابن عدی نے روایت پیش کرنے کے بعدراوی کے بارے میں کہا: عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات۔
ابن حجر "اتحاف المهرة" میں تحریر فرماتے ہیں: (مَدارُه على علي بن زيد، وهو ضعيفٌ).
مگر روایت چونکہ فضائل سے متعلق ہے، اس لئےمحدثین کی ایک جماعت جنہوں نے فضائل پرمشتمل احادیث کی کتابیں مرتب کی ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں اس روایت کو جگہ دی ہے۔ ان حضرات کی متابعت میں حضرت شیخ الحدیث صاحب نے بھی رسالہ "فضائل رمضان" میں تحریر کر رکھی ہے۔
چنانچہ امام ابوبکر بغدادی (جو ابن ابی الدنیا کے نام سے معروف ہیں ‏) ‏(۲۸۱ﮪـ‏) نے اپنی مشہور کتاب ‏(فضائل رمضان) میں، ابن شاہین بغدادی (۳۸۵ﮪـ‏) نے اپنی کتاب ‏(فضائل شہررمضان‏) میں، مشہورمحدث امام بیہقی (۴۵۸ﮪ‏ـ) نےان کی مشہور کتاب (شعب الایمان ۳۳۳۶ اورفضائل اوقات۳۷) میں، امام ابوالقاسم اصبہانی (۴۵۷ﮪـ) نے اپنی مشہور کتاب (الترغیب والترہیب ۱۷۵۳‏) میں، اسی طرح امام منذری (۶۵۶ﮪـ) نے (الترغيب والترهيب 2/ 57) میں اس حدیث کو (عن سلمان رضی الله عنہ) کہہ کر نقل کیا ہے. یہ ان کے نزدیک حدیث کےصحیح یا کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے. لہذا اس روایت کو بالکل ساقط الاعتبار قرار دینا درست نہیں ہے۔
جہاں تک رمضان کے مبارک مہینہ میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا تعلق ہے، تو یہ تینوں فضیلتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لیکن رمضان کے تین عشروں میں سے ہر عشرہ کی خصوصی اہمیت وفضیلت بھی ہے ، تو اس سلسلہ میں مذکورہ بالا حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے، اگرچہ ماہ رمضان کا ایک ایک لمحہ ان تینوں فضیلتوں کو شامل ہے۔
جی ہاں ہر عشرہ کی خصوصی فضیلت جس کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے، اس سے کوئی شخص اختلاف تو کرسکتا ہے لیکن اس روایت کے ذکر کرنے والے پر سخت الفاظ استعمال کرکے فتوی لگانا جائز نہیں ہے، کیونکہ بہرحال بڑے بڑے محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مذکورہ حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
بیان کرسکتے ہیں؟
اگر کوئی شخص اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا ہے تو وہ اپنے بیانات اور کتابوں میں ذکر نہ کرے، لیکن اپنی رائے اور فیصلہ کو آخری فیصلہ سمجھ کر دوسروں پر تھوپنا صحیح نہیں ہے۔ اور دوسری جانب جو حضرات البانی کی تضعیف کو مردود قرار دیتے ہیں، ان کا موقف بھی غیر منصفانہ ہے، چونکہ البانی اپنی رائے میں متفرد نہیں ہیں، جیساکہ اوپر تفصیلا گذرچکا ہے۔
-------------------------------------------------------
رمضان کے ہر عشرہ کی الگ دعا کا حکم
سوال: رمضان کے مہینے میں جو ہر عشرے کی دعا ہوتی ہے جیسے پہلے عشرہ رحمت کا تو اس کی دعا، دوسرا عشرہ مغفرت کا اس کی دعا اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا اس کی دعا، تو ان عشروں کی مستند دعائیں جو حدیث سے ثابت ہیں وہ بتادیں اور براہ کرم اعراب بھی لگادیں. جزاک اللہ!
جواب: رمضان المبار ک کا پورا مہینہ قبولیت دعا کے خاص مواقع میں سے ہے اس لیئے اس میں دعاؤوں کا خوب اہتمام ہونا چاہیئے البتہ کسی مخصوص عشرہ سے متعلق کسی مخصوص دعا کا کسی حدٰیث سے ثبوت نہیں ہے، حدیث میں اتنا ضرور ہے کہ چار چیزوں کی اس مہینہ میں کثرت رکھا کرو، جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضاء کے واسطے اور دو ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کار نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ ، اس کے لئے لاالہ الا اللہ استغفراللہ اسئلک الجنۃ واعوذبک من النار کے الفاظ منقول ہیں (بیھقی، صحیح ابن خزیمہ وغیرہ) اس لئے اس دعا کے اہتمام کے ساتھ اللہ سے اس کی رحمت، مغفرت، سلامتی ایمان وبدن ،فلاح دارین نیز ہر طرح کی خیر کا سوال بکثرت کرنا چاہئے۔ بعض بزرگوں سے پہلے عشرہ میں  رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین، دوسرے میں استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ، اور تیسرے میں اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنا  کا اہتمام منقول ہے، یہ آ خری دعا احادیث میں بھی طاق راتوں میں مانگنے کی ترغیب وارد ہے۔ واللہ اعلم  
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-----------------------------
افطار کے وقت کی مسنون دعا
سوال: افطار کی مستند اور صحیح دعا کون سی ہے؟ اور یہ دعا کھجور کھانے سے پہلے پڑھنا سنّت ہے یا بعد میں پڑھنا سنّت ہے؟ اگر بعد میں ہے تو پھر پہلے کون سی دعا پڑھیں؟ (براہ کرم دعا پر اعراب لگادیجئے).
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت کی دعائیں احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں۔
(ا) اَللَّھُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ)[مشکوۃ۔ص: 175، کتاب الصوم۔ ط: قدیمی کراچی]
ترجمہ: اے اللہ! میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔
(۲) ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ] [سنن ابی داؤد۔2/278، بیروت]
ترجمہ: پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔
ان احادیث کے ذیل میں بعض شارحین نے یہی لکھاہے کہ افطار کے بعد یہ دعائیں پڑھی جائیں۔ [ملاحظہ ہو عون العبود، مرقاۃ المفاتیح]
البتہ مولاناعاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ نے ’تحفۃ المسلمین‘ میں لکھا ہے کہ ان میں سے پہلی دعا افطاری کے وقت یعنی افطارسے قبل اور دوسری دعا افطاری کے بعد پڑھنی چاہئے۔ (جیساکہ الفاظ احادیث بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افطاری کے بعد ہی پڑھی جائے۔)
نیزمشہورسعودی عالم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں کہ:
''دعا غروب شمس کے وقت افطاری سے قبل ہونی چاہئے کیونکہ اس وقت اس میں عاجزی وانکساری اور تذلل جمع ہوتی ہے اور پھر وہ روزے سے بھی ہے اور یہ سب کے سب دعا کے قبول ہونے کے اسباب ہیں اور افطاری کے بعد تو انسان کا نفس راحت اور فرحت وخوشی میں ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑجائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع کے لئے ایک دعا ثابت ہے اگر تو یہ صحیح ہو تو پھر یہ افطاری کے بعد ہونی چاہئےاور وہ یہ ہے'':
(ذھب الظماء وابتلت العروق وثبت الاجر ان شاء اللہ )
اس لیے زیادہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان دعاؤں میں سے پہلی دعا افطاری سے قبل پڑھی جائے جب کہ لوگ افطاری سے قبل دیگردعاؤں میں بھی مصروف ہوتے ہیں۔
اوردوسری دعا افطاری کے بعدپڑھی جائے جیساکہ اس کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-------------------
سوال: تراویح میں چار رکعت کے بعد دعا (سبحان ذی الملک ․․․․․․․․ ) پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور اس کے علاوہ کیا اور کوئی دعا بھی پڑھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں! تو وہ بتادیجئے۔
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
(۱، ۲): تراویح کی نماز میں ہر چار رکعت پر جو ترویحہ ہوتا ہے، اس میں شریعت کی طرف سے کوئی خاص عمل، تسبیح یا دعا وغیرہ متعین نہیں ہے، ہر شخص کو اختیار ہے، خواہ وہ کوئی تسبیح پڑھے، (آہستہ آواز میں) قرآن پاک کی تلاوت کرے، انفرادی طور پر نفل نماز پڑھے، دعا کرے یا خاموش رہے۔ اور اگر کوئی شخص تسبیح پڑھنا چاہے تو جو تسبیح چاہے پڑھ سکتا ہے، مثلاً تیسرا کلمہ ، یا صرف سبحان اللہ وغیرہ۔ اور اگر کوئی شخص مشہور تسبیح، یعنی: سبحان ذی الملک الخ پڑھے تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں، یہ تسبیح بھی پڑھی جاسکتی ہے، یہ تسبیح قہستانی نے منھج العباد کے حوالے سے نقل فرمائی ہے جیسا کہ شامی میں ہے؛ البتہ یہ تسبیح سنت یا ضروری سمجھ کر نہ پڑھی جائے، نیز اجتماعی طور پر یا بآواز بلند بھی نہ پڑھی جائے۔
یجلس ندباً بین کل أربعة بقدرھا وکذا بین الخامسة والوتر وکذا بین الخامسة والوتر ویخیرون بین تسبیح وقراء ة وصلاة فرادی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۹۶، ۴۹۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”بین تسبیح“:قال القھستاني: فیقال ثلاث مرات: ”سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزة والعظمة والقدرة والکبریاء والجبروت، سبحان الملک الحي الذي لا یموت، سبوح قدوس ربنا ورب الملائکة والروح، لا إلہ إلا اللہ، نستغفر اللہ، نسألک الجنة ونعوذبک من النار“ کما في منھج العباد (رد المحتار) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
----------------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر
-----------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/06/5.html


No comments:

Post a Comment