Saturday, 8 June 2019

جنازہ کی نماز میں تین صفوں کی رعایت؟

جنازہ کی نماز میں تین صفوں کی رعایت؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
  ہمارے گاؤں میں  ایک عورت کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے کی خواہش تھی کہ اس کا چچا نمازجنازہ پڑھائے لیکن یہاں ایک فتین قسم کے عالم صاحب ہیں جن کے قبضہ میں قبرستان ہے. انہوں نے  کہا اسے یعنی میت کا دیور نماز نہیں پڑھائے گا تو مجبورا ایک دوسرے عالم صاحب کے جنازہ پڑھانے پر اتفاق ہوا تو معلوم کرنا تھا کہ ایسا کرنا کہاں تک صحیح ہے اور جنازہ کا مستحق کون تھا؟
دوسری بات کیا جنازہ کسی  بزرگ سے پڑھانے میں کوئی فضیلت ہے؟
اور جنازہ پڑھانیوالے کیلئے ان شرائط کی رعایت ضروری ہے جو عام نماز پڑھانیوالے کیلئے ضروری ہے؟
اور جنازہ کی صفوں میں طاق عدد کی رعایت کا کیا حکم ہے؟
دوسرا مسئلہ امام وضو کررہا ہو لیکن عناد کی بنیاد پر کسی دوسرے کا نماز پڑھانا کیسا ہے؟ جبکہ امام مہینہ میں دس پندرہ نمازوں میں کچھ تاخیر کرتا ہو
تیسرا مسئلہ اگر عورت میت کا کوئی محرم نہ ہو یا ہو لیکن قبر مین اتارنیکی ہمت نہ ہو تو کیا غیرمحرم میت کو قبر میں اتار سکتا ہے؟ اگر ہاں تو طریقہ کوئی الگ ھے یا رائج طریقہ کے مطابق ہی اتار سکتا ہے؟
ان تمام مسائل کو باتفصیل اور مدلل جواب مرحمت فرمائیں تاکہ احقاق حق کیا جاسکے. 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
نماز جنازہ دراصل میت کے لئے دعاء واستغفار ہے۔ اس کی امامت وہ کرے جو فرائض کا پابند ہو اور پنج وقتہ نماز کی امامت کی جملہ اوصاف وشرائط پہ پورا اترتا ہو تاکہ اس کی دعاء اللہ کے حضور مقبول ہو۔
 جنازہ کی نماز میں امامت کا حق اصل میں محلہ کے امام کو ہے۔ اگر کوئی خدا ترس بزرگ سامنے آجائیں تو اولیاء کی اجازت سے وہ بھی امامت کرسکتے ہیں۔ جیساکہ ابھی وضاحت کردی گئی ہے کہ فاسق وفاجر شخص کی امامت جس طرح پنج وقتہ میں مکروہ ہے ویسے ہی اس کی امامت نماز جنازہ میں بھی مکروہ ہوگی۔
عن عروۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: لما قتل عمر ابتدر علي وعثمان للصلاۃ علیہ فقال لہما صہیب: إلیکما عني فقد ولیت من أمر کما أکثر من الصلاۃ علی عمر وأنا أصلي بکم المکتوبۃ فصلی علیہ صہیب۔ (المستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ، مقتل عمر رضي اللّٰہ عنہ علی الاختصار ۳؍۹۹ رقم: ۴۵۱۷)
أخرج البخاري تعلیقاً: قال الحسن: أدرکت الناس وأحقہم علی جنائزہم من رضوہ لفرائضہم۔ (صحیح البخاري، کتاب الجنائز / باب سنۃ الصلاۃ علی الجنازۃ ۱؍۱۷۶ تحت رقم الباب: ۵۶، کتاب الآثار، کتاب الجنائز / باب الصلاۃ علی الجنازۃ ۲؍۷۸ رقم: ۲۳۹)
ولہ أي للولي - الإذن لغیرہ فیہا - أي في الصلاۃ علی المیت؛ لأنہ حقہ فیملک إبطالہ۔ (درمختار مع الشامی زکریا ۳؍۱۲۲) 
وذکر محمد في کتاب الصلاۃ: أن إمام الحي أولیٰ بالصلاۃ، وفي الخلاصۃ، الخانیۃ: إمام الحي أولی من الولي في الصحیح من الروایۃ، وروي ابن سماعۃ عن أبي یوسف أن الولي من الکل، وفي الظہیریۃ: ولا یتقدم إمام الحي إلا بإذن الأب، وعند عدم إمام الحي أبو المیت أولیٰ من سائر العصبات۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ / باب من ہو أولی بالصلاۃ علی المیت ۳؍۵۹ رقم: ۳۷۱۳ زکریا)۔
صورت مسئولہ میں قبرستان کے ذمہ دار عالم جب کہ محلہ کا امام نہ ہو، کو امامت جنازہ کا اولیں حق حاصل نہیں۔
جس مسجد میں نماز پنج وقتہ کے لئے امام متعین ہو اور اس میں امامت کے اوصاف موجود ہوں کوئی شرعی قباحت یا اخلاقی نقص نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو شخص کو امامت کا حق شرعی نہیں۔ لیکن اگر کوئی پڑھا ہی دے تو نماز پھر بھی درست ہوجائے گی. 
واعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولیٰ بالإمامۃ من غیر مطلقاً۔ (درمختار) أي وإن کان غیرہ من الحاضرین من ہو أعلم وأقرأ منہ۔ (شامي ۲؍۲۹۷ زکریا، درمختار مع الشامي ۱؍۵۵٩ کراچي)
وفي جامع الجوامع صاحب البیت أولیٰ إلا أن یکون معہ ذو سلطان أو قاض۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۴۸ رقم: ۲۳۲۱ زکریا)
جنازہ کی نماز میں تین صف قائم کرنا مستحب اور بہتر ہے۔ زیادہ صفوں کی حتمی تحدید نہیں کی گئی ہے.
تین صف کی فضیلت حدیث سے ثابت ہے۔ علامہ عینی کی نقل کے مطابق نمازی خواہ کم ہوں یا زیادہ تین صف ہی قائم کرنا چاہئے۔ اسی خاص عدد پہ فضیلت ثابت ہے۔ بعض  لوگ صرف طاق عدد کی رعایت کرکے پانچ صف بھی قائم کرلیتے جو دلائل وثبوت سے عاری قول ہے۔ اگر تین صف نہ ہوسکے تو امام کے علاوہ دو صف بھی مستحب ہے۔ امام المحدثین امام بخاری کے ترجمہ الباب سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے: 
بَاب مَنْ صَفَّ صَفَّيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً عَلَى الْجِنَازَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ 
1254 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي أَوْ الثَّالِثِ 
صحيح البخاري. كتاب الجنائز
فی جامع الترمذی (۲۰۰/۱): عن مرثد بن عبداﷲ الیزنی قال کان مالک بن ھبیرۃ اذا صلی علی جنازۃ فتقال الناس علیھا جزاھم ثلثۃ اجزاء ثم قال قال رسول اﷲ ﷺ من صلی علیہ ثلثۃ صفوف فقد اوجب۔
وفی تحفۃ الاحوذی (۱۴۳/۲): واقل الصف ان یکون اثنین علی الاصح قالہ القاری قلت ولاحد لاکثرہ۔
وفی المشکوۃ(صـ۱۴۷): عن مالک بن ھبیرۃ قال سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول ما من مسلم یموت فیصلی علیہ ثلثۃ صفوف من المسلمین الا اوجب۔
وفی المرقاۃ (۱۴۹/۴): قال ابن الملک فی شرح الوقایۃ: ذکر الکرمانی ان افضل الصفوف فی صلاۃ الجنازۃ آخرھا وفی غیرھا اولھا اظہاراً للتواضع۔
وفی الدر المختار(۲۱۴/۲): وافضل صفوفھا آخرھا اظہاراً للتواضع۔
وفی الشامیۃ(۲۱۴/۲): فلو کان الصف الاول افضل فی الجنازۃ ایضاً لکان الافضل جعلھم صفاً واحداً ولایکرہ قیام الواحد وحدہ۔
جنازہ کی نماز میں آخری صف میں کھڑے ہونے کو پہلی صف کے مقابلہ اولیت حاصل ہے۔ پنج وقتہ نمازوں کی طرح جنازہ کی آخری صف میں تنہا کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہے۔
مردہ خاتون کو قبر میں محرم کو اتارنا چاہئے۔ کیونکہ بسا اوقات ہاتھ مردہ کے جسم سے مس بھی کرجاتا ہے۔
تاہم اگر کسی وجہ سے کسی خاص حالات و اوقات میں ایسا ممکن نہ ہوسکے تو غیر محرم بھی اتار سکتا ہے۔
وذو الرحم المحرم اولي بادخال المرأة من غيرهم.كذا في الجوهرة.فإن لم يكن فلا باس للأجانب وضعها .الهندية 166/1.رشيدية.باب نمبر 21.في الجنائز. فصل نمبر 6.......کذا فی البحر الرائق 339/2۔۔۔
صورت مسئولہ میں قبرستان کے ذمہ دار عالم جب کہ محلہ کا امام نہ ہو امامت جنازہ کا اولین حق حاصل نہیں۔
جس مسجد میں نماز پنج وقتہ کے لئے امام متعین ہو اور اس میں امامت کے اوصاف موجود ہوں کوئی شرعی قباحت یا اخلاقی نقص نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو شخص کو امامت کا حق شرعی نہیں۔ لیکن اگر کوئی پڑھا ہی دے تو نماز پھر بھی درست ہوجائے گی. 
واعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولیٰ بالإمامۃ من غیر مطلقاً۔ (درمختار) أي وإن کان غیرہ من الحاضرین من ہو أعلم وأقرأ منہ۔ (شامي ۲؍۲۹۷ زکریا، درمختار مع الشامي ۱؍۵۵٩ کراچي)
وفي جامع الجوامع صاحب البیت أولیٰ إلا أن یکون معہ ذو سلطان أو قاض۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۴۸ رقم: ۲۳۲۱ زکریا)
واللہ اعلم بالصواب 


No comments:

Post a Comment