Tuesday 25 June 2019

قربانی کی کھال خیرات نہ کرکے مٹی میں دفن کرنے کا حکم

قربانی کی کھال خیرات نہ کرکے مٹی میں دفن کرنے کا حکم 

"ایک بہت ہی عمدہ اور فائدہ مند مشورہ" عنوان کے تحت زید کا کہنا ہے کہ: " ایک مہینے کے  بعد عیدالاضحیٰ (بقرعید) آرہی ہے. ہم نے قربانی کے لئے جو جانور لے رکھے ہیں. یا ابھی لینگے. اس جانور کے چمڑے کی قیمت  پہلے بازاروں میں زیادہ سے زیادہ قیمتوں میں فروخت ہوتا تھا ... اور اب اس کی قیمت گھٹ کرکے  50 سے 40  بلکہ کہیں کہیں تو 30 روپے رہ گئی ہے. پہلے بازاروں سے اچھی قیمتیں دستیاب ہوتی تھیں جس سے مدرسوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا تھا. اور اب قیمت کم ہوجانے کی وجہ سے مدرسوں اور غریبوں کا نقصان ہوتا ہے. لہذا میرا یہ مشورہ ہے کہ ہم مدارس کو یا غریبوں کو چمڑے نہیں دیں گے. بلکہ چھوٹے جانوروں کے چمڑے کے عوض (بدلے) میں مدرسے کو 200 روپے دیں. اور جن جانوروں کے اندر سات (7) حصہ ہوتا ہے ہر حصہ کے عوض (بدلے) میں 100 روپے گویا کہ 700 روپے مدرسوں میں دیں۔ اور چمڑے کو دفن کردیں۔ تو اس صورت میں یہ ہوگا کہ جب چمڑا بازاروں میں نہیں پہنچے گا۔ تو ممکن ہے کہ اس کی ڈیمانڈ (مانگ) بڑھ جائے۔ (انشاء ﷲ العزیز)  اور آپ کے مدرسوں کو چمڑے کے عوض پیسہ دینے کی صورت میں مدد مل جائے گی۔ اور مدرسوں کی آمدنی میں اضافہ ضرور ہوگا یا غریبوں اور ضرورت مندوں کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ براہ کرم اس تحریر کو اپنے دوستوں اور احباب کو بقرعید سے قبل ضرور بھیجنے کی کوشش کریں۔" بکر کا سوال یہ ہے کہ:
1. کیا چمڑے کو قیمت کم ہونے کی وجہ سے دفن کرنے کی شرعا اجازت ہے؟ نیز 
2. چرم کون دفن کرے گا؟ کیا آپ ان لوگوں سے دفن کرنے کی امید کرتے ہیں جو چرم اٹھانے والے مدارس کے طلباء کو چرم اٹھاکر سائیکل پر رکھ دینے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کیا وہ مدارس کے حق میں یہ قربانی دیں گے؟ ہزاروں لاکھوں چرم دفن کرنے کے لیے زمین بھی تو چاہئے۔ کہاں مہیا ہوگی یہ زمین؟ بڑے شہروں میں کیا یہ ممکن ہے؟ پھر کیا گارنٹی ہے کہ کوئی اسے وہاں سے نہیں نکالے گا؟ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے. اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے.
ایس اے ساگر 
الجواب وباللہ التوفیق: 
 یہ مشورہ قابل قبول نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ قربانی کا مقصد رضائے الہی ھے ۔۔۔۔ وہ خون بہانا ہے اور وہ حاصل ہورہا ھے۔۔۔۔ 
 ------------------------------ 
 دفن کرنے کی شرعی اجازت میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عام حالت میں بھی چمڑے کو دفن کرسکتے ہیں..... اس کی ممانعت کہیں نہیں رہی بات یہ کہ عام مسلمان دفن کرنے وغیرہ جیسے عجیب وغریب قسم کی بقول عوام فضولیات کو کرینگے نہیں یقینا کیونکہ ان کے لئے ایک غیر ضروری اور زائد شئے ہے .... عموما مدارس وغیرہ میں بھی اتنا دل کھول کے اسی لئے دے دیتے ہیں کہ اس کا کوئی معقول مصرف انکے سامنے نہیں بلکہ ایک گندگی ہے جسے جلد از جلد دفع کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے .... خدانخواستہ اگر مدارس والوں نے نہ لیا تو یہ قوم غیروں کو یوں ہی بے قیمت دیدیگی کیونکہ گندگی کون گھر میں رکھیگا..... 
لہذا ایسے مشورے فضول ہے جب قوم اس کو کام کی چیز ہی نہیں سمجھتی تو خاک ایسے مشوروں کو اہمیت دیگی..... 
مسلمانوں کی ہمدردی رکھنے والے احباب ایک فرم قائم کرے جو چمڑوں کو صاف کرنے اور محفوظ کرنے کا کام کرتی ہو اور مدارس والوں اور دیگر ادارے والوں سے وہ چمڑے ہر سال والی معمولی قیمت پر ہی خرید لے اور مسلم مدارس اور ادارے اسی فرم کو اپنا چمڑا دے دے اور اچھی طرح محفوظ کر کے کچھ عرصہ رکھے رہیں..... سیدھی بات ہے جب مارکٹ میں لالچی قسم کے  بیوپاریوں کو کچرے کے داموں چمڑا نہیں ملیگا تو وہ انکی طرف یقینا رجوع کرینگے اس وقت وہ اچھی قیمت میں انکو فروخت کرے..... 
اگلے سال یہ ادارے مدارس و دیگر ملی تنظیموں کو پہلے کے مقابلے اچھی قیمت ادا کرے اس طرح کہ اپنا حق المحنت بھی کسی قدر بچالے
انشاء اللہ خود ہی چمڑوں کی قیمت درست ہوجائیگی 
اور اس ذریعے سے بہت سے مسلمان بے روزگاروں کے لئے ذریعہ روزگار بھی نکل آئیگا 
لہذا اگر اس نیت سے کام کیا جاۓ تو گناہ نہیں بلکہ ثواب ملیگا 
واللہ اعلم بالصواب
طالب علم
--------------------------------------------
السوال:۔ قربانی کے چمڑے نہ بیچ کر اور خیرات نہ کرکے اس کو مٹی میں دفن کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: 
قربانی میں تو نقص نہ آئے گا مگر اضاعتِ مال کا گناہ ہوگا۔ 
واللہ اعلم 
حررہ ظفراحمد عفا اللہ عنہ 
مقیم خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون 
۲۹؍صفر ۱۹۴۳؁ھ
(امداد الاحکام ج 4/ 225)
-------------------------------------
جب خیرات کرنے سے مسلمانوں کا فائدے کی بجائے نقصان ہونے لگے تو وقتی طور پر دفن کرکے ظالم تاجروں کو سبق سکھانا تاکہ آئندہ مناسب قیمت لگاۓ اس میں مستحق مسلمانوں کی خیر مضمر ہے ..... یہاں اضاعت مال قطعا نہیں ہے بلکہ مال کی مناسب قیمت پیدا کرنے کی حکمت ہے-
واللہ اعلم بالصواب
طالب علم
--------------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر




No comments:

Post a Comment