کیا بیٹی کا فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کا خرچ برداشت کرے؟
کیا ماں باپ کو یہ حق حاصل ہے اور بیٹی کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات خود برداشت کرے؟ اس کے علاوہ اپنی ماں کو خرچہ بھی دے. نیز اپنی شادی کے لئے بھی خود کمائے؟ میں پریشان ہوں. براہ کرم رہنمائی فرمائیں.
الجواب وباللہ التوفیق:
والدین پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی صحیح تربیت اور بعد بلوغ نکاح بھی کروائے ۔۔۔یہ ذمہ داری والدین کی ہے۔۔۔ البتہ لڑکوں کی صحیح تربیت کرے ۔۔۔ صرف ۔۔۔ بعد بلوغ نکاح کرانا والدین پر ضروری نہیں ۔۔۔۔لڑکوں کے لئے ضروری ہے کہ اگر والدین خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی تمام ضروریات بقدرضرورت پورا کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ اور اگر لڑکی بھی اس لائق ہوں تو وہ بھی والدین کی ضرورات کو پوری کرے.
------------------------------------
شریعت نے اصالةً عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی بلکہ مردوں کو کسب معاش کا ذمہ دار بنایا ہے چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان و نفقہ والد کے ذمہ اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یہی لوگ اس کے نان و نفقہ کے ذمہ دار ہیں۔
اس لئے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یا مخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیار زندگی بلند کرنے اور زندگی میں خوشحالی پیدا کرنے کے واسطے گھر سے با ہر نکل کر ملازمت کی پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں۔
لیکن عورت کو اگر معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری سے قاصر ہو یا تساہل کرتا ہو اور گھر میں رہ کر عورت کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہوتو ایسی مجبوری اور شدید ضرورت کے وقت عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر چند شرائط کے ساتھ نکل سکتی ہے۔
(۱) ملازمت کا کام فی نفسہ جائز ہو یعنی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو کیونکہ ممنوع اور ناجائز کام کی ملازمت بہر صورت ناجائز ہے۔
(۲) شرعی پردہ کی پوری رعایت کے ساتھ باہر نکلے یعنی لباس دبیز سادہ اور جسم کے لئے ساتر ہو، لباس بھڑک دار پرکشش نیم عریاں قسم کا نہ ہو۔
(۳) بناوٴ سنگار زیب و زینت کے ساتھ نہ نکلے۔
(۴) دوران ملازمت مردوں کے ساتھ اختلاط بالکل نہ ہو۔
(۵) ملازمت کی وجہ سے خانگی امور میں لاپروائی اور حق تلفی لازم نہ آئے مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ بوقت ضرورت ملازمت کرنے کی گنجائش ہے اور مذکورہ شرطوں میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں گناہ اور ناجائز ہوگی۔
والدین پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی صحیح تربیت اور بعد بلوغ نکاح بھی کروائے ۔۔۔یہ ذمہ داری والدین کی ہے۔۔۔ البتہ لڑکوں کی صحیح تربیت کرے ۔۔۔ صرف ۔۔۔ بعد بلوغ نکاح کرانا والدین پر ضروری نہیں ۔۔۔۔لڑکوں کے لئے ضروری ہے کہ اگر والدین خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی تمام ضروریات بقدرضرورت پورا کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ اور اگر لڑکی بھی اس لائق ہوں تو وہ بھی والدین کی ضرورات کو پوری کرے.
------------------------------------
شریعت نے اصالةً عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی بلکہ مردوں کو کسب معاش کا ذمہ دار بنایا ہے چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان و نفقہ والد کے ذمہ اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یہی لوگ اس کے نان و نفقہ کے ذمہ دار ہیں۔
اس لئے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یا مخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیار زندگی بلند کرنے اور زندگی میں خوشحالی پیدا کرنے کے واسطے گھر سے با ہر نکل کر ملازمت کی پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں۔
لیکن عورت کو اگر معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری سے قاصر ہو یا تساہل کرتا ہو اور گھر میں رہ کر عورت کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہوتو ایسی مجبوری اور شدید ضرورت کے وقت عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر چند شرائط کے ساتھ نکل سکتی ہے۔
(۱) ملازمت کا کام فی نفسہ جائز ہو یعنی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو کیونکہ ممنوع اور ناجائز کام کی ملازمت بہر صورت ناجائز ہے۔
(۲) شرعی پردہ کی پوری رعایت کے ساتھ باہر نکلے یعنی لباس دبیز سادہ اور جسم کے لئے ساتر ہو، لباس بھڑک دار پرکشش نیم عریاں قسم کا نہ ہو۔
(۳) بناوٴ سنگار زیب و زینت کے ساتھ نہ نکلے۔
(۴) دوران ملازمت مردوں کے ساتھ اختلاط بالکل نہ ہو۔
(۵) ملازمت کی وجہ سے خانگی امور میں لاپروائی اور حق تلفی لازم نہ آئے مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ بوقت ضرورت ملازمت کرنے کی گنجائش ہے اور مذکورہ شرطوں میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں گناہ اور ناجائز ہوگی۔
بوقت ضرورت شرائط کے ساتھ اگر کوئی عورت ملازمت اختیار کرلیتی ہے تو اس کی آمدنی (تنخواہ) جائز ہے اور اس کی مالک وہ خود ہی ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
----------------------------------
واللہ تعالیٰ اعلم
----------------------------------
اولاد ایک ایسا لفظ اوراسم ہے جس میں بیٹے اوربیٹیاں سب شامل ہیں، اوروالد کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس کے دلائل موجود ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(تواورتیرا مال تیرے والد کا ہے)۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (2282) الزاوئد میں ان کا کہنا ہے کہ اس حديث کی سند صحیح ہے اوراس کے رجال ثقہ اور بخاری کی شرط پر ہے۔ (1)
اس لیے اگر والد اپنی اولاد کے مال میں سے کچھ لینا چاہے تویہ اس کا حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے اولاد پر کوئی ضرر نہ آۓ، اور والد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک بیٹے کا مال لے کر دوسرے کو دے دے۔
اگر والدین فقیر اورمحتاج ہوجائيں اوربیٹی کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مال ہوتو بیٹی پرلازم ہے کہ وہ اپنے والدین پرخرچ کرے لیکن اپنی ضروریات میں کمی نہ کرے۔
اور خاوند کے ذمہ بیوی کے خرچہ کے بارہ میں گزارش ہے کہ: خاوند کے ذمہ واجب ہے کہ وہ بیوی کا وجب شدہ نان ونفقہ پورا کرے، اوراگر بیوی کہیں ملازم ہے تووہ بیوی کا مال ہے اوراس کے ساتھ ہی خاص ہے۔
لیکن اگر خاوند یہ شرط رکھے کہ بیوی کی ملازمت اورگھر سے باہر جانے اوراس کے حق میں سے کچھ فوت ہونے کی صورت میں وہ تنخواہ کا کچھ حصہ وصول کرے گا۔
بیوی کوجب مال ملے تواسے اس کی حفاظت کرنی چاہيۓ تاکہ وہ اپنی یا پھر اپنی اولاد اوریا اپنے والدین کی ضروریات پوری کرسکے۔
اوراگر اس لڑکی کے اوربھی بہن بھائي ہیں اوران میں سے کوئ ایک اپنے والدین کا خرچہ برداشت کررہا ہے تواس طرح باقیوں سے وہ واجب ساقط ہوجاۓ گا، اورجوخرچہ برداشت کررہا ہے اسے اجر وثواب حاصل ہوگا۔
یا پھر ایک صورت یہ ہے کہ سب بہن بھائي آپس میں والدین کا خرچہ تقسیم کرلیں کہ ہر ایک کواتنی رقم ادا کرنی ہوگی۔
اور رہا داماد کا مسئلہ تواس پر کوئی ضروری نہيں کہ وہ اپنی بیوی کے والدین (یعنی اپنے سسرال والوں) پر خرچہ کرتا پھرے، لیکن اگروہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنا چاہے تووہ انہيں دے سکتا ہے۔
لیکن بیٹی اپنے والدین کوزکاۃ کا مال نہیں دے سکتی اس لیے کہ بیٹی پر والدین کوکھلانا پلانا واجب ہے لھذا وہ زکاۃ کے مال کے علاوہ اپنے مال سے ان کا خرچہ برداشت کرے۔
----------------------------------
(1) عن جابر بن عبد الله، أن رجلا قال: يا رسول الله إن لي مالا وولدا، وإن أبي يريد أن يجتاح مالي، فقال: «أنت ومالك لأبيك» (سنن ابن ماجہ)
__________
في الزوائد إسناده صحيح ورجاله ثقات على شرط البخاري ۔۔۔و قال الشيخ الألباني: صحيح
ترجمہ: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں“۔
اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن أبي اجتاح مالي، فقال: «أنت ومالك لأبيك» وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أولادكم من أطيب كسبكم، فكلوا من أموالهم»
(رواہ احمد و ابن ماجہ ‘‘ و صححه الألباني في "صحيح ابن ماجة" .
ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد نے میری دولت ختم کر دی (اس کے بارے میں فرمائیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ“
----------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر
-----------------------------
----------------------------
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر
-----------------------------
No comments:
Post a Comment