Saturday, 30 October 2021
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولاتِ زندگی کیا تھے؟
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کی حقیقت کیا ہے؟
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کی حقیقت کیا ہے؟
بقلم: مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہ رضی اللہ عنہا کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی، دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان شادیوں کے جو تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کو نکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیا گیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیںچلتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحبزادیوں کو کچھ جہیز کے طور پر دیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اور بات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکے تھے، عمر میں کم وبیش حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کا انتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہا کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کو قبول کرلیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دینے کے لئے کچھ ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جو زرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے، البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خرید لی، حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دی کہ وہ خوشبو خرید کر لائیں۔ اور بقیہ رقم حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دی کہ وہ حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کا انتظام کریں۔ خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، عثمان، طلحہ، زبیر اور انصاری صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کو بلا لاؤ، یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کروادیئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ہمراہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیا گیا تھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا تو حضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔
حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔
یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھا جاسکتا ہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:
۱۔ حضرت علیؓ بچپن سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی، اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے، مربی اور ولی تھے۔
۲۔ بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کا انتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہو تو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپؐ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔
۳۔ یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں، بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔
یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماء امت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی لکھتے ہیں:
’’جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپؐ نے بوقت رخصتی (یا اس کے بعد) دیا تھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں، وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیا تھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے‘‘۔
حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
’’اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دی جاتا ہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑ میں جو نمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتا ہے، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہرکیف غلط، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے‘‘۔
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانہ میں جہیز کو جس طرح نکاح کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کا مرادف سمجھ لیا گیا ہے، اور جس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیا جارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہو لڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہیں، یہ پورا طرزعمل سنت کے قطعی خلاف ہے‘‘۔
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں:
’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقع پر آپؐ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیا گیا اس کو جہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیا جائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے‘‘۔
حافظ محمد سعداللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ ’’جہیز کی شرعی حیثیت‘‘ میں تمام روایات کا جائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھا ہے:
’’قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاء کی کتابوں میں مروجہ جہیزکا وجود ہی نہیں، صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اور چاروں ائمہ فقہاء کی امہات الکتب میں ’’باب الجہیز‘‘ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے، وہاں جہیز کا بیان نہ ہوتا‘‘۔
خلاصہ کلام یہ کہ جہیز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اور جہیز فاطمی سے استدلال کرکے اس کو مذہبی رنگ دینا یا تو کم علمی ہے یا ڈھٹائی، اس لیے اس سے احتراز ہی بہترہے، رہ گئی بات گھریلو ساز وسامان کی تیاری کی تو علماء نے اس سلسلہ میں صراحت کی ہے کہ اس کا ذمہ دار خاوند ہے اور شریعت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پرعورت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ اسباب خانہ بھی لائے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_45.html
کیا عقیقہ کو منت کے طور مان سکتے ہیں؟
Thursday, 28 October 2021
استاذ کے کلاس میں آنے پر طلبہ کا استاد کے لئے کھڑا ہوجانا
Wednesday, 27 October 2021
ایک مجلس کی تین طلاقیں
Saturday, 23 October 2021
مسجد: اُمت ِ مسلمہ کے نشاط اور روحانی وفکری رہنمائی کا مرکز
مسجد: اُمت ِ مسلمہ کے نشاط اور روحانی وفکری رہنمائی کا مرکز
محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ نے یہ وقیع مقالہ رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے منعقدکی گئی کانفرنس ’’مؤتمر رسالۃ المسجد‘‘ کے لئے عربی زبان میں تحریر فرمایا تھا، یہ کانفرنس رمضان المبارک ۱۳۹۵ھ مطابق ستمبر ۱۹۷۵ء میں پانچ روز جاری رہی۔ موضوع کی مناسبت سے حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اس مقالہ میں مسجد کی اہمیت وفضیلت کے ساتھ ساتھ امام وخطیب کی ذمہ داری کو بھی اُجاگر فرمایا۔ عنوان کی اہمیت کے پیش نظر اس مقالہ کا اُردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
الحمد للّٰہ الذی جعل المساجدَ لإعلاء کلمۃِ اللّٰہ وإقامۃِ التوحید، والصلاۃُ والسلامُ علٰی سیدنا محمدٍ خَاتَمِ النبیین الذی بنٰی المساجدَ أساساً لفلاحٍ وخیرٍ و إرشادِ العبید، وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ الذین شَیَّدُوْا معالمَ التوحید، ورفعوا رأیاتِ مجدِ الإسلام؛ فخاب کلُّ جبار عنید، أمّا بعد:
شریعتِ اسلامیہ کا یہ حسن ہے کہ اس کا پیش کردہ ہر نظام جس مرتب انداز پر اُستوار ہے، وہ خوبی و کمال کی اتنی نوعیتیں اپنے اندر سمویا ہوا ہے کہ انسانی عقل اس کے پیش کردہ نظام سے بہتر اور مکمل نظام کا تصور بھی نہیںکر سکتی، پس پنجگانہ نمازیں جو اُمت پر روزانہ فرض ہیں، بلاشبہ ایسی عبادت ہے جو خالص اللہ کی رضا کے لئے ہے۔ ان نمازوں کے مکمل ثمرات اور عمدہ برکات عظیم اجروثواب کی صورت میں تو جنت میں ہی ملیں گی، جہاں کی نعمتیں بے مثل وبے نظیر ہیں۔ ہر نماز کے لئے اذان جیسے عظیم الشان مسنون عمل کے ذریعے لوگوں کو جمع کرنے کاحسین طریقہ مقرر کیا گیا، پھر ان نمازوں کے لئے خاص جگہیں ہیں، جن کا نام مساجد رکھا گیا۔ یومیہ پانچ مرتبہ لوگوں کے اس طرح جمع ہونے سے جہاں امت ِ مسلمہ کے روحانی اجتماع کا باعث بنا، وہیں اس کے ذریعے باہمی تعارف، الفت و محبت، اور افرادِامت کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ پھر محلہ کی مسجد میں ہونے والے اس پنج وقتہ اجتماع کے دائرے کو جامع مسجد کے ذریعے مزید وسعت دی گئی۔ شکرانے اور خوشی کے دو تہواروں یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لئے کھلے میدان میں باجماعت نماز کا اجتماع مقرر کرکے اس دائرے کو مزید کشادہ کیا گیا، اور پھر ان تمام اجتماعات سے بڑھ کر حج بیت اللہ کا اجتماع مقرر کیا گیا۔ اگر امت ِ مسلمہ کی جانب سے کماحقہ قدر دانی ہو تو شریعت کا عطا کردہ ہر نظام مسلمانوں میں دینی، اجتماعی اور ثقافتی روح بیدار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور اہل اسلام کو قدردانی پر آمادہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ یہ مقصد ترغیب و ترہیب، وعظ و نصیحت اور قدردانی کرنے والوں کے اجر عظیم کا بار بار تذکرہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس طرح شوق دلاکر اگر لوگوں کو عمل پر آمادہ کیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جو شخص ان حقائق کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو اور بلند کردار کا طالب ہو، وہ اُسے جاننے کے بعد بھی احکام اسلام کی پاسداری نہ کرے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے ان بابرکت مساجد کا نظام وہ نظام ہے کہ انسانی عقل اس سے ارفع اور بہتر نظام کو سوچ ہی نہیں سکتی۔ اس نظام کی مندرجہ ذیل بنیادی خصوصیات ملاحظہ کیجیے:
توحید، رسالت، آخرت اور نماز کی طرف دعوت: ایک شخص ایک سے زائد مرتبہ اللہ کی عظمت و جلالت اور اللہ کی توحید بیان کرتا ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا اعلان کرتا ہے، پھر لوگوں کو نماز کی دعوت دیتا ہے جو ہر قسم کی ہدایت اور بھلائی کا منبع ہے، پھر اسی طرح اخروی کامیابی کی دعوت بھی دیتا ہے، اور بقول علامہ راغب اصفہانی کے ’’جس کامیابی کی بقاء کو فنا کا، جہاں کی مالداری کو فقر کا، اور جہاں ملنے والی عزت کو ذلت کا کوئی اندیشہ نہیں، وہاں کا علم ہر جہل سے مبرا ہے۔‘‘ (المفردات فی غریب القرآن، مادہ: فلح، ص: ۳۸۵، المطبعۃ المیمنیۃ، مصر) اس پر مزید اضافہ کیجئے کہ وہاں کی راحت میں تکان کا گزر نہیں۔ اس جامع اور انوکھی دعوت کو دیکھئے، پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس آواز کو مسلمانوں کے گوش گزار کرنے کے لئے منار اور منبر جیسے وسائل کا انتخاب کیا گیا، جن میں آج کی سائنسی پیش رفت کے بعد لاؤڈاسپیکر اور مائیک کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ اس اہمیت کے ساتھ مسجد میں آنے کی دعوت خود ایک عجیب شان رکھتی ہے۔
مسجد کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں: قرآن کریم کی وہ آیات جن کا مسجد اور اس کے بنیادی اہداف و مقاصد کے بیان سے تعلق ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مساجد توحید خداوندی اور اسلام کی دعوت کے مراکز ہیں، اور دین میں اخلاص پیدا کرنے کا سرچشمہ ہیں، نیز ان کی آباد ی اللہ کے ذکر، نماز اور عبادت سے ہوتی ہے، باری جل شانہٗ کا ارشاد ہے:
’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ أَحَداً۔‘‘ (الجن: ۱۸)
’’اور یہ کہ مسجدیں اللہ کی یاد کے واسطے ہیں، سو مت پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو‘‘۔ (ترجمہ شیخ الہندؒ)
یہ آیت مسجد میں توحید کا پرچار کرنے اور مساجد کو ہر نوع کے شرک سے دور رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔باری جل شانہٗ کا ایک اور فرمان ہے:
’’وَأَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ۔‘‘(الاعراف: ۲۹)
’’اور سیدھے کرو اپنے منہ ہر نماز کے وقت اور پکارو اس کو خالص اس کے فرمانبردار ہو کر۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ)
یہ ارشاد مساجد میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے اور اخلاص کے منافی ہر عمل سے بچنے کی ہدایت دیتا ہے۔ باری جل شانہٗ کا ایک اور فرمان ہے:
’’فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ۔‘‘ (النور: ۳۶)
’’ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا ان کو بلند کرنے کا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ)
جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ آیت مساجد کے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
مسجد کے فضائل واہمیت احادیث رسول کی روشنی میں: مزید براں فضائل پرنظر ڈالیں: مساجد کی طرف پیش قدمی کے لیے اُٹھنے والے ہر قدم کے بدلے ایک درجے کی بلندی اور ایک خطا کی معافی کا وعدہ کیا گیا، ہر صبح و شام مسجد کی طرف جانے کے بدلے جنت میں صبح و شام کی خاص مہمان نوازی کا اعلان کیا گیا، جیسا کہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مسجد کی طرف صبح کے وقت، یا شام کے وقت جاتا ہے، اللہ جل شانہٗ اس کے لئے جنت میں ہر صبح اور ہر شام مہمان نوازی فرمائیں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من خرج الی المسجد و من راح، ۱/۹۱، ط: قدیمی)
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتا ہے تو جب تک وہ اپنے مصلے پر با وضو رہے فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے رہتے ہیں: ’’اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوٰۃ و فضل المساجد، ۱/۹۰، ط: قدیمی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو خوب چرو، سوال کیا گیا کہ: جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مساجد۔‘‘ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب، ۲/۱۹۱، ط: قدیمی)
اسی طرح مساجد کی تقدیس و تعظیم، اسلام میں مساجد کی بلند شان اورمسجد میں داخل ہونے والے شخص کے لئے ثواب اور اجرِعظیم کی بشارتوں کے سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔
مسجد، کتاب وسنت کی تعلیم وتربیت کا مرکز: اسلام کی عظیم الشان تاریخ ہمیں مسجد نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حین حیات قائم ہونے والے دینی تعلیم کے حلقوں کا پتہ دیتی ہے۔ یہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ فقراء اصحابِ صفہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مقدس کو سننے اور یاد کرنے کے لئے جمع ہونے والا پہلا قافلۂ علم تھا۔ یہ حضرات مسجد نبوی اور صفہ ہی میں رہتے، تاکہ قرآن کی کوئی آیت جو بصورتِ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کوئی فرمان گرامی سننے سے رہ نہ جائے۔ ان میں وہ قراء کرام بھی تھے جنہیں بئر معونہ پر رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل کے افراد نے دھوکہ سے شہید کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائل کے خلاف ایک مہینے تک فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ کے ذریعے بددعا فرمائی۔ انہی اصحاب صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ لوگ بھی تھے جن کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اصحاب صفہؓ میں سے ستر افراد ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے کسی کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے مکمل کپڑا نہ ہوتا تھا، یا ازار ہوتی یا بڑی چادر ہوتی جس کو گردن پر باندھ لیتے، کسی کی یہ چادر نصف پنڈلی تک پہنچتی، کسی کی ٹخنوں تک پہنچتی، تو وہ اس چادر کو سمیٹ سمیٹ کر بیٹھ جاتے، مبادا ستر ظاہر ہوجائے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب نوم الرجال فی المسجد، ج:۱، ص:۶۳، ط: قدیمی)
انہی اصحاب صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد تھے، ایک انتہائی باکمال اور باصلاحیت عبقری شخصیت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تھی، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار حفاظِ حدیث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہوتا تھا۔ عہدِنبوت کے صرف تین سالوں میں آپ رضی اللہ عنہ نے علوم حدیث کے وہ عظیم خزانے حاصل کئے جن کی کثرت نے ایک عالَم کو انگشت بدنداں کر دیا، آپ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ احادیث جو ہم تک پہنچی ہیں، ان کی تعداد پانچ ہزار تین سو چوہتر (۵۳۷۴) ہے، یہ ایک بڑی تعداد ہے اور ’’صحیح بخاری‘‘ کی مکررات کو حذف کرکے بقیہ روایات سے زیادہ ہے۔
صرف مسجد نبوی اور مسجد حرام ہی کیا، دنیا میں جہاں کہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، شام، وغیرہ ممالک فتح ہوئے تو وہاں مساجد کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ مساجد بھی درس و تدریس کے مراکز تھے، یہ مراکز بڑی بڑی جامع مساجد میں قائم تھے، گویا علم کے چشمے تھے جو اُبل پڑے تھے اور فراونی سے بہہ رہے تھے۔ عراق کی فتح کے بعد جامع مسجد کوفہ سب سے پہلی مسجد تھی، جس کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی ۔ یہ مسجد احادیث نبویہ کی تعلیم کا مرکز تھی، جہاں براء بن عازب رضی اللہ عنہ پہلے صحابی تھے جنہوں نے احادیث نبویہ کی تعلیم شروع فرمائی۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی مساجد دین کی درسگاہیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت قاہرہ کی جامع ازہر، تیونس کی جامع زیتونہ اور اندلس کی جامع قرطبہ کو حاصل ہوئی۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی جامع مساجد تھیں جو کہ علوم اسلامیہ کی باقاعدہ یونیورسٹیاں تھیں، جن سے علم کے چشمے جاری تھے، جن سے نکلنے والی نہریں کرہ ٔارض کے مختلف گوشوں میں پھیل چکی تھیں، اور ان نہروں سے چھوٹے بڑے سبہی اہل علم مستفید ہورہے تھے۔ ان تاریخی روایات کو مد نظر رکھ کر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی سلطنت و سطوت کے زمانے میں عرب و عجم کے جس شہر میں بھی کوئی مسجد قائم ہوئی، وہ کتاب و سنت کی تعلیم کا مرکز بھی رہی ہے۔ ان مبارک تاریخی نقوش کی روشنی میں اب ہم قارئین و حاضرین، ائمہ وخطبا کی خدمت میں مساجد کے لیے چند اصول و ضوابط پیش کرتے ہیں، تاکہ پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد میں آنے والا ہر شخص شریعت کے نظامِ مساجد سے فائدہ اُٹھاسکے۔
امام مسجد کے اوصاف: ۱- ہر مسجد کے لئے ایک سمجھ دار، بیدار مغز، فاضل عالم دین بطورامام مقرر کیا جائے۔
۲- جو نمازیوں کی اچھی طرح تربیت اور انہیں دینی تعلیم سے روشناس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
۳- نیز یہ امام قرآن کریم کو درست تجوید کے ساتھ پڑھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو۔
۴- اور اچھے اخلاق سے بھی آراستہ ہو۔
اِمام درسِ قرآن کی تیاری کس طرح کرے؟
۱- ہر امام کو چاہیے کہ وہ نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کرے ۔
۲- جس میں نمازیوں کو قرآن کریم کے مطالب اس اسلوب سے ذہن نشین کروائے جو اُن کے فہم اور مستویٰ کے مطابق ہو۔
۳- ایسی باتیں جو ان کے لئے کارآمد نہ ہوں، مثلاً: لغت، اعراب وترکیب کی باریکیاں، یا بے فائدہ توجیہات و تاویلات، وغیرہ میں ہرگز نہ پڑے۔
۴- بلکہ قرآن کریم کے اہم پہلوؤں پر اکتفا کرتے ہوئے قرآن کریم کے مطالب و مقاصد کو عمدہ اور نفع مند اسلوب کے ساتھ واضح کرے، کیونکہ امت کے آخری لوگوں کی اصلاح کا بھی وہی طریقہ ہے جو طریقہ اول امت کی اصلاح کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا تھا۔
۵- امام کو چاہئے کہ درس کے دوران آیات کے ترجمہ و تفسیر کی مناسبت سے نمازیوں کے عقائد کی درستگی، اور ان کے معاملات کی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ کرے۔
۶- درس کے لئے مختصر وقت مقرر کیا جائے، یہ وقت کم سے کم پندرہ منٹ اور زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ ہو، تاکہ عوام کو اُکتاہٹ نہ ہو، اور درس میں شرکت کی پابندی ہوسکے، اس لئے کہ بہترین عمل وہی ہے جو ہمیشگی اور مستقل مزاجی سے کیا جائے، اگرچہ تھوڑ اہی کیوں نہ ہو۔
درسِ حدیث کا اہتمام اور ا س کی تیاری:
۱- مناسب ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد درسِ حدیث کا اہتمام کیا جائے۔
۲- درسِ حدیث کے لیے عمدہ اور مفید کتب مثلاً: امام نووی رحمہ اللہ کی ’’ریاض الصالحین ‘‘ یا امام منذری رحمہ اللہ کی ’’الترغیب والترہیب ‘‘کا انتخاب ہو۔
۳- اس درس میں ان اختلافی مسائل کا تذکرہ جس سے نمازیوں کو فکری تشویش لاحق ہو، نہ کیا جائے۔
۴- درسِ حدیث کا بنیادی ہدف نمازیوں کی روحانی اصلاح اور ان کے دل و دماغ کی پاکیزگی کی کوشش ہو۔
۵- اس درس کا وقت کم از کم آدھا گھنٹہ مقرر کیا جائے، اور فجر کے بعد کا وقت اس کے لئے مناسب ہے، اس لئے کہ یہ فراغت و فرصت کا وقت ہوتا ہے۔
۶- اس طرز پر تعلیمی سلسلے جاری رکھنے کی صورت میں ہر مسجد ایک دینی مدرسے کی صورت اختیار کرلے گی۔
عام فہم اسلامی فقہی احکام سے متعلق نصاب:
۱- ایک خاص نصاب مقرر کیا جائے، جس میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج،وغیرہ بنیادی عبادات کے فقہی احکام کا انتخاب ہو۔
۲- فجر کے علاوہ چاروں نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں کم از کم پانچ منٹ اس نصاب کی تعلیم کے لئے متعین کیے جائیں، تاکہ نمازیوں کو ان عبادات کے احکام سے بھی ایک گونہ واقفیت ہو جائے۔
خطبۂ جمعہ اور تقریر کی تیاری:
۱- جامع مسجد جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں بھی ادا کی جاتی ہوں، وہاں کے خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خطبے میں عالمی اسلامی مسائل کو لے کر اُمتِ مسلمہ کی حالیہ ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں بات کرے۔
۲- اسی طرح خطیب کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس خطبے کو اچھی طرح تیار کرے، ایسے الفاظ کا چناؤ کرے جو اصلاحِ قلب کے لئے مؤثر اور مفید ہوں۔
۳- نیز خطبہ معتدل انداز کا ہو، نہ اس قدر اختصار ہو کہ مقصود حاصل نہ ہوسکے، نہ موضوع سے ہٹ کر غیرضروری باتوں کی تطویل ہو کہ سننے والے اُکتا ہی جائیں۔
۴- یہ بھی خیال رہے کہ خطبے میں ایسے اختلافی مسائل کو نہ چھیڑا جائے جو اُمت میں عرصہ دراز سے اختلافی ہی چلے آرہے ہیں۔
۵- خطیب کو چاہیے کہ وہ اہمیت کے حامل فقہی احکام اور دین کے بنیادی مسائل کے بیان ہی پر اکتفا کرے۔
۶- خطیب کی دعوت ایسی حکیمانہ ہو کہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جائے۔
۷- ساتھ ساتھ کتاب و سنت کے دلائل سے مؤید بھی ہو، تاکہ سامعین مطمئن رہیں، اور یہ سمجھ سکیں کہ دین اسلام ہی وہ آسمانی مذہب ہے جو انسان کی نیک بختی اور سعادت کا ضامن ہے، یہی وہ دین فطرت ہے جس سے انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام مستغنی نہیں ہوسکتا، اور امریکی و یوروپی تہذیب کی کجی اور بگاڑ کی اصلاح صرف اورصرف صحیح اسلام اور شریعتِ محمدیہ پر عمل کرنے ہی میں ہے۔ دین اسلام ہی سب سے بہتر دینی و اقتصادی نظام ہے ،جو فرد و جماعت، مادی و روحانی تمام شعبہ جات کو حاوی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خطیب ان موضوعات کا انتخاب کرے جو معاصر ضرورتوں میں سے اہمیت کے حامل ہوں۔
جمعہ کا خطبۂ مسنونہ غیرعربی زبان میں بدعت اور فتنہ ہے: اگر سامعین عربی زبان جاننے والے نہ ہوں تو ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ بلکہ اذان سے پہلے خطبے کے موضوع کو سامعین کی زبان میں بطور خلاصہ پیش کر دیا جائے۔ جمعے کا خطبہ صرف عربی زبان ہی میں دیا جائے، اس لیے کہ عہد نبوی ہی سے امت کا یہ معمول رہا ہے کہ جمعہ و عیدین کے خطبے عربی زبان ہی میں دیے جاتے رہے ہیں، اس لیے کہ عربی زبان قرآن اور اسلام کی زبان ہے، غیرعربی زبان میں خطبہ کسی صورت مناسب نہیں، اس لیے کہ عہد صحابہؓ میں فار س و روم کے علاقے جب فتح ہوئے تھے، اس وقت بھی خطبۂ جمعہ کی زبان عربی ہی رہی۔ اسی طرح تمام خطبات کی اصل روح باری عز اسمہٗ کا ذکر ہے، جہاں تک خطبے کے ذریعے وعظ ونصیحت کی بات ہے تو وہ ثانوی چیز ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی پوشیدگی کے باعث بہت سے لوگوں کو یہ بات اچھنبی معلوم ہوتی ہے کہ سامعین کی زبان کے علاوہ کسی زبان میں خطبہ دیا جائے، حالانکہ خطبہ ایک عبادت ہے، اس کی نوعیت ان عام خطبوں کی مانند نہیں جو عام محافل و مجالس میں سامعین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔بلکہ اگر لوگوں کے اس تعجب کے دائرے کو وسیع کیا جائے تو یہ معاملہ صرف خطبے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ نماز تک وسیع ہو جائے گا، اس لیے کہ غیر عربی دان کے لیے وہ بھی ایک مختلف زبان میں مناجات ہوگی، اس طرح یہ فتنہ بڑھتا ہی رہے گا۔ امریکہ و یوروپ کے کئی ممالک میں یہ فتنہ پھیل گیا ہے، چنانچہ وہاں ائمہ سامعین ہی کی زبان میں خطبہ دیتے ہیں، یہ ایک بدعت ہے جس کی پیروی کسی صورت نہیں کی جانی چاہیے، اللہ ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے۔ بلکہ ہمارے علاقوں میں تو نماز کو اردو زبان میں ادا کرنے کا فتنہ پیدا ہوچکا ہے، اور اہل علم اس فتنے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ملازمت وتجارت پیشہ حضرات کو دین سے قریب کرنے کا ذریعہ: خلاصہ یہ ہے کہ اگر مساجد میں ان اصولوں کی رعایت رکھی جانے لگے، تو ان بالغ نمازیوں کے لئے جو اپنی مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ مدارس میں پڑھ نہیں سکتے، اسی طرح ان کاروبار پیشہ افراد کے لیے بھی جو بازاروں میں کاروبار میں مصروف رہتے ہیں، نیز اس ملازمت پیشہ طبقے کے لیے جو حکومتی اداروں میں ملازمت کے باعث فرصت نہیں پاتے، یہی مساجد دینی درسگاہیں ثابت ہوں گی۔ نوجوانانِ امت جن کا دین دار طبقے اور دینی تعلیمی اداروں سے تعلق ٹوٹ چکا ہے، ان کو دین اسلام کی روح سکھانے اور سمجھانے کے لئے یہ ایک بہترین طریقہ کار ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم عام گلی کوچوں اور بازاروں کے لئے لاؤڈاسپیکر وغیرہ جدید وسائل بھی استعمال کریں تو یہ نظام ان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی جو گھروں ہی میں رہتے ہیں (مسجدوں کی طرف رخ نہیں کرتے) بیک وقت اصلاح کے لیے مفید ہو سکتا ہے، تاکہ وہ بھی چند لمحوں پر محیط اس درس کی طرف راغب ہوں اور تربیت کا دائرہ بڑھتا ہوا ان عورتوں اور بچوں کوبھی شامل ہوجائے جو گھروں میں رہتے ہیں۔ خطیب کو چاہئے کہ اس کے لیے بھی خالص ایسے تربیتی موضوعات اختیار کرے جیسے موضوعات ٹیلیوژن اور ریڈیو وغیرہ پر دیے جانے والے دروس کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس طرح مساجد کا یہ نظام جدید وسائل و آلاتِ نشر واشاعت کی مدد سے ایک عمدہ ترین، انتہائی نفع بخش اور تربیت کے تمام گوشوں کو بیک وقت احاطہ کئے ہوئے نظام کی صورت میں نمایاں ہوگا، لیکن بہر حال توفیق و انعام دینے والی ذات تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کی ہے۔ الغرض نمازوں کے اجتماعات کے ساتھ ساتھ یہ مساجد دراصل توحید کی طرف دعوت کا عنوان ہیں، تبلیغ دین کا عنوان ہیں، احکام شریعت کی تعلیم کا عنوان ہیں اور فکری تربیت، قلبی اور روحانی اصلاح کا عنوان ہیں، جیسا کہ پچھلے وقتوں میں یہی مساجد قضائ، افتاء اور عدالتی فیصلوں کا بھی عنوان ہوا کرتی تھیں۔ اخیر میں، میں رابطہ عالم اسلامی کے صدر اور ان کے رفقائے کار کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ائمہ مساجد کی بیداری اور ان کے منصب کی رفعت پر تنبیہ کے لیے ہدایات پیش کرنے کی غرض سے اس مجلس کا انعقاد کیا، بلا شبہ اگر اسلامی ممالک میں مساجد کا یہ نظام واقعی متحرک اور فعال ہوجائے تو یہ ایک بہترین کاوش ثابت ہوگی۔ اللہ جل شانہٗ سے دعا ہے کہ وہ رابطہ عالم اسلامی کے ارباب حل و عقد، خصوصاً محترم صدر رابطہ عالم اسلامی کو اسلام، ملت اسلامیہ، علم اور اہل علم کی اس سے بڑھ کر خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے، اور مجلس رابطہ عالم اسلامی کو اسلام و اہل اسلام کے لئے خیر وبھلائی کی نوید بنائے۔ اللہ ہی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/book.html