Wednesday, 29 March 2017

بسم اللہ کی بجائے 786 لکھنا

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خطوط اور مراسلات کا سرنامہ” بسم الله الرحمن الرحیم“ ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کے کفار ومشرکین کو بھی جو خطوط ارسال فرماتے تو ان کی ابتدابھی اسی آیت کریمہ سے فرماتے۔ اس طرح تمام تحریرات اور مراسلات میں اس آیت کریمہ سے ابتدا کرنا سنت اور مسلمانوں کا شعار بن گیا۔ لیکن اس کو چھوڑ کر اب کچھ لوگ”786“ کا عدد یا ”باسمہ تعالیٰ“ لکھتے ہیں، حالاں کہ یہ دونوں ہی مفہوم کے اعتبار سے بالکل غیر واضح اور مبہم ہیں، کیوں کہ786 کا عدد تو بہت سے کفریہ اور شرکیہ کلمات کے حروف کا مجموعہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ”باسمہ تعالیٰ“ کو اس کی ضمیر کا مرجع محذوف ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اپنے اعتقاد کے مطابق جس کو اعلیٰ سمجھتا ہے اُس کے لیے استعمال کر سکتا ہے، یہاں تک کہ ایک بُت پرست بھی اپنے بتوں کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے سرنامہ میں یہی کلمہ لکھ سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ1..”786“ اور باسمہ تعالی لکھنے کا رواج کب سے اور کس وجہ شروع ہوا؟
2..رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو قصداً چھوڑ کر مذکورہ بالا عدد یا کلمہ لکھنا شرعاً کیسا ہے؟ کیا یہ بدعت ہے؟
3..اگر بجائے باسمہ تعالیٰ کے بسم الله تعالیٰ لکھا جائے تو کیا اس کے جواز کی گنجائش ہو گی؟

اس مسئلہ کی پوری وضاحت فرماکر ممنوں ومشکور فرمائیں۔

جواب… پہلے تمہیدی طور پر چند باتوں کا جاننا ضروری ہے، اسلام ایک آسان اور سہل شریعت لے کر آیا ہے، اس میں محنت کم اور مزدوری زیادہ، عمل مختصر اور ثواب عظیم ہے، دنیوی مشاغل میں رہتے ہوئے بھی ایک آدمی ذاکر شاغل ہو جائے، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی قولی اور عملی تعلیمات نے انسان کی ہر نقل وحرکت اور ہر وقت اور ہر مقام کے لیے ذکر الله اور دعاؤں کے ایسے مختصر جملے سکھا دیے ہیں کہ ان کے پڑھنے میں نہ کسی دنیوی کام میں خلل آتا ہے اور نہ پڑھنے والے کو کوئی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ دین اسلام کی ان تعلیمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر کام کو ”بسم الله“ سے شروع کرو، چناں چہ”درمنثور میں بحوالہ دارقطنی حضرت ابن عمر رضی الله عنہماسے نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل امین جب کبھی میرے پاس وحی لے کر آئے تو پہلے”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھتے تھے، گویا” بسم الله“ ایک کیمیا ہے ،جو خاک کو سونا بنا دیتی ہے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”کل أمر ذی بال لم یبدأ ببسم الله فھوأقطع“غرض اس پوری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو فضیلت اور ثواب پوری ” بسم الله الرحمن الرحیم“ پر حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور طریقہ پر حاصل نہیں ہو گا، اب جوابات ملاحظہ ہوں۔
1..”786“ یا ” باسمہ تعالیٰ“ لکھنے کا رواج کب سے شروع ہوا، تحقیق کرنے کے بعد بھی ہمیں اس کا جواب نہیں ملا، جہاں تک وجہ کا ذکر ہے تو الله تعالیٰ کے مبارک ناموں کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے یہ طریقے اختیار کیے گئے۔
2..قصداً آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک طریقے کو نہیں چھوڑنا چاہیے، البتہ جہاں بے ادبی کا احتمال غالب ہو تو وہاں ”786“ یا باسمہ تعالی لکھنے کی گنجائش ہے۔
3..”باسمہ تعالیٰ“ اور ”باسم الله تعالیٰ“ دونوں کا ایک درجہ ہے، البتہ بات وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی۔۔
ل # 30897
اسلام علیکُم
مفتی صاحب
مجھے بہتے کی ٧٨٦ کا کیا مطلب ہے .میرے ابّو جب کوئی بالل یا چالان بناتے ہے تو کگاج پر پہلے ٧٨٦ لکھتے ہے کیا یہ سہی ہے .لوگ ٧٨٦ نمبر کو بہت لکے سمجھتے ہے کیا یہ سہی ہے .مجھے اسکے بارے مے تفسیر سے بہتے .اور ایک سوال یہ ہے کی کیا ففی کی لڑکی کےساتھہ نکاح سہی ہے . کچھ لوگ کہتے ہے کی ماما کی لڑکی کے ساتھ نکاح ہو جاتا ہے لیکن ففی کی لڑکی سے نہیں اور کچھ کہتے ہے کی ففی کی لڑکی سے نکاح تو ہو جاتا ہے لیکن دودھ کا بچاؤ نہیں ہے یہ بتاے کی دودھ کے بچاؤ کا کیا مطلب ہے .صحابہ مے کوئی اسی مصال ہے جہا ففی کی لڑکی سے نکاح کیا گیا ہو اپ یہ فتوا اخوار مے بھی چپواہے اور جو لوگ دودھ کے بچاؤ کی کہتے ہے انکے بارے مے بتاے جزا کلّہ
Published on: Mar 3, 2011
جواب # 30897
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):424=316-3/1432
786 بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد ہے اس عدد سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا بدل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر تسمیہ لکھنے کا ثواب ہے، اس لیے اصل تو یہی ہے خط یا کسی اور چیز کے لکھنے کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی جائے البتہ اگر کسی خط کے غلط جگہ ڈالے جانے کا اندیشہ ہو اس مقصد سے اگر کوئی تسمیہ کی جگہ باسمہ تعالیٰ یا 786 لکھ دے تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) پھوپھی کی لڑکی سے نکاح حلال ہے، البتہ اگر پھوپھی نے مدت رضاعت میں اپنے بھتیجے کو دودھ پلادیا ہو تو پھر اب پھوپھی کی لڑکی سے نکاح کرنا حرام ہوگا، جو لوگ ”دودھ کا بچاوٴ نہیں ہے“ کہہ رہے ہیں غالباً ان کی مراد یہی ہے، بہتر یہی ہے کہ مقامی کسی عالم سے اس کا مطلب پوچھ لیا جائے کیوں کہ مقامی عالم مقامی اصطلاحات کو زیادہ جاننے والا ہوتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Monday, 20 March 2017

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى

ایس اے ساگر 
ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ گردش کررہی ہے کہ:
ایک بار جبرائیل علیہ السلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام کچھ پریشان ہیں.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں؟
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی،
اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں، اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ. جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی،
جہنم کے کل سات درجے ہیں.
1. ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا
2. اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے.
3. اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے.
4. چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے.
5. تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے.
6. دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں گے.
یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا،
جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ 
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا،
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کے امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے.
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد غمگین ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کیں. تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لاتے، نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکے اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حیران تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے، مسجد سے حجرے جاتے ہیں،
گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا، وہ دروازے پہ آئے،  دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ روتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا، لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جائے.
آپ رضی اللہ عنہ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا، انھوں نے سوچا کہ جب اتنی عظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود بھی جانا نہیں چاہئے. بلکہ مجھے ان کی نور نظر بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اندر بھیجنی چاہئے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی کو سب احوال بتا دیا. آپ رضی اللہ عنہا حجرے کے دروازے پہ آئیں.
" ابا جان، السلام علیکم."
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا.
ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہیں؟ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جائے گی، فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ ان کو معاف کردے اور جہنم سے بری کردے،
یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا،
یا اللہ میری امت، یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر، ان کو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا؛
"وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى"
اے میرے محبوب غم نہ کر، میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا،
لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے. 
.....
اس مضمون کے اخیر میں عربی حوالوں میں یہ بات مذکور ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، ضعیف ترین، بلکہ موضوع ہے، تاہم اس کو آپ نشر بھی نہ فرمائیں، عربی سے ناواقف لوگ صرف اردو پر اکتفا کریں گے اور اس طرح جھوٹی حدیث "تشہیر پذیر" ہوجائے گی-
مات : 3

اسم المفتي : لجنة الإفتاء
الموضوع : سؤال حول صحة حديث طويل عن يزيد الرِّقَاشي عن أنس
رقم الفتوى : 948
التاريخ : 08-11-2010
التصنيف : أحكام على الأحاديث
نوع الفتوى : بحثية
السؤال :
هل يجوز نشر هذا الحديث: روى يزيد الرقاشي عن أنس بن مالك قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها، متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: مالي أراك متغير اللون؟ فقال: يا محمد! جئتك في الساعة التي أمر الله بمنافخ النار أن تنفخ فيها، ولا ينبغي لمن يعلم أن جهنم حق، وأن النار حق، وأن عذاب الله أكبر، أن تقر عينه حتى يأمنها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا جبريل! صف لي جهنم.. إلى آخر الحديث الطويل المروي والمنتشر عبر الجوالات والمنتديات؟
الجواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله
هذا الحديث لا أصل له، ولا يعرف من رواية أحدٍ من العلماء، ولم يأت مسندًا في شيء من كتب السنة، وإنما ورد ذكره في كتاب: "تنبيه الغافلين" (ص/264) لأبي الليث السمرقندي (المتوفى سنة 375هـ)، وكتابه هذا مليء بالموضوعات التي اقتضت من أهل العلم التنبيه على ما فيه.
قال الإمام الذهبي رحمه الله: "صاحب كتاب "تنبيه الغافلين"... تروج عليه الأحاديث الموضوعة" انتهى. "سير أعلام النبلاء" (16/323)، أي أنه لا يفرِّق بين الموضوع وغيره، لا أنه يفتري على رسول الله صلى الله عليه وسلم.
والراوي (يزيد الرقاشي) الذي نسب إليه الحديث ضعيف أيضًا. انظر ترجمته في كتاب الحافظ ابن حجر "تهذيب التهذيب" (11/311).
كما جاء ما يشبه متنه من حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه بسياق مختصر، أخرجه ابن أبي الدنيا في "صفة النار" (رقم/158)، والطبراني في "المعجم الأوسط" (3/89)، إلا أنه حديث مكذوب أيضًا، فيه بعض المتَّهمين والوضَّاعين من الرواة.
وفي متن الحديث العديد من النكارات التي تخالف الأحاديث الصحيحة، مما يؤكد وضع الحديث ونكارته. والله تعالى أعلم.

Thursday, 16 March 2017

ان اللہ یحب التوابین

ایس اے ساگر
ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے نیزمولانا شاہ حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بیان میں بھی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں جارہے تھے تو دیکھا کہ زازان نامی گویّا ساز بجابجا کر گا رہا تھا اور شائقینِ خمر یعنی شرابی اس کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کاش یہ اس اچھی آواز سے قرآن پڑھتا، 
یہ بات اس تک پہنچ گئی،
اس نے پوچھا مَن ھٰذا یہ کون ہے؟
لوگوں نے بتایا،
ھٰذَا صَاحِبُ رَسُولِ اﷲ
ِیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابی ہیں،
اس گویّے نے پوچھا
اَیش قَال؟
انھوں نے کیا کہا؟
لوگوں نے کہا
یٰالَیتَ ھُو یَقرَاُ القُراٰنَ بِھٰذَا الصَّوتِ الحَسَنِ
کاش یہ اس اچھی آواز سے قرآن پڑھتا۔
بس اس نے ساز توڑ دیا اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اور رونے لگا، 
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شرابی اور گانے بجانے والے کو گلے لگا کرخود بھی رونے لگے، سب نے اعتراض کیا کہ ایک فاسق و فاجر کو جو ابھی ابھی گندے ماحول سے آرہاہے، آپ نے اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ آپ اس سے لپٹ کر رو رہے ہیں؟ تو فرمایا کہ

ان اللہ یحب التوابین

جب اس نے توبہ کرلی تو قرآن میں خدا کا وعدہ ہے کہ ہم توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں تو جب خدا کا محبوب مجھ سے لپٹ کر رو رہا ہے تو میں کیوں نہ رووں؟
خواجہ صاحب کا شعر ہے
نیا توبہ شکن جب داخلِ مے خانہ ہوتا ہے
نہ پوچھو رنگ پر پھر کس قدر مے خانہ ہوتا ہے
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی گنہگار دین میں داخل ہوتا ہے تو بتاو کتنی خوشی ہوتی ہے، کوئی ڈاکو، کوئی چور، کوئی شرابی کبابی توبہ کرکے خانقاہ میں آجائے اور اللہ کی یاد میں رونے لگے تو دل چاہتاہے کہ اس کے قدم چوم لیں۔
.....

ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻳﻐﻨﻲ ﻳﺸﺮﺏ ﺍﻟﻤﺴﻜﺮ ، ﻭﻳﻀﺮﺏ ﺑﺎﻟﻄﻨﺒﻮﺭ، ﺛﻢ ﺭﺯﻗﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺘﻮﺑﺔ ﻋﻠﻰ ﻳﺪ ... ﻋـﺒـﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﺼﺎﺭ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻣﻦ ﺧﻴﺎﺭ ﺍﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ ، ﻭﺃﺣﺪ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﺍﻟﻜﺒﺎﺭ ، ﻭﻣﻦ ﻣﺸﺎﻫﻴﺮ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩ ﻭﺍﻟﺰﻫﺎﺩ .
ﻭﺇﻟﻴﻚ ﻗﺼﺔ ﺗﻮﺑﺘﻪ ، ﻛﻤﺎ ﻳﺮﻭﻳﻬﺎ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻧﻔﺴﻪ ﻗﺎﺋﻼً :
‏» ﻛﻨﺖ ﻏﻼﻣﺎً ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺼﻮﺕ ،
ﺟﻴﺪ ﺍﻟﻀﺮﺏ ﺑﺎﻟﻄﻨﺒﻮﺭ ،
ﻓﻜﻨﺖ ﻣﻊ ﺻﺎﺣﺐ ﻟﻲ ﻭﻋﻨﺪﻧﺎ ﻧﺒﻴﺬ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻏﻨﻴﻬﻢ ،
ﻓﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻓﺪﺧﻞ ﻓﻀﺮﺏ ﺍﻟﺒﺎﻃﻴﺔ ‏( ﺍﻹﻧﺎﺀ ‏) ﻓﺒﺪﺩﻫﺎ ﻭﻛﺴﺮ ﺍﻟﻄﻨﺒﻮﺭ
ﺛﻢ ﻗﺎﻝ :
ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻣﺎ ﻳﺴﻤﻊ ﻣﻦ ﺣﺴﻦ ﺻﻮﺗﻚ ﻳﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻛﻨﺘﺄﻧﺖ ﺃﻧﺖ
ﺛﻢ ﻣﻀﻰ،
ﻓﻘﻠﺖ ﻷﺻﺤﺎﺑﻲ : ﻣﻦ ﻫﺬﺍ؟
ﻗﺎﻟﻮﺍ : ﻫﺬﺍ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ،
ﻓﺄُﻟْﻘِﻴﺖ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻲ ﺍﻟﺘﻮﺑﺔ ، ﻓﺴﻌﻴﺖ ﺃﺑﻜﻲ، ﻭﺃﺧﺬﺕ ﺑﺜﻮﺑﻪ،
ﻓﺄﻗﺒﻞ ﻋﻠﻲّ ﻓﺎﻋﺘـﻨـﻘـﻨﻲ ﻭﺑﻜﻰ
ﻭﻗﺎﻝ : ﻣﺮﺣﺒﺎً ﺑﻤﻦ ﺃﺣﺒﻪ ﺍﻟﻠﻪ، ﺍﺟﻠﺲ، ﺛﻢ ﺩﺧﻞ، ﻭﺃﺧﺮﺝ ﻟﻲ ﺗﻤﺮﺍً ‏« .
ﻭﻫﻨﺎ ﻧﻠﻤﺲ ﺻﺪﻕ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﺣﺴﻦ ﻧﻴﺘﻪ، ﻭﺻﺤﺔ ﻗﺼﺪﻩ ﻓﻲ ﺩﻋﻮﺗﻪ ﻟﺰﺍﺫﺍﻥ، ﻣﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺳﺒﺒﺎً ﻓﻲ ﻫﺪﺍﻳﺔ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻭﺗﻮﺑﺘﻪ
ﻟﻘﺪ ﺿﺮﺏ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻣﺜﺎﻻً ﺭﺍﺋﻌﺎً ﻓﻲ ﺍﻟﺸﺠﺎﻋﺔ ﻭﺍﻹﻗﺪﺍﻡ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺼﺪﻉ ﺑﺎﻟﺤﻖ، ﻭﺗﻐﻴﻴﺮ ﺍﻟﻤﻨﻜﺮ، ﻻ ﻳﺨﺎﻑ ﻓﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻮﻣﺔ ﻻﺋﻢ، ﻣﻊ ﻛﻮﻧﻪ ﻭﺣﻴﺪﺍً، .... ﻭﻫﻢ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﻇﺎﻫﺮ ﺳﻴﺎﻕ ﺍﻟﻘﺼﺔ ، ﺇﺿﺎﻓﺔ ﺇﻟﻰ ﻗﺼﺮﻩ ﻭﻧﺤﺎﻓﺘﻪ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ .
ﻟﻜﻦ ﻟﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻣﻌﻈﻤﺎً ﻟﺤﺮﻣﺎﺕ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻭﺷﻌﺎﺋﺮﻩ ﺃﻭﺭﺛﻪ ﺫﻟﻚ ﻣﻬﺎﺑﺔً ﻭﺇﺟﻼﻻً .. ﻭﺻﺪﻕ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻘﻴﺲ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﻴﺚ ﻳﻘﻮﻝ :
‏» ﻣﻦ ﺧﺎﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺧﺎﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻨﻪ ﻛﻞ ﺷﻲﺀ، ﻭﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﺨﻒ ﺍﻟﻠﻪ، ﺃﺧﺎﻓﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻛﻞ ﺷﻲﺀ ‏« .
ﻓﺈﻧﻨﺎ ﻧﺪﺭﻙ ﻣﺪﻯ ﺷﻔﻘﺔ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﻛﻤﺎﻝ ﺭﻓﻘﻪ، ﻓﺈﻥ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻟﻤﺎ ﺃﻗﺒﻞ ﺗﺎﺋﺒﺎً، ﺃﻗﺒﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﻋﺎﻧﻘﻪ ﻭﺑﻜﻰ ﻓﺮﺣﺎً ﺑﺘﻮﺑﺔ ﺯﺍﺫﺍﻥ، ﻭﺣﻴﺎﻩ ﺑﺄﺟﻤﻞ ﻋﺒﺎﺭﺓ ﻣﺮﺣﺒﺎً ﺑﻤﻦ ﺃﺣﺒﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ ﺳﺒﺤﺎﻧﻪ ‏( ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﺤﺐَ ﺍﻟﺘﻮﺍﺑﻴﻦ ﻭﻳﺤﺐَ ﺍﻟﻤﺘﻄﻬﺮﻳﻦ ‏) ، ﻟﻴﺲ ﻫﺬﺍ ﻓﺤﺴﺐ ﺑﻞ ﺃﺟﻠﺴﻪ ﻭﺃﺩﻧﺎﻩ ، ﻭﺃﻋﻄﺎﻩ ﺗﻤﺮﺍً .
ﻭﻫﻜﺬﺍ ﻛﺎﻥ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺴﻨﺔ ﻭ ﺍﻟﺴﻠﻒ ﻳﻌﻠﻤﻮﻥ ﺍﻟﺤﻖ ﻭﻳﺪﻋﻮﻥ ﺇﻟﻴﻪ، ﻭﻳﺮﺣﻤﻮﻥ ﺍﻟﺨﻠﻖ ﻭﻳﻨﺼﺤﻮﻥ ﻟﻬﻢ .
ﻛﻤﺎ ﻧﻠﺤﻆ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻘﺼﺔ ﺫﻛﺎﺀ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻭﻓﻄﻨﺘﻪ ، ﻓﺎﻧﻈﺮ ﻛﻴﻒ ﺍﺳﺘﺠﺎﺵ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺘﻮﺑﺔ، ﻓﺈﻥ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻐﻨﻴﺎً ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺼﻮﺕ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ :
‏» ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻣﺎ ﺳﻤﻊ ﻣﻦ ﺣﺴﻦ ﺻﻮﺗﻚ ﻳﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻟﻜﻨﺖ ﺃﻧﺖ ﺃﻧﺖ ‏«
ﻭﻓﻲ ﺭﻭﺍﻳﺔ ﻗﺎﻝ :
‏» ﻣﺎ ﺃﺣﺴﻦ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺼﻮﺕ ! ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﺑﻘﺮﺍﺀﺓ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ ‏« .
ﺇﻥ ﺗﻮﺟﻴﻪ ﺍﻟﻤﻮﺍﻫﺐ ﻭﺍﻟﻘﺪﺭﺍﺕ، ﻭﻭﺿﻌﻬﺎ ﻓﻲ ﻣﺤﻠﻬﺎ ﺍﻟﻤﻼﺋﻢ ﺷﺮﻋﺎً، ﻣﻊ ﻣﺮﺍﻋﺎﺓ ﻃﺒﻴﻌﺔ ﺍﻟﻨﻔﺲ ﺍﻟﺒﺸﺮﻳﺔ، ﻭﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﻣﺸﺎﻋﺮﻫﺎ، ﻋﺎﻣﻞ ﻣﻬﻢ ﻟﻨﺠﺎﺡ ﺍﻟﺪﻋﻮﺓ ... ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻨﻔﻮﺱ ﻻ ﺗﺘﺮﻙ ﺷﻴﺌﺎً ﺇﻻ ﺑﺸﻲﺀ ﻓﻼﺑﺪ ﻣﻦ ﻣﺮﺍﻋﺎﺓ ‏» ﺍﻟﺒﺪﻳﻞ ‏« ﺍﻟﻤﻨﺎﺳﺐ، ﻭﻫﺬﺍ ﻣﺎ ﻓﻘﻬﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ

http://googleweblight.com/i?u=http://fatakat.com/thread/2050029&grqid=Al46M0hF&hl=en-IN


Sunday, 12 March 2017

کفیل احمد علوی؛ حیات اور خدمات

کفیل احمد علوی؛
عالم، مصنف، صحافی، شاعر اور میرے استاذ

مولانا کفیل احمد علوی کا سانحۂ ارتحال میرے لیے ذاتی رنج و الم کا باعث ہے کیوں کہ میں نے قلم و قرطاس سے وابستگی کے سفر کی باقاعدہ شروعات انہی کی رہنمائی و تربیت میں کی تھی، وہ ایک مخلص ترین استاذ تھے اور سادہ ترین انسان، دوسال مسلسل میں نے انھیں قریب سے دیکھا، ان کی اپنی ہی دنیا تھی، گردوپیش کے ہاؤہو سے بے نیاز وہ اپنے آپ میں مگن رہتے، بغل میں ایک چھوٹاسا بیگ دبائے پابندی سے شیخ الہند اکیڈمی آتے، صحافت و تحریر کے حوالے سے طلبہ کی رہنمائی کرتے، صبح سے شام تک مختلف مرحلوں میں چائے کا دور چلتا اور تعلیمی وقت کے اختتام کے ساتھ ہی وہ اپنے گھر کو روانہ ہوجاتے، کم و بیش پچاس سال انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبوں میں استاذ، نگراں یا ذمے دارکی حیثیت سے گزارے، مگر وہ کسی بھی قسم کی انتظامی یا غیر انتظامی سیاست سے یکسر الگ رہے، اسی کی دہائی میں احاطۂ دارالعلوم میں جو سونامی آئی تھی، اس کے وہ چشم دید گواہ تھے؛بلکہ کئی بار انھوں نے مجھے اس دورکے بعض دلچسپ واقعات بھی سنائے لیکن اس پورے ایپی سوڈ میں وہ کسی بھی قسم کے تنازع سے دور ہی رہے۔ ان کی نگاہ معاملہ شناس اوردل دماغ بیدارتھے، اس لیے وہ جھوٹی عقیدت و محبت کے پردے میں کسی کا آلۂ کار یا کسی استحصالی نظام کا حصہ بننے سے محفوظ رہے ـ
ان کے والد مولانا جلیل احمد کیرانوی دارالعلوم کے استاذِ حدیث تھے، سوان کی پوری تعلیم از ابتدا تا انتہا وہیں ہوئی، اس کے بعد تازندگی دارالعلوم ہی میں تدریسی، تصنیفی، صحافتی خدمات انجام دیں۔ ان کا اصل میدانِ عمل تحریروتصنیف اور شعر وشاعری تھا، 1950ء سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا تھا اور تجلی، ماہنامہ دارالعلوم اور چراغِ حرم جیسے رسائل میں چھپنے لگے تھے، اس کے بعد مختلف ادوارمیں ان کے قلم سے تقریرِبخاری، اسلام مدینہ سے مدائن تک، اعجازِ نبوی اور راہِ حق کے مسافر جیسی کتابیں منظرِعام پر آئیں، نئی انتظامیہ کے تحت جب پندرہ روزہ دارالعلوم نامی اخباری جریدے کا اجرا عمل میں آیا، تو اس کی ادارت انھیں سونپی گئی اور اپریل 2009ء تک انھوں نے اس پرچے کی بخوبی ادارت کی، اس دوران ملکی و عالمی حالات پر انھوں نے بیش قیمتی شذرات تحریر فرمائے، جب روزنامہ سہارا شروع ہوا، تو ابتدامیں ایک عرصے تک اس میں کالم لکھا، پھران کی بے نیازطبیعت آڑے آگئی اور یہ سلسلہ رک گیا، اخبار والے مضمون کا مطالبہ کرتے اور وہ انھیں ٹالتے رہتے۔
کفیل صاحب طلبہ کی تربیت بڑے خلوص اور لگن کے ساتھ کرتے تھے ، اپنے شاگردوں کی کامیابی پربہت خوش ہوتے اور اس کا اظہار بھی کرتے،ان کے زیر تربیت کوئی طالب علم اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا، تودوسروں کے لیے اسے نمونہ قرار دیتے، کسی طالب علم کا کوئی مراسلہ یا مضمون کسی اخبار میں شائع ہوتا، تو بے پناہ خوش ہوتے، خود بھی کئی بار پڑھتے اور دوسروں کوبھی پڑھنے کے لیے دیتے، ہمارے ایک ساتھی تھے،جن کو پڑھنے لکھنے سے کے علاوہ دوسری بہت سی مصروفیات درپیش رہتی تھیں، انھیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ کفیل صاحب اپنے شاگردوں کی تحریر اخبار میں چھپنے سے بہت خوش ہوتے ہیں، سو وہ اپنی عادت کے مطابق کلاس سے ہفتہ پندرہ دن غیر حاضر رہتے، پھر جب آتے اور مولانا ڈانٹنے کا موڈ بنا رہے ہوتے تو وہ فوراً ہی اپنا مراسلہ ان کے سامنے پیش کردیتے، اتنا دیکھتے ہی ان کا غصہ کافور ہوجاتا اور اس بندے کا جرم معاف. اکیڈمی میں قیام کے دوران ہی میں نے پاکستان کے معروف ادیب، صحافی و شاعر آغا شورش کاشمیری مرحوم کی مختلف تصانیف سے مضامین کا ایک انتخاب مرتب کیا اور اسے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو کفیل صاحب نے خوب حوصلہ افزائی کی اور کتاب پر تحسین آمیز تشجیعی کلمات بھی تحریر فرمائے، اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کی صحافت پر اپنا تحقیقی پروجیکٹ (جو دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ کے نام سے شائع ہوا) میں نے انہی کی رہنمائی میں مکمل کیا، شروع سے آخر تک مجھے ان کی نگرانی حاصل رہی بلکہ انھوں نے پورے مقالے کو تقریباً حرف بحرف پڑھا، حسبِ ضرورت ترمیم و اصلاح کی اور بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ شیخ الہند اکیڈمی کا قیام 1995 میں عمل میں آیا اور تب سے وہی اس کے مدیر تھے، اس عرصے میں ان کی تربیت کی بدولت دیوبند سے کئی ایسے فضلا نکل کر سامنے آئے ، جنھوں نے صحافت یا تصنیف و تحقیق میں خاصی شہرت حاصل کی اور متعلقہ حلقوں میں پنے آپ کو تسلیم کروایا، جب کفیل صاحب کو اپنے ایسے شاگردوں کے بارے میں پتا لگتا، تو ان کے چہرے کی چمک دیدنی ہوتی۔ وہ واقعی معنوں میں ایک مخلص استاذ تھے۔ سادگی ان کے رگ و پے میں ایسی تھی کہ انھیں دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ وہ کس مرتبے کے انسان ہیں؛شہرت و ناموری سے گویا ساری عمر وحشت زدہ رہے، بے نیازی ایسی کہ ان کی تحریروں نے کئی ایک تیزطرار مولویوں کو صاحبِ تصنیف بنادیا۔کفیل صاحب نے ایک بار نے مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی ایک تاریخ لکھی ہے، جو ابھی مسودے کی شکل میں ہے، میں نے انھیں دکھانے کو کہا تو وہ ٹال گئے، انھوں نے بتایا کہ اس میں انھوں نے اپنے آنکھوں دیکھے اور برتے ہوئے مختلف حالات وواقعات کوپوری غیر جانب داری کے ساتھ بیان کیا ہے، خاص طور پر انقلاب کے زمانے کے حالات کسی بھی رنگ آمیزی سے احتراز کرتے ہوئے اور جوں کے توں ذکر کئے ہیں، اس میں انھوں نے بعض موجودہ اکابرِ امت کے اُس زمانے کے ’’کارناموں‘‘ سے بھی پردہ اٹھایا ہے، جب وہ ’’اکابر‘‘ نہیں بنے تھے، پتا نہیں وہ مسودہ اکیڈمی میں ہی تھا یا ان کے گھر تھا، بہرحال اگر وہ دستیاب ہو اور چھپ کر آئے تو ایک دلچسپ چیز ہوگی۔
شعری خصوصیات بھی ان کے اندر بہت زیادہ پائی جاتی تھیں، وہ اگر کسی اور موزوں اور ادب پرور ماحول میں ہوتے تو ان کی طبیعت کے بے پناہ جوہر کھل کر سامنے آتے، فنی اعتبار سے شاعری کے رموز و اسرار انھوں نے عامر عثمانی سے سیکھے تھے اور پھر خود قادرالکلام شاعر ہوگئے تھے، آئینۂ دارالعلوم کے صفحات پر موقع بموقع ان کی خوبصورت غزلیں اور نظمیں مسلسل شائع ہوتی تھیں، ان کا ایک شعری مجموعہ بھی’’شوقِ منزل‘‘ کے نام سے طبع شدہ ہے، ان کی شاعری عامر عثمانی کی طرح مقصدیت سے معمور ہے،عموماً چھوٹی چھوٹی بحروں اور سادے الفاظ میں بڑی قیمتی بات کہہ جاتے ہیں، سماج اور معاشرے میں پائی جانے والی خامیوں، کمزوریوں اور ملک و ملت کے ناگفتہ بہ احوال کے پس منظرمیں ان کے بہت سے اشعار اور نظمیں خاص معنویت کی حامل ہیں، معروف شاعر ڈاکٹر کلیم احمدعاجز کی دعائیہ نظم ’’رات جی کھول کے پھرمیں نے دعا مانگی ہے‘‘ کی زمین میں کفیل صاحب کی بھی ایک طویل نظم ہے، جوآئینۂ دارالعلوم میں شائع ہوئی تھی، اس کے الفاظ، اسلوب، مشمولات، طرزِ اظہار واحساس میں بھی وہی نازکی، گدازوسوز پائے جاتے ہیں، جو کلیم عاجز صاحب کی نظم میں ہیں۔ بہر کیف کفیل صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور ہزاروں لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہوئے، خلوت نشینی و بے نیازی نے اس دنیا میں انھیں شہرت وناموری سے دور رکھا، مگر امیدِ قوی ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں ان کی جملہ خدمات وحسنات کا بہتر سے بہتر بدلہ مقدر ہوگا۔
(نایاب حسن)
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1307472445977012&id=120477478009854

Saturday, 11 March 2017

اذان کی برکات

ایس اے ساگر

مشہور سیاح علامہ ابن بطوطہ رحمةاللہ علیہ نے جزائر مالدیپ میں انسانی بلی چڑھائے جانے کے واقعے کو نقل کیا ہے۔ اس وقت ہندوحکمراں راجہ دھرم سانت نے بھی اسلام قبول کیا۔ مشہور مسلمان مورخ ابن بطوطہ بھی مالدیپ آئے اوریہاں بطورقاضی کام کرتے رہے۔اس سیاح اور مورخ کا مکمل نام ابوعبداللہ محمدا بن بطوطہ ہے جو مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوئے۔ ادب، تاریخ، اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعدانھوں نے محض اکیس سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس کے بعد شوق سیاحت نے انھیں افریقہ کے علاوہ روس سے ترکی پہنچا دیا۔ انھوں نے جزائر شرق الہند اور چین کی بھی سیاحت کی۔ عرب، ایران ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، اور ہندوستان کی سیر کی۔ چار بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے اور محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے تھے۔ سلطان نے ان کی بڑی آو بھگت کی اور قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا۔ یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔ 28 سال کی مدت میں انھوںنے 75ہزار میل کاسفر کیا۔ آخر میں فارس کے بادشاہ ابوحنان کی دربار میں آئے اور ان کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفارنی غرائب الدیار ہے۔ یہ کتاب مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔ابن بطوطہ کا سفرنامہ مالدیپ کے قدیم احوال کے بارے میں اولین تاریخی دستاویزشمار ہوتی ہے۔
اپنے سفرنامہ میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ جب وہ جزائر مالدیپ میں سیاحت کرتے ہوئے پہنچے تو دیکھا کہ تمام ملک اذان کی صداو¿ں سے گونج رہاہے اور ساری زمین سجدہ ہائے نماز کی کثرت سے ٹپی پڑی ہے۔ انہیں اس سے بہت تعجب ہواکہ کیوں کہ ان کے علم کے مطابق کوئی مسلمان اس میں فاتحانہ یا تاجرانہ حیثیت سے کبھی نہیں پہنچاتھا۔ انہوں نے وہاں کے لوگوں سے پوچھا کہ یہ دور دراز سرزمین اسلام کے نور سے کیسے روشن ہوئی؟وہاں کے اہل علم نے بتایاکہ عربوں کا کوئی تجارتی جہاز مشرقی اقصیٰ کی طرف جارہا تھا۔ یہ مشرقی جزائر کے قریب تھا کہ سمندر میں سخت طوفان آیا اور جہاز تباہ وبرباد ہوگیا۔ اس کے مسافروں میں سے ایک مسلم تاجر کسی تختہ پر بیٹھ کربچ گیا۔اللہ کے فضل سے ہمارے جزیرہ کے ساحل پر آلگا۔ یہ ایک مراکشی عرب تھا۔ چونکہ جزیرہ میں اس کا کوئی یارومددگار نہ تھا۔ اس لئے اس نے ایک بڑھیاکے گھر پناہ لی۔ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتاتھا اور انہیں فروخت کرتاتھا۔ ایک عرصہ تک اسی پر گزراوقات کرتا رہا۔ ایک دن جب یہ عرب گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ بڑھیا روپیٹ رہی ہے اور پاس ہی اس کی نوجوان لڑکی سر پیٹ رہی ہے۔
عرب نے پوچھا۔’یہ مصیبت کیسی ہے؟‘
بڑھیا نے جواب دیاکہ آج یہ میری اکلوتی بچی مرجائے گی۔ عرب نے پوچھا کہ کیسے مرجائے گی؟ یہ تو تندرست ہے اور عالم الغیب تو خدائے تعالیٰ ہی ہے۔‘ بڑھیا نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ سامنے دیکھو موت کھڑی ہے۔‘عرب نے حیرت زدہ ہوکر دیکھا تو فوجی سوار سامنے کھڑے تھے۔ اس نے حوصلہ مندی سے دریافت کیا کہ کیا یہ تمہاری لڑکی کو قتل کردیں گے؟‘بڑی بی نے کہا کہ یہ بات نہیں‘دراصل یہ سپاہی میری لڑکی کو لینے آئے ہیں کیونکہ ہمارے اس جزیرہ میں ہرمہینہ کی ایک مقررہ تاریخ کو ایک سمندری بلا نمودار ہوتی ہے جس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس جزیرہ والوں کی طرف سے ایک کنواری لڑکی اسی تاریخ کو غروب آفتاب کے بعد ایک مندر میں جو سمندر کے کنارے ہے پہنچادیتے ہیں۔ دوسری صبح کو جب حکومت کے آدمی ساحل سمندر پر جاتے ہیں تو وہ لڑکی مردہ ملتی ہے‘اور اس کا کنوارہ پن زائل شدہ۔ ہرسال قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاتاہے کہ کون لڑکی بھیجی جائے؟ ‘یہاں تک بیان کرکے بڑھیا زیادہ روئی اور کہنے لگی کہ اس مرتبہ قرعہ میری لڑکی کے نام نکلاہے جو میری اکلوتی بیٹی ہے اس وجہ سے ہم رورہے ہیں۔
جب عرب نے یہ دردناک کہانی سنی تو کہاکہ تسلی رکھو میں اس سمندر میں بلا یعنی خبیث جنات کا علاج میں جانتاہوں۔ آج رات میں خود اس سمندر میں جاوں گاتاکہ تمہاری اکلوتی لڑکی کی بجائے اپنی جان قربان کردوں۔ تم مجھے اپنی لڑکی کے زنانہ کپڑے پہنادو تاکہ کوئی شخص مجھے پہچان نہ سکے ۔مراکشی عرب ان لوگوں میں سے تھا جن کے ڈاڑھی مونچھ صفر کے برابر یابالکل نہیں ہوتی۔ بڑھیا نے عرب کی یہ تجویز منظور کرلی اور اسے زنانہ کپڑے پہنادئے۔ جب سپاہی آئے تو بڑھیا نے اس کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ جو اس کو مندر میں بٹھاکر چلے آئے۔ یہ عرب قرآن پاک کے حافظ تھے۔ان کا نام ابو البرکات تھا۔جب حکومت کے سپاہی دور چلے گئے تو انہوں نے نہایت اطمینان سے وضو کیا۔ عشاءکی نماز پڑھی پھر اپنے سامنے ننگی توار ڈال کر سمندر کی موجوں کودیکھنے لگے اور قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی۔
رات نہایت خوفناک ،اندھیرا چھایا ہوا اور جزائر مالدیپ کی ساری کائنات نیند کے سمندر میں غرق تھی۔ سوائے تین روحوں کے جن کی آنکھوں پر نیند کی لذت حرام تھی۔ ان میں سے ایک بہادر شیر دل عرب تھا جس کی آنکھوں میں پانی کا سمندر تھا اور سینہ میں ایمان کا سمندر دوسری غریب بڑھیا تھی جسے اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی پرشاد ہونا چاہئے تھا لیکن مراکشی غریب الوطن کی شہادت کا غم اس کے دل وجگر کو چھیلے ڈال رہا تھا۔ تیسری روح جزیرہ کی وہ معصوم لڑکی جس کو قرعہ حکومت نے موت اور ذلت کیلئے۔ مگر قسام ازل نے زندگی اور عزت کیلئے منتخب کرلیا تھا۔ وہ شریف اور بہادر عرب کے غم میں نڈھال تھی۔ اور روئے جاتی تھی۔
شریف اور بہادر مراکشی عرب نے دل کش آواز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی اور اسی عالم میں رات کے بارہ بج گئے۔ ناگہاں افق سمندر سے ایک جہاز جیسی عجیب خوفناک شکل نمودار ہوئی جس میں بے شمار خانے بنے ہوئے تھے۔ یہ شے آہستہ آہستہ کنارے کی طرف آئی اور مندر کے پاس آکر رک گئی۔ مراکشی غازی اپنی تلاوت میں مصروف رہا۔ نتیجہ یہ ہواکہ یہ خوفناک بلا آگے نہ بڑھ سکی اور تھوڑی دیر ٹھہر کر آہستہ آہستہ واپس چلی گئی۔ یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہوگئی۔
صبح کے وقت جب حکومت کے سپاہی ۔ لڑکی کی نعش لینے آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کوئی نعش موجود نہ تھی۔ لڑکی غائب اور اس کی بجائے ایک بہادر جواں مرد مسلمان موجود تھا سپاہی اس غازی اسلام کے پاس آئے اور اس کو راجہ کے پاس لے گئے۔ راجہ نے ساری داستان سنی اطمینان کیلئے جرح کی۔ پھر بڑھیا اور اس کی بیٹی کو بلایاجنہوں نے تمام واقعات کی تصدیق کردی شریف عرب نے راجہ کو بتایاکہ میرا یہ فعل شریعت اسلام کے مطابق اوربوڑھی خاتون کے احسان کا معمولی سا بدلہ ہے۔ راجہ’ معمولی‘ لفظ سے بے حد متاثر ہوا۔ پھرراجہ نے پوچھا تم اتنی بڑی بلاکے سامنے تن تنہا جاکھڑے ہوئے۔
مراکشی عرب نے کہاکہ میں اکیلا نہیں تھابلکہ میرا خدا میرے ساتھ تھا ۔‘
راجہ نے پوچھا کہ لیکن تم ڈرے کیوں نہیں؟ مجاہد عرب نے جواب دیا کہ مسلمان خداکے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘راجہ نے جوش سے کہا کہ اگر اس مرتبہ بھی تم اکیلے گئے اور سلامت واپس آگئے تو ہم سب اسلام کی صداقت کے سامنے سرتسلیم خم کردیں گے۔ تمام اہل دربارنے اس کی تائید کی۔ اس کے بعد جب دوسری تاریخ آئی تو بہادر عرب پھر مندر میں چلاگیا اور صحیح وسلامت واپس آگیا۔
اس مرتبہ کسی بلانے سمندر کا رخ نہیں کیا۔ جب راجہ اور اس کی رعیت کو یہ معلوم ہواکہ اس مسلمان کے فیض قدم سے اہل جزیرہ کو خوفناک سمندر ی بلا اور شیاطین سے ہمیشہ کیلئے نجات مل گئی ہے تو تمام ملک میں اسلام کی صداقت کا غلغلہ بلند ہوگیا۔ سب سے پہلے بڑھیا اور اس کی بیٹی مسلمان ہوئی اس کے بعد راجہ اور اس کے درباریوں نے اسلام قبول کیا اور پھر تمام جزائر میں لاالہ الااللہ، محمد الرسول اللہ کی دھوم مچ گئی۔اس طرح مالدیپ میں اسلام پہلی صدی ہجری میںعرب تاجروں کی وساطت سے آیا۔یہ واقعہ1314کا ہے۔ مالدیپ کے لوگ اسے اب تک ’روحانی انقلاب ‘ کے نام سے یادکرتے ہیں۔ اس وقت سے اب تک پرتگالیوں کے مختصراًعہداقتدار کے سوا مالدیپ اسلامی سلطنت چلی آر ہی ہے۔ مالدیپ کا شماربھی قدیم اسلامی سلطنت میںہوتاہے۔1581میں ان جزائر پرپرتگالیوں نے قبضہ کرلیا لیکن70ویں صدی میں دلندیزیوں کی نگرانی میں آگیا ‘جوسری لنکا کے بھی حاکم تھے۔1887 میں ایک معاہدے کے تحت برطانیہ براعظم پاک وہند کے ساتھ مالدیپ کا بھی حکمران تسلیم ہوا۔