مبیع وصول کرنے کے واسطے رہن رکھوانا کیسا ہے؟
براہ کرم رہنمائی فرمائیں
مفتی صاحب مبیع وصول کرنے کے واسطے رہن رکھوانا کیسا ہے؟
براہ کرم رہنمائی فرمائیں
جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے اس کو نہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے اور نہ کسی تصرف کا؛ کیوں کہ اگر اس کو استفادہ کا موقع دیا جائے تو قرض کے عوض مزید فائدہ اٹھانا ہوا، جس کی حدیث پاک میں ممانعت ہے۔
”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَہُوَ حَرَامٌ“۔
اب پہلی اور دوسری شکل کا حکم ملاحظہ ہو:
پہلی شکل یعنی راہن اور مرتہن دونوں مسلمان ہوں، تو ان کے لئے بالاتفاق شی ٴ مرہون سے انتفاع جائز نہیں۔ اور دوسری شکل یعنی راہن غیرمسلم اور مرتہن مسلمان ہو اور وہ اس کے شیٴ مرہون سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمت اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے؛ کیوں کہ ان حضرات کے پیش نظر دارالحرب میں حربیوں کے مال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؛ لیکن امام شافعی اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے نزدیک جائز نہیں، وَکَذٰلِکَ اِذَا تَبَایَعَا بَیْعاً فَاسِداً فیِ دَارِالْحَرْبِ فَھُوَ جَائِزٌ وَھٰذا عِندَ اَبیِ حَنِیفَةَ وَمُحمدٍ وَقَالَ اَبو یوسفَ وَالشافعیُ لایَجوزُ۔
اس مسئلہ میں گرچہ علماءِ ہند نے طرفین کی رائے کے مطابق جواز کا فتویٰ دیا ہے؛ لیکن چونکہ ہندوستان کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے کی بحث معرکة الآراء مسائل میں سے ہے، اس لئے حضرت قاضی مجاہدالاسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ احوط اور انسب یہ ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول کو اختیار کیا جائے (فتاویٰ امارت شرعیہ ج۱/ ص ۲۳۶)
بہرحال مرتہن کا مال مرہون سے فائدہ اٹھانا یا تو راہن کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے یاعرف ورواج کے اعتبار سے ہوگا، تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں۔ اجازتاً ممنوع اس لیے ہے کہ وہ نفع ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا، اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا۔
لاَ یَحِلُ لَہ اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنہ بِوَجْہٍ مِنَ الْوُجُوہِ اِنْ اَذِنَ لَہ الْرَّاھِنُ لانَّہ اَذِنَ لَہ فیِ الْرِبَوا (شامی ج۵/ ص۳۱۰)
اور عرفاً انتفاع اس لئے جائز نہیں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے اور جوحکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہے۔
وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاہ لَمَا اَعْطَاہ الْدَّرَاھِمَ وَھٰذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ لِاَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَھُوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ (شامی ج۵/ ص۳۱۱)
غرض فقہاء کرام کے نزدیک کسی بھی صورت میں مال مرہون سے فائدہ اٹھانا ربو اور سود ہے؛ اس لئے رہن کی اشیاء سے مرتہن کے لئے مطلقاً انتفاع جائز نہ ہوگا۔ (امدادالفتاوی ج۳/ ص۴۶۰۔ فتاوی رشیدیہ ص۵۲۰۔ جدید فقہی مسائل ج۱/ ص۲۵۷)
اب اگر مرتہن شیٴ مرہون مثلاً زمین سے غلہ پیدا کرکے سالہا سال کھا تا رہا اور اس میں سے مالک زمین کو کچھ بھی نہ دیا، تو بوقت ادائیگیِ دَین راہن اور مرتہن کو کیا طریقہ اپنانا چاہئے جو شرعاً قابلِ مواخذہ نہ ہو، تو اس کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ راہن مکمل قرض واپس کرے اور مرتہن زمین والے کی زمین کے ساتھ اس سے حاصل ہونے والی زیادتی بھی واپس کرے؛ کیوں کہ یہ نفع جو اس نے زمین سے حاصل کیا ہے وہ شرعاً مالک زمین کی امانت ہے اور امانت کا لوٹانا ضروری ہے، اگر نہ لوٹائے گا تو وہ سود ہوگا جوکہ حرام ہے۔
بصورتِ دیگر مرتہن اگر زمین سے حاصل شدہ زیادتی کو واپس کرنا نہیں چاہتا، تو پھر قرض کی مقدار اور حاصل شدہ زیادتی دونوں کا موازنہ اور مقابلہ کیا جائے گا، اگر وہ نفع جو مرتہن نے راہن کی زمین سے اٹھایا ہے، اس کے قرض کی مقدار کے برابر ہوجائے تو راہن سے دین ساقط ہوجائے گا، یعنی مرتہن اب راہن کی صرف زمین واپس کردے، راہن پرنہ دین کی ادائیگی لازم ہوگی اور نہ مرتہن پر حاصل شدہ زیادتی کی واپسی؛ کیوں کہ مرتہن نے اپنے قرض کے برابر اس کی زمین سے فائدہ حاصل کرلیا ہے۔
اور اگر حاصل شدہ زیادتی قرض کی مقدار سے زیادہ ہے، مثلا قرض دس ہزار روپے تھا اور حاصل شدہ زیادتی کی مقدار پندرہ ہزار کو پہنچ گئی، تو مرتہن زمین کے ساتھ پانچ ہزار روپے جو زائد ہے راہن کو واپس کرے گا۔ اور اگر حاصل شدہ زیادتی کی مقدار قرض کی مقدار سے کم ہے، مثلا پانچ ہزار کے بقدر اس نے نفع حاصل کیا، تو اب مرتہن اپنے قرض میں سے راہن سے صرف پانچ ہزار واپس لے گا اور اس کی زمین واپس کردے گا۔ الغرض مقدارِ نفع کی کمی یا زیادتی کی صورت میں منہا والی شکل اختیار کرنی پڑے گی جو ابھی بالتفصیل اوپر بیان کی گئی ہے۔ (فتاوی رشیدیہ ص۵۲۰۔ فتاوی محمودیہ ج۱۳/ ص۳۸۳)
http://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_76.html?m=1
No comments:
Post a Comment